امام احمد رضا جدید و قدیم علوم کے روشن چراغ ہیں، مقررین

امام احمد رضا جدید و قدیم علوم کے روشن چراغ ہیں، مقررین
کراچی (پ ر) ادارہ تحقیقات امام احمد رضا انٹرنیشنل کے تحت 35ویں سالانہ امام احمد رضا کانفرنس بعنوان ’’امام احمد رضا کے تعلیمی نظریات اور عصر حاضر میں ان کا اطلاق‘‘ کانفرنس ہال شیخ زید اسلامک سینٹر جامعہ کراچی میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس سے ڈائریکٹر اسکول آف لا جامعہ کراچی جسٹس (ر) پروفیسر ڈاکٹر غوث محمد نے صدارتی خطاب میں کہا کہ بلاشبہ امام احمد رضا جدید و قدیم علوم کے روشن چراغ ہیں، انہوں نے اپنے بے شمار مقالات میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ کانفرنس کے پہلے سیشن میں ملک اور بیرون ملک کی مقتدر شخصیات کے پیغامات کوپڑھ کرسنایا گیا جبکہ دوسرے سیشن میں مقالات پیش کیے گئے۔ کانفرنس میں کتب میلہ بھی لگایا گیا۔ مقالات میں مقررین نے کہا کہ نظام تعلیم میں بہترین صرف اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں پر ہی ممکن ہے۔ مغرب کے نظام تعلیم نے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے، پاکستان کے نظام تعلیم میں بہتری اور تشکیل نو کےلیے ضروری ہے کہ امام احمد رضا کے نظریات سے استفادہ حاصل کیا جائے، اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اقدار کے پاسدار اساتذہ ہی بہترین تعلیم دے سکتے ہیں۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی پروفیسر انوار احمد زئی نے کہا کہ امام احمد رضا نے روایتی علماء کی طرح صرف مذہبی موضوعات پر ہی کتابیں نہیں لکھیں بلکہ سائنس، منطق، فلسفہ اور بینکنگ وغیرہ کے عنوانات پر بھی معرکتہ الآرا تصنیفات ہماری رہنمائی کےلیےچھوڑی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز احمد نے کہا کہ امام احمد رضا دنیا کے ایک ممتاز مفکر تعلیم تھے، خوف خدا، حب رسولﷺ کے ساتھ ساتھ انسان اور کائنات آپ کے فلسفہ تعلیم کے کلیدی موضوعات ہیں۔ پروفیسر عبدالرحمٰن بخاری نے کہا کہ امام احمد رضا کی ہمہ جہت شخصیت نے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک شعوری انقلاب برپا کیا تھا، آج ان کے فکر و فلسفے پر عمل پیرا ہوکر ہی عالم اسلام کو درپیش چیلنجوں سے نکالا جاسکتا ہے۔ صدر ادارہ صاحبزادہ سید وجاہت رسول قادری نے کہا کہ موجودہ نظام تعلیم نے مقصد حیات سے دور کردیا ہے، اس میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، امام احمد رضا کے افکار و نظریات کو نظام تعلیم میں عملی طور پر نافذ کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔
 
بلا شبہ امام اہلسنت احمد رضا خان جدید و قدیم علوم کے روشن چراغ ہیں۔ ان کو علم ریاضی میں خاص ملکہ حاصل تھا۔
اعلیٰ حضرت تصوف، عقیدہ اور فقہ کے بھی جید عالم اور سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جس کی جھلک ان کے نعتیہ کلام میں باخوبی دیکھائی پڑتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ امام احمد رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کے دراجات کو بلند فرمائیں۔ آمین۔
 
علم ریاضی میں ؟ تفصیل ؟

اعلیٰ حضرت کی ریاضی دانی

اللہ تعالٰی نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو بے اندازہ علوم جلیلہ سے نوازا تھا ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کم و بیش 50 پچاس علوم میں قلم اٹھایا اور قابل قدر کتب تصنیف فرمائیں ، آپ رحمۃ اللہ علیہ کو ہر فن میں کافی دسترس تھی ، علم توقیت ( علم تو ۔ قی ۔ت ) میں اس قدر کمال حاصل کا تھا کہ دن کو سورج اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی ملالیتے ، وقت بالکل صحیح ہوتا اور کبھی ایک منٹ کا بھی فرق نہ ہوا ، علم ریاضی میں آپ یگانہ روزگار تھے ، چنانچہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا الدین جو کہ ریاضی میں غیر ملکی ڈگریاں اور تمغہ جات حاصل کیے ہوئے تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ریاضی کا ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے آئے ارشاد ہوا فرمائیے انہوں نے کہا کہ وہ ایسا مسئلہ نہیں جسے اتنی آسانی سے عرض کروں ، اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کچھ تو فرمائیے وائس چانسلر صاحب نے سوال پیش کیا تو اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اُسی وقت اس کا تشفی بخش جواب دیا انہوں نے انتہائی حیرت سے کہا کہ میں اس مسئلے کے لیے جرمنی جانا چاہتا تھا اتفاقا ہمارے دینیات کے پروفیسر مولانا سید سلیمان اشرف صاحب نے میری راہنمائی فرمائی اورمیں یہاں حاضر ہوگیا یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ اسی مسئلہ کو کتاب میں دیکھ رہے تھے ڈاکٹر صاحب بصد فرحت ومسرت واپس تشریف لے گئے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ داڑھی رکھ لی اور صوم و صلوۃ کے پابند ہوگئے ( حیات اعلٰی حضرت جلد اول صفحہ 223، 228 مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی ) علاوہ ازیں اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ علم تکسیر ، ہیئت ، علم جفر وغیرہ میں بھی کافی مہارت رکھتے تھے
 
تعلیم:
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم کچھ حضرت مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ سے اور اکثر کتب اپنے والد ماجد حضرت مولانا محمد نقی علی خاں علیہ الرحمہ سے پڑھیں، نیز چند ایک کتب کادرس حضرت مولانا سید ابوالحسین احمد نوری اور حضرت مولانا عبدالعلی رامپوری علیہ الرحمہ سے بھی لیا۔
آپ نے اپنے والد ماجد اور اساتذہ سے مندرجہ ذیل اکیس علوم کی تعلیم حاصل کی۔
١…علم قرآن، ٢…علم تفسیر، ٣…علم حدیث، ٤…اصول حدیث، ٥…کتب فقہ حنفی، ٦…کتب فقہ شافعی و مالکی و حنبلی، ٧…اصولِ فقہ، ٨…جدلِ مہذب، ٩…علم العقائد والکلام(جومذاہب باطلہ کی تردید کے لئے ایجاد ہوا)، ١٠…علم نحو، ١١…علم صرف، ١٢…علم معانی، ١٣…علم بیان، ١٤…علم بدیع، ١٥…علم منطق، ١٦…علم مناظرہ، ١٧…علم فلسفہ مدلسہ، ١٨…ابتدائی علم تکسیر، ١٩…ابتدائی علم ہیئت، ٢٠…علم حساب تا جمع، تفریق، ضرب، تقسیم،٢١…ابتدائی علم ہندسہ۔(سوانح اعلیٰ حضرت صفحہ ٩٨)

جبکہ مندرجہ ذیل علوم آپ نے بغیر کسی استاد محض اپنی خداداد ذہانت اور صلاحیت سے حاصل کیئے:
٢٢…قرأت، ٢٣…تجوید، ٢٤…تصوف، ٢٥…سلوک، ٢٦…علم اخلاق، ٢٧…اسماء الرجال، ٢٨…سیر، ٢٩…تواریخ، ٣٠…لغت، ٣١…ادب مع جملہ فنون، ٣٢…ارثماطیقی، ٣٣…جبرومقابلہ، ٣٤…حساب ستینی، ٣٥…لوغارثمات(لوگارثم)، ٣٦…علم التوقیت، ٣٧…مناظرہ، ٣٨…علم الاکر، ٣٩…زیجات، ٤٠…مثلث کُروی، ٤١…مثلث مسطح، ٤٢…ہیئت جدیدہ(انگریزی فلسفہ)، ٤٣…مربعات، ٤٤…منتہی علم جفر، ٤٥…علم زائرچہ، ٤٦…علمِ فرائض، ٤٧…نظم عربی، ٤٨… نظم فارسی، ٤٩… نظم ہندی، ٥٠…انشاء نثر عربی، ٥١…انشاء نثر فارسی، ٥٢…انشاء نثر ہندی، ٥٣…خط نسخ، ٥٤…خط نستعلیق، ٥٥…منتہی علم حساب، ٥٦…منتہی علم ہیئت، ٥٧…منتہی علم ہندسہ، ٥٨…منتہی علم تکسیر، ٥٩…علم رسم خط قرآن مجید۔(سوانح اعلیٰ حضرت صفحہ ٩٩)

مذکورہ بالا 59علوم و فنون میں سے پچاس فنون پر آپ کی تصانیف موجود ہیں ذہانت کا یہ عالم تھا کہ دورانِ تعلیم صرف آٹھ برس کی عمر میں علم نحو کی کتاب ہدایت النحو کی شرح عربی زبان میں لکھ دی۔ اور محض تیرہ سال دس ماہ اور پانچ دن کی عمر شریف میں مروجہ علوم و فنون کی تکمیل کرکے ١٤ شعبان ١٢٨٦ھ بمطابق ١٩ نومبر ١٨٦٩ء کو سند فراغت حاصل کی، اسی روز مسئلہ رضاعت پر ایک فتویٰ تحریر فرماکر والد ماجد کی خدمت میں پیش کیا، والد ماجد نے لائق اور ذہین بیٹے کی تحریر اور فتویٰ ملاحظہ فرماکر تحسین فرمائی اوراس دن سے فتویٰ نویسی کی خدمت آپ کے سپرد کردی۔


Aligarh Muslim University
دینی علوم کے علاوہ دنیاوی علوم میں بھی آپ کو وہ مہارت حاصل تھی کہ بڑے بڑے ماہر فن آپ کے سامنے طفل مکتب نظر آتے تھے
 
عثمان بھائی اگر آپ ملفوظات نامی کتاب کا مطالعہ کریں تو آپ کو مختلف علوم پر اعلیحضرت کی دسترس کا باآسانی اندازہ ہوجائے گا جس میں انہوں نے طرح طرح کے سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
علم ریاضی میں ؟ تفصیل ؟

عثمان بھائی اگر آپ ملفوظات نامی کتاب کا مطالعہ کریں تو آپ کو مختلف علوم پر اعلیحضرت کی دسترس کا باآسانی اندازہ ہوجائے گا جس میں انہوں نے طرح طرح کے سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔
فلکیات میں یہ صاحب اتنے ماہر تھے کہ انہوں نے صدیوں بعد گیلیلیو کو غلط ثابت کیا!
 

عثمان

محفلین
اعلیٰ حضرت کی ریاضی دانی

اللہ تعالٰی نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو بے اندازہ علوم جلیلہ سے نوازا تھا ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کم و بیش 50 پچاس علوم میں قلم اٹھایا اور قابل قدر کتب تصنیف فرمائیں ، آپ رحمۃ اللہ علیہ کو ہر فن میں کافی دسترس تھی ، علم توقیت ( علم تو ۔ قی ۔ت ) میں اس قدر کمال حاصل کا تھا کہ دن کو سورج اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی ملالیتے ، وقت بالکل صحیح ہوتا اور کبھی ایک منٹ کا بھی فرق نہ ہوا ، علم ریاضی میں آپ یگانہ روزگار تھے ، چنانچہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا الدین جو کہ ریاضی میں غیر ملکی ڈگریاں اور تمغہ جات حاصل کیے ہوئے تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ریاضی کا ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے آئے ارشاد ہوا فرمائیے انہوں نے کہا کہ وہ ایسا مسئلہ نہیں جسے اتنی آسانی سے عرض کروں ، اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کچھ تو فرمائیے وائس چانسلر صاحب نے سوال پیش کیا تو اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اُسی وقت اس کا تشفی بخش جواب دیا انہوں نے انتہائی حیرت سے کہا کہ میں اس مسئلے کے لیے جرمنی جانا چاہتا تھا اتفاقا ہمارے دینیات کے پروفیسر مولانا سید سلیمان اشرف صاحب نے میری راہنمائی فرمائی اورمیں یہاں حاضر ہوگیا یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ اسی مسئلہ کو کتاب میں دیکھ رہے تھے ڈاکٹر صاحب بصد فرحت ومسرت واپس تشریف لے گئے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ داڑھی رکھ لی اور صوم و صلوۃ کے پابند ہوگئے ( حیات اعلٰی حضرت جلد اول صفحہ 223، 228 مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی ) علاوہ ازیں اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ علم تکسیر ، ہیئت ، علم جفر وغیرہ میں بھی کافی مہارت رکھتے تھے
مندرجہ بالا اقتباس اور لنک سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مرحوم ریاضی کے طالب علم تھے۔
ریاضی پر ان کی لکھی کسی کتاب یا شائع شدہ کسی تحقیق کا کوئی حوالہ ؟
 

عثمان

محفلین
عثمان بھائی اگر آپ ملفوظات نامی کتاب کا مطالعہ کریں تو آپ کو مختلف علوم پر اعلیحضرت کی دسترس کا باآسانی اندازہ ہوجائے گا جس میں انہوں نے طرح طرح کے سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔
آپ ہی کچھ اقتباسات شئیر کیجیے۔ یہاں ہیلی فیکس میں تو میں یہ کتاب ڈھونڈنے سے رہا۔ :)
 

عثمان

محفلین
لئیق احمد نیٹ پر سرسری سی سرچ کرنے پر یہ معلوم ہوا ہے کہ احمد رضا مرحوم معروف سائنسی حقائق رد کرتے ہوئے زمین ساکن ہونے اور کائنات کے زمین کے گرد گھومنے کے ہزاروں سال پرانے جاہلانہ نظریے کے قائل تھے۔
کیا آپ کو اس کی بابت علم ہے ؟ کیا یہ مرحوم پر محض الزام ہے ؟ یا وہ واقعی اس قسم کی باتوں کے قائل تھے ؟
میں نے مذکورہ لنکس یہاں نہیں لگائے کہ مجھے علم نہیں کہ آیا وہ لنکس مستند ہیں یا نہیں۔
 

زیک

مسافر
لئیق احمد نیٹ پر سرسری سی سرچ کرنے پر یہ معلوم ہوا ہے کہ احمد رضا مرحوم معروف سائنسی حقائق رد کرتے ہوئے زمین ساکن ہونے اور کائنات کے زمین کے گرد گھومنے کے ہزاروں سال پرانے جاہلانہ نظریے کے قائل تھے۔
کیا آپ کو اس کی بابت علم ہے ؟ کیا یہ مرحوم پر محض الزام ہے ؟ یا وہ واقعی اس قسم کی باتوں کے قائل تھے ؟
میں نے مذکورہ لنکس یہاں نہیں لگائے کہ مجھے علم نہیں کہ آیا وہ لنکس مستند ہیں یا نہیں۔
www.urduweb.org/mehfil/threads/زمین-ساکن-ہے-ثبوت-‍قرآنی-آیات-سے.10767/
 
مندرجہ بالا اقتباس اور لنک سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مرحوم ریاضی کے طالب علم تھے۔
ریاضی پر ان کی لکھی کسی کتاب یا شائع شدہ کسی تحقیق کا کوئی حوالہ ؟
اس واقعے سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ریاضی کا ایک دقیق مسئلہ حل کیا۔ البتہ وہ مسئلہ کیا تھا یہ نہیں لکھا ہوا اس واقعے میں لیکن مجھے امید ہے کہ مزید کتابیں کھنگالنے سے وہ بھی غالباً مل جائے کہ مسئلہ کیا تھا۔
ایک بات ہمیں سمجھنی چاہئیے کہ فقہ حنفی کے بہت سے مسائل ریاضی کا ماہر ہوئے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔ جن میں سے ایک علم توکید ہے۔ جس سے دنیا کے مختلف مقامات پر نمازوں کے اوقات اور قبلہ کی سمت کا حساب لگایا جاتا ہے۔
امام احمد رضا کی 1000 سے زائد تصانیف ہیں جن میں رسائل و کتب شامل ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ ان میں سے چندعلم ریاضی کے متعلق بھی ہونگی۔ اب ان کو ڈھونڈنا ایک کام ہے۔ لیکن میں کوشش کروں گا۔ ان شاء اللہ
آپ ہی کچھ اقتباسات شئیر کیجیے۔ یہاں ہیلی فیکس میں تو میں یہ کتاب ڈھونڈنے سے رہا۔ :)
یہ کتاب میرے پاس پاکستان میں تھی یہاں کویت میں نیٹ سے ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔ :)
لئیق احمد نیٹ پر سرسری سی سرچ کرنے پر یہ معلوم ہوا ہے کہ احمد رضا مرحوم معروف سائنسی حقائق رد کرتے ہوئے زمین ساکن ہونے اور کائنات کے زمین کے گرد گھومنے کے ہزاروں سال پرانے جاہلانہ نظریے کے قائل تھے۔
کیا آپ کو اس کی بابت علم ہے ؟ کیا یہ مرحوم پر محض الزام ہے ؟ یا وہ واقعی اس قسم کی باتوں کے قائل تھے ؟
میں نے مذکورہ لنکس یہاں نہیں لگائے کہ مجھے علم نہیں کہ آیا وہ لنکس مستند ہیں یا نہیں۔
امام صاحب زمین کے ساکن ہونے کے تو قائل تھے۔ اور یہ مسئلہ انہوں نے قرآن سے اخذ کیا۔ کائنات کے زمین کے گرد گھومنے کا مجھے علم نہیں۔
میری ذاتی رائے میں : موجودہ مانے جانے والے سائنسی نظریے کے مطابق ساری کائنات ایک دوسرے کے لحاظ سے متحرک ہے۔ تو کائنات کے کسی بھی نکتے کو ساکن مان کر باقیوں کو اس کے لحاظ متحرک ماننے پر سائنس کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ ( میری اس ذاتی رائے پر آپ چاہیں تو میری رہنمائی کر سکتے ہیں :) )
 

عثمان

محفلین
اس واقعے سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ریاضی کا ایک دقیق مسئلہ حل کیا۔ البتہ وہ مسئلہ کیا تھا یہ نہیں لکھا ہوا اس واقعے میں لیکن مجھے امید ہے کہ مزید کتابیں کھنگالنے سے وہ بھی غالباً مل جائے کہ مسئلہ کیا تھا۔
ایک بات ہمیں سمجھنی چاہئیے کہ فقہ حنفی کے بہت سے مسائل ریاضی کا ماہر ہوئے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔ جن میں سے ایک علم توکید ہے۔ جس سے دنیا کے مختلف مقامات پر نمازوں کے اوقات اور قبلہ کی سمت کا حساب لگایا جاتا ہے۔
امام احمد رضا کی 1000 سے زائد تصانیف ہیں جن میں رسائل و کتب شامل ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ ان میں سے چندعلم ریاضی کے متعلق بھی ہونگی۔ اب ان کو ڈھونڈنا ایک کام ہے۔ لیکن میں کوشش کروں گا۔ ان شاء اللہ

یہ کتاب میرے پاس پاکستان میں تھی یہاں کویت میں نیٹ سے ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔ :)

امام صاحب زمین کے ساکن ہونے کے تو قائل تھے۔ اور یہ مسئلہ انہوں نے قرآن سے اخذ کیا۔ کائنات کے زمین کے گرد گھومنے کا مجھے علم نہیں۔
میری ذاتی رائے میں : موجودہ مانے جانے والے سائنسی نظریے کے مطابق ساری کائنات ایک دوسرے کے لحاظ سے متحرک ہے۔ تو کائنات کے کسی بھی نکتے کو ساکن مان کر باقیوں کو اس کے لحاظ متحرک ماننے پر سائنس کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ ( میری اس ذاتی رائے پر آپ چاہیں تو میری رہنمائی کر سکتے ہیں :) )
پچھلے چند گھنٹوں میں مجھے احمد رضا خان کے مضحکہ خیز افکار اور ان کے عقیدت مندوں کی اندھی عقیدت کے متعلق کافی کچھ معلوم ہوچکا ہے۔ آپ کو مزید کسی اقتباس یا حوالہ ڈھونڈنے کی سعی کرنے کی ضرورت نہیں۔
مجھے آج کے اس دور میں زمین کے ساکن اور کائنات کے مرکز ہونے جیسی باتوں پر بحث کر کے اپنے انسانی اور عقلی مقام کی توہین کرنا گوارا نہیں۔ آپ جو چاہیں اعتقاد رکھیے۔ تخیل کی پرواز بڑی دور تک ہوتی ہے۔
 
:laughing::laughing::laughing::laughing::laughing:
اس واقعے سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ریاضی کا ایک دقیق مسئلہ حل کیا۔ البتہ وہ مسئلہ کیا تھا یہ نہیں لکھا ہوا اس واقعے میں لیکن مجھے امید ہے کہ مزید کتابیں کھنگالنے سے وہ بھی غالباً مل جائے کہ مسئلہ کیا تھا۔
ایک بات ہمیں سمجھنی چاہئیے کہ فقہ حنفی کے بہت سے مسائل ریاضی کا ماہر ہوئے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔ جن میں سے ایک علم توکید ہے۔ جس سے دنیا کے مختلف مقامات پر نمازوں کے اوقات اور قبلہ کی سمت کا حساب لگایا جاتا ہے۔
امام احمد رضا کی 1000 سے زائد تصانیف ہیں جن میں رسائل و کتب شامل ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ ان میں سے چندعلم ریاضی کے متعلق بھی ہونگی۔ اب ان کو ڈھونڈنا ایک کام ہے۔ لیکن میں کوشش کروں گا۔ ان شاء اللہ

یہ کتاب میرے پاس پاکستان میں تھی یہاں کویت میں نیٹ سے ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔ :)

امام صاحب زمین کے ساکن ہونے کے تو قائل تھے۔ اور یہ مسئلہ انہوں نے قرآن سے اخذ کیا۔ کائنات کے زمین کے گرد گھومنے کا مجھے علم نہیں۔
میری ذاتی رائے میں : موجودہ مانے جانے والے سائنسی نظریے کے مطابق ساری کائنات ایک دوسرے کے لحاظ سے متحرک ہے۔ تو کائنات کے کسی بھی نکتے کو ساکن مان کر باقیوں کو اس کے لحاظ متحرک ماننے پر سائنس کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ ( میری اس ذاتی رائے پر آپ چاہیں تو میری رہنمائی کر سکتے ہیں :) )
راہنمائی:laughing::laughing::laughing::laughing:
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں
 

ساجد كمبوه

محفلین
جناب احمد رضا کی تصانیف کے متعلق ان کے عقیدت مندوں نے بہت زیادہ مبالغہ آرائی اور غلط بیانی کی ہے۔ کوئی کچھ کہتے ہیں اور کوئی کچھ۔ ان کے مختلف اقوال کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔
پہلا قول: اعلیٰ حضرت کی تصنیفات ۲۰۰ کے قریب تھیں۔ (۱)
دوسرا قول: ۳۵۰ کے قریب تھیں۔ (۲)
تیسرا قول: ۴۰۰ کے قریب تھیں۔ (۳)
چوتھا قول: ۵۴۸ تھیں۔ (۴)
پانچواں قول: ۶۰۰ سے بھی زائد تھیں۔ (۵)
چھٹا قول: ایک اندازہ کے مطابق فاضل بریلوی نے ایک ہزار کتابیں تصنیف فرمائیں ہیں۔ (۶)
۔
(۱) (مقدمۃ الدولۃ المکیہ)
(۲) (المبمل المعدد لتالیفات المجدد)
(۳) تالیفات مجدد از ظفر الدین بہاری)
(۴) (تالیفات مجدد)
(۵) (حیات اعلیٰ حضرت)
(۶) (انوار رضا ص۳۳۱)
دستیاب معلومات کے مطابق جناب احمد رضا نے مستقل کوئی کتاب نہیں لکھی۔ لوگ ان سے سوالات کرتے تھے اور وہ اپنے متعدد معاونین کی مدد سے جوابات تیار کرتے اور پھر جوابات کو مختلف کتب اور رسالوں کے نام سے شائع کر دیتے۔ اگر جواب بڑا ہوتا تو مستقل رسالہ بنا دیتے اگر جوابات مختصر ہوتے تو بہت سے سوالات کے جوابات اکھٹے جمع کر دیتے۔ پھر انہی کتب اور رسائل کو جمع فرما کر فتاویٰ رضویہ کی شکل میں بھی شائع کر دیتے۔ جناب احمد رضا کی جتنی کتب و رسائل ہیں وہ سب سوال جواب کی ہی شکل میں ہیں۔ جس سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے۔
جناب احمد رضا خاں کو اس حقیقت پسندی کی داد دی جاتی ہے کہ انہوں نے تفسیر یا حدیث کی کسی خدمت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ اس کی کوئی شہادت موجود تھی تاہم ان کے پیرئووں نے بمصداق پیراں نمے پرند و مریداں مے پرانند۔ آپ کو تفسیر و حدیث کی خدمت میں بھی اٹھانے کی بہت کوشش کی ہے
 

زیک

مسافر
اعلیٰ حضرت کی ریاضی دانی

اللہ تعالٰی نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو بے اندازہ علوم جلیلہ سے نوازا تھا ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کم و بیش 50 پچاس علوم میں قلم اٹھایا اور قابل قدر کتب تصنیف فرمائیں ، آپ رحمۃ اللہ علیہ کو ہر فن میں کافی دسترس تھی ، علم توقیت ( علم تو ۔ قی ۔ت ) میں اس قدر کمال حاصل کا تھا کہ دن کو سورج اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی ملالیتے ، وقت بالکل صحیح ہوتا اور کبھی ایک منٹ کا بھی فرق نہ ہوا ، علم ریاضی میں آپ یگانہ روزگار تھے ، چنانچہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا الدین جو کہ ریاضی میں غیر ملکی ڈگریاں اور تمغہ جات حاصل کیے ہوئے تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ریاضی کا ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے آئے ارشاد ہوا فرمائیے انہوں نے کہا کہ وہ ایسا مسئلہ نہیں جسے اتنی آسانی سے عرض کروں ، اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کچھ تو فرمائیے وائس چانسلر صاحب نے سوال پیش کیا تو اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اُسی وقت اس کا تشفی بخش جواب دیا انہوں نے انتہائی حیرت سے کہا کہ میں اس مسئلے کے لیے جرمنی جانا چاہتا تھا اتفاقا ہمارے دینیات کے پروفیسر مولانا سید سلیمان اشرف صاحب نے میری راہنمائی فرمائی اورمیں یہاں حاضر ہوگیا یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ اسی مسئلہ کو کتاب میں دیکھ رہے تھے ڈاکٹر صاحب بصد فرحت ومسرت واپس تشریف لے گئے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ داڑھی رکھ لی اور صوم و صلوۃ کے پابند ہوگئے ( حیات اعلٰی حضرت جلد اول صفحہ 223، 228 مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی ) علاوہ ازیں اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ علم تکسیر ، ہیئت ، علم جفر وغیرہ میں بھی کافی مہارت رکھتے تھے
یہ ریاضی کا انتہائی دقیق مسئلہ تھا کہ کیا دو جمع دو چار ہوتے ہیں یا نہیں۔ احمد رضا نے ۱۰۵ دلائل سے دو جمع دو چار کا رد پیش کیا۔
 

متلاشی

محفلین
تعلیم:
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم کچھ حضرت مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ سے اور اکثر کتب اپنے والد ماجد حضرت مولانا محمد نقی علی خاں علیہ الرحمہ سے پڑھیں، نیز چند ایک کتب کادرس حضرت مولانا سید ابوالحسین احمد نوری اور حضرت مولانا عبدالعلی رامپوری علیہ الرحمہ سے بھی لیا۔
آپ نے اپنے والد ماجد اور اساتذہ سے مندرجہ ذیل اکیس علوم کی تعلیم حاصل کی۔
١…علم قرآن، ٢…علم تفسیر، ٣…علم حدیث، ٤…اصول حدیث، ٥…کتب فقہ حنفی، ٦…کتب فقہ شافعی و مالکی و حنبلی، ٧…اصولِ فقہ، ٨…جدلِ مہذب، ٩…علم العقائد والکلام(جومذاہب باطلہ کی تردید کے لئے ایجاد ہوا)، ١٠…علم نحو، ١١…علم صرف، ١٢…علم معانی، ١٣…علم بیان، ١٤…علم بدیع، ١٥…علم منطق، ١٦…علم مناظرہ، ١٧…علم فلسفہ مدلسہ، ١٨…ابتدائی علم تکسیر، ١٩…ابتدائی علم ہیئت، ٢٠…علم حساب تا جمع، تفریق، ضرب، تقسیم،٢١…ابتدائی علم ہندسہ۔(سوانح اعلیٰ حضرت صفحہ ٩٨)

جبکہ مندرجہ ذیل علوم آپ نے بغیر کسی استاد محض اپنی خداداد ذہانت اور صلاحیت سے حاصل کیئے:
٢٢…قرأت، ٢٣…تجوید، ٢٤…تصوف، ٢٥…سلوک، ٢٦…علم اخلاق، ٢٧…اسماء الرجال، ٢٨…سیر، ٢٩…تواریخ، ٣٠…لغت، ٣١…ادب مع جملہ فنون، ٣٢…ارثماطیقی، ٣٣…جبرومقابلہ، ٣٤…حساب ستینی، ٣٥…لوغارثمات(لوگارثم)، ٣٦…علم التوقیت، ٣٧…مناظرہ، ٣٨…علم الاکر، ٣٩…زیجات، ٤٠…مثلث کُروی، ٤١…مثلث مسطح، ٤٢…ہیئت جدیدہ(انگریزی فلسفہ)، ٤٣…مربعات، ٤٤…منتہی علم جفر، ٤٥…علم زائرچہ، ٤٦…علمِ فرائض، ٤٧…نظم عربی، ٤٨… نظم فارسی، ٤٩… نظم ہندی، ٥٠…انشاء نثر عربی، ٥١…انشاء نثر فارسی، ٥٢…انشاء نثر ہندی، ٥٣…خط نسخ، ٥٤…خط نستعلیق، ٥٥…منتہی علم حساب، ٥٦…منتہی علم ہیئت، ٥٧…منتہی علم ہندسہ، ٥٨…منتہی علم تکسیر، ٥٩…علم رسم خط قرآن مجید۔(سوانح اعلیٰ حضرت صفحہ ٩٩)

مذکورہ بالا 59علوم و فنون میں سے پچاس فنون پر آپ کی تصانیف موجود ہیں ذہانت کا یہ عالم تھا کہ دورانِ تعلیم صرف آٹھ برس کی عمر میں علم نحو کی کتاب ہدایت النحو کی شرح عربی زبان میں لکھ دی۔ اور محض تیرہ سال دس ماہ اور پانچ دن کی عمر شریف میں مروجہ علوم و فنون کی تکمیل کرکے ١٤ شعبان ١٢٨٦ھ بمطابق ١٩ نومبر ١٨٦٩ء کو سند فراغت حاصل کی، اسی روز مسئلہ رضاعت پر ایک فتویٰ تحریر فرماکر والد ماجد کی خدمت میں پیش کیا، والد ماجد نے لائق اور ذہین بیٹے کی تحریر اور فتویٰ ملاحظہ فرماکر تحسین فرمائی اوراس دن سے فتویٰ نویسی کی خدمت آپ کے سپرد کردی۔


Aligarh Muslim University
دینی علوم کے علاوہ دنیاوی علوم میں بھی آپ کو وہ مہارت حاصل تھی کہ بڑے بڑے ماہر فن آپ کے سامنے طفل مکتب نظر آتے تھے
اللہ اللہ اس قدر مبالغہ آ رائی ۔۔۔
برادرم پوسٹ کرتے وقت خود ہی کچھ سوچ لیتے ۔۔۔ ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی ۔۔۔
 
Top