ایک غزل آپ کی بصارتوں کی نذز

پتھر تمام شہرِ ستمگر کے ہو گئے
جتنے تھے آئنے وہ مرے گھر کے ہو گئے

شاید کہ یہ زمانہ انہیں پوجنے لگے
کچھ لوگ اِس خیال سے پتھر کے ہو گئے

سفاک موسموں نے عجب سازشیں رچیں
ٹکڑے ہوا کے ہاتھوں گلِ تر کے ہو گئے

محور سے اُن کو کھینچ نہ پائی کوئی کشش
شوقِ طواف میں جو ترے در کے ہو گئے

وہ اپنے لاشعور سے ہجرت نہ کر سکا
میرے ارادے سات سمندر کے ہو گئے

میری بلندیوں پہ تھی جِن کی نظر سخنؔ
میں خوش ہوں وہ بھی میرے برابر کے ہو گئے

عبدالوہاب سخن
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب عبدالوہاب سخن صاحب! بہت داد! کیا اچھی غزل ہے !
اس لئےبھی اچھی لگی کہ اس زمین میں کوئی دس سال پرانی ہماری بھی ایک غزل ہے۔:)
تیسرے شعر کا مصرع اولیٰ ایک نظر دیکھ لیجئے۔ توجہ چاہتا ہے ۔
 

فوزیہ رباب

محفلین
بہت خوب سخن صاحب مطلع تا مقطع کیا عمدہ مرصع و مسجع کلام سے نوازا ہے خصوصاً آپ کا مشہور زمانہ شعر

شاید کہ یہ زمانہ انہیں پوجنے لگے
کچھ لوگ اس خیال سے پتھر کے ہو گئے

بہت پسند آیا ہے عمدہ غزل کے لئے تہہ دل سے مبارکباد قبول فرمائیں
 
Top