آب کب آگ میں بدلتا ہے

میاں وقاص

محفلین
آب کب آگ میں بدلتا ہے
اشک آنکھوں سے جب نکلتا ہے

عشق شاید اسی کو کہتے ہیں
آنکھ دیکھے تو دل مچلتا ہے

دیکھیے تو زمیں کی بے چینی
جب بھی گرتا ہوا سنبھالتا ہے

میں ہوں سورج کا پیش رو صاحب
وہ تو سایے کے ساتھ چلتا ہے

اشک دامن بھگو گئے تو کیا
گھر کبھی پانیوں میں جلتا ہے؟

ابر چھٹنے سے کچھ سکوں آے
دل دلاسوں سے کب بہلتا ہے

جس کی کوئی نہ ہو شنیدن، وہ
راز دیوار کو اگلتا ہے

مجھ کو پیچھے ہی چھوڑ جاتا ہے
وقت یوں تیز تیزچلتا ہے

لوگ ایسا کبھی نہیں کرتے
یہ برا وقت ہے، جو ٹلتا ہے

اب خزاں تو نہیں میاں شاہیں
کون پھولوں کو آ مسلتا ہے

حافظ اقبال شاہیں
 
Top