آخر نامہ

شاہِ شاہاں! تری رضا تسلیم
تو ہے خلّاقِ حوّا و آدم
تو نے لکھی ہیں قسمتیں سب کی
تو ہے بیشک نگارِ شادئ و غم
تجھ سے شکوہ نہیں گزارش ہے
اک نظر دیکھ میری دنیا کو
تیرے آدم کے تین لفظوں نے
دربدر کر دیا ہے حوّا کو
آگ ایسی لگی ہے جنت میں
یہ زمیں آسماں سلگتے ہیں
ایسے ٹوٹے ہیں وعدہء و پیماں
رات دن جسم و جاں سلگتے ہیں
نطقِ دنیا کو مل گیا ترکش
نظریں لوگوں کی بن گئیں نیزے
سرد مہر ی ہے ہر طرف لیکن
آگ میں جل رہی ہوں میں جیسے
جن سے امیدِ دستگیری تھی
ہاتھ رکھے ہوئے ہیں کانوں پر
میں یہ کوہِ گرانِ درد و غم
لے کے کب تک چلوں گی شانوں پر
تیری دنیا میں اب نہیں بنتی
تیری خلقت سے اب نہیں نبھتی

میرے مالک! تو عادل و منصف!
تیری رحمت سے کون منکر ہے
بخش دینا تو میری نو میدی
یہ مری التجائے آخر ہے
جیسے مجھ کو ملا تھا ویسے ہی
نامہء صد فراق دیدوں گی
فیصلہ کرلیا ہے میں نے بھی
زندگی کو طلاق دیدوں گی

 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ۔
دو تین مصرعے بدلنے کی ضرورت ہے۔
تو ہے خلّاقِ حوّا و آدم
ایک تو یہاں خلاق کا لفظ کیوں ہے، اور پھر ’حوا و‘ اچھا نہیں لگتا۔

یہاں کچھ مصرع درمیان میں ربط کے لئے ضروری ہے
سرد مہر ی ہے ہر طرف لیکن
آگ میں جل رہی ہوں میں جیسے
جن سے امیدِ دستگیری تھی
ہاتھ رکھے ہوئے ہیں کانوں پر
میں یہ کوہِ گرانِ درد و غم

اور
میرے مالک! تو عادل و منصف!
یہاں ’ہے‘ کم لگ رہا ہے۔ مالک کی جگہ کچھ اور لفظ استعمال کرو۔ جیسے
میرے رب، تو ہے عادل و منصف

اور ہاں
آدم میں تین حروف ہیں، تین الفاظ نہیں!!!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آدم میں تین حروف ہیں، تین الفاظ نہیں!!!
اعجاز بھائی شاید یہاں "تین الفاظ " کی ترکیب ایک اشارہ ہے جس کا کا مرجع اور مراد دراصل نظم کا مرکزی خیال سے ہے اور جس کا بیّن اظہار محترمہ ہما حمید ناز صاحبہ نےآخری مصرع میں کیا ہے ۔
آپ کا تجزیہ بھی مثبت ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت اچھی نظم ہے !! ایک اہم معاشرتی مسئلے پر اچھے انداز میں قلم اٹھایا ہے آپ نے۔
اللہ تعالیٰ سب کی جنتوں کو اپنی امان کے سائے میں رکھے ! آمین ۔
 
ماشاء اللہ۔
دو تین مصرعے بدلنے کی ضرورت ہے۔
تو ہے خلّاقِ حوّا و آدم
ایک تو یہاں خلاق کا لفظ کیوں ہے، اور پھر ’حوا و‘ اچھا نہیں لگتا۔

یہاں کچھ مصرع درمیان میں ربط کے لئے ضروری ہے
سرد مہر ی ہے ہر طرف لیکن
آگ میں جل رہی ہوں میں جیسے
جن سے امیدِ دستگیری تھی
ہاتھ رکھے ہوئے ہیں کانوں پر
میں یہ کوہِ گرانِ درد و غم

اور
میرے مالک! تو عادل و منصف!
یہاں ’ہے‘ کم لگ رہا ہے۔ مالک کی جگہ کچھ اور لفظ استعمال کرو۔ جیسے
میرے رب، تو ہے عادل و منصف

اور ہاں
آدم میں تین حروف ہیں، تین الفاظ نہیں!!!

بہت شکریہ استاد ِ محترم ۔ آپکی حوصلہ افزائی سے اعتماد بڑھتا ہے ۔نظم کے سیاق و سباق میں آدم کے تین لفظوں سے مراد فارغ خطی ہے ۔ اگر اس بنیادی خیال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے نظم پڑھیں تو شاید زیادہ مربوط نظر آئے ۔ خلاق کے بارے میں آپکا استفسار پوری طرح سمجھ نہیں سکی ۔ میرا خیال تھا کہ نظم اس طرح کی لفظیات کو غزل کی نسبت زیادہ قبول کرسکتی ہے ۔ آدم و حوا کے بجائے حوا و آدم شعری مجبوری تھی۔ دوسرے میرا یہ خیال تھا کہ حوا و آدم کو چونکہ ’’حواؤ آدم‘‘ پڑھا جاتا ہے اس لئےتکرارِ واؤکی ثقالت کم ہوجاتی ہے۔ آئندہ بہتر بنانےکی کوشش کروں گی۔ آپ کی توجہ کے لئے سراپا ممنون ہوں ۔
الف عین
 
اعجاز بھائی شاید یہاں "تین الفاظ " کی ترکیب ایک اشارہ ہے جس کا کا مرجع اور مراد دراصل نظم کا مرکزی خیال سے ہے اور جس کا بیّن اظہار محترمہ ہما حمید ناز صاحبہ نےآخری مصرع میں کیا ہے ۔
آپ کا تجزیہ بھی مثبت ہے۔

بہت شکریہ سید عاطف علی ۔ نوازش ۔ اعجاز عبید صاحب کو وضاحتی مراسلہ بھیجنے کا بھی بہت شکریہ ۔
 
ماشاءاللہ بہت عمدہ
یہاں تو سبھی اہلِ علم ہیں ماسوائے میرے

نظم پسند کرنے کا بہت شکریہ حمیرا عدنان ۔ اور اتنی کسرِ نفسی کس لئے بھئی۔ ہر شخص کو کچھ نہ کچھ ضرور آتا ہے اور بہت کچھ نہیں بھی آتا ۔ یہ تو ایک آفاقی حقیقت ہے۔ ویسے اپنی کم علمی کا اعتراف بجائے خود ایک بہت اچھی بات ہے ۔ :)
 
بہت خوب !!!
بہت دنوں بعد نظر آئیں آپ؟
بہت شکریہ ۔ آپ کو نظم پسند آئی ۔ نوازش ۔
واقعی بہت دنوں بعد آنا ہوا ۔ بس زندگی کی مصروفیات ، کچھ ذاتی الجھنیں اور کچھ ذہنی عدم یکسوئی ۔ کوشش رہے گی کہ اب زیادہ عرصے تک غیر حاضری نہ رہے۔ یاد رکھنے کا شکریہ ۔:):):)
 
ماشا اللہ۔ خوبصورت نظم ہے۔
مربوط اور مسلسل۔
ابنِ رضا بھائی سے میں بھی متفق ہوں۔
مثبت اندازِ فکر اور نتیجہ قاری پر ہمیشہ اچھا تاثر چھوڑتا ہے۔ لیکن "نفی" بھی ایک حقیقت ہے۔:)
نظم پھر بھی خوب ہے۔
ڈھیروں داد۔(y)
 
Top