مقدس گائے، ڈان ، سائرل المیدہ اور شریف حکومت

مورخہ 7 اکتوبر کو ڈان نیوز میں ایک آرٹیکل چھپا۔ جس کا لنک یہ ہے۔
یوں تو لنک سے آپ آرٹیکل پڑھ ہی لینگے یا پڑھ چکے ہونگے لیکن خلاصہ اسکا کچھ یوں ہے کہ صاحب تحریر کا کہنا ہے ۔
"سول حکومت نے خاکی والوں سے صاف کہہ دیا یا تو تشدد پسند تنظیموں کے خلاف کھرا ایکشن لیا جائے یا پھر عالمی برادری میں تنہائی کے لئے تیار رہا جائے"
شروع میں اس آرٹیکل پر ڈان کے خلاف ایکشن یہاں تک کے بند کرنے کا نعرہ بُلند ہوا۔
پھر دبی دبی آواز میں حکومت نے اس آرٹیکل سے انکاری ہونے کا اعلان کیا۔
اور سننے میں آ رہا ہے کہ آرٹیکل کے متعلق ہردو میں ایک شریف صاحبین کی ملاقات ہوئی ہے۔
جبکہ صاحب تحریر نے ٹویٹ کیا ہے کہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔۔۔
یوں تو ابھی یہ بازی کافی مبہم سی ہے لیکن پھر بھی آپ لوگوں کی رائے کیا ہے اس پر؟؟

زیک بھائی آپ نے تو زندہ باد وغیرہ کے نعرے بھی لگا دیے تھے۔ آپکی رائے کا انتظار رہے گا۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
یوں تو عام طور پر پاکستان میں مارچ میں گُل کھلتے ہیں اور اسی ماہ گلوں پر امتحان کا بوجھ ڈال کر بھی گل کھلائے جاتے ہیں لیکن اب کہ کچھ گُل نومبر میں کھلنے ہیں سو اس کی تیاریاں ہیں سب۔ اور پھر پھلجڑیوں کا کوئی موسم نہیں ہوتا ، چاہے گل کھلنے سے پہلے چھوڑ دو :)
 
آخری تدوین:

غصیل پرندہ

محفلین
ایک زمانہ تھا ہم ہاکی ، کشتی وغیرہ کے کھیل پر راج کیا کرتے تھے، حریف ممالک جب ہرانے کا اسٹیمنا نہیں پیدا کراسکے اپنے کھلاڑیوں میں تو انھونے کھیل کے قوانین اور آلات میں جدت پیدا کی۔ جبکہ ہماری طرف سپورٹس فیڈریشنز نے انہی روایتی طریقوں پر کھلاڑیوں کی تربیت جاری رکھی۔ نتیجہ ہم ہار کی گہرائیوں میں گم ہوگئے۔
بساط عالمی شطرنج پر کھیلتے کھلاڑی اب اپنی چالیں /سٹریٹیجیز مکمل اوور ہال کر کے گیم شروع کر چکے ہیں۔
اور ہم انہی روایتی سٹریٹیجیز کو اپنے نصاب/ پالیسی کا حصہ بنا کر اپنا دفاع کر رہے ہیں۔
نتیجہ دنیا آگے بڑھ کر اپنی طاقت و استعداد کے مطابق پوزیشن مستحکم بنا کر رول پلے کر رہی ہے۔ اور ہم تنہائی کا شکار۔
روس کی مثال سامنے ہے۔ شیرازہ بکھرنے کے بعد اپنی بہترین چالبازی سے خطے میں دوبارہ چوہدری بننے کی طرف گامزن ہے۔
حربی اور سیاسی چالبازی میں جدت لائیے۔
لیڈنگ رول اور بہتر پوزیشن پائیے۔
 

عارضی کے

محفلین
یہی دُم پکڑے رکھنے کی وجہ سے تو پاکستان کا یہ حال چلا آرہا ہے۔جب خود فیصلے کرنے کی طاقت نہ ہو تو دوسروں کی جانب دیکھا جاتا ہے۔ فوج اور سِوِل قیادت کو اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔ ”تنہائی “ کا بھوت سر سے اُتارنا ہوگا۔
دنیا کا کوئی خود مختار قوم اور ملک تنہا نہیں ہوسکتا۔ فولادی عزائم چاہیے ہوتے ہیں۔
 

وجی

لائبریرین
"سول حکومت سے خاکی والوں سے صاف کہہ دیا یا تو تشدد پسند تنظیموں کے خلاف کھرا ایکشن لیا جائے یا پھر عالمی برادری میں تنہائی کے لئے تیار رہا جائے"
یہاں 'نے' کسی جگہ آئے گا ۔
ویسے لکھنے والا کوئی شریف کا خاص لگتا ہے۔
 
چلئے اپ کے لئے آسان کردیتے ہیں۔

کچھ معمولی عورتیں تھیں، راجہ داہر، ( اب نا کہنا ، کہاں راجہ داہر اور کہاں ۔۔۔) نے ان کو پکڑ لیا ، عورتوں نے دہائی دی ، رب نے سن لی، محمد بن قاسم آیا، اب لوگ باگ دیبل کو بمبئی سے مکران کے ساحل تک ڈھونڈتے پھرتے ہیں، لیکن ملتا نہیں۔

ایک عورت تھی، معمولی تھی، اس کا گھر گرجا بنانے کے لئے ضبط کرلیا گیا، اس معمولی عورت نے دہائی دی ،رب نے سن لی ، خلیفہ حضرت عمر ثانی نے بازنطینی حکومت کو لکھا کہ عورت کو رہا کرہ، اس عورت کو اس کے گھر کے برابر زمین دو ورنہ اتنی بڑی فوج بھیجی جائے گی جس کا اگلا سرا تمہارے شہر میں اور پچھلا سرا ہمارے شہر میں ہوگا۔ احتجاج کرنے پر بازنطینی حکومت نے ( اب نا کہنا ،کہاں بازنطینی حکومت اور کہاں ۔۔،۔) اس عورت کو سزا دی۔ آج لوگ بازنطینی حکومت کے اس شہر کا نام بھی نہیں جانتے ، اور جو جانتے ہیں ان کو اس نام کا شہر دنیا کے نقشے پر نہیں ملتا

ایک شخص تھا سرمد، حق کہنے پر ، بادشاہ نے جامعہ مسجد دہلی کے دروازے پر اس کی گردن اڑوا دی تھی۔ آج سرمد کا نام تو لوگ جانتے ہیں۔ مجھے اپنے اس دادا کا نام معلوم ہے جس کو کئی سوسال پہلے اس زمانے کی حکومت نے کچھ زمین دی تھی۔ لیکن آج ڈھونڈے سے بھی کوئی شخص نہیں ملتا جو دعوی کرے کہ وہ کسی مغل بادشاہ کی نسل سے ہے ۔۔۔ (اب نا کہنا کہاں مغل بادشاۃ ۔۔ اور کہاں ۔۔۔ )

ایک عورت اور بہت معمولی تھی۔ اس کو بدکرداری کی سزا ، افغانستان میں دی گئی، قرانی آیات پڑھ کر ، پیچھے سے سر میں گولی ماردی گئی، طالبان بہت اچھلتے تھے، ( اب نا کہنا کہاں طالبان اور کہاں۔۔۔۔ ) ۔ آج یہ حال ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت افغانستان مین آ کر بیٹھ گئی، جہاں جاتے ہیں منہ کی کھاتے ہیں ۔ لوگ ڈھونڈھتے ہیں کہ کہیں طالبان کا آفس ملے تو ان سے مذاکرات کریں ۔ جو ان کا ساتھ دیتے ہیں ان کو دنیا میں تنہا کھڑا ہونے کا "اعزاز" ملتا ہے

آج بھی نانصافیوں کا کوئی شمار نہیں۔ ثبوت یہ ہے کہ اپنا فون اپنے ہاتھ میں پکڑیے اور صرف ایک میل پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں پیدل چل کر چلے جائیے ۔ کیا اپ کو یقین ہے کہ اپنے فون ککے ساتھ واپس آئیں گے؟

کچھ یہی حال ہے کمزور سے سائیرل المیدا کا اور بڑے بڑے قد آور شریفوں کا۔ کہ اگر سائیرل ، حق کا سائرن بجاتا ہے تو ، یہ قد آور شریف اس کو بجانے پر اتر آتے ہیں۔

آج دنیا کی پانچویں بڑی طاقت، عالم اسلام کی سب سے بڑی طاقت، رب کی عدالت میں ، آسیہ نورین کے مقابلے پر کھڑی ہے۔جس کی رب نے سن لی ہے۔ آج پاکستان کی سپریم کورٹ کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ناپتی پھررہی کہ ایک خاکروب کی زوجہ نے کیا کہا، یہ مقدمہ تو چلنا ہی نہیں چاہئے تھا ، اس عورت کو چشم دید گواہوں کے عدالت میٰ پیش نا ہونے پر اس مقدمے کو سب سے چھوٹی کورٹ میں ہی خارج ہوجانا چاہئے تھا۔ کہاں ایک معمولی خاکروب کی بیوی اور کہاں عالم اسلام کی سب سے بڑی طاقت؟ اب اس قوم کے اعمال یہ طے کریں گے کہ ان کا نام آنے والی نسلوں کو یاد بھی رہے گا یا نہیں ؟

اگر اب بھی اآپ کی سمجھ میں نہیں آتا تو سمجھ لیجئے کہ آپ پہلے سے طے کرچکے ہیں کہ کیا کرنا اور کیا کہنا ہے ۔ اور آپ حق اور انصاف کو ملیا میٹ کرنے پر تلے ہیں۔ کسی نا کسی حیلے بہانے سے ۔

کل اگر عالم اسلام کی اس سب سے بڑی طاقت نے اس معمولی خاکروب کی بیوی کو بناء کسی گواہ کے پیش ہوئے ، سزائے موت دے دی تو یہ اس عالم اسلام کی سب سے بڑی طاقت کی آفاقی ہار ہوگی ۔ اگر سائیرل المیدا ، پر پابندی برقرار رہتی ہے تو یہ اس عالم اسلام کی سب سے بڑی قوت ، اپنے مقام کا تعین کرے گی ۔ جن قدآور شریوفوں کا جھگڑا ، معمولی جیسے رپورٹروں اور خا کروب کی بیوی سے ہو، وہ کس طرح عالمی سطح پر کسی نریندرا مودی کی بات کا بھی مقابلہ کرسکتے ہیں؟ "اختلاف کی سزا موت" کے پیروکار، کس طرح انصاف اور مساوات کا دعوی کرسکتے ہیں؟

ناانصافیوں کے اس ماحول میں یہ کہنا کچھ دشوار نہیں ، کہ ایک زمانہ ایسا آئے کہ لوگ کہیں، کہ اس خطے میں ایک ایسا ملک ہوتا تھا جو پانچویں بڑی طاقت تھا،۔۔۔۔۔
 
بات بہت ہی آسان ہے ، جو قوم عدل و انصاف کا راستہ چھوڑ دیتی ہے، زور زبردستی کا راستہ اپنا لیتی ہے۔ وہ راستہ بھٹک جاتی ہے اور کمنامی کی تاریکیوں میں اتر جاتی ہے۔ ازل سے یہی دستور ہے۔
 

غصیل پرندہ

محفلین
چلئے اپ کے لئے آسان کردیتے ہیں۔

کچھ معمولی عورتیں تھیں، راجہ داہر، ( اب نا کہنا ، کہاں راجہ داہر اور کہاں ۔۔۔) نے ان کو پکڑ لیا ، عورتوں نے دہائی دی ، رب نے سن لی، محمد بن قاسم آیا، اب لوگ باگ دیبل کو بمبئی سے مکران کے ساحل تک ڈھونڈتے پھرتے ہیں، لیکن ملتا نہیں۔

ایک عورت تھی، معمولی تھی، اس کا گھر گرجا بنانے کے لئے ضبط کرلیا گیا، اس معمولی عورت نے دہائی دی ،رب نے سن لی ، خلیفہ حضرت عمر ثانی نے بازنطینی حکومت کو لکھا کہ عورت کو رہا کرہ، اس عورت کو اس کے گھر کے برابر زمین دو ورنہ اتنی بڑی فوج بھیجی جائے گی جس کا اگلا سرا تمہارے شہر میں اور پچھلا سرا ہمارے شہر میں ہوگا۔ احتجاج کرنے پر بازنطینی حکومت نے ( اب نا کہنا ،کہاں بازنطینی حکومت اور کہاں ۔۔،۔) اس عورت کو سزا دی۔ آج لوگ بازنطینی حکومت کے اس شہر کا نام بھی نہیں جانتے ، اور جو جانتے ہیں ان کو اس نام کا شہر دنیا کے نقشے پر نہیں ملتا

ایک شخص تھا سرمد، حق کہنے پر ، بادشاہ نے جامعہ مسجد دہلی کے دروازے پر اس کی گردن اڑوا دی تھی۔ آج سرمد کا نام تو لوگ جانتے ہیں۔ مجھے اپنے اس دادا کا نام معلوم ہے جس کو کئی سوسال پہلے اس زمانے کی حکومت نے کچھ زمین دی تھی۔ لیکن آج ڈھونڈے سے بھی کوئی شخص نہیں ملتا جو دعوی کرے کہ وہ کسی مغل بادشاہ کی نسل سے ہے ۔۔۔ (اب نا کہنا کہاں مغل بادشاۃ ۔۔ اور کہاں ۔۔۔ )

ایک عورت اور بہت معمولی تھی۔ اس کو بدکرداری کی سزا ، افغانستان میں دی گئی، قرانی آیات پڑھ کر ، پیچھے سے سر میں گولی ماردی گئی، طالبان بہت اچھلتے تھے، ( اب نا کہنا کہاں طالبان اور کہاں۔۔۔۔ ) ۔ آج یہ حال ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت افغانستان مین آ کر بیٹھ گئی، جہاں جاتے ہیں منہ کی کھاتے ہیں ۔ لوگ ڈھونڈھتے ہیں کہ کہیں طالبان کا آفس ملے تو ان سے مذاکرات کریں ۔ جو ان کا ساتھ دیتے ہیں ان کو دنیا میں تنہا کھڑا ہونے کا "اعزاز" ملتا ہے

آج بھی نانصافیوں کا کوئی شمار نہیں۔ ثبوت یہ ہے کہ اپنا فون اپنے ہاتھ میں پکڑیے اور صرف ایک میل پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں پیدل چل کر چلے جائیے ۔ کیا اپ کو یقین ہے کہ اپنے فون ککے ساتھ واپس آئیں گے؟

کچھ یہی حال ہے کمزور سے سائیرل المیدا کا اور بڑے بڑے قد آور شریفوں کا۔ کہ اگر سائیرل ، حق کا سائرن بجاتا ہے تو ، یہ قد آور شریف اس کو بجانے پر اتر آتے ہیں۔

آج دنیا کی پانچویں بڑی طاقت، عالم اسلام کی سب سے بڑی طاقت، رب کی عدالت میں ، آسیہ نورین کے مقابلے پر کھڑی ہے۔جس کی رب نے سن لی ہے۔ آج پاکستان کی سپریم کورٹ کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ناپتی پھررہی کہ ایک خاکروب کی زوجہ نے کیا کہا، یہ مقدمہ تو چلنا ہی نہیں چاہئے تھا ، اس عورت کو چشم دید گواہوں کے عدالت میٰ پیش نا ہونے پر اس مقدمے کو سب سے چھوٹی کورٹ میں ہی خارج ہوجانا چاہئے تھا۔ کہاں ایک معمولی خاکروب کی بیوی اور کہاں عالم اسلام کی سب سے بڑی طاقت؟ اب اس قوم کے اعمال یہ طے کریں گے کہ ان کا نام آنے والی نسلوں کو یاد بھی رہے گا یا نہیں ؟

اگر اب بھی اآپ کی سمجھ میں نہیں آتا تو سمجھ لیجئے کہ آپ پہلے سے طے کرچکے ہیں کہ کیا کرنا اور کیا کہنا ہے ۔ اور آپ حق اور انصاف کو ملیا میٹ کرنے پر تلے ہیں۔ کسی نا کسی حیلے بہانے سے ۔

کل اگر عالم اسلام کی اس سب سے بڑی طاقت نے اس معمولی خاکروب کی بیوی کو بناء کسی گواہ کے پیش ہوئے ، سزائے موت دے دی تو یہ اس عالم اسلام کی سب سے بڑی طاقت کی آفاقی ہار ہوگی ۔ اگر سائیرل المیدا ، پر پابندی برقرار رہتی ہے تو یہ اس عالم اسلام کی سب سے بڑی قوت ، اپنے مقام کا تعین کرے گی ۔ جن قدآور شریوفوں کا جھگڑا ، معمولی جیسے رپورٹروں اور خا کروب کی بیوی سے ہو، وہ کس طرح عالمی سطح پر کسی نریندرا مودی کی بات کا بھی مقابلہ کرسکتے ہیں؟ "اختلاف کی سزا موت" کے پیروکار، کس طرح انصاف اور مساوات کا دعوی کرسکتے ہیں؟

ناانصافیوں کے اس ماحول میں یہ کہنا کچھ دشوار نہیں ، کہ ایک زمانہ ایسا آئے کہ لوگ کہیں، کہ اس خطے میں ایک ایسا ملک ہوتا تھا جو پانچویں بڑی طاقت تھا،۔۔۔۔۔
غصہ آپ کو شریفوں سے ہے، نکال آپ وطن پر رہے ہیں۔
ہزاروں آئے ہیں ، لاکھوں آئیں گے۔ لاتعداد گمنامی کی دلدل میں غائب ہیں اور ہوجائیں گے۔ ملک میں اب بھی سچ بولنے والے اور نا انصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے موجود ہیں۔
اور پیشے کی بنیاد کب سے لوگ معمولی ہونے لگے۔ اسی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
کیا خاکروب ہونا جرم ہے کہ جس کا کیس سپریم کورٹ نہیں سن سکتی؟
 
ملک میں اب بھی سچ بولنے والے اور نا انصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے موجود ہیں۔
جس ملک سے عدل اٹھ جائے، جہاں عدالت اور جج نا ہنجار ہوں۔ اور سمجھتے ہیں کہ وہ قادر مطلق ہیں۔ اس ملک ، اس قوم کو صرف اللہ تعالی ہدایت دے سکتےہیں۔ مجھے غصہ اس سوچ سے ہے۔ جو قاتل کو معصوم اور معصوم کو قاتل ثابت کرنے پر تل جاتی ہے۔
پہلے تو ان ہی لوگوں نے ملی بھگت سے آسیہ بی بی پر قتل کا مقدمہ قائم کیا۔ پھر بناء گواہوںکی غیر موجودگی او ر ان گواہوں پر جرح کے بغیر، انہی لوگوں نے اس کو مجرم ثابت کیا اور پھر توجہ بٹانے کے لئے، سلمان تاثیر جو اس سوچ کا مخالف تھا اس کو قتل کروایا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب رب ان کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ ان کا تکبر کب ختم ہوتا ہے۔ ان ملاء نما افراد کا صرف ایک قانون ہے، "اختلاف کی سزا موت" ، اس کے لئے ان کے حیلے بہانے چلتے رہتے ہیں۔

 
آخری تدوین:
Top