فارسی نثری اقتباسات مع اردو ترجمہ

حسان خان

لائبریرین
این سخن از کیست؟ مالِ شما؟ خیلی قشنگہ۔
اگہ اجازہ باشہ می خوام اضافہ ش کنم
ازبک نژاد ذواللسانین ادیب سراج الدین مخدوم صدقی نے ۱۹۰۷ء میں 'جواہرالپند' نامی ایک رسالہ تالیف کیا تھا جس میں نے اُنہوں نے اس طرح کے مختصر پندآموز جملے جمع کیے تھے۔ یہ جملہ اُسی رسالے سے مقتبس ہے۔ میرے پاس یہ رسالہ تو نہیں ہے، لیکن تاجکستان میں شائع ہونے والی ایک کتاب 'کیمیائے خرد' کا برقی نسخہ میرے پاس موجود ہے، جس کے ایک حصے میں 'جواہرالپند' کی نصیحتوں کو قاریوں کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"در ایران متاسفانه اغلب کسانی که علوم جدید اروپایی را فراگرفته‌اند یا مدعی فراگرفتن آن هستند از ادبیات ما به کلی بی‌بهره و حتی از سواد فارسی معمولی هم عاری‌اند اما در افغانستان بالعکس بسیار مهندس و طبیب و نظامی دیدم که کاملاً از ادب فارسی بهره‌مند بودند."
(سعید نفیسی، ۳۰ دسمبر ۱۹۵۱ء)
ماخذ
" بدقسمتی سے ایران میں ایسے بیشتر افراد جو جدید یورپی علوم کی تحصیل کر چکے ہیں یا اُن کی تحصیل کرنے کے مدعی ہیں وہ ہمارے ادب سے پوری طرح بے بہرہ اور حتیٰ معمولی فارسی خواندگی سے بھی عاری ہیں لیکن افغانستان میں اس کے برعکس میں نے بہت سے مہندس، طبیب اور فوجی دیکھے جو فارسی ادب سے کاملاً بہرہ مند تھے۔"
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
گذشتہ سے پیوستہ

سید از شیخ نعمت خواست، بر خیزد و سوار شود ولی بیماری توان از وی ربودہ بود۔ بہ کمک شیخ موسٰی او را در کجاوہ نھادند۔ زن نیز بر کجاوہ نشست و کاروان بار دیگر درمیان نالہ ھای شیخ نعمت بہ راہ خویش ادامہ داد۔ ولی ھنوز مسافت قابل توجھی نپیمودہ بود کہ بار دیگر مسافر بیمار بر زمین افتاد۔ سید دیگر بار پیادہ شدہ۔ بیابان تاریک، خاموش و ھراس آور بود۔ با توقف استران ھیچ صدایی بہ گوش نمی رسید۔ ھمہ سرگردان بہ شیخ نعمت می نگریستند۔ راستی چہ باید می کردند؟ در ایں لحظہ سید محسن سکوت را شکستہ از چاروادار پرسید: طناب دارید؟

مرد قاطرچی در حالیکہ طناب بہ وی می داد، گفت: آری۔

سید بہ یاری شیخ موسٰی بیمار را در کجاوہ نھادہ، با طناب پیرامون کجاوہ را محکم بست۔ بدین ترتیب کاروانیان دیگر بار حرکت کردند و خود را با خستگی بسیار بہ دیر الشعار کہ دیر الزور نیز نامیدہ می شد، رساندند۔

آنھا یک روز در آن آبادی ماندند و روز دوم آمادہ سفر شدند۔ ولی شیخ نعمت کہ از بیماری رنج می بردبا حرکت مخالفت کردہ بنا بر ایں روزی دیگر نیز در آن روستای پر درخت و آباد اقامت کردند۔


سید نے شیخ موسی سے اٹھنے اور سوار ہونے کے لیے کہا مگر بیماری نے ان کی تمام توانائی جیسے نچوڑ لی تھی۔ شیخ موسٰی کی مدد سے انھیں کجاوے پر بٹھایا گیا، ان کی اہلیہ بھی کجاوے پر سوار ہوئیں اور شیخ نعمت کی کراہوں کے درمیان کاروان دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہوا تاہم ابھی قابل ذکر مسافت طے نہ ہونے پائی تھی کہ بیمار مسافر ایک بار پھر زمین پر گر گیا۔ سید دوبارہ پیادہ ہوئے۔ بیابان تاریک، ساکت اور خوفزدہ کر دینے والا تھا۔ سوائے خچروں کی حرکت کے کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ سب پریشان و سراسیمہ شیخ نعمت کو دیکھ رہے تھے کہ کیا کرنا چاہیے۔ اسی وقت سید محسن نے سکوت توڑتے ہوئے خچربانوں سے پوچھا کیا آپ کے پاس رسی ہے؟

ایک خچربان نے رسی انھیں دیتے ہوئے جواب دیا: ہاں

سید نے شیخ موسی کی مدد کرتے ہوئے بیمار کو کجاوے پر سوار کیا اور کجاوے کے اطراف میں رسی مظبوطی سے باندھ دی۔ اس کے بعد قافلے نے دوبارہ حرکت کی اور سب انتہائی تھکن کے ساتھ دیرالشعار جسے دیر الزور بھی کہا جاتا ہے، پہنچے۔ انھوں نے ایک دن وہاں قیام کیا اور اگلے روز سفر کی تیاری پکڑی لیکن شیخ نعمت جو بیماری کے سبب بہت تکلیف و اذیت میں تھے انھوں نے سفر کی مخالفت کی۔ اس بنا پر سب نے وہ دن بھی درختوں سے بھرے اس گاؤں میں گذارا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
گذشتہ سے پیوستہ

در ایں لحظہ سید محسن سکوت را شکستہ از
چاروادار پرسید: طناب دارید؟
چاروادار کے لیے اردو میں کیا اصطلاح ہے؟ میں فی الحال اس کا ترجمہ خچربان کر دیا ہے۔
انھیں چھارپادار بھی کہا جاتا ہے۔ چاروادار وہ لوگ جن کے پاس باربردار مویشی ہوتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
چاروادار کے لیے اردو میں کیا اصطلاح ہے؟ میں فی الحال اس کا ترجمہ خچربان کر دیا ہے۔
انھیں چھارپادار بھی کہا جاتا ہے۔ چاروادار وہ لوگ جن کے پاس باربردار مویشی ہوتے ہیں۔
'خچربان' مناسب ترجمہ ہے۔
میری نظر میں فارسی زبان کے ہر لفظ کا استعمال اردو میں جائز ہے۔ لہٰذا اگر آپ چاروادار یا چارپادار بھی اردو میں استعمال کرتیں تو میں بالکل درست مانتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
"دشمنانِ افغانستان به طُرُقِ مختلف تلاش دارند بینِ مردمِ این کشور تفرقه و نفاق ایجاد کنند امّا مُوفّق نخواهند شد."
"افغانستان کے دشمن مختلف طریقوں سے اِس ملک کے لوگوں کے مابین تفرقہ و اختلاف ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔"
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کمتر روزی اتفاق می افتاد کہ نیاز مند و محتاجی بہ سید ابوالحسن اصفھانی مراجعہ کند، و با دست خالی باز گردد۔ باینکہ تعداد ارباب حاجت بسیار زیاد بود، او ھمگان را از خوان کرمش بھرہ مند می ساخت، و بسیار اتفاق می افتاد کہ باینکہ خود سخت محتاج بود از بخشش بہ دیگران دریغ نمی کرد و آنان را ترجیح می داد۔
کتاب: سید ابوالحسن اصفھانی
تالیف: محمد اصغری نژاد


کم ہی کوئی دن ایسا گذرتا کہ کوئی نیازمند و حاجت مند سید ابوالحسن اصفھانی کے پاس آئے اور خالی ہاتھ واپس جائے۔ اگرچہ حاجتمندوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی، وہ اپنے خوان فیض و سخاوت سے ہر کسی کو سیراب و بھرہ مند فرماتے، اور اکثر یوں بھی ہوتا کہ باوجود اس کے کہ آپ خود سخت تنگدستی کا شکار ہوتے دوسروں کو عطا کرنے میں دریغ نہیں کرتے بلکہ انھیں اپنی ضرورت پر ترجیح دیتے تھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
امام ابوحنیفه (رح)
نامِ اصلیِ ابوحینفه (رح) نعمان بود و پدرش ثابت نام داشت. وی در سالِ ۸۰ ه در شهر کوفه تولد گردیده و در سالِ ۱۵۰ ه در شهر بغداد از دنیای فانی رحلت نمود. وطنِ اصلیِ امام ابوحنیفه (رح) افغانستان است و اجدادِ وی از افغانستان به کوفه رفته بودند. کوفه در آن زمان از جملهٔ شهرهای مشهورِ مسلمانان بود.
امام ابوحنیفه (رح) از علمای مشهورِ آن زمان علومِ مختلفه را کسب نمود و علمِ فقه را از استادِ خویش (حماد) تحصیل نمود. زمانیکه حماد (رح) وفات یافت شاگردانش امام ابوحنیفه (رح) را به حیثِ امامِ علمای فقه در عراق تعین نمودند.
امام ابوحنیفه (رح) شخصِ هوشیار، پرهیزگار و عالم بود و به همین سبب لقبِ امامِ اعظم را به وی داده‌اند. وی شخصِ امانت‌کار و سخی بود و از مالِ شخصیِ خود ضروریاتِ علماء و شاگردانِ خود را پوره می‌نمود.
امام ابوحنیفه (رح) در دنیا پیروانِ زیاد دارد و کسانیکه پیروِ مذهبِ امام ابوحنیفه‌اند حنفی‌ها گفته می‌شوند.

کتاب: قرائتِ دری: برای صنفِ پنجم
مؤلف: عبدالواحد قادری
سالِ طباعت: ۱۹۹۹ء


امام ابوحنیفہ (رح)
ابوحنیفہ (رح) کا اصلی نام نعمان تھا اور اُن کے والد ثابت کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ وہ ۸۰ھ میں شہرِ کوفہ میں متولد ہوئے اور ۱۵۰ھ میں شہرِ بغداد میں دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا اصلی وطن افغانستان ہے اور اُن کے اجداد افغانستان سے کوفہ گئے تھے۔ کوفہ اُس زمانے میں مسلمانوں کے مشہور شہروں میں سے تھا۔
امام ابوحنیفہ (رح) نے اُس زمانے کے مشہور علماء سے مختلف علوم کا اکتساب کیا اور علمِ فقہ کی تعلیم اپنے استاد 'حماد' سے حاصل کی۔ جب حماد (رح) وفات پا گئے تو اُن کے شاگردوں نے امام ابوحنیفہ (رح) کو عراق میں امامِ علمائے فقہ کی حیثیت سے مقرر کر دیا۔
امام ابوحنیفہ (رح) ہوشیار، پرہیزگار اور عالم شخص تھے اور اسی سبب سے اُنہیں امامِ اعظم کا لقب دیا گیا ہے۔ وہ امین اور سخی شخص تھے اور اپنے شخصی مال سے علماء اور اپنے شاگردوں کی ضروریات پوری کیا کرتے تھے۔
امام ابوحنیفہ (رح) کے دنیا میں بہت پیروکار ہیں اور جو لوگ مذہبِ امام ابوحنیفہ کے پیرو ہیں وہ حنفی کہلائے جاتے ہیں۔
BookReaderImages.php
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

شرح حال بزرگان، برای ھمہ سود مند است و آشنایی با فراز و نشیب ھای زندگی مردان خود ساختہ و مھذب، و رمز و راز توفیق آنان در مسیر کمال و رشد، بخصوص برای نسل جوان سازندہ تر است؛ چرا کہ اینان، در سن و سال و شرایطی بہ سر می بردند کہ "الگویابی" و "قھرمان جویی" در ضمیر شان زندہ تر و زمینہ سر مشق گیری و شخصیت یابی برایشان بیشتر است۔

کتاب: حاج ملا ھادی سبزواری
تالیف: سید حسین قریشی سبزواری


بزرگوں کی سرگذشت و سوانح عمری سب کے لئے فائدہ مند ہے، وہ مہذب لوگ جنہوں نے اپنے نفس کی تربیت کی، ان کی زندگی کے نشیب و فراز اور کمال و رشد کی راہ میں ان کی کامرانی کے اسرار و رموز سے آشنائی، نئی نسل کی رہنمائی و تربیت کے لیے خصوصیت کی حامل ہے۔ یہ اس واسطے کہ انھوں نے اپنے سن و سال خودی کی تلاش و جستجو و ریاضت میں بسر کیے اور اس ریاضت کے سبب معرفت نفس اور کردارسازی میں فاتح رہے اور بباطن نمونہ عمل ٹھہرے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چرا کہ اینان، در سن و سال و شرایطی بہ سر می بردند کہ "الگویابی" و "قھرمان جویی" در ضمیر شان زندہ تر و زمینہ سر مشق گیری و شخصیت یابی برایشان بیشتر است۔
یہ اس واسطے کہ انھوں نے اپنے سن و سال خودی کی تلاش و جستجو و ریاضت میں بسر کیے اور اس ریاضت کے سبب معرفت نفس اور کردارسازی میں فاتح رہے اور بباطن نمونہ عمل ٹھہرے۔
مجھے فارسی عبارت اور اس کے ترجمے کے درمیان مطابقت و سازگاری نظر نہیں آ رہی۔ اگر میری رائے غلط ہے تو از راہِ کرم میری تصحیح فرمائیے، ورنہ ترجمے پر بارِ دیگر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔
پس نوشت: نیٹ پر تلاش کرنے پر مجھے 'بہ سر می بردند' کی جگہ پر 'بہ سر می برند' لکھا نظر آیا ہے۔ اس اشارے اور مندرجۂ بالا فارسی عبارت کے مضمون کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میرا خیال یہ ہے کہ یہاں بزرگوں کی بجائے زمانۂ حال کے جوانوں کی بات ہو رہی ہے۔ بزرگ تو خود نمونہ (الگو) ہوتے ہیں،لہٰذا اُن کے اپنے ضمیر میں 'الگویابی' کا زندہ تر ہونا مناسب طرزِ بیان معلوم نہیں ہوتا۔اسی طرح، 'قہرَمان جوئی' اور 'سرمشق گیری' کی تراکیب بھی معنائی لحاظ سے بزرگوں کی بجائے نوجوان نسل کے مناسبِ حال ہیں۔
یہ لفظ فارسی، ترکی اور پشتو میں 'ہیرو' کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ میں اس لفظ کو اردو میں بھی رائج کرنا چاہتا ہوں، اسی لیے اب میں لکھتے وقت 'ہیرو' کی بجائے 'قہرَمان' کا لفظ ہی استعمال کرتا ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"حرف‌های خود را بیهوده تلفِ کسانی نکنید که سزاوارِ سکوتتان هستند."
"اپنے کلمات کو بے کار میں اُن لوگوں پر تلف مت کیجیے جو آپ کی خاموشی کے لائق ہیں۔"
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مجھے فارسی عبارت اور اس کے ترجمے کے درمیان مطابقت و سازگاری نظر نہیں آ رہی۔ اگر میری رائے غلط ہے تو از راہِ کرم میری تصحیح فرمائیے، ورنہ ترجمے پر بارِ دیگر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔
پس نوشت: نیٹ پر تلاش کرنے پر مجھے 'بہ سر می بردند' کی جگہ پر 'بہ سر می برند' لکھا نظر آیا ہے۔ اس اشارے اور مندرجۂ بالا فارسی عبارت کے مضمون کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میرا خیال یہ ہے کہ یہاں بزرگوں کی بجائے زمانۂ حال کے جوانوں کی بات ہو رہی ہے۔ بزرگ تو خود نمونہ (الگو) ہوتے ہیں،لہٰذا اُن کے اپنے ضمیر میں 'الگویابی' کا زندہ تر ہونا مناسب طرزِ بیان معلوم نہیں ہوتا۔اسی طرح، 'قہرَمان جوئی' اور 'سرمشق گیری' کی تراکیب بھی معنائی لحاظ سے بزرگوں کی بجائے نوجوان نسل کے مناسبِ حال ہیں۔

یہ لفظ فارسی، ترکی اور پشتو میں 'ہیرو' کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ میں اس لفظ کو اردو میں بھی رائج کرنا چاہتا ہوں، اسی لیے اب میں لکھتے وقت 'ہیرو' کی بجائے 'قہرَمان' کا لفظ ہی استعمال کرتا ہوں۔


اس عبارت نے گذشتہ رات تین بجے تک مجھے جگایا لیکن کلید کامیابی بدست نیاوردم تاہم آپ کا پیغام اور رائے دیکھ کے بہت اچھا لگا اور میری تھکن آدھی سے بھی زیادہ کم ہو گئی ہے۔ یہ کافی دلچسپ صورت ہو گئی، 'سرمی برند' اور 'سر می بردند' کے فرق سے ترجمے میں تفاوت پیدا ہو رہا ہے۔ میں کل رات اس الجھن میں تھی کہ یا عبارت کچھ کمی ہے یا میں ضمائر متصل کا استعمال نہیں سمجھ پا رہی ہوں۔ میں اپنے پاس کتاب میں دیکھا ہے اس میں بہ سر می بردند لکھا ہے جبکہ آپ نے جو ربط دیا ہے وہاں بہ سر می برند ہے۔ میں اپنے پاس اس سلسلے کی کچھ دوسری کتب میں بھی دیکھا ہے وہاں بھی بہ سر می بردند ہی لکھا ہے۔ اصل املا کسے مانا جائے؟ یہ بات درست ہے جیسے آپ نے کہا کہ زمانہ حال کے نوجوانوں کی بات ہو رہی ہے تاہم میرا خیال یہ ہے کہ صرف نوجوانوں کی نہیں بلکہ بزرگ اور نوجوان دونوں ہی مذکور ہیں۔
میں ترجمہ کرتے وقت بین السطور اس طرح کیا تھا
اور بباطن (دوسروں کے لیے) نمونہ عمل ٹھہرے۔

ضمائر متصل کے حوالے سے ابھی یہ حتمی رائے نہیں تاہم فارسی عبارت پڑھتے وقت (بہ سر می بردند کے پس منظر میں) ضمائر متصل میں سے ایک سے میرے ذہن میں بزرگوں کا تصور بنتا ہے جبکہ دیگر ضمیر متصل نئی نسل کی جانب پلٹی محسوس ہوتی ہے۔

اچھا ایک بات، آپ بھی اس کا ترجمہ لکھیے پلیز۔
 

حسان خان

لائبریرین
چھا ایک بات، آپ بھی اس کا ترجمہ لکھیے پلیز۔
"کیوں کہ یہ لوگ ایک ایسی عمر اور صورتِ حال میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں جس میں کسی نمونے اور قہرمان کی تلاش کا جذبہ ان کے ذہنوں میں مزید جوش مار رہا ہوتا ہے اور ان میں کسی سرمشق اور مثالی شخصیت کے حصول کا میلان زیادہ ہوتا ہے۔"
 

حسان خان

لائبریرین
'بہ سر می بردند' کی موجودگی میں بھی عبارت کے سیاق و سباق اور مضمون سے مجھے یہی لگ رہا ہے کہ یہاں جوانوں کی بات ہو رہی ہے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
"کیوں کہ یہ لوگ ایک ایسی عمر اور صورتِ حال میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں جس میں کسی نمونے اور قہرمان کی تلاش کا جذبہ ان کے ذہنوں میں مزید جوش مار رہا ہوتا ہے اور ان میں کسی سرمشق اور مثالی شخصیت کے حصول کا میلان زیادہ ہوتا ہے۔"

واہ، بہت بہتر، مجھے ابھی بھی کچھ کھوج باقی ہے لیکن قطع نظر اس کے، آپ کی عبارت بہت اچھی لگی، بہت اچھا لکھا آپ نے، تھینکس۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
باشد کہ شرح حال این بزرگان، کہ بسیاری شان از روستاھا و از گمنامی، بہ اوج عظمت و آوازہ علمی و پارسایی رسیدند، "رمز پیروزی مردان بزرگ" را بہ نسل معاصر بشناساند و بہ عنوان الگو و اسوہ در زندگی معنویمان از آنان پیروی و در راہ آنھا طی طریق کنیم۔
کتاب: حاج ملا ھادی سبزواری
تالیف: سید حسین قریشی سبزواری


امید ہے کہ ان بزرگوں کی سرگذشت، ہمعصر نسل کو ان بزرگوں کی زندگی اور ان کی کامیابی و موقفیت کے اسرار و رموز سے روشناس کرواسکیں گی جن میں سے بیشتر کا تعلق دیہات سے تھا، جو گمنامی سے نکل کر علم و عظمت اور زھد و تقویٰ کی رفعتوں تک پہنچے اور جنہیں الگو بنا کر اور ان کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے ہم اپنی معنوی زندگی کی راہ متعین اور طے کر سکتے ہیں۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
از پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ روایت کردہ اند کہ فرمود: "دانش را دربند کنید۔" پرسیدند: "چگونہ؟" فرمود: "با نوشتن آن"۔
از: چہل حدیث کتاب و کتابت


پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: "علم کو مقید کر لیں۔" پوچھا: "کیسے؟" آپ
ﷺ نے فرمایا: "اسے لکھ کر"۔
 

حسان خان

لائبریرین
"هاء بر دو قسم است: ملفوظ، غیرِ ملفوظ.
های ملفوظ آن است که به تلفظ درآید و آن در اوّل و وسط و آخرِ کلمه درآید: هر، هُرمُز، شهر، بهر، شاه، کلاه.
های غیرِ ملفوظ یا مُختفی آن است که به تلفظ درنیاید و حرکتِ ماقبل را بیان نماید و این ها فقط در آخرِ کلمات درآید: جامه، خامه، نامه، خسته، تشنه."

کتاب: دستورِ زبانِ فارسی: دورهٔ دومِ جدید: مخصوصِ شاگردانِ سالِ پنجم و ششمِ دبستان‌ها
مصنف: میرزا عبدالعظیم خان قریب
سالِ طباعت: ۱۹۲۶ء

"ہا کی دو اقسام ہیں: ملفوظ اور غیر ملفوظ۔
ہائے ملفوظ وہ ہے جو تلفظ کیا جاتا ہے اور یہ لفظ کے اول، وسط اور آخر میں آتا ہے: ہر، ہُرمُز، شہر، بہر، شاہ، کلاہ۔
ہائے غیر ملفوظ یا مختفی وہ ہے جو تلفظ نہیں کیا جاتا بلکہ حرکتِ ماقبل کو بیان کرتا ہے اور یہ ہا فقط الفاظ کے آخر میں آتا ہے: جامہ، خامہ، نامہ، خستہ، تشنہ۔"
 
آخری تدوین:
Top