ارضِ ہستی کے کناروں کو ہِلایا جائے۔

ملک حبیب

محفلین
اَرضِ ہَستی کے کناروں کو ہِلایا جائے
حَشر ایسا بھی کِسی روز اُٹھایا جائے

جادۂ منزلِ حَسرت کا ہُوں واقف مُجھ کو
وادئ یاس کے رَستے میں بَسایا جائے

گرمئ لَحد سے کیونکر یہ سَکوں پائیں گے
غَم کے ماروں کو کَہیں اور سُلایا جائے

ضَبط کو توڑ نہ پائیں کَبھی آنسُو اِن کو
دَرد کی آخری پَرتوں میں چُھپایا جائے

ایک عالم کی نِگاہیں یہ تَماشہ دیکھیں
یُوں سَرِ دار مُجھے کِھینچ کے لایا جائے

میرے اِحساس نے سُولی پہ چَڑھایا مُجھ کو
میرے اِحساس کو سُولی پہ چَڑھایا جائے

اِس طَرح جان لُٹائی ہے تُمہاری خاطر
جیسے لُوٹی ہوئی دولت کو لُٹایا جائے

اے حبیب آؤ زمانے کے اُجالے دیکھیں
کَب تَلک سوگ محبت کا مَنایا جائے

کلام ملک حبیب
 
خوب غزل ہے جناب ملک صاحب۔
گرمئ لَحد سے کیونکر یہ سَکوں پائیں گے
سر اس کی تقطیع تو فرما دیں۔ مجھے یہ مصرع بحر میں نہیں لگ رہا اور یہ بھی
دَرد کی آخری پَرتوں میں چُھپایا جائے
آخری تو فاعلن کے وزن پہ ہوتا ہے ناں؟
یہاں فاعِلَ(001) پہ باندھا گیا ہے ۔ کیا ایسا ٹھیک ہے؟ ادھر "ی" کو گرانا نامناسب نہیں ہوگا؟
پہلے مصرع میں لحد کو( ل حد) باندھنا چاہیے تھا مگر موصوف نے (لح د )باندھا ہے جو غلطی ہے۔
 
:گرمئ لَحد سے کیونکر یہ سَکوں پائیں گے
:دَرد کی آخری پَرتوں میں چُھپایا جائے
ان دو مصرعوں کے علاوہ باقی غزل اچھی کہی ہے۔ ان میں بحر میں گڑبڑ لگ رہی ہے اور لحد کو میرے خیال میں غلط باندھا ہے
 

ملک حبیب

محفلین
ہم نے لح د (لحد) ہی سنا ہے
فاعلاتن، فعلاتن، فعلاتن، فعلن
گرمئی لح (فاعلاتن) د س کیونکر (فعلاتن) یہ سکوں پا (فعلاتن) ئیں گے (فعلن)

درد کی آ (فاعلاتن) خ ری پرتوں ( فعلاتن) میں اُتارا (فعلاتن) جائے (فعلن)
 

ملک حبیب

محفلین
نور الحسن جوئیہ صاحب شکر گزار ہوں کہ آپ نے "لحد" پر غلطی کی نشاندہی کی،،،، میں نے ابھی کچھ مطالعہ کیا اس پر تو اس کا تلفظ لَحَد ہی نکلا،،،، شکر گزار ہوں آپ کا۔۔۔۔
 
Top