حد ہو گئی !

پیش لفظ
’’ حد ہو گئی ! ‘‘ ، کی ضرورت میں نے اس وجہ سے محسوس کی کہ : ’’ جب میں اٹھارہ سال کا ہوا تو ختم نہ ہونے والی زندگی کے متعلق غور و فکر کیا تو اﷲ تعالیٰ نے اس کی قدر میرے دل و دماغ میں بٹھا دی ۔ اس کی اہمیت و فضیلت کے بعد ، میں نے سوچ و بچار کیا کہ اس لازوال حیات میں کامیابی کس طرح پائی جا سکتی ہے ؟ بدقسمتی سے ! لوگ گرو ہوں میں بٹے ہوئے تھے ۔ میں نے حق و سچائی کی جستجو میں تعصب سے بالا تر ہو کر ، کتاب و سنت کو کسوٹی بنا کر تحقیق کی اور حق قبول کیا ۔ ‘‘
میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ : ’’ آپ تک بھی پیغام حق پہنچاوں ، تاکہ آپ بھی اسے تسلیم کر کے دنیا و آخرت میں فلاح یاب ہو سکیں ‘‘ ۔ میں وہی سندیسا ( Message ) ، آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں جس کی نصیحت رسول اﷲ ﷺ نے کی تھی کہ : ’’ میں تمہارے لئے دو ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ تم ان کے بعد گمراہ نہ ہو سکو گے ، ایک تو اﷲ کی کتاب ہے اور دوسری میری سنت ‘‘ ، ( مستدرک حاکم : ۳۲۲ ) ۔
اتحاد المسلمین ، صرف قرآن و حدیث کو مضبوطی سے تھامنے سے ہی ممکن ہے۔ بصورت دیگر تمام فرقے ایک ، دوسرے کے خلاف مناظرے ، مار کٹائی اور لعن طعن کی تلواریں چلاتے رہیں گے ۔
’’ حد ہو گئی ! ‘‘ ، ایک ناول ہے ۔ جس میں ، میں نے قران و حدیث کی سر سبز و شاداب وادی سے توحید و سنت کے پھولوں کا گلدستہ تیار کر کے پیش کیا ہے ۔ امید ہے کہ : ’’ آپ کے دل میں اس گلدستے کو دیکھ کر کتاب و سنت کی وادی کی سیاحت کا شوق پیدا ہو گا ۔ ‘‘
(جاری ہے )
 
عبدالرحمن
پکڑو ، پکڑو ! آپ اُسے روکو ، میں اِسے سنبھا لتا ہوں ! یار چھوڑ دو! کیوں لڑ رہے ہو ؟ بھائی اُس سے اینٹ چھین لو ! کہیں اِسے مار نہ دے۔برادر! آپ بھی پتھرپھینک دیں ، آپ نے کوئی زمین بانٹنی ہے ؟ لوگوں کے روکنے پر بھی دونوں ایک ، دوسرے کی طرف پلٹ پلٹ کر آ رہے تھے ، گالیوں کی بارش برسا اور طعنوں کے تیر چلا رہے تھے ۔ایک کا گریبان ( Collar ) جدا اور دوسرے کا قمیض فاش تھا ۔ لوگوں کا ہجوم ہر لمحے زیادہ ہو رہا تھا،سب مزے سے دیکھ رہے تھے اور ان کی غلط بیانی سُن کر خوش ہو رہے تھے ۔ میں نے بھی دوکان کا دروازہ بند کیا اور لڑائی ختم کروانے میں مشغول ہو گیا ۔ اتنے میں بائیک پر ایک اﷲ کا نیک بندہ آیا اُس نے موٹر سائیکل کھڑی کی اورعوام الناس ( Public)کو پیچھے ہٹا کر دونوں سے مخاطب ہوا :
’’ کیوں لڑ رہے ہو، یہ کوئی انسانیت ہے ؟ جھگڑا کرنا تو شیطانی کام ہے ! ‘‘
لڑنے والوں میں سے ایک آدمی ، دوسرے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا :
’’ یہ بے وقوف میرا دماغ چاٹتا رہتا ہے ، اس خناس نے میرا میٹر سپارک کردیا ہے ، اس بے حیا نے میرا مائنڈ ( Mind) بگاڑ دیا ہے ! یہ بڑا دین کا ٹھکیدار بنا ہوا ہے ، اِ س نے تو مجھے پریشان کر رکھا ہے ۔ ‘‘
دانشمند آدمی نے پوچھا :
’’ آپ کو کیا کہتا اور کیسے پریشان کرتا ہے؟ ‘‘
آدمی بولا ، یہ کہتا ہے :
’’ شرک سے بچو ، تقلید کو چھوڑ کر اتباع مصطفی ﷺ بجا لاؤ ، بدعات سے خبردار رہو ، اﷲ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام پر نذرونیاز نہ دو ، سنت کے مطابق نماز پڑھو ، دین کو مذاق نہ بناؤ ،الر حمٰن کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا ، نبی پاک ﷺ بشر ہیں حاضر و ناظر اور مختار کل نہیں ، اﷲ کے سوا کوئی کچھ نہیں دے سکتا ( کوئی مشکل کشا ،داتا،غوث و دستگیر، گنج بخش ، رزق دینے والا ،مصیبت دور کرنے والا، عزت یا ذلت دینے والا ، موت یا زندگی دینے والا، حاجت روا ، غریب نوازنہیں ) ۔گاڑی کے ساتھ جوتی نہ لٹکاؤ ، مکان پر ہنڈیا ( Pot) نہ رکھو اور انگلیوں میں پتھر نہ پہنوں یہ چیزیں نفع و نقصان نہیں کر سکتیں ۔ہاتھوں کی لکیروں پر اعتماد نہ کرو۔ قبروں کو پختہ ا ور سجدہ نہ کرو ، مزاروں پر چراغاں نہ کرو ، عرس و میلے نہ لگاؤ، قبروں پر مجاور بن کر نہ بیٹھو، اپنی عورتوں کو عرسوں پر نہ لے کے جاؤ ، شرکیہ قوالیوں کی بجائے تلاوتِ قرآن سنو ۔پیروں اور اولیاء کی تصاویر ہندوؤں کی طرح نہ لٹکاؤ ۔ گیارویں ، بارویں ، ختم ،جشن عید میلاد،شب برات،قبروں پر چادریں چڑھانا، قل، تیجہ، دسواں اور چالیسواں شریف ، سب بدعات ہیں ، اور مولویوں نے کھانے کابہانہ بنایا ہوا ہے۔ حتی کہ یہ کہتا ہے ، ہندو ( دیوی اور دیوتاؤں )، عیسائی (حضرت عیسی ؑ ) اور غیر مسلم جو معاملہ اپنے معبودوں کے ساتھ کرتے ہیں ، وہ انبیاء ، اولیاء ، ائمہ ، شہداء اور ملائکہ کے ساتھ نہ کرو۔ اور مجھے کہتا ہے کہ تم ایک دفعہ قرآن پاک اور احادیث کا ترجمہ پڑھ لوتمہیں اصلیت کا علم ہو جائے گا ۔ میں تیرا ہمدرد ہوں ، میں برداشت نہیں کرتا کہ تم آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو جاؤ ۔ یہ مجھے بے وقوف اور پاگل سمجھتا ہے ۔ ‘‘
بائیک والا بھائی بولا :
’’ آپ کا نام کیا ہے ؟ ‘‘
’’ پیر بخش ، اس نے جواب دیا ۔ ‘‘
موٹر سائیکل والا :
’’ میرا نام عبدالرحمٰن ہے اور (جو دوسرا لڑ رہا تھا اُس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) آپ کا کیا نام ہے ۔ ‘‘
وہ بولا :
’’ ابوبکر ‘‘
عبدالرحمٰن :
آپ (یعنی پیر بخش )کو کس نے کہا کہ : ’’ ابوبکر ، جو باتیں کرتا ہے وہ غلط ہیں اور تمہیں احمق بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ ‘‘
پیر بخش :
پہلے میں اِس کی باتوں میں آگیا تھا اور سوچا کہ یہ مجھے وہی دعوت دیتا ہے جس کی طرف انبیاء ؑ بلاتے تھے کہ: ’’ اﷲ کے علاوہ کوئی داتا نہیں ،کوئی عبادت کے لائق نہیں اور نبی پاک ﷺ کے سوا کوئی پیروی کے قابل نہیں ، کسی امام کے قول کو سید المرسلین ﷺ کی بات پرفوقیت ( Priority) نہ دو ‘‘ ۔ میں نے پھر اپنے مولوی سے پوچھا ، ایک بندہ مجھے کہتا ہے کہ: ’’ کتاب و سنت پر عمل کرو‘‘ ، تو اُنہوں نے کہا: ’’ وہ گستاخ اور بے آدب ہے ،شیطان اور خبیث ہے ،جاہل اور مھلک ہے ، نقصان رساں اور ناکارہ ہے ۔ وہ اولیاء اور ائمہ کو نہیں مانتا ، وہ گمراہ اور جھوٹا ہے اُس سے دور رہو، ورنہ تمہیں بھی بری شاہراہ پر لے جائے گا ۔ قرآن و حدیث کا فہم نا ممکن ہے اس سے الگ رہنا ، تقلید واجب ہے لہذا اسے برقرار رکھنا ‘‘ ۔
عبدالرحمٰن ، پیر بخش کی بات مکمل ہونے پر بولا :
’’ حد ہوگئی ! ‘‘ ، اگر آپ کو مولوی کہے کہ دو جمع دو ، پانچ ہوتے ہیں اور ریاضی دان ( Mathematician ) کہے کہ دو جمع دو ، چار ہوتے ہیں تو آپ کیا کریں گئے ؟ یا کوئی آدمی کہے کہ آپ کی جیب میں بچھو داخل ہوا ہے اور دوسرا کہے ، کوئی بچھو داخل نہیں ہوا، تو آپ کیا کریں گے ؟ ‘‘۔
’’ میں تحقیق کروں گا ، کون سچا ہے ! پیر بخش ولولے ( Zeal) اور بلند آواز سے بولا ۔ ‘‘
’’ آپ کیسے تحقیق کریں گے ؟ عبدالرحمٰن نے پوچھا ۔ ‘‘
پیر بخش ، بڑی سنجیدگی سے :
’’ یہ کوئی پوچھنے والی بات ہے ! میں دو جمع دو ، والے مسئلے کے متعلق کتابیں پڑھوں گااور مختلف ریاضی دانوں سے بات چیت کروں گا ۔ بچھو والی بات پر احتیاط کے ساتھ قمیض اتار لوں گا اور اچھے طریقے سے دیکھوں گا ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
آ پ کو یہ ( ابوبکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )کہتا ہے: ’’ کتاب و سنت کے مطابق عمل کرو ، شرک و بدعات سے بچو اور سب رسموں کو چھوڑ دو ‘‘ ۔ مولوی کہتا ہے کہ: ’’ وہ(ابوبکر ) جھوٹا ہے‘‘ ۔ کیا آپ نے قرآن وحدیث پڑھ کر دیکھا اور سوچا کہ کون سچا ہے ؟
پیر بخش، افسوس کا مظاہرہ کرتے ہوئے :
’’ نہیں ! ‘‘
’’ دور سے دیکھنے والے بھی تیزی سے ہماری طرف آ رہے تھے ، لوگوں کی تعداد زیادہ ہو رہی تھی ، تمام لوگ خاموشی سے باتوں کو سماعت فرمارہے تھے اور ایک دوسرے کی طرف تجسس بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ ‘‘ عبدالرحمٰن بولا :
بھائیوں ! میری بات غور سے سنو ، ہم لوگ اگر کپڑا خریدنے جائیں تو دس دوکانوں سے دیکھ کر جو اچھا ہو لیتے ہیں ۔ موبائل گارنٹی والا ڈھونڈتے ہیں ، بلکہ دنیا کی ہر چیز اچھی لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دین کے معاملے میں کہتے ہیں ، سارے ہی ٹھیک ہیں ۔ دنیا کی دولت کے لئے موٹی موٹی کتابیں پڑھتے ہو ، جنت کی بہاروں کے لیے قرآن و حدیث کا مطالعہ نہیں کر سکتے ؟یہی وجہ ہے مولوی حضرات آپ کو دھوکے میں رکھتے ہیں اور آپ تصور کرتے ہیں ہمارے علاوہ کوئی بھی حق پر نہیں ہے ۔اگر کوئی قرآن و حدیث کی بات کرے اُس سے لڑتے ، جھگڑتے ہو ۔اﷲ کے لئے کچھ سوچو مسلمانو ! تمہیں کتاب و سنت کی ہی دعوت دیتے ہیں ، گنگا اور جمنا کی طرف تو نہیں بلاتے ؟
مجھے بھی ابوبکر ، کی طرح ایک آدمی نے کہا تھا کہ قرآن و حدیث کا ترجمہ پڑھو ، میں نے اُسی وقت کتاب و سنت کو ایک دفعہ پڑھنے کا ارادہ کرلیا ۔ میں نے مختلف مسلکوں کے علماء سے ملاقات کی ، ہر کوئی اپنے فرقے کو ہی ٹھیک اور حق والا کہتا ہے ۔ آخر کار میں نے کتاب اﷲ اور حدیث مصطفی ﷺ کا مطالعہ کیا ، سچ میں بات درست تھی ۔ پھر میں اپنی مسجد کے امام کے پاس گیا اور کہا : ’’ مولوی صاحب آپ ہمیں غلط بتاتے ہیں ، قرآن و حدیث میں کچھ اور ہی لکھا ہے ؟ ‘‘ مولوی صاحب گھبرا گئے اور کہنے لگے : ’’ بھائی ! تمہیں معلوم ہو گیا ہے ، اب تم عمل کر لینا کسی اور کو نہیں بتانا ، اگر کسی اور کو علم ہو گیاتو مجھے مسجد سے نکال دیں گے‘‘ ۔ میں نے کہا : ’’ جھوٹے ! تم پر اﷲ کی لعنت ہو ، اُس کے بعد میں کتاب و سنت پر عمل کرنے لگ گیا ‘‘ ۔ پہلے میرا نام’’ عبدالنبی‘‘ ، تھا ۔ مجھے خبر ملی کہ مشرکین مکہ بھی ایسے ہی نام رکھتے تھے ، میں نے نام بدل کر ’’ عبدالرحمٰن‘‘ ، رکھ لیا ۔(پیر بخش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) آپ بھی کتاب و سنت کو ایک مرتبہ پڑھ لیں ، حق بات سامنے آ جائے گئی ۔
پیر بخش ، غمگین اور پریشان لگ رہا تھا ، حتٰی کہ بول پڑا :
’’ میں آج سے ہی نہیں بلکہ ابھی سے تحقیق شروع کردوں گا ۔ ‘‘
’’ ہم پڑھے لکھے نہیں ہیں ، ہم کیا کریں ؟لوگوں میں سے کچھ آدمی بولے ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن سے پہلے ہی پیر بخش بول پڑا :
’’ میں نے تحقیق شروع کردی ہے ! آپ ہی سب سے پہلے ہمیں کتاب و سنت کے مطابق کچھ نہ کچھ سمجھائیں ۔ ‘‘
(جاری ہے )
 
امت مسلمہ میں شرک
عبدالرحمٰن :
تمام حضرات قریب آ جائیں ، تھوڑا اور نزدیک ہو جائیں (لوگ قریب ہو گئے ) بس ! ٹھیک ہے اب توجہ فرمائیں ۔’’سب سے بڑا گناہ شرک ہے ۔مشرک کو اﷲ تعالیٰ نے معاف نہیں کرنا ، باقی جسے چاہیے گا بخش دے گا ۔ شرک امت مسلمہ میں بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے ‘‘ ۔ ’’دیکھو لوگو ! یہ کیا کہہ رہا ہے ؟ ا مت مسلمہ تو شرک کر ہی نہیں سکتی‘‘ ۔ ایک ضعیف آدمی ، عبدالرحمٰن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔ عبدالرحمٰن نے تھوڑی اونچی آواز کرتے ہوئے کہا :
’’ کون کہتا ہے مسلمان شرک کے مرتکب نہیں ہوسکتے ؟ ‘‘
بوڑھا شخص تھوڑا غصے میں بولا :
’’ میں پاگل ہو ں ؟ بچپن سے سُن رہا ہوں مسلمان جو مرضی کریں شرک سے بچے رہیں گے‘‘ ۔ میرے سفید بال نہانے سے نہیں ہوئے ؟ ۵۶ سال عمر گزاری ہے میں نے ۔ ہمارا عالم کہتا ہے : ’’ جو چاہو عمل میں لاؤ ! اولیاء کو سجدہ کرو ، قبروں پر نذرونیاز چڑھاؤ اور ماتھا ٹیکو ، پیروں کے پاؤں چومو، مزاروں کے درختوں کے پتے کھاؤ، درباروں پر مجاور بن کر بیٹھو ، گیارویں شریف دو ، غیر ا ﷲ سے مدد طلب کرو ، اولیاء کے بارے میں غلط نہ سوچو کیونکہ وہ دلوں کے حال تک جانتے ہیں ، پیر جو کہے وہ مانو، اگر مرشد قرآن کے خلاف بھی بات کرئے تو کتاب اﷲکو چھوڑ دو ۔ کیونکہ قرآن شریعت بتاتا ہے اور پیر عشق ، جہاں عشق آجائے وہاں شریعت کا زور بھی نہیں چلتا ۔ زکوۃ چاہے نہ دو گیارویں ضرور دو ، کیونکہ اگر یہ نہ دی تو پیر صاحب تمہیں نقصان پہچائیں گئے ۔ ہاں ! اﷲ کے غضب سے تو گیارویں والے پیر چھوڑوا لیں گئے لیکن پیر سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکے گا۔ جہاں سے پکارو گے بزرگ تمہاری سنیں گئے اور مدد کریں گئے ۔حج بیت اﷲ کی بجائے پاکپتن ، اجمیر ، لاہور ، ملتان ، شرقپور ، گولڑہ ، قصور اور بغداد شریف جاؤ ، حج سے زیادہ ثواب ملے گا ۔ قوالیاں سنتے رہو ، بزرگوں سے ہی اولاد مانگو ، کیونکہ اﷲ ہماری سنتا نہیں اور اُن کی موڑتا نہیں ۔ نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، رب جانے اور مرشد جانے ، بس ہر تنخوا اور ہر فصل میں سے پیر صاحب کو حصہ پہنچا دو۔ حتی کہ جو مر ضی کرو شرک نہیں ہو گا ‘‘ ۔ لوگو ! مجھے بتاؤ کہ : ’’ جو نماز پڑھے ، روزے رکھے ، زکوۃ دے ، حج کرے اور سارے نیک اعمال کرے وہ کیسے مشرک ہوسکتا ہے ؟ ‘‘
عبدالرحمٰن ’’ انا اﷲ وانا الیہ رجعون ‘‘ ، پڑھتے ہوئے :
بابا جی ! یہ بہت ہی بڑی غلط فہمی ہے کہ : ’’ مسلمانوں میں شرک نہیں ہوگا ‘‘ ۔ قرآن و حدیث سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ : ’’ امت مسلمہ شرک کرے گی ‘‘ ۔ سب بھائی توجہ فرماؤ :
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ وما ےؤمن اکثرھم باللّہ الّا وھم مّشرکون : ان میں سے اکثر لوگ باوجود اﷲ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ‘‘ ، (یوسف : ۶۰۱ ) ۔
نبی پاک ﷺ سے کثیر التعداد احادیث مروی ہیں جن سے واضح ہے کہ : ’’ مسلمان بھی پہلی قوموں کی طرح شرک کریں گئے ‘‘ ۔ جیسا کہ حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ میری امت کے کچھ قبیلے بتوں کی پرستش کرنے لگیں گے اور (بت پرستی میں ) مشرکوں سے جاملیں گے اور قیامت کے قریب تقریباََ تیس جھوٹے اور دجال ہوں گے ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے اور میری امت میں ایک طبقہ مسلسل حق پر قائم رہے گا ‘‘ ، (ابن ماجہ :۲۵۹۳ ) ۔سیدنا ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ میرے پاس میرے رب کا ایک آنے والا (فرشتہ )آیا ۔ اس نے مجھے خوشخبری دی کہ میری امت سے جو کوئی اس حال میں مرے کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اس نے کوئی شریک نہ ٹھہرایا ہوتو وہ جنت میں جائے گا ‘‘ ، (بخاری : ۷۳۲۱ ) ۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ ہر نبی کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے ، ہر نبی نے اپنی دعا میں جلدی کی اور میں نے اپنی دعا اپنی امت کی شفاعت کے لیے قیامت والے دن کے لیے چھپا رکھی ہے اور میری دعا ’’ان شاء اﷲ‘‘ ، میری امت میں سے ہر اس آدمی کو پہنچے گی جو اس حالت میں فوت ہوا کہ وہ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا ‘‘ ، (مسلم:۱۹۴) ۔
سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ۔۔۔اے ابن آدم ! اگر تو روئے زمین کے برابر بھی گناہ لے کر آئے پھر مجھ سے اس حالت میں ملاقات کرے کہ تو میرے ساتھ کچھ بھی شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں روئے زمین کے برابر ہی تجھے مغفرت عطا کر دوں گا‘‘ ، (ترمذی : ۰۱۳۳) ۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اسلام لائے پھر شرک کرے اسلام کے بعد اﷲ تعالیٰ اس کا کوئی عمل قبول نہیں فرماتے یہاں تک کہ شرک کرنے والوں کو چھوڑ کر مسلمانوں میں شامل ہوجائے ‘‘ ، (ابنِ ماجہ :۶۳۵۲ ) ۔ اور سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ سے مروی ہے ، جب سورۃ الانعام کی یہ آیت اتری جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں گناہوں (ظلم ) کی آمیزش نہیں کی ، تو آپ ﷺ کے اصحاب نے کہا یا رسول اﷲ ! ﷺ یہ تو بہت ہی مشکل ہے ۔ ہم میں کون ایسا ہے جس نے گناہ (ظلم ) نہیں کیا ۔ تب ا ﷲ پاک نے سورۃ لقمان کی یہ آیت اتاری ’’ ان الشرک لظلم عظیم ‘‘ ، کہ بیشک شرک بڑا ظلم ہے ‘‘ ، (بخاری :۲۳) ۔
موسم بھی حیرت انگیز نظارہ پیش کر رہا تھا ۔ جاڑے (Winter ) میں دھوپ کی کرنیں تحفے سے کم نہ تھیں ۔ سورج کی حرارت سے دھند (Fog) کا زوال بھی ہم سے کھیل رہا تھا ۔ آفتاب کا جوش جکڑے ہوئے جسم کے لہو کو اپنی موٹر وے پر گشت کرنے میں آرام مہیا کر رہا تھا ۔ تپتا ہوا سماں ، گرمیوں میں شام ( Evening) کو سمندر کے کنارے بیٹھنے کے مترادف تھا ۔ عبدالرحمن بھی کتاب و سنت کی چاشنی سے دل و روح کے ٹمپریچر ( Temperature ) کو بڑھا رہا تھا :
سلف صالحین کا بھی عقیدہ یہی ہے کہ : ’’ مسلمان مشرک ہو سکتے ہیں ‘‘ ۔ جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ : ’’ جو لوگ انبیا ؑ اور نیک لوگوں کی قبور کی زیارت کرنے آتے ہیں اور انہیں پکارنے اور ان سے سوال کرنے کی غرض سے آتے ہیں یا اس لیے آتے ہیں کہ ان کی عبادت کریں اور انہیں اﷲ کے علاوہ پکاریں تو ایسے لوگ مشرک ہیں ‘‘ ، (الرد علی الاخنائی :۲۵ ) ، (کلمہ گو مشرک ، ص : ۲۹ )۔ امام مالک ؒ کے دور میں بھی مسلمانوں کے بہت سے فرقے ہوچکے تھے ، اس وقت کے قدریہ ، جو تقدیر کے منکر تھے جب ان کے ساتھ شادی کے بارے میں امام مالک ؒ سے پوچھا گیا تو انہوں نے قرآن پاک کی یہ آیت پڑھی : ’’ ایمان والا غلام ، آزاد مشرک سے بہتر ہے ، گو مشرک تمہیں اچھا لگے ‘‘ ، (البقرۃ : ۱۲۲) ، (کلمہ گو مشرک ، ص : ۱۹ )۔
قرآن و حدیث اور محدثین کے اقوال سے نمایاں ( Clear) ہے کہ : ’’ مسلمان شرک کر سکتے ہیں ‘‘ ۔ میرے ذہن میں مولانا الطاف حسین حالی ؒ کے وہ اشعار ہتھوڑے کی طرح ٹکرا رہے ہیں جن میں وہ فرماتے ہیں :
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دُعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اِسلام بگڑے نہ ایمان جائے
وہ دین جس سے توحید پھیلی جہاں میں ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں
رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں وہ بدلہ گیا آکے ہندوستان میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں
وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں
فرق جامی بھی فرماتے ہیں :
سر بتوں کے سامنے غیروں کا جھکنا کافری
اور مسلمانوں کے سجدے سجدھائے احترام
دین کی تعلیم جنس خا م ہو کر رہ گئی
حق پرستی کفر کا پیغام ہو کر رہ گئی
برادران ! اتنی باتوں کا مقصد یہ ہے کہ :’’ مسلمان شرک کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں ‘‘ ۔ جس کے زیادہ ہونے کی خاص وجہ ہے کہ ہم کتاب و سنت کا علم حاصل نہیں کرتے ۔ رسول اﷲ ﷺ نے امت کو نصیحت کی تھی کہ : ’’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہوسکو گے ، ایک کتاب اﷲ (قرآن ) اور دوسری میری سنت (حدیث ) ‘‘ ۔ ہم نے قرآن و حدیث پر نہ تو عمل کیا بلکہ اس پر غورو فکر کرنا ہی چھوڑ دیا ۔ ہم تحقیق کرتے نہیں لیکن لڑائی جگڑے ، مناظرے ، گالی گلوچ ،مار کٹائی ، لعن طعن اور مار دھاڑ کی تلواریں چلاتے رہتے ہیں ۔ اگر ہم قرآن و حدیث کو ترجمے کے ساتھ پڑھیں تو مولوی حضرات ہمیں غلط بات نہیں سمجھا سکتے ۔ ہمارا تو حال ایسا ہے کہ اگر کوئی شرکیہ بات کرے ، اسے ٹوکنے کی بجائے اونچی آواز میں ’’ سبحان اﷲ‘‘ ، کہہ دیتے ہیں ۔دن بہ دن توحید و سنت سے دوراور شرک و بدعت سے تعلق جوڑ رہے ہیں ۔
کیا یہی رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات تھی ؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ سید المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ تم میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہوگا اور میں تمھیں ایک ایسی دعا بتاتا ہوں کہ اگر تم اسے پڑھتے رہے تو اﷲ تعالیٰ تم سے چھوٹے بڑے شرک کو دور کردے گا ۔ تم یہ دعا پڑھنا : اللّھمّ انّی أعوذبؤ أن أشرأ بأ وأنا أعلم ، وأستغفرأ لما لا أعلم ‘‘ ، (صحیح الجامع للالبانی : ۱۳۷۳ ) (زاد الخطیب ، جلد : ۲ ، صفحہ : ۱۵ ) ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ :’’ تم میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہوگا‘‘ ، مسلمان سمجھتے ہیں امت مسلمہ جو چاہیے کرے شرک کی مرتکب ہی نہیں ہو سکتی ۔ ہم لوگ جو زنا کرے اسے بدکار ، جو چوری کرے اسے چور ، جو جھگڑا کرے اور لڑاکا اور جو ہلاک کرے اسے قاتل کہتے ہیں ؟ جب کوئی شرک کرے تو کہتے ہو نیک اعمال کرنے والا یا مسلمان مشرک نہیں ہو سکتا ۔ عبدالرحمٰن کی بائیں طرف کھڑا ہوا ایک لڑکا بولا :
ہمیں اس بات کا علم تو ہوگیا ہے کہ : ’’ مسلمان شرک کر سکتے ہیں ۔ لیکن شرک ہے کیا ؟ ‘‘
(جاری ہے )
 
ذات میں شرک
’’ شرک کی دو قسمیں ہیں ۔ شرک اکبر اور شرک اصغر ، پھر ہر ایک کی کئی اقسام ہیں ‘‘ ۔ پہلے میں شرک اکبر کی تفصیل بیان کروں گا (ان شاء اﷲ ) عبدالرحمن نے ہلکا سا جوشیلے ( Enthusiast ) انداز میں کہا ۔
اﷲ پاک اپنی ذات ، صفات اور عبادات میں یکتا اور بے مثل (Unique ) ہے ۔ اس کی ذات ، صفات اور عبادات میں کسی کو حصہ دار یا ہمسر سمجھنا شرک اکبر کہلاتا ہے ۔ شرک اکبر کی تین بڑی اقسام ہیں : ’’ ذات میں شرک ، صفات میں شرک اور عبادات میں شرک ۔ ‘‘
’’ مخلوقات میں سے کسی کو اﷲ کا بیٹا ، بیٹی یا خدا میں سے قرار دینا ، ذات میں شرک کہلاتا ہے ‘‘ ۔مثلاََ: ’’عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ اور یہودیوں نے حضرت عزیر ؑ کو اﷲ کا بیٹا کہااور مشرکین مکہ نے فرشتوں کو اﷲ کی بیٹیاں قرار دیا‘‘ ۔جیسا کہ قرآن پاک میں ہے : ’’ یہود کہتے ہیں عزیر اﷲ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اﷲ کا بیٹا ہے ‘‘ ، (التوبہ : ۳۰ ) ۔ اﷲ پاک نے فرمایا : ’’ کہہ دیجئے ساری تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ‘‘ ، (بنی اسرائیل : ۱۱۱) ۔ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ ان کا قول تو یہ ہے کہ رحمٰن نے بیٹا بنا رکھا ہے ۔ یقیناًتم بہت بری اور بھاری چیز(گھڑ کر ) لائے ہو ۔ قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں ۔ کہ وہ رحمٰن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ۔ شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے ‘‘ ، (مریم : ۸۸ تا ۹۲ ) ۔
مشرکین کے متعلق اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ ان سے دریافت کیجئے ! کہ کیا تمہارے رب کے لئے تو بیٹیاں ہوں اور ان کے لئے بیٹے ؟ کیا یہ اس وقت موجود تھے جبکہ ہم نے فرشتوں کو عورت بنایا ۔ آگاہ رہو ! کہ یہ لوگ صرف اپنی افترا پردازی سے کہہ رہے ہیں ۔ کہ اﷲ تعالیٰ کی اولاد ہے ۔ یقیناًیہ محض جھوٹے ہیں ۔ کیا اﷲ تعالیٰ نے اپنے لیے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی ؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے ، کیسے حکم لگاتے پھرتے ہو ؟ کیا تم اس قدر بھی نہیں سمجھتے ؟ یا تمہارے پا س اس کی کوئی صاف دلیل ہے ۔ تو جاؤ اگر سچے ہو تو اپنی ہی کتاب لے آؤ ‘‘ ، (الصٰفٰت : ۱۴۹ تا ۱۵۷ ) ۔یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی طرح مسلمان بھی ذات میں شرک سے باز نہیں آئے ۔
ہندوستان میں کچھ علماء نے باطل رائے کو فروغ دیتے ہوئے ایک بالکل نیا عقیدہ متعارف کروایا جس کا اسلام کے ساتھ سرے سے ہی تعلق نہ تھا ۔ اُنہیں علم تھا ابن اﷲاور بنٰت اﷲ کا عقیدہ ، عیسائیوں ، یہودیوں اور مشرکین مکہ کی وجہ سے بد نام ہو چکا ہے کیوں نہ کسی نئے طریقے سے لوگوں کو گمراہ کیا جائے ۔ پہلے انہوں نے کم علم لوگوں کو بتایا کہ نبی پاک ﷺ بشر نہیں نور ہیں ، نبیوں میں ساری خوبیاں فرشتوں والی ہوتی ہیں اور انسان پر وحی نہیں اتر سکتی، وغیرہ وغیرہ ۔ پھر آخر کار عقیدت و محبت کے نام پرسید المرسلین ﷺ کے بارے میں کہا گیا : ’’ آپ ﷺ ، نور من نور اﷲ : یعنی اﷲ کے نور میں سے نور ہیں ‘‘ ، نعوذبااﷲ ۔
یہ عقیدہ قرآن و حدیث کے بالکل خلاف ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ (ﷺ ) کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ۔ (ہاں ) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے ‘‘ ، (الکھف : ۱۱۰ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکنے کے بعد ایمان سے روکنے والی صرف یہی چیز رہی کہ انہوں نے کہا کیا اﷲ نے ایک انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا ؟ ، آپ (ﷺ ) کہہ دیں کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے ‘‘ ، (بنی اسرائیل : ۹۴ تا ۹۵ ) ۔ کتابُ اﷲ کی بہت زیادہ آیات سے واضع ہے کہ تمام انبیاء ؑ بشر تھے ، مثلاََ : ’’ (البقرۃ : ۱۵۱ ) ، (الانعام : ۵۰ ) ، (الاعراف : ۶۹ ) ، (یوسف : ۱۰۹ ) ، (ابراہیم : ۱۰ تا ۱۱ ) ، (النحل : ۴۳ ) ، (الحجر : ۳۲ تا ۳۳ ) اور (بنی اسرائیل : ۹۳ ) ‘‘ ۔
کافی وقت گزرنے کے بعد چپ چاپ کھڑے ابوبکر نے اپنی زبان کا تالا کھولا اور باغ باغ ہوتے ہوئے بولا :
’’ یہی تو میں کہتا تھا ! نبی پاک ﷺ کو نو ر کہنا ، آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کے مترادف ہے ، کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور فرشتوں نے اﷲ کے حکم سے بشر کو سجدہ بھی کیا تھا ۔ کیا نور ، انسانوں کے گھر پیدا ہوتے ہیں ؟ کیا نور کھاتے پیتے اور شادیاں کرواتے ہیں ؟ کیا نور کی قبر مبارک ہوتی ہے ؟‘‘
جزاک اﷲ خیر، عبدالرحمن نے مسکراتے ہوئے کہا اور اپنی بات جاری رکھی :
قرآنی دلیلوں کو پڑھنے کہ بعد کچھ لوگ کہتے ہیں : ’’ ہم فرشتوں والے نور کی نہیں بلکہ اﷲ کے نور کی بات کرتے ہیں ‘‘ ۔ اﷲ پاک پر بہتان باندھنے والو ! کیا آپ نے قرآن پاک غور سے نہیں پڑھا؟ آپ کے پاس اخبارات ، ڈائجسٹوں ، میگزینوں اور فحش سائن بورڈوں کے مطالعے کا تو وقت ہے ، کیا کتاب اﷲ میں غور و فکر نہیں کر سکتے ؟آپ ریڈیو ، ٹی وی ، وی سی آر ، ڈش ، انٹینا ، فلمیں ، ڈرامے اور شرکیہ قوالیاں دیکھ اور سُن سکتے ہو ، کیا الفرقان کی تحقیق نہیں کرسکتے ؟ کیا آپ فضول باتیں کرنے کی بجائے ترجمے کے ساتھ تلاوت نہیں سماعت فرما سکتے ؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ آپ (ﷺ ) کہہ دیجئے کہ وہ اﷲ تعالیٰ ایک (ہی ) ہے ۔ اﷲ تعالیٰ بے نیاز ہے ۔ نہ اس میں سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ۔ اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے ‘‘ ، (الا خلاص : ۱ تا ۴ ) ۔ اس سے واضع ہوا ، نہ الرّحمّن میں سے کوئی نکلا ہے اور نہ ہی اﷲ پاک کسی سے نکلے ہیں ۔ مثلاََ : ’’ اگر دودھ میں سے تھوڑا سا دودھ نکال لیا جائے تو بقیہ دودھ بھی نکلے ہوئے دودھ ہی جیسا ہوتا ہے ‘‘ ۔ ’’ دنیا کی کسی بھی چیز میں سے کچھ حصہ نکال دیں تو وہ بقیہ چیز ہی کی طرح کا ہوتا ہے ‘‘ ۔ اسی طرح اگر ہم سید المرسلین ﷺ کو ’’ نور من نور اﷲ‘‘ سمجھیں تو ، اﷲ کے نور میں سے نور ، الرحمن جیسا ہی ہو گا ۔ جبکہ یہ عقیدہ قرآن کے الٹ ہے ،رب کعبہ فرماتے ہیں : ’’لیس کمثلہ شیء: اس (اﷲ ) جیسی کوئی چیز نہیں ‘‘ ، (الشوریٰ : ۱۱ ) ۔ اب قرآن و حدیث سے حق عیاں ہونے کے بعد بھی اگر کوئی کہے کہ : ’’ حضرت محمد ﷺ نور من نور اﷲہیں‘‘ ، وہ بھی یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی طرح ہی اﷲ پر بہتان باندھ رہا ہے ۔ ’’ بیٹا تم نور والی آیت کیوں نہیں پڑھتے ؟ ضعیف آدمی تھوڑا نرم لہجے میں بولا ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن:
’’ بابا جی ، کونسی نور والی ؟ ‘‘
بوڑھا شخص :
جس میں اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ قد جا کم من اﷲ نور و کتب : یعنی اﷲ نے نور اور کتاب اتاری ‘‘ ، نور سے مراد نبی پاک ﷺ ہے ۔
عبدالرحمٰن:
بابا جی ، آیت جس طرح آپ نے پڑھی ہے اس طرح نہیں بلکہ : ’’ قد جاء کم من اﷲ نور و کتب مبین ‘‘ ، ہے ۔ جس کا مطلب ہے : ’’ تمہارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے ۔ ‘‘
بھائیوں ! توجہ فرمانا اور بابا جی آپ بھی ’’نوراور کتاب مبین دونوں سے مراد قرآن کریم ہے ان کے درمیان واؤ ، مغایرت مصداق نہیں مغایرت معنی کے لئے ہے اور یہ عطف تفسیری ہے جس کی واضح دلیل قرآن کریم کی اگلی آیت ہے جس میں کہا جا رہا ہے ، یھدی بہ اﷲ ،کہ اس کے ذریعے سے اﷲ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے ۔ اگر نور اور کتاب یہ دو الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ ، یھدی بھما اﷲ ہوتے ’’ یعنی اﷲ پاک ان دونوں کے ذریعے سے ہدایت فرماتا ہے ‘‘ ۔ قرآن کریم کی اس نص سے واضح ہو گیا کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد ایک ہی چیز یعنی قرآن کریم ہے ۔ یہ نہیں ہے کہ نور سے آنحضرت ﷺ اور کتاب سے قرآن مجید مراد ہے ‘‘ ، (تفسیر احسن البیان ، المائدۃ : تفسیر آیت ۱۵) ۔
قرآن پاک میں کئی مقام پر نور سے مراد قرآن مجید ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر نور قرآن مجید کی صفت بیان ہوئی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ و انز لنا الیکم نورا مبینا : اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتار دیا ہے ‘‘ ، (النساء : ۱۷۴ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ فامنو ا باﷲ ورسولہ و النور الذی انزلنا : سو تم اﷲ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لاؤ ‘‘ ، (التغابن : ۸ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ ما کنت تدری ما الکتب ولا الایمان ولکن جعلنہ نورا نھدی بہ : آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے ؟ لیکن ہم نے اس کتاب کو نور بنایا ، اس سے راہنمائی کرتے ہیں ‘‘ ، (الشوریٰ : ۵۲ ) ۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ فالذین امنوا بہ وعزروہ ونصروہ واتبعوا النور الذی انزل معہ اولئک ھم المفلحون : سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لائے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان پر نازل کیا گیا ، ایسے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں ‘‘ ، (الاعراف : ۱۵۷ ) ۔
مسلمانو ! کیوں آپ سید المرسلین ﷺ کو اﷲ کا حصہ کہتے ہو حالانکہ قرآن میں بڑا واضح ہے کہ : ’’ اور انہوں نے اﷲ کے بعض بندوں کو اس کا جز ٹھہرا دیا یقیناًانسان کھلم کھلا نا شکرا ہے ‘‘ ، (الزخرف : ۱۵ ) ۔کیا آپ اﷲ تعالیٰ کے شکر گزار بندے نہیں بننا چاہتے ؟ میرے عزیز دوستو ! کیا اب بھی آپ کہیں گے کہ نبی ﷺ بشر نہیں نور ہیں ؟ بہت زیادہ لوگوں نے بلند آواز میں جواب دیا :
’’ نہیں ! اب ہم ساری زندگی اتنا بڑا گناہ نہیں کریں گے ۔ ‘‘
(جاری ہے )
 
( ۲ )
پولیس والوں نے اگر کوئی مجرم پکڑنا ہو تو وہ ناکا لگاتے ہیں ۔ اگر گنا ہ گار بڑا ہوتو وہ بہت زیادہ ناکے لگاتے ہیں تاکہ خطا کار ایک جگہ نہ بھی پکڑا گیا تو دوسرے مقام پر قابو آ جائے گا ۔ شیطان نے بھی بد عقیدگی کو عام کرنے کے لیے ایسے ہی جال بچھائے ہیں ۔ جس کی ایک مثال عقیدہ وحدۃ الوجود بھی ہے ۔ ’’ عبدالرحمٰن صاحب قطع کلامی کی معذرت ، عقیدہ وحدۃ الوجود کیا ہے ؟ ایک نوجوان ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے بولا ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
’’ عقیدہ وحدۃ الوجود کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کائنات کی ہرچیز میں ہے یعنی ہر چیز اﷲ ہی ہے ، (نعوذ با ﷲ )۔لغت میں وحدت الوجود : اصطلاح صوفیت میں ہرمخلوق کو خالق مطلق کا وجود سمجھنا ، (فیروز اللغات ) ۔ کچھ مسلمانوں نے یہود و نصاری اور ہندوؤں کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ان کے عقائد کو اپنانا شروع کر دیا ۔ایسی ہی ایک مثال عقیدہ وحدۃ الوجود بھی ہے۔ یہ عقیدہ یہودیوں ، عیسائیوں اور ہندوؤں کے بعد بد قسمتی سے مسلمانوں کے بعض گروہوں کا بھی ہے ۔ جو صوفیوں ، درباری مجاوروں ، مزاری ملنگوں اور طریقتی پیروں کا گھڑا ہوا عقیدہ ہے ۔ یہ اتنا برا عقیدہ ہے کہ اس کے ماننے والے سور ، بندر ، گندگی اور دنیا کی ہر چیز کو اﷲ مانتے ہیں ، (نعوذ باﷲ ) ۔ وہ صوفی جو ہر مخلوق کو خالق کا وجود قرار دیتا ہے اسے وحدت الوجودی کہتے ہیں ‘‘ ، (فیروز اللغات ) ۔
آئیے ! ہم اس مسئلے کا فیصلہ قرآن و حدیث سے کروا لیتے ہیں ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے ‘‘ ، (طہٰ : ۵ ) ۔ دوسرے مقام پر فرمایا : ’’ اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہو ا ، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں ۔ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔ وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر ) کام کی تدبیر کرتا ہے پھر وہ (کام ) ایک ایسے دن میں اس (اﷲ ) کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے ‘‘ ، (السّجدۃ : ۴ تا۵) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ یخافون ربھم من فوقھم ویفعلون ما ےؤمرون : وہ (یعنی فرشتے ) اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ، ڈرتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں ‘‘ ، (النحل : ۵۰ ) ۔ اور چوتھے مقام پر ہے : ’’ اور یہ ذکر (قرآن ) ہم نے آپ (ﷺ ) کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو کھول کھول کر بیان کردیں کہ ان کی طرف کیا اتارا گیا ہے اور تاکہ وہ غورو فکر کریں ‘‘ ، (النحل : ۴۴ ) ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اﷲ پاک ہی کی ساری عزت ہے (یعنی عزت دینے والا وہی ہے ) ، تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے ، جو لوگ برائیوں کے داؤں گھات میں لگے رہتے ہیں ان کے لیے سخت تر عذاب ہے ، اور ان کا یہ مکربرباد ہو جائے گا ‘‘ ، (الفاطر : ۱۰ ) ۔ اور فرمایا : ’’ کیا تم اس بات سے بے خوف ہو گئے ہو کہ جو آسمانوں پر ہے تمہیں زمین میں دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے ‘‘ ، (الملک : ۱۶ ) ۔ عقیدہ وحدت الوجود قرآن مجید کی کئی اور آیات کے بھی خلاف ہے ، مثال کے طور پر : ’’ (الاعراف : ۵۴ ) ،(یونس : ۳ ) ، (الرعد : ۲ ) ، (الفرقان : ۵۹ ) ، (الحدید : ۴ ) ، (الملک : ۱۷ ) ، (المعارج : ۱ تا ۴ ) ، ( المؤمن : ۳۶ تا ۳۷ ) اور (النحل : ۶۴ ) ‘‘ ۔ یہ عقیدہ ۔۔۔ ’’ دیکھو بیٹا اس مرتبہ پھر آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی جس میں لکھا ہے کہ ہر چیز میں اﷲ ہے ، بوڑھے آدمی نے عبدالرحمٰن کی بات کاٹ کر دھیمی آواز میں کہا ۔ ‘‘
’’ محترم ! کونسی آیت ، عبدالرحمٰن نے سنجیدگی سے پوچھا ۔ ‘‘
ضعیف آدمی :
’’تم غلطیاں نکال دیتے ہو ! ‘‘ ، آیت تو میں نہیں پڑھوں گا لیکن اس کا ترجمہ ہے کہ : ’’ اے انسان ہم تیری شہ رگ میں ہیں یا رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
جناب عالیٰ ! آیت اس طرح ہے : ’’ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید : اور ہم اس (یعنی انسان ) کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ‘‘ ، (ق : ۱۶ ) ۔ اس قرب سے مراد ہے کہ اﷲ تعالیٰ علم کے لحاظ سے انسان کے قریب ہے ۔ یعنی اﷲ پاک دلوں میں اٹھنے والے خیالوں سے بھی واقف ہے اور وہ (اﷲ ) انسان کے بارے میں اتنا کچھ جانتا ہے ، جتنا وہ (انسان ) خود اپنے بارے میں علم نہیں رکھتا ۔
مثال دیکر بات کو واضح کرتا ہوں :’’ انٹرنیٹ کے فوائد (Internet Benefits) ‘‘ ، کے طور پر کہا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے عالمی دنیا ہمارے ہاتھ میں آ گئی ہے ‘‘ ۔ کیا سارا جہان ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے ؟ ’’جی نہیں !‘‘ ، اس کا تو مطلب یہ ہے کہ : ’’ ہم جس جگہ بھی ہوں ، اپنے کمپیوٹر یا موبائل سے جو چاہیں تلاش (Search) کرسکتے اور اپنی پسندیدہ چیزیں دیکھ ، پڑھ ، سن اور دنیا کی سیر کر کے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ اکثر خبر چینل سے وقفہ کے وقت یہ بات سننے میں آتی ہے کہ : ’’ ناظرین یہاں پے لینا ہے ایک چھوٹا سا وقفہ ہمارے ساتھ رہیے گا ‘‘ ۔ کیا ہم ان کے ساتھ ہوتے ہیں ؟ بلکہ ان کا مقصد ہوتا ہے کہ : ’’ ہم ان کا چینل دیکھتے رہیں ‘‘ ، اسی طرح اﷲ اپنے عرش پر مستوی ہے ، لیکن اس کا علم ہر جگہ ہے کوئی بھی چیز اس سے غائب نہیں ، اور وہ دلوں کے حال تک جانتا ہے ۔
یہود و نصاری کی طرح مسلمانوں نے بھی محکمات آیات کو چھوڑ اور متشابہات آیات کے پیچھے لگ کر بے شمار خود ساختہ عقائد بنائے ۔متشابہات آیات کو اس طرح سمجھو ، جس طرح صحابہ کرامؓ نے ان آیات میں فکر کیا ۔ متشابہات آیتوں کی اپنی سمجھ کے مطابق پیروی سے امت مسلمہ میں بہت زیادہ فتنوں نے جنم لیا ۔ جن میں سب سے بڑا فتنہ فرقہ واریت ہے ۔ ’’ بھائی ! معاف کرنا ، محکمات اور متشابہات آیات سے کیا مراد ہے ؟ ایک نو عمر لڑکے نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
’’ محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوامرو نواہی ، احکام و مسائل اور قصص و حکایات ہیں جن کا مفہوم واضح اور اٹل ہے ، اور ان کے سمجھنے میں کسی کو اشکال پیش نہیں آتا ۔ اس کے برعکس آیات متشابہات وہ ہیں جو ماورا عقل حقائق جن کی حقیقت سمجھنے سے عقل انسانی قاصر ہو یا ان میں ایسی تاویل کی گنجائش ہو یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو ‘‘ ، (احسن البیان ، تفسیر العمران : ۷ ) ۔ مثال کے طور پر : ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے ‘‘ ، (طہٰ : ۵ ) ۔ اس آیت میں تاویل کی وسعت نہیں ہے ، یہ محکم ہے ۔ اس کے برعکس : ’’ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید : اور ہم اس (یعنی انسان ) کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ‘‘ ، (ق : ۱۶ ) ۔ اس آیت کے ذریعے عوام کو گمراہی کی طرف دھکیلا جاتا ہے ، یہ متشابہ آیت ہے۔
جو لوگ صرف متشابہات آیات کو اپنا منہج ، مسلک ، عقیدہ اور مذہب بنا لیتے ہیں ، وہ فتنے کی طلب سے گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ وہی اﷲ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح محکم (مضبوط ) آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں ۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو ان متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ، حالانکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اﷲ پاک کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ و مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقل مند حاصل کرتے ہیں ۔ اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے اور ہمیں اپنے پا س سے رحمت عطا فرما ، یقیناًتو ہی بہت عطا دینے والا ہے ‘‘ ، (العمران : ۷ تا ۸ ) ۔
عوام وافر مقدار میں عبدالرحمٰن کے اردگرد جمع تھی ۔ توجہ کی وجہ سے ہمارے کان ، آنکھیں اور دل بھی سماعت فرما رہے تھے ۔ الفاظ پر اتنا مرکز نگاہ (Focus ) تھا کہ جیسے ذہن میں تصویر کشی کر رہے ہوں ۔ہم عبدالرحمٰن کا احساس ، دل و روح کے راستے سے محسوس کر رہے تھے ۔لوگ دنیا کے ٹی وی کو بند کرکے صرف عبدالرحمٰن کی قرآن و حدیث پر مبنی باتیں سننا پسند کر رہے تھے ۔ عبدالرحمٰن اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہہ رہا تھا :
اس آیت (یعنی ، ق : ۱۶ ) کا معنی و مفہوم وہی ہوگا جو نبی پاک ﷺ نے صحابہ اکرمؓ کو بتایا ۔ رسول اﷲ ﷺ کی احادیث تو عقیدہ وحدۃ الوجود کی تردید میں ہیں اور تائید کرتیں ہیں کہ اﷲ پاک آسمانوں کے اوپر عرش پر مستوی ہے ۔ سیدنا ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اﷲ نے فرمایا : ’’ جب اﷲ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کر چکا تو اپنی کتاب میں جو ’’ اس کے پاس عرش پر موجود ہے ‘‘ ، اس نے لکھا کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے ‘‘ ، (بخاری : ۳۱۹۴ ) ۔ حضرت عبداﷲ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ سید المرسلین ﷺ نے فرمایا : ’’ رحم کرنے والوں پر رحمٰن بھی رحم کرتا ہے ۔ تم زمین والوں پر رحم کرو ’’ آسمان والا‘‘، تم پر رحم کرے گا ‘‘ ، (ترمذی : ۱۷۵۴ ) ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بچھونے کی طرف بلائے اور وہ انکار کرے ، تو وہ پروردگار جو ’’ آسمان کے اوپر ہے ‘‘ ، غصہ میں رہتا ہے جب تک وہ (یعنی شوہر ) اس عورت سے راضی نہ ہو ‘‘ ، (مسلم : ۳۵۴۰ ) ۔
سیدنا معاویہ بن حکم سلمیؓ نے کہا میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ (ایک مقام کا نام ہے ) کی طرف بکریاں چرایا کرتی تھی ایک دن میں وہاں آنکلا تو دیکھا کہ بھیڑیا ایک بکری کو لے گیا ہے ۔ آخر میں بھی آدمی ہوں مجھ کو بھی غصہ آ جاتا ہے ۔ جیسے دوسرں کو غصہ آتا ہے میں نے اس کو ایک طمانچہ مارا پھر میں رسول اﷲ ﷺ کے پاس آیا تو سیدالمرسلین ﷺ نے میرا یہ فعل بہت برا قرار دیا ۔ میں نے کہا : ’’ یا رسول اﷲ ﷺ ! کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کردوں ؟ ‘‘ ، آپ نے فرمایا : ’’ اس کو میرے پاس لے کر آ ‘‘ ۔ میں آپ ﷺ کے پاس لے کر گیا ۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا : ’’ اﷲ کہاں ہے ؟ ‘‘ ، اس نے کہا : ’’ آسمان پر ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں کون ہوں ؟ ‘‘ ، اس نے کہا : ’’ آپ ﷺ اﷲ کے رسول ہیں ‘‘، تب آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ تو اس کو آزاد کر دے یہ مومنہ ہے‘‘ ، (مسلم : ۱۱۹۹ ) ۔ کثیر تعداد احادیث، اس عقیدے کو مسترد (Reject) کرتیں ہیں ، مثلاََ : ’’ ( بخاری : ۱۱۴۵ ) ، (بخاری : ۵۵۵ ) ، (بخاری : ۴۳۵۱ ) ، (بخاری : ۷۴۳۰ ) ، ( بخاری : ۲۷۹۰ ) ، ( بخاری : ۷۴۲۱ ) اور ( مسلم : ۶۸۳۹ ) ‘‘ ۔
کیوں نہ ! صحابہ کرامؓ کے اقوال کے ترازو سے عقیدہ وحدۃ الوجود کی پیمائش کریں ؟ کون صحابہؓ ! جو حقیقی مومن تھے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جن سے اﷲ تعالیٰ محبت کرتا ہے ۔ وہ صحابہؓ ! جو کامیاب ہو گئے اور جن کے لیے اجر عظیم ہے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جنہوں نے دین کے لیے بے شمار تکالیف برداشت کیں ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جو کفار کے لیے سخت اور آپس میں محبت کرنے والے تھے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جن کا کردار نجات کے لیے معیار ہے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جن کے بارے میں رسول ﷲ نے فرمایا کہ : ’’ وہ بہترین لوگ ہیں ۔ ‘‘
آؤ ! صحابہؓ اور صحابیاتؓ کے اقوال سماعت فرما ؤ ۔ رسول اﷲ ﷺ کی وفات کے بعد ، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’ اے لوگو ! اگر تو محمد ﷺ تمہارے معبود تھے جن کی تم عبادت کرتے تھے تو پھر جان لو کہ تمہارے (وہ ) معبود (محمد ﷺ ) فوت ہوگئے ہیں اور اگر تم لوگوں کا معبود وہ ہے ’’ جو آسمان پر ہے ‘‘ ، تو پھر تمہارا معبود نہیں مرا ‘‘ ، (التاریخ الکبیر : ۶۲۳ ) ۔ سیدنا انسؓ کا کہنا ہے کہ (ام المومنین ) زینب بنت حجشؓ ، سید المرسلین ﷺ کی دوسری بیگمات کو فخر کے ساتھ کہا کرتی تھیں کہ : ’’ تم لوگوں کی شادی تمہارے گھر والوں نے کی اور میری اﷲ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے شادی کی ‘‘ ، (بخاری : ۷۴۲۰ ) ۔
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کے مرض الوفات میں حضرت ابن عباسؓ نے ان سے اندر آنے کی اجازت مانگی ، ان کے پاس ان کے بھتیجے تھے ، میں نے ان کے بھتیجے سے کہا کہ حضرت ابن عباسؓ اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں ، ان کے بھتیجے نے جھک کر حضرت عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا وہ کہنے لگیں کہ رہنے دو ( مجھ میں ہمت نہیں ہے ) اس نے کہا کہ اماں جان ! ابن عباس تو آپ کے بڑے نیک فرزند ہیں ، وہ آپ کو سلام کرنا اور رخصت کرنا چاہتے ہیں ، انہوں نے اجازت دے دی ۔ سیدنا ابن عباسؓ نے اندر آ کر کہا : ’’ آپ ( یعنی عائشہؓ ) نبی ﷺ کی تمام ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ محبوب رہیں ، اور سید المرسلین ﷺ اسی چیز کو محبوب رکھتے تھے جو طیب ہو ، لیلۃ الابواء کے موقع پر آپ کا ہار ٹوٹ کر گرپڑا تھا نبی ﷺ نے وہاں پڑاؤ کر لیا لیکن صبح ہوئی تو مسلمانوں کے پاس پانی نہیں تھا ، اﷲ نے آپ کی برکت سے پاک مٹی کے ساتھ تیمم کرنے کا حکم نازل فرما دیا ، جس میں اس امت کے لئے اﷲ نے رخصت نازل فرما دی ، اور آپ کی شان میں قرآن کریم کی آیات نازل ہو گئی تھیں ’’ جو سات آسمانوں کے اوپر سے جبریل لے کر آئے ‘‘ ، (مسند احمد : ۲۴۹۶ ) ۔
تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ دین ؒ بھی عقیدہ وحدت الوجود کے خلاف تھے ۔ امام ابو حنیفہ ؒ سے کسی نے پوچھا : ’’ جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا رب زمین پر ہے یا آسمان پر تو ایسا کہنے والے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ‘‘ ، امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا : ’’ تو اس نے کفر کیا کیونکہ اﷲ تعالیٰ کہتے ہیں ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے‘‘ ، اور اس کا عرش ساتوں آسمانوں کے اوپر ہے ۔ اس نے پھر پوچھا : ’’ اگر وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ اﷲ کا عرش آسمان پر ہے یا زمین پر (تو پھر اسکا کیا حکم ہے ) ؟ ‘‘ ، تو امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا : ’’ ایسا کہنے والا کافر ہے کیونکہ اس نے اس بات سے انکار کیا کہ اﷲ کا عرش آسمانوں کے اوپر ہے اور جو اس بات سے انکار کرے وہ کافر ہے ‘‘ ، (شرح عقیدہ الطحاویہ ، صفحہ : ۲۸۸ ) ، (اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۴ ) اور آپ یوٹیوب ( YouTube) پر بھی اس حوالہ (Reference) کے بارے میں دیکھ سکتے ہیں ، تلاش (Search )کریں (Wahdatul wajood ka Rad Imam Abu Hanifa se) ۔
عبداﷲ بن نافع ؒ کا کہنا ہے کہ امام مالک ؒ نے فرمایا : ’’ اﷲ آسمان پر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے اور اس کے علم سے کوئی چیز خارج نہیں ‘‘ ، (اعتقاد اہل السنۃ ) ، (اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۷ تا ۳۸ ) ۔ امام الشافعی ؒ نے فرمایا : ’’ اﷲ آسمان سے اوپر اپنے عرش سے اوپر ہے ‘‘ ، (اجتماع الجیوش الاسلامےۃ ) ، ( اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۸ ) ۔ امام احمد بن حنبل ؒ سے پوچھا گیا : ’’ کیا اﷲ عزو جلّ ساتویں آسمان کے اوپر اپنے عرش سے اوپر ، اپنی تمام مخلوق سے الگ ہے اور اسکی قدرت اور علم ہر جگہ ہے ؟ ‘‘ تو امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا : ’’ جی ہاں ! اﷲ عرش پر ہے اور اس (کے علم ) سے کچھ خارج نہیں ‘‘ ، (اجتماع الجیوش الاسلامےۃ ) ، ( اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۸ تا ۳۹ ) ۔ ’’ انکل ! (Uncle) میں کچھ پوچھ سکتا ہوں ؟ ۱۰ سے ۱۲ سال کے بچے نے ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے کہا ۔ ‘‘
’’ جی ! کیوں نہیں ، عبدالرحمٰن نے جواب دیا ۔ ‘‘
بچہ :
’’ انکل ! مجھے بلال کہتے ہیں ‘‘ ۔ مجھے افسوس ہے ان پر جو اس (یعنی عقیدہ وحدۃالوجود ) کے قائل ہیں ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں : ’’ اگر ہر شے اﷲ ہے تو جنت اور جہنم کس لیے ؟اگرتمام چیزیں اﷲ ہیں توپھر مریم کے پیٹ میں کون تھا ؟ اگر سب جگہ اﷲ تعالیٰ ہے تو نبی پاک ﷺ کو اوپر جانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اﷲ پاک نے قرآن مجید نازل کیا ، اگر ہر جگہ ہوتا تو دے دیتا ؟ اگر ہر چیز اﷲ ہے تو پھر ہم دعا کے لیے ہاتھ اوپر کیوں اٹھاتے ہیں ؟ اشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ کل من علیھا فان *ویبقی وجہ ربک ذوالجلل والاکرام : (یعنی) ہر چیز نے ختم ہو جانا ہے ۔ صرف آپ کے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی ‘‘ ،(الرحمن : ۲۶ تا ۲۷ ) ۔ میں سوال کرتا ہوں کہ : ’’ سب کچھ ختم ہو جائے گا صرف اﷲ کی ذات باقی رہے گی ۔ اگر تمام چیزوں میں اﷲ ہے یااﷲ ہیں تو پھر ختم کون ہو گا ؟ ‘‘ ، انکل ! یہ عقیدہ اتنا برا ہے کہ عقل کے بھی خلاف ہے ’’ کیا مسلمانوں نے ا س عقیدے کو تقریری (Oral) طور پر پھیلایا ہے یا تحریری (Written) نشرو اشاعت کی ہے ؟ ‘‘
عبدالرحمٰن :
’’ بلال بیٹا ! اﷲ آپ کو اجر دے اور استقامت عطا فرمائے ‘‘ ۔ لوگوں نے اس عقیدے کو تقریری اور تحریری طور پر وسعت دی ہے ۔ ایسے ایسے لوگ اس عقیدے کے قائل ہیں جن کے بارے میں آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔ مثال کے طور پر ، منصور حلاج کے بارے میں لکھا ہے : ’’ حضرت مرشد ؒ سے سنا تھا کہ ابن المنصور کو نماز پڑھتے کسی نے دیکھ کر پوچھا کہ جب تم خود حق (یعنی اﷲ ) ہو تو نماز کس کی پڑھتے ہو ؟ انھوں نے جواب دیا کہ میرا ظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتا ہے ‘‘ ، (سیرت منصور حلاج ، صفحہ : ۱۴ ) ۔
ایک صاحب نے اپنے بیان (Speech) میں عقیدہ وحدت الوجود کا پرچار اس طریقے سے کیا کہ : ’’ لا کی تلوار عرش کے اوپر سے چلی ہے ، عرش زیرو زبر ، عرش کے فرشتے زیرو زبر ، عرش کے نیچے زیرو زبر۔ ساتواں ، چھٹا ، پانچواں ، چوتھا ، تیسرا ، دوسرا ، پہلا آسمان لا اور ہوا ، فضا ، خلا لا اور زمین ،آسمان ، چاند ، سورج ، تارے لا ، اور انسان ، جنات ، جن ، پرند ،چرند ، آبی ، خاکی ، ناری ، نوری ، ہوائی ، فضائی ، خلائی سب لا ہیں ، لا ہیں ۔ کوئی کچھ نہیں ہے ، کوئی کچھ نہیں ہے جو کچھ ہے وہ اﷲ ہے ، جو کچھ ہے وہ اﷲ ہے ‘‘ ،( یوٹیوب : Wahdat-ul-wajood - Molana Tariq Jameel ) ۔ آپ کو سن کر تعجب ہو گا کہ ایک کتاب میں اس عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے لکھا ہے کہ : ’’ ایک موحد (وحدت الوجودی ) سے لوگوں نے کہا کہ اگر حلوا و غلیظ ایک ہیں تو دونوں کو کھاؤ۔ انہوں نے بشکل خنزیر ہو کر گُوہ کو کھا لیا ۔ پھر بصورت آدمی ہو کر حلوہ کھا لیا اس کو حفظ مراتب کہتے ہیں جو واجب ہے ‘‘ ، (شمائم امدادیہ ، حصہ دوم ، ص : ۷۵ ) ، ( الدیوبندیۃ ، صفحہ : ۲۰۰ ) ۔
استغفر اﷲ ، نعوذ باﷲ ، لاحول ولا قوۃ الا باﷲ اور سبحن اﷲ عما یشرکونکی آوازیں ، چاروں طرف گھونج رہی تھیں اور لوگ حسرت بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔لوگوں کی آنکھیں پر نم تھیں ۔ عبدالرحمن کی آنکھوں سے ضبط کی جدوجہد کے باوجود آنسو ٹپک رہے تھے ۔ عوام الناس کا افسردہ چہرہ دیکھ کر عبدالرحمن بول پڑا :
میرے بھائیوں ! میرامقصد باطل کو بے نقاب کرنا اور حق بات سمجھانا تھا ، کسی کو دکھ پہنچانا میرا مشن نہیں ہے ۔ یہ عقیدہ اپنی جڑیں اتنی مضبوط کرچکا ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد جیسا مفسراس کی زد میں آ گیا تھا ۔عقیدہ وحدت الوجود کو مسلمانوں میں ’’ابن عربی ‘‘ ، نے متعارف کیا جس کی کتاب ’’ فصوص الحکم ‘‘ ، اسی غلیظ ترین عقیدے سے لبریز ہے ۔ ڈاکٹر اسرار صاحب بھی لکھتے ہیں :
’’ میرے نزدیک اس کا اصل حل وہ ہے جو شیخ ابن عربی ؒ نے دیا ہے ، جو میں بیان کر چکا ہوں کہ حقیقت و ماہیت وجود کے اعتبار سے خالق و مخلوق کا وجود ایک ہے ، کائنات میں وہی وجودِ بسیط سرایت کیے ہوئے ہے لیکن جہاں تعین ہو گیا تو وہ پھر غیر ہے ، اس کا عین نہیں ۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ یہ کائنات کا وجود ایک اعتبار سے اﷲ تعالیٰ کے وجود کا عین اور دوسرے اعتبار سے اس کا غیر ہے ۔ یہ ابن عربی کا فلسفہ ہے ‘‘ ، (ام المسبحات یعنی سورۃ الحدید کی مختصر تشریح ، صفحہ : ۸۸ ) ۔ دوسرے مقام پر لکھتا ہے : ’’ شیخ ابن عربی کے بارے میں میں عرض کر چکا ہوں کہ جہاں تک حقیقت و ماہیتِ وجود کے بارے میں ان کی رائے کا تعلق ہے ، میں اس سے متفق ہوں اور میرا مسلک بھی وہی ہے ‘‘ ، (ام المسبحات ۔۔۔، صفحہ : ۹۱ )۔ یوٹیوب پر آپ ان کی ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں ، تلاش کریں (Dr. Israr Aur Aqeedah Wahdat ul Wajood) ۔
ایک اور مفسر ، سورۃ المک کی آیت نمبر ۱۶ ، جس میں ہے کہ ’’ اﷲ آسمان پر ہے ‘‘ ، کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ : ’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ آ سمان میں رہتا ہے ‘‘۔لونڈی جس سے نبی پاک ﷺنے دو سوال کیے تھے اور وہ واقعہ جو حضرت خولہؓ کے متعلق حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا ،یہ وہ خاتون ہیں جن کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی ، بھی بیان کیا۔پھر کہا اس میں اس شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن ، اﷲ تعالیٰ کو آسمان میں مقیم قرار دیتا ہے ۔ لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ آسمان میں رہتا ہے ‘‘ ، ( تفہیم القرآن ) ۔
ایک وجودی نے اپنا عقیدہ ثابت کرنے کے لیے ایک قصہ بیان کیا ، کہا : ’’ رب عزوجل اس پر قادر نہیں کہ اپنے بندے پر تجلی فرما کر کلام فرمائے جو اس کی زبان سے سننے میں آئے بلا شبہ اﷲ قادر ہے اور معترض کا اعتراض باطل ، اس کا فیصلہ خود حضرت با یزید بسطامیؓ کے زمانے میں ہوچکا ، ظاہر بینوں بے خبروں نے ان سے شکایت کی کہ آپ سبحانی ما اعظم شانی (میں پاک ہوں اور میری شان بلند ہے )کہا کرتے ہیں ، فرمایا : حاشا میں نہیں کہتا ، کہا : آپ ضرور کہتے ہیں ہم سب سنتے ہیں ، فرمایا : جو ایسا کہے واجب القتل ہے میں نجوشی تمھیں اجازت دیتا ہوں جب مجھے ایسا کہتے سنو بے دریغ خنجر ماردو ، وہ سب خنجر لے کر منتظر وقت رہے یہاں تک کہ حضرت پر تجلی وارد ہوئی اور وہی سننے میں آیا سبحانی ما اعظم شانی مجھے سب عیبوں سے پاکی ہے میری شان کیا ہی بڑی ہے ۔ وہ لوگ چار طرف سے خنجر لے کر دوڑے اور حضرت پر وار کئے ، جس نے جس جگہ خنجر مارا تھا خود اس کے اسی جگہ لگا اور حضرت پر خط بھی نہ آیا ۔ جب افاقہ ( Recovered) ہوا دیکھا لوگ زخمی پڑے ہیں ، فرمایا : ’’ میں نہ کہتا تھا کہ میں نہیں کہتا وہ فرماتا ہے جسے فرمانا بجا ہے ‘‘ ، (فتاوی رضویہ ، جلد :۱۴، صفحہ : ۶۶۶ ) ۔آپ بتائیے ! سبحانی ما اعظم شانی ، کہنے والا ’’ پکا ولی ہے ‘‘ ، تو پھر فرعون کا کیا گناہ تھا ؟ ‘‘
مشرکین مکہ اور یہود و نصاری نے اﷲ پاک پر بیٹے اور بیٹیوں کا بہتان باندھا تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ اور انہوں نے اﷲ کے بعض بندوں کو اس کا جز ٹھہرا دیا یقیناًانسان کھلم کھلا نا شکرا ہے ‘‘ ، (الزخرف : ۱۵ ) ۔ ایک اور مقام پر فرمایا : ’’ ان کا قول تو یہ ہے کہ رحمٰن نے بیٹا بنا رکھا ہے ۔ یقیناًتم بہت بری اور بھاری چیز(گھڑ کر ) لائے ہو ۔ قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں ۔ کہ وہ رحمٰن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ۔ شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے ‘‘ ، (مریم : ۸۸ تا ۹۲ ) ۔
مسلمانو ! تم بھی ؟ آپ نے تو تمام حدیں پار کر دیں کہ کہتے ہو : ’’ لا موجود الا اﷲ : یعنی اﷲ کے سواء کچھ بھی موجود نہیں ہے ‘‘ ۔کیا آپ نے سورۃ المائدۃ کی وہ آیت نہیں پڑھی جس میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ وہ لوگ قطعاََ کافر ہو گئے جنہوں نے کہا ، اﷲ تین میں کا تیسرا ہے ‘‘ ، (المائدۃ : ۷۳ ) ۔ وہ کافر ہیں جو تیں کہیں اور جو ہر چیز کو اﷲ کہہ دے وہ کیا ہے ؟ کیا آپ اﷲ تعالیٰ سے نڈرہو کہ : ’’ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے یا آسمان سے پتھر برسا دے ‘‘ ، کہ تم ہر چیز کو اس کا جز ثابت کرنے چلے ہو ؟ کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا کہ الفرقان میں : ’’ من دون اﷲ ، من دونہ اور غیر اﷲ ‘‘ ، بھی استعمال ہوا ہے ۔ اگر تمام مخلوقات ، خالق کا ہی حصہ تھیں تو پھر اﷲ تعالیٰ نے یہ الفاظ کیوں استعمال کیے ؟
میرے پیارو ! بہت زیادہ تعداد اس باطل عقیدے پر یقین رکھتی ہے ۔ اس کے قائل لوگوں نے بڑی موٹی موٹی کتابیں اس عقیدے کی نشرو اشاعت کے لیے شائع کیں ہیں ۔ ذات میں شرک کے حوالے سے کچھ بنیادی باتیں آپ نے سنیں ، اب ! ان شاء اﷲ چند گزارشات ’’ صفات میں شرک ‘‘ ، کے بارے آپ کے گوش گزار کروں گا ۔
( جاری ہے )
 

آبی ٹوکول

محفلین
مشرکین مکہ کا فہم توحید (اصل میں شرک) تو یہ تھا کہ انھوں نے بطور عقیدہ بھی، اور عملا بھی بعض معاملات میں مخلوق کی صفات کو خالق کی صفات سے جاملایا تھا یعنی ایسی صفات جوکہ خاصا الوہیت اورمدار الوہیت کا تقاضا رکھتی تھیں انھے مخلوق میں تسلیم کرلیا تھا یوں انھوں نے مخلوق کو بڑھا کر خالق کے برابر جا ٹھرایا ۔۔۔۔ لیکن آج کل کی ایک مخصوص فکر کا (یعنی دوسروں کو مشرک قرار دینے جبکہ حقیقت میں خود لزوم شرک کا ارتکاب کرنے والوں ) کا " فہم توحید " یہ ہے کہ انھوں نے مخلوق کہ خاصا کو یعنی عطائی صفات (کے حامل ہونے کو) جیسے باذن اللہ دور و نزدیک سے دیکھنا ،سننا ، اور مدد کرنا یا حاجت روائی کرنا وغیرہ علٰی ھذا القیاس کو بھی معاذاللہ خالق کا خاصا قرار دے کر اپنے مخالفین کو مشرک اور جب کہ اپنے اس فہم توحید سے عقیدہ تنزیہ باری تعالٰی کو کاری ضرب لگائی ہے۔ یعنی مشرکین مکہ تو مخلوق کو بڑھا کر خالق تک لے گئے تھے اور یہ لوگ اپنے نام نہاد فہم توحید کی بدولت خالق کو گھٹا کر مخلوق کی سطح تک لے آئے ہیں نعوذ باللہ من ذالک الخرافات ۔۔۔ یعنی ایسی صفات جو کہ خاصا الوہیت نہیں ہیں یا جنکا مدار ، الوہیت پر نہیں ہے یا جو " خاصائے " مدار الوہیت نہیں ہیں انکو مخلوق میں تسلیم کرنا انکے نزدیک شرک ہے یعنی دوسرے لفظوں میں خالق کے اوپر بھی معاذاللہ ثمہ معاذاللہ کوئی خالق ہے جو کہ عطائی صفات پہلے اللہ کو دیتا ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ کوئی عطائی صفت اگر کسی مخلوق میں مانی جائے تو انکے نزدیک شرک کا وقوع ہوجاتا ہے۔۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
 

الشفاء

لائبریرین
سبحان اللہ۔۔۔ آپ کے دھاگے کا عنوان بہت اچھا ہے کہ " حد ہو گئی"۔ سبحان اللہ۔۔۔
اور یہ دلیل تو کیا ہی خوب ہے۔۔۔ جس میں بابا جی فرماتے ہیں کہ
قد جا کم من اﷲ نور و کتب : یعنی اﷲ نے نور اور کتاب اتاری ‘‘ ، نور سے مراد نبی پاک ﷺ ہے ۔
عبدالرحمٰن:
بابا جی ، آیت جس طرح آپ نے پڑھی ہے اس طرح نہیں بلکہ : ’’ قد جاء کم من اﷲ نور و کتب مبین ‘‘ ، ہے ۔ جس کا مطلب ہے : ’’ تمہارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے ۔ ‘‘
بھائیوں ! توجہ فرمانا اور بابا جی آپ بھی ’’نوراور کتاب مبین دونوں سے مراد قرآن کریم ہے ان کے درمیان واؤ ، مغایرت مصداق نہیں مغایرت معنی کے لئے ہے اور یہ عطف تفسیری ہے جس کی واضح دلیل قرآن کریم کی اگلی آیت ہے جس میں کہا جا رہا ہے ، یھدی بہ اﷲ ،کہ اس کے ذریعے سے اﷲ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے ۔ اگر نور اور کتاب یہ دو الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ ، یھدی بھما اﷲ ہوتے ’’ یعنی اﷲ پاک ان دونوں کے ذریعے سے ہدایت فرماتا ہے ‘‘ ۔ قرآن کریم کی اس نص سے واضح ہو گیا کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد ایک ہی چیز یعنی قرآن کریم ہے ۔ یہ نہیں ہے کہ نور سے آنحضرت ﷺ اور کتاب سے قرآن مجید مراد ہے

لیکن آپ کی اس دلیل سے قرآن مجید کی بعض آیات کے متعلق کنفیوزن پیدا ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سورۃ التوبہ کی آیت 74 میں اللہ عزوجل کا ارشاد مبارک ہے کہ

أَنْ أَغْنَاهُمْ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ ۔۔۔ اللہ اور اس کے رسول (علیہ الصلاۃ والسلام) نے اپنے فضل سے انہیں غنی کر دیا۔۔۔

یہاں بھی ذکر دو ہستیوں کا کیا گیا ہے لیکن ضمیر ایک ہی کے فضل کی استعمال کی گئ ہے۔۔تو آپ کے بیان کر دہ اصول کے مطابق ضمیر من فضلہ کی بجائے من فضلھما نہیں ہونی چاہیئے؟؟؟

اگر ہم قرآن پاک کی اس مثال کو آپ کے اوپر دیے گئے نور اور کتاب والے جملے میں جوڑیں تو کچھ یوں بنے گا۔۔۔ اگر اللہ اور اس کا رسول دو الگ الگ ہستیاں ہوتیں تو الفاظ ، اغناھم اللہ ورسولہ من فضلھما ہوتے، یعنی دونوں نے اپنے اپنے فضل سے انہیں غنی کر دیا۔۔۔ لیکن یہاں تو ایک ہی ضمیر استعمال فرمائی گئی ہے۔ اور مزید کنفیوزن یہ پیدا ہو گئی کہ قواعد کے مطابق ضمیر اپنے قریب ترین مرجع کو لوٹتی ہے جو کہ اس آیت میں رَسُولُهُ ہے۔ اس حساب سے تو یہ فضل صرف حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ خاص ہو جاتا ہے۔ تو پھر اللہ عزوجل کا ذکر کرنے کی کیا حکمت ہے؟ امید ہے تھوڑی توجہ فرمائیں گے۔۔۔:)
 
سورۃ التوبہ کی آیت ۷۴ کی تفسیر :
مسلمانوں کی ہجرت کے بعد ، مدینہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی تھی ، جس کی وجہ سے وہاں تجارت اور کاروبار کو بھی فروغ ملا، اور اہل مدینہ کی معاشی حالت بہت اچھی ہو گئی تھی ۔ منافقین مدینہ کو بھی اس سے خوب فائدہ حاصل ہوا ۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہی فرما رہے ہیں کہ کیا ان کو اس بات کی ناراضی ہے کہ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے غنی بنا دیا ہے ؟ یعنی یہ ناراضی اور غضب والی بات تو نہیں ، بلکہ ان کو تو اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے انہیں فقر و تنگ دستی سے نکال کر خوش حال بنا دیا ۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا ذکر اس لیے ہے کہ اس غنا اور تونگری کا ظاہری سبب رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہی بنی تھی ، ورنہ حقیقت میں غنی بنانے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اس لیے آیت میں من فضلہ ، واحد کا ضمیر ہے کہ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں غنی کر دیا ۔
دوسری بات
متشابہات آیتوں کی اپنی سمجھ کے مطابق پیروی سے امت مسلمہ میں بہت زیادہ فتنوں نے جنم لیا ۔ جن میں سب سے بڑا فتنہ فرقہ واریت ہے ’’ محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوامرو نواہی ، احکام و مسائل اور قصص و حکایات ہیں جن کا مفہوم واضح اور اٹل ہے ، اور ان کے سمجھنے میں کسی کو اشکال پیش نہیں آتا ۔ اس کے برعکس آیات متشابہات وہ ہیں جو ماورا عقل حقائق جن کی حقیقت سمجھنے سے عقل انسانی قاصر ہو یا ان میں ایسی تاویل کی گنجائش ہو یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو ‘‘ ، (احسن البیان ، تفسیر العمران : ۷ ) ۔ مثال کے طور پر : ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے ‘‘ ، (طہٰ : ۵ ) ۔ اس آیت میں تاویل کی وسعت نہیں ہے ، یہ محکم ہے ۔ اس کے برعکس : ’’ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید : اور ہم اس (یعنی انسان ) کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ‘‘ ، (ق : ۱۶ ) ۔ اس آیت کے ذریعے عوام کو گمراہی کی طرف دھکیلا جاتا ہے ، یہ متشابہ آیت ہے۔
جو لوگ صرف متشابہات آیات کو اپنا منہج ، مسلک ، عقیدہ اور مذہب بنا لیتے ہیں ، وہ فتنے کی طلب سے گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ وہی اﷲ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح محکم (مضبوط ) آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں ۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو ان متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ، حالانکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اﷲ پاک کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ و مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقل مند حاصل کرتے ہیں ۔ اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے اور ہمیں اپنے پا س سے رحمت عطا فرما ، یقیناًتو ہی بہت عطا دینے والا ہے ‘‘ ، (العمران : ۷ تا ۸ ) ۔
تیسری بات
ان شاء اللہ آئندہ قسطوں میں آپ کے سارے سوالوں کے جواب موجود ہیں ۔
 
صفات میں شرک
کائنات کا حقیقی بادشاہ ، عالم الغیب ، مختار کل ،مشکل کشا و حاجت روا، زمین و آسمان کے تمام خزانوں کا مالک ، ہر وقت سب کو دیکھنے اور سننے والا ، دلوں میں اٹھنے والے خیالوں کو جاننے والا ، بھلائیاں عنایت کرنے والا ، ہدایت دینے اور دلوں کو پھیرنے والا ، رزق میں تنگی یا فراخی کرنے والا ، اولاد دینے یا نہ دینے والا ، شفا بخشنے والا ، حقیقی کارساز ، اعمال صالح کرنے کی توفیق عطا کرنے والا ، نفع و نقصان اور تقدیر کا مالک ، توبہ قبول اور نگہبانی کرنے والا ، غالب و طاقتور ، عیوب و نقائص سے پاک ، ہمیشہ زندہ رہنے والا ، جو کسی کی اجازت کا محتاج نہیں، مصائب و مشکلات دور کرنے والا ، زندگی اور موت دینے والا ’’ صرف اﷲ تعالیٰ ہے ‘‘ ۔ کتاب و سنت سے ثابت تمام صفات میں اﷲ پاک کو اکیلا اور بے مثال نہ ماننا اور غیروں میں ان صفات کو سمجھنا ’’ شرک فی الصفات ‘‘ ، کہلاتا ہے ۔
( ۲ )
بد قسمتی سے اﷲ کی مخلوق نے الرحمن کی صفات کا مالک اس کی مخلوق کو بنا دیا ۔ صفات میں شرک ہمارے کم علم اور بات کو عمد ہ طریقے سے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کی تمام صفات ذاتی، ہمیشہ کے لیے اور لا محدود ہیں جبکہ تمام مخلوقات کی صفات عطائی ، فانی اور محدود ہیں ۔ مثلاََ : ’’ مخلوقات کو بھی زندگی ملتی ہے لیکن موت بھی آتی ہے، جبکہ اﷲ تعالیٰ ہمیشہ ہمیشہ زندہ ہیں۔ علم مخلوق کے پاس بھی ہے لیکن تھوڑا ، جبکہ اﷲ پاک کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا ‘‘ ۔ عبدالرحمٰن کی بائیں سمت موجود ایک طفل ( Boy ) بولا :
’’ ہمارے امام مسجد کے پاس درس نظامی ، ترجمہ و تفسیر ، علم حدیث، فقہ ، تجوید اور متعدد ڈگریاں ہیں ۔ لوگ انہیں علامہ ،مفتی، الشیخ ، قاری اور حافظ کے نام سے پکارتے ہیں ۔ وہ تو کہتے ہیں کہ : ’’ انبیاء ، اولیاء اور شہد، غیب دان ، مختار کل ، مشکل کشا ، حاجت روا ، غریب نواز ، داتا،غوث ، اولاد دینے والے ، تقدیر بدلنے والے ، دستگیراور گنج بخش ہیں ‘‘ ۔ آپ ! کہہ رہے ہیں کہ : ’’ یہ اﷲ کی صفات ہیں ، اگر کوئی شخص ان میں کسی کو ساجھی بناتا ہے تو وہ مشرک ہے ؟ ‘‘
عبدالرحمن ، تبسم کرتے ہوئے :
’’ غمگین ہونے کی ضرروت نہیں ۔ ہم ، ان کی بات کا قرآن و حدیث کی کسوٹی (Scale ) سے موازنہ کرلیتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ ( ﷺ ) فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا ، مگر اتنا ہی کہ جتنا اﷲ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سا منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۸ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ آپ (ﷺ ) کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہو سکتا ہے ۔ سو کیا تم غور نہیں کرتے ؟ ‘‘ ، ( الانعام : ۵۰ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ ان سب نے کہا اے اﷲ ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے ، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے ‘‘ ، ( البقرۃ : ۳۲ ) ۔ چوتھے مقام پر ہے : ’’ کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے اور زمین والوں میں سے سوائے اﷲ کے کوئی غیب نہیں جانتا ، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھا کھڑے کیے جائیں گے ؟ ‘‘ ، ( النمل : ۶۵ ) ۔
قرآن مجید کی بہت زیادہ آیات سے یہ واضح ہے کہ غیب کا علم صرف اﷲ تعالیٰ کو ہے ۔ مثال کے طور پر : ’’ (البقرۃ : ۳۰ ) ، ( النساء : ۱۱۳ ) ، ( المائدۃ : ۱۰۹ ) ، ( المائدۃ : ۱۱۶) ، ( الانعام : ۵۹) ، ( الاعراف : ۲۲ ) ، ( الاعراف : ۱۸۷ ) ، ( التوبۃ : ۱۰۱ ) ، ( یونس : ۲۰ ) ، ( ھود : ۳۱ ) ، ( ھود : ۴۶ تا ۴۷ ) ، ( ھود : ۴۹ ) ، ( ھود :۱۲۳ ) ، ( ابراہیم : ۹ ) ، ( الحجر : ۵۳ تا ۵۵ ) ، (النحل : ۲۰ تا ۲۱ ) ، ( الکھف : ۱۹) ، ( الکھف : ۲۳ تا ۲۶ ) ، ( مریم : ۸ ) ، ( مریم : ۲۰ ) ، ( الانبیاء : ۱۰۹ ) ، ( النمل : ۱۰) ، ( النمل : ۲۰ تا ۲۲ ) ، ( لقمان : ۳۴ ) ، ( الاحزاب : ۶۳ ) ، ( ص : ۲۱ تا ۲۲ ) ( الاحقاف : ۹ ) ، ( الجن : ۲۵ تا ۲۶ )اور ( الملک : ۲۵ تا ۲۶ ) ۔ ‘‘
عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ : ’’ جو شخص کہے کہ نبی کریم ﷺ آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ جھوٹا ہے ‘‘ ۔ اس کے لیے انہوں نے آیت : ’’ و ما تدری نفس ما ذا تکسب غدا یعنی اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا ، کی تلاوت فرمائی ‘‘ ( بخاری : ۴۸۵۵ ) ۔ ام العلاء انصاریہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ واﷲ ! مجھے خود اپنے متعلق بھی معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ۔ حالانکہ میں اﷲ کا رسول ہوں ‘‘ ، ( بخاری : ۱۲۴۳ ) ۔ ربیع بنت معوذ ؓ سے روایت ہے کہ : ’’ میری شادی کی صبح رسول اﷲ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور اس وقت دو ( کم سن ) بچیاں میرے پاس گیت گا رہی تھیں اور میرے آباء کا تذکرہ کر رہی تھیں جو بدر میں شہید ہوئے اور گانے گانے میں وہ یہ بھی گانے لگیں ’’ اور ہم میں ایسے نبی ہیں جو کل ( آئندہ ) کی بات جانتے ہیں ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ یہ بات مت کہو اس لئے کہ کل کی بات اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ‘‘ ، ( ابن ماجہ : ۱۸۹۷ ) ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص کسی نجومی یا کاہن ( غیبی خبریں دینے والے ) کے پاس جائے اور جو کچھ وہ کہتا ہے اسے سچا سمجھے تو وہ ( حضرت ) محمد ﷺ پر اترے دین کا انکاری ہو گا ‘‘ ، ( مستدرک حاکم : کتاب الایمان ) ۔ ضعیف شخص ، طیش میں آتے ہوئے بولا :
’’ دیکھو عبدالرحمن ! میں تمہارا منہ بڑی دیر سے دیکھ رہا ہوں ۔ تم نے تو ’’ حد ہی کر دی ہے ! ‘‘ میں نے بہت برداشت کرلیا ، اب میں تمہیں لوگوں کو گمراہ نہیں کرنے دوں گا ۔ بند کرو یہ ڈرامہ بازی ! تم نے کیا سمجھا ہے ، یہاں سب کے سب جاہل ہی ہیں ؟ میں دلیل سے واضح کرتا ہوں کہ : ’’ سرکار دو عالم ﷺ غیب جانتے تھے ‘‘ ۔ اگر آقائے نامدار ﷺ غیب نہ جانتے ہوتے : ’’ تو قیامت کی نشانیاں کیسے بتاتے ، جنت و جہنم کے واقعات کیسے سناتے، قبر کے حالات سے کیسے منکشف ( Unfold) فرماتے، چھپے ہوئے خط کے بارے میں کیسے خبر دے پاتے اور فتنہ دجال سے کیسے آگاہ فرماتے ؟ انبیاء و اولیاء سب غیب جانتے ہیں جو تم حوالے دیتے ہو یہ تو صرف شریعت کا پردہ ہے ۔ میرے ذہن سے نکل گئیں ہیں ، میرے پاس بھی بہت زیادہ دلیلیں ہیں کہ : ’’ حضور اقدس ﷺ غیب جانتے تھے ۔ ‘‘
بلال جلدی اور جذبے سے بولا :
’’ انکل ! میں جواب دوں ؟ ‘‘
عبدالرحمن :
’’ ضرور ! ‘‘
بلال :
پہلی بات تو یہ ہے کہ : ’’ اگر نبی پاک ﷺ غیب جانتے ہوتے تو سیدہ عائشہؓ پر الزام لگنے کی وجہ سے مہینہ بھر پریشان رہتے ، مشرکین ، سید المرسلین ﷺ سے ستر صحابہؓ دھوکے سے دین سیکھنے کے بہانے لے جا کر شہید کرتے اور رسول اﷲ ﷺ اپنے ساتھوں کے ہمراہ ، یہودی عورت کے گھر سے زہر آلود کھانا کھاتے ؟ ‘‘
دوسری بات : ’’ تمام انبیاء ؑ بھی غیب نہیں جانتے تھے ‘‘ ۔ اگر انبیاء ؑ کے پاس علم غیب ہوتا تو : ’’ حضرت آدم ؑ درخت کے قریب جاتے ، حضرت نوحؑ بیٹے کے لیے دعا فرماتے ، حضرت یعقوب ؑ کی آنکھیں بوجہ رنج و غم کے سفید ہوتیں اور موسیٰ ؑ اپنی لاٹھی سے ڈر کر بھاگتے ؟ ‘‘ اگر تمام انبیاء ؑ غیب نہیں جانتے تو کیا ملنگ اور چرسی جانتے ہیں ؟ کچھ سوچو مسلمانو !
تیسری بات آپ نے کہا ہے کہ : ’’ اگر آقائے نامدار ﷺ غیب نہ جانتے ہوتے تو قبر و قیامت کے بارے میں کیسے بتاتے ، جنت و جہنم کا حال کیسے سناتے، فتنہ دجال اور چھپے ہوئے خط کے متعلق خبر کیسے دے پاتے ؟ ‘‘ ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ : ’’ کیا نبی پاک ﷺ پر وحی اترتی تھی ؟ ‘‘
’’ سرکار دو عالم ﷺ پر وحی اترتی تھی ، ضعیف آدمی نے دھیمی آواز میں کہا ۔ ‘‘
’’ آپ ﷺ غیب جانتے تھے یا نہیں ؟ بلال نے پوچھا ۔ ‘‘
’’ جانتے تھے ! بوڑھے شخص نے جواب دیا ۔ ‘‘
بلال :
’’ اگر سید المرسلین ﷺ کو علم غیب تھا تو پھر وحی کس لیے تھی ؟ ‘‘
ضعیف آدمی نفی میں سر ہلاتے ہوئے :
’’ معلوم نہیں ! ‘‘
بلال ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے :
’’ بد قسمتی سے ! ہم نے قرآن مجید میں غور و فکر کرنے کی جگہ ہیر رانجھا کتاب کو پڑھنا دین سمجھ لیا ۔ ہم نے تلاوت سننے کی بجائے قوالیوں میں دل لگا لیا ۔ ہم نے اگر کتاب و سنت میں سوچ و بچار کیا ہوتا تو آج امت مسلمہ شرک و بدعت کی دہلیز پر نہ ہوتی ۔ ‘‘
قرآن پاک میں کتنے واضح الفاظ میں ہے کہ : ’’ اور نہ یہ ( نبی ﷺ ) اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ۔ وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے ‘‘ ، ( النجم : ۳ تا ۴ ) ۔ اگر نبی کریم ﷺ کو غیب کا علم ہوتا تو پھر وحی کی ضرورت نہیں تھی اور اگر وحی آتی تھی تو پھر بات پہنچ جانے کے بعد غیب نہیں رہتی ۔ مثلاََ ، میرا ٹیچر ( Teacher) مجھے کہتا ہے کہ بلال آج ’’ لاہور ‘‘ ، میں بارش ہو رہی ہے ۔ میں اپنے گھر والوں کو بھی مطلع کرتا ہوں ، اس کا یہ مطلب نہیں میں غیب جانتا ہوں ۔غیب تو یہ تھا کہ : ’’ مجھے کسی نے بتایا بھی نہ ہو اور مجھے علم ہو ۔ ‘‘
چوتھی بات آپ نے کہا ہے کہ : ’’ جو حوالے تم ( یعنی عبدالرحمن ) دے رہے ہو وہ صرف شریعت کا پردہ ہے ‘‘ ۔ انکل نے تو ریفرنس دےئے ہیں ، آپ بھی کوئی شریعت کے پردے کے متعلق حوالہ دیں ؟ آپ قیامت تک بھی نہیں دیکھا سکتے ۔ قرآن و حدیث سے عداوت اچھی نہیں ۔ کتاب و سنت سے بغض ، اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ سے دشمنی کے مترادف ہے ۔
عبدالرحمن نے مسرت سے پانچ ہزار روپے ، بلال کو انعام کے طور پر دیئے اور دعا دیتے ہوئے کہا :
’’ اﷲ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں برکت فرمائے ‘‘ ۔ آپ نے ایسا مدلل جواب دیا ہے کہ شاید ایسا میں بھی نہ دے پاتا ۔ ‘‘
( ۳ )
برادران ! توجہ فرمایئے ، اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں ۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ : ’’ انبیاء و اولیاء مختار کل ، مشکل کشا اور حاجت روا ہیں ۔ رزق و اولاد دینے والے اور تقدیر بھی بدل دیتے ہیں ‘‘ ۔ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو مختار کل ، مشکل کشا ، حاجت روا ، رزق و اولاد دینے والا اور تقدیر بدلنے والا کہنا ایسے ہی ہے جسے کوئی رات کو دن کہہ دے ۔ کیونکہ یہ عقائد اﷲ تعالیٰ کے قرآن اور پیارے نبی ﷺ کے فرمان سے ٹکراتے ہیں ۔ اب میں یکے بعد دیگرے ان مضوعات پر روشنی ڈالتا ہوں ۔
اﷲ کے سوا کوئی مختار کل نہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اے پیغبر ! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں اﷲ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں ‘‘ ، ( آل عمران : ۱۲۸ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ آپ ( ﷺ ) فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا ، مگر اتنا ہی کہ جتنا اﷲ نے چاہا ہو ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۸ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ ان کے لیے تو استغفار کر یا نہ کر اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کرے تو بھی اﷲ انہیں ہر گز نہ بخشے گا یہ اس لیے کہ انہوں نے اﷲ سے اور اس کے رسول ﷺ سے کفر کیا ہے ۔ ایسے فاسق لوگوں کو رب کریم ہدایت نہیں دیتا ‘‘ ، ( التوبہ : ۸۰ ) ۔ چوتھے مقام پر ہے : ’’ گو آپ لاکھ چاہیں لیکن اکثر لوگ ایمان دار نہ ہوں گے ‘‘ ، ( یوسف : ۱۰۳ ) ۔ پانچویں مقام پر ہے : ’’ اور تم جن لوگوں کی اﷲ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ( یعنی پکارتے ) ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے اور نہ وہ اپنی مدد کر سکتے ہیں ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۹۷ ) ۔ مزید پڑھیئے : ’’ (البقرۃ : ۲۷۲ ) ، ( المائدہ : ۴۰ تا ۴۱ ) ، ( یونس : ۱۵ تا ۱۶ ) ، ( یونس : ۴۹ ) ، ( الحج : ۷۳ تا ۷۴ ) ، ( الرعد : ۳۸ ) ، ( بنی اسرائیل : ۵۶ تا ۵۷ ) ، ( الکہف : ۶ ) ، ( النجم : ۵۸ ) اور ( الزمر : ۱۹ ) ‘‘ ۔
جب ابو طالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو رسول اﷲ ﷺ ان کے پاس آئے ، ابو جہل اور عبداﷲ بن ابی امیہ بن مغیرہ وہاں پہلے ہی سے موجود تھے ۔ نبی کرئم ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ چچا ! آپ صرف کلمہ لا الہ الا اﷲ، پڑھ دیجئیے تاکہ اس کلمہ کے ذریعہ اﷲ کی بار گاہ میں آپ کی شفاعت کروں ۔ اس پر ابو جہل اور عبداﷲ بن ابی امیہ بولے کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے ؟ نبی کریم ﷺ بار بار ان سے یہی کہتے رہے ( کہ آپ صرف کلمہ پڑھ لیں ) اور یہ دونوں بھی اپنی بات ان کے سامنے بار بار دہراتے رہے ۔ آخر ابو طالب کی زبان سے جو آخری کلمہ نکلا وہ یہی تھا کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہی قائم ہیں ۔ انہوں نے ’’ لا الہ الا اﷲ‘‘ ، پڑھنے سے انکار کر دیا ‘‘ ۔ راوی نے بیان کیا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ اﷲ کی قسم ! میں آپ کے لیے طلب مغفرت کرتا رہوں گا تا آنکہ (Unless) مجھے اس سے روک نہ دیا جائے ‘‘ ۔پھر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : ’’ ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ‘‘ ، نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں ۔اور خاص ابو طالب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم ﷺ سے کہا گیا : ’’ انک لا تھدی من احببت و لکن اﷲ یھدی من یشاء ‘‘ ، کہ جس کو آپ چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اﷲ تعالیٰ ہی ہے جسے چاہے ہدایت دیتا ہے ، ( بخاری : ۴۷۷۲ ) ۔
( ۴ )
مشکل کشا و حاجت روا صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ ہی ہے ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ کیا تجھے علم نہیں کہ زمین و آسمان کا مالک اﷲ ہی ہے اور اﷲ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مدد گار نہیں ‘‘ ، ( البقرۃ : ۱۰۷ ) ۔ اور فرمایا : ’’ اور اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایسی چیز کو مت پکارو جو تجھ کو نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے ۔ پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔ اور اگر تم کو اﷲ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی ہٹانے والا نہیں ‘‘ ، ( یونس : ۱۰۶ تا ۱۰۷ ) ۔ ایک اور جگہ فرمایا : ’’ اسی ( اﷲ تعالیٰ ) کو پکارنا حق ہے ۔ جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی پکار کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں پڑ جائے حالانکہ وہ پانی اس کے منہ میں پہنچنے والا نہیں ، ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی ہے ‘‘ ، ( الرعد : ۱۴ ) ۔ مزید فرمایا : ’’ آپ پوچھئے کہ آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار کون ہے ؟ کہہ دیجیے اﷲ ۔ کہہ دیجئے ! کیا تم پھر بھی اس کے سوا اوروں کو حمایتی بنا رہے ہو جو خور اپنی جان کے بھی بھلے ، برے کاا ختیار نہیں رکھتے ‘‘ ، ( الرعد : ۱۶ ) ۔
تمہارا مطلب ہے کہ : ’’ مولا علی مشکل کشا ، مشکل کشا نہیں ہیں؟ ‘‘ ، ضعیف آدمی نے تیوری چڑھاتے ہوئے پوچھا ۔
عبدالرحمن :
اس کی کیا دلیل ہے کہ : ’’ حضرت علیؓ ، مشکل کشا ہیں ۔ ‘‘
بوڑھے شخص نے غصے سے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا :
’’ پاگل ہے کہ نہیں ، تمہارے دماغ کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ( Software Update) ہونے والاہے ! تمہیں معلوم ہی نہیں کہ ہمارے باپ دادا نے کیا سبق دیا ہے ؟ ‘‘ ، یہ تو اکثر لوگ بھی کہتے ہیں کہ : ’’ مولا علیؓ ، مشکل کشا ہیں۔ ‘‘
عبدالرحمن بڑے سنجیدہ انداز میں :
’’ آباؤ اجداد کے اقوال کو قرآن و حدیث پر پیش کرو ، اگر مترادف ہو مان لو اور اگر متضاد ہو تو چھوڑ دو ‘‘ ۔ ’’ مشرک کا ہر دور میں ہی یہی جواب رہا ہے کہ ہمارے باپ دادا ایسے کرتے تھے اور ہم ان کی پیروی کریں گے ‘‘ ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے : ’’ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو پایا ، کیا اگرچہ ان کے بڑے نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں اور نہ ہدایت رکھتے ہوں ‘‘ ، ( المائدہ : ۱۰۴ ) ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ انہوں نے کہا کہ کیا آپ ہمارے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ہم صرف اﷲ ہی کی عبادت کریں اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ان کو چھوڑ دیں ، پس ہم کو جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو اس کو ہمارے پاس منگوا دو اگر تم سچے ہو ‘‘ ، ( الاعراف : ۷۰ ) ۔
آپ نے کہا کہ : ’’ یہ تو اکثر لوگ بھی کہتے ہیں کہ مولا علیؓ ، مشکل کشا ہیں ‘‘ ۔ اکثریت کے کہنے سے کوئی چیز دین نہیں بن جاتی ۔ تعداد حق کو ماپنے ( Measuring) کی کسوٹی نہیں ہے ۔ مثلا : ’’ دنیا بھر میں سب سے زیادہ عیسائی ہیں ۔ کیا مسیح حق پر ہیں ؟ سود خور بے شمار ہیں ۔ کیا وہ درست ہیں ؟ ‘‘
اکثریت کے متعلق اﷲ تعالیٰ کے قرآن سے پوچھ لیتے ہیں ، الرحمن فرماتے ہیں : ’’ اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اﷲ کی راہ سے بے راہ کر دیں وہ محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں ‘‘ ، ( الانعام : ۱۱۶ ) ۔ الرحیم فرماتے ہیں : ’’ زمین میں چل پھر کر دیکھو تو سہی کہ اگلوں کا انجام کیا ہوا ، جن میں اکثر لوگ مشرک تھے ‘‘ ، ( الروم : ۴۲ ) ۔ الخالق مزید فرماتے ہیں : ’’ ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں کے سمجھنے کے لیے ہر طرح سے تمام مثالیں بیان کر دی ہیں ، مگر اکثر لوگ انکار سے باز نہیں آتے ‘‘ ، ( بنی اسرائیل : ۸۹ ) ۔
باپ دادا کی بات اگر اﷲ کی نازل کردہ سند کے مطابق ہو تو ہم تسلیم کر لیں گے ورنہ کسی قیمت پر بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں آگاہ کر دیا ہے کہ : ’’ اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وہ سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی گھڑ لیے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ، فرمانروائی صرف اﷲ تعالیٰ ہی کی ہے ، اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو ، یہی دین درست ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘ ، ( یوسف : ۴۰ ) ۔ ’’ اگر حضرت علیؓ ، مشکل کشا ہیں تو پھر اپنے پیارے بیٹے حضرت حسینؓ کی مشکل حل کیوں نہیں کی ؟ ‘‘
کافی ہے اﷲ سب کی حاجت روائی کے لیے نبی پیغبر امام ، ولی فقط رہنمائی کے لیے
پڑھتے ہو نماز میں ایاک نعبد و ایاک نستعین پھرتے ہو پھر بھی در بدر مشکل کشائی کے لیے
( ۵ )
رزق و اولاد دینے اور تقدیر بدلنے والا اﷲ کے علاوہ کوئی نہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ کہہ دیجئے ! کہ میرا رب جس کے لیے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی کر دیتا ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘ ، ( سبا : ۳۶ ) ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو ، ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں ۔ یقیناًان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے ‘‘ ، ( بنی اسرائیل : ۳۱ ) ۔
بد قسمتی سے ہم تک قوالیوں کے ذریعے پیغام پہنچایا جا رہا ہے کہ انبیاء ؑ اور اولیاء ؒ رازق ہیں ۔ مثلاََ قوالی ہے کہ : ’’ میں سنی عقیدت والا ہوں ، اے تو کیوں مجھ سے جلتا ہے ۔ اک میں کیا سارا زمانہ بھی ، میرے خواجہ کے در پے پلتا ہے ۔ یہاں خواجہ کا سکہ چلتا ہے ، خواجہ کا سکہ چلتا ہے ‘‘ ۔ جبکہ الرحمن فرماتے ہیں : ’’ اور وہ ( مشرک ) اﷲ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین سے انہیں کچھ بھی روزی نہیں دے سکتے اور نہ کچھ قدرت رکھتے ہیں ‘‘ ، ( النحل : ۷۳ ) ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ : ’’ جس وقت خواجہ نہیں تھا اس وقت سارا زمانہ کس کا دیا کھاتا تھا ؟ ‘‘
لوگ غیراﷲ سے اولادمانگتے ہیں ، مثلاََ : ’’ بابا شاہ جمال پتر دے رتا لال‘‘ ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اﷲ تعالیٰ ہی کے لیے ہے ، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے ۔ یا انہیں جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے ، وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے ‘‘ ، ( الشوری : ۴۹ تا ۵۰ ) ۔
جن کو اﷲ اولاد دے پھر وہ دوسروں کو اﷲ کا شریک کرے ، ان کے بارے میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ وہ اﷲ پاک ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کی طرف مائل ہو کر راحت حاصل کرے پھر جب میاں نے بیوی سے قربت کی تو اس کو ہلکا سا حمل رہ گیا ۔ سو وہ اس کو لئے ہوئے چلتی پھرتی رہی ، پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں میاں بیوی اﷲ سے جو ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے کہ اگر تو نے ہم کو صحیح سالم اولاد دے دی تو ہم خوب شکر گزاری کریں گے ۔ سو جب اﷲ نے دونوں کو صحیح سالم اولاد دے دی تو اﷲ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اﷲ کے شریک قرار دینے لگے ، سو اﷲ پاک ہے ان کے شرک سے ۔ کیا ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہ کر سکیں اور وہ خود ہی پیدا کئے گئے ہوں ۔ اور وہ ان کو کسی قسم کی مدد نہیں دے سکتے اور وہ خود اپنی بھی مدد نہیں کر سکتے ۔ اور اگر تم ان کو کوئی بات بتلانے کو پکارو تو تمہارے کہنے پر نہ چلیں تمہارے اعتبار سے دونوں امر برابر ہیں خواہ تم ان کو پکارو یا تم خاموش رہو ۔ واقعی تم اﷲ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی جیسے بندے ہیں سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو ۔ کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ کسی چیز کو تھام سکیں ، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں ، یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں آپ کہہ دیجئے ! تم اپنے سب شرکا کو بلا لو ، پھر میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر مجھ کو ذرا مہلت مت دو ۔یقیناًمیرا مدد گار اﷲ تعالیٰ ہے جس نے کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کی مدد کرتا ہے ۔ اور تم جن لوگوں کو اﷲ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کر سکتے اور نہ وہ اپنی مدد کر سکتے ہیں ۔ اور ان کو اگر کوئی بات بتلانے کو پکارو تو اس کو نہ سنیں اور ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۹ تا ۱۹۸ ) ۔
کہا جاتا ہے کہ : ’’ تقدیر بدلنے والے دا ہے وچ لاہور دے دیرا ‘‘ ۔ جبکہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ ( ﷺ ) کہہ دیجئے کہ تمہارے لیے اﷲ کی طرف سے کسی چیز کا بھی احتیار کون رکھتا ہے ؟ اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو یا تمہیں کوئی نفع دینا چاہے تو ، بلکہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اﷲ خوب با خبر ہے ‘‘ ، ( الفتح : ۱۱ ) ۔
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں ایک دن میں نبی اکرم ﷺ کے پیچھے ( سوار ) تھا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ اے لڑکے میں تجھے چند کلمے سکھاتا ہوں ( جو یہ ہیں ) اﷲ تعالیٰ کے احکام کی حفاظت کر اﷲ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائے گا ، اﷲ تعالیٰ کو یاد کر تو ، تو اسے اپنے ساتھ پائے گا ، جب سوال کرنا ہو تو صرف اﷲ تعالیٰ سے سوال کر ، جب مدد مانگنا ہو تو صرف اﷲ تعالیٰ سے مانگ ، اور اچھی طرح جان لے کہ اگر سارے لوگ تجھے نفع پہنچانے کے لئے اکٹھے ہو جائیں تو کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے جو اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر سارے لوگ تجھے نقصان پہنچانا چاہیں تو تجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے جو اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے ، قلم ( تقدیر لکھنے والے ) اٹھا لئے گئے ہیں اور صحیفے جن میں تقدیر لکھی گئی ہے خشک ہو چکے ہیں ‘‘ ، ( ترمذی ) ، ( کتاب التوحید ، ص : ۱۳۴ ) ۔ میں یہاں پر وضاحت کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ۔۔۔ پتر جی ( Son) ! اب تمہاری چالاکی نہیں چلے گی ، ضعیف آدمی جوش سے بولا ۔
’’ کیسی چالاکی بابا جی ؟ ‘‘ ، عبدالرحمن نے پوچھا ۔
بوڑھا شخص :
سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا ہے کہ : ’’ دعاء سے تقدیر بدلتی ہے ‘‘ ، مگر تم کہہ رہے ہو قلم اٹھا لئے گئے ہیں ۔ ‘‘
عبدالرحمن نے مسکراتے ہوئے جواب دیا :
’’ آپ نے مجھے بات مکمل کرنے ہی نہیں دی ، میں وضاحت تو کرنے لگا تھا ‘‘ ۔ ’’ تقدیر کی دو قسمیں ہیں پہلی تقدیر مبرم ( یعنی فیصلہ کن ) یہ کسی صورت میں نہیں بدلتی ، دوسری تقدیر معلّق ، یہ دعا ء کرنے سے بدل جاتی ہے ، اور اس کے بارے میں بھی اﷲ تعالیٰ کے ہاں لکھا جا چکا ہے فلاں شخص کی فلاں تقدیر فلاں دعاء کرنے سے بدل جائے گی ، تقدیر معلّق کے بارے ہی میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ : تقدیر نہیں بدلتی مگر دعاء سے ‘‘ ، ( کتاب التوحید ، ص : ۱۳۴ ) ۔
(جاری ہے )
 
عبادات میں شرک
اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے سامنے بے حس و حرکت ، با ادب ہاتھ باندہ کر کھڑے ہونا ، رکوع اور سجدہ کرنا ۔ کسی قبر پر قیام کرنا ، مجاور بن کر بیٹھنا یا طواف کرنا ۔ اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی سے دعا مانگنا یا انہیں دعا میں وسیلہ بنانا ، فریاد کرنا اور پناہ طلب کرنا ۔ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے نام کا جانور ذبح کرنا ، نذرو نیاز دینا ، منت ماننا ، چڑھاوا چڑھانا یا کسی اور پر توکل کرنا ’’ شرک فی العبادات ‘‘ ، کہلاتا ہے ۔ زبانی ، مالی اور جسمانی عبادات صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں ۔
اﷲ تعالیٰ نے خالص اپنی عبادت کا حکم دیا ہے ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ اور ( اے محمد ﷺ ! ) ہم نے تجھ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو ‘‘ ، ( الانبیاء : ۲۵ ) ۔ اور فرمایا : ’’ آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اﷲ ہی کے لئے ہے جو سارے جہان کا مالک ہے ‘‘ ، ( الانعام : ۱۶۲ ) ۔ مزید فرمایا : ’’ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ ( لوگو ! ) صرف اﷲ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودان باطلہ سے بچو ‘‘ ، ( النحل : ۳۶ ) ۔
( ۲ )
قیام ، رکوع اور سجدہ صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اپنی نمازوں کی حفاظت کرو ، بالخصوص درمیان والی نماز ( عصر ) کی اور اﷲ تعالیٰ کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو ‘‘ ، ( البقرۃ : ۲۳۸ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اور جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام ) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی یہ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف ، قیام ، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا ‘‘ ، ( الحج : ۲۶ )۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے لئے رسول اﷲ ﷺ سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہیں تھا ۔ لیکن اس کے باوجود وہ لوگ آپ ﷺ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت ﷺ اسے برا مانتے تھے ‘‘ ، ( ترمذی : ۲۵۵۸ ) ۔ دوسری حدیث میں ہے ، سیدنا معاویہؓ روایت کرتے ہیں رسول ﷺ نے فرمایا : ’’ جسے لوگوں کا اس کے سامنے تصویروں کی طرح ( بے حس و حرکت اور با ادب ) کھڑے رہنا پسند ہو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ تلاش کر لے ‘‘ ، ( ترمذی : ۲۵۵۹ ) ۔
رکوع و سجود کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اے ایمان والو ! رکوع کرو ، سجدہ کرو اور عبادت کرو اپنے پروردگار کی اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ ‘‘ ، ( الحج : ۷۷ ) ۔ اور الرحمن فرماتے ہیں : ’’ تم سورج کو سجدہ نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجدہ اس اﷲ کو کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے ، اگر تمہیں اسی کی عبادت کرنی ہے تو ‘‘ ، ( حم السجدۃ : ۳۷ ) ۔
سیدنا قیس بن سعدؓ کہتے ہیں کہ میں حیرہ ( یمن کا شہر ) آیا ، تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا : ’’ رسول اﷲ ﷺ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے ‘‘ ۔ میں جب آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ : ’’ میں حیرہ شہر کے لوگوں کو اپنے سردار کے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اﷲ کے رسول ! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ بتاؤ ! اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے ، تو اسے بھی سجدہ کرو گے ؟ ‘‘ میں نے کہا : ’’ نہیں ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ پھر اب بھی مجھے سجدہ نہ کرو ، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ان پر خاوندوں کا بڑا حق رکھا ہے ‘‘ ، (ابو داؤد : ۲۱۴۰ ) ۔
ہمارے معاشرے میں قیام ، رکوع اور سجدہ جیسی شرک آمیز رسم کتنی عام ہے ۔ اسکول میں اساتذہ کی آمد پر طلبہ کا کھڑا ہونا اور لوگوں کا کسی لیڈر یا افسر کے ظہور پر قیام ۔ پیروں کے سامنے مریدوں کا کھڑاہونا، جھکنا اورسجدہ کرنا۔ بزرگوں کی قبروں پرقیام ، رکوع اور سجدے۔
( ۳ )
قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنا ( یعنی اعتکاف ) یا طواف کرنا جائز نہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام )اور اسماعیل ( علیہ السلام ) سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو ‘‘ ، ( البقرۃ : ۱۲۵ ) ۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام ) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی یہ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف ، قیام ، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا ‘‘ ، ( الحج : ۲۶ )۔
سیدنا ابوہریرہؓ نے کہا کہ رسول اﷲ نے فرمایا : ’’ اگر کوئی انگارے پر بیٹھے اور اس کے کپڑے جل جائیں اور اس کی کھال تک آگ پہنج جائے توبھی بہتر ہے اس سے کہ قبر پر بیٹھے ‘‘ ، ( مسلم : ۲۲۴۸ ) ۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ : ’’ رسول اﷲ ﷺ نے منع فرمایا اس سے کہ قبروں کو پختہ کریں اور اس سے کہ اس پر بیٹھیں اور اس سے کہ ان پر گنبد بنائیں ‘‘ ، ( مسلم : ۲۲۴۵ ) ۔ اور سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ قیامت نہ قائم ہوگی یہاں تک کہ قبیلہ دوس کی عورتوں کی پیٹھیں ذی الخلصہ کے گرد طواف نہ کرنے لگیں ۔ ذوالخلصہ ایک بت تھا جس کو دوس جاہلیت کے زمانہ میں تبالہ میں پوجا کرتے تھے ‘‘ ، ( مسلم : ۷۲۹۸ ) ۔انکل ! میں کچھ کہنا چاہتا ہوں ، بلال ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے بولا ۔
’’ بیٹا ! بتاؤ ، عبدالرحمن اظہار مسرت کرتے ہوئے ۔ ‘‘
بلال :
’’ انکل ! میں نے انٹرنیٹ پر دیکھا کہ ہمارے ملک میں بھی بہت سے لوگ قبر کے گرد طواف کر رہے تھے ۔ جیسے حج ہوتا ہے ویسے ہی کر رہے تھے ۔ میں جھوٹ نہیں بولتا ۔جس کو یقین نہیں آتا ، وہ ’’ یوٹیوب ‘‘ ، پر دیکھ سکتا ہے ۔ بس ! آپ تلاش کریں : Lal Shahbaz Kalandar Ki Dargah Ka Hajj۔ ‘‘
عبدالرحمن بے چینی کے عالم میں بولا :
امت مسلمہ ، شرک میں اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ : ’’ مشرکین مکہ بھی اس حد تک نہیں گئے تھے ‘‘ ۔ عورتیں قبروں پر جا کر اعتکاف کرتی ہیں ۔ لوگ مٹی چاٹتے اور مرد و زن مخلوط رقص کرتے ہیں ۔ ناچنے والی عورتوں نے خیمے لگائے ہوتے ہیں ، جن میں دن ، رات زنا کاری کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ جوا ، ڈانس اور میوزک سر عام چلتا ہے ۔ فحاشی کے پودے کو پانی دیا جاتا ہے ۔ عوام الناس نے میلوں پے جانا اور قبروں کو سجدے کرنا ہی دین سمجھ لیا ہے ۔
( ۴ )
لوگو ! اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے نام کا جانور ذبح کرنا ، چڑھاوا چڑھانا، نذرو نیاز دینا اور منت ماننا بھی شرک ہے ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ تم پر مردہ اور ( بہا ہوا ) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جو اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے نام کر دی جائے ، حرام ہے ‘‘ ، ( البقرۃ : ۱۷۳ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جو اﷲ کے نام پر ذبح نہ کیے گئے ہوں اور یہ کام نا فرمانی کا ہے اور یقیناًشیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناًتم مشرک ہو جاؤ گے ‘‘ ، ( الانعام : ۱۲۱ )۔
حضرت طارق بن شہابؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ ایک آدمی صرف مکھی کی وجہ سے جنت میں چلا گیا اور دوسرا جہنم میں ‘‘ ۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : ’’ یا رسول اﷲ ﷺ ! وہ کیسے ؟ ‘‘ ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ دو آدمی ایک قبیلے کے پاس سے گزرے ، اس قبیلے کا ایک بت تھا جس پر چڑھاوا چڑھائے بغیر کوئی آدمی وہاں سے نہیں گزر سکتا تھا‘‘ ۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص سے کہا گیا کہ : ’’ اس بت پر چڑھاوا چڑھاؤ ‘‘ ۔ اس نے کہا کہ : ’’ میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں‘‘ ۔ قبیلے کے لوگوں نے کہا : ’’ تمہیں چڑھاوا ضرور چڑھانا ہو گا خواہ مکھی ہی پکڑ کر چڑھا�ؤ ‘‘۔ مسافر نے مکھی پکڑی اور بت کی نذر کر دی لوگوں نے اسے جانے دیا اور وہ جہنم میں داخل ہو گیا ۔ قبیلے کے لوگوں نے دوسرے آدمی سے کہا : ’’ تم بھی کوئی چیز بت کی نذر کرو ‘‘ ۔ اس نے کہا : ’’ میں اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام کا چڑھاوا نہیں چڑھاؤں گا ‘‘ ۔ لوگوں نے اسے قتل کر دیا ’’ وہ جنت میں چلا گیا ‘‘ ( احمد ) ، (Kitab At-Tauhid,CHAPTER:10 ) ۔
امیر المومنین حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ اﷲ لعنت کرے اس پر جو لعنت کرے اپنے باپ پر اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو جانور ذبح کرے اﷲ کے علاوہ کسی اور کے لیے اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو پناہ دے کسی بدعتی کو اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو زمین کی حدیں تبدیل کرے ‘‘ ، ( مسلم : ۵۱۲۴ ) ۔
( ۵ )
لوگوں کے چہروں سے معلوم ہو رہا تھا کہ ان کے دل کتاب و سنت کے پانی سے سیراب ہو رہے ہیں ۔ہمارے دلوں کی آبیاری کیسے نہ ہو ، ہم میں اکثر دل ایسے تھے جنہیں تعصب کی بنا پر قرآن و حدیث کی تعلیمات سے محروم کر دیا گیا ۔ ہم میں ایسے لوگ بھی تھے جنہیں کتاب و سنت کے نام پر شرک و بدعت جیسی گھناؤنی ( Filthy) تعلیم دی گئی ۔ ایسے بھی تھے جن کے ہاتھوں میں قرآن و حدیث کی بجائے ’’ ہیر رانجھا ‘‘ ، تھما دی گئی ۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہیں بزرگوں کی لکھی ہوئی ، قصوں و کہانیوں پر مبنی کتابوں میں ہی قید کر دیا گیا اور کہا گیا کتاب و سنت کا فہم ممکن نہیں ۔ ضعیف آدمی ، پھر غصے سے بولا :
’’ بس کرو ! عبدالرحمن ، تم تو ہمیں مشرکین مکہ سے بھی برا کہہ رہے ہو ۔ میں مانتا ہوں، ہم میں سے جاہل لوگوں نے ہمیں بدنام کر وا دیا ہے ۔جو پیروں کے پاؤں چومتے اور رکوع و سجدہ کرتے ہیں ۔ جو قبروں کا طواف کرتے اور مجاور بن کر بیٹھتے ہیں ۔ کچھ عورتیں بھی وہاں بیٹھتی اور اولاد مانگتی ہیں ۔ ناچ ، گانا اور بے حیائی بھی ہوتی ہے ۔ لیکن میں تو صرف اﷲ کے پیاروں کو وسیلہ بناتا ہوں ۔ کیونکہ ، اﷲ ہماری سنتا نہیں اور ان کی موڑتا نہیں ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن نے ’’ ما قدروا اﷲ حق قدرہ ! ‘‘ ، پڑھتے ہوئے کہا :
بابا جی ! یہ کہنا کہ : ’’ اﷲ تعالیٰ ہماری سنتا نہیں اور ان کی موڑتا نہیں ‘‘ ، کتاب اﷲ کے خلاف ہے ۔کیونکہ اﷲ پاک ، قرآن مجید میں فرماتے ہیں : ’’ اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے ازراہ تکبر کتراتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے ‘‘ ، ( المومن : ۶۰ ) ۔ اور الرحمن مزید فرماتے ہیں : ’’ جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کھبی وہ مجھے پکارے ، قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں ، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے ‘‘ ، (البقرۃ : ۱۸۶ ) ۔
دوسری بات ، نبی پاک ﷺ کے دور کے مشرک بھی یہی کہتے تھے کہ ہم بزرگوں کے بت بنا کر عبادت نہیں کرتے بلکہ یہ اﷲ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے : ’’ اور یہ لوگ اﷲ تعالیٰ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے (پکارتے ) ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اﷲ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں ۔ آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اﷲ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اﷲ تعالیٰ کو معلوم نہیں ( یعنی اﷲ کو تو اس بات کا علم نہیں کہ اس کی بارگاہ میں کوئی سفارشی بھی ہے ؟ ) ، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ، وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے ‘‘ ، ( یونس : ۱۸ ) ۔ اور اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ خبردار ! اﷲ تعالیٰ ہی کے لیے خالص عبادت کرنا اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیا بنا رکھے ہیں ( اور کہتے ہیں ) کہ ہم ان کی عبادت ( پکارا ) صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ( بزرگ ) اﷲ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں ، یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ اﷲ کرے گا ۔ جھوٹے اور ناشکرے ( لوگوں ) کو اﷲ تعالیٰ راہ نہیں دکھاتا ‘‘ ، ( الزمر : ۳ ) ۔
اﷲ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش بھی نہیں کر سکتا ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ کیا ان لوگوں نے اﷲ تعالیٰ کے سوا ( اوروں کو ) سفارشی مقرر کر رکھا ہے ؟ آپ کہہ دیجئے ! کہ گو وہ کچھ اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ عقل رکھتے ہوں ‘‘ ، ( الزمر : ۴۳ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہوا ، تمہارے لیے اس کے علاوہ کوئی مدد گار اور سفارشی نہیں ۔ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ‘‘ ، ( السجدۃ : ۴ ) ۔ اور تیسرے مقام پر ہے : ’’ وہ رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور آفتاب وماہتاب ( Sun and Moon) کو اسی نے کام میں لگا دیا ہے ۔ ہرا یک میعاد معین پر چل رہا ہے ۔ یہی ہے اﷲ تم سب کا پالنے والا اسی کی سلطنت ہے ۔ جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ۔ اگر تم ان ( سفارشیوں ) کو پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر ( بالفرض ) سن بھی لیں تو دعا و التجا کو قبول نہ کرسکیں گے اور روز قیامت تمہارے اس شرک کا صاف انکار کر دیں گے ۔ آپ کو کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا ‘‘ ، ( فاطر : ۱۳ تا ۱۴ ) ۔
مشروع وسیلہ کی تین قسمیں ہیں ۔ پہلی قسم : ’’ اﷲ تعالیٰ کی ذات اور اس کے اسماء حسنیٰ اور صفات کا وسیلہ ‘‘ ۔ دوسری قسم : ’’ مومن کا اﷲ پاک سے اپنے اعمال صالحہ کے ذریعے وسیلہ ‘‘ ۔ تیسری قسم : ’’ کسی زندہ مومن بھائی کی دعا کے ذریعے وسیلہ ۔ ‘‘
اﷲ تعالیٰ کے پیارے ناموں کے وسیلہ سے دعا کی جائے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور اﷲ کے اچھے اچھے نام ہیں ، سو ان ناموں سے اس کو پکارو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۰ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اے میرے پروردگار ! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے اور مجھے اپنی رحمت کے وسیلے سے اپنے صالح بندوں میں داخل فرما ‘‘ ، ( النمل : ۱۹ ) ۔
عمل صالح کا وسیلہ بھی قرآن سے ثابت ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ جو لوگ کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لا چکے اس لئے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا ‘‘ ، ( العمران : ۱۶ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اے ہمارے پالنے والے معبود ! ہم تیری اتاری ہوئی وحی پر ایمان لائے اور ہم نے تیرے رسول (ﷺ ) کی اتباع کی ، پس تو ہمیں گواہوں میں لکھ لے ‘‘ ، ( العمران : ۵۳ ) ۔ اور تیسرے مقام پر ہے : ’’ اے ہمارے رب ! ہم نے سنا کہ منادی کرنے والا با آواز بلند ایمان کی طرف بلا رہا ہے کہ لوگو ! اپنے رب پر ایمان لاؤ ، پس ہم ایمان لائے ۔ یا الٰہی ! اب تو ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیاں ہم سے دور کر دے اور ہماری موت نیکوں کے ساتھ کر ‘‘ ، ( العمران : ۱۹۳ ) ۔
کسی زندہ نیک آدمی کی دعا کا وسیلہ بھی جائز ہے ۔ جب رسول اﷲ ﷺ زندہ تھے ، اس وقت مسلمان نبی پاک ﷺ کو دعا کا کہا کرتے تھے ۔ رسول اﷲ ﷺ نے بھی امت سے اپنے لئے دعا مانگنے کی درخواست کی تھی ۔ مثلاََ : سیدنا عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ : ’’ جب مؤذن کی اذان سنو تو تم وہی کہو جو موذن کہتا ہے پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو کوئی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اس کے بعد اﷲ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وسیلہ دراصل جنت میں ایک مقام ہے جو اﷲ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو دیا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا اور جو کوئی میرے لیے ( اﷲ سے ) وسیلہ طلب کرے گا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی ‘‘ ، ( مسلم : ۸۴۹ ) ۔ ضعیف آدمی ، بڑے سنجیدہ انداز میں بولا :
عبدالرحمن ! میرا خیال ہے کہ تم وہ حدیث بھول گئے ہو جس میں ہے کہ جس وقت آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی تو حضرت آدم ؑ نے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ : ’’ اے اﷲ ! میں حضور اکرم ﷺ کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے بخش دے ‘‘ ۔ تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ اے آدم میری تمام مخلوق میں جس کا وسیلہ تو نے دیا ہے مجھے بہت ہی زیادہ محبوب ہے ۔ اگر محبوب ( ﷺ ) نہ ہوتے تو تجھے بھی پیدا نہ کرتا ۔ ‘‘
عبدالرحمن :
پہلی بات : ’’ اس روایت کو ہر محدث نے موضوع ( گھڑی ہوئی ) بتایا ہے ۔ اس میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم راوی ہے اور اس پر یہ حکم لگایا گیا ہے ‘‘ ، ( میزان الاعتدال ، جلد : ۲ ، صفحہ : ۱۰۶ ) ، ( وسیلہ کا شرک ) ۔
دوسری بات قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ آدم ؑ کی توبہ کی قبولیت کے سلسلہ میں یوں فرماتا ہے : ’’ ( حضرت ) آدم ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اﷲ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی ، بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ‘‘ ، ( البقرۃ : ۳۷ ) ۔ وہ دعا جو اﷲ پاک نے سکھائی اور جس کے ذریعہ توبہ قبول فرمائی ، قرآن میں ہی ہے اور وہ یہ ہے : ’’ دونوں ( آدم ؑ و حوا ) نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے ‘‘ ، (الاعراف : ۲۳ ) ۔
تیسری بات اس روایت میں کائنات کے پیدا کرنے کی وجہ نبی پاک ﷺ کو کہا گیا ہے جبکہ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ‘‘ ، ( الذاریات : ۵۶ ) ۔
( جاری ہے )
 
شرکِ اصغر
پریشانی ، نظر بد یا کسی مرض سے بچنے کے لئے تعویذ ، چھلہ ، منکا ، زنجیر یا کڑا وغیرہ پہننا ۔ حادثات یا بری نظر سے محفوظ رہنے کے لئے کار یا مکان و دوکان پر جوتی یا کالی ہنڈیا لٹکانا ۔غیر اﷲ کی قسم اٹھانا ، ریاکاری کرنا ، نماز چھوڑنا اور ستاروں کی تاثیر پر یقین رکھنا ، یہ سب افعال شرک ہیں ۔
( ۲ )
تعویذ ، چھلہ ، منکا ، زنجیر یا کڑا وغیرہ پہننا اور کار یا مکان و دوکان پر جوتی یا کالی ہنڈیا لٹکانا شرک ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور اگر تجھ کو اﷲ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا اﷲ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی نہیں ۔ اور اگر تجھ کو اﷲ تعالیٰ کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے ‘‘ ، ( الانعام : ۱۷ ) ۔
حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ بنی کریم ﷺ نے ایک مرد کے ہاتھ میں پیتل کا چھلا دیکھا تو فرمایا : ’’ یہ چھلا کیسا ہے ؟ ‘‘ کہنے لگا : ’’ یہ واھنہ ( بیماری ) کے لئے ہے ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ اسے اتار دو کیونکہ اس سے تمہارے اند ر وہن اور کمزوری ہی بڑھے گی ‘‘ ، ( ابن ماجہ : ۳۵۳۱ ) ۔ سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں ، میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’ دم ، تعویذ اور ٹونا سب شرک ہے ‘‘ ، ( ابن ماجہ : ۳۵۳۰ ) ۔ حضرت عقبہؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ( دس آدمیوں کا ) ایک وفد حاضر ہوا ، رسول اﷲ ﷺ نے ان میں سے نو آدمیوں سے بیعت لی اور ایک سے ہاتھ روک لیا ، انہوں نے پوچھا : ’’ یا رسول اﷲ ﷺ ! آپ نے نو کو بیعت کر لیا اور اس شخص کو چھوڑ دیا ؟ ‘‘ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ اس نے تعویذ پہن رکھا ہے ‘‘ ۔ یہ سن کر اس نے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس تعویذ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور نبی کریم ﷺ نے اس سے بھی بیعت لے لی اور فرمایا : ’’ جو شخص تعویذ لٹکاتا ہے وہ شرک کرتا ہے ‘‘ ، ( مسند احمد : ۱۷۵۵۸ ) ۔
( ۳ )
ریا کاری شرک ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ پھر تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں ، جو ریا کاری کرتے ہیں اور ضرورت کی چیزیں ( لوگوں کو ) دینے سے گریز کرتے ہیں ‘‘ ، ( الماعون : ۴ تا ۷ ) ۔
ایک طویل حدیث ہے جس میں نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ ہر مومن اس کے لیے سجدہ میں گر جائے گا ۔ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھاوے اور شہرت کے لیے سجدہ کرتے تھے ، وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پیٹھ تختہ کی طرح ہو کر رہ جائے گی ‘‘ ، ( بخاری : ۷۴۳۹ ) ۔ سیدنا جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا : ’’ جو شہرت کا طالب ہو اﷲ تعالیٰ اس کی بد نیتی قیامت کے دن سب کو سنا دے گا ۔ اسی طرح جو کوئی لوگوں کو دکھانے کے لیے نیک کام کرے گا اﷲ بھی قیامت کے دن اس کو سب لوگوں کو دکھلا دے گا ‘‘ ، ( بخاری : ۶۴۹۹ ) ۔
( ۴ )
نماز ترک کرنا شرک اور کفر ہے ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ ( لوگو ! ) اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر اس سے ڈرتے رہو اور نماز کو قائم رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ ‘‘ ، ( الروم : ۳۱ ) ۔ اور الرحمن فرماتے ہیں : ’’ پس اگر وہ ( یعنی مشرکین ) توبہ کر لیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوۃ ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہیں چھوڑ دو ۔ یقیناًاﷲ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے ‘‘ ، ( التوبۃ : ۵ ) ۔
سیدنا جابر بن عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ آدمی اور کفر و شرک کے درمیان فرق نماز کا چھوڑنا ہے ‘‘ ، ( مسلم : ۲۴۷ ) ۔ حضرت بریدۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ ہمارے اور ان ( منافقین ) کے درمیان عہد ( یعنی ان سے لڑائی سے مانع ) نماز ہے ( جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں گے ہم ان کو مسلمان سمجھ کر اہل اسلام کا سا معاملہ کریں گے ) پس جو نماز کو چھوڑ دے تو وہ یقیناً( ظاہری طور پر بھی ) کافر ہو گیا ‘‘ ، ( ابن ماجہ : ۱۰۷۹ ) ۔
( ۵ )
اﷲ کے علاوہ کسی کی قسم اٹھانا اور ستاروں کی تاثیر پر یقین رکھناشرک ہے ۔ ’’ یہ وھابی ہے ! بے ادب ، خناس اور گستاخ ہے ! اس کی باتیں نہ سنو ! ضعیف آدمی نے غصے سے عبدالرحمن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ ‘‘
عبدالرحمن کی بائیں طرف کھڑا ہوا لڑکا ،عبدالرحمن سے پہلے ہی بول پڑا :
’’ وھابی کیا ہے ، کیا ہے وھابی ، ہے کیاوھابی ؟ ‘‘ ہم آپ کو بہت دیر سے دیکھ رہے ہیں کہ : ’’ آپ کباب میں ہڈی بنے ہوئے ہیں ‘‘ ۔ ’’ کہانیاں سن سن کر جی نہیں بھرا آپ کا ؟ لیلیٰ ، مجنوں یا سسی ، پنوں کے بارے سننے کو دل کرتا ہے کیا ؟ ‘‘ آج ساری زندگی بعد ’’ خالص قرآن و حدیث کی آواز ہمارے کانوں میں پڑی ہے ‘‘ ، تو آپ کیوں رکاوٹ بن رہے ہیں ۔ انہوں ( یعنی عبدالرحمن ) نے ایک مرتبہ بھی کہا ہے کہ : ’’ تم وھابی ہو جاؤ ، بلکہ وہ تو کہہ رہے ہیں کتاب و سنت پے عمل کرو ‘‘ ۔ ہم تو اﷲ کا پیغام اور اس کے رسول ﷺ کا فرمان سنیں گے ۔ اﷲ کی قسم ! جو لطف آج قرآن و حدیث سن کر ملا ہے وہ ہم ساری زندگی بھی محسوس نہیں کر پائے ۔ عبدالرحمن صاحب ! آپ کتاب و سنت سے سمجھائیں ، ہم ساری زندگی یہاں کھڑے ہو کر سننے کے لیے تیار ہیں ۔
عبدالرحمن :
جزاک اﷲ خیر،میں بتا رہا تھا کہ ’’ اﷲ کے علاوہ کسی کی قسم اٹھانا اور ستاروں کی تاثیر پر یقین رکھناشرک ہے ‘‘ ۔حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص غیر اﷲ کی قسم کھاتا ہے وہ شرک کرتا ہے ‘‘ ، ( ۴۹۰۴ ) ۔
زید بن خالد جہنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے نماز پڑھائی صبح کی ہمارے ساتھ حدیبیہ میں ( جو ایک مقام کا نام ہے مکہ کے قریب ) اور رات کو پانی پڑ چکا تھا جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا : ’’ تم جانتے ہو تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ؟ ‘‘ انھوں نے کہا : ’’ اﷲ اور اس کا رسول ﷺ خوب جانتا ہے ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے کہا ، اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ میرے بندوں میں سے بعضوں کی صبح ایمان پر ہوئی اور بعضوں کی کفر پر ‘‘ ۔ جس نے کہا : ’’ پانی پڑا اﷲ کے فضل اور رحمت سے وہ ایمان لایا مجھ پر اور کافر ہوا تاروں سے ‘‘ ، اور جس نے کہا : ’’ پانی پڑا تاروں کی گردش سے وہ کافر ہوا میرے ساتھ اور ایمان لایا تاروں پر ‘‘ ، ( مسلم : ۲۳۱ ) ۔
( جاری ہے )
 
اطاعتِ رسول ﷺ
کوئی بھی انسان اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتاجب تک وہ رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت نہ کرے ۔ کیونکہ رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت، اﷲ ہی کی پیروی ہے اور آپ ﷺ کی اتباع ہی کامیابی کی ضمانت ہے ۔ جو سید المرسلین ﷺ کی اطاعت کرئے گا ، اﷲ تعالیٰ اس سے محبت کرئے گا اور گناہ بھی معاف فرما دے گا ۔ آپ ﷺ کی پیروی قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لئے واجب ہے ۔ اتحاد المسلمین ، صرف قرآن و حدیث کو مضبوطی سے تھامنے پر ہو گا ۔
قرآن و حدیث کے علاوہ کسی اور راستے پر یا کسی اور شخص کے پیچھے چلنے والا سراسر گمراہ ہے ۔ جو عمل نبی پاکﷺ کی سنت کے مطابق نہ ہو وہ قابل قبول نہیں اور بربادی کا باعث ہے ۔ جو شخص بھی رسول اﷲ ﷺ کی حدیث کا علم ہونے کے بعد کسی امام ، عالم یا ولی کی بات پر جما رہے ، وہ اﷲ کے عذاب کو دعوت دیتا ہے ۔
بد قسمتی سے ! مسلمانوں نے جس طرح توحید کو چھوڑ کر شرک کو پسند کیا ، اسی طرح اطاعتِ رسول ﷺ کو ترک کر کے تقلید کو اپنا لیا ۔ امت مسلمہ میں فرقہ واریت اور شرک و بدعت کی وجہ صرف اور صرف تقلید ہے ۔ تقلید کی وجہ سے اتنی زیادہ فرقہ واریت پھیلی ہے کہ : ’’ ایک ہی امام کے مقلدوں نے کئی فرقے بنا رکھے ہیں اور ایک ، دوسرے کو کافر ، کافر کہتے ہیں ‘‘ ۔ مقلدین کا حال یہ ہے کہ : ’’ سید المرسلین ﷺ کی حدیث کو چھوڑ کر اماموں کے قول کو سینے سے لگاتے ہیں ، چاہے وہ نبی کریم ﷺ کی بات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ‘‘ ۔
اطاعت رسول ﷺ کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ جس نے رسول اﷲ ( ﷺ ) کی اطاعت کی اس نے دراصل اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کی ‘‘ ، ( النساء : ۸۰ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ نماز کی پابندی کرو ، زکوۃ ادا کرو اور رسول اﷲ ( ﷺ ) کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ‘‘ ، ( النور : ۵۶ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ کہہ دیجئے ! کہ اﷲ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو ، اگر یہ منہ پھیر لیں تو ( جان لیں کہ ) بے شک اﷲ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا ‘‘ ، ( العمران : ۳۲ ) ۔ اور چوتھے مقام پر ہے : ’’ اے ایمان والو ! اﷲ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ( اتباع سے منہ موڑ کر ) اپنے اعمال ضائع نہ کرو ‘‘ ، ( محمد : ۳۳ ) ۔
مزید دیکھیے : ’’ ( العمران : ۳۱ ) ، ( العمران : ۱۳۲ ) ، ( النساء : ۱۳ ) ، ( النساء : ۵۹ ) ، ( النساء : ۶۴ تا ۶۵ ) ، ( النساء : ۶۹ ) ، ( المائدۃ : ۹۲ ) ، ( الانفال : ۲۰ ) ، ( الانفال : ۴۶ ) ، ( النور : ۴۷ تا ۴۸ ) ، ( النور : ۵۱ تا ۵۲ ) ، ( النور : ۵۴ ) ، ( الاحزاب : ۳۶ ) ، ( الاحزاب : ۷۱ ) ، ( الفتح : ۱۷ ) ، ( الحجرات : ۱۴ ) ، ( الحشر : ۷ ) اور ( التغابن : ۱۲ ) ۔
’’ عبدالرحمن ! تقلید تو واجب ہے اور قرآن مجید کی آیت سے ثابت ہے ، ضعیف آدمی بولا ۔ ‘‘
کونسی آیت میں ہے کہ : ’’ تقلید واجب ہے ‘‘ ۔ عبدالرحمن نے پوچھا ۔
بوڑھا شخص :
جس میں اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ اے ایمان والو ! اطاعت کرو اﷲ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول ( ﷺ ) کی اور اپنے آپ میں سے ’’ اولو الامر ‘‘ کی اطاعت کرو ‘‘۔ ’’ اولو الامر ‘‘ ، سے مراد امام ہیں امام ۔
عبدالرحمن ، مسکراتے ہوئے :
بابا جی ! پہلی بات : ’’ اولو الامر سے مراد بعض کے نزدیک امرا و حکام اور بعض کے نزدیک علما و فقہا ہیں ‘‘ ، ( تفسیر احسن البیان ) ۔
دوسری بات : ’’ چلو میں کچھ دیر کے لئے آپ کی بات مان لیتا ہوں اس سے مراد امام ہیں ‘‘ ۔ لیکن آپ نے آیت کا اگلا حصہ پڑھا ہی نہیں جس میں تقلید کا رد ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اے ایمان والو ! اطاعت کرو اﷲ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول ( ﷺ ) کی اور تم میں سے اولوالامر کی ۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ ، اﷲ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف ، اگر تمہیں اﷲ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔ یہ بہت بہتر ہے اور ثواب کے لحاظ سے بھی اچھا ہے ‘‘ ، ( النساء : ۵۹ ) ۔
اس آیت کے دوسرے حصے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ : ’’ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ ، اﷲ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف ‘‘ ۔ میں ایک مثال دیکر بات کو واضح کرتا ہوں کہ : ’’ امام ابو حنیفہ ؒ رفع الیدین نہیں کرتے تھے ‘‘ ۔ جبکہ : ’’ امام مالک ؒ ، امام شافعی ؒ اور امام احمد ابن حنبل ؒ رفع الیدین کرتے تھے ‘‘ ۔ اختلاف پیدا ہو گیا کہ : ’’ تین امام رفع الیدین کرتے ہیں اور ایک نہیں کرتا ‘‘ ۔ اختلاف میں اﷲ اور رسول ﷲ ﷺ کے طرف جانا چاہیے یعنی قرآن و حدیث سے تنازعہ ختم کرنا چاہیے ۔ پھر آپ کیوں تقلید پر ہی جمے رہتے ہیں ؟ کیوں احادیث پڑھ کر رفع الیدین نہیں کرتے ؟
بوڑھا شخص ، بڑے سنجیدہ انداز میں:
چاروں امام حق پر ہیں ، سب کے پاس اپنی اپنی دلیل ہو گئی ۔
عبدالرحمن :
اپنی ، اپنی دلیل کا کیا مطلب ہے ؟ مسلمان کے لیے تو حجت صرف کتاب و سنت ہے ۔ جس کی بات قرآن و حدیث کے مطابق ہو گی صرف وہ حق پر ہے ۔ مثال کے طور پر : ’’ ایک بندہ پنسل کو پنسل کہتا ہے ، دوسرا پنسل کو مسواک کہتا ہے ۔ تیسرا آدمی پنسل کو چابی کہتا ، چوتھا پنسل کو پائپ ( Pipe) کہتا ہے ۔ دلیلیں بھی چاروں ہی دیں گے کہ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں لیکن صحیح وہ ہو گا جو پنسل کو پنسل کہتا ہے ۔ آپ کیوں نہیں چاروں اماموں کے اقوال کو کتاب و سنت کے ترازو سے ماپتے ؟ کیوں سیدالمرسلین ﷺ سے نفرت کرتے ہو ؟ ضعیف آدمی غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے :
ارے خناس ! ہم نفرت کرتے ہیں ؟ اوخبیث ! ہم بغض رکھتے ہیں ؟ تم کیا جانو ! عشق کیا ہوتا ہے ۔ تم تو شیطان ہو شیطان ۔ تم کو کیا معلوم مصطفی ﷺ کی قدر ، ہم نے آقا ؑ کی عظمت کو پہنچانا ہے ۔ اچھا تو ہی بتا ہم کیسے نفرت کرتے ہیں ؟
عبدالرحمن ، بردباری ( Tolerance) کا مظاہرہ کرتے ہوئے :
’’ اگر میں آپ کو حدیث پڑھ کر سناؤں کہ نبی پاک ﷺ نماز میں رفع الیدین کرتے تھے ، تو کیا آپ حدیث پر عمل کریں گے یا مجھ سے نفرت کریں گے ؟ ‘‘
ضعیف آدمی :
’’ میں تجھ سے نفرت کروں گا کیونکہ تم مجھے میرے امام کے طریقے سے ہٹانا چاہتے ہو۔ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ امام کا قول نہ چھوڑو چاہیے کتاب و سنت سے ٹکرا جائے ۔ ‘‘
عبدالرحمن :
’’ آپ ، مجھ سے نفرت حدیث کی وجہ سے کریں گے اور حدیث بات ہے رسول اﷲ ﷺ کی ۔ کسی کی بات سے عداوت ، اس انسان سے نفرت کے مترادف ہے ۔نبی کریم ﷺ کے مقابلے میں اگر موسیٰ ؑ کی بات بھی آ جائے تو بھی ہم ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ آپ امام کے قول کو قرآن و حدیث پر ترجیح دے رہے ہو ، افلا تعقلون؟ ‘‘
نبی پاک ﷺ کی کثیر التعداد احادیث سے ثابت ہے کہ اتباع سنت ہی کامیابی کی ضمانت ہے ۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا : ’’ جس نے میری اطاعت کی اس نے اﷲ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اﷲ کی نافرمانی کی ‘‘ ، ( بخاری : ۷۱۳۷ ) ۔ اور رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں تمہارے لئے دو ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ تم ان کے بعد گمراہ نہ ہو سکو گے ، ایک تو اﷲ کی کتاب ہے اور دوسری میری سنت ، دونوں دنیا سے جانے کے بعد مجھے حوض پر ملیں گے ‘‘ ، ( مستدرک حاکم : ۳۲۲ ) ۔
صحابہ کرامؓ نے بھی تقلید کا رد ہی کیا ہے ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا : ’’ سنت وہ ہے جو اﷲ اوراس کا رسول ﷺ مقرر کرے ۔ رائے کی خطا کو امت کے لیے سنت نہ بنا دو ۔ رائے والے حدیث کے دشمن ہیں ، ان پر اس کا حفظ مشکل ہو پڑا تو انہوں نے ( لوگوں کو ) رائے سے تباہ کیا۔ دینی مسائل میں رائے لگانے سے بچتے رہو ۔ اہل رائے ، حدیثوں کے دشمن ہیں ان سے حدیثیں یاد نہیں ہوتیں تو پھر اپنی رائے سے فتوے دیتے ہیں جو حدیثوں کے خلاف ہوتے ہیں ۔ پس ان سے بلکل علیحدہ رہنا اور انہیں بھی اپنے پاس نہ پھٹکنے دینا ‘‘ ، ( اعلام الموقعین ، ص : ۵۴ تا ۵۵ ) ۔ سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں : ’’ تمہارے علماء مر جائیں گے پھر لوگ جاہلوں کو امام بنا لیں گے جو امور دین میں رائے ، قیاس لگائیں گے ‘‘ ، (اعلام الموقعین ، ص : ۵۵ ) ۔ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ نے فرمایا: ’’ جس نے ایسی رائے نکالی جو نہ کتاب اﷲ میں ہو اور نہ سنت رسول ﷺ ( یعنی حدیث ) میں ، میں نہیں کہہ سکتا کہ اﷲ کے ہاں اس کا کیا حال ہو گا ؟ دین تو صرف قرآن و حدیث میں ہی ہے ‘‘ ، (اعلام الموقعین ، ص : ۵۶ ) ۔ ضعیف آدمی سے ایک بار پھر صبر نہ ہو سکا اور اچانک بول پڑا :
’’ لوگو ! یہ غیر مقلد ہے اور فرقہ واریت پھیلا رہا ہے ۔ تم لوگ اپنے اپنے کام پر جاؤ ، اسے تو کوئی کام نہیں ۔ تم کماؤ گے نہیں تو کھاؤ گے کہاں سے ، اپنے بیوی ، بچوں کا خیال نہیں ہے کیا ؟ ‘‘ عبدالرحمٰن کی بائیں سمت موجود لڑکے نے کہا :
یہ تو فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں لیکن جب ہماری مسجد کا مولوی لاؤڈ اسپیکر میں گالیاں دیتا ، بازاری اور گندی زبان استعمال کرتا ہے اس وقت تو آپ نہیں کہتے کہ : ’’ یہ فرقہ واریت پھیلا رہا ہے‘‘ ۔ دوسری بات : ’’ ہم نے ساری زندگی کام ہی کیا ہے ، آج اگر اﷲ کی رضا اور رحمت کے لیے ورک ( Work) نہ بھی کریں گے تو بھی ہم بہت خوش ہیں ‘‘ ۔ انکل ، میں بھی فرقہ واریت اور تقلید کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں بلال نے دھیمی آواز میں کہا :
عبدالرحمن ، مسکراتے ہوئے :
’’ آپ ضرور فرمائیں ! ‘‘
بلال :
بابا جی ! جو کتاب و سنت سے سمجھائے وہ فرقہ واریت نہیں بلکہ جو قرآن و حدیث کے علاوہ کسی شخص ، کتاب یا جگہ کی طرف بلائے وہ فرقہ واریت پھیلا رہا ہے ۔ مثلاََ : ’’ لاہور سے پانچ آدمی سفر پر روانہ ہوئے ہیں جنہوں نے کراچی جانا ہے ۔ پتوکی پہنچ کر ایک ، اسلام آباد کا رخ کر لیتا ہے اور دوسرا ، چھانگا مانگا کی طرف چل پڑتا ہے ۔ تیسرا ، قصور کی جانب مڑ جاتا ہے اور چوتھا، سیالکوٹ کو جانا چاہتا ہے ۔ پانچواں ، کراچی کی طرف سفر جاری رکھے ہوئے ہے ۔ پانچوں ہی نے ایک ، دوسرے کو بھی کہا ہے کہ : ’’ میرے ساتھ آ جاؤ ، میں کراچی جا رہا ہوں ‘‘ ۔ اب اصل شاہرہ کی جانب یعنی کراچی کی طرف بلانے والا فرقہ واریت نہیں پھیلا رہا کیونکہ وہ صحیح راستے کی طرف ان کی رہنمائی کر رہا ہے ۔ باقی چاروں فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں کیونکہ وہ ایسی شاہرہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جس پر جتنی مرضی محنت سے سفر کر لیں اصل منزل ( یعنی کراچی ) سے اتنا ہی دور ہوتے جائیں گے ۔
بابا جی ! آپ نے کہا یہ غیر مقلد ہے ۔ آپ اسے اطاعت رسول ﷺ کرنے والا کیوں نہیں کہتے ؟ مقلد کا الٹ غیر مقلد نہیں ، متبع سنت ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر : ’’ رات کا متضاد دن ہوتا ہے ، غیر دن نہیں ۔ شام کا الٹ صبح ہوتا ہے ، غیر صبح نہیں ۔ سردی کا متضاد گرمی ہوتا ہے ، غیر گرمی نہیں ۔
تقلید کے متعلق میں ، آپ سے کچھ سوال پوچھتا ہوں کہ : ’’ کیا اماموں نے کسی کی تقلید کی ، کیا اماموں نے تقلید پر خود کتابیں لکھیں یا کہا کہ حدیث مصطفی ﷺ کو چھوڑ کر ہمارے اقوال کو ترجیح دو اور کیا اماموں کی تقلید نبی پاک ﷺ کی اتباع سے بہتر ہے ؟ اﷲ کا دین کون لے کر آئے ، امام ؒ یا رسول اﷲ ﷺ ، کیا دین امام کے فتوے کا نام ہے یا وحی الہی کا ؟ صحابہ کرامؓ نے اماموں کی تقلید کی یا اتباع رسول ﷺ ؟ ایک مسلمان کو کس کی پیروی کرنی چاہیے ، رسول اﷲ ﷺ کی یا اماموں کی ؟ تقلید نے مسلمانوں کو متحد کیا ہے یا تقسیم ؟ کامیابی اماموں کی تقلید میں ہے یا اتباع رسول ﷺ میں ؟ قرآن و حدیث زیادہ ضروری ہے یا بزرگوں کے اقوال ؟ قیامت کے دن اﷲ کس کو انعام سے نوازے گا ، جس نے نبی کریم ﷺ کی حدیث کو چھوڑ کر اماموں کے اقوال کو فوقیت دی یا جس نے اماموں کے اقوال کو ترک کر کے نبی پاک ﷺ کی حدیث کی ترجیح دی ؟ عبدالرحمن نے خوشی سے بلال کو گلے سے لگا لیا اور کہا :
’’ جزاک اﷲ خیر‘‘ ، اور اپنی بات جاری کی :
ائمہ اربعہ نے بھی تقلید کی مذمت ہی کی ہے ۔ امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا ہے کہ : ’’ جو شخص میری دلیل سے واقف نہ ہو ۔ اس کو لائق نہیں کہ میرے کلام کا فتویٰ دے ‘‘ ، ( حقیقۃ الفقہ : ۸۸ ) ۔ دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : ’’ جب صحیح حدیث مل جائے پس وہی میرا مذہب ہے ‘‘ ، ( حقیقۃ الفقہ : ۷ ۸ ) ۔ امام ابو حنیفہ ؒ سے کسی نے پوچھا : ’’ اگر آپ نے کچھ کہا اور کتاب اﷲ ( قرآن ) کے مخالف ہو ؟ ‘‘ جواب دیا کہ : ’’ میرا قول جو کتاب اﷲ کے مقابلہ میں ہو ترک کرو ‘‘ ۔ اس نے پھر پوچھا کہ : ’’ اگر رسول اﷲ ﷺ کی خبر ( حدیث ) کے خلاف ہو تو ؟ ‘‘ جواب دیا کہ : ’’ میرا قول جو رسول اﷲ ﷺ کے مقابلہ میں ہو ترک کرو ‘‘ ۔ اس نے پھر پوچھا کہ : ’’ اگر صحابہؓ کے قول کے مخالف ہو ؟ ‘‘ جواب دیا کہ : ’’ میرا قول صحابہؓ کے مقابلہ میں ترک کرو ‘‘ ، ( حقیقۃ الفقہ : ۶ ۸) ۔
امام مالک ؒ فرمایا کرتے تھے : ’’ میں ایک انسان ہی تو ہوں صحیح بات بھی کہہ دیتا ہوں اور غیر صحیح بھی ، پس میری باتوں کو دیکھو ، پرکھو جو کتاب و سنت کے مطابق ہو اسے لے لو اور جو کتاب و سنت کے مطابق نہ ہو اسے چھوڑ دو ‘‘ ، ( اعلام الموقعین : ۶۶ ) ۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں : ’’ جب میں کوئی مسئلہ کہوں اور نبی کریم ﷺ کے فرمان کے خلاف ہو ۔ تو جو مسئلہ نبی پاک ﷺ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے وہی اولیٰ ہے ۔ پس میری تقلید مت کرو ‘‘ ، (حقیقۃ الفقہ : ۹۲ ) ۔ اور امام احمد ؒ فرماتے تھے کہ : ’’ اپنا علم اسی جگہ سے لو جہاں سے امام لیتے ہیں اور تقلید پر قناعت نہ کرو کیونکہ یہ اندھا پن ہے سمجھ میں ‘‘ ، (حقیقۃ الفقہ : ۹۷ ) ۔
( جاری ہے )
 
بدعات
تقلید کی وجہ سے بے شمار بدعات نے جنم لیا ۔ لوگوں نے اپنے آباء و اجداد کو جو کرتے دیکھا اسی کو دین سمجھ لیا اور سنتِ رسول ﷺ کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ جب لوگ سنت سے واقفیت ضروری نہیں سمجھتے اس وقت بدعات کا پودا سر سبز ہوتا ہے ۔ کچھ مولویوں نے اپنے پیٹ کی خاطر بدعات کو فروغ دیا ۔ بعض لوگ کسی کام کو اچھا سمجھ کر دین بنا لیتے ہیں اور مسلسل اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں ۔ ’’ وہ کام جسے نیکی یا برکت سمجھ کر کیا جائے لیکن قرآن و حدیث سے اس کی کوئی دلیل نہ ہو اسے بدعت کہتے ہیں ۔ ‘‘
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ کہیے کہ کیا ہم تم کو ایسے لوگ بتائیں جو اعمال کے اعتبار سے بالکل خسارہ میں ہیں ۔ وہ ہیں جنکی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہو گئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں ‘‘ ، ( الکہف : ۱۰۳ تا ۱۰۴ ) ۔
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ ( کام ) رد ہے ‘‘ ، ( بخاری : ۲۶۹۷ ) ۔ سیدنا جابر بن عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ حمد و ثنا کے بعد جانو کہ ہر بات سے بہتر اﷲ کی کتاب ہے اور ہر طریقہ سے سے بہتر محمد ﷺ کا طریقہ ہے اور سب کاموں سے برے نئے کام ہیں اور ہر بدعت ( نیا کام ) گمراہی ہے ‘‘ ، ( مسلم : ۲۰۰۵ ) ۔ امیر المومنین حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ اﷲ لعنت کرے اس پر جو لعنت کرے اپنے باپ پر اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو جانور ذبح کرے اﷲ کے علاوہ کسی اور کے لیے اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو پناہ دے کسی بدعتی کو اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو زمین کی حدیں تبدیل کرے ‘‘ ، ( مسلم : ۵۱۲۴ ) ۔
مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد بدعات کو ہی دین سمجھ بیٹھی ہے ۔ معاشرے میں کثیر التعداد بدعات پر عمل کیا جا رہا ہے ۔ مثلاََ : ’’ تقلید شخصی ، جشنِ عید میلاد النبی ﷺ ،آذان سے پہلے کوئی آیت یا درود، شبِ براء ت ، کونڈے اور رسومات محرم ۔ گیارھویں ، قبروں پر عرس و میلے ، قرآن خوانی ، ختم ، قل ، تیجا ، ساتا ، دسواں ، چالیسواں یا چہلم ، عرس اور قبر پر آذان کہنا ۔ سہرا باندھنا ، محافلِ میلاد ، خود ساختہ درود پڑھنا ، انگھوٹھے چومنا ، زبان سے نیت کرنا ، ندائے غیراﷲ ، سلسلہ ہائے طریقت ، قوالیاں اور تعویذ گنڈے ۔ قبروں پر گنبد بنانا ، غسل دینا ، چراغاں کرنا اور پھول چڑھانا ۔ ہرفرض نماز کے بعد اجتماعی دعا اور خانقاہیں تعمیر کرنا ۔ وضو میں گردن کا مسح ، وضو کے دوران کلمہ شہادت پڑھنا ، غیر اﷲ کیلئے قیام تعظیمی کرنا ، بعد نماز جمعہ ظہر احتیاطی پڑھنا ، نماز غوثیہ ، عقیق کی انگھوٹی پہننا اور قبرستان میں مساجد بنانا ‘‘ ۔ جن بدعات کا میں نے ذکر کیا ہے ان اور مزید بدعات کے متعلق تفصیل سے پڑھیے ، کتاب ’’ چند بدعات اور ان کا تعارف ‘‘ ۔
ضعیف آدمی نے تو اس مرتبہ ’’ حد ہی کر دی ! ‘‘ گالیوں کی ایسی بارش برسائی کہ : ’’ ایک ، ایک سانس میں معلوم نہیں کتنی ہی گالیاں نکال دیتے ‘‘ ۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے بوڑھے شخص نے گالیوں میں پی ایچ ڈی ( Ph.D.) کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ گالیوں سے روکے تو الزامات کی بوچھاڑ کر دی ۔ حتی کہ نوجوان لڑکا بو ل ہی پڑا :
بابا جی ! اب بس بھی کر دیں ۔ جب مولوی آپ کو ٹریننگ ( Training) دے رہا تھا تو میں بھی آپ کے ساتھ ہی تھا کہ : ’’ جب کوئی قرآن و حدیث کی بات کرے تو پیٹ بھر کر گالیاں دو ، الزامات کی جھڑی لگا دو اور جس چیز کو دین بنانا ہو اس کے ساتھ شریف کا اضافہ کر دو ۔ مثلاََ : ختم شریف ، گیارھویں شریف اور لاہور شریف وغیرہ وغیرہ ‘‘ ۔ اگرمجھ میں تعصب ہوتا تو میں بھی کب کی گالیاں نکال کر چلا جاتا لیکن یہ تو ہماری عزت ، جان ، آخرت ، ہمارے مال اور وقت کا ہی محافظ ہے ۔ ہم شرک کریں گے تو آخرت خراب ، قبروں پر مردوں اور عورتوں کے مخلوط رقص سے عزت گئی اور بدعات پر عمل کریں گے تو ہمارا مال اور وقت ضائع ہو گا ۔ ضعیف آدمی بڑے سنجیدہ انداز میں :
دیکھو بیٹا ! یہ ( یعنی عبدالرحمن ) ہمارے ہر عقیدے کو شرک ، بدعت ، شرک ، بدعت کہہ رہا ہے ۔ اسے کہو کچھ تو نرمی اختیار کرے ۔ اس نے تو : ’’ جشنِ عید میلاد النبی ﷺ ،آذان سے پہلے درود ، ختم ، قل ، تیجا ، ساتا ، دسواں اور چالیسواں ۔ قبروں پر عرس و میلے لگانا، قبروں پر چراغاں کرنا اور زبان سے نیت کرنے کو بھی بدعت کہہ دیا ہے ‘‘ ۔ ان اعمال میں برائی کیا ہے ۔
نوجوان لڑکا :
’’ بابا جی ! اگر آپ کے پاس ان کے جائز ہونے کی کوئی دلیل ہے تو بتائیے ، بصورت دیگر صاف ظاہر ہے کہ یہ بدعات ہیں ۔ ‘‘
بوڑھا شخص :
’’ یہ ( عبدالرحمن ) بڑا قرآن و حدیث ، قرآن و حدیث کر رہا ہے ۔ اسے کہو کسی حدیث سے منع دیکھا دے کہ نبی پاک ﷺ نے ان اعمال سے روکا ہو ‘‘ ۔ دوسری بات : ’’ ہم اتنی محنت سے یہ اعمال کرتے ہیں ، ہمیں کچھ نہ کچھ تو اجر ملے گا ہی؟ ‘‘ بلال نے عبدالرحمن سے ضعیف آدمی کو جواب دینے کی اجازت طلب کی ۔
عبدالرحمن نے اجازت دے دی ۔
بلال :
بابا جی ! پہلی بات : ’’ جو کام قرآن و حدیث میں منع ہو وہ کرنا تو نافرمانی ہے بدعت نہیں ‘‘ ۔ مثلاََ : ’’ قرآن و حدیث سے واضح ہے کہ سود لینا ، دینا ، لکھنا اور ربا کا گواہ بننا حرام ہے ۔ اب اگر کوئی یہ کام کرتا ہے تو وہ اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ کی نافرمانی کر رہا ہے ، بدعت نہیں ‘‘ ۔ بدعت کے متعلق عبدالرحمن انکل نے پہلے ہی تفصیل سے بتا دیا ہے کہ : ’’ وہ کام جسے نیکی یا برکت سمجھ کر کیا جائے لیکن قرآن و حدیث سے اس کی کوئی دلیل نہ ہو اسے بدعت کہتے ہیں ‘‘ ۔
دوسری بات میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ :’’ اگر آپ درزی کے پاس جائیں اور اپنے کپڑوں کا ناپ دیں ۔ جس طرح آپ سلائی کروانا چاہتے ہیں وہ بھی بتا دیں ۔ جب آپ جوڑا لینے جائیں تو درزی نے کپڑے توسلائی کر دیے ہوں مگر اپنی مرضی سے پورے بازو بنانے کی بجائے ہاف کر دیے ہوں اور سارے سوٹ میں رنگا رنگ کے پھول بنا دیے ہوں ‘‘ ۔ تو آپ کیا کریں گے ؟
ضعیف آدمی :
’’ میں جوڑا نہیں لوں گا بلکہ اس سے اپنے کپڑوں کے بھی پیسے واپس لے لوں گا ۔ ‘‘
بلال ، مسکراتے ہوئے :
’’ کیوں ! کیا اس نے محنت نہیں کی ؟ ‘‘
بوڑھا شخص :
’’ ارے ! اس کی محنت بھاڑ میں جائے اس نے تو میرا کپڑا خراب کر دیا ہے ۔ ‘‘
بلال ، بڑے سنجیدہ انداز میں :
’’ اس نے ٹھیک کیا ہے ، آپ نے اسے منع تو نہیں کیا تھا کہ وہ ایسے نہ سلائی کرے ۔ ‘‘
ضعیف آدمی :
’’ دیکھو بیٹا ! میں نے اسے روکا تو نہیں تھا لیکن کہا بھی تو نہیں تھا ۔ ‘‘
بلال :
’’ ہاں ! ٹھیک اسی طرح دین میں بھی ہمیں کتاب و سنت پر ہی عمل کرنا چاہیے ۔ اگر اپنی مرضی سے کوئی عمل دین بنا لیں گے تو ہمیں اجر کی بجائے گناہ ملے گا چاہیے جتنی مرضی محنت کی ہو‘‘ ۔ کیونکہ دین مکمل ہے اس میں نئی چیز وں کے اضافے کی ضرروت نہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ : آج میں نے تمہارے لیے دین کامل کر دیااور تم پر اپنا انعام بھر پور کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا ‘‘ ، ( المائدۃ : ۳ ) ۔ انکل ، بابا جی کے باقی اعتراضات کا آپ جواب دیں ۔
عبدالرحمن :
بابا جی نے اعتراض کیا ہے کہ : ’’ جشنِ عید میلاد النبی ﷺ ،آذان سے پہلے درود ، ختم ، قل ، تیجا ، ساتا ، دسواں اور چالیسواں ۔ قبروں پر عرس و میلے لگانا، چراغاں کرنا اور زبان سے نیت کرنے کو بدعت کیوں کہا ہے ‘‘ ۔میں ان پوائنٹس پر یکے بعد دیگرے روشنی ڈالتا ہوں ۔
( ۲ )
جشن عید میلاد النبی ﷺ ایک بدعت ہے ۔ عیسائی حضرت عیسی ؑ کا میلاد مناتے ہیں ، مسلمانوں نے کہا : ’’ ہم بھی کسی سے کم نہیں ‘‘ ۔ سید المرسلین ﷺ نے ساری زندگی یہ جشن نہیں منایا اور نہ ہی صحابہ کرامؓ سے ثابت ہے ۔ بد قسمتی سے مسلمان جشن بھی اس دن مناتے ہیں جس روز آپ ﷺ نے وفات پائی ۔ ۱۲ ربیع الاول تیز میوزک ، گانے اور قوالیوں سے منایا جاتا ہے ۔ بڑے بڑے علامہ ایسے ڈانس کرتے ہیں جیسے ان کا پیشہ ہی ناچنا ، گانا ہے ۔ اب تو صرف مولوی ہی نہیں بلکہ ڈانسر عورتوں کو نچا کر میلاد منایا جاتا ہے ۔ بے حیائی کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ جشن کے دنوں میں نعت خوانوں کا بھی خوب کاروبار چلتا ہے ۔نعتیں پڑھنے والوں کا حال یہ ہے کہ : ’’ نبی پاک ﷺ کی سنتوں کے تارک اور اگر عورت ہے تو فل میک اپ اور بے پردہ ہو کر نعت پڑ رہی ہے ‘‘ ۔ کیا یہی رسول ﷺ کی تعلیم ہے ؟ اگر جشن عید میلاد النبی ﷺ منانا دین ہوتا تو سب سے پہلے صحابہ کرامؓ مناتے ۔
شیطان بھی کیا عجیب کھیل کھیلتا ہے نواسے کی شہادت پر ماتم اور نانا کی وفات پر جشن
( ۳ )
ختم ، قل ، تیجا ، ساتا ، دسواں اور چالیسواں سب بدعات ہیں ۔ یہ ہندووں اور سکھوں کی رسمیں ہیں جو مسلمانوں میں رواج پا گئیں ہیں ۔ ختم ، تیجا اور چالیسواں وغیرہ میں ایسے ایسے کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جیسے کوئی مرا نہیں بلکہ ولیمہ ہو رہا ہے ۔ جس دن ختم وغیرہ ہو ، مولوی ، برادری اور علاقے والے ناشتہ بھی نہیں کرتے کہ آج فلاں کے گھر ختم کی دعوت ہے ۔ کچھ غریب پیسے نہ ہونے کی صورت میں برادری کی لعن ، طعن سے بچنے کے لیے چوری کر کے ختم کا اہتمام کرتے ہیں ۔ ارے نادانوں ! اگر ختم ، قل ، تیجا ، ساتا ، دسواں، چالیسواں اور دوسری ، تیسری رسمیں دین ہوتیں تو سب سے پہلے نبی پاک ﷺ ، حضرت خدیجۃ الکبریؓ کا ختم کرتے اور صحابہ کرامؓ ، آپ ﷺ کی وفات کے بعد ان پر عمل کرتے ۔ جب کسی کو علم ہو جاتا ہے کہ یہ سب بدعات ہیں تو وہ برادری کی ملامت سے ڈرتا عمل جاری رکھتا ہے ۔ میرے بھائی ! جب وہ بدعات پر عمل کرتے نہیں ہچکچاتے تو آپ اﷲ کی رضا کے لیے کیوں شرماتے ہیں ۔
’’ جو مولوی حضرات ہمارے سامنے شرک ، تقلید اور بدعات کو دین بنا کر پیش کرتے ہیں ، ان کا کیا علاج ہے ؟ ‘‘ نوجوان لڑکے نے پوچھا ۔
عبدالرحمن :
’’ قرآن و حدیث کا ترجمے کے ساتھ مطالعہ ان کا حل ہے ۔ انہیں دیکھایا اور سمجھایا جائے کہ کتاب و سنت کی تعلیم کیا ہے اور آپ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں، اﷲ تعالیٰ کے لیے حق کو قبول کر لیجئے ‘‘ ۔ جو لوگ حق کو چھپاتے ہیں ، ان کے متعلق اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیما ت اور ہدایات کو چھپاتے ہیں ، درآنحالیکہ ہم انھیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں ، یقین جانو کہ اﷲبھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت ہیں ۔البتہ جو اس روش سے باز آجائیں اور اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چُھپاتے تھے ، اُسے بیان کر نے لگیں ،اُن کو میں معاف کردوں گا اور مَیں توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔( البقرۃ : ۵۹ ۱تا ۱۶۰)
( ۴ )
قبروں پر عرس و میلے لگانااور چراغاں کرنا بدعت ہے ۔ ہم عرصہ دراز سے ہندووں کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔ جن کی رسمیں مسلمانوں نے اپنا لیں ہیں ۔ ہندو اپنے مندروں پر چراغاں کرتے ہیں ، مسلمان قبروں پر ۔ ہندو جالیوں کے ساتھ دھاگے لٹکا کر منت مانتے ہیں مسلمان بھی ۔میلوں پر دور ، دور سے لوگ ڈھول بجا کر چادریں لاتے ، قبروں کی مٹی چاٹتے اور سجدے کرتے ہیں ۔ عرس و میلے اور قبروں پر چراغاں کرنا نہ نبی پاک ﷺ کا طریقہ ہے اور نہ صحابہ کرامؓ سے ثابت ہے ۔ عرسوں و میلوں پر کتوں کی لڑائی ، جوا بازی ، کھسروں کا ڈانس اور گانا بجانا ہی ہوتا ہے ۔ کھانے ، پینے اور خرید و فروخت کے دوران مردوں اور عورتوں کی بھیڑ ، کیا یہ دین محمد ﷺ ہے ؟
( ۵ )
زبان سے نیت کرنا اور آذان سے پہلے درودبھی بدعت ہے ۔ ہر عمل میں نیت ضروری ہے ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ انما الاعمال بالنیات : اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے ‘‘ ، ( بخاری : ۱ ) ۔ نیت دل کا ارادہ ہے ، الفاظ بولنا قول و قرار ہے ۔ جب کوئی وضو کرئے گا ، نماز کی نیت ہے تو وضو کر رہا ہے ۔ اگر نیت زبان سے ہے تو پھر تمام کاموں میں نیت ضروری ہے ، پھر سب اعمال میں نیت کرئے ۔ مثال کے طور پر کھانے کے وقت نیت کرے : ’’ میں نیت کرتا ہوں کھانے کی جو ماں کے ہاتھ کا پکا ہوا ہے ۔کھا رہا ہوں ہاتھ کے ذریعے ، واسطے پیٹ کے بسم اﷲ الرحمن الرحیم ‘‘ ۔ اس نیت کے بدعت ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ اردو ، پنجابی اور پشتو وغیرہ زبانوں میں کی جاتی ہے ۔ کیونکہ اگر زبان سے نیت حدیث سے ثابت ہوتی تو عربی میں ہوتی ۔ ’’ عبدالرحمن بھائی ، اگر نیت دل کے ارادے کا نام ہے تو پھر ہم روزے کی نیت زبان سے کیوں کرتے ہیں ‘‘ ، نوجوان لڑکے نے پوچھا ۔
عبدالرحمن :
’’ زورے کی نیت بھی دل سے ہی ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ اکثر رمضان کیلنڈروں ( Calendars) پر روزے کی نیت کے الفاظ لکھے ہوتے ہیں ، جو قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ‘‘ ۔ وہ نیت ہے بھی غلط ، اس کے الفاظ بھی ٹھیک نہیں ۔ لکھا ہوتا ہے : ’’ و بصو م غد نویت من شھر رمضان : اور میں نے رمضان کے کل کے روزے کی نیت کی ‘‘ ۔ روزہ آج کا رکھا ہے اور نیت کل کی کر رہا ہے ۔ روزہ انتیسواں یا تیسواں اور نیت عید کے دن کی ۔ یہ کہاں کی سمجھ داری ہے ؟
درود پاک پڑھنے سے اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتیں ہیں ، گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے ، مصیبتوں اور غموں سے نجات ملتی ہے ۔ ہر نماز میں اور دعا سے پہلے درود شریف پرھنا ضروری ہے ۔ لیکن نبی پاک ﷺ نے آذان کے بعد درود پاک پڑھنے کا حکم دیا ہے اس لیے پہلے پڑھنا بدعت ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ جب موذن کی اذان سنو تو تم وہی کہو جو موذن کہتا ہے پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو کوئی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ‘‘ ، ( مسلم : ۸۴۹ ) ۔
’’ پہلے پڑھ لو یا بعد میں اس سے کیا فرق پڑتا ہے ‘‘ ، ضعیف آدمی سنجیدہ انداز میں بولا ۔
عبدالرحمن :
اگر آپ کو ڈاکٹر کہے کہ : ’’ دوا کھانے کے بعد لینی ہے ‘‘ ، تو آپ دوائی کھانے کے بعد کھائیں گے یا پہلے ؟
’’ یہ کوئی پوچھنے والی بات ہے ، بعد میں ہی کھاؤں گا کیونکہ اس میں بھی کوئی حکمت ہو گی ‘‘ ، بوڑے شخص نے جواب دیا ۔
عبدالرحمن :
’’ ڈاکٹر کی بات میں حکمت ہے اور نبی پاک ﷺ کی حدیث میں کوئی حکمت نہیں ؟ دعوے محبت کے اور عمل من مانی کے ۔ جھوٹی وفا کی تجارت کرتے ہو ، اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان سے اچھی اور بہتر بات کس کی ہو سکتی ہے ؟
’’ انکل ، ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا ہے ، بلال بولا ۔ ‘‘
ابوبکر بھائی مسجد کہاں ہے ، عبدالرحمن نے پوچھا۔
ابوبکر :
’’ مسجد نزدیک ہی ہے ۔ دو گلیاں چھوڑ کر تیسری گلی میں بڑی سڑک کے ساتھ ہی ہے ۔ ‘‘
عبدالرحمن :
لوگوں سے متوجہ ہو کر : ’’ میرے عزیزو ! نماز کا وقت ہو گیا ہے ، آئیے صلاۃ ادا کر لیں ۔ ‘‘
’’ ضرور ان شاء اﷲ ! سب لوگ ایک ساتھ بلند آواز سے بولے ۔ ‘‘
( جاری ہے )
 
نمازِ نبوی ﷺ
عوام الناس نے باری باری سے وضو کیا ، بلال نے اتنی خوبصورت آواز میں آذان دی کہ : ’’ میں نے ساری زندگی اتنی پیاری آواز میں آذان نہیں سنی تھی ‘‘ ۔ آذان اتنی دلکش تھی کہ کئی مسافروں نے گاڑیاں پارکنگ میں کھڑی کیں اور مسجد کی طرف چل دوڑے ۔ ضعیف آدمی نے بتایا کہ مسجد کا امام چھٹی پر ہے ، لوگوں نے عبدالرحمن سے درخواست کی کہ وہ نماز پڑھائیں ۔ عبدالرحمن نے ابھی سلام ہی پھیرا تھا کہ ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا :
’’ ہم نے کئی سہ روزہ ، عشرہ ، چلہ ، چار ماہ اور سال بھی لگایا لیکن ہم دیکا ( دیکھا ) کہ جس طرح تو نماز پڑھتا ہے اس طرح تو کوئی بھی نہیں پڑھتا ۔ ہم اتنا بڑا بڑا بزرگ کے ساتھ وقت لگایا کہ تمہارا سوچ بھی نہیں ہے لیکن وہ تو تمہارا طریقہ سے نماز نہیں پڑھتا تھا ۔ دیکو( دیکھو ) ہم خان کا بچہ ہے ہم کو یہ اچا ( اچھا ) نہیں لگتا کہ ہم اور طریقہ سے نماز پڑھیں اور تم اور طریقہ سے ۔ ہم کو بتاؤ کہ تم اس طرح کیوں نماز پڑھا ؟ تم تو ہاتھ ناف سے اوپر باندھتا ہے ، بار بار رفع الیدین کرتا ہے اور ہم نے نیچے دیکا ( دیکھا ) کہ کُچ ( کچھ ) لوگ پاؤں سے پاؤں ملائے ہوئے ہے ۔ استغفر اﷲ ، استغفراﷲ تم اکیلا ہی ایسا نہیں کر رہا تھا کُچ ( کچھ ) لوگ اور بھی کر رہا تھا ، یہ کیسا نماز پڑھتا ہے ۔ ‘‘
عبدالرحمن ، سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے :
’’ خان صاحب آپ کو کیسے پتا چلا کہ اور لوگوں نے بھی ہاتھ ناف سے اوپر باندھے ، رفع الیدین کیا اور پاؤں سے پاؤں ملائے ؟ ‘‘
’’ ہم پورا نماز میں دیکتا ( دیکھتا ) رہا ہے ۔ لوگ اسی طرح کر رہے تھے ، خان نے جواب دیا۔ ‘ ‘
عبدالرحمن :
’’ خان صاحب نماز خشوع و خضوع سے ادا کرنی چاہیے اور ادھر ، ادھر نہیں دیکھنا چاہیے ‘‘۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ یقیناًایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی ۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں ‘‘ ، ( المومنون : ۱ تا ۲ ) ۔ ‘‘
’’ دین کا ستون ، ذریعہ تقرب الٰہی ، تحفہ آسمانی ، جسم و روح کی غذا ، بے حیائی سے روکنے والی چیز ، آنکھوں کی ٹھنڈک ، باعث نجات ، بھائی چارہ قائم کرنے والی چیز ، سکون کا سبب اور نعمتوں کی شکر گزاری کا نام نماز ہے ۔ ‘‘
’’ بد قسمتی سے ! مسلمانوں نے نماز کے بھی کئی طریقے بنا لیے ۔ کسی کو اگر نبی پاک ﷺ کی نماز کا طریقہ بتائیں تو وہ لڑتا اور جھگڑتا ہے ‘‘ ۔ ’’ بیٹا ، نماز تو تین طریقوں سے جائز ہے‘‘ ، ضعیف شخص بولا۔
عبدالرحمن :
’’ بابا جی ! یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ نماز تین طریقوں سے جائز ہے ۔ احادیث سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ نماز کا طریقہ صرف اور صرف ایک ہے ‘‘ ۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ‘‘ ، ( بخاری : ۶۳۱ ) ۔ نبی پاک ﷺ نے ایک ہی طریقہ سے نماز پڑھی نہ کہ مختلف طرز سے ، کیونکہ سید المرسلین ﷺ ، اﷲ تعالیٰ کے حکم سے امت کے لیے آسانی چاہتے تھے مشکل نہیں ۔ ہم احادیث سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کونسا طریقہ ہے جس طرح رسول اﷲ ﷺ نے نماز ادا کی ۔
( ۲ )
نماز میں صفیں درست کرنا ضروری ہے ۔ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم اپنی صفیں برابر رکھو کیونکہ صفوں کا برابر رکھنا نماز کے قائم کرنے میں داخل ہے ‘‘ ، ( بخاری : ۷۲۳ ) ۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ صفیں برابر کر لو ۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ‘‘ ۔ اور ہم میں سے ہر شخص یہ کرتا کہ : ’’ ( صف میں ) اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا قدم اس کے قدم سے ملا دیتا تھا ‘‘ ، ( بخاری : ۷۲۵ ) ۔
( ۳ )
سید المرسلین ﷺ نماز میں ہاتھ سینے پر باندھتے تھے ۔ حضرت وائل بن حجرؓ بیان کرتے ہیں کہ : ’’ میں نے رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر ہاتھ باندھ لیے ‘‘ ، ( صحیح ابن خزیمہ : ۴۷۹ ) ۔ سیدنا سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ : ’’ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ ، بائیں کلائی پر رکھیں ‘‘ ، ( بخاری : ۷۴۰ ) ۔
( ۴ )
’’ عبدالرحمن صاحب ، میں نماز کے متعلق کچھ پوچھنا چاہتا ہوں ، ایک نوجوان نے کہا ۔ ‘‘
عبدالرحمن :
’’ جی ! پوچھیں ۔ ‘‘
نوجوان :
بھائی عبدالرحمن ، میں بہت پریشان ہوں ۔ میرے دوست نے مجھے بتایا کہ : ’’ نماز میں امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنا ضروری ہے اور جب امام غیر المغضوب علیھم ولا الضالین پڑھے تو اونچی آواز سے آمین کہنا چاہیے ‘‘ ۔ لیکن ہمارا مولوی کہتا ہے کہ : ’’ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے اور آمین بالجہر کہنا شور مچانے کے مترادف ہے ‘‘ ۔ اور وہ سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے کے متعلق دلیل بھی دیتا ہے کہ : ’’ واذا قرئ القران فاستمعوا لہ و انصتوا لعلکم ترحمون : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے ‘‘ ، ( الاعراف : ۲۰۴ ) ۔
عبدالرحمن ، سنجیدہ انداز میں :
میرے بھائی ! جو آپ کے مولوی نے حوالہ دیا ہے : ’’ یہ ان کافروں کو کہا جا رہا ہے جو قرآن کی تلاوت کرتے وقت شور کرتے تھے‘‘ ۔ اور اپنے ساتھیوں کو کہتے تھے کہ : ’’ لا تسمعوا لھذا القران و الغوا فیہ : یہ قرآن مت سنو اور شور کرو ‘‘ ، ( حمٰ السجدۃ : ۲۶ ) ۔ ان سے کہا گیا کہ اس کی بجائے تم اگر غور سے سنو اور خاموش رہو گے تو تم رحمت الٰہی کے مستحق بن جاؤ ‘‘ ، ( تفسیر احسن البیان ) ۔
دوسری بات ، کثیر التعداد احادیث سے واضح ہے کہ : ’’ سورۃ الفاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ‘‘ ۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ اس شخص کی نماز نہیں ، جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی ‘‘ ، ( بخاری : ۷۵۶ ) ۔ سیدنا عبادہ بن صامتؓ نے فرمایا : ’’ نماز فجر میں ہم رسول اﷲ ﷺ کے پیچھے تھے ، آپ ﷺ نے قرآت شروع کی تو وہ آپ ﷺ پر دشوار ہو گئی ‘‘ ، جب آپ ﷺ ( نماز سے ) فارغ ہوئے تو فرمایا : ’’ شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو ؟ ‘‘ ہم نے کہا : ’’ ہاں اﷲ کے رسول ﷺ ! ہم جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں ‘‘ ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو ، کیونکہ جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ‘‘ ، ( ابو داود : ۸۲۳ ) ۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے یہ تین بار ارشاد فرمایا ، لوگوں نے پوچھا کہ : ’’ جب ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں ؟ ‘‘ ابوہریرہؓ نے جواباََ کہا : ’’ اس وقت تم لوگ آہستہ سورۃ الفاتحہ پڑھ لیا کرو ‘‘ ، ( مسلم : ۸۷۸) ۔
’’ بیٹا ، مجھے بتاؤ ! اگر دس آدمیوں نے کسی چوہدری یا سردار آدمی سے بات کرنی ہو تو دس بولیں گے یا ایک بولے گا ؟ ‘‘ ، ضعیف آدمی نے پوچھا ۔
عبدالرحمن :
’’ بابا جی ! ایک بولے گا ۔ ‘‘
بوڑھا شخص ، مسکراتے ہوئے :
’’ ہاں ! اب آئے ہو لائن پر ۔ اگر دس آدمیوں میں سے ایک بات کرے گا تو پوری جماعت میں سے امام ہی سورۃ الفاتحہ پڑھے گا نا ؟ ‘‘
عبدالرحمن :
بابا جی ! پہلی بات تو یہ ہے کہ : ’’ حدیث میں ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ‘‘ ، تو ہمیں حدیث پر عمل کرنا چاہیے ۔ دوسری بات : ’’ کسی چوہدری یا سردار شخص سے دس آدمیوں میں سے ایک بات کرے گا ، کیونکہ وہ ایک ساتھ دس لوگوں کی بات سن نہیں سکتا ۔ جبکہ اﷲ تعالیٰ تو ایسا سننے والا ہے کہ جس کو اگر زمین و آسمان کی تمام تر مخلوقات ایک ساتھ پکاریں تو اس کے سننے میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا ۔ ‘‘
( ۵ )
نماز میں جب امام غیر المغضوب علیھم ولا الضالین پڑھے تو امام اور مقتدیوں کو اونچی آواز سے آمین کہنا چاہیے۔ سیدنا وائل بن حجرؓ کہتے ہیں کہ : ’’ رسول اﷲ ﷺ جب ولا الضالین پڑھتے تو آمین کہتے اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے تھے ‘‘ ، ( ابو داود : ۹۳۲ ) ۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ یہود نے کسی چیز کی وجہ سے تم سے اتنا حسد نہیں کیا جتنا سلام اور آمین کی وجہ سے کیا ‘‘ ، ( مسلم : ۸۵۶ ) ۔ خلیفہ چہارم سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سنا کہ : ’’ جب آپ ﷺ ولا الضالین کہتے تو آمین کہتے ‘‘ ، ( مسلم : ۸۵۴ ) ۔
( ۶ )
رسول اﷲ ﷺ نے تمام عمر نماز میں رفع الیدین کیا ہے ۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ فرماتے ہیں کہ : ’’ میں نے تمام عمر رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ۔ آپ ﷺ ہمیشہ شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے ‘‘ ، ( بیہقی ، جلد : ۲ ، صفحہ : ۷۳ ) ، ( اثبات رفع الیدین ، صفحہ : ۱۱ ) ۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ : ’’ آپ ﷺ نماز تکبیر تحریمہ سے شروع کرتے اور تکبیر کہتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھا کر لے جاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تب بھی اسی طرح ( ہاتھ اٹھایا ) کرتے اور جب سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے تب بھی اسی طرح ( رفع الیدین ) کرتے اور ربنا ولک الحمد کہتے ۔ سجدہ کرتے وقت یا سجدے سے سر اٹھاتے وقت اس طرح رفع الیدین نہیں کرتے تھے ‘‘ ، ( بخاری : ۷۳۸ ) ۔
حدیثوں کی کتابوں میں رفع الیدین کرنے کے متعلق کافی تعداد میں احادیث موجود ہیں ۔ جیسا کہ : ’’ (بخاری ، تعداد احادیث : ۵ ) ، ( مسلم ، تعداد : ۶ ) ، ( ترمذی ، تعداد : ۱ ) ، ( ابو داود ، تعداد : ۹ ) ، ( نسائی ، تعداد : ۲۰ ) ، ( ابن ماجہ ، تعداد : ۸ ) ، ( موطا امام مالک ، تعداد : ۳ ) ، ( ابن خزیمہ ، تعداد : ۱۵ ) ، ( سنن الکبری ، تعداد : ۴۶ ) ، ( مسند الحمیدی ، تعداد : ۲ ) ، ( مسند ابو عوانہ ، تعداد : ۸ ) ، ( شرح السنۃ ، تعداد : ۸ ) ، ( مصنف عبدالرزاق ، تعداد : ۸ ) ، ( سنن الدارمی ، تعداد : ۵ ) ، ( سنن دارقطنی ، تعداد : ۱۸ ) ، ( المنتقی لابن الجارود ، تعداد : ۵ ) ، ( جزء رفع الیدین ، تعداد : ۴۴ ) ، ( مصنف ابن ابی شیبہ ، تعداد : ۱۱ ) ، ( مسند امام احمد ، تعداد : ۲۳ ) ، ( صحیح بن حبان ، تعداد : ۶ ) ، ( مسند ابو داود طیالسی ، تعداد : ۲ ) ، ( مسند امام شافعی ، تعداد : ۱ ) اور ( موطا امام محمد ، تعداد : ۱ ) ۔ ’’ منافق بغلوں میں بت رکھ کر نماز پڑھتے تھے ، مورتیوں کو گرانے کے لیے رفع الیدین کیا جاتا تھا ۔ اب اس کی کیا ضرورت ہے ؟ ‘‘ ضعیف آدمی نے کہا ۔
عبدالرحمن :
بابا جی ! کسی بھی حدیث میں نہیں ہے کہ : ’’ بتوں کو گرانے کے لیے رفع الیدین کیا جاتا تھا ۔ اگر کسی حدیث میں ہے تو مجھے بھی بتاؤ ؟آپ قیامت تک نہیں دکھا سکیں گے ۔ یہ بات تو عقل کے بھی خلاف ہے کیونکہ اگر مورتیوں کو گرانا مقصود ( Destination) ہوتا تو پہلی مرتبہ رفع الیدین کرنے سے ہی بت گر جاتے ، رکوع اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ ‘‘ ’’ انکل میں بھی رفع الیدین کے متعلق کچھ بتاؤں ؟ ‘‘ بلال نے پوچھا ۔
عبدالرحمن ، مسکراتے ہوئے :
’’ کیوں نہیں ! ‘‘
بلال :
انکل ! تمام مسالک مانتے ہیں کہ : ’’ رفع الیدین ، سید المرسلین ﷺ کی سنت ہے ‘‘ ۔ میں رفع الیدین کے بارے میں ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں ایک عالم کہہ رہا تھا کہ : ’’ یعنی رفع یدین کرنے اور رفع یدین نہ کرنے کی کسی ایک طبقے کے لیے رجسٹری نہیں ہے ۔ بھئی رفع یدین کرنے والے بھی جنت میں جائیں گے ، آپ جا کے دیکھ لینا ۔ امام بخاری ہوں گے کے نہیں جنت میں ، امام مسلم ہوں گے کے نہیں جنت میں، امام ابو داود ، ترمذمی ، نسائی ، ابن ماجہ سب ہوں گے کے نہیں،ارے ! نیچے آ جائیں حضور، میرے اور آپ کے اور کل دنیا کے شیخ ، شیخ عبدالقادر جیلانی ہوں گے کے نہیں جنت میں ؟ یہ سب رفع یدین کرتے تھے ۔ اور میں ان کا مرید ہوں ، میں حنفی ہوں ، میں رفع یدین نہیں کرتا ‘‘ ( یوٹیوب : Namaz Mein Rafa al Yadain Karney Ka Shaboot by Tahir ul Qadri and other Islamic scholar) ۔
( جاری ہے )
 
حلالہ
خان بھائی ، غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے بولا :
’’ ہم اپنا مفتی کو گولی مار دے گا ۔ اس ۔۔۔ نے ہم کو دھوکا میں رکا ( رکھا ) ۔ اس نے ہمارا بیوی کا حلالہ کیا ، ہم صبر کیا کیونکہ شریعت کا مسئلہ تھا ۔ اب ہم صبر نہیں کرے گا ۔ وہ ، ہم کو پاگل بنائے رکا ( رکھا ) ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن نے ’’ انا اﷲ وانا الیہ رجعون ! ‘‘ ، پڑھتے ہوئے کہا :
حلالہ کرنے یا کروانے والا لعنتی ہے ۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ حلالہ کرنے والے اور کرانے والے پر اﷲ نے لعنت کی ہے ‘‘ ، ( ابو داود : ۲۰۷۶ ) ۔
سیدنا عمر فاروقؓ کہتے تھے : ’’ اگر میرے پاس حلالہ کرنے والے اور کروانے والے کو لایا گیا تو میں انہیں رجم کروں گا ‘‘ ، ( حلالہ کی چھری ، صفحہ : ۸۵ ) ۔
بد قسمتی سے ! اپنے آپ کو شیخ الا سلام ، مفتی اور علامہ کہلوانے والے مدرسوں اور مسجدوں میں حلالے کرواتے ہیں ۔ زیادہ تر مولوی دوسروں کی بہو ، بیٹیوں کا ہی حلالہ نکلواتے ہیں اپنی رشتہ داروں کا نہیں ۔
لاہور کا واقعہ ہے کہ : ’’ ایک مرید نے اپنے پیر کو چھرے سے قتل کر ڈالا ‘‘ ۔ اور جب جج کے پاس گیا ، اس نے کہا کہ : ’’ میں اقرار کرتا ہوں کہ اس پیر کو میں نے مارا ہے ‘‘ ۔ جج نے کہا کہ : ’’ کوئی نہ کوئی چکر ہے ایسے کوئی مجرم اقرار نہیں کرتا کہ میں نے قتل کیا ہے تو جو کہہ رہا ہے تیرے پیچھے کوئی کہانی ہے ‘‘ ۔ کہا : ’’ کہانی ہے یا نہیں ہے تم مجھے پھانسی لگاؤ ، میں نے اسے مارا ہے میں مانتا ہوں ‘‘ ۔ کہا : ’’ جب تک نہیں بتائے گا تجھے چھوڑوں گا نہیں ، بتا چکر کیا ہے ؟ ‘‘ اس نے کہا : ’’ چکر یہ ہے ، وہ میرا پیر تھا اور میں اس کے پاؤں چومتا تھا ۔ خود بھوکا رہتا تھا ، اسے پیٹ بھرنے کے لیے دیتا تھا ‘‘ ۔ ایک دن میں اس کے پاس بیٹھا تھا ، میری بیٹی روتی ہوئی آ گئی اور کہنے لگی : ’’ ابا جان ! ماری گئی ، برباد ہوگئی ‘‘ ۔ کہا : ’’ کیا ہوا ! ‘‘ کہا : ’’ میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی ہے ‘‘ ۔ تو میرا وہی پیر و مرشد تھا ، میں نے کہا : ’’ جناب پیر صاحب ! اب کیا ہو گا ؟ ‘‘ کہا : ’’ اب تو حلالہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا ‘‘ ۔ کہا : ’’ کس سے کراوں ؟ ‘‘ اس نے صفتیں گھنوائیں ، میں نے کہا : ’’ اتنی ساری صفتیں تو آپ ہی کے اندر ہیں ، پھر آپ ہی یہ کار خیر انجام دے دو ‘‘ ۔ اس نے کہا : ’’ میں حاضر ہوں ! ‘‘ کہا : ’’ میری بیٹی کا حلالہ ہوا ، اس نے دو راتیں رکھ کر چھوڑ دی ‘‘ ۔
کچھ عرصے کے بعد میں پیر صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، پیر کی اپنی بیٹی روتی ہوئی آ گئی ۔ پیر نے کہا : ’’ بیٹی کیا ہوا ، کیوں روتی ہو ؟ ‘‘ کہا : ’’ ابا جی ! ماری گئی ، لٹ گئی اور برباد ہو گئی ! ‘‘ کہا : ’’ کیا ہوا کیا ؟ ‘‘ کہا : ’’ ہونا کیا ہے ! خاوند نے طلاق دے دی ‘‘ ۔ کہا : ’’ کتنی دیں ؟ ‘‘ کہا : ’’ تین دیں ‘‘ ۔ کہا : ’’ بیٹی رونے کی کیا بات ہے ، وہ قرآن و حدیث پر عمل کرنے والوں کا مدرسہ ہے ۔ ان کے پاس جاؤ وہ تمہیں لکھ کر دے دیں گے کہ تین طلاق ایک ہوا کرتی ہے ‘‘ ۔ مرید کہتا ہے کہ : ’’ میری آنکھیں کھل گئیں ، یہ کیا ؟ ‘‘ جب میری بیٹی کو طلاق ہوئی تھی تو کہا تھا : ’’ کہ حلالہ ہو گا اور میں کروں گا ‘‘ ۔ اب تیری کو ہوئی ہے تو : ’’ میں حلالہ کروں گا ، مجھ سے کیوں نہیں کرواتا ۔ چھری لایا اور اپنے پیر کو کاٹ ڈالا ‘‘ ۔ اور جج کے سامنے کہا : ’’ میں نے ہی مارا ہے ۔ میرے لیے اور شریعت ہے ، اس کے لیے اور شریعت ہے ؟ ‘‘ ( ویڈیو لنک : )
ضعیف آدمی ، غصے سے بولا :
جعلی پیر اور جاہل مولوی بھی تو ہوتے ہی ہیں ، سب ایک طرح کے تو نہیں ہوتے نا ؟ امام مسجد بھی اپنی بیویوں کا حلالہ کرواتے ہیں ۔ ایک امام مسجد نے اپنی بیگم کا چھ ( Six ) مرتبہ حلالہ کروایا ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ تم کہو گے دلیل دو ، میں دلیل سے ہی بات کروں گا ۔ ویڈیو دیکھنے کے لیے یوٹیوب پر جا کر تلاش کرو : ’’ 6 Time Halala of a Masjid Imam's wife‘‘ ۔
بوڑھے شخص نے جب یہ واقعہ سنایا تو لوگ یک زبان پکار اٹھے :
’’ استغفر اﷲ، استغفر اﷲ ، استغفر اﷲاتنا ظالم شوہر ۔ ‘‘ عبدالرحمن کی آنکھوں سے زاروقطار آنسو بہہ رہے تھے ۔ اشکوں کی جھڑی اور رنجیدہ ہونے کے با وجود عبدالرحمن بول پڑا :
’’ کتاب و سنت کو چھوڑ کر قصے ، کہانیوں پر عمل کرنے کا یہ نتیجہ نکلتا ہے ۔ قرآن و حدیث کو ترک کر کے قول و قیاس کو ترجیع دینا ایسا رنگ لاتا ہے ‘‘ ۔
بد قسمتی سے ! مسلمانوں کو یہ بھی علم نہیں کہ : ’’ مسنون طلاق کا طریقہ کیا ہے ‘‘ ۔ حیض سے پاک ہونے کے بعد ، حالت طہر میں جب کہ بیوی سے صحبت بھی نہ کی ہو طلاق دینی چاہیے ۔ اﷲ تعالیٰ طلاق کے متعلق فرماتے ہیں : ’’ یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں ، پھر یا اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ‘‘ ، ( البقرۃ : ۲۲۹ ) یعنی پہلی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کو ( عدت کے اندر ) رجوع کا حق حاصل ہے ، تیسری دفعہ رجوع کی اجازت نہیں ۔ طلاق کے بعد خاوند تین حیض کی عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے ۔ جیسا کہ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں ، انہیں حلال نہیں کہ اﷲ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہواسے چھپائیں ، اگر انہیں اﷲ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو ، ان کے خاوند اس مدت میں انہیں لوٹا لینے کے پورے حق دار ہیں اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو ‘‘ ، ( البقرۃ : ۲۲۸ ) ۔
پہلی یا دوسری طلاق کے بعد ، عدت گزرنے کے بعد اگر سابقہ شوہر ، بیوی باہمی رضا مندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضا مند ہوں ‘‘ ، ( البقرۃ : ۲۳۲ ) ۔ تیسری بار اگر طلاق ہو جاتی ہے تو آدمی ، بیوی سے نکاح نہیں کر سکتا ، ہاں !اگر عورت کا کسی اور شخص سے نکاح ہونے کے بعد اتفاق سے طلاق ہو جائے یا وہ فوت ہو جائے پھر سابقہ بیوی سے نکاح کر سکتا ہے ۔
حلالہ کے عام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ : ’’ لوگ ایک مجلس میں دی گئیں تین طلاقوں کو تین ہی سمجھ لیتے ہیں جبکہ اگر کوئی ایک مجلس میں تین طلاقیں دے تو وہ ایک ہی ہوتی ہے ‘‘ ۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے ، حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ : ’’ رکانہ بن عبد یزید جن کا تعلق بنو مطلب سے تھا ، نے ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ‘‘ ۔ بعد میں انہیں اس پر انتہائی غم ہوا ۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ : ’’ تم نے کس طرح طلاق دی تھی ؟ ‘‘ انہوں نے عرض کیا کہ : ’’ میں نے اسے تین طلاقیں دے دی ہیں ‘‘ ۔ سید المرسلین ﷺ نے پوچھا : ’’ کیا ایک ہی مجلس میں تینوں طلاقیں دے دی تھیں ؟ ‘‘ عرض کیا : ’’ جی ہاں ! ‘‘ فرمایا : ’’ پھر یہ ایک ہوئی ، اگر چاہو تو تم اس سے رجوع کر سکتے ہو ‘‘ ۔ چنانچہ انہوں نے رجوع کر لیا ، ( مسند احمد : ۲۳۸۷ ) ۔ ضعیف آدمی بول پڑا :
’’ حضرت عمرؓ کے دور میں ایک مجلس میں دی گئیں تین طلاقوں کو تین ہی تصور کیا جاتا تھا‘‘ ۔ جبکہ آپ کہتے ہیں : ’’ ایک مجلس میں دی گئیں تین طلاقیں ، ایک ہی ہوتی ہے ؟ ‘‘
عبدالرحمن :
حضرت عمرؓ نے یہ حکم اس لیے نافذ کیا تھا کہ : ’’ کثیر التعداد لوگ غور و فکر کیے بغیر طلاقیں دینے لگ گئے تھے جبکہ قرآن و حدیث سے واضح ہے کہ یہ معاملہ بڑا سوچ ، سمجھ کے کرنا چاہیے ۔ تو حضرت عمرؓ نے یہ حکم نافذکیا تاکہ لوگ اس مسئلے میں صبر و تحمل سے کام لیں ۔ ‘‘ جیسا کہ سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ : ’’ رسول اﷲ ﷺ کے زمانے ، حضرت ابوبکرؓ کے عہد اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دو برسوں میں تین طلاق کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا ‘‘ ۔ لیکن حضرت عمرؓ نے فرمایا : ’’ جس معاملے ( یعنی طلاق ) میں لوگوں کو سوچ بچار سے کام لینا چاہیے تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں ، لہٰذا ہم کیوں نہ اس کو نافذ کر دیں ، چنانچہ آپ نے اس کو ان پر نافذ کر دیا ‘‘ ، ( مسلم : ۳۴۹۱ ) ۔
حضرت عمرؓ نے یہ فتوی بطور سزا دیا تھا ، چنانچہ : ’’ آخری ایام میں انھیں اس بات کا احساس بھی ہوا کہ مجھے بطور سزا بھی یہ قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا جس پر انھوں نے اظہار ندامت بھی کیا ‘‘ ، ( ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل ، صفحہ : ۴۹ ) ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ : ’’ حضرت عمرؓ نے جو کہا وہ نبی کریم ﷺ کی حدیث سے اوپر نہیں ہے ‘‘ ، ( یوٹیوب : Teen talaq aur halala - Tripple Talaq by Dr Zakir Naik Urdu) ۔ خان صاحب ایک بار پھر طیش میں آ گئے ، کہنے لگے :
’’ اب تو ہم اپنا مفتی کو کاٹ ڈالے گا ‘‘ ۔ ہم اسے کہا کہ : ’’ ہم اپنا بیوی کو تین طلاق ایک ساتھ دے دیا ، اب کیا حل ہے ؟ ‘‘ اس نے کہا : ’’ حل نہیں ، حلالہ ہے ‘‘ ۔ ہم پوچھا : ’’ حلالہ کس چڑیا کا نام ہے ؟ ‘‘ اس نے کہا : ’’ شریعت کا مسئلہ ہے کہ تمہارا بیوی ایک ، دو رات کسی مرد کے ساتھ رہے گا پھر وہ اسے طلاق دے گا پھر وہ تم پر حلال ہو جائے گا ( گی ) ۔ ہا ں ! اگر چاہو تو میں خدمت ( یعنی حلالہ ) کے لیے حاضر ہوں ‘‘ ۔ ہم بیوقوف کو کیا معلوم کہ مفتی ، مفت میں ہی کام کر گیا ۔ ہم اسے قتل کر دے گا ، ہم نہیں چھوڑے گا ۔ عبدالرحمن ، سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے :
’’ خان بھائی ! آپ نے پوری دنیا تک حق بات پہنچانی ہے ۔ اگر آپ اسے قتل کر دیں گے تو سمجھائیں گے کیسے ؟ ‘‘
’’ دیکو ( دیکھو ) ! ہم دماغ والا بندہ کو سمجھائے گا ، وہ تو بیوقوف ہے ‘‘ ، خان نے جواب دیا ۔
عبدالرحمن :
’’ اس میں دماغ ہے لیکن وہ اسے قرآن و حدیث کے مطابق استعمال نہیں کر رہا ۔ آ پ ، اسے بتائیں کہ کتاب و سنت پر عمل کرو ورنہ دنیا و آخرت میں بے عزت ہو جاؤ گے ۔ ‘‘
خان صاحب :
’’ ٹیک ( ٹھیک ) ہے ! ہم اسے سمجھائے گا اگر اسے سمجھ نہ آیا تو دوسرا طریقہ سے بتائے گا ۔ ‘‘
( جاری ہے )
 
قبولِ حق
لوگ اتنے خوش تھے کہ جیسے کامیاب و کامران ہو گے ۔ اور ہم باغ باغ ( Glad ) کیوں نہ ہوں ، ہمیں شرک و تقلید سے پاک اور کتاب و سنت پر مبنی راستے کی پہچان ہوگئی ۔ ہمارے دل شاد کیوں نہ ہوں ، ہمیں بدعات سے چھٹکارا مل گیا اور سنتوں سے واقفیت ہو گئی ۔ ہم راضی کیسے نہ ہوں ، ہمیں نمازِ نبوی ﷺ اور طلاق کا درست طریقہ معلوم ہو گیا ۔ عبدالرحمن نے پوچھا :
’’ میرے بھائیوں ! آپ سب باتیں سمجھ گئے ہیں نا ؟ ‘‘
’’ ہم سمجھ گئے ہیں ، تمام لوگوں نے جواب دیا مگر ضعیف آدمی خاموش رہا ۔ ‘‘
عبدالرحمن نے سنجیدگی سے سوال کیا :
’’ بابا جی ! اگر آپ کوئی بات سمجھنا چاہتے ہیں تو بتائیں ؟ ‘‘
بوڑھا شخص غصے اور زور سے بولا :
’’ میں برادری اور اپنے باپ ، دادے کا عقیدہ کیوں چھوڑوں ؟ بڑا آیا تو قرآن و حدیث والا ، تمہیں معلوم ہے کہ تم جنتی ہو ؟ قیامت کو فیصلہ ہو جائے گا کہ کون سچا تھا ۔ جاؤ ! میں نہیں مانتا تم کو ۔ ‘‘
عبدالرحمن :
’’ حد ہو گئی ! ‘‘ بابا جی ! اگر آپ غلط عقیدے پر جمے رہیں گے تو صرف آپ کا نقصان ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی آپکی آل و اولاد کا بھی خسارہ ( Loss ) ہو جائے گا ۔ کیونکہ آپ کے کنبے ( Family ) کے لوگ بھی یہی کہیں گے کہ : ’’ میں برادری اور اپنے باپ ، دادے کا عقیدہ کیوں چھوڑوں ؟ ‘‘ حالانکہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ : ’’ مشرک کا ہر دور میں ہی یہی جواب رہا ہے کہ ہمارے باپ دادا ایسے کرتے تھے اور ہم ان کی پیروی کریں گے ‘‘ ۔ کیا قوم و برادری قیامت کو آپ کی مدد کر سکے گی ؟ قبول حق سے ہمارا اپنا ہی فائدہ ہے ، اگر ہم باطل پر ہی قائم رہیں گے تو اﷲ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ۔
سچائی کو قبول نہ کرنا کوئی سمجھ داری نہیں ہے بلکہ حق نہ قبول کرنے والوں کے لیے درد ناک عذاب کی وعید ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اﷲ سے ڈر ، تو اپنے وقار کا خیال اس کو گناہ پر جما دیتا ہے ۔ ایسے شخص کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے ‘‘ ، ( البقرۃ : ۲۰۶ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اور اعلان فرما دیجئے ! کہ یہ سراسر بر حق قرآن تمہارے رب کی طرف سے ہے ۔ اب جو چاہیے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے ۔ ظالموں کے لیے ہم نے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں انہیں گھیر لیں گی ۔ اگر وہ فریاد رسی چاہیں گے تو ان کی فریاد رسی اس پانی سے کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہو گا جو چہرے بھون دے گا ، بڑا ہی برا پانی ہے اور بڑی بری آرام گاہ ( دوزخ ) ہے ‘‘ ، (الکہف : ۲۹ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اﷲ تعالیٰ پر جھوٹ بولے ؟ اور سچا دین جب اس کے پاس آئے تو اسے جھوٹا بتائے ؟ کیا ایسے کفار کے لیے جہنم ٹھکانا نہیں ہے ؟ ( الزمر : ۳۲ )
حق کو قبول کرنے والوں کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور جو سچے دین کو لائے اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ پرہیز گار ہیں ۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس ( ہر ) وہ چیز ہے جو یہ چاہیں ، نیک لوگوں کا یہی بدلہ ہے ‘‘ ، ( الزمر : ۳۳ تا ۳۴ ) ۔ الرحمن مزید فرماتے ہیں : ’’ یقیناًتمہاری کوشش مختلف قسم کی ہے ۔ جس نے دیا ( اﷲ کی راہ میں ) اور ڈرا ( اپنے رب سے ) اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہا ۔ تو ہم بھی اسکو آسان راستے کی سہولت دیں گے ‘‘ ، ( اللیل : ۴ تا ۷ ) ۔
حق کو قبول کرنے والوں کو اﷲ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں کامیاب کر دیا اور باطل پر جمے رہنے والوں کو اﷲ پاک نے دونوں جہان میں ذلیل و رسوا کر دیا ۔ مثال کے طور پر : ’’ حضرت بلالؓ ، امیہ بن خلف کے غلام تھے ۔ جب حق بات کا علم ہوا تو کسی کی پروا نہ کرتے ہوئے اسلام قبول کر لیا ۔ قبولِ اسلام کے جرم میں کفار سیدنا بلالؓ کو گرم ریت پر لٹاتے ، رسی گلے میں ڈال کر گلیوں میں گھسیٹے ، بھوکا رکھتے اور سخت دھوپ میں سینے پر پتھر رکھ دیتے ‘‘ ۔ لیکن حضرت بلالؓ احد احد کی صدا بلند کرتے ۔ حتی کہ سیدنا ابو بکرؓ نے انہیں خرید کر اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے آزاد کر دیا ۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے کامیاب کیا کہ : ’’ فتح مکہ کے موقع پر بیت اﷲ کی چھت پر چڑھ کر اذان دی ، جن کے چلنے کی آواز نبی پاک ﷺ نے جنت میں سنی اور جو غلام سے سردار بن گئے ۔ ‘‘
دوسری طرف عمرو بن ہشام جو سردار تھا ۔ وہ اس قدر ذہین تھا کہ لوگ اسے ابوالحکم یعنی دانائی کا باپ کہتے تھے ۔ جب سید المرسلین ﷺ نے دین حق کی دعوت دی تو اس نے مسلمانوں اور نبی پاک ﷺ کو تکلیفیں پہنچانا شروع کردیں ۔ تکبر و غرور کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کیا تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ یہ ابو جہل ہے یعنی جہالت کا باپ ہے ‘‘ ۔ ابو جہل کو جنگ بدر میں دو نو عمر جوانوں نے جہنم واصل کر دیا ۔
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : ’’ اور ( دوزخی ) کہیں گے کہ اگر ہم سنتے ہوتے یا عقل رکھتے ہوتے تو دوزخیوں میں ( شریک ) نہ ہوتے ۔ پس انہوں نے اپنے جرم کا اقبال کر لیا ۔ اب یہ دوزخی دفع ہوں ( دور ہوں ) ‘‘ ، ( الملک : ۱۰ تا ۱۱ ) ۔ ضعیف آدمی کی آنکھوں سے قطار در قطار آنسو ٹپکنے لگے اور وہ بول پڑا :
’’ بس کرو بیٹا ، بس کرو ! میں ہار گیا اور تم جیت گئے ۔ میں نے ساری زندگی قرآن و حدیث کی مخالفت ہی کی ہے ۔ برادری کے پیچھے لگ کر میں اندھا ہی ہو گیا اور کتاب و سنت کی بھی پروا نہیں کی ۔ میں توحید و سنت کی دعوت سننا پسند ہی نہیں کرتا تھا اور شرک و تقلید کو ہی اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا تھا ۔ سنت نبوی ﷺ کو چھوڑ کر بدعات کو سینے سے لگاتا رہا ۔ میں عاشق رسول ﷺ ہونے کے دعوے تو بہت کرتا تھا لیکن نماز نبی کریم ﷺ کے طریقے کے مطابق پڑھنا گوارہ نہ تھا ۔ اگر کوئی اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ کی بات کرتا تو عقلی دلائل دے کر اسے بات ہی نہ کرنے دیتا ۔ کیا اﷲ تعالیٰ مجھ جیسے ظالم کو معاف فرما دے گا ؟ ‘‘
عبدالرحمن خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بولا :
بابا جی ! اگر آپ سچی توبہ کریں تو اﷲ پاک خطاوں کو نیکیوں میں تبدیل فرما دے گا کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’مگر جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اﷲ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے ، اﷲ تعالیٰ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے ۔ اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وہ تو (حقیقتاََ ) اﷲ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے ‘‘ ، ( الفرقان : ۷۰ تا ۷۱ ) ۔ اﷲ پاک مزید فرماتے ہیں : ’’ ( میری جانب سے ) کہہ دو کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اﷲ تم اﷲ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ ، بالیقین اﷲ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے ، واقعی وہ بڑی بخشش اور بڑی رحمت والا ہے ‘‘ ، ( الزمر : ۵۳ ) ۔
’’ میں کچھ پوچھ سکتا ہوں ، پیر بخش نے کہا ۔ ‘‘
’’ ضرور پوچھیں ، عبدالرحمن مسکراتے ہوئے ۔ ‘‘
پیربخش :
آپ نے کہاکہ: ’’ آپ کا نام عبدالنبی تھا ۔ آپ کو خبر ملی کہ مشرکین مکہ بھی ایسے ہی نام رکھتے تھے تو آپ نے نام بدل کر عبدالرحمٰن رکھ لیا ‘‘ ۔ ناموں متعلق کچھ بتا دیں کہ کیسے نام رکھنے چاہیے؟
عبدالرحمن :
نام رکھنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ : ’’ اﷲ پاک کے اسماء حسنیٰ کی طرف نسبت کر کے ، نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ یا اولیاء اﷲ کے ناموں پر نام رکھے جائیں ۔ ‘‘
بد قسمتی سے ! مسلمانوں نے بھی مشرکین مکہ کی طرح ہی نام رکھنے شروع کردیے ۔ جیسا کہ : ’’ ابو لہب کا اصل نام عبدالعزہ تھا ( یعنی عزہ کا بندہ ، عزہ ایک بت کا نام تھا ) ‘‘ ۔ مسلمانوں نے بھی شرکیہ نام رکھے ، مثلاََ : ’’ پیراں دتہ ، پیر بخش اور علی بخش وغیرہ ‘‘ ۔
’’ بیٹا ! اب میں اپنا نام کیا رکھوں ؟ بوڑھے شخص نے سوال کیا ۔ ‘‘
’’ پہلے آپ کا نام کیا ہے ؟ عبدالرحمن نے پوچھا ۔ ‘‘
’’ پیراں دتہ ، ضعیف آدمی بولا ۔ ‘‘
’’ آپ اﷲ دتہ رکھ سکتے ہیں ، عبدالرحمن نے کہا ۔ ‘‘
’’ مجھے بھی کوئی نام بتا دیں ؟ پیر بخش ۔ ‘‘
’’ آپ اپنا نام اﷲ بخش رکھ لیں ، عبدالرحمن نے جواب دیا ۔ ‘‘
’’ کثیر التعداد لوگوں نے جن کے نام شرکیہ تھے ، تبدیل کر لئے ‘‘ ۔ عوام الناس کی آنکھوں سے ضبط کی کوشش کے باوجود آنسو ٹپک رہے تھے ۔ تمام لوگوں نے وعدہ کیا کہ وہ قرآن و حدیث پر خود بھی عمل کریں گے اور اس کا پیغام دوسروں تک بھی پہنچائیں گے ۔
’’ آپ اپنا موبائل نمبر دے دیں تاکہ ہم رابطہ کر کے دینی سوال کر سکیں ، اﷲ بخش نے کہا ۔ ‘‘
عبدالرحمن مسکراتے ہوئے :
’’ یہ تو بہت ضروری ہے ، جزاک اﷲ خیر‘‘ ۔ بھائیوں ! میرا موبائل نمبر لکھ لو ، جسے لکھنا نہیں آتا وہ بعد میں اﷲ بخش سے نمبر لکھوا لینا ۔ کسی قسم کا کوئی بھی مسئلہ ہو آپ ، مجھ سے پوچھ سکتے ہیں ۔ ’’ 0336-4236117‘‘ ، میرا موبائل فون نمبر ہے ۔ ٹھیک ہے میرے بھائیوں ! ان شاء اﷲزندگی رہی تو پھر ملیں گے ۔ اگر میں نے کسی کا دل دکھایا ہو تو معذرت خواہ ہوں ۔ السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ کہہ کر موٹر سائیکل پر بیٹھ کر چلے گئے ۔ تھوڑی ہی دیر میں لوگ منتشر ہو گئے ۔
ختم شد
 
Top