عمرخیام کےساتھ ساتھ

تہذیب

محفلین
مجھ کو کچھ علاقوں کے سفر اس واستی پیش آئے کیونکہ مجھ کو کچھ دوست لوگ نے اپنی شادیوں می شرکت کے دعوت نامے بھیجے۔ چونکہ میرے مشاغل، دلچسپی کے سامان، اور شوق ہر دور، ہر وقت می مختلف رہے ہیں اس واستی میرا واسطہ مختلف قسم کا لوگوں سے رہا ہے۔ اور مجھے مختلف علاقے، مختلف رسمیں اور مختلف رواج دیکھنے کا موقعہ ملا۔ جس پر میں اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں۔ کہ ان وجوہات کی بناء پر میں نے اس کی رنگا رنگ دنیا کو دیکھا۔
میں ایک بار ایسا شادی میں شامل ہوا، بلکہ مجھ کو دعوت نامہ ملا، ملا کیا دلہا خود میرے گھر آگیا کہ اس کو بھیجو، اس وقت میں نے ابھی لاہور کا سیر نہی کیا تھا، تازہ تازہ انٹر کالج جانا شروع کیا تھا۔ ایک بات میں بتاتا چلوں کہ میں نے ساڑھے تین سال کی عمر می سکول جانا شروع کردیا تھا، کیونکہ میرا بڑا بھائی سکول جانے سے کتراتا تھا، سکول سے گھر واپس آنے میں شام کردیتا تھا، وہ گاؤں کے لڑکے کے ساتھ چلا جاتا تھا، ہمارا گھر گاؤں سے ایک میل دور کی فاصلے پر ایک ویرانے میں تھا۔ اباجی کو ہرروز شام کو بھائی کو ڈھونڈنے نکلنا پڑتا تھا۔ جونہی میں ٹھیک ٹھاک چلنے کا قابل ہوا۔ ابا جی نے مجھ کو بھی سکول میں بھرتی کرادیا کہ چلو اس بہانے بھائی سیدھا گھر تو آئے گا۔ میں اور میرا بڑا بھائی جب تک سکول می پڑھے ایک ساتھ، ایک ہی کلاس می پڑھتے آئے۔ میں اپنا کلاس کا سب سے چھوٹا لڑکا تھا۔ بلکہ جب میں پانچویں جماعت می تھا تو میرے ساتھ کے لڑکوں کی داڑھی مونچھیں بھی تھیں۔ آٹھویں تک پہنچتے پہنچتے تو ہمارے تین کلاس فیلو سہرا بھی باندھ چکے تھے۔
اس لڑکے کا بارات سیالکوٹ میں جانا تھا، جہاں کی چھاؤنی میں یہ فوجی ہوگیا تھا۔ مجھ کو خاص طور پر بلانے واستی آیا تھا۔ آکر امی سے پوچھنے لگا کہ عمر کدھر اے؟ میں باہر آیا، وہ زیادہ ایفیشنسی دیکھانے کی واستی باقی کا بھائی کی بارے می پوچھنے لگا۔ کہ خیام کدھر ہے؟ امی بولا کہ خیام بھی یہی ہے۔ وہ تھوڑا سا گھبرا گیا، کہنے لگا کہ ہاں ہاں، وہ تو مجھ کو مالوم، میں تاجدار کا پوچھنے لگا تھا، امی بولیں کہ تاجدار بھی اسی کی کو کہتے ہیں۔ اس نے دو اور نام لیا، وہ نام بھی ہمارے ہی تھے۔ مجھے گھر اور خاندان میں سب لوگ اپنا اپنا حساب سے بلاتے تھے۔
خیر میرے گھر والے راضی ہوگئے، اور تین دن کیلیے ا سکے ساتھ اس کے علاقے میں چلا گیا، وہاں کا رواج یہ کہ جونہی ذرا سا ڈھول بجا، لڑکے بالے سب اٹھ کر بھنگڑا ڈالنا شروع کردیتے۔ بڑے بھی ساتھ دیتے۔ مجھے اس کے بعد کئی جگہ جانے کا اتفاق ہوا لیکن بھنگڑا ڈالنے کا اتنا ذوق و شوق کہیں اور نہیں دیکھا۔
ایک بار جب میں ترکی گیا تو وہاں مجھ کو بتایا گیا کہ ادھر جب کسی لڑکی گھر کوئی رشتہ لینے آتا تو لڑکی والے اپنے طے شدہ فیصلے کے مطابق لڑکے والوں کو چائے پیش کرتے ہیں۔
اگر چائے میٹھی ہوتو سمجھو کہ لڑکی والے رضا مند ہیں۔
اگر چائے نمکین ہوتو ، لڑکی والوں کی طرف سے انکار سمجھو۔
اور اگر چائے پھیکی ہوتو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اس بات کی نشانی لڑکی والوں کو مزید وقت چاہیے۔
گجرات کے ضلع میں ایک گجر فیملی میں، میں شادی میں شرکت کیلیے گیا۔ وہ لوگ میٹھا بہت کھاتے تھے۔ صبح کے ناشتے میں رس ملائی، جلیبی وغیرہ
دوپہر کی کھانے میں میٹھا زردہ چاول اور شام کی کھانے میں سوجی کا میٹھا حلوہ۔۔۔۔ مجھ کو بتایا گیا کہ عام فیملیوں میں اگر پلاؤ کی دو دیگیں اور زردے کی ایک دیگ بنتی ہے تو یہاں دونوں کی دو دو دیگیں بنتی ہیں۔ بلکہ جہاں پلاؤ کی دیگ میں بارہ کلو چاول ڈالے جاتے ہیں وہاں زردے کی دیگ پندرہ کلو کی بنتی ہے۔ کشمیری لوگ جب پلاؤ بناتے ہیں تو دس کلو چاول کی دیگ بناتے ہیں کیونکہ انہوں نے دس کلو بکرے کا گوشت بھی ڈالنا ہوتا ہے۔ کشمیری گوشت کھانے میں بہت بدنام ہیں۔ مجھے ایک دوست نے بتایا کہ ایک بار اس کو یہ سن کر بہت حیرت ہوئی جب اس نے سنا کہ ایک کشمیری دعوت میں سات می سے صرف دو ڈش گوشت کی تھیں۔ ۔ ۔ ۔
باقی پانچ میں دو مرغ کی ڈشیں تھیں اور تین قیمے کی۔
ترکی کے ملک کی بات بیچ میں ہی رہ گئی۔ ایک بار میں ایک چھوٹے سے قصبے سے گذرا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ اکثر گھروں کی منڈیروں کے کونوں پر شیشے کی بوتلیں گاڑی ہوئی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے پنجاب میں جب کوئی نیا گھر بناتا ہے تو " نظربٹُو" کے طور پر استعمال شدہ کالی ہانڈی کو الٹا کر کے منڈیر پر لگا دیتے ہیں۔۔ میں نے ایک مقامی لوگ سے پوچھا کہ اس میں کیا راز ہے؟
اس مردعاقل نے کہا کہ اس کی مطلب یہ ہے کہ اس گھر میں نوجوان لڑکی موجود ہے جس کیلیئے ایک رشتہ درکار ہے۔
یعنی کہ شادی ڈاٹ کام کی اولین صورت کا اشتہار۔
میں نے پوچھا کہ کچھ بوتلیں رنگین ہیں۔ کچھ سادہ ،کچھ بڑی اور کچھ بالکل ایسے دوائی کی بوتل ہو۔ کیا اس میں بھی کوئی راز ہے؟ بولا کہ جس کو جیسی بوتل میسر آئی، اس نے لگادی۔ بوتلوں کی سائز اور خوبصورتی یا رنگ سے لڑکی کے حسن و جمال یا دیگر خصوصیات کا کوئی تعلق نہیں۔ میں سچی بات کروں تو یہی کروں گا، اس علاقے میں میں نے بہت گھوما پھرا۔ مجھ کو ایک بھی لڑکی کسی دوسری لڑکی سے کم خوبصورت نہی لگی۔ ترکی کے ایک شہر ڈنزلی کے ایک باشندے سے میں نے پوچھا کہ میاں، اس شہر کی سب سے مشہور چیز کیا ہے؟ تو ملتان کے گرمی، گدا، گور اور گرد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے کہا کہ یہاں کی دو چیزیں دو وجہ سے بہت مشہور۔۔۔۔۔ کُکڑی اور لڑکی ۔۔۔ پہلی وجہ یہ کہ دونوں دیکھنے میں جاذب نظر۔۔۔
اور دوسری وجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟ !!!!!!!!!!!!!!!
مراکش اور الجیریا میں ایک میلہ لگتا۔ جہاں پر باپ اپنی کنواری بیٹیوں اور بیٹوں کو لاتے ہیں ۔ ایک دوسرے سے میل ملاقات کرتے۔ پسند آئے تو اتہ پتہ کا ادل بدل کرتے ہیں۔ کوئیک ڈیٹنگ کا رواج شاید وہاں سے اہل مغرب نے لیا۔ جس وقت ہم مراکو گئے اس وقت اس میلے کو ختم ہوئے ایک مہینہ ہوگیا تھا، اگلا میلہ اب ستمبر میں ہونا تھا۔
مراکو کو اہل اردو مراکش، اور اہل عرب الغربیہ کہتے ہیں۔ حالانکہ ملک کا سرکاری انگریزی نام مراکو ہے۔ جبکہ سرکاری عربی نام المملکۃ العربیہ الغربیہ ہے۔ اور مراکش ایک شہر کا نام ہے۔ یہ شہر مراکو کے درمیاں میں ہے۔ اس لیے یہاں پر صاف رنگ والے عربی مراک اور سیاہ فام بربر دونوں ملتے ہیں ۔ عربی اور فرانسیسی بولی جاتی ہے۔ انگریزی خال خال ہی سننے کو ملتی ہے۔ بالی ووڈ کی فلمیں شوق سے دیکھی جاتی ہیں۔ بچہ بچہ امیتابھ اور سلمان اور شاہ رخ کو جانتا ہے۔کئ ایک نے مجھ پر بھی شاہ رخ کا دھوکا کیا۔ لیکن میں نے پوری ایمانداری کی ساتھ ان کو منع کردیا کہ میرا شاہ رخ سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا قد اس سے بڑا، باقی ہر چیز میں وہ مجھ سے بہت بڑا۔
ہر جمعرات کو قومی ٹی وی چینل پر انڈیا کی فلم ترجمے کی ساتھ چلائی جاتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ انڈیا کی فلم کا اتنا شوق کیوں؟ بتایا گیا کہ اس کا کہانی کا ماحول جانا پہچانا ہوتا۔ اور گندا سین نہی ہوتا۔ اور گانےا چھے ہوتے۔
اور ڈانس؟۔۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا
واللہ اس کی تو بات ہی کیا ہے!!!
مراکو میں بھی بیلی ڈانسنگ ہوتی۔ لیکن اس کا معیار ترکی اور لبنان اور مصر کے مقابلے میں کچھ بھی نہی۔ ایسا ہی سمجھو جیسے بالی ووڈ کی فلم کے مقابلے میں پشتو فلم۔

( عمر خیام کے سفر نامے سے ایک اقتباس)
 

عثمان

محفلین
یہ عمرخیام پہاڑی صاحب تو بھانڈ اعظم معلوم ہوتے ہیں۔ انھیں ایک ہی دفعہ یہاں لے آئیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ابھی آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ اور ویسے سُننے میں کیا حرج ہے۔

تہذیب صاحب جاری رکھیں۔
 

تہذیب

محفلین
آپ کے “ بھانڈاعظم “ کا خطاب عمر خیام تک پہنچا دیا گیا ہے، ان کا جواب ہے کہ۔ “ الفاظ محض ذریعہِ اظہار اور احساسات کے ترجمان ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ بولنے والے ( اس صورت میں لکھے جانے والے) کی شخصیحت کے عکاس اور آٰینہ دار بھی ہوتے ہیں۔“
 

میم نون

محفلین
آپ کے “ بھانڈاعظم “ کا خطاب عمر خیام تک پہنچا دیا گیا ہے، ان کا جواب ہے کہ۔ “ الفاظ محض ذریعہِ اظہار اور احساسات کے ترجمان ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ بولنے والے ( اس صورت میں لکھے جانے والے) کی شخصیحت کے عکاس اور آٰینہ دار بھی ہوتے ہیں۔“

اوہو، عمر خیام صاحب کو برا لگا، عثمان بھائی تو مذاق کر رہے تھے۔
عثمان بھائی ایسے موقعوں پر ایک عدد مسکراہٹ :)grin:) لگا دیا کریں تاکہ کوئی غلط فہمی نہ ہو :)
 

تہذیب

محفلین
نہیں ، میرا نہیں خیال کہ انہوں نے اس کا برا منایا ۔ انہوں نے شاید اپنے بارے میں اور اپنے الفاظ و سٹائل کے بارے میں کہا ہے کہ ان کے الفاظ اور ان کا سٹائل ان کی شخصیحت کا آئینہ دار ہے ۔ اس لیے کسی کو ان کے اس کومنٹ سے دل گرفتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
 

تہذیب

محفلین
سفر کرنے کی واستی ایرپورٹ پر جانا ضروری۔ جو لوگ زیادہ ہوائی جہاز کا استعمال کرتا یا ائیرپورٹ کو استعمال کرتا، اس نے دیکھا ہوگا کہ جس دن آپ ائیرپورٹ پہنچنے میں دیر کرے گا اس دن جہاز بالکل ٹھیک وقت پر اڑ رہا ہوگا۔
اور جس دن آپ وقت سے پہلے پہنچ گیا اس دن جہاز بھی لیٹ ہوگا۔
پاکستان میں ائیرپورٹ تو سب چھوٹا چھوٹا ہوتا۔ گیٹ وغیرہ کا چکر نہیں ہوتا۔یہ ہم اسلام آباد اور لاہور کی بات کررہا۔ کراچی کے ائیر پورٹ کا تجربہ نہیں ۔ لیکن ہیتھرو ، مانچسٹر، گیٹ وک، چارلس ڈیگال (پیرس) یا جدہ ، دبئ وغیرہ کا بڑا ایرپورٹ پر جاؤ تو آپ کو ہمیشہ جو گیٹ جہاز میں بیٹھنے کی واستی ملے گا اس کا نمبر تیس یا پچاس کی بعد ہی ہوگا۔ اور یہ گیٹ ہمیشہ دور ترین گیٹ ہوگا۔ ہم نے ہزاروں نہ سہی درجنوں بار سفر کیا کبھی گیٹ نمبر ایک یا دس سے نیچے نمبر والا گیٹ سے جہاز تک پہنچنے کا اتفاق نہی ہوا۔
بعض ملکوں میں جانے کی واستی اترنے سے پہلے آپ کو ایک فارم بھرنے کو دیتے ہیں۔ جب بھی ہم نے اس فارم کو بھرنے کا کوشش کیا اسی وقت ہی جہاز ایئر پاکٹ سے گذرنے لگ گیا اور اس کو جھٹکے لگنا شروع ہوگیا۔
اگر ہم کو درمیان والا سیٹ ملا تو ہمیشہ یہی ہوا کہ ہم کا آس پاس والا دونوں مسافر بے حد موٹا تازہ ہوا۔اور ہم کو پھنس پھنسا کر بیٹھنا پڑا۔
اگر ہم گلی والی سیٹ کی طرف بیٹھا تو جو مسافر کھڑکی کا ساتھ ہوتا ، اسی کو بار بار ٹوائلٹ کو جانا پڑتا۔
جہاز کا سب سے زیادہ رونے والا بچہ یاتو ہمارے آگے بیٹھا ہوتا یا پچھلی سیٹ پر۔۔۔۔ نہ سونے دیتا نہ پڑھنے دیتا
ایسا کبھی بھی نہی ہوا کہ کسی لڑکی یا خاتون کو ساتھ والا سیٹ ملا ہو۔
البتہ ایک دفعہ ایک فلپائنی لڑکی کے ساتھ والی سیٹ ملی، لیکن وہ اپنے ساڑھے چھ فٹ لمبے اور اتنے ہی چوڑے گورے خاوند اور چھ ماہ کے بچے کی ساتھ تھی۔ اور بچہ بیمار بھی تھا۔ دو بار تو اس نے قے کی۔ اور شاید اتنی ہی بار لیک بھی ہوا۔
 
عمر خیام صاحب کیلیے پیغام
ایک مرتبہ ہمارے ساتھ ایک خوشگوار واقعہ پیش آچکا ہے۔ ایک نہایت خوبصورت ہم سفر نصیب ہوا۔ ایمسٹرڈم سے کراچی آتے ہوئے۔ ایک نارتھ افریقاً حسینہ ملی اور اس کے ساتھ دوبئی تک خوشگپیاں ہوتی رہیں۔یہ نارتھ افریقہ والے ادب آداب ، تہذیب بول چال میں بالکل یورپین ہوتے ہیں۔ یا پھر میں ہی ایسے لوگوں سے ملا جو یورپ میں رہتے رہے۔
 

تہذیب

محفلین
ایک بار ایک قومی اخبار میں سرخی لگی تھی ۔ " دُلہا ، کہاں بھولا ؟"​
وہ دلہا ہمارے ساتھ والے گاؤں کا تھا، ماں باپ کااکلوتا بیٹا تھا ، لاڈ و پیار میں ذرا بگڑ گیا تھا۔ یہ نہیں کہ وہ بدقماش ہوگیا تھا ، بلکہ گھر میں من مانی کرنے لگ گیا تھا ۔ درمیانے درجے کے زمیندار تھے ۔ باپ نے زمینیں بٹائی بھی دے رکھی تھیں اور خود ساری زندگی پنجاب میں کام کاج کرتے گذاری تھی ۔ بیٹے کی شادی خاندان میں کر دی گئی تھی ۔ لیکن گاؤں کی مٹیار اس کے معیار سے کم تھی۔ اور اس کے ذوق سے میل نہ کھاتی تھی ۔ اس لیے وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہا ۔ آخر اس کی تلاش جہلم شہر کے ایک نئے رہائشی علاقے جو جہلم دریا کے کنارے تھا، کے ایک گھر میں آ کے ختم ہوگئی ۔ ابتدائی بات چیت کا مرحلہ طے ہونے تک ایک قطعہ اراضی بک چکا تھا۔ لڑکا جس کا نام ہم شادا رکھ لیتے ہیں ، شکل وصورت اور قدکاٹھ میں بھارتی اداکار جانی لیور کے ہم پلہ تھا جبکہ شہری لڑکی کے بارے میں سننے میں آیا کہ سوناکشی سنہا کو بھی ایک دو ہاتھ پیچھے چھوڑتی تھی ۔ یہ میں لوگوں کی سنی سنائی بتا رہا ہوں ، ورنہ میں نے اس لڑکی کو نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی سوناکشی سنہا سے کوئی شناسائی ہے ۔ بلکہ جس زمانے کی یہ بات ہے اس وقت سوناکشی سنہا دو چوٹیاں کرکے پرائمری سکول جاتی ہوگی ۔​
 

تہذیب

محفلین
بہرحال لڑکی والوں نے بات چیت مکمل کرکے دن طے کر دیا ۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ بری کا سامان ایک دن پہلے پہنچ جانا چاہیے ۔ کہ ہم خاندان سے باہر رشتہ دے رہے ہیں ، برادری کے کچھ لوگ اس رشتے سے زیادہ خوش نہیں ، اس لیے شادی کے دن جونہی بارات گھر میں آئے ہم جلدی سے نکاح کرکے لڑکی کی رخصتی کی رسم ادا کر کے وداع کر دینا چاہتے ہیں ، تاکہ برادری کے ناخوش لوگوں کو گڑبڑ کرنے کا کم سے کم موقعہ ملے ۔ ادھر دلہا بھی اسی بات کا متمنی تھا کہ بارات اور بیاہ کی فغول رسموں سے پرہیز ہی لازم ہے کہ اس میں وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں رکھا۔​
بری کا سامان جس میں دلہن ، اس کی بہنوں اور ماں کے کپڑے ۔ بری کا سارا زیور اور میک اپ کا سامان تھا۔ گاؤں کے حجام کے ہاتھ ایک دن پہلے پہنچا دیا گیا ۔ دلہن والوں نے حجام سے بری کا سوٹ کیس لیا ، اس کی چائے پانی سے خاطر و مدارت کی اور ضروری تاکید کہ کل بارات ٹھیک وقت پر پہنچ آئے ۔ لڑکی پرایا دھن ہے جتنا جلدی اپنے گھر کی ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے ۔​
دوسرے دن بڑے دھوم دھام سے بارات روانہ ہوئی ۔جہلم شہر کے اس محلے کی گلی میں داخلے کے مقام پر خوب دھوم دھڑکے سے ڈھول پیٹا گیا ۔ آتش بازی والے گولے چھوڑے گئے اور گاؤں کے منچلے لڑکوں بالوں نے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے ۔آس پاس کے سب لوگ باہر نکل آئے۔ لڑکے والوں نے خوب نوٹ بھی نچھاور کیے ۔ ایک دو کنال زمین تو وہیں لٹا دی گئی ۔ آخر کو ایک شہری دوشیزہ کی بارات ایک گھبرو لے کے آیا تھا۔ خراماں خراماں اور شاداں و فرحاں بارات کا قافلہ دلہن کے گھر کے سامنے آن پہنچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔ اور مطلوبہ گھر کے گیٹ پر موٹا سا تالا لگا ہوا تھا ۔​
محلے والوں نے بتایا کہ یہ لوگ تو ایک مہینہ پہلے ہی یہاں آئے تھے اور کل شام کو ٹرک میں سامان لاد کے چلے گئے ۔​
 
Top