اقتباسات حضرت امام غزالی ؒ کی کتاب " کیمیائے سعادت "

محمد فہد

محفلین
السلام علیکم
آج کل حضرت امام غزالی ؒ کی کتاب " کیمیائے سعادت " زیرِ مطالعہ ہے اس میں قبر کے عذاب کو ڈسکس گیا ہے کہ کیسے قبر کا عذاب ہو گا اور روح اس عذاب کو کیسے محسوس کرے گی ۔

دنیا میں جو چیزیں آپ کی محبت ہوں گی آپ کی تشنہ خواہشات ہوں گی وہی سانپ بچھو بن کے آپ کو ڈسیں گی کیوں کہ خواہش کا تعلق جسم سے نہیں ۔

اکثر ہم سوچتے ہیں کہ جب جسم میں جان ہی نہیں ہوگی تو عذاب کیسے ہوگا

اور جن روحوں کو دنیاسے کوئی محبت نہین ہو گی ان کے لیے کوئی سانپ بچھو نہین ہوگا یعنی کوئی عذاب نہیں ہوگا ۔

اب آپ سوچیں گے کہ یہ ہماری دنیا کی محبت دنیا حاصل کرنے کی خواہش کیسے سانپ بچھو بن کے ڈسے گی تو سیدھی سی بات ہے جیسے یہاں دنیا میں اگر کوئی خواہش آپ کی تشنہ رہ جائے یا مکمک ہونے کے چانسز نا ہوں تو دل میں عجیب سی گھٹن پیدا ہوتی ہے تنگی محسوس کرتے ہیں سکون نہیں ملتا یہ کیا ہوتا ہے ؟

یہ عذاب بھی تو جسم پہ وارد نہیں ہوتا جسم کو تو کسی تشنہ خواہش سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی تکلیٖ کا محل کہیں اور ہوتا ہے ۔

مرنے کے بعد ان خواہشوں کی شدت بڑھا دی جاتی ہے قبر میں جانے کے بعد یہی خواہشیں ہمیں باقاعدہ سانپ بچھو کی شکل میں ڈسنے لگتی ہیں ۔

اور قبر میں یہ عذاب تب تک رہے گا جتنی دنیا کی محبت کی شدت ہوگی جس کو کم دنیا کی محبت ہوگی اسے قبر میں کم عذاب ہوگا جسے زیادہ ہوگی اسے اتنے ہی عرصے تک اس عذاب میں سے گذارا جائے گا۔

واللہ تعالیٰ اعلم
نوٹ، پہلی بار لکھ رہا ہوں کوئی پوسٹ لکھنے میں اگر کوئی غلطی ہوجائے تو پیشگی معافی کا خواستگار ہوں۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں معاملات کو صحیح سمجھنے اور ان پہ بہتر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

تجمل حسین

محفلین
اتنی اچھی شیئرنگ کرنے کے لیے بہت شکریہ فہد بھائی!
کوشش کرتا ہوں کہ میں بھی وقت نکال کر اسے پڑھ سکوں۔
ایک بار پھر شکریہ :)
 

محمد فہد

محفلین
سید عاطف علی بھائی، مجھے یہ کتاب آن لائین پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہیے، در اصل یہ پوسٹ قبر کا عذاب سمجھنے کے لیے تھی کہ قبر میں جو سانپ بچھو ڈسیں گے وہ ہمیں دنیاوی خواہشات کے سنپولیے ہوں گے جو ہم قبر میں بھی اپنے ساتھ لے جائیں گے
قبر میں صرف جسم نہیں جاتا آپ کی روح جاتی ہے اور اس روح پر اگر اللہ کی محبت کے بجائے دنیوای خواہشات کی اجاڑہ داری ہوگی تو پھر عذاب ہوگا (واللہ تعالیٰ اعلم)

دنیا میں آئے ہیں تو رہنے کے لیے جو ضرورت ہے وہ لیں جیسے ضرورت پوری ہو جائے تو اس چیز کی کوئی محبت دل میں نہیں رہتی اسی طرح دنیا کو بھی ضرورت کی طرح لیں محبت نا بنائیں۔۔
اللہ تعالی، ہمیں آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین
 

محمد فہد

محفلین

Saif ullah

محفلین
آپ
بہت اچھی کتاب ہے اس کا مطالعہ جاری رکھیں
آپ آ گئے محفل میں ،
ہم ایک بزرگ کا کلام تلاش کر رہے تھے تو محفل کا لنک کھلا ، آپ نے وہ شیئر کر رکھا تھا ، پھر ہم نے رجسٹر کیا اور آپ کی کافی ساری شیئرنگ پڑہی،

ہم روحانیت کی دلچسپی رکھتے ہیں
اور یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ اسرارو رموز سے واقف ہیں۔۔
 
آپ

آپ آ گئے محفل میں ،
ہم ایک بزرگ کا کلام تلاش کر رہے تھے تو محفل کا لنک کھلا ، آپ نے وہ شیئر کر رکھا تھا ، پھر ہم نے رجسٹر کیا اور آپ کی کافی ساری شیئرنگ پڑہی،

ہم روحانیت کی دلچسپی رکھتے ہیں
اور یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ اسرارو رموز سے واقف ہیں۔۔
کونسے بزرگ کا کام؟؟؟
دوسرا یہ کہ جب موقع ملتا ہے محفل کا چکر لگاتا ہوں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کیمیائے سعادت غزالی کی کس کتاب کا ترجمہ ہے؟
میرے خیال میں اصل کتاب کا نام کیمیائے سعادت ہے اور نام لگتا ہے کہ فارسی میں ہوگی۔
اس کااردو ترجمہ اکسیر ہدایت (فخرالدین) کا ہے۔کئی سال پہلےپڑھی تھی کچھ اسی طرح یاد پڑتا ہے ۔
 

زیک

مسافر
میرے خیال میں اصل کتاب کا نام کیمیائے سعادت ہے اور نام لگتا ہے کہ فارسی میں ہوگی۔
اس کااردو ترجمہ اکسیر ہدایت (فخرالدین) کا ہے۔کئی سال پہلےپڑھی تھی کچھ اسی طرح یاد پڑتا ہے ۔
غزالی کی تصانیف کے بارے میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اس لئے معلوم کرنا چاہ رہا تھا کہ یہ کس درجہ میں آتی ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
غزالی کی تصانیف کے بارے میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اس لئے معلوم کرنا چاہ رہا تھا کہ یہ کس درجہ میں آتی ہے
یہ تو بہت معروف تصنیف ہے ۔ احیاء العلوم الدین کی طرح لیکن احیا کے مقابلے میں غالباً قدرے مختصر ہے ۔
 
کیمیاء سعادت ، احیاء العلوم الدین کا ہی اختصار ہے یا بعض روایات کے مطابق غزالی رح نے پہلے کیمیاء لکھی اور پھر اس کی تشریح احیاء العلوم الدین کی شکل میں کی ........
جہاں تک معاملہ ہے عذاب قبر کا تو اس حوالے سے سیوطی رح کی شرح الصدور بشرح حال الموتى و القبور اور ابن قیم کی کتاب الروح کا مطالعہ انتہائی مفید رہے گا .....
 

نایاب

لائبریرین
دنیا میں جو چیزیں آپ کی محبت ہوں گی آپ کی تشنہ خواہشات ہوں گی وہی سانپ بچھو بن کے آپ کو ڈسیں گی کیوں کہ خواہش کا تعلق جسم سے نہیں ۔
میرے محترم محمد فہد بھائی
بلاشک ہدایت پانے کے لیئے سچی کتاب قران پاک کافی ہے ۔
بشرطیکہ اس کو پڑھنے والے کو ہدایت کی طلب ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب امام غزالی کی جملہ تعلیمات سالک کو " توکل " پر عمل پیرا رہنے کی نصیحت کرتی ہیں
دین کو جاننا سمجھنا خود پر طاری کرنا
ان تین درجوں کو " علم حال اور عمل " کی صورت بیان کرتے سالکوں کو نصیحت فرمائی ۔
اور علم کو " حال اور عمل " پر فوقیت دیتے " حال اور عمل " کی قبولیت کو " علم " سے مشروط کیا ۔
آپ فرماتے ہیں کہ بندے کا اصل " علم " یہ ہے کہ وہ " شکر کی حقیقت " سے واقف ہو ۔
شکر کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ یقین رکھتا ہو کہ اللہ بے نیاز ہے اور بندے کو پیش آنے والی سب آزمائشیں ملنے والی سب نعمتیں اللہ کی حکمت و تدبیر پر قائم ہوتی ہیں ۔اور بندے کو ہر حال میں تسلیم و رضا کا پیکر رہتے صبر اور شکر پر قناعت رکھنی چاہیے ۔ خواہش نفس کی پیروی میں خود کو ہلکان نہیں کرنا چاہیئے ۔ جو نعمتیں اس کے مقدر میں لکھ دی گئی ہیں اور جو آزمائشیں اس کا نصیب کر دی گئی ہیں ۔ وہ بہرصورت اسے مل کر رہیں گی ۔
نفس کی لذات چونکہ براہ راست جسم سے منسلک ہیں اس لیئے قبر میں خواہش نفس پر مبنی خواہشات جسم کے لیئے عذاب قبر کا سبب ہوں گی ۔ اور یہ عذاب روح جسم سے بہت دور ہوتے ہوئے بھی مکمل معنویت سے محسوس کرے گی ۔
یہ اک دانا کی جانب سے " ترغیب " ہے کہ انسان نیک عمل کرتے اپنی روح کو اس عذاب سے بچائے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاشک سب توفیق اللہ ہی کی جانب سے ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
Top