تازہ غزل :

فرقان احمد

محفلین
ظہیر بھائی، مجھے اندازہ تھا کہ یہ شاہکار آپ نے یکم اپریل کے حوالے تخلیق کیا تھا (اور سرگوشی میں اپنا یہی اندازہ لکھ بھی دیا تھا) ویسے یہ غزل پڑھ کے میرے ذہن میں یہ دو لڑیاں آئیں:
  1. بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو (غالب سے ماخوذ اپریل فول غزل)
  2. سوزشِ دل تو کہاں اس حال میں
فاتح بھائی ! یہی سوزشِ دل والی لڑی ہمیں یاد تھی لیکن کئی بار کوشش کے باوجود تلاش نہ کرپائے تھے، آج ظہیر بھائی کی یہ غزل پڑھی تو معاً اس لڑی کا خیال آیا اور ہم نے فوراً آپ کے نام دہائی دے ڈالی۔ شکر ہے کہ آپ نے خود ہی اس کا لنک دے دیا۔
 
ہم احتراماً نہیں ہنسے۔ آئندہ بھی امید مت رکھیے۔ :cry2::cry2::cry2:
درست جواب ہے صاحب! اگرچہ ہم صبح سویرے یہ غزل دیکھتے ہی کھٹک گئے تھے لیکن ظہیر بھائی کے کلام پر ہنسنے کاخیال اب بھی ہمیں لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔
 
ایک متجسس قاری نے کسی شاعر سے جاکر اس کے کسی شعر کا مطلب پوچھا تو شاعر نے جواب دیا : جب مین نے یہ شعر لکھا تھا تو اس کا مطلب یا مجھے معلوم تھا یا خدا کو ۔ اور اب اِس کا مطلب صرف اورصرف خدا کو معلوم ہے ۔
میں اس "غزل" کے بارے میں یہ کہوں گا کہ جب میں نے لکھی تو اس کا مطلب اُس وقت بھی خدا کو معلوم تھا اور اِس وقت بھی صرف وہی جانتا ہے ۔
محمد خلیل الرحمٰن بھائی آپ نے پہلا تبصرہ کرکے ہمارا مذاق "بیکار" کروادیا ۔ آپ کے ایسے معتبر تبصرے کے بعد سارے لوگ اسے سنجیدہ نظروں سے ہی دیکھنے لگے۔ کوئی بھی نہیں ہنسا ۔ یہ سب آپ کا قصور ہے ۔ :):):) اور تلافی اس کی یہی ہے کہ اب آپ جلدی سے اپنی کوئی ہنستی مسکراتی مزاحیہ نظم عنایت کریں ۔
حضرت آپ کے ذاتی پیغام کو پڑھنے سے پہلے ہم آپ کی اس شہرہء آفاق غزل پر اپنا تبصرہ ارسال کرچکے تھے اور فاتح بھائی کو مدد کے لیے پکار چکے تھے۔

محبت نامہ پڑھا تو اپنے شک کو درست پایا، ہمارا مزہ دوبالا ہوگیا لیکن چونکہ دیر ہوچکی تھی لہٰذا یوں ہی چلنے دیا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
درست جواب ہے صاحب! اگرچہ ہم صبح سویرے یہ غزل دیکھتے ہی کھٹک گئے تھے لیکن ظہیر بھائی کے کلام پر ہنسنے کاخیال اب بھی ہمیں لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔
ہا ہا ہاہا !! شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
خلیل بھائی مجھے شک تو پہلے ہی تھا کہ میرا امپریشن ضرورت سے کچھ زیادہ ہی بزرگانہ اورسنجیدہ سا بن گیا ہے لیکن اب تو پورا یقین ہوگیا ۔ اور یہ ایمپریشن بنانے میں کچھ ہاتھ راحیل فاروق کا بھی ہے ۔ یہ حضرت تو ایک دفعہ ادب احترام کی آڑ میں مجھے سر سید کا ہم عمر بھی قرار دے چکے ہیں ۔ اب مانا کہ ہم پرانے ہیں مگر اتنے پرانے تو نہیں ۔ شیروانی اور ترکی ٹوپی پہننے سےکوئی بزرگ ہوجاتا ہے کیا بھلا؟!
میں تو اب سنجیدگی سے عبد الحکیم جانے کا سوچ رہا ہوں۔ بس ایک موٹا سا ڈنڈا کہیں سے ہاتھ آجائے ۔ :):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حضرت آپ کے ذاتی پیغام کو پڑھنے سے پہلے ہم آپ کی اس شہرہء آفاق غزل پر اپنا تبصرہ ارسال کرچکے تھے اور فاتح بھائی کو مدد کے لیے پکار چکے تھے۔

محبت نامہ پڑھا تو اپنے شک کو درست پایا، ہمارا مزہ دوبالا ہوگیا لیکن چونکہ دیر ہوچکی تھی لہٰذا یوں ہی چلنے دیا۔
بہت محبت ہے آپ کی خلیل بھائی ! اللہ آپ کو سلامت رکھے ۔ یہ پودا آپ کی وزل ہی سے پھوٹا ہے ۔ لیکن آپ اُس تازہ نظم والے تاوان سے ابھی چھوٹے نہیں ہیں ۔ :):):)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کسی عربی دان کی ضرورت ہوگی۔
حسان خان
سید عاطف علی
صاحبان شاید ہماری کچھ مدد کر پائیں۔
برادر ریحان قریشی صاحب کی کسی "غلط فہمی" کے باعث بلکہ اس کی برکت کے وسیلے سے پتہ چلا کہ اس شاہکار نے جنم لیاہے اور اہالیان محفل کی ہم بھی سر خراشی مبتلا ہوئے سبب بتانے کی ضرورت ہی نہیں البتہ متعدد کیفیات بیک وقت طاری رہنے کا مزہ تادیر آتا رہا ۔ اگرچہ اس لطف خاص پر کما حقہ توجہ نہیں دے سکے کہ ہمشیرہ عزیزہ کراچی سے تشریف لائی ہوئی ہیں اور ان کی معیت میں ہم حرمین کے سفر میں تھے کل شب اپنے شہر ریاض واپسی ہوئی جسے اپنا لکھتے وقت ایک کیفیت کی لہریں دل سے آنکھوں تک آگئیں۔۔۔بہر حال۔
یہاں کی پردیسی بے سروسامانی اور علمی افلاس کا ناس ہو یا یوں کہیں کہ بھلا ہو کہ کچھ اظہار کا موقع نہیں ملا اور اچھا ہی ہوا کہ نہ ملا گویا کچھ عزت رہی۔اب جب کچھ موقع ملا تو بہت سا پانی پلوں سے گزر گیا اور کچھ رشحات قلم صفحات مراسلات کی صورت میں اسی گزران کے دوران وضاحت بن کرمنصہء شہودِ دھاگا پر وارد بھی ہو گئے ، ورنہ ہم تو اس مخمصے میں رہتے کہ یہ غالبیت کی مشکل گوئی ہے یا کسی اغلبیت کی اشکال گوئی ! اور بالیقین و بالآخر اس آئینے سے جوہر کھینچتے کھینچتے شہیدِ خارِمحبت کا مرتبہ ضرور پاتے ۔
 
احبابِ کرام ! ایک تازہ غزل پیشِ خدمت ہے ۔ میرے عمومی انداز سے بہت ہٹ کر ہے۔ اگرچہ غالب جیسی مشکل گوئی میرا اسلوب نہیں اور پیچیدہ خیالی سے میں کوسوں دور بھاگتا ہوں ۔ لیکن غالب کے اثر سے اردو کا شاید ہی کوئی شاعر بچا ہو ۔ کبھی نہ کبھی ’’ غالبیت‘‘ غالب آہی جاتی ہے ۔

( اس غزل کے مطلع میں ایطائے خفی در آیا ہے ۔ اس کے لئے اہلِ ذوق سے پیشگی معذرت خواہ ہوں ۔ :))

غزل

بنائے تشنگی بن کر حبوطِ خفتگی ہوگی
ہوائے زاشِ بے سرمہ نمودِ پیشگی ہوگی

بہارِ خندِ بے نخشاں، نفورِ دردِ خفتہ سے
مثالِ رفثِ دیدہ ور ، ردائے غم کشی ہوگی

کہیں تو برتقائے شب بساطِ نے نوائی پر
غلیطِ گمرہاں ہوگی ، مُشارِ زر گری ہوگی

زحالِ جلوہ آرائی ، قطیرِ دم سرِ بالیں
نکیرِ برق ِ خندہ سے خجل ہم بستری ہوگی

زمارِ بے نشاں ظرفِ حوادث کا عذرفہ ہے
کمیلِ طرفگاں کب تک حصارِ بے بسی ہوگی

وہی دردِ فشر پہلو ، وہی امیدِ نم چشمی
خدایا ساعتِ برناف کب تک سر خو شی ہوگی

قبیلِ مج نگارش میں قلم طرفِ ہزار آتش
اگر ہوجائے اک دن تو کفوشِ نا دری ہوگی

یہی حرفِ ژُخب آخر مطوعِ کم طبع ہوگا
غزل اک دن وہاں ہوگی جہاں دم گشتری ہوگی

ظہیر آخر ہوا قلبِ حفر آسا محن کشتہ
زمانہ کہہ رہا تھا شرطِ دُزدہ مختری ہوگی


ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔ یکم اپریل ۲۰۱۷​
بہت ہی عمدہ!!
اس غزل کی گو معنوی طور پر کوئی حیثیت نہیں، البتہ جمالیاتی سطح پر اس "فن پارے" کی حیثیت کسی نہ کسی درجے میں متعین ضرور کی جاسکتی ہے۔
1f642.png

ڈھیروں داد!







 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ورنہ ہم تو اس مخمصے میں رہتے کہ یہ غالبیت کی مشکل گوئی ہے یا کسی اغلبیت کی اشکال گوئی !
قسم لے لیجئے عاطف بھائی یہ مہمل گوئی کسی بھی قسم کی اغلبیت کے زیرِ اثر نہیں تھی ۔ ہمیں تو امرود دیکھے ہوئے بھی ایک زمانہ ہوگیا ۔ :LOL::LOL::LOL:

شاہ صاحب آپ کو زیارتِ حرمین مبارک ہو ! اللہ تعالٰی عمرہ قبول فرمائے ۔ ہمیں دعاؤں میں یاد رکھا کیجئے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت ہی عمدہ!!
اس غزل کی گو معنوی طور پر کوئی حیثیت نہیں، البتہ جمالیاتی سطح پر اس "فن پارے" کی حیثیت کسی نہ کسی درجے میں متعین ضرور کی جاسکتی ہے۔
1f642.png

ڈھیروں داد!

بہت شکریہ مزمل بھائی ! آپ نے اس مذاق کی اس درجہ عزت افزائی کی ۔ میرا خیال ہے کہ میں آپ کی بات سمجھ گیا ہوں ۔اس منظوم کاوش کو اگر تمام سیاق و سباق سے نکال کر دیکھا جائے تو ظاہر ہے کہ اس کی حیثیت مہمل گوئی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ لیکن اپنے تمام سیاق و سباق کے ساتھ یہ ایک واقعہ ضرور بن جاتی ہے ۔اور میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ شعراء اور ادباء کے درمیان واقع ہونے والے بامقصدمکالموں اور مباحثوں کی بھی اپنی ایک ادبی حیثیت ہوتی ہے اور یہ باتیں ادبی تاریخ میں جگہ پاتی ہیں ۔ اب ان واقعات کے مقام اور حیثیت کا تعین ایک الگ بحث ہے ۔​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
گویا یہ ایبسٹریکٹ غزل ہو گئی :)

عاطف بھائی اگر وقت ملے تو تجریدی غزل کے موضوع پر کچھ روشنی ڈالئے گا ۔ آجکل یہ اصطلاح سننے میں آتی رہتی ہے ۔ بشیر بدر صاحب کی ایک غزل اس کی مثال میں پیش کی جاتی ہے ۔ جس کے چند اشعار کچھ یوں ہیں :

شیشے کی سلائی میں کالے بھوت کا چڑھنا
بام، کاٹھ کا گھوڑا ، نیم، کانچ کی گولی

برف میں دبا مکھن ،موت، ریل اور رکشا
زندگی ،خوشی ،رکشا، ریل، موٹریں، ڈولی

بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ بشیر صاحب نے بھی یہ غزل یکم اپریل کو لکھی ہوگی ۔ :):):)
 

جاسمن

لائبریرین
خواہرم ، اسے سمجھنے کی قطعی کوشش نہ کیجئے ۔ ہوسکے تو فاتح بھائی کے نام میرا جوابی مراسلہ دیکھ لیجئے ۔ اور پھر ہنسنا مت بھولئے گا ۔ ویسے آپ ایک دن لیٹ ہوگئی ہیں۔ :):):)
ظہیر بھائی! میں نے فاتح کے جواب میں آپ کی باتیں پڑھی ہیں اب تک ۔ غمِ روزگار میں مبتلا ہونے کا وقت ہے ۔ سو باقی پھر۔۔۔بشرطِ زندگی۔:)
 
Top