غزل - جہان بنتا عدن تو کیسے؟ - منیب احمد

نئی غزل پیش خدمت ہے۔ خوبیوں خامیوں پر روشنی ڈالیں۔ بہت شکریہ! :)

گہن لگائے نہ رنگِ گل کو جمالِ سیمیں بدن تو کیسے؟
وہ سیم تن جب ہو عکس افگن سمن کو دیکھے چمن تو کیسے؟
نہ وہ سجاوٹ نہ جگمگاہٹ نہ تمتماہٹ نہ جھل جھلاہٹ
ہمارے یاقوت لب کے آگے جو بولے لعلِ یمن تو کیسے؟
پتا وہ میرا ہی پوچھتا ہے گلی میں غیروں کی جا کے لیکن
جواز کیا ہے کہ بدگماں ہوں؟ رکھوں مگر حسنِ ظن تو کیسے؟
سمجھ رہے تھے زمین والے کہ خلد افلاک میں کہیں ہے
بہشت اترتی زمیں پہ کیونکر؟ جہان بنتا عدن تو کیسے؟
وہ درِ نادر جو بدنصیبی سے سنگریزوں میں گر گیا ہو
دکھائے جوہر جتن سے کس کو؟ بتائے خود کو رتن تو کیسے؟
ضمیر جس کا جلا ہوا ہو درون جس کا بجھا ہوا ہو
وہ نغمہ روح سن سکے کیوں؟ سنائے دل کے بھجن تو کیسے؟
انا کی تسکین کے شرارے جو دل ہی دل میں سلگ رہے ہوں
مٹے دلوں سے جلن تو کیونکر؟ بجھے حسد کی اگن تو کیسے؟
خدا پرستی چلن ہے میرا تو بت تراشی بھی فن ہے میرا
بتوں کو پوجوں تو کس بنا پر؟ بنوں اگر بت شکن تو کیسے؟
گزار دی عمر ہاؤ ہو میں سرابِ خواہش کی جستجو میں
حیاتِ تازہ کہاں سے لاؤں؟ جو لوٹے عہدِ کہن تو کیسے؟
شریک ا گرچہ ہوں کارواں میں مگر ٹھکانہ جدا ہے میرا
جو بیچ صحرا رکوں تو کیونکر؟ پہنچ پاؤں وطن تو کیسے؟
زبان سمجھیں نہ ہم زباں بھی مگر سنانی ہے داستاں بھی
جو دل میں رکھوں تو کس طرح سے؟ لبوں پہ لاؤں سخن تو کیسے؟
تھی قلبِ انساں کی استطاعت کہ بن گیا حاملِ امانت
بغیر رائی ہوئے اٹھاتے یہ بوجھ کوہ و دمن تو کیسے؟
نہ میرا سقراط ہم پیالہ نہ میرا منصور ہم نوالہ
نثار ہوں جامِ سم کے کیونکر؟ ہوں نذرِ دارورسن تو کیسے؟
نہ مر گیا ہوں نہ جی اٹھا ہوں نہ جاگتا ہوں نہ سو رہا ہوں
لباسِ ہستی کہاں اتاروں؟ پھروں پہن کر کفن تو کیسے؟
نہ مبتدا ہوں نہ منتہا ہوں نہ اولیں ہوں نہ آخریں ہوں
زمین کب سے ہے اورجانوں رہے گا کب تک گگن تو کیسے؟
حیاتِ رفتہ کی وارداتیں وہ اَن کہی ناشنیدہ باتیں
ہیں منفعل بن کے جی میں یادیں سناؤں گر من و عن تو کیسے؟
سحابِ پیچانِ بے یقینی میں ماہِ تابانِ دل گھرا ہے
نین کی جھیلوں میں جھلملائے اگر لگن کی کرن تو کیسے؟
غزال چشموں کی دھن ہے پیچھے اکیلے پن کا ختن ہے آگے
بڑھے نہ دیوانہ پن تو کیونکر؟ نشہ نہ ہو گر ہرن تو کیسے؟
منیبؔ لاکھوں تمھارے آگے کریں گے دعوائے خوش نوائی
ہزار کی صوت کے مقابل مگر ہوں زاغ و زغن تو کیسے؟

 

La Alma

لائبریرین
بتوں کو پوجوں تو کس بنا پر؟ بنوں اگر بت شکن تو کیسے؟

زبان سمجھیں نہ ہم زباں بھی مگر سنانی ہے داستاں بھی
جو دل میں رکھوں تو کس طرح سے؟ لبوں پہ لاؤں سخن تو کیسے؟

نہ مر گیا ہوں نہ جی اٹھا ہوں نہ جاگتا ہوں نہ سو رہا ہوں
لباسِ ہستی کہاں اتاروں؟ پھروں پہن کر کفن تو کیسے؟

غزال چشموں کی دھن ہے پیچھے اکیلے پن کا ختن ہے آگے
بڑھے نہ دیوانہ پن تو کیونکر؟ نشہ نہ ہو گر ہرن تو کیسے؟
شاعری اور پیشکش دونوں نہایت عمدہ ہیں .
 
بہت عمدہ غزل. کیا کہنے منیب بھائی.
پتا وہ میرا ہی پوچھتا ہے گلی میں غیروں کی جا کے لیکن
جواز کیا ہے کہ بدگماں ہوں؟ رکھوں مگر حسنِ ظن تو کیسے؟

وہ درِ نادر جو بدنصیبی سے سنگریزوں میں گر گیا ہو
دکھائے جوہر جتن سے کس کو؟ بتائے خود کو رتن تو کیسے؟

ضمیر جس کا جلا ہوا ہو درون جس کا بجھا ہوا ہو
وہ نغمہ روح سن سکے کیوں؟ سنائے دل کے بھجن تو کیسے؟

انا کی تسکین کے شرارے جو دل ہی دل میں سلگ رہے ہوں
مٹے دلوں سے جلن تو کیونکر؟ بجھے حسد کی اگن تو کیسے؟

خدا پرستی چلن ہے میرا تو بت تراشی بھی فن ہے میرا
بتوں کو پوجوں تو کس بنا پر؟ بنوں اگر بت شکن تو کیسے؟

گزار دی عمر ہاؤ ہو میں سرابِ خواہش کی جستجو میں
حیاتِ تازہ کہاں سے لاؤں؟ جو لوٹے عہدِ کہن تو کیسے؟

تھی قلبِ انساں کی استطاعت کہ بن گیا حاملِ امانت
بغیر رائی ہوئے اٹھاتے یہ بوجھ کوہ و دمن تو کیسے؟
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت منفرد لب و لہجہ ہے ! اشعار جیسے موتی جڑے ہوں ۔



پتا وہ میرا ہی پوچھتا ہے گلی میں غیروں کی جا کے لیکن​
جواز کیا ہے کہ بدگماں ہوں؟ رکھوں مگر حسنِ ظن تو کیسے؟​


وہ درِ نادر جو بدنصیبی سے سنگریزوں میں گر گیا ہو​
دکھائے جوہر جتن سے کس کو؟ بتائے خود کو رتن تو کیسے؟​

ضمیر جس کا جلا ہوا ہو درون جس کا بجھا ہوا ہو​
وہ نغمہ روح سن سکے کیوں؟ سنائے دل کے بھجن تو کیسے؟​

گزار دی عمر ہاؤ ہو میں سرابِ خواہش کی جستجو میں​
حیاتِ تازہ کہاں سے لاؤں؟ جو لوٹے عہدِ کہن تو کیسے؟​

تھی قلبِ انساں کی استطاعت کہ بن گیا حاملِ امانت​
بغیر رائی ہوئے اٹھاتے یہ بوجھ کوہ و دمن تو کیسے؟​

نہ میرا سقراط ہم پیالہ نہ میرا منصور ہم نوالہ​
نثار ہوں جامِ سم کے کیونکر؟ ہوں نذرِ دارورسن تو کیسے؟​

نہ مر گیا ہوں نہ جی اٹھا ہوں نہ جاگتا ہوں نہ سو رہا ہوں​
لباسِ ہستی کہاں اتاروں؟ پھروں پہن کر کفن تو کیسے؟​

نہ مبتدا ہوں نہ منتہا ہوں نہ اولیں ہوں نہ آخریں ہوں​
زمین کب سے ہے اورجانوں رہے گا کب تک گگن تو کیسے؟​

یہ بالا اشعار بہت خوب ہیں !
 
بہت منفرد لب و لہجہ ہے ! اشعار جیسے موتی جڑے ہوں ۔



پتا وہ میرا ہی پوچھتا ہے گلی میں غیروں کی جا کے لیکن
جواز کیا ہے کہ بدگماں ہوں؟ رکھوں مگر حسنِ ظن تو کیسے؟​


وہ درِ نادر جو بدنصیبی سے سنگریزوں میں گر گیا ہو
دکھائے جوہر جتن سے کس کو؟ بتائے خود کو رتن تو کیسے؟​

ضمیر جس کا جلا ہوا ہو درون جس کا بجھا ہوا ہو
وہ نغمہ روح سن سکے کیوں؟ سنائے دل کے بھجن تو کیسے؟​

گزار دی عمر ہاؤ ہو میں سرابِ خواہش کی جستجو میں
حیاتِ تازہ کہاں سے لاؤں؟ جو لوٹے عہدِ کہن تو کیسے؟​

تھی قلبِ انساں کی استطاعت کہ بن گیا حاملِ امانت
بغیر رائی ہوئے اٹھاتے یہ بوجھ کوہ و دمن تو کیسے؟​

نہ میرا سقراط ہم پیالہ نہ میرا منصور ہم نوالہ
نثار ہوں جامِ سم کے کیونکر؟ ہوں نذرِ دارورسن تو کیسے؟​

نہ مر گیا ہوں نہ جی اٹھا ہوں نہ جاگتا ہوں نہ سو رہا ہوں
لباسِ ہستی کہاں اتاروں؟ پھروں پہن کر کفن تو کیسے؟​

نہ مبتدا ہوں نہ منتہا ہوں نہ اولیں ہوں نہ آخریں ہوں
زمین کب سے ہے اورجانوں رہے گا کب تک گگن تو کیسے؟​

یہ بالا اشعار بہت خوب ہیں !
آپ کی ذرہ نوازی ہے۔ میری کوشش یہی تھی کہ ہر شعر کے ساتھ انصاف کروں۔ آپ کو پسند آئے۔ اس کے لیے بہت شکرگزار ہوں۔
 
۔
بہت اعلیٰ غزل۔ لفظوں ، خصوصا قافیوں کی کمی نہیں لگتی آپ کے ہاں۔
بہت شکریہ، طارق صاحب۔ برسوں پہلے مولانا حالی کے کسی مقالے میں پڑھا تھا کہ اچھی شاعری لکھنے کے لیے تفحص الفاظ بہت ضروری ہے۔ تب سے الفاظ میرے لیے بہت قیمتی ہو گئے ہیں۔ ایک ایک کو سنبھال کے رکھتا ہوں، اور برمحل برتنے کی کوشش کرتا ہوں۔ گنجینہ معنی کا طلسم تو پیدا نہیں کر پاتا، بس کچھ جوڑ توڑ کر لیتا ہوں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! اچھی غزل ہے منیب صاحب! بہت داد آپ کے لئے!
تبصرے کی مد میں ایک دو باتیں عرض کروں گا امید ہے ناگوارِ خاطر نہ ہوں گی ۔ کئی اشعار میں بنیادی بنت فارسی اور عربی الفاظ کی ہے اور ایسے میں یکایک کسی ٹھیٹھ ہندی لفظ کا آجانا ذوقِ سلیم پر گراں سا گزرتا ہے ۔ مثلاً وہ بھجن والا شعر ۔
سحابِ پیچانِ بے یقینی میں ماہِ تابانِ دل گھرا ہے
نین کی جھیلوں میں جھلملائے اگر لگن کی کرن تو کیسے؟
پیچانِ بے یقینی کی ترکیب محلِ نظر ہے کہ بے یقینی اردو کا لفظ ہے ۔ نیز اس شعر کا دوسرا مصرع وزن میں نہیں ہے ۔

گزار دی عمر ہاؤ ہو میں سرابِ خواہش کی جستجو میں
حیاتِ تازہ کہاں سے لاؤں؟ جو لوٹے عہدِ کہن تو کیسے؟

سرابِ خواہش یہاں بے معنی لگ رہا ہے ۔ خواہش کا وجود تو یقینی چیز ہے ۔ خواہش موجود ہوگی توہی اس کو پوری کرنے کی جستجو کی جائے گی ۔
 
واہ! اچھی غزل ہے منیب صاحب! بہت داد آپ کے لئے!
تبصرے کی مد میں ایک دو باتیں عرض کروں گا امید ہے ناگوارِ خاطر نہ ہوں گی ۔ کئی اشعار میں بنیادی بنت فارسی اور عربی الفاظ کی ہے اور ایسے میں یکایک کسی ٹھیٹھ ہندی لفظ کا آجانا ذوقِ سلیم پر گراں سا گزرتا ہے ۔ مثلاً وہ بھجن والا شعر ۔

پیچانِ بے یقینی کی ترکیب محلِ نظر ہے کہ بے یقینی اردو کا لفظ ہے ۔ نیز اس شعر کا دوسرا مصرع وزن میں نہیں ہے ۔



سرابِ خواہش یہاں بے معنی لگ رہا ہے ۔ خواہش کا وجود تو یقینی چیز ہے ۔ خواہش موجود ہوگی توہی اس کو پوری کرنے کی جستجو کی جائے گی ۔
بہت مفید تبصرہ! آپ بہت باریک فہم معلوم ہوتے ہیں۔ اپنے تبصروں سے نوازتے رہا کریں۔ ایک بات پوچھنا چاہوں گا۔ بے وزن مصرع میں آپ کا اشارہ نین کے لفظ کی طرف ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، بس کمزور اشعار ی خامیوں کی نشان دہی کر دیتا ہوں۔
گہن لگائے نہ رنگِ گل کو جمالِ سیمیں بدن تو کیسے؟
وہ سیم تن جب ہو عکس افگن سمن کو دیکھے چمن تو کیسے
÷÷میری عقل ناقص میں نہیں آ سکا۔

نہ وہ سجاوٹ نہ جگمگاہٹ نہ تمتماہٹ نہ جھل جھلاہٹ
ہمارے یاقوت لب کے آگے جو بولے لعلِ یمن تو کیسے؟
÷÷پہلےمصرع میں ‘جھل جحلاہٹ سمجھ میں نہیں آیا۔
دوسرے مصرع میں۔۔ یاقوت لب محبوب کے تو ہو سکتے ہیں، لیکن اپنے ہونٹوں کو اس طرح کہنا!!!

وہ درِ نادر جو بدنصیبی سے سنگریزوں میں گر گیا ہو
دکھائے جوہر جتن سے کس کو؟ بتائے خود کو رتن تو کیسے؟
÷÷جوہر جتن سے دکھانا؟ اس کے علاوہ یہ در ہے، موتی، وہ خود ہی رتن کی طرح ہوتا ہے، اسے تراشا نہیں جاتا۔

ضمیر جس کا جلا ہوا ہو درون جس کا بجھا ہوا ہو
وہ نغمہ روح سن سکے کیوں؟ سنائے دل کے بھجن تو کیسے؟
÷÷دل کے بھجن کیسے ہوتے ہیں؟


انا کی تسکین کے شرارے جو دل ہی دل میں سلگ رہے ہوں
مٹے دلوں سے جلن تو کیونکر؟ بجھے حسد کی اگن تو کیسے
۔۔حصد کی اگن بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ بھجن تو پھر بھی چل سکتا ہے۔ کہ اس کا اردو فارسی مترادف ہے ہی نہیں، لیکن اگن خالص ہندی گیتوں کی زبان ہے۔

جو بیچ صحرا رکوں تو کیونکر؟ پہنچ پاؤں وطن تو کیسے؟
÷÷’پہنچ‘ کا نون معلنہ نہیں، غنہ ہے۔

نہ میرا سقراط ہم پیالہ نہ میرا منصور ہم نوالہ
نثار ہوں جامِ سم کے کیونکر؟ ہوں نذرِ دارورسن تو کیسے؟
÷÷پہلا مصرع بے پناہ ہے، لیکن دوسرا ساتھ نہیں دے سکا اس کا۔ کہ سمجھ میں نہیں آتا مفہوم اس کا۔

نہ مبتدا ہوں نہ منتہا ہوں نہ اولیں ہوں نہ آخریں ہوں
زمین کب سے ہے اورجانوں رہے گا کب تک گگن تو کیسے
۔۔شاید ابتدا اور انتہا بہتر ہو یہاں۔ دوسرے مصرع میں ’اور جانوں‘ کا فقرہ غیر متعلق ہے۔

ہزار کی صوت کے مقابل مگر ہوں زاغ و زغن تو کیسے؟
÷÷ایک تو ’صوت ‘ لفظ درست نہیں لگ رہا۔ دوسرے اس صوت سے زاغ و زغن کا مقابلہ کیا جا رہا ہے یا زاغ و زغن کی آوازوں کا؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس لفظ کو میں نے اس کے ہندی تلفظ नयन کے مطابق استعمال کیا ہے۔ یعنی یے پر فتحہ ہے بروزن لگن کرن وغیرہ نہ کہ سکون۔ باقی اردو دانوں پر منحصر ہے ٹھیک جانیں یا غلط۔

لیجئے صاحب آپ تو سارا قصہ ہی ختم کردیا ۔ :) بھئی منیب احمد فاتح صاحب آپ نے اپنے اس ایک جملے

"اس لفظ کو میں نے اس کے ہندی تلفظ नयन کے مطابق استعمال کیا ہے۔ یعنی یے پر فتحہ ہے بروزن لگن کرن وغیرہ نہ کہ سکون۔ باقی اردو دانوں پر منحصر ہے ٹھیک جانیں یا غلط"

میں اردو کے جملہ لسانی مسائل کا اتنا مختصر اور آسان سا حل پیش کردیا ہے کہ ہماری تو زبان گنگ ہوگئی ہے ۔:):):)
مذاق برطرف ۔ منیب صاحب آپ نے غزل اردو میں لکھی ہے تو اس میں الفاظ ، گرامر اور اسلوب وغیرہ بھی اردو کے اعتبار ہی سے آئیں گے ۔ آپ کا یہ استدلال کچھ اس طرح کا ہے کہ آپ برطانیہ کی سڑکوں پر گاڑی چلارہے ہوں اور یہ کہیں کہ بھئی میں تو امریکی ٹریفک کے قوانین کے حساب سے چلارہاہوں اب برطانوی پولیس کی مرضی کہ اسے ٹھیک جانے یا غلط ۔ بات یہ ہے کہ اردو میں آکر بہت سارے ہندی، فارسی اور عربی الفاظ کے تلفظ اور معانی بدل گئے ہیں ۔ چنانچہ اب انہیں اُسی طرح برتا جائے گا کہ جس طرح اہلِ زبان انہیں برتتے آئے ہیں ۔ اب ان کے اصل تلفظ اور معانی کا اعتبار نہیں ۔ ہندی کے کئی سہ حرفی الفاظ اردو میں دو طرح سے مستعمل ہیں ۔ یعنی درمیانی حرف ساکن بھی استعمال ہوتا ہے اور متحرک بھی ۔ مثلا جنم ، بھسم، کرم وغیرہ ۔ لیکن نین اردو میں ہمیشہ فاع کے وزن پر استعمال ہوتا ہے ۔ میرے علم میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ کسی شاعر نے اردو میں نین کو بروزن فعل باندھا ہو ۔
منیب صاحب براہِ کرم آپ اسے اپنے اوپر ذاتی تنقید نہ سمجھیں لیکن مین اس گفتگو کی وساطت سے ایک عمومی بات اور کرنا چاہوں گا ۔ شاعر اور ادیب کا ایک کام زبان کی حفاظت کرنا بھی ہے ۔ دیکھئے اگر ہمارے اسلاف اگر اپنے شعر و ادب میں دیانت داری کے ساتھ اپنے اپنے زمانوں میں بولی جانے والی زبان کو محفوظ نہ کرتے تو آج یہ زبان اتنی صاف ستھری ہوکر ہم تک کیسے پہنچتی؟! سو اب بحیثیت شاعر و ادیب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم معیاری اور فصیح زبان کی پاسداری کریں ۔ بیشک متبادل لفظ اور پیرایہ ڈھوندنے سے زیادہ آسان کام یہی ہے کہ اپنی مرضی سے کوئی لفظ ٹھونس دیا جائے ۔ لیکن سہل پسندی سے تو کام نہیں چلے گا۔ شاعری تو زبان کی نفیس اور بہترین صورت طلب کرتی ہے۔ اگر کوئی بات ناگوار گزری ہو تومعذرت خواہ ہوں ۔ مقصد دل آزاری نہیں بلکہ باہمی افہام و تفہیم اور ایک بامقصد مکالمہ ہے۔ غزل پر ایک دفعہ پھر داد! اللہ آپ کو خوش رکھے ۔
 
اچھی غزل ہے، بس کمزور اشعار ی خامیوں کی نشان دہی کر دیتا ہوں۔
گہن لگائے نہ رنگِ گل کو جمالِ سیمیں بدن تو کیسے؟
وہ سیم تن جب ہو عکس افگن سمن کو دیکھے چمن تو کیسے
÷÷میری عقل ناقص میں نہیں آ سکا۔

نہ وہ سجاوٹ نہ جگمگاہٹ نہ تمتماہٹ نہ جھل جھلاہٹ
ہمارے یاقوت لب کے آگے جو بولے لعلِ یمن تو کیسے؟
÷÷پہلےمصرع میں ‘جھل جحلاہٹ سمجھ میں نہیں آیا۔
دوسرے مصرع میں۔۔ یاقوت لب محبوب کے تو ہو سکتے ہیں، لیکن اپنے ہونٹوں کو اس طرح کہنا!!!

وہ درِ نادر جو بدنصیبی سے سنگریزوں میں گر گیا ہو
دکھائے جوہر جتن سے کس کو؟ بتائے خود کو رتن تو کیسے؟
÷÷جوہر جتن سے دکھانا؟ اس کے علاوہ یہ در ہے، موتی، وہ خود ہی رتن کی طرح ہوتا ہے، اسے تراشا نہیں جاتا۔

ضمیر جس کا جلا ہوا ہو درون جس کا بجھا ہوا ہو
وہ نغمہ روح سن سکے کیوں؟ سنائے دل کے بھجن تو کیسے؟
÷÷دل کے بھجن کیسے ہوتے ہیں؟


انا کی تسکین کے شرارے جو دل ہی دل میں سلگ رہے ہوں
مٹے دلوں سے جلن تو کیونکر؟ بجھے حسد کی اگن تو کیسے
۔۔حصد کی اگن بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ بھجن تو پھر بھی چل سکتا ہے۔ کہ اس کا اردو فارسی مترادف ہے ہی نہیں، لیکن اگن خالص ہندی گیتوں کی زبان ہے۔

جو بیچ صحرا رکوں تو کیونکر؟ پہنچ پاؤں وطن تو کیسے؟
÷÷’پہنچ‘ کا نون معلنہ نہیں، غنہ ہے۔

نہ میرا سقراط ہم پیالہ نہ میرا منصور ہم نوالہ
نثار ہوں جامِ سم کے کیونکر؟ ہوں نذرِ دارورسن تو کیسے؟
÷÷پہلا مصرع بے پناہ ہے، لیکن دوسرا ساتھ نہیں دے سکا اس کا۔ کہ سمجھ میں نہیں آتا مفہوم اس کا۔

نہ مبتدا ہوں نہ منتہا ہوں نہ اولیں ہوں نہ آخریں ہوں
زمین کب سے ہے اورجانوں رہے گا کب تک گگن تو کیسے
۔۔شاید ابتدا اور انتہا بہتر ہو یہاں۔ دوسرے مصرع میں ’اور جانوں‘ کا فقرہ غیر متعلق ہے۔

ہزار کی صوت کے مقابل مگر ہوں زاغ و زغن تو کیسے؟
÷÷ایک تو ’صوت ‘ لفظ درست نہیں لگ رہا۔ دوسرے اس صوت سے زاغ و زغن کا مقابلہ کیا جا رہا ہے یا زاغ و زغن کی آوازوں کا؟
بہت شکریہ، استادِ محترم! نہایت مفید تبصرہ۔ چند گزارشات ہیں۔
1۔ ہمارے یاقوت لب کے آگے جو بولے لعل یمن تو کیسے؟
میری مجال کہاں کہ اپنے ہونٹوں کی تعریف کروں۔ اگر کروں بھی تو کیسا پست مضمون ہوگا۔ یاقوت لب صفتِ ذاتی ہے۔ یعنی ہمارا وہ یاقوت سے ہونٹوں والا محبوب کہ جس کے آگے لعل یمن بول نہیں سکتا۔ ہمارے کی ضمیر بےتکلفی دکھانے کے لیے استعمال کی۔ لیکن آپ کا اندیشہ بجا ہے۔ میرا خیال ہے اس کو یوں کر دوں:
سو تم سے یاقوت لب کے آگے جو بولے لعل یمن تو کیسے؟

2۔ بتائے خود کو رتن تو کیسے؟
یہاں شاید آپ بنائے سمجھے۔ کہ خود کو رتن کیسے بنائے؟ میں نے بتائے لکھا ہے یعنی خود کو رتن کیسے کہلائے۔ کیا میں ٹھیک سمجھا؟

3۔ پہنچ پاؤں وطن تو کیسے؟
اگر اسے یوں کر دوں: پہنچنے پاؤں وطن تو کیسے؟ تو پھر ٹھیک ہوجائے گا؟
یہاں آپ نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ میں اسی الجھن میں تھا کہ نون اس لفظ میں معلنہ ہے کہ غنہ۔ صد ہزار ممنونیت!

4۔ زمین کب سے ہے اور جانوں رہے گا کب تک گگن تو کیسے؟
اسے یوں پڑھیں: زمین کب سے ہے؟ اور گگن کب تک رہے گا؟ جانوں تو کیسے؟ کیا اب بھی غیر متعلق ہے؟ آپ کی رائے؟
 
Top