آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

یاز

محفلین
1984 پڑھنے کے تقریباً 3 سال بعد آج اینیمل فارم بھی پڑھ ہی ڈالی۔ یہ بھی جارج آرویل کا ایک اور ماسٹرپیس ہے۔
c42625976565482fb0c29c5f4191deb1.jpg


اس کتاب پہ بات چیت بعد میں۔ پہلے فورٹی رولز آف لو کا ادھار چکانے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
جناتی دنیا 'مظہر کلیم ایم اے
کسی زمانے میں مظهر کلیم کے ناولوں میں بهت وقت برباد کیا. 10/12 ناول 24 گھنٹوں کی مار تھے. ایک عزیز نے مشوره دیا اگر جاسوسی ناول هی پڑھنے هیں تو ابن صفی کو پڑھو
اس وقت پته چلا که واقعی ابن صفی نے جاسوسی لکھاری هونے کا حق ادا کیا. اس کے بعد تو کبھی مظہر کلیم کو پڑھنے کا سوچا بھی نهیں
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
الحمدللہ! فورٹی رولز آف لو از ایلف شفق اختتام کو پہنچی۔ اور ساتھ ہی باسٹرڈ آف استنبول کی شروعات۔
اول الذکر کتاب پہ انشاءاللہ جلد ہی مختصراََ اظہارِ خیال کروں گا۔

فورٹی رولز آف لو پڑھے ہوئے چند ہفتے ہو گئے۔ لیکن اس پہ اظہارِ خیال ابھی باقی تھا، تو آج اس ادھار کو چکانے کی کوشش کرتے ہیں۔
(ویسے میں نے محسوس کیا ہے کہ ایک کتاب پڑھنے کے بعد اگلی کتاب بھی (مکمل یا کافی ساری) پڑھ چکنے کے بعد پہلی کتاب پہ تبصرہ لکھنا ایک کارآمد نسخہ ہے۔ یوں آپ سابقہ کتاب کے لفظوں کی عارضی فسوں کاری سے آزاد ہو چکے ہوتے ہیں، مزید سوچنے کے لئے بھی کچھ وقت مل جاتا ہے اور اگر اب بھی اس کتاب نے اپنا تاثر برقرار رکھا ہوا ہے تو وہ یقیناً ایک عمدہ کتاب ہے۔

ترک نژاد مصنفہ ایلف شفق کا ناول فورٹی رولز آف لو پہلی دفعہ 2009 یا 2010 میں شائع ہوا تھا۔ لیکن نجانے کیوں اس ناول نے گزشتہ دو تین سالوں میں زیادہ شہرت پائی ہے۔ کچھ احباب سے اس ناول کی شہرت سن کر میں نے بھی آخرکار اس کو پڑھ ہی ڈالا۔ اگر پہلے سے کچھ علم یا ریویو نہ ہو تو اس ناول کا نام کافی مس لیڈنگ ہو سکتا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ یہ رومانوی یا ازدواجی زندگی میں کامیابی کا نسخہ لئے ہوئے کوئی کتاب ہو گی۔ تاہم اس کتاب کا موضوع کافی مختلف اور چونکا دینے والا ہے۔
فورٹی رولز آف لو کی کہانی دراصل دو مختلف ادوار یا دو مختلف دنیاؤں میں چلنے والی دو کہانیوں کو ساتھ لے کے چلتی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ایلا نامی چالیس سالہ عورت ہے، جو اپنی ازدواجی زندگی کی تقریباً دو دہائیاں گزار چکی ہے۔ مصنفہ نے بتایا ہے کہ ایلا کی زندگی (یا ازدواجی زندگی) کافی بور اور یکسانیت کا شکار ہے اور اس کی زندگی بس گھر کی سجاوٹ اور مختلف پکوان پکانے تک محدود ہے۔ نیز یہ کہ ایلا کو اپنے شوہر پہ کافی شک (بلکہ یقین) ہے کہ وہ دیگر خواتین کے ساتھ بھی وقت بِتاتا رہتا ہے۔
اسی اثنا میں ایلا کو اس کا شوہر وقت گزاری کے لئے کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرنے کا مشورہ دیتا ہے اور اس کو مانتے ہوئے ایلا ایک پبلشنگ کمپنی میں نسبتاً آسان سی نوکری شروع کرتی ہے۔ اس کمپنی کی جانب سے ایلا کو ایک کتاب پہ ریویو لکھنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔ یہی وہ اہم موڑ ہے، جس سے ایلا کی زندگی میں اہم تبدیلی اور ناول میں دلچسپی کا آغاز ہوتا ہے۔ ایلا کو دیئے جانے والے ناول کا نام سویٹ بلاسفیمی (sweet blasphemy) ہے اور یہ عزیز اے زاہرا نامی غیرمعروف مصنف کا لکھا ہوا ہے۔ مصنف خود بھی صوفی نظریات کا حامل ہے اور اس کی کہانی بھی بنیادی طور پہ مولانا رومی اور شمس تبریز کے بارے میں ہے۔ اس کتاب کے مطالعے کے دوران ہی ایلا کا اس کتاب کے مصنف سے ای میل وغیرہ کے ذریعے رابطہ شروع ہوتا ہے۔
اس کے بعد ناول کا انداز یہی ہے کہ ایک باب مولانا رومی اور شمس تبریز کے بارے میں اور اگلا باب ایلا کی موجودہ زندگی کے بارے میں۔ مولانا رومی اور شمس تبریز کی کہانی شاید کچھ کچھ حقیقی اور کچھ کچھ تخیل پہ مبنی ہے۔ تاہم ایلف شفق نے تاریخِ تصوف کی ان دو نامی گرامی ہستیوں کی کہانی کو ایلا کی موجودہ بدلتی زندگی کی کہانی سے لا جوڑا ہے۔ اور جتنا میں نے فورٹی رولز آف لو کے بارے میں پڑھا ہے، اسی پہلو کو لوگوں نے سراہا ہے۔ لیکن میری ذاتی رائے پوچھیں تو اسی جگہ مصنفہ ناکام ہوئی ہیں۔ دو تقریباً مختلف نوعیت کی کہانیوں یا واقعات کو آپس میں متوازی پیش کرنا مجھے کافی عجیب سا اور زبردستی نما لگا۔ اس سے کہیں بہتر ہوتا کہ مولانا رومی اور شمس تبریز کی بجائے ہیر رانجھا، لیلیٰ مجنوں یا کسی اور مشہور رومانوی داستان کو سبجیکٹ بنا کے ایلا صاحبہ کو اس سے سبق پڑھایا جاتا۔
رومی اور شمس کے تعلق (یا عشق) سے شاید مصنفہ دکھانا یہ چاہ رہی تھی کہ کیسے عشق انسان کو تبدیل کرتا ہے، آزماتا ہے یا اس کو طاقت مہیا کرتا ہے۔ لیکن ایسی تبدیلی ایلا میں آتی نظر نہیں آئی۔ میرے خیال سے عشق یا محبت انسان کو سنوارتا ہے۔ یہاں ایلا صاحبہ الٹی راہ پہ چل پڑیں اور شوہر اور بچوں کو کہا خیرباد، اور عزیز اے زاہرا کے پاس چلی آئیں۔ وہاں جا کے پتا چلا کہ عزیز کو کینسر ہے اور وہ قریب المرگ ہے۔ چند ہی ہفتوں میں عزیز کی وفات ہوئی اور مصنفہ نے اس کی خواہش کے مطابق قونیہ (جہاں مولانا رومی کا مزار واقع ہے) میں اس کی تدفین کا انتظام کیا، اور پھر اپنی باقی زندگی صوفی ازم کے لئے وقف کر دی۔ وغیرہ وغیرہ۔

اس ناول کو پڑھنے میں میری دلچسپی کی ایک بڑی وجہ مولانا رومی اور خصوصاً ان کی مثنوی کے بارے میں کچھ جاننا تھا۔ اس بابت بھی کافی تشنگی ہی رہی۔مثنوی کا بھی فقط تذکرہ ہی ہوا کہ شمس تبریز کی وفات (یعنی قتل) کے بعد رومی نے مثنوی لکھنا شروع کی۔

اسی کے ساتھ ساتھ ایلف شفق کے اندازِ تحریر کی داد ضرور دینا ہو گی۔ میرے خیال میں جس چیز نے اس ناول کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا ہے، وہ اس کا اندازِ تحریر ہی ہے۔ ناول کی کہانی کی ابتدائی بُنت اور پورے ناول میں الفاظ کا چناؤ، جملوں کی تشکیل وغیرہ بہت شاندار اور متاثرکن ہے۔ دو مختلف ادوار کی کہانیوں میں کس موڑ پہ ایک کو دفعتاً روک کر دوسری کہانی تک جا پہنچنا ہے اور کب واپس لوٹنا ہے، یہ پہلو بھی بہت شاندار ہے۔

اور آخر میں بات اس ناول کے نام کی مناسبت سے۔ فورٹی رولز آف لو (یعنی عشق کے چالیس بنیادی اصول) مولانا رومی اور شمس تبریز والی کہانی میں جناب شمس تبریز کے فرمودات نما اصول ہیں جو پورے ناول میں کہانی کے ساتھ ساتھ ایک ایک کرکے شامل کئے گئے ہیں۔ اس کتاب کی جان یہی چالیس اصول قرار دیئے جائیں تو کچھ بے جا نہ ہو گا۔ مثال کے طور پر پہلے اصول کا اردو ترجمہ ملاحظہ کیجئے۔
"ہم خدا کے بارے میں جو گمان رکھتے ہیں، وہ دراصل ہماری اپنی شخصیت کے بارے میں ہمارے گمان کا ایک عکس ہوتا ہے۔اگر خدا کے ذکر سے ذہن میں محض الزام اور خوف ہی ابھرے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ خوف اور الزام تراشی ہمارے اپنے سینے کی گھٹن میں پنپ رہی ہے۔ اور اگر خدا ہمیں محبت اور شفقت سے چھلکتا ہوا دکھائی دے، تو یقیناّ ہم بھی محبت اور شفقت سے چھلک رہے ہیں۔"

تمام 40 اصول درج ذیل لنک پہ اردو میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ویسے میں یہ جاننے سے قاصر ہی رہا ہوں کہ آیا یہ چالیس اصول ایلف شفق نے ہی وضع کئے ہیں، یا تاریخی طور پہ ان کا کوئی وجود بھی تھا۔
http://tinyurl.com/z9vavpy
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
فورٹی رولز آف لو پڑھے ہوئے چند ہفتے ہو گئے۔ لیکن اس پہ اظہارِ خیال ابھی باقی تھا، تو آج اس ادھار کو چکانے کی کوشش کرتے ہیں۔
(ویسے میں نے محسوس کیا ہے کہ ایک کتاب پڑھنے کے بعد اگلی کتاب بھی (مکمل یا کافی ساری) پڑھ چکنے کے بعد پہلی کتاب پہ تبصرہ لکھنا ایک کارآمد نسخہ ہے۔ یوں آپ سابقہ کتاب کے لفظوں کی عارضی فسوں کاری سے آزاد ہو چکے ہوتے ہیں، مزید سوچنے کے لئے بھی کچھ وقت مل جاتا ہے اور اگر اب بھی اس کتاب نے اپنا تاثر برقرار رکھا ہوا ہے تو وہ یقیناً ایک عمدہ کتاب ہے۔

ترک نژاد مصنفہ ایلف شفق کا ناول فورٹی رولز آف لو پہلی دفعہ 2009 یا 2010 میں شائع ہوا تھا۔ لیکن نجانے کیوں اس ناول نے گزشتہ دو تین سالوں میں زیادہ شہرت پائی ہے۔ کچھ احباب سے اس ناول کی شہرت سن کر میں نے بھی آخرکار اس کو پڑھ ہی ڈالا۔ اگر پہلے سے کچھ علم یا ریویو نہ ہو تو اس ناول کا نام کافی مس لیڈنگ ہو سکتا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ یہ رومانوی یا ازدواجی زندگی میں کامیابی کا نسخہ لئے ہوئے کوئی کتاب ہو گی۔ تاہم اس کتاب کا موضوع کافی مختلف اور چونکا دینے والا ہے۔
فورٹی رولز آف لو کی کہانی دراصل دو مختلف ادوار یا دو مختلف دنیاؤں میں چلنے والی دو کہانیوں کو ساتھ لے کے چلتی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ایلا نامی چالیس سالہ عورت ہے، جو اپنی ازدواجی زندگی کی تقریباً دو دہائیاں گزار چکی ہے۔ مصنفہ نے بتایا ہے کہ ایلا کی زندگی (یا ازدواجی زندگی) کافی بور اور یکسانیت کا شکار ہے اور اس کی زندگی بس گھر کی سجاوٹ اور مختلف پکوان پکانے تک محدود ہے۔ نیز یہ کہ ایلا کو اپنے شوہر پہ کافی شک (بلکہ یقین) ہے کہ وہ دیگر خواتین کے ساتھ بھی وقت بِتاتا رہتا ہے۔
اسی اثنا میں ایلا کو اس کا شوہر وقت گزاری کے لئے کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرنے کا مشورہ دیتا ہے اور اس کو مانتے ہوئے ایلا ایک پبلشنگ کمپنی میں نسبتاً آسان سی نوکری شروع کرتی ہے۔ اس کمپنی کی جانب سے ایلا کو ایک کتاب پہ ریویو لکھنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔ یہی وہ اہم موڑ ہے، جس سے ایلا کی زندگی میں اہم تبدیلی اور ناول میں دلچسپی کا آغاز ہوتا ہے۔ ایلا کو دیئے جانے والے ناول کا نام سویٹ بلاسفیمی (sweet blasphemy) ہے اور یہ عزیز اے زاہرا نامی غیرمعروف مصنف کا لکھا ہوا ہے۔ مصنف خود بھی صوفی نظریات کا حامل ہے اور اس کی کہانی بھی بنیادی طور پہ مولانا رومی اور شمس تبریز کے بارے میں ہے۔ اس کتاب کے مطالعے کے دوران ہی ایلا کا اس کتاب کے مصنف سے ای میل وغیرہ کے ذریعے رابطہ شروع ہوتا ہے۔
اس کے بعد ناول کا انداز یہی ہے کہ ایک باب مولانا رومی اور شمس تبریز کے بارے میں اور اگلا باب ایلا کی موجودہ زندگی کے بارے میں۔ مولانا رومی اور شمس تبریز کی کہانی شاید کچھ کچھ حقیقی اور کچھ کچھ تخیل پہ مبنی ہے۔ تاہم ایلف شفق نے تاریخِ تصوف کی ان دو نامی گرامی ہستیوں کی کہانی کو ایلا کی موجودہ بدلتی زندگی کی کہانی سے لا جوڑا ہے۔ اور جتنا میں نے فورٹی رولز آف لو کے بارے میں پڑھا ہے، اسی پہلو کو لوگوں نے سراہا ہے۔ لیکن میری ذاتی رائے پوچھیں تو اسی جگہ مصنفہ ناکام ہوئی ہیں۔ دو تقریباً مختلف نوعیت کی کہانیوں یا واقعات کو آپس میں متوازی پیش کرنا مجھے کافی عجیب سا اور زبردستی نما لگا۔ اس سے کہیں بہتر ہوتا کہ مولانا رومی اور شمس تبریز کی بجائے ہیر رانجھا، لیلیٰ مجنوں یا کسی اور مشہور رومانوی داستان کو سبجیکٹ بنا کے ایلا صاحبہ کو اس سے سبق پڑھایا جاتا۔
رومی اور شمس کے تعلق (یا عشق) سے شاید مصنفہ دکھانا یہ چاہ رہی تھی کہ کیسے عشق انسان کو تبدیل کرتا ہے، آزماتا ہے یا اس کو طاقت مہیا کرتا ہے۔ لیکن ایسی تبدیلی ایلا میں آتی نظر نہیں آئی۔ میرے خیال سے عشق یا محبت انسان کو سنوارتا ہے۔ یہاں ایلا صاحبہ الٹی راہ پہ چل پڑیں اور شوہر اور بچوں کو کہا خیرباد، اور عزیز اے زاہرا کے پاس چلی آئیں۔ وہاں جا کے پتا چلا کہ عزیز کو کینسر ہے اور وہ قریب المرگ ہے۔ چند ہی ہفتوں میں عزیز کی وفات ہوئی اور مصنفہ نے اس کی خواہش کے مطابق قونیہ (جہاں مولانا رومی کا مزار واقع ہے) میں اس کی تدفین کا انتظام کیا، اور پھر اپنی باقی زندگی صوفی ازم کے لئے وقف کر دی۔ وغیرہ وغیرہ۔

اس ناول کو پڑھنے میں میری دلچسپی کی ایک بڑی وجہ مولانا رومی اور خصوصاً ان کی مثنوی کے بارے میں کچھ جاننا تھا۔ اس بابت بھی کافی تشنگی ہی رہی۔مثنوی کا بھی فقط تذکرہ ہی ہوا کہ شمس تبریز کی وفات (یعنی قتل) کے بعد رومی نے مثنوی لکھنا شروع کی۔

اسی کے ساتھ ساتھ ایلف شفق کے اندازِ تحریر کی داد ضرور دینا ہو گی۔ میرے خیال میں جس چیز نے اس ناول کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا ہے، وہ اس کا اندازِ تحریر ہی ہے۔ ناول کی کہانی کی ابتدائی بُنت اور پورے ناول میں الفاظ کا چناؤ، جملوں کی تشکیل وغیرہ بہت شاندار اور متاثرکن ہے۔ دو مختلف ادوار کی کہانیوں میں کس موڑ پہ ایک کو دفعتاً روک کر دوسری کہانی تک جا پہنچنا ہے اور کب واپس لوٹنا ہے، یہ پہلو بھی بہت شاندار ہے۔

اور آخر میں بات اس ناول کے نام کی مناسبت سے۔ فورٹی رولز آف لو (یعنی عشق کے چالیس بنیادی اصول) مولانا رومی اور شمس تبریز والی کہانی میں جناب شمس تبریز کے فرمودات نما اصول ہیں جو پورے ناول میں کہانی کے ساتھ ساتھ ایک ایک کرکے شامل کئے گئے ہیں۔ اس کتاب کی جان یہی چالیس اصول قرار دیئے جائیں تو کچھ بے جا نہ ہو گا۔ مثال کے طور پر پہلے اصول کا اردو ترجمہ ملاحظہ کیجئے۔
"ہم خدا کے بارے میں جو گمان رکھتے ہیں، وہ دراصل ہماری اپنی شخصیت کے بارے میں ہمارے گمان کا ایک عکس ہوتا ہے۔اگر خدا کے ذکر سے ذہن میں محض الزام اور خوف ہی ابھرے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ خوف اور الزام تراشی ہمارے اپنے سینے کی گھٹن میں پنپ رہی ہے۔ اور اگر خدا ہمیں محبت اور شفقت سے چھلکتا ہوا دکھائی دے، تو یقیناّ ہم بھی محبت اور شفقت سے چھلک رہے ہیں۔"

تمام 40 اصول درج ذیل لنکس پہ اردو میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ویسے میں یہ جاننے سے قاصر ہی رہا ہوں کہ آیا یہ چالیس اصول ایلف شفق نے ہی وضع کئے ہیں، یا تاریخی طور پہ ان کا کوئی وجود بھی تھا۔
http://tinyurl.com/z9vavpy
یا

یہ تکنیک کافی ناولوں اور فلموں وغیرہ میں استعمال کی گئی ہے۔
 
کیوں جناب۔ ایسا کیا کر دیا باپسی سدھوا صاحبہ نے۔
انہوں نے تو کچھ نہیں کیا،میں خود ہی باغی ہو رہا ان کتابوں کے چنگل سے بقول جون ایلیا صاحب
ان کتابوں میں اک رمز ہے
اور اس رمز کو میں نہیں جانتا،میں نہیں مانتا
وغیرہ وغیرہ
 

یاز

محفلین
انہوں نے تو کچھ نہیں کیا،میں خود ہی باغی ہو رہا ان کتابوں کے چنگل سے بقول جون ایلیا صاحب
ان کتابوں میں اک رمز ہے
اور اس رمز کو میں نہیں جانتا،میں نہیں مانتا
وغیرہ وغیرہ

ایسا کیا اثر دکھا دیا باپسی سدھوا نے، جو یوں توبہ تائب ہو چلے۔
ویسے مجھے کسی سیانے نے کبھی مشورہ دیا تھا کہ یکسانیت سے بچنے کے لئے کتابوں کی جینرے بدل بدل کر پڑھا کریں۔
 
ایسا کیا اثر دکھا دیا باپسی سدھوا نے، جو یوں توبہ تائب ہو چلے۔
ویسے مجھے کسی سیانے نے کبھی مشورہ دیا تھا کہ یکسانیت سے بچنے کے لئے کتابوں کی جینرے بدل بدل کر پڑھا کریں۔
باپسی سدھوا صاحبہ کی واٹر تو سیدھی سی کہانی تھی اسپر ابھی لکھتا ہوں۔
چلیں پھر کوئی جینرے ہٹا کر کتاب بتائیں۔
اور وہ ایلف شفق صاحبہ فرماتی ہیں ناں کہ
"لوگوں کی بھاری اکثریت سوچنے سے قاصر ہے۔اور جو سوچنے لگتے وہ اس بھاری بھیڑ کا حصہ بننے سے قاصر رہتے۔اپنے رستے کا انتحاب کرو۔
اگرانتخاب کرنے سے قاصر ہو تو آپ محض سانسیں لے رہے ہو۔کھمبی بن جاؤیا پودا ہو جاؤ"
تو پودا بننے کی کاوشش میں تو بندہ دیوانہ ہو چلا تھا لہذا اب کھمبی بن کر رہنے کا ہی فیصلہ کر لیا۔
 

یاز

محفلین
باپسی سدھوا صاحبہ کی واٹر تو سیدھی سی کہانی تھی اسپر ابھی لکھتا ہوں۔
چلیں پھر کوئی جینرے ہٹا کر کتاب بتائیں۔
اور وہ ایلف شفق صاحبہ فرماتی ہیں ناں کہ
"لوگوں کی بھاری اکثریت سوچنے سے قاصر ہے۔اور جو سوچنے لگتے وہ اس بھاری بھیڑ کا حصہ بننے سے قاصر رہتے۔اپنے رستے کا انتحاب کرو۔
اگرانتخاب کرنے سے قاصر ہو تو آپ محض سانسیں لے رہے ہو۔کھمبی بن جاؤیا پودا ہو جاؤ"
تو پودا بننے کی کاوشش میں تو بندہ دیوانہ ہو چلا تھا لہذا اب کھمبی بن کر رہنے کا ہی فیصلہ کر لیا۔

ابنِ صفی کا ہی کوئی ناول پڑھ لیں۔
 
ابنِ صفی کا ہی کوئی ناول پڑھ لیں۔
تسی رہن دیو۔
اور اسی سے یاد آیا کہ یہ لڑی کتابوں سے متعلق ہے۔
اورکتاب کا کچھ یوں ہے کہ میں آجکل
انور مسعود صاحب کی "ہن کیہ کرئیے" پڑھ رہا۔
اور اسکا کچھ یوں ہے کہ یہ کتاب پہلی مرتبہ نہیں پڑھ رہا بلکہ اکثر اوقات ہی پڑھتا رہتا مطلب جب جی چاہتا ہے اٹھا کر کسی بھی صفحے سے پڑھنا شروع کر دیتا۔
عموماً میں شاعری زیادہ دیر تلک پڑھ نہیں پاتا لیکن انور مسعود صاحب کو پڑھنے کا اپنا ہی لطف ہے ۔
اسی سے آج ہی ایک نظم "مزاح نگار"بھی شئیر کی تھی۔اور ارادہ مزید بھی شئیر کرنے کا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
نواب تیس مار خان کے کارنامے

یہ کتاب یوں ہی گھومتے گھماتے نظر آ گئی۔ یہ کسی جرمن مصنف کی تحریر ہے اور انہوں نے "ناؤ میں ندی ڈوبانے" کی انتہا کی ہوئی ہے۔

اس کا ترجمہ ابنِ انشاء نے کیا ہے سو اُن کی نثر کی اپنی ایک چاشنی ہے۔ مختصر سی کتاب دل کے بہلانے کو پڑھی جا سکتی ہے۔ :)
 

تجمل حسین

محفلین
کسی زمانے میں مظهر کلیم کے ناولوں میں بهت وقت برباد کیا. 10/12 ناول 24 گھنٹوں کی مار تھے. ایک عزیز نے مشوره دیا اگر جاسوسی ناول هی پڑھنے هیں تو ابن صفی کو پڑھو
اس وقت پته چلا که واقعی ابن صفی نے جاسوسی لکھاری هونے کا حق ادا کیا. اس کے بعد تو کبھی مظہر کلیم کو پڑھنے کا سوچا بھی نهیں
یہ تو واقعی سچ ہے کہ جو مزہ ابنِ صفی کی جاسوسی سیریز میں وہ کسی اور میں نہیں۔ پہلے میں بھی مظہر کلیم ہی پڑھتا تھا اور بہت شوق سے پڑھتا تھا۔ پھر خیال آیا کہ عمران سیریز کا سب سے پہلا ناول پڑھا جائے تب معلوم ہوا کہ اس کا آغاز ابنِ صفی نے کیا تھا۔ بس پھر کیا تھا ابنِ صفی کے 120 کے قریب جتنے ناولز ہیں عمران سیریز کے چند ہی دنوں میں پڑھ ڈالے۔۔۔ :)
اور اس کے بعد سے مظہر کلیم وغیرہ وغیرہ سے دل اچاٹ ہوگیا۔ ابنِ صفی کے ناولز کی جو خاص بات مجھے اچھی لگی وہ تمام ناولز کا ایک دوسرے سے تسلسل ہے۔ ہر ناول میں مشن مکمل ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود جب اگلا ناول پڑھتے ہیں تو بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ یہ الگ سے کوئی ناول بلکہ یونہی محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ سے پیوشتہ ہی پڑھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہی چیز کسی بھی سیریز میں ہونی چاہیے اس سے قاری زیادہ لطف اندوز ہوتا ہے۔ :)
 

یاز

محفلین
یہ تو واقعی سچ ہے کہ جو مزہ ابنِ صفی کی جاسوسی سیریز میں وہ کسی اور میں نہیں۔ پہلے میں بھی مظہر کلیم ہی پڑھتا تھا اور بہت شوق سے پڑھتا تھا۔ پھر خیال آیا کہ عمران سیریز کا سب سے پہلا ناول پڑھا جائے تب معلوم ہوا کہ اس کا آغاز ابنِ صفی نے کیا تھا۔ بس پھر کیا تھا ابنِ صفی کے 120 کے قریب جتنے ناولز ہیں عمران سیریز کے چند ہی دنوں میں پڑھ ڈالے۔۔۔ :)
اور اس کے بعد سے مظہر کلیم وغیرہ وغیرہ سے دل اچاٹ ہوگیا۔ ابنِ صفی کے ناولز کی جو خاص بات مجھے اچھی لگی وہ تمام ناولز کا ایک دوسرے سے تسلسل ہے۔ ہر ناول میں مشن مکمل ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود جب اگلا ناول پڑھتے ہیں تو بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ یہ الگ سے کوئی ناول بلکہ یونہی محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ سے پیوشتہ ہی پڑھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہی چیز کسی بھی سیریز میں ہونی چاہیے اس سے قاری زیادہ لطف اندوز ہوتا ہے۔ :)
بالکل درست فرمایا جناب۔
میں نے کچھ عرصہ قبل ابنِ صفی کے تمام 245 ناولز ترتیب وار (زیادہ تر دوبارہ) پڑھے۔ تقریباً ایک سال لگا تمام ناولز پڑھنے میں، لیکن خوب لطف اندوز ہوا۔
 

یاز

محفلین
گزشتہ دو تین دن میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی معرکتہ الآرا کتاب "دو اسلام" پڑھی۔ اس کتاب کا تعارف کافی پہلے پڑھا تھا، لیکن پڑھنے کا موقع اب ملا۔ بہت ہی چشم کشا کتاب ہے۔ ویسے اس کتاب پہ مفصل لکھا جا سکتا ہے، اور طویل مباحث بھی ہو سکتے ہیں۔
28097262.jpg
 
Top