محمداحمد بھائی نے میری شاعری کی بابت بعض اوقات اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ میرا پرانا کلام نئے کی نسبت زیادہ وقیع ہے۔ ان کے اس حسنِ ظن کو دیکھتے ہوئے میرا ارادہ تھا کہ اپنی بالکل ابتدائی غزلوں میں سے ایک انھیں دکھاؤں۔ اپنی ایک تعلیمی کاپی پر لکھی ہوئی اس غزل کا عکس میں نے لے کر کچھ دن پہلے ذیل کے نوٹ کے ساتھ فیس بک پر شائع کیا تھا۔ ارادہ تھا کہ احبابِ محفل اور بالخصوص محمداحمد بھائی کی نذر کیا جائے۔ مگر "تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ" کے مصداق پچھلے دنوں میں یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ اب پیش کر رہا ہوں کہ شاید اسی بہانے طبیعت کا اضمحلال اور تکدر دور ہو۔
گر قبول افتد زہے عز و شرف!
عہدِ طفولیت کی ایک غزل۔۔۔۔
ایف ایس سی کے آخری سال میں تھا تب میں۔ تصویر کے دوسرے صفحے پر حیاتیات کا سبق تحریر ہے۔ :)

14224948_912637648880049_5338364731222671430_n.jpg


وہ تو شرما گئے جب مائلِ اظہار ہوئے
ہر مصیبت میں ہمی سادہ گرفتار ہوئے

جام اٹھا، رقص کناں ہو کہ گدایانِ وفا
آج پھر خوار ہوئے اور سرِ بازار ہوئے

جب ملا ذوقِ سفر عشق کے رہبر سے مجھے
راستے زیست کے کچھ اور بھی دشوار ہوئے

ایک سے ایک قیامت نے مرا گھر تاڑا
دل ہوا، مے ہوئی، یارانِ طرحدار ہوئے

شام کی شوخ ہوا بندِ قبا کھول گئی
اپنے راحیلؔ میاں مفت گنہگار ہوئے

راحیلؔ فاروق
۲۰۰۶ء​
صحیح کہا کسی نے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آ جاتے ہیں.
لاجواب
 
شکریہ۔
واہ واہ واہ!

اچھی شاعری کی خوبی یہ ہے کہ جب بھی پڑھو لگتا ہے کہ آج کے حالات پر کہی گئی ہے۔

خوبصورت غزل پر بہت سی داد!

اور ذرہ نوازی پر شکریہ !

رہا اضمحلال تو سب کیفیات کی طرح یہ بھی وقتی ہے، دور ہو جائے گا۔ انشاءاللہ۔
بہت شکریہ، احمد بھائی۔ :in-love::in-love::in-love:
مطلع میں "مائلِ اظہار" کی ترکیب پر مجھے تحفظات ہیں۔ "مائل بہ اظہار" درست ہے۔ مگر کبھی کبھی خود کو کم عمری کی وجہ سے بھی معاف کرنا پڑتا ہے۔ :):):)
لاجواب کیا کہنے قبلہ۔

غزل تو خوب ہے ہی، لیکن میں‌ یہ سوچ رہا ہوں کہ ایک ایف ایس سی کا طالب علم اپنی حیاتیات کے سبق کے ساتھ اس طرح کی غزلیں لکھے گا تو پھر یہی ہوگا کہ نام کے ساتھ ڈاکٹر نہیں لکھ پائے گا۔ :)

میں ایف ایس سی میں ریاضی کی کلاس میں اشتیاق احمد کے خاص نمبر پڑھا کرتا تھا :)
سراپا سپاس، وارث بھائی۔
مجھے یہ دیکھ کر ہنسی آتی ہے کہ سبق پر تو میں نے "گھوچے" مارنے میں بھی کوئی تامل نہیں کیا لیکن غزل والا صفحہ شاید مقدس سمجھ کر بالکل صاف ستھرا اور چمکدار چھوڑ دیا۔ :ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
وارث بھائی جو میں سمجھ پایا ہوں ان کی زندگی میں ابھی بھی دو صفحے ہیں ایک پر شاعری ہے اور اور دوسرے پر حیاتیات ہی ہے یعنی ہماری کامرس کی لینگویج میں tangible اور intangible سمجھ لیں ... پورا کتھارسس اسی میں ہے .... "یہ میرے مطابق ہے " باقی . . . راحیل بھائی بہتر بتا سکتے ہیں . . :)
بالکل درست فرمایا، اکمل بھائی۔ واقعی یہی دو انتہائیں ہیں۔ کمال کا تجزیہ ہے! :applause::applause::applause:
حیرت۔۔۔۔۔
ایف ایس سی میں کی گئی یہ کاوش واقعی غضب کی ہے۔
بہت شکریہ، آپا۔ ان کاپیوں سے کافی کچھ دستیاب ہوا ہے۔ میری زندگی کی پہلی اور آخری رباعی بھی وہیں سے ملی ہے۔ اور تو اور ایک جگہ حسابِ جمل کے عددی اوزان کو ایک نئے قطعے میں بیان کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے! :laughing::laughing::laughing:
واہ واہ کیا خوب غزل ہے۔ اور 17 سال کی عمر میں یہ گرفت تو واقعی قابل رشک ہے۔
آپ کی محبت، فاتح بھائی۔
ایف ایس سی ہمارے ہاں عموماً ۱۸ برس کی عمر میں مکمل ہوتی ہے۔ مگر میری عمر اس وقت ۱۹ سے ۲۰ برس کے درمیان ہو گی۔ :):):)
بہت ہی اعلی غزل۔۔۔۔ کیا کہنے سرکار۔۔۔۔ لاجواب
محبت، نین بھائی! :in-love::in-love::in-love:
شکر ہے آپ نے ساتھ یہاں ٹائپ بھی کردی۔
شکر الحمدللہ! :LOL::LOL::LOL:
شکریہ!
بہت اعلیٰ راحیل بھائی۔ لاجواب۔ کیا ہی کہنے۔ ڈھیروں داد قبول کیجیے۔
بہت شکرگزار ہوں، بھائی۔ :):):)
صحیح کہا کسی نے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آ جاتے ہیں.
آپ کی عنایت کہ آپ نے پاؤں پر توجہ رکھی۔ ورنہ لوگ تو لچھن سے ادھر کچھ دیکھتے ہی نہیں! :sneaky::sneaky::sneaky:
:redheart::redheart::redheart:
 

فاتح

لائبریرین
ایف ایس سی ہمارے ہاں عموماً ۱۸ برس کی عمر میں مکمل ہوتی ہے۔
آپ نے لکھا تھا کہ ایف ایس سی مکمل نہیں ہوئی تھی۔۔۔ جاری تھی۔
ایف ایس سی کے آخری سال میں تھا تب میں۔
اس لیے اندازاً 17 لکھا۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
وہ تو شرما گئے جب مائلِ اظہار ہوئے
ہر مصیبت میں ہمی سادہ گرفتار ہوئے

جام اٹھا، رقص کناں ہو کہ گدایانِ وفا
آج پھر خوار ہوئے اور سرِ بازار ہوئے

جب ملا ذوقِ سفر عشق کے رہبر سے مجھے
راستے زیست کے کچھ اور بھی دشوار ہوئے

ایک سے ایک قیامت نے مرا گھر تاڑا
دل ہوا، مے ہوئی، یارانِ طرحدار ہوئے

شام کی شوخ ہوا بندِ قبا کھول گئی
اپنے راحیلؔ میاں مفت گنہگار ہوئے

راحیلؔ فاروق
۲۰۰۶ء

ہائیں ! راحیل بھائی آپ بھی میری طرح پرانی کاپیاں کھنگال رہے ہیں ۔:):):)
ماشاءاللہ ، ماشاءاللہ !! یہ دو صفحات نہیں بلکہ دو چکنے چکنے پات ہیں !!!
مائلِ اظہار والی بات پر آپ سےمتفق ہوں لیکن اس کے باوجود شاعر ی پر دس نمبر اور اوپر سے دو نمبر خوش خطی کے!:):):)
البتہ حیاتیات والے سبق کو ذرا غور سے دیکھنا پڑے گا ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ دماغ شاعری مین لگا ہو اور حیاتیات کے سبق میں کوئی گڑبڑ نہ کی ہو آپ نے ۔ :D

راحیل بھائی خوش رہئے ! اللہ آپ کو ہر قسم کے شر سے محفوط رکھے! اپنی امان میں رکھے !
 
وہ تو شرما گئے جب مائلِ اظہار ہوئے
ہر مصیبت میں ہمی سادہ گرفتار ہوئے
مطلع میں "مائلِ اظہار" کی ترکیب پر مجھے تحفظات ہیں۔ "مائل بہ اظہار" درست ہے۔ مگر کبھی کبھی خود کو کم عمری کی وجہ سے بھی معاف کرنا پڑتا ہے۔ :):):)
مائلِ اظہار والی بات پر آپ سےمتفق ہوں
ہم تو کہتے ہیں کہ ہر عمر میں بالحاظِ عمر رعایت ملنی چاہیے۔ :)
ایک نظیر اتفاق سے آج ایسی مل گئی ہے کہ معافی تلافی کا تکلف بےجا معلوم ہونے لگا ہے۔ :):):)
کی ترک مے تو مائلِ پندار ہو گیا
میں توبہ کر کے اور گنہ گار ہو گیا
(داغؔ دہلوی)​
بحوالہ انتخابِ کلامِ داغؔ مرتبہ ممتاز میرزا، صفحہ ۶۰۔
 

عباد اللہ

محفلین
جام اٹھا، رقص کناں ہو کہ گدایانِ وفا
آج پھر خوار ہوئے اور سرِ بازار ہوئے
واااہ واااہ

ایک سے ایک قیامت نے مرا گھر تاڑا
دل ہوا، مے ہوئی، یارانِ طرحدار ہوئے
کیا کہنے اور اس پر مستزاد یہ کہ
اپنے راحیلؔ میاں مفت گنہگار ہوئے
:):)
 

الف عین

لائبریرین
ارے اتنی عمدہ غزل کیسے چھوٹ گئی مجھ سے، اور وہ بھی جب آتش طفل مکتب تھا۔
مائل اظہار درست ہی ہے، ’بہ‘ کے اضافے سے تو روانی خبط ہو جاتی ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک نظیر اتفاق سے آج ایسی مل گئی ہے کہ معافی تلافی کا تکلف بےجا معلوم ہونے لگا ہے۔ :):):)
کی ترک مے تو مائلِ پندار ہو گیا
میں توبہ کر کے اور گنہ گار ہو گیا
(داغؔ دہلوی)​
بحوالہ انتخابِ کلامِ داغؔ مرتبہ ممتاز میرزا، صفحہ ۶۰۔

یہ توبڑی اچھی نظیر مل گئی ۔ چلئے اس ترکیب کے متعلق آپ کے اور میرے تحفظات ختم ہوئے ۔ راحیل بھائی ویسے اس میں معافی تلافی کا سوال پیدا ہی نہیں ہونا چاہئے ۔ الفاظ اور ترکیبات کا درست استعمال تو نظیر کا ہی محتاج ہوتا ہے ۔ جب مائل کی تمام مستعمل ترکیبات صرف "مائل بہ" کے ساتھ ہی ملتی ہیں تو بہ کے عدم استعمال کی صورت میں تحفظات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ اس طرح کے معاملات میں تحفظات کو اس وقت تک برقرار رکھنا تب تک کہ مسئلہ زیرِ بحث کی تائید یا تردید میں دلیل نہ مل جائے میری رائے میں ایک صحتمند رویہ ہے اور لسانی بے راہ روی کو پھیلنے سے بچاتا ہے ۔ میں نے بھی تلاش کی ذرا دیر کوشش کی تھی لیکن کوئی مثال نہ مل سکی ماسوا عزیز لکھنوی کے اس شعر کے ۔​
اپنے مرکز کی طرف مائلِ پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا​
ویسے میری حقیر رائے میں داغ کے کلام سے صرف ایک مثال بھی استثنا کے بجائے اصول کا درجہ رکھتی ہے ۔
:):):)
 
ایک اک شعر لاجواب۔ خصوصی داد ان دو اشعار پر؛
ایک سے ایک قیامت نے مرا گھر تاڑا
دل ہوا، مے ہوئی، یارانِ طرحدار ہوئے

شام کی شوخ ہوا بندِ قبا کھول گئی
اپنے راحیلؔ میاں مفت گنہگار ہوئے

ویسے یہ بتائیے کہ یہ غزل پہلی آمد پر ہی ایسے ہی لکھی کاپی میں یا اسکا رف ورژن کہیں اور ہے؟ :p
 
Top