سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016 تبصرے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حمدیہ اشعار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو نورِ سماوی ، تو نور ِ زمانی
نبی سارے تیری ہیں نوری نشانی

محمد ﷺ میں تیری ہے حکمت مکمل
بشر کی وہ صورت میں تیرا تجمل
=======
نعتیہ اشعار
مقامِ حرا ، معرفت سے ضُو پائی
نبوت سے ظلمت جہاں کی مٹائی

خشیت سے جسمِ مطہر تھا کانپا
خدیجہ نے کملی سے انہیں تھا ڈھانپا


منور ،منقی تجلی سے سینہ
پیامِ خدا سے ملا پھر سفینہ

چراغِ الوہی جلا مثلِ خورشید
تجلی میں جس کی، خدا کی ملےدید

=========
اسے میرے احساس ہی سے ہے نفرت
بجھا چاہتا ہے چراغِ محبت

مداوا غمِ دل کا ہوگا بھی کیسے
کہ زخموں سے ہونے لگی ہے محبت
===================
خواب دیکھوں میں بہارِ شوق کا
مت مچا تو شور اب زنجیر سے

سب تمنائیں ہوئیں اب نور ختم
مت ڈرا ہمدم مجھے تقدیر سے
===============


فراق یارکا ہر لمحہ بے قرار ہوا
سرابِ دشت مرے عشق کا گماں ٹھہرا
حریمِ دل کے بیابان میں ڈھونڈتے پھرتے
غزالِ دشت نے پھر نغمہء فغاں چھیڑا
صدائے نغمہء آہو کا سحر طاری تھی
وصالِ یار حقیقت نہیں فسانہ ہے
مگر فسانہ حقیقت سے کچھ بعید نہ تھا
کشان غم کی تپش سے جو اضطراب بڑھا
ترے خیال کی شدت نے مجھ کو آ تھاما
وصالِ یار کے لمحوں سے پیارا ہجر مجھے
=======================​

ہم نشیں تو خزاں کی بات نہ کر
ہے تخییل سے دور اک وادی
آج کل میں وہاں مکیں ہوتے،
خود ہی تجھ سے میں اب بچھڑ رہی ہوں،
یوں سمجھنا کہ اب بکھر رہی ہوں،
بیچ حائل سراب کا پردہ !
اس کی جھالڑ کو توڑ کے میں نے
سب نہاں کو عیاں کیامیں نے
شان سے جو براجماں تھے تم
دل کی وہ راجدھانی میں خود سے
توڑ کے زخمی ہاتھ کیا کرتی؟
خون رستا رہا کبھو کا ہے!
دل کے برباد کاخ و کو کرتی؟
جا بجا اس میں تیرے تھے شیشے
کانچ کی طرح جانے کیوں بکھرے
خستگی پر غشی سی طاری ہے
یہ گماں ہے نزع کی باری ہے
اک صنم خانہ دل کا ٹوٹاہے
ہم نشیں تو خزاں کی بات نہ کر
موسموں کی ،رتوں کی بات نہ کر
چاہتوں کی ، وفاؤں کی باتیں
فاصلوں کی عطا نہیں ہوتی
چاہتوں کی قضا نہیں ہوتی
=========​

واہ واہ ، بہت خوب ! آپ کے اشعار آپ کی عقیدتوں کے آئینہ دار ہیں ۔ بہت داد آپ کے لئے!
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بس ایک گھر ہو خدائی میں کائنات مری
مرے خدا ! مجھے اتنی بڑی خدائی دے
واہ واہ!! کیا بات ہے ! ایمان صاحبہ۔ بہت خوب !!
درد سے جس کی خوب بنی ہو،جس نے دل پہ چوٹ سہی ہو،
وہ ہی شیلے ،کیٹس بنا ہے ، وہ ہی غالب ،میر ہوا ہے
آہا ہا ! کیا اچھا کہا ہے !! بہت عمدہ! اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ!
 

محمد وارث

لائبریرین
آداب۔۔۔ ابتدا ایک فی البدیہہ غزل سے

مانی اپنے من میں گر جھانکا کروں
عیب اوروں کے نہ یوں ڈھونڈا کروں
لوگ اس قابل نہیں اس دور کے
اب کسی سے میں محبت کیا کروں؟
بولنے مجھ کو پڑیں گے لاکھ جھوٹ
تا کہ ثابت خود کو میں سچا کروں
بک رہا ہوں ایک میٹھے بول پر
یار! خود کو سستا اور کتنا کروں؟
گفتگو سانسوں سے کریں سانسیں اور
لب سے لب پر اک غزل لکھا کروں
دیکھ کر ان میں سنوارو خود کو تم
اپنی آنکھوں کو میں آئينہ کروں؟؟؟
خوں سے لت پت وادئی کشمیر ہے
ایسے میں اب ذکر_گیسو کیا کروں؟
اور کوئی بھاتا نہيں اس الّو کو
دل کا مانی میں کروں تو کیا کروں
چاہتا ہوں گر برے اچھے بنیں
میں بروں کے ساتھ اچھا کروں
بھول جاؤں؟ یاد رکھوں؟ سوچ لوں؟
یوں کروں؟ ایسا کروں؟ ویسا کرو؟
اے خدا اتنی تو مجھ کو چھوٹ دے
میرا جب جی چاھے مر جایا کروں


پڑا پاؤں ہوں جوڑے ہاتھ بھی ہیں پر نہیں بنتے
ترے کوچے کے پنچھی میرے نامہ بر نہیں بنتے
خبر ان کو ہو کیسے وسعت_افلاک کی ہائے
یہ وہ کرگس ہیں جو پرواز میں شہپر نہیں بنتے
اسے کیا علم ہے کیا قطرۂ نیساں حقیقت میں
شکم میں جس صدف کے عنبر و گوہر نہیں بنتے
کوئی فرعون کہہ دے گا کہ موسیٰ کو ہزیمت دو
بس اک اس خوف سے ہم لوگ جادوگر نہیں بنتے
تھی لطف_وصل تو اوقات سے باہر کی شہ اے دل
مگر کچھ خواب کیوں پلکوں کے ہم بستر نہیں بنتے
بیاں ہے شعبدہ بازی فقط گفتار کے غازی
يہ زاہد گلشن_ ملت کے برگ و بر نہیں بنتے
يہ اہل_عشق اہل_اشک بھی ہوتے ہیں مانی جی
تمہیں کس نے کہا یہ یار_ چشم_ تر نہیں بنتے

ہمارا ہر عمل جب تابعِ قرآن ہوتا تھا
یقیں کیجے کہ تب جینا بہت آسان ہوتا تھا
مری دنیا خوشی کے پنچھیوں کا آشیانہ تھی
یہ تب کی بات ہے جب آدمی انسان ہوتا تھا
عوض قرضوں کے حرمت قوم کی بیچی نہ جاتی تھی
جسے اب فائدہ کہتے ہیں وہ نقصان ہوتا تھا
وکالت کفر کی کرتے نہ تھے ابلاغ والے تب
قلم کاروں کی سچائی پہ سب کو مان ہوتا تھا
یہ پختون اور سندھی یہ بلوچی اور پنجابی
سبھی اک تھے سبھی کی شان پاکستان ہوتا تھا
یہ وہ ہے جس کی مٹی کی مہک ایمان ہوتا تھا
یہ وہ ہے جو نشانِ عزمِ عالی شان ہوتا تھا

آخر ميں ایک پرانی غزل

اب ایسا ظلم تو اے حضرتِ صیّاد مت کیجے
قفس سے عشق ہے ہم کو ہمیں آزاد مت کیجے
بلائے ہجر کو یوں تیشۂ فرہاد مت کیجے
یہ کوہِ چشم ہے یاں جوئے اشک ایجاد مت کیجے
اجی قبلہ! زمانہ منکرِ توحید سمجھے گا
خدا کا گھر ہے دل ...دل میں صنم آباد مت کیجے
خیالِ مرگ باعث بن گیا ہے دل کی راحت کا
دکھا کر خواب جینے کا اسے نا شاد مت کیجے
ہے اظہارِ فنِ نشتر زنی کا شَوق مژگاں کو
جگر پر تیر ہنس کے کھائیے فریاد مت کیجے
نہیں انکار مانی کو کہ ربط ان کو عدو سے ہے
مگر یہ کیا نصیحت ہے کہ ان کو یاد مت کیجے

اب اجازت چاہوں گا۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔
نوٹ:بطور قاری شامل رہوں گا مشاعرے میں

واہ واہ عباسی صاحب، بہت خوب۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تمام احباب کو محفل کی گیارھویں سالگره بہت بہت مبارک ہو۔
مشاعرے کے منتظمین اور شرکاء نے اس مشاعرے میں چار چاند لگا دیے ہیں۔
یہ خاکسار بھی چند بے ڈھب سے اشعار غزل کے نام پر لے کر حاضرِ خدمت ہے۔
پہلے ایک زیرِ ترتیب غزل سے چند اشعار
-----------------------------------
نگاہِ ناز نے بھٹکا دیا تھا تقریباََ
تُو ریگزارِ محبّت سے بال بال بچا !

ذرا سا بیٹھ کے پھر سوچ لے محبّت پر
یہ چند لمحے خرچ کر کے ماہ و سال بچا !

شکار گھات لگائے تھا خود شکاری پر
وہی ہوا کہ شکاری بچا ، نہ جال بچا !

صفِ عدو سے نکل کر تو دوستوں میں ہے اب
جو وار پشت سے ہو، اس کو اب سنبھال ، بچا !

-----------------------------------
ایک تازہ غزل پیش کر رہا ہوں۔ آپ احباب کی توجہ چاہونگا۔

مطلع عرض کیا ہے۔
سرابِ زندگی میں ہوں رواں آہستہ آہستہ !
بڑھا جاتا ہے رنجِ رفتگاں آہستہ آہستہ !

بھلا لگتا ہے جب میں دیکھتا ہوں ایک آہنگ میں
ہوا میں پٹ ہلاتی کھڑکیاں آہستہ آہستہ !

یہ سگریٹ منظرِ شامِ غریباں پیش کرتی ہے
بھرا کرتی ہے کمرے میں دھواں آہستہ آہستہ!

بہت ہی سست ہے منظر کلی سے پھول بننے کا
نہاں ہوتا ہے آخر خود، عیاں آہستہ آہستہ!

سبق لے سیکھ لے دل گفتگو میں خود ستائش کی
بھری جاتی ہیں کیسے چسکیاں آہستہ آہستہ!

کسی کی یاد سے چونکا ہوں یا پھر واقعی یہ ہے
گھلی ہیں چائے میں کچھ تِلخیاں آہستہ آہستہ!

اور غزل کا مقطع پیش کر رہا ہوں۔
میں شہرِ غم میں کاشف ایسی تاریخی جگہ پر ہوں
گَلی دیوارِ گریہ بھی جہاں آہستہ آہستہ !
سیّد کاشف
-----------------------------------

مشاعرے کے لئے ایک طرحی غزل بھی پیش کرنے کی اجازت چاہونگا۔

چچا غالب کی غزل کا مصرع ہو اور دل نا مچلے ! ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا !


بے قراری کا یہ جُز، کیا قربتِ منزل میں ہے ؟
یا خمیرِ ذات کا حصّہ ہے، میری گِل میں ہے ؟


دم بہ دم اک جستجو، دریا بہ دریا جُو بہ جُو
ہے مزا جو اس تگ و دو میں، کہاں حاصل میں ہے!

پھر نئے طوفاں سے ہونگے برسرِ پیکار ہم
اس توقع کی وجہہ کچھ دوریءِ ساحل میں ہے

اک سراب آرزو سے ہم ہوئے ہیں دستکش
پیش انجانا سفر اب اک نئی منزل میں ہے

اے نشاطِ امتحاں، مدّت وہ دل کو شاق ہے
عرصۂِ امن و اماں، جو ہر پسِ مشکل میں ہے!

میری کاوش کے قصیدے کل عدو کے لب پہ تھے
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"!



ڈھونڈ لائے کاش وہ روشن نگیں غیروں سے تُو
اصل میں گھر جس کا تیرے سینہءِ غافل میں ہے

شاخ سے گرتے ہوئے پتّے پہ دل چھوٹا نہ کر
جانے کس کس زندگی کا حل اسی مشکل میں ہے

عالمِ امکاں میں سب نقشِ قدم ہیں معتبر !
اور اسبابِ سفر کاشف رہِ منزل میں ہے
سیّد کاشف
----------------------------
ایک بار پھر تمام منتظمین کو اس کامیاب مشاعرے کے انعقاد پر دلی مبارکباد۔

لطف آیا آپ کی غزلیات پڑھ کر سید کاشف صاحب، خوب اشعار نکالے ہیں آپ نے، لاجواب۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے اس شاندار مشاعرے میں شریک ہونے کا موقع دیا گیا۔ اس کے لیے آپ سب کا شکرگزار ہوں۔
زیادہ نہیں، بس دو ہی غزلیں لے کر حاضر ہوا ہوں۔ پہلی مصرع طرح کے مطابق ہے۔ عرض کیا ہے:
ناخدایا گوہر مقصود کس ساحل میں ہے؟
جوش زن موج تمنائے معانی دل میں ہے
کیوں چلوں طے کردہ راہوں پر مثال گوسفند
جستجو دل کی تلاش رہبر کامل میں ہے
چشمِ مہر و ماہ مثلِ دیدۂ جوہر بنی
ایک عالم انتظار جوہر قابل میں ہے
حاملِ خاصیتِ صحرا نوردی اب بھی ہیں
ہے جنوں محمول لیلیٰ پر اگر محمل میں ہے
مدعا پانے کا دعویٰ کون کر پائے منیب
عزمِ آغازِ سفر مدعو ہر اک منزل میں ہے​
بعد اس کے،
گم نہ رہ سوچ میں تو دیکھ کے چل کچھ مت سوچ
ذہن کی بھول بھلیوں سے نکل کچھ مت سوچ
دل اندھیرے کا تری آگ سے ہو جائے گا موم
موم بتی کی طرح چپکے پگھل کچھ مت سوچ
روشنی بانٹ اگر سینہ ترا روشن ہے
کیوں ہیں اوروں کے بجھے دل کے کنول کچھ مت سوچ
معرفت ڈھونڈ سرِ راہِ طلب زیرِ شجر
میرے گوتم! پسِ دیوارِ محل کچھ مت سوچ
بیج بو بیج یہ دنیا ہے عمل کی کھیتی
فصل ناکام رہے گی کہ سپھل کچھ مت سوچ
اژدھا ڈر کا مقابل ہو تو تلوار نکال
وہم کے سانپ کو پتھر سے کچل کچھ مت سوچ
زندگی جنگ ہے لمحات سے لڑنا ہے تجھے
جیتنا چاہے تو دورانِ جدل کچھ مت سوچ
خود کو مصروف رکھ اس آج کے عرصے میں منیب
کل کا سوچیں گے جب آ جائے گا کل کچھ مت سوچ

بہت شکریہ!
خوب غزلیں ہیں منیب صاحب، آپ کی "کچھ مت سوچ "نے کافی کچھ سوچنے پر مجبور کیا اور کیا خوبصورت آواز پائی ہے آپ نے، لاجواب۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سب سے پہلے تو اہلِ محفلین کو دلی مبارک باد !
سب حاضرین کو السلام علیکم

میں کچھ متفرق اشعار پیش کرنا چاہوں گی ۔۔۔ نیا تو کچھ خاص لکھ نہیں پائی ہوں اس لیے پرانا کلام ہی حاضر خدمت ہے ۔۔۔۔۔

حمدیہ اشعار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو نورِ سماوی ، تو نور ِ زمانی
نبی سارے تیری ہیں نوری نشانی

محمد ﷺ میں تیری ہے حکمت مکمل
بشر کی وہ صورت میں تیرا تجمل
=======
نعتیہ اشعار
مقامِ حرا ، معرفت سے ضُو پائی
نبوت سے ظلمت جہاں کی مٹائی

خشیت سے جسمِ مطہر تھا کانپا
خدیجہ نے کملی سے انہیں تھا ڈھانپا


منور ،منقی تجلی سے سینہ
پیامِ خدا سے ملا پھر سفینہ

چراغِ الوہی جلا مثلِ خورشید
تجلی میں جس کی، خدا کی ملےدید

=========
اسے میرے احساس ہی سے ہے نفرت
بجھا چاہتا ہے چراغِ محبت

مداوا غمِ دل کا ہوگا بھی کیسے
کہ زخموں سے ہونے لگی ہے محبت
===================
خواب دیکھوں میں بہارِ شوق کا
مت مچا تو شور اب زنجیر سے

سب تمنائیں ہوئیں اب نور ختم
مت ڈرا ہمدم مجھے تقدیر سے
===============


فراق یارکا ہر لمحہ بے قرار ہوا
سرابِ دشت مرے عشق کا گماں ٹھہرا
حریمِ دل کے بیابان میں ڈھونڈتے پھرتے
غزالِ دشت نے پھر نغمہء فغاں چھیڑا
صدائے نغمہء آہو کا سحر طاری تھی
وصالِ یار حقیقت نہیں فسانہ ہے
مگر فسانہ حقیقت سے کچھ بعید نہ تھا
کشان غم کی تپش سے جو اضطراب بڑھا
ترے خیال کی شدت نے مجھ کو آ تھاما
وصالِ یار کے لمحوں سے پیارا ہجر مجھے
=======================​

ہم نشیں تو خزاں کی بات نہ کر
ہے تخییل سے دور اک وادی
آج کل میں وہاں مکیں ہوتے،
خود ہی تجھ سے میں اب بچھڑ رہی ہوں،
یوں سمجھنا کہ اب بکھر رہی ہوں،
بیچ حائل سراب کا پردہ !
اس کی جھالڑ کو توڑ کے میں نے
سب نہاں کو عیاں کیامیں نے
شان سے جو براجماں تھے تم
دل کی وہ راجدھانی میں خود سے
توڑ کے زخمی ہاتھ کیا کرتی؟
خون رستا رہا کبھو کا ہے!
دل کے برباد کاخ و کو کرتی؟
جا بجا اس میں تیرے تھے شیشے
کانچ کی طرح جانے کیوں بکھرے
خستگی پر غشی سی طاری ہے
یہ گماں ہے نزع کی باری ہے
اک صنم خانہ دل کا ٹوٹاہے
ہم نشیں تو خزاں کی بات نہ کر
موسموں کی ،رتوں کی بات نہ کر
چاہتوں کی ، وفاؤں کی باتیں
فاصلوں کی عطا نہیں ہوتی
چاہتوں کی قضا نہیں ہوتی
=========​

بہت خوبصورت کلام ہے نور صاحبہ، بہت داد قبول کیجیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
لیجئے ہم بھی حاضر ،تاخیر کی معذرت

غزل
تو اپنی زات کے زنداں سے گر رہائی دے۔
تو مجھ کو پھر میرے ہمزاد کچھ دکھائی دے ۔
بس ایک گھر ہو خدائی میں کائنات مری ،
مرے خدا ! مجھے اتنی بڑی خدائی دے ۔
میں اُسکو بھولنا چاہوں تو گونج کی صورت ،
وہ مجھ کو روح کی پاتال میں دکھائی دے ۔
بجھا چکا ھے زمانہ چراغ سب لیکن !
یہ میرا عشق کہ ہر راستہ دکھائی دے ۔
ہمارے شہر کے سوداگروں کی محفل میں،
وہ ایک شخص کہ سب سے الگ دکھائی دے ۔
اُسے غرور ِ عطا ہے ،کوئی تو اب آ ئے ،
جو اُس کے دست میں بھی کاسہِ گدائی دے۔
پلٹ بھی سکتی ہوں ایماں فنا کی راہوں سے،
اگر کوئی مجھے اُس نام کی دُھائی دے ۔

------

غزل
ایک ادھورے خواب کا منظر آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
راتوں کا وہ چاند بنا ہے ، صبحوں کی تعبیر ہوا ہے ۔
درد سے جس کی خوب بنی ہو،جس نے دل پہ چوٹ سہی ہو،
وہ ہی شیلے ،کیٹس بنا ہے ، وہ ہی غالب ،میر ہوا ہے۔
ہجر کی اندھی شش جہتوں میں،ذات کی سجدہ گاہوں میں
عشق ہمارا مرشد ِ اولیٰ ،عشق ہی قبلہ پیر ہوا ہے ۔
کیا کیا منظر دکھلائے ہیں ،وقت کے رستے زخموں نے
دکھ کا گہرا سناٹا اب آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
آنکھ کی رتھ پر بیٹھا سپنا ، اس کا نام ہی جپتا ہے ۔
جس غزنی کے ہاتھ سے میرا دل مندر تسخیر ہوا ہے ۔
صرف ِ نظر سے کیسے کیسے کم ظرفوں کو ظرف ملا ہے
اور ہماری آنکھ کا تنکا ہر اِک کو شہتیر ہوا ہے ۔
آج بھی میرے سر کی چادر ،تیرے عشق کا حجرہ ہے ۔
آج بھی تیرا نقش ِ کف ِ پا ، قدموں کی زنجیر ہوا ہے ۔
لفظ بنے ہیں میری شہرت ،عشق ہوا ہے وجہ ِ شہرت
ایک کئیے ہے ہر سو رسوا،ایک مری تشہیر ہوا ہے ۔
عشق دھمالیں ڈالتی آئی رانجھا رانجھا کرتے ہیر
لیکن کیا کوئی رانجھا اب تک ،عشق میں مثل ِ ہیر ہوا ہے۔
ایماں ایک زمیں زادے کے عشق کا ہے اعجاز فقط
یہ جو ایک سخن دیوی سے شعر نگر تعمیر ہوا ہے ۔

---
لاجواب، بہت خوبصورت کلام ہے، واہ واہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ سب کو

سلام کے بعد ایک غزل حاضر هے

ﺷﺮﺍﺭﺗﯿﮟ ﺑﻬﯽ ، ﻣﺤﺒﺖ ﺑﻬﯽ ، ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯽ ﺑﻬﯽ
ﻋﺠﯿﺐ ﺳﯽ ﮨﮯ ﺻﻨﻢ ! ﺁﭖ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺑﻬﯽ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻗﺮﺏ ﮐﯽ ﻟﺬﺕ ﺳﮯ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﻭﺍﻗﻒ
ﺑﺴﺮ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ، ﺑﻨﺎ ﺗﻢ ﯾﮧ ﺯﻧﺪﮔﺎﻧﯽ ﺑﻬﯽ
ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﺷﻮﻕ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﻮ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﻗﺼﻮﮞ ﮐﺎ
ﺍﺳﮯ ﺳﻨﺎﻧﺎ ﮐﺴﯽ ﺩﻥ ﻣﺮﯼ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺑﻬﯽ
ﻭﮨﯽ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺣﺴﯿﻨﮧ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﺎﺅﮞ ﮐﯽ
ﻣﻠﯽ ﮨﮯ ﻣﻮﺕ ﺑﻬﯽ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭ ﺯﻧﺪﮔﺎﻧﯽ ﺑﻬﯽ
ﻭﮦ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﺮﺟﻨﮯ ﺳﮯ ﮈﺭ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ خٹکؔ
ﻣﺠﮭﮯ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺏ ﺑﺮﺳﺘﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﻬﯽ

ایک اور بھی برداشت کی جیے


ﺟﺐ ﭘﮍﯼ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﺗﺐ ﻣﻠﯽ ﺧﻮﺏ ﻋﺪﺍﻭﺕ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﺭﮨﺎ ﻏﯿﺒﺖ ﻣﯿﮟ
ﺍﺏ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮨﮯ ﺗﮩﻤﺖ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﻨﮩﺎ ﺍﺱ ﮐﻮ
ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﻭﮦ ﺟﻔﺎ ﮐﺎﺭ ﺟﻔﺎ ﮐﺮ ﮔﺰﺭﺍ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺨﺸﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺩﻭﻟﺖ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﭘﻬﺮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﻬﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﮞ ﭘﺎﯾﺎ
ﺟﺐ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﮯ ﭼﺎﮨﺖ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ

شکریه
بہت داد قبول کیجیے جناب واسطی خٹک صاحب۔
 
خوب غزلیں ہیں منیب صاحب، آپ کی "کچھ مت سوچ "نے کافی کچھ سوچنے پر مجبور کیا اور کیا خوبصورت آواز پائی ہے آپ نے، لاجواب۔
آداب و تسلیمات! حضور کی قدردانی یکے از نعائم سبحانی ہے۔
آپ سوچنے پر مجبور ہو گئے ۔۔ :) یہ تو الٹا اثر ہو گیا۔ میرا خیال ہے مجھے اس شعر کا اضافہ کر دینا چاہیے:
آپ اتریں گے مطالب ترے دل پر اس کے
اخذ مطلب کے لیے پڑھ کے غزل کچھ مت سوچ​
 
آخری تدوین:
مجھے تمام دوستوں سے معذرت کرنی ہے کہ میں کچھ بنیادی سہولیات کے انقطاع کی وجہ سے بروقت حاضر نہیں ہو سکا

ھم کتابوں کی طرح زنده رهیں گے انور
هم تیرے شهر کا اخبار نهیں هوسکتا

انکل آپ همیشه ھمارے دلوں میں ھیں۔۔۔الله آپ کی توفیقات خیر میں اضافه فرمائے۔ آمین
 
مشاعرہ جمود کا شکار ہو چلا ہے .لگتا ہے پنڈال خالی ہے .بیچارے شاعر حضرات خود کو ہی کلام سنا کر چلتا بن رہے ہیں . کہیں سے سامعین کا بندو بست کیا جائے ..
مکمل طور سے متفق ہوں۔
بالکل ٹھنڈا پڑا ہوا ہے ! :)
جو لوگ ہیں وہ بھی واجبی سی دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں۔:sneaky:
 
نگاہِ ناز نے بھٹکا دیا تھا تقریباََ
تُو ریگزارِ محبّت سے بال بال بچا !
ذرا سا بیٹھ کے پھر سوچ لے محبّت پر
یہ چند لمحے خرچ کر کے ماہ و سال بچا !

-----------------------------------
سرابِ زندگی میں ہوں رواں آہستہ آہستہ !
بڑھا جاتا ہے رنجِ رفتگاں آہستہ آہستہ !
بہت ہی سست ہے منظر کلی سے پھول بننے کا
نہاں ہوتا ہے آخر خود، عیاں آہستہ آہستہ!
میں شہرِ غم میں کاشف ایسی تاریخی جگہ پر ہوں
گَلی دیوارِ گریہ بھی جہاں آہستہ آہستہ !
-----------------------------------
دم بہ دم اک جستجو، دریا بہ دریا جُو بہ جُو
ہے مزا جو اس تگ و دو میں، کہاں حاصل میں ہے!
پھر نئے طوفاں سے ہونگے برسرِ پیکار ہم
اس توقع کی وجہہ کچھ دوریءِ ساحل میں ہے
میری کاوش کے قصیدے کل عدو کے لب پہ تھے
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"!

شاخ سے گرتے ہوئے پتّے پہ دل چھوٹا نہ کر
جانے کس کس زندگی کا حل اسی مشکل میں ہے
محترم کاشف اسرار احمد بھیا، بہت خوب، اچھا کلام عطا کیا آپ نے۔ کچھ اشعار پر تو بے ساختہ واہ واہ ہو گئی۔ سلامت رہیں۔
 
آخری تدوین:
نگاہِ ناز نے بھٹکا دیا تھا تقریباََ
تُو ریگزارِ محبّت سے بال بال بچا !

ذرا سا بیٹھ کے پھر سوچ لے محبّت پر
یہ چند لمحے خرچ کر کے ماہ و سال بچا !

-----------------------------------
سرابِ زندگی میں ہوں رواں آہستہ آہستہ !
بڑھا جاتا ہے رنجِ رفتگاں آہستہ آہستہ !

بہت ہی سست ہے منظر کلی سے پھول بننے کا
نہاں ہوتا ہے آخر خود، عیاں آہستہ آہستہ!

میں شہرِ غم میں کاشف ایسی تاریخی جگہ پر ہوں
گَلی دیوارِ گریہ بھی جہاں آہستہ آہستہ !
-----------------------------------
دم بہ دم اک جستجو، دریا بہ دریا جُو بہ جُو
ہے مزا جو اس تگ و دو میں، کہاں حاصل میں ہے!

پھر نئے طوفاں سے ہونگے برسرِ پیکار ہم
اس توقع کی وجہہ کچھ دوریءِ ساحل میں ہے

میری کاوش کے قصیدے کل عدو کے لب پہ تھے
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"!


شاخ سے گرتے ہوئے پتّے پہ دل چھوٹا نہ کر
جانے کس کس زندگی کا حل اسی مشکل میں ہے
محترم کاشف اسرار احمد بھیا، بہت خوب، اچھا کلام عطا کیا آپ نے۔ کچھ اشعار پر تو بے ساختہ واہ واہ ہو گئی۔ سلامت رہیں۔
میں آپ کی محبتوں کا مقروض ہوا بھائی !
جزاک اللہ۔
 
Top