کرکٹ کےجواری محمد عامر کی واپسی

تاریخ:13 مئی ، 2015
کرکٹ کےجواری محمد عامر کی واپسی
تحریر: سید انور محمود

کرکٹ کا کھیل اس کرۂ ارض پر سو سال سے زائد بہاریں دیکھ چکا ہے۔ جو کرکٹ کو واقعی سمجھتا ہے، صرف وہی جانتا ہے کہ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جو آپ کو ہر ہر لمحے محظوظ کرے گا۔ایک بلے باز کا میدان میں بلا گھماتے ہوئے داخل ہونا، پھر گارڈ لینے اور کھیلنے کے لیے تیار کھڑے ہونے کا اپنا انوکھا انداز، جو بلے بازی کو پسند کرتے ہیں اور اس کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں، اُن کے لیے اس پورے عمل کا ایک ایک لمحہ لذت آمیز ہے۔ اس کے بعد جب کھیل کا آغاز ہوتا ہے اور بلے باز اپنی تکنیکی مہارت کا مظاہرہ کرتا ہے، چاہے دفاعی انداز میں کلائی کا استعمال ہو یا جارحانہ انداز سے بلا گھمانا، ہر انداز ایک ناقابل بیان لذت کا احساس دیتا ہے۔دوسری طرف گیند بازی اپنے اندر ایک الگ قسم کی خوبصورتی سموئے ہوئے ہے۔ تیز گیند باز ہو، یا بلے باز کو اپنی انگلیوں کے ذریعے نچانے والا اسپن گیندباز، گیند لے کر ان کا دوڑنے اور گیند پھینکنے کا مرحلہ تو ہیجان خیز ہے ہی لیکن ٹپہ پڑنے کے بعد گیند کس طرح بلے باز کو دھوکا دیتی ہے، یہ سب بھی شائقین کرکٹ کے لیے لذت بے شمار ساماں لیے ہوئے ہیں۔

شرفاء کا کھیل کرکٹ اب سٹہ بازوں اور جواری کھلاڑیوں کی وجہ سے مشکوک کھیل بن گیا ہے۔ دولت کی چمک،میچ کی آمدنی میں سے کھلاڑیوں کے حصے اور میچ کھیلنے کی بڑھتی ہوئی تعداد نے کرکٹ کو ایک تجارت بنا دیا ہے ۔کرکٹ کی اقدار کو زندہ رکھنے والے کمیاب ہیں ۔سابق پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر 2010ء میں انگلینڈ دورے کے دوران سپاٹ فکسنگ ثابت ہونے پر نہ صرف پابندی کا شکار ہو گئے تھے بلکہ تینوں نے برطانیہ کی جیل میں سزا بھی کاٹی تھی۔جب تین کھلاڑیوں کو سپاٹ فکسنگ میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو، سابق کرکٹرسرفراز نواز کا کہنا تھا کہ “پچھلے کئی سالوں سے کرکٹ ٹیم اور انتظامیہ، اخلاقی ریا کاری کا نمونہ بنی رہی ہے۔” 1994-95ءمیں پاکستانی دورہ کے دوران آسٹریلیا کی ٹیم ایک صفر سے سیریز ہار گئی تو آسٹریلوی کھلاڑیوں شین وارن، ٹم مے اور مارک وا ہ نے الزام لگایا کہ پاکستانی کپتان سلیم ملک نے انہیں ٹیسٹ اور ون ڈے میں بری باوُلنگ کروانے کے لئے رشوت کی پیش کش کی تھی ۔ شرفاءکےکھیل کرکٹ میں جواءبازی اور میچ فکسنگ کے الزامات کا جواب جسٹس محمد قیوم جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں موجود ہے ۔یہ انکوائری 1999ءمیں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو ماجد خان کے خط کی بنیاد پر کروائی گئی تھی ۔ جسٹس قیوم جوڈیشل کمیشن رپورٹ کے مطابق پی سی بی کے سابق چیف ایگزیکٹو ماجد خان ، جاوید برکی ، سابق کپتان عمران خان ،جاوید میاں داد ،سابق کوچ انتخاب عالم ،ہارون الرشید ،راشد لطیف ،عامر سہیل اور عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ میچ فکسنگ کی لعنت کرکٹ میں اپنی جگہ بنا چکی ہے ۔اسی قسم کے الزامات آسٹریلوی کھلاڑیوں کے خلاف بھی موجود ہیں ۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی کافی کوشیشوں کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بالاخر اسپاٹ فکسنگ کے الزام میں پابندی کے شکار پاکستانی فاسٹ بولر محمد عامر کو ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے دی۔ تاہم اُن کے دو ساتھیوں سلمان بٹ اور محمد آصف کو ابھی مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ آئی سی سی کا کہناہے کہ اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ رونی فلینگن نے آئی سی سی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی منظوری کے بعد اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے محمد عامرکو اجازت دے دی ہے کہ وہ ڈومیسٹک مقابلوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ دو ستمبرکو عامرپر لگی پابندی کے خاتمے کے بعد پی سی بی عامر کی ٹیم میں شمولیت کے حوالے سے فیصلہ کرے گی۔ بائیں ہاتھ کے فاسٹ بولرنے گزشتہ ماہ پیٹرنز ٹرافی میں شرکت کر کے 22 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ محمد عامر نے ڈومیسٹک ٹی20مقابلے میں راولپنڈی ریمز کی نمائندی کر کے پابندی کے بعد پہلی مرتبہ مسابقتی کرکٹ میں شرکت کی۔ عامر کا کہنا ہے کہ میری توجہ آئندہ سال ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کیلئے قومی ٹیم میں واپسی پر مرکوز ہے۔ لیکن ایک سوال یہ ہے کیا محمد عامر کو پاکستانی کرکٹ ٹیم میں دوبارہ شامل کیا جائےیا نہیں ؟ اس سوال کا جواب ہاں اور نہیں دونوں میں ہے ۔ محمد عامرکو آئی سی سی کی جانب سے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دیے جانے پر پاکستان کے سابق کرکٹرز تقسیم دکھائی دیتے ہیں۔

سابق پاکستانی کپتان رمیز راجہ جو آجکل سپورٹس چینلز کے لیے کمنٹری کرتے ہیں انہوں نے کرک انفو ویب سائٹ پر ایک مضمون میں محمد عامر کی واپسی کیلئے کوشش کرنے والی لابی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ عامر کی واپسی کی صورت میں کرکٹ ٹیم ’وائرس‘ یعنی سپاٹ فکسنگ کے خطرات سے ایک بار پھر دوچار ہو سکتی ہے۔ رمیز راجہ نے اپنے کالم میں ذکر کیا کہ کس طرح 1990ء میں سپاٹ فکسنگ میں کرکٹ کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے ان کو تجربہ ہوا۔ اس وقت ایک سکینڈل سامنے آیا جس کے نتیجے میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلیم ملک پر تاحال پابندی عائد کر دی گئی جبکہ سابق کپتان وسیم اکرم اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے موجودہ کوچ وقار یونس سمیت دیگر چھ نمایاں کھلاڑوں پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ رمیز راجہ نے سوال کیا کہ ’کیا ان کھلاڑیوں کو اس ’’وائرس‘‘ کی زد میں لانا چاہیے جنھوں نے سخت محنت کر کے اپنے لیے راستہ بنایا اور اب وہ ایک ایسے شخص کے لیے جگہ چھوڑ دیں جس کا کردار اب بھی مشکوک ہے۔ یہ اُن کارکردگی دکھانے والوں کے ساتھ کتنی ناانصافی ہو گی۔‘

پاکستان کے سابق فاسٹ بولراور متحدہ عرب امارات کے ہیڈ کوچ عاقب جاویدکا کہنا ہے کہ محمد عامر دھوکے باز ہے۔میں اس جیسے کرپٹ شخص سے بات کرنا پسند نہیں کروں گا۔پی سی بی جو چاہے کرے۔میں کسی ایسے کرپٹ شخص کی حمایت نہیں کروں گا۔جس نے ملک کو بیچا اور اب پارسا بن کر پاکستان ٹیم میں واپسی کے لئے پر تول رہا ہے۔عاقب جاوید نے بتایا کہ2010ء میں انگلینڈ کی سیریز میں میں بولنگ کوچ تھا اور نیٹ پر عامر اکثر بڑی بڑی نوبال کراتا تھا ۔ میں نے اُس سے دریافت کیا کہ تم کیا کررہے ہو تو محمد عامر کہتا عاقب بھائی میرا پاوں کنٹرول میں نہیں آرہا ہے۔میں محمد عامرکوبولنگ رن اپ درست کراتا رہا مجھے علم نہیں تھا کہ وہ اسپاٹ فکسنگ کے لئے سارا ڈرامہ رچا رہا ہے۔عاقب جاوید نے کہا کہ محمد عامر کا انجام بہت سارے لوگوں کے لئے نشان عبرت ہے۔انہوں نے کہا کہ جو فاسٹ بولر اپنے بولنگ کوچ کو دھوکے دے اُس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔

سابق کپتان وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ عامر کو غلطی کی سزا مل گئی اب اُسے کیریئر دوبارہ شروع کرنے سے نہیں روکنا چاہیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بڑے بڑے لوگوں نے بڑے بڑے جرم کیے، سزائیں بھگتیں اور دوبارہ زندگی شروع کی۔ عامر نے آئی سی سی کی ویڈیو میں اپنے کیے کی معافی بھی مانگ لی ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم بحیثیت قوم محمد عامرکو معاف کردیں اور ان کی آنے والی کرکٹ کی حمایت کریں۔ انہوں نے کرکٹ میں واپسی کے لیے درکار آئی سی سی کی تمام شرائط بھی پوری کر دی ہیں۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر راشد لطیف کا کہنا ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنا محمد عامر کا حق ہے جسے چھینا نہیں جاسکتا لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنا پاکستان اور خود محمد عامر کے لیے آسان نہ ہوگا کیونکہ انہیں ان شائقین اور حریف کھلاڑیوں کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا جو انہیں معاف کرنے کےلیے تیار نہیں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کیا محمد عامر کو قبول کرلے گی؟ اس سوال پر راشد لطیف کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کرکٹ بورڈ محمد عامر کو ٹیم میں شامل کرے گا تو کوئی کیسے اعتراض کر سکے گا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیرمین لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) توقیر ضیا بھی محمد عامر کی واپسی کے شدید مخالف ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ چیئرمین پی سی بی شہریار خان تسلیم کرچکے ہیں کہ موجودہ ٹیم میں محمد عامر کی واپسی پر تحفظات پائے جاتے ہیں۔ اگر آنے والے چند سالوں میں محمد عامر ٹیم میں واپس آتا ہے تو یہ بات لازمی ہے کہ وہ کسی ایک ہونہار گیندباز کی جگہ ہی پر آیگا، لیکن زیادہ افسوسناک بات یہ ہوگی کہ اگر وہ چل پڑا تو ٹھیک اور نہ چل پایا تو یہ سوال اٹھے گا کہ کہیں وہ اپنی پرانی روش پر تو نہیں لوٹ گیا ہے اورایسا ممکن بھی ہوسکتا ہے کہ ایک بار پھر وہ پیسہ لیکر اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہوجائے۔ بہتر ہوگا کہ محمد عامر کو ڈومیسٹک کرکٹ تک ہی محدود رکھا جائے تاکہ باقی کھلاڑی اس ’’وائرس‘‘ یعنی سپاٹ فکسنگ کی زد میں نہ آسکیں، پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں لہذا کرکٹ کے جواری محمد عامر کی پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں واپسی پاکستان کرکٹ کےلیے نقصان دہ ہوگی۔
 

ظفری

لائبریرین
یہ تو بلکل ایسا ہی ہے کہ راہ سے بھٹکا ہوا کوئی شخص شرافت کی زندگی گذارنا چاہے تو معاشرہ اسے صرف اس بات پر رد کر دے کہ اس کا ماضی داغدار تھا ۔ یعنی کہ جو بدمعاش ہے وہ بدمعاش ہی رہے ۔ حد ہوگئی ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ تو بلکل ایسا ہی ہے کہ راہ سے بھٹکا ہوا کوئی شخص شرافت کی زندگی گذارنا چاہے تو معاشرہ اسے صرف اس بات پر رد کر دے کہ اس کا ماضی داغدار تھا ۔ یعنی کہ جو بدمعاش ہے وہ بدمعاش ہی رہے ۔ حد ہوگئی ۔
اور ایسا بھی ہے کہ عدالت کسی کو پانچ سال کی سزا دے جب کہ آپ عدالت کی سزا کو عمر قید بنا دیں ۔
 
اس جواری کو ٹیم سے باہر رکھنا ہی بہتر ہوگا۔ ویسے بھی یہ کوئی غیر معمولی کھلاڑی تو ہے نہیں کہ اس کے نہ ہونے سے ٹیم کی کارکردگی پر کچھ اثر پڑے۔
 

x boy

محفلین
فرد واحد کی بات ہو، اسی تک یا کم لوگوں کو اس سے نقصان ہوا ہو، معافی الحمدللہ مل جانی چاہیے،
اگر ملک ، قوم ، ثقافت کی ترجمانی کرنے والا بے ایمان ہو تو سزا ملنی چاہئے سزا ملنے کے بعد
اس کو سدھرنے کا موقع ملنا چاہئے، لیکن اس کو دوبارہ قوم و ملت کی ترجمانی کے لئے چننا
ملک، قوم ثقافت سے بے ایمانی ہے۔
مجھے پتا ہے کہ بہت سے لوگ مجھ سے غیر متفق ہو، ناپسندیدہ ہو، لیکن یہی سچ ہے اور سچ ہی کڑوا ہوتا ہے
لیکن اس سچ کے ثمرات میٹھےبعد میں آتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
آپ میں سے جو بھی اس مضمون پر ناراض ہورہا ہے یا تنقید کررہا ہے وہ اپنی جگہ صیح ہے۔ یقینا آپ عامر کے سپاٹ فکسنگ کو آصف زرداری یا نواز شریف کی کرپشن کے سامنے بہت معمولی سمجھ رہے ہونگے بلکل صیح بات ہے لیکن یہ بھی تو صیح ہے کہ وہ سپاٹ فکسنگ میں ملوث تھا، اب آپ سوال کرسکتے ہیں کہ اس مضمون میں دوسروں کے کرپشن کا تو ذکر نہیں ہے تو یہ مضمون کرکٹ سے تعلق رکھتا ہے لہذا کرکٹ کی حد تک ہی رہا، جہاں تک سیاستدانوں اور دوسروں کی کرپشن ہے وہ سیاست کے شعبے میں آتی ہے ، آپ میں سے ہر ایک اس ویب سائٹ کے سیاست کے شعبے میں جائے اور میرئے نام سے سرچ کرلے آپکو میرئے بہت سے مضمون کرپشن کے خلاف ملینگے۔ آپکی عامر کے ساتھ ہمدردی قدرتی ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ وہ مظلوم ہے، کیا یہ ہمدردی آپ محمد آصف اور سلمان بٹ کے ساتھ بھی رکھتے ہیں، مجھے امید ہے ایسا نہیں ہوگا۔ اگر کل آصف زرداری یہ کہے کہ میں نے جو لوٹ مار کی ہے اُس پر معافی چاہتا ہوں تو کیا کریں معاف کردیں جی نہیں جناب ایسا ناممکن ہے مگر مشکل یہ ہے کہ یہ لوگ نام نہاد جمہوریت کے نام پر ہم پر مسلط ہوتے ہیں، لیکن کرکٹر کسی کے ووٹوں سے نہیں بلکہ پی سی بی انکا تقرر کرتی ہے۔ اب رہی یہ بات کہ میں یا آپ میں سے کسی سےکوئی غلطی ہوجاتی ہے تو اس کا اثر ملک و قوم پر نہیں ہوتا اور نہ ہی ملک بدنام ہوتا ہے، جب عامر، آصف اور سلمان بٹ برطانیہ کی جیل میں تھے تو کیا اور پاکستانی برطانیہ کی جیل میں نہیں تھے، یقینا ہونگے لیکن پاکستان بدنام ان تینوں کی وجہ سے ہوا۔ بہت سارئے پاکستانی سعودی جیلوں میں تھے اور ہیں، لیکن جب نواز شریف وہاں تھے تو ایک ٹیکسی ڈرایئور نے کہا تھا کہ نواز شریف تو علی بابا ہے مطلب نواز شریف چوروں کے سردار ہیں۔ تو کسی بھی مجرم کو چاہے وہ چور ڈاکو لٹیرئے کچھ بھی ہوں اسکو معاف نہیں کیا جاسکتا۔ باقی آپ لوگوں کی مرضی۔ایک اور ضروری بات کہ اس مضمون میں صرف چندالفاظ میرئے ہیں، سرفراز نواز نے کیا کہا یا وسیم اکرم نے کیا کہا میں نے صرف اسکو اس مضمون میں نقل کیا ہے، ایک اور بیان بھی پڑھ لیں جو رمیز راجہ کا ہے۔

http://www.arynews.tv/ud/archives/74339
دبئی: پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان رمیز راجہ نے محمد عامر کی دوبارہ کرکٹ میں واپسی کی مخالفت کردی، کہتے ہیں عامر کو ٹیم میں واپس نہیں لینا چاہیے۔

رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ جس کھلاڑی کا ماضی داغ دار ہو اسے ٹیم میں کیسے شامل کیا جاسکتا ہے، ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کردیتی ہے، سابق کپتان نے کہا کہ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کو دوبارہ ٹیم میں شامل کرنا درست نہیں۔ رمیز راجہ نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ عامر کو پسماندہ پس منظر سے آنے کی وجہ سے چھوٹ دے دی جائے پسماندہ حالات میں رہنے سے کسی کھلاڑیوں کو غیر قانونی کام کرنے کی اجازت نہیں مل جاتی اگر ایسا ہوتو پاکستان میں سیکنٹروں کھلاڑیوں کو سخت حالات کا سامنا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا محمد عامر کو دوبارہ ٹیم میں لانے کے مقاصد سمجھ سے بالا تر ہیں۔ عامر کی بحالی کے بعد اگر پھر ان سے نو بال ہوگئی تو دنیا پاکستان کو ایک بار پھر شکوک کی نظروں سے دیکھے گی۔
 

محمد محبوب

محفلین
عامر اپنے کیے کی معافی مانگ چکا ہے اور اسے اس کی پوری سزا مل چکی ہے۔ سزا بھگتنے کے بعد اس کی واپسی پر اعتراضات بلا جواز ہیں۔ اگر اس پر تاحیات پابندی ہوتی تو اس کی واپسی قابل اعتراض تھی۔
 

arifkarim

معطل
یہ تو بلکل ایسا ہی ہے کہ راہ سے بھٹکا ہوا کوئی شخص شرافت کی زندگی گذارنا چاہے تو معاشرہ اسے صرف اس بات پر رد کر دے کہ اس کا ماضی داغدار تھا ۔ یعنی کہ جو بدمعاش ہے وہ بدمعاش ہی رہے ۔ حد ہوگئی ۔
مغرب میں عموماً اور خاص طور پر امریکہ میں pedophiles کیساتھ یہی اسلوک کیا جاتا ہے۔ مکمل سزا کاٹنے کے بعد اور نفسیاتی تھیرپی کلئیر کرنے کے باوجود انکے ٹریک ریکارڈ کو صاف نہیں کیا جاتا۔ مطلب تضادات ہر طرف ہیں۔ یہ تو پھر پاکستان ہے۔
یقینا آپ عامر کے سپاٹ فکسنگ کو آصف زرداری یا نواز شریف کی کرپشن کے سامنے بہت معمولی سمجھ رہے ہونگے بلکل صیح بات ہے
یہ عجیب قوم ہے جسے جواری قومی کھلاڑیوں کی واپسی اور سدا بہار کرپٹ سیاست دانوں کا این آر او قبول ہے۔البتہ ایک زمانہ کا پلے بوائے جس نے پاکستان کو عالمی کرکٹ چیمپئن بنایا اور ملکی سیاست سے چوروں، لٹیروں کے خاتمہ کیلئے ایک کامیاب تحریک چلائی۔ وہ آج بھی طرح طرح کے الزامات میں گھرا ہوا ہے جن کا تعلق اسکے ماضی سے تھا ۔ الغرض ہمیں بڑے گناہگاروں کی معافی تو قبول ہے، چھوٹے گناہگاروں کی نہیں :)
 

x boy

محفلین
مغرب میں عموماً اور خاص طور پر امریکہ میں pedophiles کیساتھ یہی اسلوک کیا جاتا ہے۔ مکمل سزا کاٹنے کے بعد اور نفسیاتی تھیرپی کلئیر کرنے کے باوجود انکے ٹریک ریکارڈ کو صاف نہیں کیا جاتا۔ مطلب تضادات ہر طرف ہیں۔ یہ تو پھر پاکستان ہے۔

یہ عجیب قوم ہے جسے جواری کھلاڑیوں کی واپسی، سدا بہار کرپٹ سیاست دانوں کا این آر او قبول ہے۔البتہ ایک پلے بوائے جس نے پاکستان کو عالمی کرکٹ چیمپئن بنایا اور قومی سیاست سے چوروں، لٹیروں کے خاتمہ کیلئے ایک کامیاب تحریک چلائی۔ وہ آج بھی طرح طرح کے الزامات جن کا تعلق اسکے ماضی تھا گھرا ہوا ہے ۔ الغرض ہمیں بڑے گناہگاروں کی معافی قبول ہے، چھوٹے گناہگاروں کی نہیں :)
عمران خان صاحب کو " پلے بوائے " کیوں کہا
پلے بوائے خان صاحب کا ذاتی معاملہ ہے ،،،،
محمد آصف کا معاملہ وینا ملک کے ساتھ کیا تھا اس کو ہر کوئی درگزر کرتا ہے چرس رکھنے کے جرم میں گرفتار ہوا تھا اس کا اپنا فعل ہے
لیکن قوم وملت کو لیڈ کرنا اجتماعی معاملہ ہے۔
 

x boy

محفلین
عامر اپنے کیے کی معافی مانگ چکا ہے اور اسے اس کی پوری سزا مل چکی ہے۔ سزا بھگتنے کے بعد اس کی واپسی پر اعتراضات بلا جواز ہیں۔ اگر اس پر تاحیات پابندی ہوتی تو اس کی واپسی قابل اعتراض تھی۔

سزا بھگت لی ، معافی ہوگئی یہاں تک ٹھیک ہے۔
 

عثمان

محفلین
یہ تو بلکل ایسا ہی ہے کہ راہ سے بھٹکا ہوا کوئی شخص شرافت کی زندگی گذارنا چاہے تو معاشرہ اسے صرف اس بات پر رد کر دے کہ اس کا ماضی داغدار تھا ۔ یعنی کہ جو بدمعاش ہے وہ بدمعاش ہی رہے ۔ حد ہوگئی ۔
نہیں. یہ ایسا ہے کہ ایک ملازم کہیں چوری کرے۔ پکڑا جائے، سزا پوری کرے اور پھر اسی جگہ وہی ملازمت اختیار کر لے.
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اعتراض قومی ٹیم کی نمائندگی پر ہے نا کہ کرکٹ کھیلنے پر ؟
نمائندگی تو اپنے اپنے لیول پر سب ہی کر رہے ہوتے ہیں ٹیم اور باقی اسٹاف بھی ۔۔۔۔ اعتراض کی کوئی حقیقی بنیاد ہے نہیں ۔
یہ پروفیشنل کر کٹ ہے یہاں ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہر چیز کی ایک سزا ہوتی ہے حتی کہ امپائر سے معمولی بحث و تکرار پر بھی سزاآئے دن کھلاڑیوں کو ملتی رہتی ہے یہ مطلب نہیں کہ کھلاڑی پر غیر ضروری پابندیاں لگادی جائیں ۔
جہاں تک کھیل اور نمائندگی کا تعلق ہے تو وہ محض اہلیت کی بنیاد پر ہونی چاہیے خواہ کپتانی کی نمائندگی ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں پروفیشنل نتیجہ فیصلے کی بنیاد پر ہوتا ہے اور ہرجگہ سیمی فائنل اور فائنل جیتنے کمائی میں کافی فرق ہوتا ہے۔اور جیتنا ہی ہر ٹیم کا مقصد ہوتا ہے۔
 

عثمان

محفلین
نمائندگی تو اپنے اپنے لیول پر سب ہی کر رہے ہوتے ہیں ٹیم اور باقی اسٹاف بھی ۔۔۔۔ اعتراض کی کوئی حقیقی بنیاد ہے نہیں ۔
یہ پروفیشنل کر کٹ ہے یہاں ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہر چیز کی ایک سزا ہوتی ہے حتی کہ امپائر سے معمولی بحث و تکرار پر بھی سزاآئے دن کھلاڑیوں کو ملتی رہتی ہے یہ مطلب نہیں کہ کھلاڑی پر غیر ضروری پابندیاں لگادی جائیں ۔
جہاں تک کھیل اور نمائندگی کا تعلق ہے تو وہ محض اہلیت کی بنیاد پر ہونی چاہیے خواہ کپتانی کی نمائندگی ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں پروفیشنل نتیجہ فیصلے کی بنیاد پر ہوتا ہے اور ہرجگہ سیمی فائنل اور فائنل جیتنے کمائی میں کافی فرق ہوتا ہے۔اور جیتنا ہی ہر ٹیم کا مقصد ہوتا ہے۔
کوئی بھی ادارہ کسی بھی شخص کو دوبارہ کسی ایسی ذمہ داری پر بحال نہیں کرتا جہاں وہ پہلے بدعنوانی کے ضمن میں جیل جا چکا ہو۔ یہ بد عنوانی اس کے پروفیشنلزم اور اہلیت کو ختم کرتی ہے.
 

ابن رضا

لائبریرین
کوئی بھی ادارہ کسی بھی شخص کو دوبارہ کسی ایسی ذمہ داری پر بحال نہیں کرتا جہاں وہ پہلے بدعنوانی کے ضمن میں جیل جا چکا ہو۔ یہ بد عنوانی اس کے پروفیشنلزم اور اہلیت کو ختم کرتی ہے.
اور اگر اس ادارے کو اپنے مطلوبہ کام کی بطریق احسن تکمیل کے لیے متبادل پورے ملک میں ایک بھی نہ میسر ہو یا ایسا میسر ہو کہ جو اندھوں میں کانے راجے ہوں تو ایسے میں NRO جیسی اصطلاح ایجاد کر کے قاتلوں اور ڈاکوں کو اگر ملکی بھاگ دوڑ دوبارہ دی جا سکتی ہے تو پھر یہ تو بیچارا ایک ادنیٰ سا کرکٹر ہے۔ تو ٹیلنٹ کو مثبت سمت میں چینلائز کرنے کے لیے کچھ رعایت تو دینی ہی پڑتی ہے۔
 

محمد محبوب

محفلین
یا تو قانون بنا دیں جو کرکٹر عامر جیسی حرکت کرے گا اس پر تاحیات پابندی ۔ لیکن اگر سزا عمر بھر کی نہیں چند سال کی ہے جو وہ بھگت چکا تو پھر اسے کھیلنے کا پورا حق حاصل ہے یہ حق اسے قانون نے دیا ہے۔
کیا سزا یافتہ مجرم کو سزا پوری ہونے کے بعد رہا کر کے واپس اسی معاشرے میں نہیں بھیجا جاتا جہاں اس سے جرم سرزد ہوا تھا ؟
 

تہذیب

محفلین
عامر نے جو جرم کیا اس کی سزا بھگت چکا ہے ۔ اور وہ اپنے کیے پر شرمندہ بھی ہے۔ دوسرا موقعہ اس کو ملنا چاہیے۔
 
Top