ذرّے ذرّے میں گر خدا دیکھا -- غزل اصلاح کے لئے

ایک تازہ غزل اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں۔
استاد محترم جناب الف عین صاحب، دیگر استذہءِ کرام اور احباب محفل سے اصلاح کی درخواست ہے
منتظر رہونگا۔
-----------------------
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن مفاعلن فعلن
ذرّے ذرّے میں گر خدا دیکھا
تو کہو ہم نے کیا جدا دیکھا

کہیں چڑیوں کی چہچہاہٹ میں
ہم نے رطب اللسان وا دیکھا

دار پر ہم نے صورتِ منصور
حق کا اظہارِ برملا دیکھا

رزم ہو تو وہ سر بہ نوکِ سناں
تخت پر یوسفِ ادا دیکھا

کہیں مجذوب کے جنوں میں دکھا
قولِ فہم و ذکا میں وا دیکھا

اک مفسر میں اک محدث میں
مومنوں کا وہ پیشوا دیکھا

کبھی عابد کے آنکھ کا آنسو
اور مجسم کہیں دعا دیکھا

اک مجاہد کے خوں کے چھینٹوں میں
کتنا معصوم و بے ریا دیکھا

اس کو جنگل میں اور پہاڑوں پر
دور دنیا سے ہم نے جا دیکھا

کہیں زینب کی بن گیا وہ رِدا
کہیں حق بین و آشنا دیکھا

کہیں مستور ایک ذرے میں
کہیں گلشن میں جا بجا دیکھا

نور ہی اس کا بس نظر آیا
ظلمتوں میں بھی ہم نے جا دیکھا

جس میں دیکھو وہ اس میں ہے موجود
وہی ہاتھ آیا گر خلا دیکھا

الغرض ہر جگہ اسے پایا
ذرّہ ذرّہ مٹا بنا دیکھا

ایک اس کا وجود قائم ہے
کسی رستے پہ ہم نے جا دیکھا

صرف کاشف کے دل کی بات نہ کر
شخصیت میں رچا بسا دیکھا

سیّد کاشف
--------------------​
 

نور وجدان

لائبریرین
اچھا کلام ہے اور موسیقیت بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کلام کے لیے داد
وا کا معانی بتادیں
اس شعر کو سمجھادیں ۔سمجھ نہیں آئی
'وا' بمعنی کھلا ہوا لیا ہے۔ تعریف کرنے والے کی خصوصیت کو فزوں تر کرنے کی کوشش ہے ۔

دوسرا شعر بھی اس معنی میں ہے کہ جس طرح حضرتِ یوسف نے حکمرانی کی اس کی جانب اشارہ ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
'وا' بمعنی کھلا ہوا لیا ہے۔ تعریف کرنے والے کی خصوصیت کو فزوں تر کرنے کی کوشش ہے ۔

دوسرا شعر بھی اس معنی میں ہے کہ جس طرح حضرتِ یوسف نے حکمرانی کی اس کی جانب اشارہ ہے۔

بہت شکریہ جناب

میں نے اصل میں پوچھنا یہ تھا کہ نوک سناں بھی استعارا ہے اور جناب یوسف بھی تو آپ ان دونوں سے مراد سیدنا امام عالی لے رہیں ہیں ؟
 

الف عین

لائبریرین
پہلے تو مطلع کا ایطا دور کریں۔
نور سعدیہ کی بات درست ہے۔ دونوں اشعار ک ابلاغ نہیں ہو رہا ہے۔
وا عام طور پر دروازے کھلے ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہاں ان معانی میں کھلا کا درست ترجمہ مبین ہونا چاہئے، وا نہیں۔ فہم و ذکا والے شعر میں بھی۔

اک مفسر میں اک محدث میں
مومنوں کا وہ پیشوا دیکھا

کبھی عابد کے آنکھ کا آنسو
اور مجسم کہیں دعا دیکھا
پیشوا والا شعر بھی سمجھ میں نہیں آ سکا۔
عابد کے آنکھ غلط ہے، درست ’عابد کی آنکھ‘ ہونا چاہیے۔
باقی شایددرست ہی ہے
 

عبیدتھہیم

محفلین
ایک تازہ غزل اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں۔
استاد محترم جناب الف عین صاحب، دیگر استذہءِ کرام اور احباب محفل سے اصلاح کی درخواست ہے
منتظر رہونگا۔
-----------------------
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن مفاعلن فعلن
ذرّے ذرّے میں گر خدا دیکھا
تو کہو ہم نے کیا جدا دیکھا

کہیں چڑیوں کی چہچہاہٹ میں
ہم نے رطب اللسان وا دیکھا

دار پر ہم نے صورتِ منصور
حق کا اظہارِ برملا دیکھا

رزم ہو تو وہ سر بہ نوکِ سناں
تخت پر یوسفِ ادا دیکھا

کہیں مجذوب کے جنوں میں دکھا
قولِ فہم و ذکا میں وا دیکھا

اک مفسر میں اک محدث میں
مومنوں کا وہ پیشوا دیکھا

کبھی عابد کے آنکھ کا آنسو
اور مجسم کہیں دعا دیکھا

اک مجاہد کے خوں کے چھینٹوں میں
کتنا معصوم و بے ریا دیکھا

اس کو جنگل میں اور پہاڑوں پر
دور دنیا سے ہم نے جا دیکھا

کہیں زینب کی بن گیا وہ رِدا
کہیں حق بین و آشنا دیکھا

کہیں مستور ایک ذرے میں
کہیں گلشن میں جا بجا دیکھا

نور ہی اس کا بس نظر آیا
ظلمتوں میں بھی ہم نے جا دیکھا

جس میں دیکھو وہ اس میں ہے موجود
وہی ہاتھ آیا گر خلا دیکھا

الغرض ہر جگہ اسے پایا
ذرّہ ذرّہ مٹا بنا دیکھا

ایک اس کا وجود قائم ہے
کسی رستے پہ ہم نے جا دیکھا

صرف کاشف کے دل کی بات نہ کر
شخصیت میں رچا بسا دیکھا

سیّد کاشف
--------------------​

میں نے سُنا ہے کہ غزل کے زیادہ سے زیادہ ۸ طبق ہوتے ہیں بمع مقطعہ و مطلع۔ لیکن مذکورہ غزل کے ۱٦ طبق ہیں۔ محترم الف عین صاحب میری رہنمائی فرمائیں۔
 
جزاک اللّہ استاد محترم اور بہت بہت شکریہ احبابِ محفل
اصلاح کے بعد غزل پیش کر رہا ہوں۔ ایک دو جگہ ابھی درست کرنا باقی ہے. دوستوں کے مشورے ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ اشعار میں بھی تبدیلی کی ہے. توجہ چاہونگا
-----------------------
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن مفاعلن فعلن
ذرّے ذرّے میں گر خدا دیکھا
تو کہو ہم نے کیا نیا دیکھا

ہم نے چڑیوں کو چہچہاتے میں
رب کے رطب اللسان سادیکھا


دار پر ہم نے صورتِ منصور
حق کا اظہارِ برملا دیکھا

رزم ہو تو وہ سر بہ نوکِ سناں
تخت پر یوسفِ ادا دیکھا

کہیں مجذوب کے جنوں میں دکھا
قولِ فہم و ذکا میں وا دیکھا

کبھی عابد کی آنکھ کا آنسو
اور مجسم کہیں دعا دیکھا

اک مجاہد کے خوں کے چھینٹوں میں
کتنا معصوم و بے ریا دیکھا

اس کو جنگل میں اور پہاڑوں پر
دور دنیا سے ہم نے جا دیکھا

کہیں زینب کی بن گیا وہ رِدا
کہیں حق بین و آشنا دیکھا

کہیں مستور ایک ذرے میں
کہیں گلشن میں جا بجا دیکھا

ایک وہ ہی ہمیں نظر آیا
ظلمتوں میں بھی ہم نے جا دیکھا

الغرض ہر جگہ اسے پایا
ذرّہ ذرّہ مٹا بنا دیکھا

ایک اس کا وجود قائم ہے
کسی رستے پہ ہم نے جا دیکھا

صرف کاشف کے دل کی بات نہ کر
شخصیت میں رچا بسا دیکھا

سیّد کاشف
--------------------​
 
آخری تدوین:
ہم نے چڑیوں کو چہچہاتے میں
رب کے رطب اللسان سادیکھا

رزم ہو تو وہ سر بہ نوکِ سناں
تخت پر یوسفِ ادا دیکھا

کہیں مجذوب کے جنوں میں دکھا
قولِ فہم و ذکا میں وا دیکھا

اک مجاہد کے خوں کے چھینٹوں میں
کتنا معصوم و بے ریا دیکھا

کہیں زینب کی بن گیا وہ رِدا
کہیں حق بین و آشنا دیکھا

ایک اس کا وجود قائم ہے
کسی رستے پہ ہم نے جا دیکھا

صرف کاشف کے دل کی بات نہ کر
شخصیت میں رچا بسا دیکھا
 
Top