سید فصیح احمد

لائبریرین
اب مرے شانے سے لگ کر کس لیے روتی ہو تم
یاد ہے تم نے کہا تھا
''جب نگاہوں میں چمک ہو
لفظ جذبوں کے اثر سے کانپتے ہوں اور تنفس
اس طرح الجھیں کہ جسموں کی تھکن خوشبو بنے
تو وہ گھڑی عہد وفا کی ساعت نایاب ہے
وہ جو چپکے سے بچھڑ جاتے ہیں لمحے ہیں مسافت
جن کی خاطر پاؤں پر پہرے بٹھاتی ہے
نگاہیں دھند کے پردوں میں ان کو ڈھونڈتی ہیں
اور سماعت ان کی میٹھی نرم آہٹ کے لیے
دامن بچھاتی ہے''
اور وہ لمحہ بھی تم کو یاد ہوگا
جب ہوائیں سرد تھیں اور شام کے میلے کفن پر ہاتھ رکھ کر
تم نے لفظوں اور تعلق کے نئے معنی بتائے تھے، کہا تھا
''ہر گھڑی اپنی جگہ پر ساعت نایاب ہے
حاصل عمر گریزاں ایک بھی لمحہ نہیں
لفظ دھوکہ ہیں کہ ان کا کام ابلاغ معانی کے علاوہ کچھ نہیں
وقت معنی ہے جو ہر لحظہ نئے چہرے بدلتا ہے
جانے والا وقت سایہ ہے
کہ جب تک جسم ہے یہ آدمی کے ساتھ چلتا ہے
یاد مثل نطق پاگل ہے کہ اس کے لفظ معنی سے تہی ہیں
یہ جسے تم غم اذیت درد آنسو
دکھ وغیرہ کہہ رہے ہو
ایک لمحاتی تأثر ہے تمہارا وہم ہے
تم کو میرا مشورہ ہے، بھول جاؤ تم سے اب تک
جو بھی کچھ میں نے کہا ہے''
اب مرے شانے سے لگ کر کس لیے روتی ہو تم!
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
خوب انتخاب
شاید کہ سرد موسم کی عطا ہے ۔۔۔۔۔
بہت دعائیں

موسم کی تو یہاں ہوش نہیں نایاب بھائی، البتہ سادہ سے الفاظ میں انسانی نفسیات میں نمو پاتے ایک لمبے عرصے پر مشتمل تغیر کو کیا خوب باندھا ہے امجد صاحب نے! :) :)
 
Top