مومن وعدۂ وصلت سے ہو دل شاد کیا

وعدۂ وصلت سے ہو دل شاد کیا
تم سے دشمن کی مبارکباد کیا

کچھ قفس میں ان دنوں لگتا ہے جی
آشیاں اپنا ہوا برباد کیا

نالۂ پیہم سے یاں فرصت نہیں
حضرتِ ناصح کریں ارشاد کیا

ہیں اسیر اس کے جو ہے اپنا اسیر
ہم نہ سمجھے صید کیا، صیاد کیا

نالہ اک دم میں اڑا ڈالے دھوئیں
چرخ کیا اور چرخ کی بنیاد کیا

جب مجھے رنج دلآزاری نہ ہو
بےوفا! پھر حاصل بے داد کیا

پاؤں تک پہنچی وہ زلفِ خم بخم
سرو کو اب باندھیے آزاد کیا

کیا کروں اللہ، سب ہیں بےاثر
ولولہ کیا، نالہ کیا، فریاد کیا

ان نصیبوں پر کیا اختر شناس
آسماں بھی ہے ستم ایجاد کیا

روزِ محشر کی توقع ہے عبث
ایسی باتوں سے ہو خاطر شاد کیا

گر بہائے خونِ عاشق ہے وصال
انتقامِ رحمتِ جلاد کیا
بت کدہ جنت ہے، چلیے بے ہراس
لب پہ مومنؔ ہرچہ بادا باد کیا
 
Top