حسان خان

لائبریرین
شنیدم که در روزگارِ کهن
شده عنصری شاهِ صاحب‌سخن
چو اورنگ از عنصری شد تهی
به فردوسی آمد کلاهِ مهی
چو فردوسی آورد سر در کفن
به خاقانی آمد بساطِ سخن
چو خاقانی از دارِ فانی گذشت
نظامی به مُلکِ سخن شاه گشت
نظامی چو جامِ اجل درکشید
سرِ چَترِ دانش به سعدی رسید
چو اورنگِ سعدی فرو شد ز کار
سخن گشت بر فرقِ خسرو نثار
ز خسرو چو نوبت به جامی رسید
ز جامی سخن را تمامی رسید
ز جامی به عرفی و طالب رسید
ز عرفی و طالب به غالب رسید
(غالب دهلوی)


میں نے سنا ہے کہ عہدِ قدیم میں عنصری بادشاہِ سخنوری گذرا ہے۔
جب عنصری (شاعر) کا تخت خالی ہو گیا تو تاجِ سروری فردوسی کے سر پر رکھا گیا۔
جب فردوسی نے کفن سر سے باندھا تو بساطِ سخن خاقانی کی تحویل میں آئی۔
جب خاقانی (اس) دارِ فانی سے کوچ کر گیا تو نظامی مملکتِ سخنوری کا بادشاہ (مقرر) ہوا۔
جب نظامی نے جامِ اجل نوش کر لیا تو چترِ علم و دانش سعدی تک پہنچا۔
جب سعدی کو تختِ شاعری سے معزول کر دیا گیا تو سخن خسرو کے سر پر خود کو نثار کرنے لگا۔
خسرو کے بعد جب باری جامی کی آئی تو جامی پر سخنوری تمام ہو گئی۔
جامی کے بعد عرفی اور طالب تک یہ (دولت) پہنچی اور عرفی و طالب سے گذر کر وہ غالب کے حصے میں آئی۔
(مترجم: یونس جعفری)
 

حسان خان

لائبریرین
به خونِ من شده مژگانِ او چنان تشنه
که شیعیانِ حُسینِ علی به خونِ یزید
(لامِعی گُرگانی)

اُس کی مژگاں اِس طرح میرے خون کی تشنہ ہو گئی ہیں کہ جس طرح شیعیانِ حُسین بن علی خونِ یزید کے تشنہ ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گر خضر از حیات پشیمان شود رواست
کو نیست در شمارِ شهیدانِ کربلا

(اهلی شیرازی)
اگر خضر [اپنی] زندگی سے پشیمان ہو جائیں تو روا ہے، کیونکہ وہ شہیدانِ کربلا کے شُمار میں شامل نہیں ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عنانِ همتِ مخلوق اگر به دستِ قضاست
چرا دلِ تو چراگاهِ چون و چند و چراست؟
(عمعق بخارایی)

اگر مخلوق کے ارادے اور کوشش کی لگام دستِ قضا میں ہے تو پھر تمہارا دل چون و چرا کی چراگاہ کیوں ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
ای خواجه ضیا شود ز رویِ تو ظُلَم
با طلعتِ تو سُور نماید ماتم
(رشیدالدین وطواط)

اِس شعر کا دو متضاد معنوں میں ترجمہ کرنا ممکن ہے:
۱) اے خواجہ! تمہارے چہرے سے تاریکیاں روشنی میں بدل جاتی ہیں اور تمہاری صورت سے ماتم جشن نظر آنے لگتا ہے۔ (مدح)
۲) اے خواجہ! تمہارے چہرے سے روشنی تاریکیوں میں بدل جاتی ہے اور تمہاری صورت سے جشن ماتم نظر آنے لگتا ہے۔ (ہَجو)

ایسے شعر کو 'مُحتمل الضدَّین' کہتے ہیں، یعنی وہ شعر جس میں دو متضاد معانی کا احتمال ہو۔
 
آخری تدوین:
اقبال کی دعا یاد آتی ہے۔

تو غنی ازہردو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر

گرتومی بینی حسابم ناگزیر
از نگاہ مصطفیٰؐ پنہاں بگیر

اے اللہ تو دونوں عالم کا غنی ہے اور میں ایک فقیر ہوں۔ قیامت کے روز میری عرض سن لینا، مجھ سے حساب نہ لینا۔

لیکن اگر میرا حساب ناگزیر ہو تو مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں سے دور لے جاکر حساب لینا۔ مجھے ان کے سامنے بہت شرمندگی ہوگی۔
 

حسان خان

لائبریرین
تن به جان زنده‌ست و جان زنده به علم
دانش اندر کانِ جانت گوهر است
سویِ دانا ای برادر همچنانک
جان تنت را، علم جان را مادر است
(ناصر خسرو)

تن جان سے زندہ ہے اور جان علم سے زندہ ہے؛ علم تمہاری جان کی کان کے اندر گوہر ہے؛ اے برادر! دانا کے نزدیک جس طرح جان تمہارے تن کی مادر ہے، اُسی طرح علم [تمہاری] جان کی مادر ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یا رب درونِ سینہ دلِ باخبر بدہ
در بادہ نشّہ را نگرم آں نظر بدہ


علامہ محمد اقبال۔ (زبورِ عجم)

یا رب، میرے سینے کے اندر ایسا دل دے کہ جو (حقیقت سے) باخبر ہو، اور مجھے ایسی نظر دے کہ میں شراب کے اندر نشے کو دیکھ لوں۔
 
Muhammad Waris sb! Aap ka blog dekha tha kbhi, phir aap ki talash main yaha tak aye mgr yaha ky mahool main abhi tak adjust nhi ho ska , vesy bhi mujh sy yaha gheron jesa salook kya jata hy , aap esy users ky twasut sy admin ko ahtjaj record krwana chata hon, ..... is link main Screenshot hy ys error ka jo mujhy aksar milta hy , or khi bhi comment krta hon tu usko admin ki verification sy jor dya jata hy
 

حسان خان

لائبریرین
کیا یہ غالب دہلویؒ کا شعر ہے؟

زنهار ازان قوم نباشی که فریبند
حق را به سجودی و نبی را به درودی
گوگل کے مطابق تو یہ شعر غالب دہلوی کا ہے، لیکن مجھے غزلیاتِ غالب میں یہ شعر نظر نہیں آیا۔ ممکن ہے یہ شعر غالب کے کسی قصیدے یا قطعے میں ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
فيضِ نظرِ کيست که در گلشنِ امکان
هر برگِ گل امروز کفِ دستِ کليم است
(بیدل دهلوی)

یہ کس کی نظر کا فیض ہے کہ اِس گلشنِ امکان میں ہر برگِ گل آج دستِ کلیم ہے یعنی اُن کے کفِ دست کی طرح روشن ہے۔
(مترجم: مہتاب احمد)
 

فرقان احمد

محفلین
معلوم نہیں، یہ لڑی اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ نہیں ۔۔۔ تاہم ان اشعار کا ترجمہ درکار ہے ۔۔۔ حسان خان محمد وارث ۔۔۔ توجہ فرمائیے گا!

من نشنیدم که خط بر آن نویسند
آیت خوبی بر آفتاب نویسند
هجر کشیدیم تا به وصل رسیدیم
نامه رحمت پس از عذاب نویسند
 

حسان خان

لائبریرین
معلوم نہیں، یہ لڑی اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ نہیں ۔۔۔ تاہم ان اشعار کا ترجمہ درکار ہے ۔۔۔ حسان خان محمد وارث ۔۔۔ توجہ فرمائیے گا!

من نشنیدم که خط بر آن نویسند
آیت خوبی بر آفتاب نویسند
هجر کشیدیم تا به وصل رسیدیم
نامه رحمت پس از عذاب نویسند
اِن ابیات کا جو ترجمہ مجھے سمجھ میں آ رہا تھا، وہ میں نے یہاں لکھ دیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
یار را حاضر کنی در دَی بهارت حاضر است
کَی بُوَد هرگز بهاری خوش‌تر از دیدارِ یار؟
(ازرقی هروی)

[اگر] تم ماہِ دَے میں یار کو حاضر کر لو تو تمہاری بہار [بھی] حاضر ہو جائے گی؛ دیدارِ یار سے خوب تر کوئی بہار کب ہو سکتی ہے؟
× دَے = ایرانی شمسی ہجری تقویم کا دسواں مہینہ جسے موسمِ سرما کا آغاز سمجھا جاتا ہے اور اِس ماہ کی ابتداء دسمبر کی ۲۲ یا ۲۱ تاریخ کو ہوتی ہے۔ یہ لفظ مجازاً موسمِ سرما کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کارِ جهان خدایِ جهان این‌چنین نهاد
نفع از پَیِ گزند و نشیب از پَیِ فراز
(ازرقی هروی)

خدائے جہاں نے کارِ جہاں اِس طرز پر ترتیب دیا ہے کہ خسارت کے عقب میں نفع اور بلندی کے عقب میں پستی ہوتی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
پیچیدنِ افعی به کمندت مانَد
آتش به سِنانِ دیو‌بندت مانَد
اندیشه به رفتنِ سمندت مانَد
خورشید به همتِ بلندت مانَد
(ازرقی هروی)

افعی کا بل کھانا تمہاری کمند سے مشابہت رکھتا ہے؛ آتش [اپنی شعلہ خیزی میں] تمہارے دیو کو اسیر کرنے والے نیزے سے مشابہت رکھتی ہے؛ فکر [اپنی سُرعت میں] تمہارے زرد رنگ اسپ کے چلنے سے مشابہت رکھتی ہے؛ خورشید [اپنی بلندی میں] تمہاری ہمّتِ بلند سے مشابہت رکھتا ہے۔
× اَفعِی = ایک بڑا اور زہردار سانپ
× رباعی کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ شاعر نے یہ رباعی محبوب کے لیے نہیں، بلکہ اپنے کسی ممدوح شاہ کے لیے کہی تھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
ای خدمتِ تو فرض و دگر نافله‌ها
از بخششِ تو قافله در قافله‌ها
حِصنی که به صد تیغ کس آن را نگشاد
کِلکِ تو کند عَالِيَهَا سَافِلَهَا
(مسعود سعد سلمان لاهوری)


اے کہ تمہاری خدمت فرض اور باقی سب کچھ نوافل ہیں؛ تمہاری بخشش سے قافلے در قافلے [فیض یاب ہیں]؛ جس قلعے کو صد تیغوں کے ساتھ کوئی فتح نہ کر پایا، اُسے تمہارا تیر زیر و زبر کر دے۔

× مصرعِ رابع میں 'عَالِيَهَا سَافِلَهَا' سورۂ ہود کی آیت ۸۲ سے ماخوذ ہے۔
× یہ اِغراق آمیز رباعی یقیناً کسی شاہ کی مدح میں کہی گئی ہے۔

[ماخذِ متنِ رباعی: مجمع الفصحاء، رضا قلی خان ہدایت]
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
به من تازه شد پژمُریده سخن
چو ز افسونِ یوسف زلیخایِ زال
(ناصر خسرو)

میرے توسط سے سخنِ پژمردہ [اِس طرح] تازہ ہو گیا جس طرح زلیخائے پِیر حضرتِ یوسف کے معجزے سے [تازہ و جوان ہو گئی تھی]۔

× بعض روایات میں ہے کہ اپنی پِیرسالی و فرتوتی کے زمانے میں زلیخا حضرتِ یوسف کے دعائیہ کلمات سے دوبارہ جوان ہو گئی تھی۔ مندرجۂ بالا شعر میں اُسی کی جانب اشارہ ہے۔
× پِیر = بوڑھا/بوڑھی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
۱۳۳۵ھ میں پادشاہِ روس نِیکُلا ثانی کی معزولی کے موقع پر مرحوم ادیب پیشاوری نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا:
خروشی برآمد ز پطروگراد
که شه اشک‌ریزان ز تخت اوفتاد

ترجمہ: پطروگراد سے ایک بانگ بلند ہوئی کہ شاہ اشک بہاتے ہوئے تخت سے گر گیا۔

حسابِ ابجد کے رُو سے 'تخت' کا عدد ۱۴۰۰ بنتا ہے۔ شاعر نے لفظِ 'شه' میں حرفِ 'ش' کے تین نقطوں کو تین اشک کے قطروں سے تشبیہ دی ہے جو پادشاہ کی اشک ریزی کے باعث تختِ سلطنت کے سقوط کے ساتھ خود بھی زمین پر بہہ گئے ہیں، لہٰذا 'شه' کے نقطے حذف کرنے کے بعد صرف 'سه' باقی رہ جاتا ہے، جس کا مجموعِ عدد ۶۵ ہے۔ تخت سے گرنے کے مفہوم کے تحت اگر لفظِ 'سه' کے عددِ ابجد کو لفظِ 'تخت' کے عددِ ابجد سے مِنہا کر دیا جائے تو ۱۳۳۵ کا نتیجہ حاصل ہو جاتا ہے جو پادشاہِ روس کی معزولی کا سال ہے۔
 
آخری تدوین:
Top