حسن رضا وہ راتیں کیا ہوئیں وہ دن اللہ کیا ہوئے

وہ راتیں کیا ہوئیں وہ دِن الله کیا ہوئے
مدّت گزر گئی ہمیں اُن سے جُدا ہوئے


مُجرم بنے ،اسیر ہوئے ،مُبتلا ہوئے
تقدیر کا لِکھا تھا کہ تُم پر فِدا ہوئے


سودائے زُلف مَول لیا مبتلا ہوئے
ہم خُود گِرہ کٹا کر اسیرِ ِبَلا ہوئے


جب اُن کے پائے ناز سے مِل کر جُدا ہوئے
میری طرح سے خاک بسر نقشِ پا ہوئے


بوسہ اگر لیا تو غضب کون سا کِیا؟
کچھ بات بھی تھی جس پہ تُم اتنے خفا ہوئے


ایسا ہی رُوٹھنا ہے تو الله کی پناہ
اِس بات پر خفا ہیں کہ تُم کیوں فِدا ہوئے


پِھر یادِ زُلفِ یار نے کی دِل میں گُدگُدی
اب کوئی مانتا ہے یہ بے مُبتلا ہوئے


اچھا کیا جو میں نے عدُو کو بُرا کہا
تُم کو تو واسطہ نہیں تُم کیوں خفا ہوئے

پِھر اچھی شکل حضرتِ دِل کو پسند ہے
یہ اب پھنسے کہیں نہ کہیں اب فِدا ہوئے

وقفِ خِرامِ ناز یہی خاکسار ہیں
اُن کی گلی میں ہم ہوئے یا نقشِ پا ہوئے

مُجھ کو تُمہارے ظلم پہ بھی پیار آگیا
میں نے جو تُم کو پیار کِیا تم خفا ہوئے

وہ جلوہ گاہِ ناز سے تشریف لے گئے
کس وقت ہائے ہوش ہمارے بَجا ہوئے

دِل کو جُدا ہوئے تو زمانہ گُزر گیا
لیکن وہ میرے دِل سے نہ دَم بھر جُدا ہوئے

صدقے جنابِ عشق کے دِل شاد کر دیا
وہ جب خفا ہوئے ہمیں سے خفا ہوئے

گَر خُود نمُا ہیں آپ تو وجہِ حجاب کیا
منظور تھا حجاب تو کیوں خُود نُما ہوئے؟

جوبن اُبھار پر ہے اُمنگیں بہار پر
اے شوقِ دِید صبر وہ اب خُود نُما ہوئے

کم بخت جان تو نہ گئی جسمِ زار سے
پہلو سے دل، وہ میری بغل سے جُدا ہوئے

اِس بات پر خفا ہیں یہ وجہِ عتاب ہے
کیوں تُم نے ہم کو پیار کیا کیوں فِدا ہوئے

وہ کہتے ہیں جفائیں نہ اُٹھیں تو مر گئے
لیجے خُدا کی شان ہمیں بے وفا ہوئے

رنگیں مزاج ہیں یہ تِرے بِسمِلوں کے دل
زخموں سے باغ تھے جو پِسے تو حِنا ہوئے

پردہ اُٹھا تو گِر گئیں آنکھوں پہ بجلیاں
یوں خُودنما ہوئے تو وہ کیا خُودنما ہوئے

تکلیفِ دِل دہی وہ اٹھائیں محال ہے
دل کش بنا جمال تو خود دِل رُبا ہوئے

فریاد و اضطراب ابھی سے جنابِ دل
کے دِن ہوئے ہیں آج تمہیں مبتلا ہوئے؟

دل کی طرح زَبان بھی کیا اُن کے بس میں تھی
شکوہ کیا تو شکر کے مضموں ادا ہوئے

کُھلتے نہیں نصیب اسیرانِ عشق کے
قسمت کے پیچ آپ کے بند قبا ہوئے

اِتنا بچاؤ بادۂ اُلفت سے اے حَسؔن
دُنیا میں آپ ہی تو نئے پارسا ہوئے
 
Top