اسلام اور موسیقی

فرید احمد

محفلین
1 فاروق سرور خاں کی بات موسیقی کی موافقت میں
٭ موسیقی کی موافقت میں
سورۃ الزخرف:43 , آیت:70 تم اور تمہارے ساتھ جڑے رہنے والے ساتھی٭ (سب) جنت میں داخل ہو جاؤ (جنت کی نعمتوں، راحتوں اور لذّتوں کے ساتھ) تمہاری تکریم کی جائے گی
سورۃ الروم:30 , آیت:15 پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو وہ باغاتِ جنت میں خوش حال و مسرور کر دیئے جائیں گے
سورۃ الانبيآء:21 , آیت:105 اور بلا شبہ ہم نے زبور میں نصیحت کے (بیان کے) بعد یہ لکھ دیا تھا کہ (عالمِ آخرت کی) زمین کے وارث صرف میرے نیکو کار بندے ہوں گے

2 ایک اور صاحب نے ان سے پہلے فرمایا تھا :
ادخلوا الجنۃ انتم و ازواجکم تحبرون (70:43)
تم اور تمہارے جوڑے جنت میں جاو جہاں تمہیں‌نغمے سنائے جائیں گے

فاما الذین آمنوا و عملوا الصلحت فھم فی روضۃ یحبرون (15:30)
جو لوگ ایمان لائے اور اس کے مطابق عمل کیے وہ چمن میں‌نغمے سن رہے ہوں گے"

تحبرون ، اور یحبرون الحبرہ سے مشتق ہیں جن کا معنی عام طور پر یہ کیا جاتا ہے ”مگن ہوں گے ، خوش ہوں گے ، مسرور ہوں گے “ مگر قرآن کتاب اﷲ ہے اور اس کی آیات بینات کو کسی ایک معنی کے تحت مقید نہیں کیا جا سکتا ۔۔

ہمیں ان الفاظ کے کچھ اور معانی بھی ملتے ہیں
امام شریف مرتضی حسین زبیدی تاج العروس میں لکھتے ہیں
الحبرۃ بالفتح السماع فی الجنۃ وبہ فسر الزجاج لآیہ و قال الحبرۃ فی اللغۃ کل نغمۃ حسنۃ محسنۃ
حبرہ (حا کے زبر سے )سے مراد بہشتی نغمہ ہے اور زجاج نے مندرجہ بالا آیت کی یہی تفسیر کی ہے اور اس نے کہا ہے کہ لغت میں حبرہ ہر اچھے گانے کو کہتے ہیں
مصباح اللغات المنجد میں بھی ترجمہ کچھ یوں درج ہے
خوشی نعمت ، ہر عمدہ راگ

علاوہ ازیں حبرہ اور تحبیر کی بہترین تفسیر خود حدیث میں آئی ہے
کہ
لحبرتہ لک تحبیرا
امید ہے قرآن کے حوالہ سے تو ثبوت مل ہی گیا ہے

میری مخلصانہ عرض ہے کہ جنت کی باتوں کو دنیا میں دلیل نہ بنایا جائے ۔ جنت دنیا کا بدلہ ہے ، یعنی اگر یہاں تم گناہ سے بچے تو اس قسم کا ثواب بدرجہا بہتر جنت میں ملے گا ۔
مثلا بیوی پر قناعت کر کے اپنی خواہش کو قابو میں رکھا اور زنا نہیں کیا ، تو جنت میں کئی کئی حوریں ملے گیں ،
یہاں شوق شراب کو قابو میں رکھا اور جام و مینا لڑانے سے رکے رہیں تو جنت میں اس سے بہتر مستی آور پاک شراب ملے گی ۔
یہاں مال حلال پر قناعت کر کےئ روکھی سوکھی گذر کر لی تو جنت میں بدرجہا زیادہ نعمتیں اللہ تعالی عطا فرمائیں گے ۔
غرض یہ باتیں اور ہیں ، اس سے احکام دنیوی پر استدلال کرنا دلیل فاسد ہے ۔ جو قرآن سے ثابت نہیں ۔
 
فرید احمد صاحب، یہ تنبیہ میں بہت دکھ کے ساتھ اور مجبور ہو کر لکھ رہا ہوں۔ کہ دو بات مجھ سے منسوب کررہے ہیں وہ میری نہیں‌ بلکہ ایک حوالہ بفرمائش شاکر القادری ہے۔

آپ بہت جلد باز ہیں۔ اس پوسٹ کے شروع میں‌ہی میں نے لکھ دیا کہ یہ آیات دیگر حضرات پیش کرتے ہیں ۔ یہ میری بات نہیں۔ شاکر القادری کی فرمائش پر حوالہ جات کی فراہمی ہے۔ لیکن آپ نے شروع میں‌ہی لکھا کہ 'فاروق سرور خان' کی بات۔

آب آئیے آپ کی توجہ مبذول کراتا ہوں۔ فیصلہ کرنے کی صلاحیت پر۔ جو فیصلہ نا مکمل معلومات کے بناء ہوگا وہ 'نامکمل فیصلہ' ہوگا۔ اور جو شخص 'نا مکمل معلومات' کی بنیاد پر 'نامکمل فیصلہ' کرے گا وہ 'بے وقوف' کہلائے گا۔

آپ سے استدعا ہے کہ مکمل معلومات کی بنا کچھ نہ کہیئے اور نہ کیجئے تاکہ 'بیوقوفوں' کے زمرے میں نہ گنے جائیں۔

میرا ذاتی خیال اس سے اگلی پوسٹ‌میں ہے۔ اس مضمون پر لکھئے۔ آپ یہ چھینی اور ہتھوڑا لے کر ہنر آذر کیوں آزمانا شروع کردیتے ہیں۔ دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی توجہ مجھ پر زیادہ ہے اور کسی طور پر مجھے غلط ثابت کردیا جائے اور اس ذاتی عناد میں آپ یہ بھول جاتے ہیں کہ لکھا کیا ہے اور کسی طرح کچھ 'ایڑے' فاروق کو لگا دئے جائیں۔ یہ رویہ ترک کیجئے اور تعمیری رویہ اختیار کیجئے۔ یہ میرا آپ کا مقابلہ نہیں اور نہ ہی آپ کی اور میری انا کا مقابلہ ہے۔ لہذا یہ روش تک کیجئے ۔ اور اگر ایسا مقابلہ کرنا ہی چاہتے ہیں تو ایک الگ دھاگہ کھول لیجئے۔ وہاں یقین کیجئے آپ ہی ہونگے، میں‌نہیں :)

جب بھی آپ فیصلہ کریں اپنے ذاتی عناد کو دور رکھ دیجئے۔ دیکھئے درج ذیل آیت۔
[ayah]5:8[/ayah] اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو، بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے
 

فرید احمد

محفلین
جناب فاروق صاحب سے معافی کہ ان کو دکھ پہنچا ۔
خیر آپ کی بات دیکھتے ہیں :
دوسرا حصہ:
اب آئیے اصل سوال کی طرف ' آیا موسیقی اللہ کے نزدیک حرام ہے؟'
منطقی طور پر اللہ تعالی نے عقل انسانی کی تخلیقی صلاحیتوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ موسیقی اس میں شامل کیوں‌ نہ ہو؟۔ اس کا ثبوت 'زبور' ہے۔ جس میں قران کے ڈایریکٹ حوالہ اس کے اشعار میں موجود ہیں۔ 'بکہ' اور 'محمدم' کے الفاظ اس کے ہدائتی نغموں میں موجود ہیں
ذہن میں رکھئے کہ 'زبور'، نصیحت پر مشتمل، نغمات، نظمات اور اشعار کا مجموعہ ہے۔ جسے یہودی اور مسیحی مذہب کے اعتبار سے، داؤد علیہ السلام اپنی خوش الحان آواز میں سازوں کے ساتھ گایا کرتے تھے۔ ہ آج بھی یہودی اور مسیحی مذہب کے لوگ ان نغموں کو 'بربط' اور دیگر سازون پر گاتے ہیں کہ داود علیہ السلام کو ان نغمات، سازوں اور موسیقی کو لکھنے کا علم اللہ تعالی نے دیا۔
آج بھی کوئی کمپیوٹر، کوئی مشین، خود سے میوزک کمپوز کرکے نہیں لکھ سکتی ہے۔ یہ سب کچھ اللہ نے انسان کو اس لئے سکھایا تاکہ عقل انسانی سے ہونے والی موسیقی کی تخلیقات سے ہم یہ دیکھ سکیں کہ خدا تعالی نے عقل انسانی کی صورت میں کیا تخلیق کیا ہے تاکہ ہم اللہ کی صناعی -- انسانی عقل -- کی تعریف کر سکیں۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے ہتھیار بنانا منع نہیں‌لیکن ان کا بے جا استعمال قابل سزا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے مناسب موسیقی کو منع نہیں فرمایا اور اللہ تعالی نے اچھے اور برے کی تمیز کا معاملہ ہم پر چھوڑتے ہوئے۔ ہماری موسیقی پیدا کرنے والی تخلیقی صلاحیتوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ یہ ایک اور ثبوت ہے اس بات کا کے رسول اللہ کو الہامی مدد حاصل تھی۔اس مسئلہ پر واضح حلال اور حرام کی بحث بے کار ہے کہ موسیقی کی تخیلق کرنے والوں اور انکی عقل کے استعمال پر پابندی لگائی جائے۔ البتہ اچھی اور بری موسیقی کی تمیز کی جائے، اس کا معیار بنایا جائے اور اچھی موسیقی تخلیق کرنے والے کو انعام اور موسیقی کا قابل مذمت استعمال کرنے والے کو سزا دی جائے۔ جیسا کہ ایک اچھی کتاب لکھنے والے کو انعام سے اور ایک مخرب الاخلاق کتاب لکھنے والے کو سزا سے نوازا جاتا ہے۔ تو یہ سوال موسیقی کی تخلیقی صلاحیت پر پابندی کا نہیں بلکہ اس معیار کو ڈیفائن کرنے (تعریف) کا ہے جو اچھے اور بری موسیقی کے استعمال کے لئے ہو۔
پہلا جملا ہے :
منطقی طور پر اللہ تعالی نے عقل انسانی کی تخلیقی صلاحیتوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔

کس نے کہا پابندی نہیں لگھائی ؟
کیا یہ فحاشی ،عریانی ، بے راہ روی ، ظلم و ستم ، جو دنیا بھر میں جاری ہے ، وہ عقل انسانی تخلقیقی صلاحتیں نہیں ؟ تخلیق کے ساتھ اس میں تخریب بھی ہے ، اگر ایک سے تخریب کہتا ہے تو دوسرا اسے ہی تخلیق کہتا ہے ۔
پس یہ قاعدہ محل نظر ہے ، آپ کے اپنے معیار کے اعتبار سے اس قاعدہ پر بھی پر کوئی قرآنی آیت ہونی ہی چاہیے ، ورنہ اس پر ایمان کہاں سے آپ کو نصیب ہوا ؟
آگے آپ لکھتے ہیں :
اس کا ثبوت 'زبور' ہے۔ جس میں قران کے ڈایریکٹ حوالہ اس کے اشعار میں موجود ہیں۔ 'بکہ' اور 'محمدم' کے الفاظ اس کے ہدائتی نغموں میں موجود ہیں ۔
اس کے بارے میں اجمل صاحب لکھ چکے ہیں ، کہ اس زبور پر ایمان لانا کہاں کی منطق ہے ، جب کہ اس میں من مانی ہیرا پھیری کی باتے قرآن نے بھی کہ دی ہے ۔
اور عجیب
وجیب
عجیب
یہود و نصاری کے مذہبی پیشواؤں کی ان تحریفات کو ہی آپ مولویت پر منطبق کرتے تھے ، ان ہی کی طرح مولویت کو بدنام کرتے تھے ۔
اب کیا یہود ونصاری کے افعال کو آپ کے نزدیک حسن قبول مل گیا ہے جو دھڑلے سے اس کو پیش کرنے لگے ۔

آپ آگے لکھتے ہیں :

ذہن میں رکھئے کہ 'زبور'، نصیحت پر مشتمل، نغمات، نظمات اور اشعار کا مجموعہ ہے۔

کیا دلیل ہے ان دعوں پر ، قرآن سے ، یا سنت جاریہ ہے ؟
اس میں نغمہ کا لفظ یقینا آپ کی من مانی ہے ، کیا خدانے نغمہ گا کر سنایا تھا ؟

آپ نے لکھا ہے :

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے مناسب موسیقی کو منع نہیں فرمایا

آپ حدیث رسول کو ماننے کی بات کہ دیں ، میں بتا دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس کس موسیقی سے منع فرمایا ہے ۔ نام رسول کذب و افترا میں استعمال نہ فرمائیں تو اچھا ہے ۔
 

خاور بلال

محفلین
دف کی اجازت شادی بیاہ اور عید کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ حد ہے کہ جہاں تک آدمی جاسکتا ہے۔ اس آخری حد کو اگر کوئی شخص نکتہ آغاز بنانا چاہتا ہو، اس کو آخر کس نے مجبور کیا کہ وہ خواہ مخواہ اس نبی ص کے پیروؤں میں اپنا نام لکھائے جو آلات موسیقی توڑنے کیلئے بھیجا گیا ہے؟ (سید ابوالاعلیٰ مودودی ، رسائل و مسائل حصہ اول، صفحہ 167)
 

فرید احمد

محفلین
محفل کے ایک معزز رکن اور لاءبیری ٹیم ممبر جناب فاروق سرور خاں صاحب سے اج کل محفل پر مختلف موضوعات پر بحث جا سلسلہ جاری ہے ، مجھچ سمیت بہت سے افراد اس میں شریک ہیں ، کون کس کا ہم نوا ہے ، وہ کسی کو معلوم نہیں ، اب کی اپنی اپنی بات ہے ۔
خیر
اس بحث میں مختلف موضوعات میں مختلف دوستوں نے فاروق صاحب سے چند باتیں عرض کیں ، جن میں سے بہت سی باتوں کے جواب اور خلاصہ کے طورپر فاروق صاحب نے عرض کیا کہ ان کی شخصیت کو موضوع نہ بنایا جاءے ۔
مثلا یہ یہاں دیکھیں


یا پھر یہاں دیکھو

میں اس سلسلے میں چند باتیں قران کی روشنی میں درج کرنا چاہتا ہوں ۔
سورہ فاتحہ میں ہے ۔
اہدنا الصراط االمستقیم ، صراط الذین انعمت علیہم ، غیر المغضوب علیہم ولاالضالین ۔
ہمیں سیدھا راستہ دکھا ، انعام کیے ہوءے لوگوں کا راستہ ، غجب کیے اور گمراہوں کا راستہ نہیں ۔
دوسری جگہ قران میں ہے
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ
تمہارے لیے رسول میں بہترین اسوہ ( نمونہ زندگی) ہے ۔
اطیعوااللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم
اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی اطاعت کرو
اس میں یہ تو متعین ہے کہ رسول اور اولی الامر موافق قران حکم دیں تو ہی اس کی اطاعت کرنی ہے ۔
اس کے علاوہ متعدد مقامات پر اللہ تعالی نے انسانوں پر خصوصا قران کے اولین مخاطب قریش پر یہ احسان جتایا کہ اس نے تم میں ایک رسول تمہاری ہی قوم ( جنس ) کا بھیجا ۔
ان ایات پر غور کرنے کے بعد اس بات پر غور فرماءیں کہ جس ذات بابرکت پر نزول قران مقصود تھا ، اس کی تربیت اللہ تعالی نے کس طرح کی ، بچپن سے اپ صلی اللہ علیہ وسلم پاکیزہ اخلاق اطوار و عدات والے تھے۔ کبھی رقص و سرود کی محفلوں میں شرکت نہیں فرماءی ، شراب نہیں پی ، چھوٹ ، گالی گلوچ، خیانت اور تمام قسم کی براءیوں سے دور رہے ۔
یہاں تک کہ مکہ میں قبل نبوت ایک شخص ایسا نہ تھا جسے اپ کی شخصیت پر انگلی اتھانے کا موقع ملے ۔
ایک بار کعبہ کی عمارت کی تجدید و مرمت کے موقع پر جب تمام ہی بڑےءے بڑے قبائل امادہ جنگ تھے، ایک شرط کی بنیاد پر اپ کا نام ابھر کر سامنے ایا، جو سب کو تسلیم ہی نہیں ، اس پر سب نے اپنی انتہاءی خوشی کا اظہار فرمایا ۔
اپ کا لقب ہی مکہ میں"صادق " اور " امین " تھا۔
اور ایسے واقعات کی بھرمار ہے ۔
میں اس سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی قران کے ذریعہ دنیا میں جس نظام کو جاری فرمانا چاہتے تھے اس کے لیے فقط پیغام ، میسج یا دعوت کے مسودہ پر اکتفاء نہیں کیا گیا ، بلکہ ایک کے ساتھ پیغامبر ، میسینجر ، اور داعی کو بھی منتخب کیا گیا ۔ اور ایسا کہ اس پر کسی کو انگلی اتھانے کا موقع نہ ہو۔
ورنہ تو باری تعالی کی طرف سے یہ کیا جاتا کہ کعبہ کی چھت پر نسخہ قران رکھ دیا جاتا یا صبح کو ہر ایک کے سرہانے ایک قران کا مسودہ ہوتا اور ندا کر دی جاتی کہ اس قران پر عمل کرنا ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی بھی میسیج یا پیغام کے ساتھ اس کے پیسینجر اور پیغامبر کی شخصیت کا اس کے موزوں ہونا لازمی ہے ، اور کبھی اس کو اس کے پیغام اور دعوی سے الگ نہیں دیکھا جا سکتا ۔
جناب فاروق صاحب ، قران کے جس اجتماعی نظام ، باہمی مشورہ اور کیا کیا کیا کیا '۔ ۔ ۔ ۔ کی طرف اپ بزعم خود دعوت کے علمبردار بن کر محفل پر رونق افروز ہو ، اور اس کی اڑ میں انکار حدیث اور ایک بڑے دین دار طبقہ کی دینداری اور اخلاص و خدمات کو طعن و تشنیع کا تختہ مشق بنایا ہے ،
کیا وہ نظام ایسا ہے کہ اس نظام کا داعی یہ کہے کہ میری بات کو دیکھو ، مجھے مت دیکھو ۔
دنیا کہ بہت سی باتوں میں یہ اصول چل سکتا ہے کہ حکمت کی بات جہاں سے ملے لے لو ، کہاں ہے مت دیکھو ۔
مگر اس قرانی اور اسلامی نظام کی بات ہے تو جناب ،
جو کوءی بھی اس کی بات کرے اس ]پر ضروری ہے کہ اول اپنے کو جانچ پرکھ لے اور پھر سامنے اءے
اس ایت پر کبھی اپ کا دھیان نہپیں گیا ۔
[AYAH]اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم [/AYAH]
[ARABIC]یاایہا الذین امنوا لم تقولون ما لا تفعلون [/ARABIC]
 
قرآنی آیات کھیل نہیں ہیں کہ اپنی مرضی سے‌جو مرضی مطلب نکال کر یہاں‌پوسٹ کردی جائیں۔

یہاں لوگوں کو تو گمراہ کیا جاسکتا ہے غلط حوالہ جات سے‌ لیکن خدا کی پکڑ سے کوئی دور نہیں اس لئے خدا سے‌خیر مانگنی چاہئے۔ خدا کی ہی آیات کو خدا کی خلقت کے‌سامنے‌ غلط پیش کرنا ۔۔ خدا ہی معاف کرے

اسلام کا موقف حرمت کے حوالے سے بالکل واضح وصریح ہے۔ لوگوں میں کشمکش میں مبتلا نہ ہونا چاہئے۔

کیا حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کبھی گانا سنا؟
نہیں؟

کسی صحابی نے سنا؟
نہیں؟

جب خیر القرون نے نہیں سنا تو ہم آپ کون ہوتے ہیں!!

اگر آپ اسے حلال سمجھتے‌ ہیں تو آپ‌سنے۔ دوسروں کو گناہ میں کیوں مبتلا کرتے ہیں؟

خدا مجھے اور سب کو ہدایت دے

بحث ومباحثہ مقصد نہیں کیوننکہ یہ پہلی بار بحث ومباحثہ نہیں ہو رہا گانے پر اردو نیز عربی فورمز پر بحث ومبتحثہ پڑھ پڑھ کر آنکھیں تھک چکی ہیں۔ اس لئے حتمی بات لکھدی۔
 
میں اس فضول بحث میں حصہ نہیں لینا چاہتا تھا مگر حسن نظامی صاحب نے قرآن شریف کا غلط ترجمہ لکھ کر اور آپ نے اس کی تائید کر کے مجھے لکھنے پر مجبور کیا ۔ ۔
دوبارہ دیکھ لیجئے، میں‌نے اپنی وضاحت کے ساتھ، صرف حسن نظامی صاحب کی مہیا کی ہوئی آیات اور شاکر القادری کی فرمائش کی ہوئی آیات مہیا فرمائی۔ حسن نظامی صاحب نے جو ترجمات مہیا فرمائے وہ درست نہیں۔ درست ترجمات کے ساتھ ان میں‌سے کوئی بھی آیت جو موافقت یا مخالفت میں اب تک ‌پیش کی جاتی رہی ہیں موسیقی سے تعلق نہیں رکھتی نظر نہیں آتی ہیں۔ دوبار عرض‌ہے کہ میں نے یہ حصہ کسی تائید یا تردید کے لئے نہیں لکھا۔
 
محفل کے ایک معزز رکن اور لاءبیری ٹیم ممبر جناب فاروق سرور خاں صاحب سے اج کل محفل پر مختلف موضوعات پر بحث جا سلسلہ جاری ہے ، مجھچ سمیت بہت سے افراد اس میں شریک ہیں ، کون کس کا ہم نوا ہے ، وہ کسی کو معلوم نہیں ، اب کی اپنی اپنی بات ہے ۔
خیر
اس بحث میں مختلف موضوعات میں مختلف دوستوں نے فاروق صاحب سے چند باتیں عرض کیں ، جن میں سے بہت سی باتوں کے جواب اور خلاصہ کے طورپر فاروق صاحب نے عرض کیا کہ ان کی شخصیت کو موضوع نہ بنایا جاءے ۔
مثلا یہ یہاں دیکھیں


یا پھر یہاں دیکھو

میں اس سلسلے میں چند باتیں قران کی روشنی میں درج کرنا چاہتا ہوں ۔
سورہ فاتحہ میں ہے ۔
اہدنا الصراط االمستقیم ، صراط الذین انعمت علیہم ، غیر المغضوب علیہم ولاالضالین ۔
ہمیں سیدھا راستہ دکھا ، انعام کیے ہوءے لوگوں کا راستہ ، غجب کیے اور گمراہوں کا راستہ نہیں ۔
دوسری جگہ قران میں ہے
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ
تمہارے لیے رسول میں بہترین اسوہ ( نمونہ زندگی) ہے ۔
اطیعوااللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم
اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی اطاعت کرو
اس میں یہ تو متعین ہے کہ رسول اور اولی الامر موافق قران حکم دیں تو ہی اس کی اطاعت کرنی ہے ۔
اس کے علاوہ متعدد مقامات پر اللہ تعالی نے انسانوں پر خصوصا قران کے اولین مخاطب قریش پر یہ احسان جتایا کہ اس نے تم میں ایک رسول تمہاری ہی قوم ( جنس ) کا بھیجا ۔
ان ایات پر غور کرنے کے بعد اس بات پر غور فرماءیں کہ جس ذات بابرکت پر نزول قران مقصود تھا ، اس کی تربیت اللہ تعالی نے کس طرح کی ، بچپن سے اپ صلی اللہ علیہ وسلم پاکیزہ اخلاق اطوار و عدات والے تھے۔ کبھی رقص و سرود کی محفلوں میں شرکت نہیں فرماءی ، شراب نہیں پی ، چھوٹ ، گالی گلوچ، خیانت اور تمام قسم کی براءیوں سے دور رہے ۔
یہاں تک کہ مکہ میں قبل نبوت ایک شخص ایسا نہ تھا جسے اپ کی شخصیت پر انگلی اتھانے کا موقع ملے ۔
ایک بار کعبہ کی عمارت کی تجدید و مرمت کے موقع پر جب تمام ہی بڑےءے بڑے قبائل امادہ جنگ تھے، ایک شرط کی بنیاد پر اپ کا نام ابھر کر سامنے ایا، جو سب کو تسلیم ہی نہیں ، اس پر سب نے اپنی انتہاءی خوشی کا اظہار فرمایا ۔
اپ کا لقب ہی مکہ میں"صادق " اور " امین " تھا۔
اور ایسے واقعات کی بھرمار ہے ۔
میں اس سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی قران کے ذریعہ دنیا میں جس نظام کو جاری فرمانا چاہتے تھے اس کے لیے فقط پیغام ، میسج یا دعوت کے مسودہ پر اکتفاء نہیں کیا گیا ، بلکہ ایک کے ساتھ پیغامبر ، میسینجر ، اور داعی کو بھی منتخب کیا گیا ۔ اور ایسا کہ اس پر کسی کو انگلی اتھانے کا موقع نہ ہو۔
ورنہ تو باری تعالی کی طرف سے یہ کیا جاتا کہ کعبہ کی چھت پر نسخہ قران رکھ دیا جاتا یا صبح کو ہر ایک کے سرہانے ایک قران کا مسودہ ہوتا اور ندا کر دی جاتی کہ اس قران پر عمل کرنا ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی بھی میسیج یا پیغام کے ساتھ اس کے پیسینجر اور پیغامبر کی شخصیت کا اس کے موزوں ہونا لازمی ہے ، اور کبھی اس کو اس کے پیغام اور دعوی سے الگ نہیں دیکھا جا سکتا ۔
جناب فاروق صاحب ، قران کے جس اجتماعی نظام ، باہمی مشورہ اور کیا کیا کیا کیا '۔ ۔ ۔ ۔ کی طرف اپ بزعم خود دعوت کے علمبردار بن کر محفل پر رونق افروز ہو ، اور اس کی اڑ میں انکار حدیث اور ایک بڑے دین دار طبقہ کی دینداری اور اخلاص و خدمات کو طعن و تشنیع کا تختہ مشق بنایا ہے ،
کیا وہ نظام ایسا ہے کہ اس نظام کا داعی یہ کہے کہ میری بات کو دیکھو ، مجھے مت دیکھو ۔
دنیا کہ بہت سی باتوں میں یہ اصول چل سکتا ہے کہ حکمت کی بات جہاں سے ملے لے لو ، کہاں ہے مت دیکھو ۔
مگر اس قرانی اور اسلامی نظام کی بات ہے تو جناب ،
جو کوءی بھی اس کی بات کرے اس ]پر ضروری ہے کہ اول اپنے کو جانچ پرکھ لے اور پھر سامنے اءے
اس ایت پر کبھی اپ کا دھیان نہپیں گیا ۔
[AYAH]اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم [/AYAH]
[ARABIC]یاایہا الذین امنوا لم تقولون ما لا تفعلون [/ARABIC]

کردار کشی کا ایک بار شکریہ۔ آپ کی تمام باتیں اپنی منظق اور ذاتی عناد پر مشتمل ہیں۔ آپ کے مدرسوں کی جانچ پرکھ کا اور 'جعلی اسناد' کا میں کیا کوئی قائل نہیں۔ ذرا اپنے مدرسے کے مستند استاد کو کہیئے کہ ایم اے اسلامیات پڑھانے کے لئے کسی یونیورسٹی میں ایپلائی کرکے دیکھے۔ جو شخص عام آدمی کو پڑھانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو اس سے کیا مزید توقع کی جاسکتی ہے؟

میں‌عرض‌کر چکا ہوں‌کہ آپ ایک نیا رسول، ایک نیا خدا ڈھونڈھ رہے ہیں۔ اور یہ بھی عرض کر چکا ہوں کہ وہ میں‌نہیں‌ہوں۔ لہذا کہیں اور ڈھونڈئے۔ کہاں رسول اکرم اور کہاں میں بے چارہ طالب علم۔ 'مولویت' کے تمام حربے اور داؤ پیچ آپ باری باری آزما رہے ہیں۔ ان تمام داؤ پیچ کا تذکرہ میں اپنے 4 آرٹیکلز میں کر چکا ہوں۔ حدیث کے بارے میں جنابُ نے جو نظریہ میرے بارے میں‌پیش کیا ہے وہ درست نہیں۔ کوئی دلیل لائیے۔ اقوال رسول میری تحاریر کا باقاعدہ حصہ ہیں۔ آپ کی شکایت عقل سے باہر ہے۔

آپ کی درست شکایت یہ ہونا چاہیئے : فاروق اگر ایک مدرسہ سے نہیں نکلا تو اسے ہم بات کرنے کا حق نہیں دیں گے۔ ہر 'دین کے عالم' کا مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونا ضروری ہے۔ ورنہ اس کو 'تارک حدیث' کا ، 'تارک رسول ' کا خطاب دو۔ اور اگر پھر بھی نہ مانے تو رسول سے موازنہ کرو کہ کیا وہ اپنے آپ کو رسول سمجھتا ہے۔ اگر پھر بھی نہ مانے تو مرتد قرار دو اور گردن کاٹنے یا قتل کرنے کی سفارش کرو۔

بھائی یہ 'مولویت' کی اجارہ داری دین پر بند کرو ار دین کی معلومات ہر شخص کے لئے عام ہونے دو۔ کچھ پڑھو اور لکھو تاکہ معاشرے کے فعال شخص بنو اور اپنی روزی بچانے کی فکر میں عام آدمی کو درست تعلیم سے محروم نہ کرو اور اس کی معلومات کی تعمیر میں حصہ لو۔

میں‌عرض‌کر چکا ہوں کہ میں عالم دین نہیں، بس ایک طالب علم ہوں۔ آپ کو کیا اعتراض‌ہے؟
والسلام
 
عقلِ انسانی کی کئی ایسی تخلیقات ہیں جن کی ممانعت بظاہر قرآن شریف میں نہیں لکھی ہوئی ۔ اس عقلِ خداداد کو استعمال کرتے ہوئے ہی انسان ابلیس کے کہے پر چلتا ہے جو اسے نظر نہیں آتا
اس کے باوجود انسان کی تخلیقی صلاحیتوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ سوال انسانی تخلیقی صلاحیتوں پر پابندی لگانے کا ہے یا ان صلاحیتوں کے استعمال کا معیار مقرر کرنے کا؟
تو پھر ہمیں ہر قلم استعمال کرنے والے پر پابندی لگانا چاہئیے کہ وہ اس سے ایسے مضامین لکھ سکتا ہے جو فحش ہوں۔ مجھے ذرا یاد دلائیے کہ 'مولویت' نے ہر عام آدمی کو تعلیم دینے کی مخالفت کب بند کی؟ علماء بننا کب تک صرف چند سکہ بند لوگوں تک محدود تھا؟
علی گڑھ یونیورسٹی کے علاوہ ان تین مشہور یونیورسٹیز کے نام بتائیے جو اس دور کی یادگار ہیں؟ علی گڑھ کی مخالفت میں کتنے 'علماء' نے کفر کا فتوی لگایا تھا سرسید پر؟

۔ میں ان میں سے صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں ۔ آج کی دنیا میں اتنی ترقی ہو چکی ہے کہ کسی مرد کا جرثومہ لے کر کسی غیر عورت کے رحم میں رکھ دیا جائے تو وہ حاملہ ہو جاتی ہے ۔

آپ صرف ہاں یا نہیں میں جواب لکھیئے کہ کیا دین اسلام اس کی اجازت دیتا ہے ؟
نہیں، اس کا تذکرہ کسی جگہ نہیں‌ملتا۔
میرا دوسرا سوال ہے ۔ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ سیّدنا داؤد علیہ السلام سازوں کے ساتھ گایا کرتے تھے ؟
ان کے ماننے والوں کی مثال دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان کو ماننے والے کیا یقین کرتے ہیں، یہ بتایا گیا ہے۔ وہ لوگ آج بھی موجود ہیں اور یہی کہتے ہیں۔
خیال رہے کہ آپ کا عقیدہ ہے کہ حدیث سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا مستند نسخہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی کبھی موجود تھا ۔
اس پر الگ جگہ بات ہورہی ہے۔ جس میں فرید احمد صاحب اپنی نوازشات پیش کررہے ہیں۔ وہیں بات کی جائے تو بہتر نہ ہوگا۔
کمال یہ ہے کہ زبور کا مستند نسخہ آپ کو مل گیا جب کہ یہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دور سے بہت پہلے ہی تبدیل کی جا چکی تھی ۔
زبور کی ایک آیت قرآن کا ڈایریکٹ حوالہ ہے۔ یہ آیت جس نغمے کا حصہ ہے آج بھی یہودی اور مسیحی مذاہب کے ماننے والوں میں گایا جاتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ آپ کی اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ سیّدنا داؤد علیہ السلام سازوں کے ساتھ گایا کرتے تھے اسلئے اُمتِ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی اجازت ہے کیونکہ دین پہلے مکمل نہ تھا اور مکمل ہونے کے بعد کئی ایسی چیزیں حرام قرار دے دی گئیں جو پہلے حرام نہ تھیں ۔
کتب حدیث سے آپ کو حضرت داؤد کے سازوں کی ایک حدیث پیش کی۔ مجھے احباب صاحب 'تارک حدیث' اور 'تارک رسول' کا خطاب دے رہے ہیں اور جب روایت رسول پیش کرتا ہوں تو ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ کچھ تو ہے جس کی یہ پردہ داری ہے؟

ایک تجویز ۔ آپ دین پر فیصلے نہ دیا کریں تو یہ آپ کی عاقبت کیلئے بہتر ہو گا ۔
بہت شکریہ۔ میں‌قانون سازی یا اصول سازی نہیں کرتا، اپنے خیال کا اظہار کرتا ہوں۔ قانون سازی فرد واحد کا حق نہیں۔ ایک مکمل شورائی نظام کا حصہ ہے۔ جس کا نہ میں حقدار ہوں نہ امیدوار۔
[/quote]
 

فرید احمد

محفلین
میرے مدرسے کا استاذ کیا ؟ میں خود یونی ورسٹی میں ایم اے اسلامیات پڑھا سکتا ہوں ،
آپ کی دینی معلومات کس معیار کی ہیں ، وہ میں نے جانچ لی ، سب نے دیکھ لی ، چند آیات کا یاد کر لینا اور پاپائیت کے خلاف لکھی انگریزی باتوں کو مولویت کے نام دے مارنا آپ کا کام ہے ۔
آپ اگر کسی صلاحیت کے مالک ہو تو ایک مملکت اسلامی کے جمیع قوانین یا چند قوانین یا کم سے کم پاکتسان کے حالیہ بحران " حدود آتڈیننس " کے متعلق اپنے خیالات مرتب انداز میں قرآن سے مدلل کرکے دیکھ لیں ، میں آپ کو بتا دوں کہ آپ کیا دینی اسلامی ، قرآنی لیاقت رکھتے ہو ؟
یہ ذاتی عناد اور کردار کشی کا مسئلہ نہیں ، دین کے نام پر، اسلام کے عنوان پر غیر اسلامی باتوں کو اسلام میں در آنے سے روکنا ہے ۔ اگر آپ کو قران کے نام کچھ باتیں پیش کرنے کا اختیار ہے تو مجھے اس پر رد و قدح کا حق کیوں نہیں ، آپ میری باتوں کا قرآن سے جواب دیں ۔ دلیل پیش فرمائیں ،
کسی کی بات کو کردار کشی کیوں سمجھ لیتے ہو ؟
عربی میں ایک مقولہ ہے :
" من صنف فقد استہدف "
یعنی " جس نے کچھ تصنیف کیا وہ نشانہ بنا "
اس کہ ہمت رکھ کر میدان میں آئے ،
جن کو تم مولوی کہتے ہو ، وہ کار دین بھی کرتے ہیں ، اور وہ دل گردہ رکھتے ہیں کہ ایسی لعن و طعن اور کردار کشی ! سے گبھراتے نہیں ۔ اگر آپ کی انا کا مسئلہ نہیں تو میں پوچھتا ہوں کہ
آپ کئی جگہ روایات کا اعتبار کرنے کا لکھ چکے ہیں ،اور باربار اس کا انکار اور اکی کسی حیثیت نہ ہونے کا اعلان کرتے رہتے ہو ۔
جہاں پھنستے ہو ، کچھ نرم بات لکھ جاتے ہو ، پھر دوسرے دھاگہ میں جاکر وہی پرانی رفتار اپنا لیتے ہو
 

فرید احمد

محفلین
اس نابینائی کا کچھ اندازہ ہے فاروق صاحب آپ کو :
آپ کہتے ہیں
کتب حدیث سے آپ کو حضرت داؤد کے سازوں کی ایک حدیث پیش کی۔ مجھے احباب صاحب 'تارک حدیث' اور 'تارک رسول' کا خطاب دے رہے ہیں اور جب روایت رسول پیش کرتا ہوں تو ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ کچھ تو ہے جس کی یہ پردہ داری ہے؟
آپ نے جو حدیث انگریزی میں پیش فرمائی ہے ،
اس کو ذرا سمجھ لیں ،
حضرت ابو موسی رضی اللہ کو ان کے بہت خوب صورت آواز میں قرآن پڑھنے پر اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کو آل داود کے سازوں میں سے ایک ساز دیا گیا ہے ۔
یہ قران کی خوش الحانی کو ساز کہا گیا ہے ، حضرت داود بھی زبور خوش الحانی سے پڑھتے تھے ۔ ساز کا یہ مطلب ہے ، نہ کہ بربط و طنبور ، وایولن اور یہ ، وہ ۔۔۔۔
آپ نے کہیں کہا تھا کہ اسلام جب ایران میں آیا تو پازند کے اثرات کتب روایات میں آ گئے اور ایک نیے اسلام میں دھل گیا ۔
میں آپ سے کہون کہ ان اگریزی سے دین کو اخذ کرکے آپ اسلام کو یورپی اسلام میں دھال رہے ہو ۔
 
اس نابینائی کا کچھ اندازہ ہے فاروق صاحب آپ کو :
آپ کہتے ہیں

آپ نے جو حدیث انگریزی میں پیش فرمائی ہے ،
اس کو ذرا سمجھ لیں ،
حضرت ابو موسی رضی اللہ کو ان کے بہت خوب صورت آواز میں قرآن پڑھنے پر اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کو آل داود کے سازوں میں سے ایک ساز دیا گیا ہے ۔
یہ قران کی خوش الحانی کو ساز کہا گیا ہے ، حضرت داود بھی زبور خوش الحانی سے پڑھتے تھے ۔ ساز کا یہ مطلب ہے ، نہ کہ بربط و طنبور ، وایولن اور یہ ، وہ ۔۔۔۔
آپ نے کہیں کہا تھا کہ اسلام جب ایران میں آیا تو پازند کے اثرات کتب روایات میں آ گئے اور ایک نیے اسلام میں دھل گیا ۔
میں آپ سے کہون کہ ان اگریزی سے دین کو اخذ کرکے آپ اسلام کو یورپی اسلام میں دھال رہے ہو ۔

Volume 6, Book 61, Number 568: کو عربی میں‌یہاں‌لکھئے ۔ اور داؤد کے ساز کونسے تھے، اس کا حوالہ دیجئے۔ آپ کے پاس تو ہوگا۔ بناء حوالہ معروضات پیش کرنے سے وجہ عنائت کیجئے۔

والسلام۔
 
میرے مدرسے کا استاذ کیا ؟ میں خود یونی ورسٹی میں ایم اے اسلامیات پڑھا سکتا ہوں ،
آپ کی دینی معلومات کس معیار کی ہیں ، وہ میں نے جانچ لی ، سب نے دیکھ لی ، چند آیات کا یاد کر لینا اور پاپائیت کے خلاف لکھی انگریزی باتوں کو مولویت کے نام دے مارنا آپ کا کام ہے ۔
آپ اگر کسی صلاحیت کے مالک ہو تو ایک مملکت اسلامی کے جمیع قوانین یا چند قوانین یا کم سے کم پاکتسان کے حالیہ بحران " حدود آتڈیننس " کے متعلق اپنے خیالات مرتب انداز میں قرآن سے مدلل کرکے دیکھ لیں ، میں آپ کو بتا دوں کہ آپ کیا دینی اسلامی ، قرآنی لیاقت رکھتے ہو ؟
یہ ذاتی عناد اور کردار کشی کا مسئلہ نہیں ، دین کے نام پر، اسلام کے عنوان پر غیر اسلامی باتوں کو اسلام میں در آنے سے روکنا ہے ۔ اگر آپ کو قران کے نام کچھ باتیں پیش کرنے کا اختیار ہے تو مجھے اس پر رد و قدح کا حق کیوں نہیں ، آپ میری باتوں کا قرآن سے جواب دیں ۔ دلیل پیش فرمائیں ،
کسی کی بات کو کردار کشی کیوں سمجھ لیتے ہو ؟
عربی میں ایک مقولہ ہے :
" من صنف فقد استہدف "
یعنی " جس نے کچھ تصنیف کیا وہ نشانہ بنا "
اس کہ ہمت رکھ کر میدان میں آئے ،
جن کو تم مولوی کہتے ہو ، وہ کار دین بھی کرتے ہیں ، اور وہ دل گردہ رکھتے ہیں کہ ایسی لعن و طعن اور کردار کشی ! سے گبھراتے نہیں ۔ اگر آپ کی انا کا مسئلہ نہیں تو میں پوچھتا ہوں کہ
آپ کئی جگہ روایات کا اعتبار کرنے کا لکھ چکے ہیں ،اور باربار اس کا انکار اور اکی کسی حیثیت نہ ہونے کا اعلان کرتے رہتے ہو ۔
جہاں پھنستے ہو ، کچھ نرم بات لکھ جاتے ہو ، پھر دوسرے دھاگہ میں جاکر وہی پرانی رفتار اپنا لیتے ہو
برادرم فلسفہ کا بہت شکریہ۔
آپ کو احادیث کا بارے میں جواب دے چکا ہوں۔ آپ یہی کشتی ہر دھاگہ میں کھیلتے ہو، جبکہ آپ کو اس کے لئے ایک الگ دھاگہ عنائت کرچکا ہوں۔ اس باب میں، اس دھاگہ میں، میں نے اپنی بات کے لئے کسی آیت یا حدیث کا حوالہ نہیں دیا، اپنی بات کے ثبوت میں صرف عقلی اور منطقی بات کی۔ لیکن وہی ڈھاک کے تین پات۔ آپ کے ذہن پر ایک ہی بات سوار ہے۔ آپ میری بات مانتے ہی کیوں ہیں؟ بھائی کچھ اور پڑھ لو۔ میں‌نے کچھ حوالے دئے، جب ضرورت ہوئی جب دئے اب آپ حوالہ دیجئے۔ بہت آسان۔

اب آپ سے چند سوال۔
حدیث
آپ نے فرمایا تھا کہ نماز کتب روایات میں ہے۔ آپ سے عرض‌ہے کہ طریقہ نماز والی روایت کا حوالہ دے دیجئے تاکہ وہ لوگ جو مختلف طریقہ سے نماز پڑھتے ہیں۔ ان تک یہ بات پہنچا سکوں۔

قرآن حکیم۔
اللہ تعالی نے زکوۃ فرض‌فرمائی، آپ کا اور میرا اس پر اتفاق ہے۔ الحمد للہ۔
آپ کرم کیجئے اور قرآن نے زکوۃ وصدقات وصول کرنے پر جو احکامات صادر فرمائے، ان احکامات کی آیات اور وصول کرنے کے بعد، تقسیم کرنے پر حق کی جو آیات عطا فرمائیں۔ ان احکامات کی آیات فراہم فرمائیے۔

مزید کرم کیجئے، اللہ تعالی نے لباس زیب تن کرنے پر جو آیات عطا فرمائی ہیں ان آیات کو عطا فرمائیے۔

عموماَ طالب علموں کے پاس بنا کتاب دیکھے 3 گھنٹے ہوتے ہیں۔ آپ کے پاس 6 گھنٹے ہیں، کتاب دیکھ سکتے ہیں۔ پوچھ نہیں‌سکتے۔

والسلام۔
 
میرے کچھ لکھنے کو آپ پھر معاندانہ ۔ ذاتی عناد ۔ بچگانہ وغیرہ کہیں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ آپ کی تحریر پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ
آپ نے جو رٹا لگایا ہوا ہے وہ لکھتے جاتے ہیں اور غور نہیں کرتے کہ دوسرے نے کیا لکھا ہے اور آپ کیا اُدھر اُدھر کی لکھ رہے ہیں
یا
آپ نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ کوئی کچھ کہے آپ نے چیل کو عقاب کہتے جانا ہے ۔

ایسے شخص سے بحث کرنا بھینس کے سامنے ملہار راگ گانے کے برابر ہے ۔ اسلئے میں آپ کے ساتھ مزید بحث کر کے اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا ۔
اللہ ہمیں سیدھی راہ پر قائم کرے ۔

میری رائے بھی بالکل یہی ہے۔ ہمارے سوچنے کے انداز میں بہت فرق ہے۔ اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھائے، آپ کی ساتھ دعا میں‌شریک ہوں۔
والسلام
 
Top