اپنے ہی گھر کے در و بام سے جھگڑا کر کے

اپنے ہی گھر کے دروبام سے جھگڑا کر کے
میں نکل آیا ہوں کمرے کو اکیلا کر کے

جاؤ تم خواب کنارے پہ لگاؤ خیمے
میں بھی آتا ہوں ذرا شام کو چلتا کر کے

پہلے پہلے یہاں جنگل تھا گھنیرا جنگل
کاٹنے والوں نے چھوڑا اسے رستہ کر کے

وہ شب و روز، مہ و سال، وہ بکھرے لمحے
آپ کہیے تو اٹھا لاتا ہوں یکجا کر کے

ہم فقیروں کے لیے شاہ و گدا ایک سے ہیں
بات کرنا بھی تو لہجہ ذرا دھیما کر کے

عشق منصوبہ بنا کر نہیں ہوتا ہر گز
شعر لکھا نہیں جاتا ہے ارادہ کر کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نذر حُسین ناز
 

فاخر رضا

محفلین
ہم فقیروں کے لیے شاہ و گدا ایک سے ہیں
بات کرنا بھی تو لہجہ ذرا دھیما کر کے

قلم توڑ دیا آپ نے. آفرین ہو. بہت خوب. ماشاءاللہ. ہمیشہ خوش رہیں.
 

علی چشتی

محفلین
واہ واہ کیا ہی خوب جناب...
دو اشعار تو حاصل کلام ہیں بھائی.. کمال
ہم فقیروں کے لیے شاہ و گدا ایک سے ہیں
بات کرنا بھی تو لہجہ ذرا دھیما کر کے

عشق منصوبہ بنا کر نہیں ہوتا ہر گز
شعر لکھا نہیں جاتا ہے ارادہ کر کے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ وا!! کیا خوبصورت غزل ہے ! بہت عرصے بعد آپ کا کلام پڑھا نذر حسین ناز صاحب!

اپنے ہی گھر کے درو بام سے جھگڑا کرکے
میں نکل آیا ہوں کمرے کو اکیلا کر کے

کیا اچھا مطلع ہے ! بہت عمدہ!​
 
Top