کیا آپ کی تحریروں کی مکتوب میگزین میں اشاعت کی اجازت ہے

عبدالمغیث

محفلین
پیارے اور محترم بھائیو اور بہنو

شاید آپ کو یاد ہو کہ کچھ عرصہ قبل میں نے اس فورم پر اپنا ارادہ ظاہر کیا تھا کہ میں ایک مگزین کی اشاعت کا ارادہ رکھتا ہوں۔ الحمدوللہ آئرلینڈ سے اس میگزین کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس میگزین کا نام مکتوب ہے اور یہ ایک بائی لینگوئل میگزین ہے تقریباً ۷۰ فیصد انگلش اور ۳۰ فیصد اردو۔ ٹوٹل ۲۴ صفحے جنہیں مستقبل میں بڑھانے کا ارادہ ہے۔ مضامین میں شامل ہیں اسلام، تصوف، تاریخ، سائنس، بچوں کی تربیت اور مشاغل، معلومات، کوئز، تنز و مزاح، شاعری وغیرہ۔

اس میگزین کے لیے مجھے مضامین کی تلاش رہتی ہے۔ اس فورم پر کئی بہت اچھے مضامین موجود ہیں جنہیں مکتوب میں شائع کیا جا سکتا ہے۔ کیا آپ کی اجازت ہے کہ میں آپ کے مضامین اور دیگر تحریریں من و عن یا انگلش ترجمہ میں شائع کر سکتا ہوں۔ آپ میں سے جو بھی اپنی تحریروں کی مکتوب میں اشاعت کی اجازت دینا چاہیں مہربانی فرما کر اس لڑی کی جواب میں اپنا نام لکھ دیں۔

جو تحریر بھی منتخب کی جائے گی مصنف کو اشاعت سے پہلے آگاہ کیا جائے گا انشااللہ۔

مکتوب کی پہلی اشاعت کا گوگل ڈرائیو لنک درج ذیل ہے

https://drive.google.com/file/d/0By-79_WFVHhxLVpyUC11SzdBMHM/view?usp=sharing

جزاک اللہ خیر
عبدالمغیث
 

الشفاء

لائبریرین
پیارے اور محترم بھائیو اور بہنو

شاید آپ کو یاد ہو کہ کچھ عرصہ قبل میں نے اس فورم پر اپنا ارادہ ظاہر کیا تھا کہ میں ایک مگزین کی اشاعت کا ارادہ رکھتا ہوں۔ الحمدوللہ آئرلینڈ سے اس میگزین کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس میگزین کا نام مکتوب ہے اور یہ ایک بائی لینگوئل میگزین ہے تقریباً ۷۰ فیصد انگلش اور ۳۰ فیصد اردو۔ ٹوٹل ۲۴ صفحے جنہیں مستقبل میں بڑھانے کا ارادہ ہے۔ مضامین میں شامل ہیں اسلام، تصوف، تاریخ، سائنس، بچوں کی تربیت اور مشاغل، معلومات، کوئز، تنز و مزاح، شاعری وغیرہ۔

اس میگزین کے لیے مجھے مضامین کی تلاش رہتی ہے۔ اس فورم پر کئی بہت اچھے مضامین موجود ہیں جنہیں مکتوب میں شائع کیا جا سکتا ہے۔ کیا آپ کی اجازت ہے کہ میں آپ کے مضامین اور دیگر تحریریں من و عن یا انگلش ترجمہ میں شائع کر سکتا ہوں۔ آپ میں سے جو بھی اپنی تحریروں کی مکتوب میں اشاعت کی اجازت دینا چاہیں مہربانی فرما کر اس لڑی کی جواب میں اپنا نام لکھ دیں۔

جو تحریر بھی منتخب کی جائے گی مصنف کو اشاعت سے پہلے آگاہ کیا جائے گا انشااللہ۔

مکتوب کی پہلی اشاعت کا گوگل ڈرائیو لنک درج ذیل ہے

https://drive.google.com/file/d/0By-79_WFVHhxLVpyUC11SzdBMHM/view?usp=sharing

جزاک اللہ خیر
عبدالمغیث

محترم۔ ہم کوئی لکھاری یا ادیب نہیں ہیں۔ کبھی کبھی چند لائنیں پردہء ذہن پر ابھر آتی ہیں تو لکھ دیتے ہیں۔۔۔ اگر آپ کے یا کسی اور کے کام آ سکتی ہوں تو یہاں پر دیکھ لیں۔۔۔
اللہ عزوجل آپ سے راضی ہو اور ہم سے بھی۔۔۔:)
 
محترم۔ ہم کوئی لکھاری یا ادیب نہیں ہیں۔ کبھی کبھی چند لائنیں پردہء ذہن پر ابھر آتی ہیں تو لکھ دیتے ہیں۔۔۔ اگر آپ کے یا کسی اور کے کام آ سکتی ہوں تو یہاں پر دیکھ لیں۔۔۔
اللہ عزوجل آپ سے راضی ہو اور ہم سے بھی۔۔۔:)
پیارے اور محترم بھائیو اور بہنو

شاید آپ کو یاد ہو کہ کچھ عرصہ قبل میں نے اس فورم پر اپنا ارادہ ظاہر کیا تھا کہ میں ایک مگزین کی اشاعت کا ارادہ رکھتا ہوں۔ الحمدوللہ آئرلینڈ سے اس میگزین کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس میگزین کا نام مکتوب ہے اور یہ ایک بائی لینگوئل میگزین ہے تقریباً ۷۰ فیصد انگلش اور ۳۰ فیصد اردو۔ ٹوٹل ۲۴ صفحے جنہیں مستقبل میں بڑھانے کا ارادہ ہے۔ مضامین میں شامل ہیں اسلام، تصوف، تاریخ، سائنس، بچوں کی تربیت اور مشاغل، معلومات، کوئز، تنز و مزاح، شاعری وغیرہ۔

اس میگزین کے لیے مجھے مضامین کی تلاش رہتی ہے۔ اس فورم پر کئی بہت اچھے مضامین موجود ہیں جنہیں مکتوب میں شائع کیا جا سکتا ہے۔ کیا آپ کی اجازت ہے کہ میں آپ کے مضامین اور دیگر تحریریں من و عن یا انگلش ترجمہ میں شائع کر سکتا ہوں۔ آپ میں سے جو بھی اپنی تحریروں کی مکتوب میں اشاعت کی اجازت دینا چاہیں مہربانی فرما کر اس لڑی کی جواب میں اپنا نام لکھ دیں۔

جو تحریر بھی منتخب کی جائے گی مصنف کو اشاعت سے پہلے آگاہ کیا جائے گا انشااللہ۔

مکتوب کی پہلی اشاعت کا گوگل ڈرائیو لنک درج ذیل ہے

https://drive.google.com/file/d/0By-79_WFVHhxLVpyUC11SzdBMHM/view?usp=sharing

جزاک اللہ خیر
عبدالمغیث

میری طرف سے بھی یہی آئندہ کے لیے۔۔۔۔
سوائے اس تحریر کے جو میں آج کل قسط وار لکھ رہی ہوں
 

یاز

محفلین
محترم عبدالمغیث بھائی! کہاں رائٹرز اور کہاں ہم
چہ نسبت خاک را با عالم پاک ۔۔وغیرہ

تاہم اگر میگزین میں شمولیت کے قابل سمجھیں تو درج ذیل بلاگ سے کوئی بھی تحریر شامل کر سکتے ہیں۔
بے کار باتیں
 

زیک

مسافر
میرا مشورہ ہے کہ بجائے تمام ارکان سے کھلی اجازت لینے کے آپ پہلے کچھ تحریروں کا انتخاب کریں پھر ان کے مصنفین سے اجازت لیں کہ وہ مضمون آپ اپنے میگزین میں شامل کر سکتے ہیں یا نہیں۔
 

عبدالمغیث

محفلین
میرا مشورہ ہے کہ بجائے تمام ارکان سے کھلی اجازت لینے کے آپ پہلے کچھ تحریروں کا انتخاب کریں پھر ان کے مصنفین سے اجازت لیں کہ وہ مضمون آپ اپنے میگزین میں شامل کر سکتے ہیں یا نہیں۔
زیک جی۔ یقیناً ایسا بھی کیا جائے گا۔ تاہم پیشگی او کھلی اجازت سے وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی طرح کے فوائد حاصل ہو جاتے ہیں۔
 

عبدالمغیث

محفلین
محترم۔ ہم کوئی لکھاری یا ادیب نہیں ہیں۔

عبدالمغیث بھائی ہم رائیٹر تو نہیں پھر بھی اجازت دیتے ہیں ☺

محترم عبدالمغیث بھائی! کہاں رائٹرز اور کہاں ہم
ہر لکھنے والے کو رائٹر یا لکھاری کہتے ہیں اور آپ لکھ ہی تو رہے ہیں۔ ہاں آپ بہت بڑے رائٹر ہیں یا نہیں اس بات پر بحث ہو سکتی ہے۔ اجازت کا شکریہ۔
 
آخری تدوین:
اگر آپ یا کوئی اور اس تحریر کو شامل کرنا چاہیں عام اجازت ہے

میری ڈائری(مسافر کی منزل) سے ایک تحریر
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ایک عظیم حادثہ تھا کہ ایک انسان لفظوں کی زد میں آ کر مر گیا
میں بھائی جان کی بات کر رہی ہوں چار برس پہلے جب میں سات برس کی تھی بھائی جان بی ایس سی کے طالب علم تھے۔ان کا خواب ایک استاد بننے کا تھا۔ وہ اپنے دوستوں میں بہت خوش رہتے تھے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ہم تین بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں اور وہ ہم سب گھر والوں سے بے انتہا محبت کرتے ہیں پاپا جان صبح آٹھ بجے فیکٹری گئے تقریبا گیارہ بجھے فیکٹری سے ایک برباد کر دینے والی کال موصول ہوئی بتانے والے کہ مطابق پاپا جان بجلی کے جٹکے میں جان سے گزر گئے ہیں گھر میں تو ایک قیامت ٹوٹ پڑی سب ماحول سوگوار تھا لیکن ،لیکن بھائی جان نے تو ایک چپ ساد لی پاپا جان کا جانا تھا کہ گھر میں غربت نے ڈیرے ڈالنے شروع کر دیے پاپا اکیلے ہی ہم سب کی کفالت کرتے تھے ان کے علاوہ گھر میں کمانے والا کوئی بھی نہیں تھا اب گھر کی ساری ذمہ داری بھائی جان پر آ پڑی تھی بھائی جان نوکری کی تلاش میں صبح نکلتے اور عصر تک خالی ہاتھ گر لوٹ آتےپہلے پہلے کبھی دو وقت کا کبھی ایک وقت کا کھانا میسر آ جاتا تھا لیکن اب فاقے بڑنے لگے وقت کے ساتھ ساتھ بھائی جان پر بھی گھر کا بوجھ بڑنے لگا وہ دن رات پریشان رہتے ۔جہاں ایک طرف بے روزگاری کا مسلۃ تھا ساتھ ساتھ انہیں گھر میں بڑتی ہوئی بھوک اور دو جوان بہنوں کے ہاتھ پیلے نہ ہونے کے آثار نظر آ رہے تھے کوئی قرض دینے کو بھی تیار نہ تھا کیں کے چار ماہ سے گھر کا خرچ لوگون سے قرض لے کر ہی چلایا جا رہا تھا مفلسی کے باعث ایک ایک کر کے بھائی کے سب دوست انہیں چھور چکے تھے امی جان اور آپیاں انہیں پہلے سے ہی پریشان دیکھ کر کچھ بھی نہ کہتی تھی ۔ان سے کوئی بھی سوال کیا جاتا وہ کھی بہت مختصر سا جواب دے دیتے یا پھر خاموشی سے نظریں جھکا لیتے تھے شاید وہ حوصلہ ہار چکے تھے اب وہ گھر سے باہر ہی نہ نکلتے تھے پچھلے دن صبح سے شام تک گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہ تھا رات بھوکے ہی سو گئے اگلی صبح کے دس بج چکے تھے بھوک کی شدت سے جسم کانپ رہا تھا بھائی جان اپنے کمرے میں چارپائی پر بیٹھے تھے میں ان کے قریب آئی اور ان کے بلکل ساتھ بیٹھ گئی بھائی جان نے میرے سر پر ہاتھ رکھا یہ محبت بہت مہینوں بعد پھر سے میسر آئی تھی ۔ میں نظریں جکائے بھائی جان سے بے اختیاری میں ایک بات کہ بیٹھی (جس نے بھائی جان کو جنجور کر رکھ دیا) بھائی جان جب پاپا جان ہمارے ساتھ تھے تو ہم پیٹ بھر کر کھانہ کھاتے تھے بھائی جان جانتے ہوں میں نے آخری بار پیٹ بھر کر کھانہ کب کھایا جب پاپا جان کی وفات پر بریانی کی دیگیں پکی تھی بس اس سے زیادہ کچھ کہنے کی میں ہمت نہ کر سکی اور آنکھیں بیگ گئی بھائی جان نے مجھے سینے سے لگا لیا اور خوب پیار سے نوازا، کچھ دیر بعد بھائی جان گھر سے باہر نکل گئے آج انہوں نے فیکٹری ایڑیا کی طرف رُخ کیا آخر کار انہیں کام مل گیا اگرچہ تنخواء بہت کم تھی پیشگی کے طور پر تین ہزار روپیے لیے۔ شام کو جب بھائی جان ہفتے بھر کا راشن اُٹھائے گھر آئے تو خوشی سے سب کی آنکھیں بھر آئیں پاپا کے چلے جانے کے بعد ہمارے ہاں یہ پہلی خوشی تھی
بھائی جان گھر کے اچھے خرچ کے لیے ڈبل ڈپٹی کرنے لگے صبح ساڑھے چھ گھر سے نکلتے اور رات باراں کے قریب گھر آتے اور صبح ہوتے ہی پھر سے ڈپٹی پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھٹی کے دن بھی اوور ٹائم لگاتے
دو سال ایسے گزرے کہ پتا بھی نہ چلا
مناسب رشتے دیکھ کر دونؤں آپیوں کو رُخصت کر دیا جس کا خرچ فیکٹری مالکان نے اُٹھایا
شاید بھائی جان کا مقصد صرف کام ہی راہ گیا تھا
پھر عید کا دن آ پہنچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی جان نماز عید کے لیے محلے کی بڑی جامعہ مسجد میں تقریبا دو سال بعد گئے تھے
نماز عید کے بعد سب جان پہچان والے لوگ ایک دوسرے کو گلے مل کر عید کی مبارکیں دے رہے تھے
اتنے سارے لوگوں میں سے ایک بزرگ دادا جی نے آپ کو عید کی مبارک باد دی
اور ساتھ ہی ایک سوال پوچھ لیا بیٹا تمھیں کبھی دیکھا نہیں معلوم ہوتا ہے کہ تم کسی کے مہمان ہوں حالانکہ یہ بھائی جان کے بہت قریبی سابقہ دوست کے دادا جان تھے دوست کے گھر جب جاتے تھے تو اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی بزرگ دادا جی کہ اس سوال نے بھائی جان کو تور کر رکھ دیا بھائی جان واپسی پر اپنے بے خبر دوستوں کو پہچان رہے تھے جو گروپ کی صورت میں ایک دوسرے کہ گلے مل کر عید کی مبارکیں دے رہے تھے
جس منظر نے بھائی جان کو شدتِ تنہائی کا احساس دلا دیا
بھائی گھر آئے تو اپنے کمرے میں چلے گئے میں ان کے پیچھے کمرے میں جا پہنچی
آج پہلی بار بھائی جان کو منہ پر کپرا رکھے سِسک سِسک کر روتے دیکھا جنہیں دیکھ کر میری آنکھؤن میں رُکا دریا بھی چل پڑا میں چاہنے کے باوجود بھائی جان کے دکھتے زخم پر ہاتھ نہ رکھ سکی شائد اس طرح ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہو بھائی جان اندر سے مر چکے ہیں اور لوگوں کے لیے بھی کہ کوئی انہیں جانتا پہچانتا بھی نہیں اگر وہ زندہ ہیں تو صرف ہمارے لیے اور ہماری ضروریات کے لیے
نماز ظہر کے بعد دونوں آپیاں بھی ہمارے ساتھ عید کے دن کا کچھ حصہ گزارنے کے لیے آ پہنچی اور بھائی نے ان کی خوب خاظر داری کی اور اور اپنے دل پر اک پتھر رکھے حندہ پیشانی سے بات کرتے رہے
جو آپیوں کے لیے باعث مسرت تھا لیکن اصل حال یا بھائی جان جانتے تھے یا میں
کھبی کھبی سوچتی ہوں کے بھائی کا اندر کا انسان میں نے مارا ہے یا لوگوں کی بے رُخی نے ،
اگر اس بات پر میں خود کو قاتل ٹھہراوں (اس دن بھوک کی شدت بیان کر کے) اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا ورنہ بھوک سے سب مر جاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر۔ محمد قاؔسم صدیق

 
Top