خوشبو ہوگی یہاں کی مٹّی میں

بھر لو چاہے جہاں سے مٹھی میں !
خوشبو ہوگی یہاں کی مٹّی میں !

قرب کا لمس ہے نیا اُس کو
یہ انگوٹھی نئی ہے انگلی میں !

سرسری خیریت لکھی ہے مگر
ایک آسودگی ہے چٹھی میں!

چاند کا عکس تجھ سا لگتا ہے
ایک حُسنِ یقیں ہے پانی میں !

آخری اشک پی کے اٹھیئے گا
بیٹھئے آپ، میں ہوں جلدی میں!

خیمہ گاہِ فراق یار سے چل
تلخ ایّام چھوڑ ماضی میں !

بھوک میں آج بھی وہی معیار
چاند دکھتا ہے سب کو روٹی میں !

خواب آنکھوں میں اور چبھتے ہیں
وقت کی ریت ہو جو مٹھّی میں!

اب جھلکتا ہے تجربہ کاشف
عمر جھانکے ہے سر کی چاندی میں!
 
واہ واہ کاشف بھائی کیا کہنے۔۔ بہت خوب

چاند دکھتا ہے سب کو روٹی میں !
اس مصرع کو دیکھ لیں۔ میرا خیال ہے ہماری پہلے بھی اس پر کبھی بات ہوئی تھی ۔ میرا خیال ہے "دِکھتا" کوئی لفظ نہیں ہے، عام بول چال میں لوگ کہہ دیتے ہیں مگر لفظ نہیں ہے
 
واہ واہ کاشف بھائی کیا کہنے۔۔ بہت خوب
اس مصرع کو دیکھ لیں۔ میرا خیال ہے ہماری پہلے بھی اس پر کبھی بات ہوئی تھی ۔ میرا خیال ہے "دِکھتا" کوئی لفظ نہیں ہے، عام بول چال میں لوگ کہہ دیتے ہیں مگر لفظ نہیں ہے
غزل کی پسندیدگی کے لئے شکریہ۔
میرا خیال ہے اس لفظ کے بابت تو کبھی بات نہیں ہوئی !:)
عام بول چال میں تو جائز ہی سمجھا جاتا ہے۔ آپ اجازت دیں تو اور احباب کے مشورؤں سے بھی استفادہ کر لیا جائے ؟
 
غزل کی پسندیدگی کے لئے شکریہ۔
میرا خیال ہے اس لفظ کے بابت تو کبھی بات نہیں ہوئی !:)
عام بول چال میں تو جائز ہی سمجھا جاتا ہے۔ آپ اجازت دیں تو اور احباب کے مشورؤں سے بھی استفادہ کر لیا جائے ؟
کیوں شرمندہ کرتے ہیں کاشف بھائی. محفلین کو ٹیگ کر دیجئے
 

الف عین

لائبریرین
’دکھنا‘ لفظ درست ہے اگرچہ فصیح نہیں۔ یہاں آ گیا ہے اور ’نظر آنا“ کسی طرح فٹ نہیں ہو سکتا تو چلنے دو۔
باقی غزل خوب ہے۔ اصلاح کی ضرورت نہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ ! اچھی غزل ہے کاشف بھائی ! بہت داد آپ کے لئے ! کئی اچھے مضامین ہیں!!
دوسرے شعر کو ذرا دیکھ لیجئے ۔ عجز ِ بیان ہے ۔ ’’قرب کا لمس ہے نیا اس کو‘‘ توجہ طلب ہے ۔ کسی کونیا ہونا درست نہیں ۔ کسی کے لئے نیا ہونا درست ہے ۔
دِکھتا والے نکتے پر ادب دوست سے متفق ہوں ۔ میری حقیر رائے میں کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ غزل میں مقامی اور عوامی الفاظ سے جتنا دور رہا جاسکے بہتر ہے الا یہ کہ اس سےکوئی خاص نکتہ آرائی مقصود ہو۔ ورنہ غزل میں مستند اور فصیح زبان ہی کو ذریعہ اظہار بنانا چاہیئے ۔
بھوک میں آج بھی وہی معیار
چاند دکھتا ہے سب کو روٹی میں !
یہاں دوسرے مصرع کو بہت آرام سے یوں بھی کہا جاسکتا ہے: نظر آتا ہے چاند روٹی میں

اگر تبصرہ برا لگا ہو تو پیشگی معذرت کا خواستگار ہوں ۔ غزل پر بہت داد !! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
 
واہ واہ ! اچھی غزل ہے کاشف بھائی ! بہت داد آپ کے لئے ! کئی اچھے مضامین ہیں!!
دوسرے شعر کو ذرا دیکھ لیجئے ۔ عجز ِ بیان ہے ۔ ’’قرب کا لمس ہے نیا اس کو‘‘ توجہ طلب ہے ۔ کسی کونیا ہونا درست نہیں ۔ کسی کے لئے نیا ہونا درست ہے ۔
دِکھتا والے نکتے پر ادب دوست سے متفق ہوں ۔ میری حقیر رائے میں کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ غزل میں مقامی اور عوامی الفاظ سے جتنا دور رہا جاسکے بہتر ہے الا یہ کہ اس سےکوئی خاص نکتہ آرائی مقصود ہو۔ ورنہ غزل میں مستند اور فصیح زبان ہی کو ذریعہ اظہار بنانا چاہیئے ۔
بھوک میں آج بھی وہی معیار
چاند دکھتا ہے سب کو روٹی میں !
یہاں دوسرے مصرع کو بہت آرام سے یوں بھی کہا جاسکتا ہے: نظر آتا ہے چاند روٹی میں

اگر تبصرہ برا لگا ہو تو پیشگی معذرت کا خواستگار ہوں ۔ غزل پر بہت داد !! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
آپ کی تشریف آوری کا بہت بہت شکریہ۔ کافی عرصے بعد آنا ہوآپ کا !
آپ اور نذیر بھائی جن نکات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، وہ میری نظر میں ہیں۔ ان شا اللہ درست کرتا ہوں۔
اور ہاں اتنے عرصے تک غیر حاضر نہ رہا کیجئے۔ محفل میں آتے جاتے رہا کریں !
اور ہاں یہ آخری جملہ ضرور بارِ خاطر رہا۔ آپ کے تبصرے اور اصلاحات سر آنکھوں پر !
جزاک اللہ۔
 
Top