کرتار پور صاحب

ربیع م

محفلین
کرتار پور صاحب

پچھلے ہفتے یوں ہی چلتے چلتے نارووال جانے کا اتفاق ہوا تو کرتار پور صاحب دیکھنے کا بھی موقع ملا ۔
کرتار پور صاحب سکھ مذہب کے بانی گرونانک صاحب کی جائے وفات ہے ۔یہ نارووال سے شکرگڑھ جانے والی سڑک کے قریب واقع ہے ۔ یہاں انھوں نے اپنی زندگی کے 18 سال گزارےاور یہیں ان کی سمادھی موجود ہے ۔

حالیہ عمارت کی تعمیر 1929 میں مکمل ہوئی۔
باہر سے کرتار پور صاحب کا منظر:
 
مدیر کی آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
داخلی دروازہ:


داخل ہوتے ہی دائیں جانب قبر دکھائی دیتی ہے۔
ہمارے ساتھ موجود سکھ رہبر نے بتایا کہ جب گرونانک صاحب کی وفات ہوئی تو ان کے عقیدت مندوں میں سکھ اور مسلمان دونوں شامل تھے ، مسلمان انھیں اپنے طریقے کے مطابق دفن کرنا چاہتے تھے جبکہ سکھ اپنے طریقے کے مطابق نذر آتش کرنا چاہتے تھے ۔ اس دوران جب ان کے جسد سے چادر اٹھائی گئی تو نیچے صرف پھول پڑے تھے اور جسم غائب تھا۔ چنانچہ اس چادر کا آدھا حصہ اور آدھے پھول مسلمانوں نے دفن کئے اور باقی آدھی چادر اور آدھے پھول سکھوں نے نذر آتش کئے !

مدفن:


سمادھی:

 

ربیع م

محفلین
پہلی منزل پر جائے عبادت:
یہاں ہر روز صبح شام سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب پڑھی جاتی ہے ۔




عبادت کے کمرے میں داخل ہونے والے دروازے پر گورمکھی میں لکھی ہوئی عبارت:
جس کا مطلب رہبر نے یہ بتایا کہ اللہ ایک ہے ۔


یہاں سے انڈیا کا بارڈر سامنے ہی دکھائی دے رہا تھا۔ بتایا گیا کہ سامنے انڈین سکھوں کیلئے جو یہاں پاکستان نہیں آسکتے ایک جگہ تعمیر کی گئی ہے اور وہ وہاں سے اس کی زیارت کرتے ہیں ۔

 

ربیع م

محفلین
دوسری منزل پر گرنتھ صاحب کے رکھنے کی جگہ :
سکھ مذہب میں گرنتھ صاحب کو ایک الگ مخصوص کمرے میں رکھا جاتا جہاں سے نکال کر اس کی صبح شام عبادت کی جاتی ہے ۔



 

ربیع م

محفلین
مسلم کیسے کسی غیر مذہب کے بانی کے پرستار ہوسکتے ہیں ۔ جلادیا ہوگا سکھوں نے
دروغ برگردن رہبر!
غیر سکھ کا داخلہ ممنوع ہے؟ لوگ اندر جاتے ہیں؟ یا فقط عبادت کے لیے مخصوص ہے۔
سبھی لوگ آ جا سکتے ہیں۔
 

ربیع م

محفلین
گرنتھ صاحب کس زبان میں ہے؟ گورمکھی یا فارسی؟
اقتباس از وکی پیڈیا:

گرو گرنتھ صاحب میں بہت سی زبانوں کا استعمال کیا گیا ہے جن میں پنجابی، ملتانی یا سرائیکی کے علاوہ فارسی، پراکرت، ہندی اور مراٹھی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے بنیادی فہم کے لیے ہندی پنجابی کے علاوہ فارسی کی جانکاری لازمی ہے۔/QUOTE]
 

ربیع م

محفلین
الحمدللہ
لوکل لینگویجز ہیں
فارسی تو عربک رسم الخط میں ہوتی ہے۔
اسکا کیا رسم الخط ہے
یوں تو گرو گرنتھ صاحب گورمکھی رسم الخط میں لکھا گیا ہے اور اس کے مذہب کے ماننے والے اس رسم الخط میں پڑھتے ہیں لیکن تقسیم پنجاب سے پہلے اس کے بہت سے حصوں (مثلاّ جپ جی کا) کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا تھا۔ پرانے فارسی رسم الخط میں بھی پورا گرو گرنتھ صاحب لدھیانہ سے شائع کیا گیا تھا جو کچھ سال پہلے تک دستیاب تھا۔(چند سال پیشتر مکمل کلام نانک مع معنی اور تفسیر لاہور سے شائع ہوا اور دستیاب ہے۔)

وکی پیڈیا
 
یوں تو گرو گرنتھ صاحب گورمکھی رسم الخط میں لکھا گیا ہے اور اس کے مذہب کے ماننے والے اس رسم الخط میں پڑھتے ہیں لیکن تقسیم پنجاب سے پہلے اس کے بہت سے حصوں (مثلاّ جپ جی کا) کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا تھا۔ پرانے فارسی رسم الخط میں بھی پورا گرو گرنتھ صاحب لدھیانہ سے شائع کیا گیا تھا جو کچھ سال پہلے تک دستیاب تھا۔(چند سال پیشتر مکمل کلام نانک مع معنی اور تفسیر لاہور سے شائع ہوا اور دستیاب ہے۔)

وکی پیڈیا

زبردست
اصل کتاب گودمکھی میں ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
یوں تو گرو گرنتھ صاحب گورمکھی رسم الخط میں لکھا گیا ہے اور اس کے مذہب کے ماننے والے اس رسم الخط میں پڑھتے ہیں لیکن تقسیم پنجاب سے پہلے اس کے بہت سے حصوں (مثلاّ جپ جی کا) کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا تھا۔ پرانے فارسی رسم الخط میں بھی پورا گرو گرنتھ صاحب لدھیانہ سے شائع کیا گیا تھا جو کچھ سال پہلے تک دستیاب تھا۔(چند سال پیشتر مکمل کلام نانک مع معنی اور تفسیر لاہور سے شائع ہوا اور دستیاب ہے۔)

وکی پیڈیا
فارسی اُس دور کی علمی و ادبی زبان تھی اور ہر صاحبِ علم فارسی کا عالم بھی ہوتا تھا۔ سکھوں کے دسویں اور آخری گرو، گرو گوبند سنگھ صاحب نے اورنگ زیب عالمگیر کو ایک خط لکھا تھا "ظفر نامہ" یہ منظوم فارسی میں ہے یعنی شاعری ہے۔ سکھوں کے مذہبی لٹریچر میں اس ظفر نامہ کا بھی خاص مقام ہے اور اس کو کماحقہ سمجھنے کے لیے سکھ عالم اب بھی فارسی سیکھتے ہیں۔
 
فارسی اُس دور کی علمی و ادبی زبان تھی اور ہر صاحبِ علم فارسی کا عالم بھی ہوتا تھا۔ سکھوں کے دسویں اور آخری گرو، گرو گوبند سنگھ صاحب نے اورنگ زیب عالمگیر کو ایک خط لکھا تھا "ظفر نامہ" یہ منظوم فارسی میں ہے یعنی شاعری ہے۔ سکھوں کے مذہبی لٹریچر میں اس ظفر نامہ کا بھی خاص مقام ہے اور اس کو کماحقہ سمجھنے کے لیے سکھ عالم اب بھی فارسی سیکھتے ہیں۔

فارسی اس وقت دفتری زبان تھی۔ مغلوں کو سکھ پنجابی میں نہیں لکھ سکتے تھے۔ مگر سکھ مذہب کی زبان گورمکھی ہی میں ہے۔ یہی ہنجابی کا رسم الخط اج تک رہا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
فارسی اس وقت دفتری زبان تھی۔ مغلوں کو سکھ پنجابی میں نہیں لکھ سکتے تھے۔ مگر سکھ مذہب کی زبان گورمکھی ہی میں ہے۔ یہی ہنجابی کا رسم الخط اج تک رہا ہے
گرنتھ صاحب تو مغلوں کے لیے نہیں لکھی گئی تھی؟ فارسی تو اُس میں بھی ہے۔ درست ہے کہ فارسی اس وقت سرکاری دفتری زبان تھی لیکن علم و ادب کی زبان بھی تھی، یہ جو اتنے ہندو اور سکھ فارسی گو شاعر گذرے ہیں وہ صرف بادشاہوں کو سنانے کے لیے نہیں لکھتے تھے۔

سلاما
 
گرنتھ صاحب تو مغلوں کے لیے نہیں لکھی گئی تھی؟ فارسی تو اُس میں بھی ہے۔ درست ہے کہ فارسی اس وقت سرکاری دفتری زبان تھی لیکن علم و ادب کی زبان بھی تھی، یہ جو اتنے ہندو اور سکھ فارسی گو شاعر گذرے ہیں وہ صرف بادشاہوں کو سننے کے لیے نہیں لکھتے تھے۔

سلاما

درست
شاعر عموما دربار سے مشاہرے حاصل کرتے تھے اس لیے ان کی مجبوری تھی۔ انگریز نے عربی فارسی ختم کرنے کے لیے اردو کو فروغ دیا۔
 
Top