mohsin ali razvi

محفلین
بہت خوب!! لیکن غبار مذکر ہے ، مونث نہیں ۔:)
ظھیر صاحب معذرت کے ساتھ
آداب
میری مادری زبان فارسی ہے اور فارسی زبان میں اردو کی طرح معنث ، مذکر کے صیغہ نھی بحرحال غلطی کی نشاندھی کرنے کا شکریہ اسی طرح اصلاح کرتے رھین مشکور
علیشا رضوی
 

حسان خان

لائبریرین
هر کسی کو دور ماند از اصلِ خویش
باز جوید روزگارِ وصلِ خویش

(مولانا جلال‌الدین رومی)
ہر وہ شخص جو اپنی اصل اور سرچشمے سے دور ہو جائے، وہ دوبارہ اپنے زمانۂ وصل تک رسائی حاصل کرنے کی تلاش، اشتیاق اور تگ و دو میں رہتا ہے۔

مولویِ روم کے شعر کی روشنی میں دیکھا جائے تو اپنی اصل سے جدائی کا شدید احساس ہی میرے فارسی زبان سے والہانہ عشق کا قوی موجب ہے۔ فارسی زبان میری اصل ہے جس سے مجھے زمانے کے جبر نے جدا کر دیا ہے اور اب میں اپنی اصل سے وصل کی تمنا میں بے تاب ہوں۔
 
آخری تدوین:

mohsin ali razvi

محفلین
چھور کر اقدار کو بنتے ھو غیر
جب تو ڈھونڈوگے اُسے کیا پاوگے
------------------------------
اضافی
فرد ملت بن نہ بن دور از اُمم
جمع ملت بن نہ کر بے کار تن
گر رھوگے دور از اقدار خود
رنگ افکار دگر پاوگے تم
دست دے در دست ملت جان من
تَب تو پاوگے خودی کو در اُمم
علیشا رضوی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظھیر صاحب معذرت کے ساتھ
آداب
میری مادری زبان فارسی ہے اور فارسی زبان میں اردو کی طرح معنث ، مذکر کے صیغہ نھی بحرحال غلطی کی نشاندھی کرنے کا شکریہ اسی طرح اصلاح کرتے رھین مشکور
علیشا رضوی

بھئی اگر یہ بات ہے تو پھر آپ کو سو خون معاف ہیں ! :):):)
خونِ دو عالم وارث صاحب اور حسان خان کی گردن پر

یہ تو بہت ہی قابلِ ستائش بات ہے کہ آپ اردو سے اتنا لگاؤ رکھتی ہیں ۔ آپ اپنی تخلیقی کاوشیں جاری رکھئے ۔ ہم ہمہ تن گوش ہیں ۔
 

mohsin ali razvi

محفلین
ظھیر صاحب معذرت کے ساتھ
آداب
میری مادری زبان فارسی ہے اور فارسی زبان میں اردو کی طرح معنث ، مذکر کے صیغہ نھی بحرحال غلطی کی نشاندھی کرنے کا شکریہ اسی طرح اصلاح کرتے رھین مشکور
علیشا رضوی
اور یہ بتاناپسند فرمائین گے کہ غبار کے معنث کیا ہے جی ،، شکریہ
 

حسان خان

لائبریرین
اور یہ بتاناپسند فرمائین گے کہ غبار کے معنث کیا ہے جی ،، شکریہ
'غبار' کی کوئی مؤنث شکل نہیں ہے کیونکہ یہ مذکرِ حقیقی نہیں بلکہ مذکرِ سماعی ہے، یعنی بذاتِ خود اس لفظ کی کوئی عینی جنس نہیں ہے، بس چونکہ اہلِ زبان اس لفظ کو مذکر کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں، اسی لیے معیاری اردو میں اس کی جنس مذکر مقرر کر دی گئی ہے۔
منتظر ہے میری ھر جا یہ غبار زندگی
مذکر اسموں کے ساتھ 'میری' کی بجائے 'میرا' استعمال ہوتا ہے۔ یعنی 'منتظر ہے میرا ہر جا یہ غبارِ زندگی' ہونا چاہیے۔ آپ کے شعر میں لسانی لحاظ سے بس یہی ایک ذرا سی خامی ہے۔
 
آخری تدوین:
برائے مہربانی کا اس ترجمہ کردیں .....

ای کہ مثل گل ز گل بالیدہ ئی

تو ھم از بطن خودی زائیدہ ئی
از خودی مگذر بقا انجام باش
قطرہ ئی می باش و بحر آشام باش
تو کہ از نور خودی تابندہ ئے
گر خودی محکم کنی پایندہ ئی
سود در جیب ہمین سوداستی
خواجگی از حفظ این کالاستی
ہستی و از نیستی ترسیدہ ئی
ای سرت گردم غلط فہمیدہ ئی
چون خبر دارم ز ساز زندگی
با تو گویم چیست راز زندگی
غوطہ در خود صورت گوہر زدن
پس ز خلوت گاہ خود سر بر زدن
زیر خاکستر شرار اندوختن
شعلہ گردیدن نظرہا سوختن
خانہ سوز محنت چل سالہ شو
طوف خود کن شعلہ ی جوالہ شو
زندگی از طوف دیگر رستن است
خویش را بیت الحرم دانستن است
پر زن و از جذب خاک آزاد باش
ہمچو طایر ایمن از افتاد باش
تو اگر طایر نہ ئی ای ہوشمند
بر سر غار آشیان خود مبند
ای کہ باشی در پی کسب علوم
با تو می گویم پیام پیر روم
’’علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود‘‘
آگہی از قصہ ی آخوند روم
آنکہ داد اندر حلب درس علوم
پای در زنجیر توجیہات عقل
کشتیش طوفانی ’’ظلمات‘‘ عقل
موسی بیگانہ ی سینای عشق
بیخبر از عشق و از سودای عشق
از تشکک گفت و از اشراق گفت
وز حکم صد گوہر تابندہ سفت
عقدہ ہای قول مشائین گشود
نور فکرش ہر خفی را وانمود
گرد و پیشش بود انبار کتب
بر لب او شرح اسرار کتب
پیر تبریزی ز ارشاد کمال
جست راہ مکتب ملا جلال
گفت این غوغا و قیل و قال چیست
این قیاس و وہم و استدلال چیست
مولوی فرمود نادان لب ببند
بر مقالات خردمندان مخند
پای خویش از مکتبم بیرون گذار
قیل و قال است این ترا با وی چہ کار
قال ما از فہم تو بالاتر است
شیشہ ی ادراک را روشنگر است
سوز شمس از گفتہ ی ملا فزود
آتشی از جان تبریزی گشود
بر زمین برق نگاہ او فتاد
خاک از سوز دم او شعلہ زاد
آتش دل خرمن ادراک سوخت
دفتر آن فلسفی را پاک سوخت
مولوی بیگانہ از اعجاز عشق
ناشناس نغمہ ہای ساز عشق
گفت این آتش چسان افروختی
دفتر ارباب حکمت سوختی
گفت شیخ ای مسلم زنار دار
ذوق و حال است این ترا با وی چہ کار
حال ما از فکر تو بالاتر است
شعلہ ی ما کیمیای احمر است
ساختی از برف حکمت ساز و برگ
از سحاب فکر تو بارد تگرگ
آتشی افروز از خاشاک خویش
شعلہ ئی تعمیر کن از خاک خویش
علم مسلم کامل از سوز دل است
معنی اسلام ترک آفل است
چون ز بند آفل ابراہیم رست
در میان شعلہ ہا نیکو نشست

علم حق را در قفا انداختی
بہر نانی نقد دین در باختی
گرم رو در جستجوی سرمہ ئی
واقف از چشم سیاہ خود نہ ئی
آب حیوان از دم خنجر طلب
از دہان اژدہا کوثر طلب
’’ق‘‘
سنگ اسود از در بتخانہ خواہ
نافہ ی مشک از سگ دیوانہ خواہ
سوز عشق از دانش حاضر مجوی
کیف حق از جام این کافر مجوی
مدتی محو تک و دو بودہ ام
رازدان دانش نو بودہ ام
باغبانان امتحانم کردہ اند
محرم این گلستانم کردہ اند
گلستانی لالہ زار عبرتی
چون گل کاغذ سراب نکہتی
تا ز بند این گلستان رستہ ام
آشیان بر شاخ طوبی بستہ ام
دانش حاضر حجاب اکبر است
بت پرست و بت فروش و بتگر است
پا بزندان مظاہر بستہ ئی
از حدود حس برون نا جستہ ئی
در صراط زندگی از پا فتاد
بر گلوی خویشتن خنجر نہاد
آتشی دارد مثال لالہ سرد
شعلہ ئی دارد مثال ژالہ سرد
فطرتش از سوز عشق آزاد ماند
در جہان جستجو ناشاد ماند
عشق افلاطون علت ہای عقل
بہ شود از نشترش سودای عقل
جملہ عالم ساجد و مسجود عشق
سومنات عقل را محمود عشق
این می دیرینہ در میناش نیست
شور ’’یارب‘‘ ، قسمت شبہاش نیست

قیمت شمشاد خود نشناختی
سرو دیگر را بلند انداختی
مثل نے خود را ز خود کردی تہی
بر نوای دیگران دل می نہی
ای گدای ریزہ ئی از خوان غیر
جنس خود می جوئی از دکان غیر
بزم مسلم از چراغ غیر سوخت
مسجد او از شرار دیر سوخت
از سواد کعبہ چون آہو رمید
ناوک صیاد پہلویش درید
شد پریشان برگ گل چون بوی خویش
ای ز خود رم کردہ باز آ سوی خویش
ای امین حکمت ام الکتاب
وحدت گمگشتہ ی خود بازیاب
ما کہ دربان حصار ملتیم
کافر از ترک شعار ملتیم
ساقی دیرینہ را ساغر شکست
بزم رندان حجازی بر شکست
کعبہ آباد است از اصنام ما
خندہ زن کفر است بر اسلام ما
شیخ در عشق بتان اسلام باخت
رشتہ ی تسبیح از زنار ساخت
پیر ہا پیر از بیاض مو شدند
سخرہ بہر کودکان کو شدند
دل ز نقش لاالہ بیگانہ ئی
از صنم ہای ہوس بتخانہ ئی
می شود ھر مو درازی خرقہ پوش
آہ ازین سوداگران دین فروش
با مریدان روز و شب اندر سفر
از ضرورت ہای ملت بی خبر
دیدہ ہا بی نور مثل نرگس اند
سینہ ہا از دولت دل مفلس اند
واعظان ہم صوفیان منصب پرست
اعتبار ملت بیضا شکست
واعظ ما چشم بر بتخانہ دوخت
مفتی دین مبین فتوی فروخت
چیست یاران بعد ازین تدبیر ما
رخ سوی میخانہ دارد پیر ما
آپ اس لنک پر اس کا ترجمہ پڑھ سکتے ہیں:
http://iqbalurdu.blogspot.com/2011/04/asrar-e-khudi-22-andz-meer-e-nijat.html
 
زندگانی آشتی ضدہاست
مرگ آنک اندر میانش جنگ خاست


(زندگی مخالف چیزوں کے درمیان آشتی کا نام ہے۔ موت یہ ہے کہ اُن میں جنگ چِھڑ جائے)

- رومی

زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے، اِنہی اجزا کا پریشاں ہونا


- برج نارائن چکبست لکھنوی
 

حسان خان

لائبریرین
حُسنِ بیان مجوی ز ما دل‌شکستگان
از کاسهٔ شکسته نخیزد صدا درست

(واعظ قزوینی)
ہم دل شکستوں سے حُسنِ بیاں کی طلب مت رکھو۔۔۔ شکستہ کاسے سے صدا درست نہیں اٹھتی۔

بی‌کمالی‌های انسان از سخن پیدا شود
پستهٔ بی‌مغز چون لب وا کند، رسوا شود

انسان کی بے کمالیاں (اُس کے) سخن سے ظاہر ہوتی ہیں۔۔۔ بے مغز پستہ جب (اپنے) لب کھولتا ہے، رسوا ہو جاتا ہے۔
یہ شعر احتمالاً صائب تبریزی کا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
نشد یک لحظہ از یادَت جدا دل
زہے دل، آفریں دل، مرحبا دل


ایک لمحے کے لیے بھی یہ دل تیری یاد سے جدا نہیں ہوتا، زہے دل، آفرین دل، مرحبا دل۔

تو لاھوتی ز دل نالے، دل از تو
حیا کن، یا تو ساکت باش یا دل


لاھوتی تُو دل کے ہاتھوں نالہ و زاری کرتا ہے اور دل تیرے ہاتھوں، حیا کر، یا تو ساکت ہو جا یا دل ساکت ہو جائے۔

ابوالقاسم لاھوتی
 

حسان خان

لائبریرین
تو لاھوتی ز دل نالے، دل از تو
تو لاہوتی ز دل نالی، دل از تو :)

اسی غزل سے ایک اور شعر:
ز عقل و دل، دگر از من مپرسید
چو عشق آمد، کجا عقل و کجا دل

(ابوالقاسم لاهوتی)
مجھ سے اب عقل و دل کے بارے میں مت پوچھیے گا۔۔۔ جب عشق آ گیا تو کہاں عقل اور کہاں دل؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(قطعه)
من موی خویش را نه از آن می‌کنم سیاه
تا باز نوجوان شوم و نو کنم گناه
چون جامه‌ها به وقتِ مصیبت سیه کنند
من موی از مصیبتِ پیری کنم سیاه
(رودکی سمرقندی)

میں اپنے بالوں کو اس لیے سیاہ نہیں کرتا کہ میں دوبارہ نوجوان ہو جاؤں اور پھر سے گناہ کرنا شروع کر دوں، (بلکہ) چونکہ پوشاکوں کو مصیبت کے وقت سیاہ کیا جاتا ہے، میں بالوں کو بڑھاپے کی مصیبت کے باعث سیاہ کرتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
خالِ او نقدِ دلم از دیدهٔ روشن کشید
همچو دزدی کو متاعِ خانه از روزن کشید

(سیّد مسلمی اِسفراینی)
اُس کے خال نے (میرے) دیدۂ روشن کے راستے سے ایسے میرا نقدِ دل کھینچ لیا جیسے کسی چور نے روزن کے راستے سے متاعِ خانہ کھینچ لیا ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دردی که ز دوست می‌دهد یاد
صد بار بِه از دواست ما را
(قاضی احمد فگاری اِسفراینی)

جو درد دوست کی یاد دلاتا ہے وہ ہمارے لیے دوا سے سو بار بہتر ہے۔

خوب‌رُویان خواه دل خواهند از ما، خواه جان
هر چه خواهد خاطرِ ایشان چنان خواهیم کرد
(مولانا خوشی)

خوب رُو محبوباں خواہ ہم سے دل کی خواہش کریں، خواہ جان کی۔۔۔ اُن کی خاطرِ [نازک] جو کچھ بھی خواہش کرے، ہم ویسا ہی کریں گے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گیرم که در عشقت مرا رفته‌ست تقصیر ای صنم
بر گردنِ جانم فکن از زلف زنجیر ای صنم

(مهدی الٰهی قُمشه‌ای)
اے صنم، میں یہ قبول کرتا ہوں کہ تمہارے عشق میں مجھ سے خطا سرزد ہوئی ہے۔ (لہٰذا،) اے صنم، میری گردنِ جاں میں (سزا کے طور پر اپنی) زلف کی زنجیر ڈال دو۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اور یہ بتاناپسند فرمائین گے کہ غبار کے معنث کیا ہے جی ،، شکریہ

میں تو آپ کو غبار کا مونث غبارہ بتانے والا تھا لیکن دیکھا تو معلوم ہوا کہ برادرم حسان خان نے اس سوال کا جواب پہلے ہی وضاحت سے دیدیا ہے ۔:):):)
 
Top