سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016 تبصرے

Abbas Swabian

محفلین
بسم الله الرحمن الرحیم۔


میری میت میں سبب کیوں ڈھونڈتے ہو موت کا
قتل کا واضح اثر جب ترکش قاتل میں ہے

وقت کی رفتار کا کرتے ہو کیوں اکثر سوال
جب ضیاع وقت شامل عادت کاہل میں ہے


ہر پریشانی سے ہٹ کر ہے تمہارا انتظار
ہجر سے تیرے ہماری زندگی مشکل میں ہے

موت سے میری اگر ممکن ہے پھولوں کی حیات
خوش رہو یہ زندگی پھر آخری منزل میں ہے

ڈھونڈتے ہو کیوں علاج غم ادھر کوئی ادھر
تیرے ہر غم کا مداوا نسخہ کامل میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


روٹھنے والے بتا لوٹ کے. کب آوگے
تجھ سے ملنے کا ہے ارمان خدا خیر کرے

عرش والے کی اجازت تو ضروری ہے مگر
کب تلک ہوگا یہ امکان خدا خیر کرے


بهت شکریه

بہت خوبصورت کلام۔ ماشاءاللہ۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سبحان اللہ ، سبحان اللہ !! بلال میاں کیا بات ہے !!! بہت ہی پسند آئی یہ غزل !!! رنگ جمادیا آپ نے!! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!! کیا اچھے اشعار ہیں !!

تم نے اِس بار تخاطب ہی بدل ڈالا ہے
ورنہ یاروں سے ہوئے یار کئی بار جدا

ایک حلقہ سا کھنچا ہے مرے چاروں جانب
پھر بھی دیوار سے ہے سایۂ دیوار جدا

کیا بات ہے! سلامت رہیئے !! واہ واہ
زہے نصیب
آپ ایسے صاحبِ فن کا یہ مراسلہ میرے لئے بہت اہم ہے۔
بیحد شکر گزار ہوں۔
بابا جانی کی شفقت کا مقروض ہوں کہ انہوں نے اس قابل کیا۔
:) :) :)
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہ
بہت خوب

وقت کی رفتار کا کرتے ہو کیوں اکثر سوال
جب ضیاع وقت شامل عادت کاہل میں ہے

داستان عشق ہے اطہر رموز زندگی
میرا مقصود سخن , ہربیت کے حاصل میں ہے

روٹھنے والے بتا لوٹ کے. کب آوگے
تجھ سے ملنے کا ہے ارمان خدا خیر کرے

عرش والے کی اجازت تو ضروری ہے مگر
کب تلک ہوگا یہ امکان خدا خیر کرے
بہت سی دعاؤں بھری داد
ڈھیروں دعائیں
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت بہت شکریہ سر جی۔
السلام علیکم۔
غزل
میرا اب درد کم نہیں ہوتا
پھر بھی چہرے پہ غم نہیں ہوتا
دل تو میرا اداس ہے لیکن
آنکھ میں میری نم نہیں ہوتا
درد سینے میں دفن رہتا ہے
ہاتھ میں جب قلم نہیں ہوتا
دل سے جو بات بھی نکلتی ہے
اثر اس کا عدم نہیں ہوتا
سلسلہ تیری آہ کا شاہین
اک ذرا بھی تو کم نہیں ہوتا
کیا کہنے عباس صاحب، بہت خوب۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اردو محفل اور تمام منتظمین کو گیارہویں سالگرہ کے موقع پر عالمی اردو مشاعرہ کے کامیاب انعقاد پر دلی مبارکباد

سب سے پہلے ایک نعت کے دو اشعار

جب حشر کا دن ہو، تری قربت ہو میسر
کیا اتنی اجازت ہے مرے پیارے محمدﷺ

جو کچھ بھی ملا ہے، ترےؐ صدقے میں ملا ہے
کافی یہی نسبت ہے میرے پیارے محمدﷺ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
کچھ متفرق اشعار پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا

پھر وہی شامِ غریباں کا دھواں آنکھوں میں
پھر وہی ہاتفِ غیبی کی صدا، جانے دے

میری دریوزہ گری بھی مجھے اب راس نہیں
سو مرے کوزہ گرِ حرفِ دعا! جانے دے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم چاند کی کرنوں کو سنبھالے ہوئے رکھو
وہ نور کی صورت سرِ محرابِ دعا آئے

لفظوں کا اجالا ہے جو تم دیکھ رہے ہو
خوشبو سی سماعت ہے، تمہیں کون بتائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہی ہیں وہ، جنہیں زعمِ شناوری تھا بہت
کنارِ نیل جو پہنچے تو ناؤ چاہتے ہیں

یہ پارسا جو طریقت کی بات کرتے ہیں
یہ داغ داغ ہیں، اپنا بچاؤ چاہتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آخر میں ایک غزل کے ساتھ اجازت چاہوں گا

ایک دنیا ہے مرے درپئے آزار جدا
پھر بھی ملتا نہیں مجھ کو کوئی غم خوار جدا

کچھ مرے عہد کی قسمیں بھی جدا ٹھہری ہیں
کچھ مرے دوست، ترا وعدۂ ایثار جدا

کرب کی خاک سے خلوت میں تراشے ہوئے جسم
خون تھوکیں سرِ بازار، سرِ دار جدا

کفِ قاتل کی شکن بھی تو الگ ہے سب سے
اور مقتول کی ٹوٹی ہوئی تلوار جدا

میری دستار پہ چھینٹے ہیں لہو کے میرے
اے فلک ناز مرے، ہے مری دستار جدا

یوں تو مسند پہ بھی اطوار نرالے تھے مگر
سرمدِ شعر کی سج دھج ہے سرِ دار جدا

تم نے اِس بار تخاطب ہی بدل ڈالا ہے
ورنہ یاروں سے ہوئے یار کئی بار جدا

ایک حلقہ سا کھنچا ہے مرے چاروں جانب
پھر بھی دیوار سے ہے سایۂ دیوار جدا

ہم نے ہر بار تمدن کو زمیں برد کیا
ہم نے رکھے ہیں ثقافت کے بھی معیار جدا
واہ واہ واہ، لاجواب۔ کیا کہنے بلال صاحب۔ خوبصورت کلام ہے۔

اور یہ جدا ردیف والی غزل تو بہت بھائی، پختہ تر ہو گئے آپ ماشاءاللہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بسم الله الرحمن الرحیم۔
السلام علیکم ورحمه الله و برکاته

اردو محفل فورم کے محترم منتظمین اور محفلین کو محفل کے گیارھویں سالگره بهت بهت مبارک ھو

ایک طرحی اور ایک غیر طرحی کلام آپ کی بصارتوں کی نذر اور التماس دعا

طرحی کلام

"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے جو اس محفل میں ہے"

عشق تیرا وه حقیقت ہے جو میرے دل میں ہے
آب دریا کا اثر کچھ پرده ساحل میں ہے

میری میت میں سبب کیوں ڈھونڈتے ہو موت کا
قتل کا واضح اثر جب ترکش قاتل میں ہے

وقت کی رفتار کا کرتے ہو کیوں اکثر سوال
جب ضیاع وقت شامل عادت کاہل میں ہے

مجھ سے مت نالان ہونا تجھ سے جب مانگوں ہنسی
پیار کی خواہش ہمیشہ لہجہء سائل میں هے

ہر پریشانی سے ہٹ کر ہے تمہارا انتظار
ہجر سے تیرے ہماری زندگی مشکل میں ہے

موت سے میری اگر ممکن ہے پھولوں کی حیات
خوش رہو یہ زندگی پھر آخری منزل میں ہے

غم نہ کھا جو تجھ پہ گزرا ہے ستم کا مرحلہ
اس کی اعلان سزا , فکر شہہ عادل میں ہے

ڈھونڈتے ہو کیوں علاج غم ادھر کوئی ادھر
تیرے ہر غم کا مداوا نسخہ کامل میں ہے

میں رہوں یا نہ رہوں زنده رہے اہل ادب
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے جو اس محفل میں ہے"

داستان عشق ہے اطہر رموز زندگی
میرا مقصود سخن , ہربیت کے حاصل میں ہے

سیدسجاداطہرموسوی
یکم اگست ٢٠١٦میلادی
---------------------------------------------
راحت جاں آجاؤ

رسم الفت سے ہوں انجان خدا خیر کرے
عشق برسا گیا باران خدا خیر کرے

درد ہے دل میں مگر آنکھوں کی خیرات ہوئی
اشک سے کرگئی درمان خدا خیر کرے

آنکھ روتی رہی زخموں کو چھپانے کے لئے
دل میں تھا اشکوں کا طوفان خدا خیر کرے

جب تلک پرده حیرت سے نہ نکلے سورج
ہے سدا شام غریبان خدا خیر کرے

روٹھنے والے بتا لوٹ کے. کب آوگے
تجھ سے ملنے کا ہے ارمان خدا خیر کرے

عرش والے کی اجازت تو ضروری ہے مگر
کب تلک ہوگا یہ امکان خدا خیر کرے

ہجر کی حد ہوئی اے راحت جاں! آجاؤ
ساری دنیا ہے پریشان خدا خیر کرے

آفتاب فلک عدل و سخا ,دنیا میں
ظلم کا زور ہے ہر آن خدا خیر کرے

حامی بے کس و مظلوم یہاں کوئی نہیں
ہیں سبھی خستہ و نالان خدا خیر کرے

تیری الفت کی نشانی ہے کلام اطہر
یوں ہوا عشق کا سامان خدا خیر کرے

بهت شکریه
خوبصورت غزلیں ہیں موسوی صاحب، بہت داد قبول کریں جناب۔
 
عشق تیرا وه حقیقت ہے جو میرے دل میں ہے​
آب دریا کا اثر کچھ پرده ساحل میں ہے​

وقت کی رفتار کا کرتے ہو کیوں اکثر سوال​
جب ضیاع وقت شامل عادت کاہل میں ہے​

غم نہ کھا جو تجھ پہ گزرا ہے ستم کا مرحلہ​
اس کی اعلان سزا , فکر شہہ عادل میں ہے​

داستان عشق ہے اطہر رموز زندگی​
میرا مقصود سخن , ہربیت کے حاصل میں ہے​


واہ، سبحان اللہ
سیدسجاداطهرموسوی صاحب بہت عمدہ غزل۔ مصرعہ طرح میں نیا خیال باندھنا کافی مشکل کام اس لئے بھی ہوتا ہے کہ شاعر نے ہر قافیہ کے ساتھ کوئی نہ کوئی خیال پہلے سے باندھا ہوتا ہے۔ اور ویسے بھی قافیہ بہت سخت تھا کہ اس کے ہم قافیہ الفاظ کے تعداد نسبتاً کم ہے لیکن آپ کے بہت خوب نبھایا۔ مزہ آ گیا۔
 
رسم الفت سے ہوں انجان خدا خیر کرے​
عشق برسا گیا باران خدا خیر کرے​

درد ہے دل میں مگر آنکھوں کی خیرات ہوئی​
اشک سے کرگئی درمان خدا خیر کرے​

آفتاب فلک عدل و سخا ,دنیا میں​
ظلم کا زور ہے ہر آن خدا خیر کرے​

حامی بے کس و مظلوم یہاں کوئی نہیں​
ہیں سبھی خستہ و نالان خدا خیر کرے​

تیری الفت کی نشانی ہے کلام اطہر​
یوں ہوا عشق کا سامان خدا خیر کرے​
سیدسجاداطهرموسوی صاحب، بہت اعلیٰ۔
 
عشق تیرا وه حقیقت ہے جو میرے دل میں ہے
آب دریا کا اثر کچھ پرده ساحل میں ہے​

وقت کی رفتار کا کرتے ہو کیوں اکثر سوال
جب ضیاع وقت شامل عادت کاہل میں ہے​

غم نہ کھا جو تجھ پہ گزرا ہے ستم کا مرحلہ
اس کی اعلان سزا , فکر شہہ عادل میں ہے​

داستان عشق ہے اطہر رموز زندگی
میرا مقصود سخن , ہربیت کے حاصل میں ہے​


واہ، سبحان اللہ
سیدسجاداطهرموسوی صاحب بہت عمدہ غزل۔ مصرعہ طرح میں نیا خیال باندھنا کافی مشکل کام اس لئے بھی ہوتا ہے کہ شاعر نے ہر قافیہ کے ساتھ کوئی نہ کوئی خیال پہلے سے باندھا ہوتا ہے۔ اور ویسے بھی قافیہ بہت سخت تھا کہ اس کے ہم قافیہ الفاظ کے تعداد نسبتاً کم ہے لیکن آپ کے بہت خوب نبھایا۔ مزہ آ گیا۔
آپ جیسے چاهنے والے شفیق دوستوں کی محبتوں او حوصله افزائیوں کی بدولت یه شرف حاصل ھوا که شعراء کرام کی محفلوں میں شرکت کرسکوں۔ حوصله افزائی کا بے حد مشکور و ممنون ھوں
 
بسم الله الرحمن الرحیم۔
السلام علیکم ورحمه الله و برکاته

اردو محفل فورم کے محترم منتظمین اور محفلین کو محفل کے گیارھویں سالگره بهت بهت مبارک ھو

ایک طرحی اور ایک غیر طرحی کلام آپ کی بصارتوں کی نذر اور التماس دعا

طرحی کلام

"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے جو اس محفل میں ہے"

عشق تیرا وه حقیقت ہے جو میرے دل میں ہے
آب دریا کا اثر کچھ پرده ساحل میں ہے

میری میت میں سبب کیوں ڈھونڈتے ہو موت کا
قتل کا واضح اثر جب ترکش قاتل میں ہے

وقت کی رفتار کا کرتے ہو کیوں اکثر سوال
جب ضیاع وقت شامل عادت کاہل میں ہے

مجھ سے مت نالان ہونا تجھ سے جب مانگوں ہنسی
پیار کی خواہش ہمیشہ لہجہء سائل میں هے

ہر پریشانی سے ہٹ کر ہے تمہارا انتظار
ہجر سے تیرے ہماری زندگی مشکل میں ہے

موت سے میری اگر ممکن ہے پھولوں کی حیات
خوش رہو یہ زندگی پھر آخری منزل میں ہے

غم نہ کھا جو تجھ پہ گزرا ہے ستم کا مرحلہ
اس کی اعلان سزا , فکر شہہ عادل میں ہے

ڈھونڈتے ہو کیوں علاج غم ادھر کوئی ادھر
تیرے ہر غم کا مداوا نسخہ کامل میں ہے

میں رہوں یا نہ رہوں زنده رہے اہل ادب
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے جو اس محفل میں ہے"

داستان عشق ہے اطہر رموز زندگی
میرا مقصود سخن , ہربیت کے حاصل میں ہے

سیدسجاداطہرموسوی
یکم اگست ٢٠١٦میلادی
---------------------------------------------
راحت جاں آجاؤ

رسم الفت سے ہوں انجان خدا خیر کرے
عشق برسا گیا باران خدا خیر کرے

درد ہے دل میں مگر آنکھوں کی خیرات ہوئی
اشک سے کرگئی درمان خدا خیر کرے

آنکھ روتی رہی زخموں کو چھپانے کے لئے
دل میں تھا اشکوں کا طوفان خدا خیر کرے

جب تلک پرده حیرت سے نہ نکلے سورج
ہے سدا شام غریبان خدا خیر کرے

روٹھنے والے بتا لوٹ کے. کب آوگے
تجھ سے ملنے کا ہے ارمان خدا خیر کرے

عرش والے کی اجازت تو ضروری ہے مگر
کب تلک ہوگا یہ امکان خدا خیر کرے

ہجر کی حد ہوئی اے راحت جاں! آجاؤ
ساری دنیا ہے پریشان خدا خیر کرے

آفتاب فلک عدل و سخا ,دنیا میں
ظلم کا زور ہے ہر آن خدا خیر کرے

حامی بے کس و مظلوم یہاں کوئی نہیں
ہیں سبھی خستہ و نالان خدا خیر کرے

تیری الفت کی نشانی ہے کلام اطہر
یوں ہوا عشق کا سامان خدا خیر کرے

بهت شکریه
قبلہ شاہ جی !! بہت خوبصورت۔ بالخصوص طرحی مصرعہ پہ آپکا کلام بہت خوبصورت۔۔ شاندار کلام۔۔ داد وصول ہو شاہ جی۔
 
رسم الفت سے ہوں انجان خدا خیر کرے
عشق برسا گیا باران خدا خیر کرے​

درد ہے دل میں مگر آنکھوں کی خیرات ہوئی
اشک سے کرگئی درمان خدا خیر کرے​

آفتاب فلک عدل و سخا ,دنیا میں
ظلم کا زور ہے ہر آن خدا خیر کرے​

حامی بے کس و مظلوم یہاں کوئی نہیں
ہیں سبھی خستہ و نالان خدا خیر کرے​

تیری الفت کی نشانی ہے کلام اطہر
یوں ہوا عشق کا سامان خدا خیر کرے
سیدسجاداطهرموسوی صاحب، بہت اعلیٰ۔

بهت بهت شکریه آپ کا، الله سلامت رکھے
 

محمد وارث

لائبریرین
جدید
بہت بہت شکریہ تابش صاحب
اہلیانِ اردو محفل فورم محفل کو گیارھویں سالگره بہت بہت مبارک ہو۔ ایک عدد طرحی اور ایک غیر طرحی غزل کے ساتھ حاضر ہوں۔

اب چراغاں کب کسی بھی آرزوئے دل میں ہے
زندگانی مسترد کردہ کسی فائل میں ہے

دل کا خوں ہونا کسی اپنے کے ہاتھوں ہے روا
جو بہت پیارا ہے ہم کو فرقہء قاتل میں ہے

دیکھ لی ہیں زندگی میں ہر طرح کی مشکلیں
اب تو جو مشکل بھی ہے معمول کی مشکل میں ہے

کشتیوں کے ساتھ کرتا ہے سفر اپنا شروع
یہ جو ہے گرداب یہ بھی کنبہء ساحل میں ہے

قہقہے ، موسیقی کی آواز، باتیں ۔۔۔۔ سب سراب
میں کہاں میرا اکیلا پن ہے جو محفل میں ہے

زندگی ہے وقت کے بے رحم صحرا میں مگر
بہرِ فردا اب بھی کوئی واہمہ محمل میں ہے


نویدظفرکیانی

--------------------------

دلِ درد آشنا رکھے ہوئے ہیں
بدن میں کربلا رکھے ہوئے ہیں


کسی کے رنگ میں ڈھلتے نہیں ہیں
ہم اپنی کیمیا رکھے ہوئے ہیں


ہمیں تفہیمِ دنیا کے معمے
خلا اندر خلا رکھے ہوئے ہیں


کوئی منزل نہیں منزل ہماری
اِک آتش زیرِ پا رکھے ہوئے ہیں


لڑائی ظلمتِ شب سے ہے جاری
سرِ بام اک دیا رکھے ہوئے ہیں


ہمارے سامنے ہیں پر وہ یوں ہیں
نہ ہونے کی ادا رکھے ہوئے ہیں


جو موسم پہن کر آئے ہیں سورج
وہ دامن میں گھٹا رکھے ہوئے ہیں


دلیلِ خامشی کام آ رہی ہے
کسی کو بے نوا رکھے ہوئے ہیں


نویدظفرکیانی
بہت خوب کیانی صاحب۔ اچھی غزلیں ہیں، خاص طور پر دوسری غزل تو بہت ہی اچھی ہے۔
کسی کے رنگ میں ڈھلتے نہیں ہیں
ہم اپنی کیمیا رکھے ہوئے ہیں
واہ واہ واہ، مکرر ارشاد جناب۔
 
اب چراغاں کب کسی بھی آرزوئے دل میں ہے
زندگانی مسترد کردہ کسی فائل میں ہے

دل کا خوں ہونا کسی اپنے کے ہاتھوں ہے روا
جو بہت پیارا ہے ہم کو فرقہء قاتل میں ہے

بهت عمده اور زبردست کلام
ظفر صاحب داد ھی داد، سبحان الله
 
Top