دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا -بیدل حیدری

دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا

وہ ٹاٹ کی قبا تھی کہ کاغذ کا پیرہن
جیسا بھی مل گیا ہمیں ویسا پہن لیا

فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی
عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا

گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا

بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی
ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا

بیدل لباسِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا

بیدل حیدری
 

مغزل

محفلین
دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا

وہ ٹاٹ کی قبا تھی کہ کاغذ کا پیرہن
جیسا بھی مل گیا ہمیں ویسا پہن لیا

فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی
عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا

گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا

بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی
ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا

بیدل لباسِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا

بیدل حیدری


سبحان اللہ ، سبحان اللہ ، سبحان اللہ ، ۔۔۔
کیا خوب ہے جناب واہ ۔۔ مزا آگیا ۔ جدت طرازی میں ایک خوبصورت پراثر غزل
پیش کرنے کو ممنو ن ہوں جناب۔
والسلام
 

مغزل

محفلین
دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا
بیدل حیدری

معاف کیجے گا جناب ۔ یہ شعر یوں ہے ۔

دریا نے جب سے چپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا

پہلی نظر میں مجھ سے صرفِ نظر ہوا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بیدل لباسِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا

واہ
یوں تو پوری غزل ہی لاجواب ہے مگر اس شعر کی کیا بات ہے۔
 
Top