فیض کا یہ کلام سخن کی کونسی صنف ہے؟

عباد اللہ

محفلین
ویسے میں نے میر کو زیادہ پڑھا نہیں ہے
میں نے بھی میر کی چند ہی غزلیات ہی پڑھی ہیں
جس تہمتِ دل آزاد کا ذکر ہے وہ کسی نقاد کی لگائی ہوئی ہے
جانے کیا مضمون تھا الفاظ کے ساتھ بے انصافیوں ہی کی بات تھی۔ سلمان دانش بھائی کا مراسلہ پڑھتے ہوئے مجھے وہ یاد آ گئی
 

نور وجدان

لائبریرین
کوئی استاد کچھ کہے تو کہے ہمارے تو پر جلتے ہیں صاحب!
یہ تقطیع تو عروض کی سائیٹ سے دی ہے ۔ میں ہر مصرعے پر بحر نہیں لکھتی اگر خود کی ہوتی یا اشاری نظام 1 ،2 لکھتی ۔ آپ عروض کی سائیٹ پر تقطیع میں جاکے ۔۔۔پابند- آزاد میں آزاد پر لکھ کے تقطیع کریں ۔ آپ کو یہی تقطیع مل جائے گی
 

عباد اللہ

محفلین
یہ تقطیع تو عروض کی سائیٹ سے دی ہے ۔ میں ہر مصرعے پر بحر نہیں لکھتی اگر خود کی ہوتی یا اشاری نظام 1 ،2 لکھتی ۔ آپ عروض کی سائیٹ پر تقطیع میں جاکے ۔۔۔پابند- آزاد میں آزاد پر لکھ کے تقطیع کریں ۔ آپ کو یہی تقطیع مل جائے گی
اور تو اسے ایک نظر پڑھئے کتنے مصرعے حذف کر دئے ہیں عروض انجن نے
اور یہ باقی ماندہ کی صحت پر رائے کے لئے کوئی استاد آئے تو آئے
ہم تو طفلِ مکتب ہیں
 
کچھ ایسا ہی حال جمیل الرحمن صاحب کا بھی ہے۔ آپ نے ساری زندگی موزوں شاعری کی اور بقول خود "عروضیا بنا رہا مگر اب جا کے اس بات پر قائل ہوا ہوں کہ خیالات اور جذبات کے ابلاغ کے لیے عروض کی حد بندی ہر گز ضروری نہیں"
صاحب ۔ عقل کا خانہ خالی رکھنے والے جمیل الرحمن کو چھوڑیں، آپ شمس الرحمن فاروقی، ظفر اقبال، خالد احمد مرحوم ، یعقوب آسی، محمد وارث یا انور عبید جیسے کسی علم والے شخص کا حوالہ دیں۔ کسی عروض اور بحر کے بغیر شاعری یا غزل کا کوئی تصور نہیں۔ جمیل الرحمن جب سے مسلمان سے مرتد ہوا ہے وہ تو ۔معاذ اللہ خدا کی ذات پاک پر بھی گستاخانہ تنقید کرتا اور قرآن کو بھی تضادات کی کتاب کہتا ہے۔
 
خرم بھیا یہ آزاد نظم پیشِ خدمت ہے اس کی تفہیم میں میری رہنمائی فرمائیں
(یہ سیدھی سیدھی نثر ہے اس میں کہیں بحور کا خلط نہیں بلکہ بحر موجود ہی نہیں ہے)
کلام میں بحر خود بہ خود نہیں در آتی بلکہ اسے التزاماََ اختیار کیا جاتا ہے
13238876_880253025436311_7837502528486767166_n.jpg

جی اس کی جہاں سمجھ نہیں آئی حکم کیجیے، تفہیم کی کوشش کی جائے گی۔
 
صاحب ۔ عقل کا خانہ خالی رکھنے والے جمیل الرحمن کو چھوڑیں، آپ شمس الرحمن فاروقی، ظفر اقبال، خالد احمد مرحوم ، یعقوب آسی، محمد وارث یا انور عبید جیسے کسی علم والے شخص کا حوالہ دیں۔ کسی عروض اور بحر کے بغیر شاعری یا غزل کا کوئی تصور نہیں۔ جمیل الرحمن جب سے مسلمان سے مرتد ہوا ہے وہ تو ۔معاذ اللہ خدا کی ذات پاک پر بھی گستاخانہ تنقید کرتا اور قرآن کو بھی تضادات کی کتاب کہتا ہے۔

مجھے جمیل الرحمن کے مرتد ہونے کا علم نہیں تھا، یہاں بات علم کی ہو رہی تھی تو مثال دی۔ اگر وہ نثری نظم کے حامی ہونے پر مطعون قرار دیے جارہے ہیں تو وہ تو غزل بھی کہتے ہیں پھر عین معزز قرار دے دئے جائیں؟
 

عباد اللہ

محفلین
جی اس کی جہاں سمجھ نہیں آئی حکم کیجیے، تفہیم کی کوشش کی جائے گی۔
بھیا ہو سکے تو پوری نظم کی تفہیم کر دیں
معلوم نہیں حقیقت کے بارے ایسی کیا حقیقت بیان کرنا مقصود ہے کہ فاضل شاعر نے اس نظم کو مجھ ایسے قاری کے لئے چیستان بنا دیا
یقیناََ کوئی بچوں کی پہنچ سے دور رکھنے والی رمز ہو گی
 
بھیا ہو سکے تو پوری نظم کی تفہیم کر دیں
معلوم نہیں حقیقت کے بارے ایسی کیا حقیقت بیان کرنا مقصود ہے کہ فاضل شاعر نے اس نظم کو مجھ ایسے قاری کے لئے چیستان بنا دیا
یقیناََ کوئی بچوں کی پہنچ سے دور رکھنے والی رمز ہو گی


بھائی جان سوسئیر نے کہا تھا کہ ادب پارہ ایک کلوزڈ آئیکن ہے۔ مطلب اس کے آر پار دیکھنا مکمل ممکن نہیں۔ ہم ادب پارے سے اپنی مرضی کی بہت سے چیزیں نکالتے ہیں۔ بعد میں ٹی ایس ایلیٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مصنف اور تصنیف کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ گو کہ میں ایلیٹ کے اس بیان سے اختلاف کرتا ہوں پھر بھی، ادب بھی آرٹ ہی ہے۔ اور جس طرح آرٹ میں بڑی تبدیلی ڈاڈازم، سیرلزم، کیوبزم، جادوئی حقیقت نگاری وغیرہ کے سبب آئی، اسی طرح ادب بھی اس قسم کی تبدیلیوں سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ کچھ چیزیں تجریدی بھی ہوتی ہیں اور میرا یہ ماننا ہے کہ ہر ادب پارے کی مکمل تفہیم ما سوائے مذہبی اصناف کے، ممکن نہیں، ہم اسے اپنے طور پر بیان کریں گے یا سمجھیں گے لیکن ہوسکتا ہے کہ شاعر نے کسی اور زاویہ نگاہ سے لکھا ہو۔ ڈاکٹر سعید صاحب ، استاد شعبہ اردو فیصل آباد جی سی یونیورسٹی نے اردو شعرا کے سائنسی شعور پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ علامہ اور غالب کے کلام کی شروح ابھی تک لکھی جا رہی ہیں، اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بہت سے لوگ اپنے طور پر شروح کرتے ہیں یا تفہیم لیکن وہ شاعر کے نقطہ نگاہ سے مختلف ہو سکتی ہے۔ بہر حال میرے مطابق اس میں آستھا وغیرہ کو سمجھے بنا (جو کہ کسی مذہب یا مخصوص قبیلے سے متعلق ہو سکتی ہے) مکمل تفہیم ممکن نہیں۔بسمل شمسی صاحب کی ایک غزل ہے جس کا ایک مصرعہ یہ ہے
ماکھن چور نہیں کہلائے گوپی والے شام نہیں تھے
اب اس میں موجود حوالوں (مکھن چور کون تھا ؟ گوپی کون تھی اور شام سے کیا مراد ہے ؟) کو جانے بنا اس کی تفہیم میں مسائل کا سامنا رہے گا۔
 

عباد اللہ

محفلین
بہر حال میرے مطابق اس میں آستھا وغیرہ کو سمجھے بنا (جو کہ کسی مذہب یا مخصوص قبیلے سے متعلق ہو سکتی ہے) مکمل تفہیم ممکن نہیں۔بسمل
بھیا ٹوٹی پھوٹی آدھی ادھوری کچھ بھی شرح بیان کر دیں ۔۔۔۔شاید کچھ ہمارے پلے پڑ جائے
 
Top