داغ داغ دهلوی

ایازوسیر

محفلین
بات میری کبھی سُنی ہی نہیں
جانتے وہ بُری بھلی ہی نہیں

دل لگی اُن کی دل لگی ہی نہیں
رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں

لُطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کمبخت تُو نے پی ہی نہیں

اُڑگئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں

جان کیا دُوں کہ جانتا ہُوں میں
تم نے یہ چیز لے کے دی ہی نہیں

ہم تو دشمن کو دوست کرلیتے
پر کریں کیا تِری خوشی ہی نہیں

ہم تِری آرزو پہ جیتے ہیں
یہ نہیں ہے تو زندگی ہی نہیں

دل لگی دل لگی نہیں ناصح
تیرے دل کو ابھی لگی ہی نہیں

داغ کیوں تم کو بے وفا کہتا
وہ شکایت کا آدمی ہی نہیں
 
Top