اگر اردو کو تعلیمی زبان قرار دے دیا جائے تو محنت آدھی

ش

شہزاد احمد

مہمان
اگر متبادل لفظ نامانوس ہو جیسا کہ آپ نے ابھی کہا ہے، تو پھر اس سے ثابت ہوا کہ وہ آپکی اپنی زبان کا نہیں۔۔۔ تو عربی فارسی یا ہندی کا نامانوس لفظ لانے سے بہتر ہوگا کہ انگریزی کا ہی استعمال کرلیں۔۔۔ یعنی قرع انبیق اور ضربِ چلیپائی جیسے الفاظ ایجاد کرنے کی بجائے اصل اصطلاح جوں کی توں ہی استعمال کرلیں تو اردو کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔۔۔ البتہ پڑھنے والوں کو دہری مشقّت سے بچایا جاسکتا ہے
اگر اسے کج بحثی پر محمول نہ کیا جائے تو میں اب بھی یہ کہوں گا کہ "قرع انبیق" بھی کچھ ایسا مشکل نہیں ہے ۔۔۔ لیکن اگر متبادل کے طور پر دے دیا جائے انگریزی اصطلاح کے ساتھ تو اس میں آخر حرج ہی کیا ہے؟ ۔۔۔ یہ حکومتی سطح کا کام ہے ویسے ۔۔۔ ظاہری بات ہے کہ اگر حکومت نے اس سلسلے میں جلد توجہ نہ دی تو نسبتاََ معقول متبادل اصطلاعات بھی "ضربِ چلیپائی" بن جائیں گی ۔۔۔
 

ساجد

محفلین
جناب! کوئی بھی لفظ تبھی رائج ہو گا جب ہم اسے رواج دیں گے ۔۔۔ اگر ہم یہی سوچتے رہے کہ یہ لفظ مشکل اور نامانوس ہے ۔۔۔ کیسے چلے گا؟ تو یہ انتہائی غلط سوچ ہے ۔۔۔ انتہائی معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ کوئی بھی لفظ "نامانوس" نہیں ہوتا ہے ۔۔۔ وقت کے ساتھ ننانوے فیصد الفاظ رائج ہو ہی جاتے ہیں ۔۔۔ متبادل الفاظ اصل اصطلاحات کے ساتھ دیے جائیں اور ایک عرصہ تک یہ مشق کی جائے تو یقین جانیے کہ یہ لفظ رواج پا جائیں گے ۔۔۔ اور ایسا ہی ہوتا آیا ہے ۔۔۔ علوم و فنون کی منتقلی اسی طرح ہوتی ہے ۔۔۔ دوسری زبانوں میں ۔۔۔ تحقیق ایک دن میں تو "خانہ زاد" ہونے سے رہی پیارے بھیا! وقت تو لگتا ہے ناں!
برادر محترم ، میں جذباتی طور پر آپ سے متفق ہوں لیکن حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ ہمارے اندر اپنی زبان کے حوالے سے ایک احساس کمتری موجود ہے جو عوامی اور سرکاری سطح پر ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ جب کسی دفتر میں آپ کا کام پھنس جائے تو رشوت کی جگہ کبھی کبھار انگریزی بولنے سے بھی کام نکل آتا ہے۔ یعنی آپ اس باؤ کے اپنی قومی و مقامی زبان میں ترلے کر لیں وہ نہیں مانے گا لیکن انگریزی اس کے دل کا تزکیہ کر دیتی ہے۔ میں نے خود کئی بار دوران سفر انگریزی کے بل پر ریلوے ٹرین میں ٹانگیں پسارے ضدی مسافروں سے سیٹ خالی کروا کر انگریز کے درجات بلند کئے ہیں:) ۔ ایسے میں اپنی زبان کو سائنس کی نزاکتوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے بہت کام اور اس سے بھی زیادہ سرکاری سر پرستی کی ضرورت ہے جس کی امید فی الحال تونہیں ہے۔
ابھی تو اردو کا وہ تناسب بھی نہیں ہے جو ہمارے زمانہ طالبعلمی میں تھا ۔ اس میں بڑی تیزی سے مزید گراوٹ آ رہی ہے۔ پہلے ہم اسے عوامی سطح پر فروغ دیں گے تو یہ کتابی سطح کے مدارج طے کرے گی۔
 

رابطہ

محفلین
برادر محترم ، میں جذباتی طور پر آپ سے متفق ہوں لیکن حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ ہمارے اندر اپنی زبان کے حوالے سے ایک احساس کمتری موجود ہے جو عوامی اور سرکاری سطح پر ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ جب کسی دفتر میں آپ کا کام پھنس جائے تو رشوت کی جگہ کبھی کبھار انگریزی بولنے سے بھی کام نکل آتا ہے۔ یعنی آپ اس باؤ کے اپنی قومی و مقامی زبان میں ترلے کر لیں وہ نہیں مانے گا لیکن انگریزی اس کے دل کا تزکیہ کر دیتی ہے۔ میں نے خود کئی بار دوران سفر انگریزی کے بل پر ریلوے ٹرین میں ٹانگیں پسارے ضدی مسافروں سے سیٹ خالی کروا کر انگریز کے درجات بلند کئے ہیں:) ۔ ایسے میں اپنی زبان کو سائنس کی نزاکتوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے بہت کام اور اس سے بھی زیادہ سرکاری سر پرستی کی ضرورت ہے جس کی امید فی الحال تونہیں ہے۔
ابھی تو اردو کا وہ تناسب بھی نہیں ہے جو ہمارے زمانہ طالبعلمی میں تھا ۔ اس میں بڑی تیزی سے مزید گراوٹ آ رہی ہے۔ پہلے ہم اسے عوامی سطح پر فروغ دیں گے تو یہ کتابی سطح کے مدارج طے کرے گی۔
یہ احساس کم تری اسی وقت ختم ہوگا جب حکم راں طبقہ قومی زبان کو استعمال کرنے میں اپنی توہین نہ سمجھے اور تمام کاروبارِ سرکار اردو ہی میں ہو تو کوئی انگریزی کو پوچھے گا بھی نہیں۔ کوئی بھی اچھائی یا برائی ہمیشہ اوپر سے شروع ہوتی ہے۔ عوام اس کی پیروی کرتے ہیں۔ جب ہندوستان میں سرکاری زبان فارسی تھی تو عوام کے لیے فارسی نامانوس زبان نہ تھی۔
آپ نے بجا فرمایا کہ اردو کی سرکاری سرپرستی نفاذ اردو کے لیے پہلا قدم ہے۔ کیوں کہ ادارے اور وسائل اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے موجود ہیں۔
 

انتہا

محفلین
آج یہ دھاگہ دوبارہ کھل گیا تو سوچا اس پر کچھ مزید بات کی جائے۔ میں چوں کہ خود بھی ایک تعلیمی نظام کا حصہ ہوں اس لیے میں بھی اس طرح کی الجھنوں کا شکار ہوتا رہتا ہوں:
1 کیا اپنی زبان میں تعلیم دیے بغیر ہم ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں؟
2 کیا اپنی زبان میں تعلیم نہ دینے کی وجہ سے ہم اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد سے محروم ہو جاتے ہیں؟
3 انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی وجہ سے ہم ترقی یافتہ قوم بنا رہے ہیں یا افراد؟
4 آخر یہ افراد جو اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیتے ہیں، وہ اپنا روشن مستقبل اسی ملک میں کیوں سمجھتے ہیں جس ملک کی زبان میں انھوں نے تعلیم حاصل کی ہوتی ہے؟
5 گزشتہ کتنے سالوں سے انگریزی کو ذریعہ تعلیم قرار دیتے ہوئے ترقی یافتہ قوموں کی دوڑ میں شامل ہونے کی کوشش ہو رہی ہے، لیکن کیا ہم ابھی تک ترقی پذیر قوموں کی صف میں بھی شامل ہو سکے ہیں؟
 

محمد امین

لائبریرین
میں پاکستان میں گزشتہ 5 برسوں سے انجینئرنگ کی تدریس سے وابسطہ ہوں۔ انگریزی میں تدریس تو بھول ہی جائیں، اردو ہی میں کہا ہوا بچوں کو سمجھ نہیں آتا۔ بات ووکیبلری یا اصطلاحات کی بھی نہیں ہے، بات ہے سادہ سی زبان میں کہے گئے جملے کو سمجھنے کی یا اپنے خیال کو جملے میں ڈھالنے کی۔ ہمارے بچوں کی زبان دانی بہت کمزور ہے، چاہے وہ انگریزی ہو یا اردو۔ اور زبان کا تعلیم کے ساتھ راست تناسب ہے۔ معلم کا کہا ہوا درست طریقے سے سمجھنا، کتاب یا نوٹس میں لکھا ہوا سمجھنا، پھر اس سب سے دماغ میں جو کونسپٹ بن گیا ہے اس کو امتحان میں یا اسائنمنٹ میں اپنے الفاظ میں ایسے لکھنا کہ معلم کو سمجھ میں بھی آجائے، ہمارے بچے اس سب میں بہت کمزور ہیں۔ اسکی بنیادی وجوہات میں سے ایک زبان پر دسترس نہ ہونا ہے۔

تو فقط اردو کو تعلیمی زبان قرار دینے سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ 90 فیصد اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں پہلے ہی اردو میں بات چیت اور تدریس ہوتی ہے۔ صرف کتب انگریزی میں ہیں۔ ضرورت ہے بچوں کی لکھنے، پڑھنے، سننے اور کتاب کی مدد سے سیکھنے کی استعداد بڑھانے کی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیا صرف تعلیم کی زبان بدل کر کوئی بھی ملک ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے؟

کیا کوئی ایسی مثال موجود ہے؟

دوسری جنگِ عظیم کے بعد جن ملکوں نے صحیح معنوں میں ترقی کی ہے اور ان کی تعلیم بھی ان کی قومی یا مادری یا علاقائی زبان میں تھی، کیا اُن کی ترقی کی وجہ صرف یہی ہےکہ ان کی تعلیم ان کی قومی زبان میں تھی؟
 

فرقان احمد

محفلین
مجھے تو یہ منطق سمجھ نہیں آتی ہے کہ آخر سائنسی اصطلاحات کو انگریزی زبان میں رکھنے میں کیا حرج ہے؟ غالباً، ان اصطلاحات کا اردو میں ترجمہ بھی نہیں کیا جانا چاہیے؛ ان اصطلاحات کی نقل حرفی کر لی جائے یعنی انہیں ٹرانسلیٹریٹ کر لیا جائے اور آگے پیچھے اردو لکھ لی جائے تو اس میں کیا امر مانع ہے؟ یعنی کہ، مضمون اردو زبان میں ہو، اصطلاحات انگریزی زبان میں ہوں تاہم ان کی نقل حرفی کی جائے اور اسی طرح لیکچر اردو زبان میں ہی رہے تاکہ ابلاغ میں آسانی پیدا ہو۔
 
Top