حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی...

ضیا محی الدین صاحب پی ٹی وی پر ایک پروگرام کیا کرتے تھے جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے مہمان مدعو ہوتے تھے۔ ایک روز امجد اسلام امجدؔ صاحب آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک مصرع پڑھا۔ فرماتے تھے کہ یہ جادوئی مصرع ہے۔ ہر مصرعے کے ساتھ بطورِ مصرعِ ثانی چپک جاتا ہے اور نقش ہائے رنگ رنگ پیدا کرتا ہے۔ مصرع یوں ہے:
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی​
روحیؔ کنجاہی کا پورا شعر یوں ہے:
خود کو بڑھا چڑھا کے بتاتے ہیں یار لوگ
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی !​
تو صاحب، عرصہ ہو گیا اس بات کو۔ مگر مصرع ہمارے ذہن سے نتھی رہا۔ آج سوچا کہ محفلین کے سامنے تختہءِ مشق کے طور پر پیش کیا جائے اور دیکھا جائے کہ جادو سر چڑھ کے بولتا بھی ہے کہ نہیں۔
مثالیں حسبِ ذیل ہیں:
ویراں ہے میکدہ، خم و ساغر اداس ہیں
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی

جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوقؔ
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی

عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
حالانکہ اس سے...​
وغیرہ وغیرہ۔
تو، صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے!
 

تلمیذ

لائبریرین
بالکل، امجدالاسلام امجد کی زبانی میں نے بھی سنا تھا۔ اور آپ نے یہ ایک اچھا اور دلچسپ انتخاب کیا ہے ہماری محفل میں شاعری کا ذوق رکھنے والوں کو مصروف رکھنے کے لئے۔ مجھے یقین ہے کہ بے شمار احباب پہلا مصرع تخلیق کریں گے کیونکہ دوسرا مصرعہ تو، جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے، ہر پہلے مصرعے کے ساتھ استعمال کیا جا سکے گا۔
دیکھیں یہ دھاگہ کتنے صفحات تک جاتا ہے۔
بہت شکریہ، راحیل فاروق صاحب۔
 
دو امتزاج مزے کے اور یاد آ گئے:
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی

یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی​
 
ہم نے سنا بھی تھا اور سوچا بھی تھا کہ اسے شریکِ محفل کریں گے، مگر راحیل بھائی کی طرف سے پہلے شریک کر دیا گیا تو اور بھی اچھی بات ہے ۔ :):)
 
مرشدی، آپ بتاتے تو۔
میں نے یہ مصرع پہلے محفل پہ تلاش کیا کہ شاید کبھی یہ گفتگو رہی ہو۔ پھر گوگل کا ٹینٹوا دبایا۔ دوسرے کچھ فورمز پہ لوگوں نے یہ کھیل کھیلا ہے۔ میں حیران تو تھا کہ یہاں کسی کو خیال نہیں آیا۔
چلیں، بہرحال۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست!:whistle::whistle::whistle:
 
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی !
وہ بولے داغ کی صورت کو ہم ترستے ہیں
حالانکہ اس سے۔۔۔۔۔۔
بھائی، مزے کے ٹکڑے ہیں۔ پر وہ کیا ہے نا کہ بحر کا فرق ہے آپ کے جوڑے ہوئے مصرعوں میں۔ مزا تھوڑا کرکرا ہو جاوت ہے۔ آپ نہیں جانتے ہوں گے عروض وغیرہ۔ جو جانتے ہیں ان کی ہائے نکل جاتی ہے۔ حالانکہ اس سے...
 

bilal260

محفلین
میں محفل چھوڑ جائوں سب میں چھا جانے کے بعد
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی !

میں محفل کی جان بن جائوں اور اسے چھوڑ جائوں
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی !
 
مشقِ شعر ۔۔ بلکہ ۔۔ مشقِ مصرع

۱
خوابوں میں روز مل لئے، مسرور ہو لئے
’’حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی‘‘

۲
تجھ سا ہمارے واسطے دُوجا نہیں کوئی
’’حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی‘‘​


مصرع ثانی روحیؔ کنجاہی کا ہے۔
 
مشقِ شعر ۔۔ بلکہ ۔۔ مشقِ مصرع

۳
مانا، کہ تجھ سا شہر میں دُوجا نہیں کوئی
’’حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی‘‘​

مصرع ثانی روحیؔ کنجاہی کا ہے۔
 
Top