مرثیہ معتمد بن عباد

ربیع م

محفلین
معتمد بن عباد نے اپنی موت کے قریب اپنامرثیہ خود کہا اور وصیت کی کہ یہ اس کی قبر پر لکھا جائے:

قَبر الغَريب سَقاكَ الرائِحُ الغادي
حَقّاً ظَفَرتَ بِأَشلاء ابن عَبّادِ
بِالحِلمِ بالعِلمِ بِالنُعمى إِذِ اِتّصلَت
بِالخَصبِ إِن أَجدَبوا بالري لِلصادي
بالطاعِن الضارِب الرامي إِذا اِقتَتَلوا
بِالمَوتِ أَحمَرَ بالضرغمِ العادي
بالدَهر في نِقَم بِالبَحر في نِعَمٍ
بِالبَدرِ في ظُلمٍ بِالصَدرِ في النادي
نَعَم هُوَ الحَقُّ وَافاني بِهِ قَدَرٌ
مِنَ السَماءِ فَوافاني لِميعادِ
وَلَم أَكُن قَبلَ ذاكَ النَعشِ أَعلَمُهُ
أَنَّ الجِبال تَهادى فَوقَ أَعوادِ
كَفاكَ فارفُق بِما اِستودِعتَ مِن كَرَمٍ
رَوّاكَ كُلُّ قَطوب البَرق رَعّادِ
يَبكي أَخاهُ الَّذي غَيَّبتَ وابِلَهُ
تَحتَ الصَفيحِ بِدَمعٍ رائِح غادي
حَتّى يَجودَكَ دَمعُ الطَلّ مُنهَمِراً
مِن أَعيُن الزَهرِ لم تَبخَل بِإِسعادِ
وَلا تَزالُ صَلاةُ اللَهِ دائِمَةً
عَلى دَفينكَ لا تُحصى بِتعدادِ

اجنبی کی قبر تجھے صبح و شام کی بدلی سیراب کرے
واقعتا تو نے ابن عباد کے جسم کے ٹکڑوں کو پا لیا
ایسا شخص تھا جو حلم علم اور احسان کا مجموعہ تھا
اگر لوگ قحط سالی میں مبتلا ہوتے تو وہ فراخ سالی تھا اور پیاسے کیلئے سیرابی تھا
جب جنگ کا وقت آتا وہ نیزہ باز تلوار کا دھنی اور تیرانداز تھا سرخ موت اور سرکش شیر
انتقام میں دہر اور انعام میں بحر تاریکی میں بدراور مجلس میں صدر تھا
ہاں یہ موت برحق ہے اور تقدیر کے مطابق ناگہانی مجھ پر آ پڑی اور وقت مقررہ پر مجھے پا لیا
اور مجھے اس تابوت سے قبل علم نا تھا کہ پہاڑ لکڑیوں پر اٹھا لائے جاتے ہیں.
تیرے لئے یہی کافی ہے پس اب تو اپنے آپ میں ودیعت کردہ کرم مجسم کے ساتھ نرمی کر
اپنے بھائی کو وہ بجلی صبح و شام روتی ہے جس کی بارش کو تو نے پتھر کی چٹان تلے چھپا لیا
جب تلک شبنم کے آنسو پھولوں کی آنکھوں سے ٹپکتے رہیں گے تیری سعادت مندی میں کمی نا آئے گی
اور اللہ کی لا تعداد رحمتیں تیرے مدفون پر نازل ہوتی رہیں گی
 

ربیع م

محفلین
زبردست
بدر بھائی، معتمد بن عباد کا مختصر تعارف بھی لکھ دیجیے اگر ممکن ہے تو۔
فی الحال تو یہاں سے نقل کردہ کچھ اس تعارف پر گزارہ کیجئے!

ابوالقاسم محمد بن عبّاد المعتمدعلی اللہ (متوفی 488ھ/ 1095ء) اپنے باپ المعتضد باللہ کے بعد اشبیلیہ اور قرطبہ کا فرماں روا ہوا ۔ وہ طبعا شاعر آدمی تھا اور اس پائے کا کہ بقول ابن الابّار" لم یک فی ملوک الاندلس قبلہ اشعر منہ" " شاہان اندلس میں اس سے پہلے اس سے بہتر شاعرکوئی نہ تھا "
معتمد کی کمزوریاں وہی تھیں جو عموما شعراء میں ہوتی ہیں اور یہی غالبا اس کے زوال کا سبب بھی بنیں ۔ لیکن اس کی فطرت بلند تھی ۔ وہ نہایت سخی بھی تھا اورشجاع بھی ۔ جب کبھی میدان جنگ میں تلوار اٹھانے کا موقع آیا اس نے پامردی کی مثال قائم کی۔ حریر وپرنیاں کے ساتھ سیرتِ فولاد کا یہ امتزاج ایک دل کش امتزاج تھا ۔ چنانچہ معتمد کی شخصیت خاصی ہر دلعزیز شخصیت تھی ۔ شعر کا ذوق اسے ورثے میں ملا تھا ۔ بچپن ہی میں مؤذن کی اذان سن کر اس نے ارتجالا کہا تھا:
هذا الموذن قد بدا باذانه
يرجو الرضا والعفو من رحمانه
طوبي له من ناطق بحقيقة
ان كان عقد ضميره كلسانه

یہ موذن جو اپنی اذان کے ساتھ سامنے آیا ہے
اپنے ربِ رحیم کی خوشنودی و مغفرت کا طالب ہے
یہ شاد وآباد رہے اس کی زبان سے بڑے سچے الفاظ نکل رہے ہیں
بشرطیکہ اس کے ضمیر کی تہوں میں بھی وہی کچھ ہو جو اس زبان پر ہے ۔
معتمد کے شب وروز ، حسن وشباب ، صراحی وکتاب ، اور ندیمان باذوق و حاضروجواب سے عبارت تھے ۔ ایک روز دریا کی سیر کرتے ہوئے معتمد نے سطح آپ پر ہوا سے پیدا ہونے والے تموّج کو دیکھا تو برجستہ یہ مصرع کہا:
صَنَعَ الريحُ من الماءِ زَرَد

ہوا نے پانی پر زرہ سی بُن دی ہے
اس کا شاعر وزیر ابن عماّر بھی ہمراہ تھا ۔ معتمد نے اس سے فرمائش کی کہ گرہ لگائے ۔ ابن عمار نے بہت دماغ لڑایا مگر طبیعت نے راہ نہ دی ایک عورت قریب ہی کہیں بیٹھی کپڑے دھو رہی تھی اس نے وہیں سے جواب دیا:
أَيُّ درعٍ لقتالٍ لو جمدْ
کاش یہ یہیں جم جائے تو جنگ کیلئے کیا خوب زرہ ثابت ہو
معتمد چونکا اور پہلی ہی نظر میں سو جان سے اس پر عاشق ہو گیا۔ یہ خاتون "رُ میکیّہ " اس کی چہیتی ملکہ بنی اور اسے ہمیشہ معتمد کے دل ودماغ پر وہی تصرف حاصل رہا جو نور جہاں کو جہاں گیر پر حاصل تھا۔ رمیکیہ کا اصل نام " اعتماد " تھا ( یہ بھی کہا جاتا ہے کہ معتمد نے اپنا لقب اسی کے نام سے اخذ کیا ) اعتماد کی نازبرداریوں کے سلسلے میں معتمد کے بعض عجیب واقعات منقول ہیں ۔ مثلا یہ کہ ایک موقع پر اعتماد نے اشبیلیہ میں کچھ دودھ بیچنے والی بدو عورتوں کو دیکھا کہ مشکیزوں میں دودھ بھرے پنڈلیوں تک پائنچے اکسائے ، کیچڑ میں چل رہی ہیں ۔ اس پر اس نے اس عجیب وغریب خواہش کا اظہار کیا کہ میں اپنی خواصوں کے جلو میں اسی طرح چلنا چاہتی ہوں ۔
معتمد نے کافور اور مشک و عنبر کے ڈھیر عرق گلاب میں گندھوائے اور یہ " گارا" محل میں بچھا دیا گیا ۔ پھر ابریشم کی ڈوریاں اور مشکیزے تیار کئے گئے اور اعتماد اور اس کی خواصوں نے اس " گارے " میں چل کر یہ خواہش پوری کی ۔
اس دور میں معتمد کا کلام انہی آسائشوں کے گرد گھومتا تھا ۔ مثالیں اس کے دیوان میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ مگر اسے معلوم نہ تھا کہ کیا کیا سنگینیاں ان رنگینیوں کی گھات میں ہیں ۔ اسی زمانے میں عیسائی قوتوں نے Alfonso کی سربراہی میں خود کو مجتمع کر لیا اور مسلمانوں کی طوائف الملکوکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو دبا لیا ۔ بعض حالات ۔ جن کی تفصیل میں جانا باعث طوالت ہو گا ۔ ایسے پیش آئے کہ معتمد اس بات پر مجبور ہو گیا کہ مراکش میں مرابطین کے طاقتور سربراہ یوسف بن تاشفین سے مدد چاہے ۔ اس کے خیرخواہوں نے اسے اس اقدام سے باز رکھنے کی کوشش بھی کی لیکن اس کا جواب - جو کہ اس کی حمیت اسلامی کا آئینہ دار ہے – یہ تھا کہ رعی الجمال خیر من رعی الخنازیر " اونٹوں کا چرواہا بننا ( یعنی یوسف بن تاشفین کی غلامی ) سؤروں کا چرواہا بننے سے ( یعنی عیسائیوں کی غلامی )سے بہتر ہے ۔ علاوہ ازیں اس سلسلے میں غالبا مذہبی علماء و فقہاء کا دباؤ اس وقت اتنا زیادہ تھا کہ معتمد کے لئے اس رائے سے اختلاف شاید ممکن بھی نہ رہا ہو۔

بہرحال یوسف بن تاشفین اندلس آیا اور زلّاقہ کی جنگ میں الفانسو کو عبرت ناک شکست دے کر اس نے اندلس پر عیسائی تسلط کے امکانات کو کئی صدیاں پیچھے دھکیل دیا ۔ اس بار وہ اندلس کی پارہ پارہ حکومتیں جوں کی توں ان کے حکمرانوں کو سونپ کر واپس چلا گیا لیکن افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں کے مقابلے میں اندلس کے شاداب علاقوں کی کشش نیز بعض مصاحبوں کے اکسانے نے اسے دوسری بار اس عزم کے ساتھ اندلس کا رخ کرنے کی تحریک فراہم کی کہ وہ ان سب کمزور مسلمان حکمرانوں کو اندلس کی بساط سے ہٹا کر خود وہاں ایک مضبوط حکومت قائم کرے ۔ چنانچہ اس بار وہ ایک فاتح کی حیثیت سے آیا اور خود معتمد کو اس سے جنگ کرنا پڑی ۔ اس جنگ میں معتمد کی پامردی و بے جگری تاریخ کے صفحات میں یادگار ہے ۔ لیکن مقدر کا لکھا یہی تھا کہ اس کی تیغ دودم اب اس کی زنجیر بن جائے ۔ یوسف بن تاشفین نے اس کی جاں بخشی ضرور کردی لیکن اسے پابجولاں طنجہ لے گیا ۔ جب اسے اور اس کے اہل خانہ کو سفینے میں سوار کیا جارہاتھا ، اس کے محب کنارے پر کھڑے زاروقطار رو رہے تھے ۔ بالآخر اسے اغمات کے قید خانے میں ڈال دیا گیا جہاں سے نکلنا اس کے نصیب میں نہ تھا ۔ سیاسی کشمکش کے دوران میں تین بیٹوں کاداغ معتمد کے سینے پر پہلے سے تھا ۔ اب اس کا بیٹا ابوہاشم ، چہیتی ملکہ اعتماد اور اس کی بچیاں در در کی ٹھوکریں کھانے کیلئے رہ گئیں ۔ نازونعم کی پلی ہوئی یہ شہزادیاں اب اجرت پر لوگوں کیلئے سوت کاتتی تھیں ۔
قید خانے میں معتمد نے جو شاعری کی وہ فنی اعتبار سے اس کی بلند ترین تخلیقات سے عبارت ہے کیونکہ ذاتی احساس کی وہ کسک اس شاعری کی جان ہے جس کے فقدان کا شکوہ اندلسی شاعری کے بعض ناقدین کو رہا ہے ۔ ماضی کی بہار اور حال کے خارزار کا موازنہ اس کے نازک دل پر کیا کیا قیامت برپا نہ کرتا ہوگا۔ ایک موقع پر اس نے کہا:
تَبدلتُ مِن عزِّ ظلِّ البُنودِ
بذُلِّ الحَديدِ وَثِقَل القُيود
وَكانَ حَديدي سناناً ذَليقاً
وَعضبا دَقيقاً صَقيل الحَديد
فَقَد صارَ ذاكَ وَذا أَدهَما
يَعُضُّ بِساقيَّ عَضَّ الأُسود
پرچموں کے سائے کی عزت کے عوض
مجھے لوہے کی ذلت اور بیڑیوں کی گرانی نصیب ہوئی
لوہا میرے لئے نیزے کی تیز انی
اور باریک ، صیقل شدہ دھاروں والی شمشیر برّاں سے عبارت ہوا کرتا تھا
اب وہ اور یہ دونوں ایک بیڑی میں ڈھل گئے ہیں
جو میری پنڈلیوں کو شیروں کی طرح چباتی ہے '
انہی اشعار کی ترجمانی اقبال نے " قید خانہ میں معتمد کی فریاد " کے عنوان سے یوں کی ہے :
اک فغاں بے شرر سینے میں باقی رہ گئی
سوز بھی رخصت ہوا، جاتی رہی تاثیر بھی
مرد حر زنداں میں ہے بے نیزہ و شمشیر آج
میں پشیماں ہوں ، پشیماں ہے مری تدبیر بھی
خودبخود زنجیر کی جانب کھچا جاتا ہے دل
تھی اسی فولاد سے شاید مری شمشیر بھی
جو مری تیغ دودم تھی اب مری زنجیر ہے
شوخ و بے پروا ہے کتنا خالق تقدیر بھی
قید وبند کی انہی صعوبتوں میں وہ لمحہ جانگذار بھی آیا کہ عید کے روز اس کی بیٹیاں سلام کی غرض سے قید خانے میں حاضر ہوئیں ان کی زبوں حالی اور بوسیدہ لباس دیکھ کر معتمد کا دل پھٹ کر رہ گیا ۔ یہ اشعار انہی تاثرات کے امین ہیں ۔

فيما مَضى كُنتَ بِالأَعيادِ مَسرورا
فَساءَكَ العيدُ في أَغماتَ مَأسورا
تَرى بَناتكَ في الأَطمارِ جائِعَةً
يَغزِلنَ لِلناسِ ما يَملِكنَ قَطميراً
بَرَزنَ نَحوَكَ لِلتَسليمِ خاشِعَةً
أَبصارُهُنَّ حَسراتٍ مَكاسيرا
يَطأنَ في الطين وَالأَقدامُ حافيَةٌ
كَأَنَّها لَم تَطأ مِسكاً وَكافورا
قَد كانَ دَهرُكَ إِن تأمُرهُ مُمتَثِلاً
فَرَدّكَ الدَهرُ مَنهيّاً وَمأمورا
مَن باتَ بَعدَكَ في مُلكٍ يُسرُّ بِهِ
فَإِنَّما باتَ بِالأَحلامِ مَغرورا
ایک زمانہ تھا کہ عیدیں تیرے لئے خوشیاں لایا کرتی تھیں
ایک وقت یہ بھی ہے کہ اغمات کی اسیری میں عید تیرے دل پر بار ہے تو اپنی بیٹیوں کو بھوک کی کیفیت میں چیتھڑوں ملبوس دیکھتا ہے
وہ لوگوں کیلئے سوت کاتتی ہیں اور ان کی گرہ میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں وہ تیرے پاس اس کیفیت میں سلام کو حاضر ہوئی ہیں کہ ان کی نگاہیں نیچی اور تھکی تھکی اور جھکی جھکی ہیں وہ ننگے پاؤں مٹی پر قدم رکھ رہی ہیں
یوں لگتا ہے کہ یہ قدم کبھی مشک وکافور پر نہیں چلے تھے
وہ دن بھی تھے کہ تو اپنے زمانے کو اگر حکم دیتا تھا تو وہ اسے بجا لاتا تھا
اب زمانے نے تجھے اس حال کو پہنچا دیا کہ جب چاہے تجھےروک دے اور جب چاہے اپنے حکم پر چلائے
تیرے بعد جو کوئی کسی بادشاہی میں خوش ہو کر شب بسری کرتا ہے تو فقط خوابوں کے فریب میں رات گزارتا ہے ۔
معتمد کو اس بندغم سے نجات قید حیات کے ختم ہونے پر ہی نصیب ہوسکی ۔ جب اشبیلیہ کے خواب بالآخر اغمات میں پیوند زمیں ہوگئے ۔
سو یہ تھی دولت بنو عباد کے زوال کی وہ اندوہناک داستان جس پر ابن اللبّانہ نے وہ مرثیہ کہا جس کا مطلع ہے :
تَبْكِي السَّمَاءُ بِدَمْعٍ رَائِحٍ غَادِي
عَلَى البَهَالِيلِ مِنْ أَبْنَاءِ عَبَّادِ

آسماں صبح و شام ابر باراں سے آنسو بہاتا ہے
بنو عباد کے جامع صفات سرداروں پر
دوسرا مشہور مرثیہ ابن عبدون کا ہے جو بنو الافطس کے زوال پر کہا گیا:
الدّهرُ يفجع بعدَ العينِ بالأثرِ
فما البكاءُ على الأشباحِ والصُّوَرِ
زمانہ اصل کے بعد اس کی رہی سہی نشانیوں کا صدمہ بھی دکھاتا ہے
سو پرچھائیوں اور تصویروں پر آہ و بکا سے کیا حاصل ؟
 
بدر بھائی، دو تین مرتبہ یہ تعارف بلکہ نوحہ پڑھا ہے ذہن میں قرآن کے یہ الفاظ آرہے ہیں بار بار
يا حسرة على العباد
اور ایک شعر بہادر شاہ ظفر کا
لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
عجیب کیفیت ہے دل کی اس وقت، بیان سے باہر ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کے حال پر رحم فرمائے۔ نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم کمزور کسی بھی مشکل یا آزمائش کے قابل نہیں۔ اللہ تعالی بس اپنا فضل فرمائے رکھے ہم عاجزوں پر۔ آمین۔
 
Top