کھوٹا سکہ

الف نظامی

لائبریرین
کھوٹا سکہ
یہ ستمبر 1948 کی بات ہے جب ہندوستان نے ریاست جونا گڑھ پر یہ کہہ کر قبضہ کرلیا کہ ریاست کا حکمران (نواب مہابت خان) لاکھ مسلمان سہی مگر ریاستی عوام کی اکثریت تو ہندو ہے۔ جب کہ اس استعماری ریاست نے جموں و کشمیر پر قبضہ کرتے ہوئے یہ دلیل دی تھی کہ ریاست کا حکمران ہندو ہے اور اس نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کرلیا ہے۔ خیر! قصہ مختصر یہ کہ جونا گڑھ پر بھارتی قبضہ کے بعد نواب مہابت خاب بدقت تمام اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی جان بچا کر اور مختصر ضروری سامان لے کر کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں انہوں نے اس وقت کے دارالحکومت کراچی کے مشہور علاقے کھارادر میں قیام کیا۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں کی ایک سڑک پر وزیر مینشن نام کی وہ سہ منزلہ عمارت واقع ہے جسے حضرت قائد اعظم علیہ الرحمۃ کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
نواب صاحب اپنے سرکاری خزانے میں 48 من سونا چھوڑ آئے تھے۔ وہ ایسی جگہ پر محفوظ تھا جس کا علم نواب صاحب کے سوا کسی کو نہیں تھا۔ اگر ہندوستانی افواج پورا محل بھی کھود کر پھینک دیتیں تو انہیں سونا نہ ملتا۔ نواب صاحب کی خواہش یہ تھی کہ اگر وہ سونا کسی طرح پاکستان لایا جاسکے تو وہ اس کا نصف حصہ سرکار پاکستان کے خزانہ میں جمع کرا دیں گے۔ اس امر سے تو ہر ذی علم واقف ہے کہ ان دنوں پاکستان انتہائی بحران کا شکار تھا۔ اگرچہ چند محب وطن لوگ اس نوزائیدہ ملک کی مدد نہ کرتے تو خاکم بدہن چند ماہ کے اندر ہی اس کا وجود ختم ہوسکتا تھا۔

نواب صاحب خلوص دل کے ساتھ پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے تھے ، اگر وہ 24 من سونا پاکستان کے خزانے میں جمع کرا دیتے تو ملکی معیشت خاصی بہتر ہوسکتی تھی ۔ مگر سوال یہ تھا کہ اسے لایا کس طرح جائے اور کون لے کر آئے۔ ہندوستان جیسا کمینہ ملک شرافت کے ساتھ تو ریاست کی امانت اس کے حکمران کے حوالے نہ کرتا۔ اب تو ایک ہی صورت باقی بچی تھی ، غیر قانونی ذریعہ۔ مگر حقیقتا سونے کو خفیہ طریقے سے پاکستان منتقل کرنا ہندوستان کی نظر میں تو غیر قانونی ہوسکتا تھا مگر پاکستان یا نواب مہابت خان کے لئے نہیں ، کیونکہ یہ زر کثیر نواب صاحب کی ملکیت تھا۔ اب کردار شروع ہوتا ہے کھوٹے سکے کا۔ وہ تھا اس دور کا مشہور سمگلر حاجی عبد اللہ بھٹی جو سمندر پار بستی صالح آباد ہی میں قیام پذیر تھا۔ یہ بستی کراچی کی بندرگاہ کیماڑی سے کوءی دس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ عبد اللہ بھٹی اس وقت اسی برس کا بوڑھا تھا اور اپنا پیشہ ترک کرکے یاد الہی میں مصروف تھا۔ نواب مہابت خان کو جب اس بارے میں علم ہوا تو انہوں نے پاکستان کی ایک نہایت قابل احترام اور اعلی ترین شخصیت سے درخواست کی کہ وہ اپنے اثر و رسوخ سے عبد اللہ بھٹی کو اس بات پر راضی کرلیں کہ وہ کسی بھی صورت ان کا سونا جونا گڑھ کے خزانے سے نکال لائے۔
اس محترم ہستی نے عبد اللہ بھٹی کو اپنے روبرو طلب کرکے اسے ملک و قوم کی خاطر یہ کام کرنے پر آمادہ کرلیا۔ جونا گڑھ سمندر کے راستے کراچی سے تین سو میل دور ہے۔ عظیم شخصیت کے حکم پر بوڑھا مگر پر عزم عبد اللہ بھٹی اپنے بیٹوں قاسم بھٹی اور عبد الرحمن بھٹی کو ساتھ لیکر تیز رفتار لانچوں کے ذریعے جونا گڑھ روانہ ہوگیا۔ پاکستانی فوج کے چند کمانڈو بھی ان کے ساتھ تھے۔ ان لوگوں نے ایک دوپہر کو بھری سفر شروع کیا اور خفیہ راستوں سے ہوتے ہوءے جونا گڑھ کےساحل پر پہنچ گئے۔ اس وقت شب کے دس بجے تھے۔ شاہی محل ساحل سمندر سے کچھ زیادہ دور نہ تھا ۔ پاکستانی کمانڈوز نے محل پر متعین بھارتی فوج کے افسران اور سپاہیوں کا خاتمہ کیا جب کہ عبد اللہ بھٹی اور اس کے بیٹوں نے خفیہ جگہ تلاش کرکے سونا اٹھایا اور پھرتی سے کراچی کی طرف رواں دواں ہوگئے۔
اب دیکھیے اس سمگلر کا حسن کردار! جب اس نے انتہائی اعلی شخصیت کی موجودگی میں 48 من سونا نواب مہابت خان کو پیش کیا تو جہاں نواب صاحب نے حسب وعدہ 24 من سونا حکومت پاکستان کی نذر کیا وہیں اپنے حصے میں آنے والے 24 من سونے میں‌ سے 4 من سونا حاجی عبد اللہ بھٹی کو بطور انعام پیش کیا۔ حاجی عبد اللہ بھٹی نے یہ سونا لینے سے انکار کردیا اور زار و قطار روتے ہوئے بولا:
بابا میں نے ساری زندگی اسمگلنگ کی مگر وہ انگریز کا زمانہ تھا۔ اب میں نے اسمگلنگ نہیں کی بلکہ پاکستان کا حق حاصل کیا ہے۔ میں اسمگلر ضرور ہوں مگر مادر وطن کی دولت نہیں لوٹوں گا۔

پھر وہ کچھ دیر خاموش ہوا اور بعد ازاں سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا:
میں یہ چار من سونا بھی حکومت پاکستان کے خزانے کے لیے پیش کرتا ہوں ۔ اس کے علاوہ میرے پاس ذاتی 3 من سونا ہے جو اس مقدس دیس کی نذر ہے۔
پھر اس عظیم ہستی اور نواب مہابت خان کے آنسو بھی نہ رک سکے ۔ لیکن یہ خوشی کے آنسو تھے۔ فخر و انبساط کے آنسو۔

کھوٹا سکہ از پروفیسر محمد ظریف خان مشمولہ از اردو ڈائجسٹ اکتوبر 2008
 
Top