تیرے بغیر صحنِ ُگل تر میں کچھ نہ تھا ( صفی حسن )

ظفری

لائبریرین
تیرے بغیر صحنِ ُگل تر میں کچھ نہ تھا
خالی تھی چشمِ نم کسی منظر میں کچھ نہ تھا

دو چار لفظ سطر سے لپٹے ہوئے ملے
ساری بیاضِ حرفِ سخن ور میں کچھ نہ تھا

آنسو تھے ، حسرتیں تھیں ، تمنا تھی ، خواب تھے
کیسے کہوں کسی سے مرے گھر میں کچھ نہ تھا

رکھتے تھے دور سے جو نگینوں کی آب و تاب
پاس آئے جب وہ لوگ تو اکثر میں کچھ نہ تھا

اُ س کو تو ریزہ ریزہ کیا ایک بوند نے
سختی تو سارے دل میں تھی پتھر میں کچھ نہ تھا

کتنے خدا تراشے مگر اس کے باوجود
حسرت کی راکھ تھی کفِ آزر میں کچھ نہ تھا

ساحل پہ ایک خوف کھلے پانیوں کا تھا
اُس میں اتر گئے تو سمندر میں کچھ نہ تھا

بے وجہ لوگ مرتکبِ مے کشی ہوئے
نشہ تری نظر میں تھا ساغر میں کچھ نہ تھا

ملتا بھی اور کیا کفِ افسوس کے سوا
آخر کھلا کہ دستِ ستمگر میں کچھ نہ تھا

سب اپنے اپنے شادی و غم لے گئے صفی
اک تُو ہی تھا کہ جس کے مقدر میں کچھ نہ تھا

صفی حسن​
 
Top