گیارہویں سالگرہ محفلین

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
محفل پر صائمہ شاہ سے غائبانہ تعارف کافی رہا، ان کی بارعب شخصیت ہو، ان کے جھاڑ دینے کی عادت ہو، یا ان کی شاعرانہ پسندیدگی، ان کا ادبی معیار ہمیشہ اتنا بلند رہا کہ ان سے ایک غائبانہ سا خوف وابستہ رہا۔ ویسے بھی ان کی آمد ان دھاگوں پر ہوتی تھی (شاعری) جہاں میں آنکھیں بند اور قدم تیز کر کے نکل جاتا تھا۔ ان دنوں لندن آمد و رفت کافی رہتی تھی۔ کوشش ہوتی تھی کہ آمد و رفت کا سلسلہ سٹین سٹیڈ سے ہو کہ وہاں سے Tampere کے لیے براہ راست پرواز ہوتی ہے۔ تمپیرے میرے گھر سے نصف گھنٹہ کی ڈرائیو پر ہے تو ویسے بھی سہولت رہتی تھی۔
ہونی ہو کر رہتی ہے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ بھانجی کی پیدائش پر بعجلت جانا پڑا اور فلائٹ ہیتھرو کے لیے ملی۔ اتفاق کی بات دیکھیے کہ یہ دوسرا موقع تھا جب میرا سامان گم ہوا۔ میری عادت ہے کہ تاخیر پر مجھے کوئی الجھن نہیں ہوتی اگر بروقت معلومات ملتی رہیں۔ یورپی ایئرپورٹس پر چاہے جتنی تاخیر ہو یا جس وجہ سے بھی ہو، ہمیشہ آپ کو بروقت معلومات مہیا کی جاتی ہیں۔ اس روز کچھ گڑبڑ ہوئی اور دو بار لی گئی معلومات دو الگ طرح سے ملیں۔ یعنی الگ الگ جواب۔ اس چیز پر مجھے غصہ آیا اور میں نے وضاحت مانگ لی کہ آخر کون سی بات درست ہے۔ ظاہر ہے کہ یورپی ایئرپورٹ پر جب لہجہ تلخ ہو اور سامنے والا دیسی، تو معاملہ فوراً سکیورٹی تک جا پہنچتا ہے۔ معاملے کو سلجھانے کے لیے جو بندہ آیا، وہ شاید ناتجربہ کار تھا یا شاید اسے میری زبان سمجھ نہ آئی ہو، بہرحال اس نے افسرِ بالا کو بلا بھیجا۔
افسرِ بالا شومئ قسمت سے صائمہ شاہ نکلیں۔ ظاہر ہے کہ اس وقت جو بھی ڈیل کر رہے ہوں، انسان کی توجہ ان کی جانب اتنی نہیں ہوتی۔ صائمہ شاہ نے چھوٹتے ہی پہچان لیا۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ محفل پر اپنی تصاویر لگانے کا ایک یہ نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ خیر، انہوں نے بہت سہولت سے میرا مسئلہ حل کرایا۔ اصل پرابلم ہیتھرو کا بھی نہیں تھا اور نہ ہی ہیلسنکی والوں کا۔ خیر، چونکہ صائمہ نے کچھ ایسے تکنیکی کل پرزے ہلائے کہ جواب آ گیا کہ بیگیج مل گیا ہے اور نصف گھنٹے تک ڈلیور ہو جائے گا۔ اگر میں گھر جانا چاہوں تو سامان بعد میں بھی لیا جا سکتا ہے۔
میں نے سوچا کہ ابھی لے لوں، ورنہ بھانجے اور بھانجی کے لیے خالی ہاتھ جانا پڑے گا جو اچھی بات نہیں۔ اس روز صائمہ شاہ کی قیافہ شناسی کی بھی داد دینی پڑی تھی کہ انہوں نے اچھے میزبان کی حیثیت سے نہ صرف اپنے کام سے آدھا گھنٹہ فری لے لیا بلکہ ساتھ موجود کیفے نیرو پر کافی کی دعوت بھی دے دی۔ اللہ دے اور بندہ لے، محفلین سے میری کم ہی ملاقات ہوئی ہے۔ گنتی کے چبد اراکین ہی ہیں جن سے ملاقات رہی۔ باجو کے بعد صائمہ دوسری فی میل تھیں جن سے ملاقات ہو رہی تھی۔ سو، سوچا کہ دیکھنے میں تو وہ اتنی خطرناک نہیں لگ رہیں، تو تھوڑی سی بات چیت ہو جائے تو کیا برا ہے۔
کافی کے لیے انہوں نے پوچھا کہ دودھ اور چینی لوں گا تو میں نے انکار کیا کہ بلیک ہی ہو۔ یہ سن کر انہوں نے مجھے گھورا اور منہ پر ہی کہہ دیا، بلیک کافی پیئں گے؟ دماغ تو ٹھیک ہے؟ میں نے اپنے ذہن میں انہیں ایک منفی پوائنٹ تھما دیا کہ یہ رہا اس صاف گوئی کا انعام۔
خیر، ہماری گفتگو کا مرکز محفل ہی رہی، کیونکہ جتنا کم اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتیں، اتنا ہی ‘بِستی‘ کا امکان کم ہوتا۔ صائمہ شاہ محفل پر گنے چنے دھاگوں کی حد تک ہی ایکٹو ہوتی تھیں اور وہ زیادہ تر بقول میرے، ‘رونے دھونے والی شاعری‘ سے متعلق ہوتے تھے، اس لیے مجھے ہرگز احساس نہیں تھا کہ وہ محفل اور محفلین کو اتنی تفصیل سے جان سکتی ہیں۔ محفل پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کئی بار ایسی باتیں کیں کہ میں چونک گیا۔ محفل پر میں 2006 سے ہوں اور جب نہیں بھی ہوتا تو بھی کوئی نہ کوئی دوست ایسا ہوتا ہے جو محفل کے حالات و واقعات بتاتا رہتا ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ لائبریری موڈریٹر، ایڈمن اور پھر مختصر عرصے کے لیے جب ناظمِ اعلیٰ بنا تو بہت سی چیزیں ایسی محسوس ہوئیں جو شاید ایک عام رکن نہیں دیکھ پاتا۔ میری مراد اراکین کے رویے، ان کے رحجانات، ان کا گفتگو کرنے کا طریقہ وغیرہ ہیں۔
پہلے پہل جس رکن یا دھاگے کی بات ہوئی، صائمہ شاہ نے بالکل صاف اور واضح نکتہ نظر بیان کیا۔ اگر وہ دھاگہ تھا تو اس کے بارے ان کی معلومات اور اگر وہ انسان تھا تو محفل کی حد تک اس رکن کا رویہ، صائمہ شاہ کا تجزیہ میری معلومات کی حد تک بالکل درست تھا۔ اس سے میں کافی محتاط ہو گیا کہ وہ صرف شعر و شاعری کی حد تک محفل پر نہیں آتیں بلکہ جہاں اور جس موضوع کو مناسب سمجھتی ہیں، اس کا عمیق مطالعہ بھی ان کی عادت ہے۔ یاداشت کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا کہ کئی بار انہوں نے میری تصحیح کی تھی کہ یہ بات ایسے تھی، ایسے نہیں۔ ویسے بھی جس انسان کو سینکڑوں اشعار یاد ہوں، اس سے کیا مقابلہ ہو سکتا ہے۔ میں تو آج تک گنتی کے چند اشعار یاد کر سکا، اور جو یاد ہوتے ہیں، ان میں سے کسی کی ٹانگ توڑ دیتا ہوں تو کسی کا بازو۔ بعض دفعہ تو گردن بھی مروڑ جاتا ہوں (مفہوم بدل کر)۔
ابھی زیادہ بات چیت نہیں ہو پائی تھی کہ سامان پہنچ گیا اور چونکہ وہ آن ڈیوٹی تھیں، سو ان کا زیادہ وقت لینا مجھے مناسب نہیں لگا۔ کافی کا شکریہ میں نے ادا کیا تو بھانجی کی تصاویر کی فرمائش انہوں نے کی۔
اس کے بعد محفل پر ان سے مختصر سلام دعا ہوتی رہی۔ پھر انہوں نے سیاسی اور مذہبی دھاگوں پر بھی بات چیت شروع کی۔ ظاہر ہے کہ محفل بھی ہماری اپنی دنیا کی طرح میل ڈامینیٹڈ اور مخصوص نظریات رکھنے والے احباب پر مشتمل ہے (اور یہی وجہ ہے کہ میں نے محفل سے آخرکار مستقل رابطہ منقطع کرنے کا سوچا)، اس لیے بہت بار صائمہ شاہ کو صنفی اور مذہبی بنیادوں پر نشانہ بنایا گیا۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو محفل پر سبھی اراکین نے دیکھی ہوں گی، کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے، اس سے حقیقت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
محفل کے بہت سارے اراکین ایسے ہیں جن سے میرا رابطہ رہتا تھا۔ محفل پر بھی اور محفل سے ہٹ کر بھی۔ ایک یا دو اراکین کو چھوڑ کر باقی سب اراکین سے کہیں نہ کہیں مایوسی ہوئی۔ صائمہ شاہ واحد رکن رہیں کہ جنہوں نے شروع سے اب تک محفل والے تعلق کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے نبھایا بھی ہے۔ ابتدائی ڈر، خوف اور جھجھک ختم ہو گئی۔ اب مجھے کبھی کسی شعر کی سمجھ نہ آ رہی ہو، کوئی کتاب درکار ہو، کوئی خاص مضمون تلاش کرنا ہو یا کوئی بھی ایسا کام کہ جس کے لیے احباب گوگل کو تکلیف دیتے ہیں، اگر وہ اردو ادب سے کسی طور منسلک کام ہو تو میں نے صائمہ شاہ سے فرمائش کی اور مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی ان کے جواب سے میرے علم میں اضافہ نہ ہوا ہو یا کوئی کتاب ایسی ہو جو میں نے مانگی ہو اور انہوں نے کہیں سے پیدا کر کے نہ دی ہو۔ اس ضمن میں مجھے یاد ہے کہ سب سے پہلے میں نے اردو زبان میں مہا بھارت کی فرمائش کی تھی اور شاید نصف گھنٹے میں اس کی پوری سکین شدہ کتاب، تصاویر پر مبنی دوسری پی ڈی ایف وغیرہ انہوں نے مہیا کر دی تھیں۔
محفل پر کئی اراکین ہیں جن سے میرا تعلق رہا اور بہت اچھا تعلق رہا۔ ہماری ملاقات بھی ہوئی، مگر دو باتوں کی وجہ سے مایوسی ہوئی۔ اگر کبھی کسی کو ضرورت ہوئی تو انہوں نے رابطہ کیا اور ضرورت پوری ہوئی، مگر پھر اس کے بعد وہ ایسے کٹ آف ہو گئے جیسے میں نے کوئی دشمنی نبھائی ہو۔ کئی اراکین ایسے ہیں جو ضرورت پڑنے پر رابطہ کرتے ہیں، کام نکل جانے پر پھر ان کا پیغام بھی دکھائی نہیں دیتا۔ پیغام تبھی آتا ہے جب اگلا کام آن پڑتا ہے۔ خیر، دوستی اسی کا نام ہے اور میں نے جب تک ہو سکا، دوستیاں نبھائیں اور جب برداشت سے باہر ہوا تو کنارہ کشی اختیار کر لی۔ وجہ صرف اتنی سی ہے کہ ضرورت ہر انسان پر پڑتی ہے۔ اگر انسان اپنا وعدہ نہیں نبھا سکتا تو کم از کم قطع تعلق تو نہ کر لیے۔ آج بھی ان میں سے بعض احباب میسج کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر میں انہیں جواب نہیں دیتا کہ ۔۔۔ سو جن احباب نے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہو اور میں نے کسی بھی پیغام کا جواب نہ دیا ہو، وہ سمجھ جائیں کہ جب دوستی ایک جانب کی غرض تک ہی محدود ہو جائے تو ترکِ تعلق ہی بہتر راستہ ہوتا ہے۔ اسی لیے میں نے محض صائمہ شاہ پر ہی مضمون لکھنے کا ارادہ کیا اور اس پر عمل بھی کیا (دوسرا مضمون لکھتا تو وہ سعود بھائی ہوتے، مگر ان سے رابطہ اتنا کم ہو گیا ہے کہ لکھنے کا دل ہی نہیں چاہا)۔امید ہے کہ صائمہ شاہ کو برا نہیں لگا ہوگا۔ اگر لگا ہو تو انہوں نے لگی لپٹی رکھے بنا کہہ دینا ہے۔
صائمہ شاہ ایک دوست ہیں، قابلِ فخر دوست۔ ایک ایسا دوست جو آپ کے منہ پر آپ کی خامی بتا دے اور پیٹھ پیچھے آپ کو بتائے اور جتائے بغیر آپ کی حمایت کرے۔ ایسے دوست نہیں ملتے کہ دوستی کی یہ قسم ہر غرض سے بالاتر ہوتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ چونکہ میں خود کوئی دودھ کا دھلا نہیں، اس لیے مجھے دوست بھی ویسے ہی ملتے رہے جیسا کہ میں خود ہوں۔ مگر صائمہ شاہ کی دوستی میرے لیے قابلِ فخر ہے۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ اگر دنیا میں اپنے بہن بھائیوں کے بعد میں کسی انسان پر بھروسہ کر سکتا ہوں تو وہ صائمہ شاہ ہی ہیں۔
چونکہ محفل کی سالگرہ کا وقت ہے اور کئی اراکین مجھے محفل پر بلانے کی کوشش کر چکے ہیں اور میں انہیں صاف انکار کر چکا ہوں کہ اگر آیا تو اپنی مرضی سے آؤں گا، ورنہ نہیں آؤں گا۔ اب محفل پر واپسی کا واحد مقصد صائمہ شاہ کا شکریہ ادا کرنا ہے اور محفل کا بھی، کہ اسی محفل سے مجھے اتنی اچھی دوست ملیں۔
تھینک یو صائمہ شاہ، تھینک یو ویری مچ​
دلچسپ لکھا!
رواں طرز تحریر اور بہت اچھا لگا صائمہ شاہ کے بارے میں جان کر۔
 
Top