جِنات ، ہمزاد، مؤکلات ، اظمار او نصابِ جفر کی حقیقت

ملک حبیب

محفلین
جنات ہمزاد، مؤکلات، اظمار اور نصابِ جفر کی حقیقت،،،،،،

در اصل جنات کی ایک قوم ہے جس میں خاص و عام، نیک و بد، عالم و جاہل سب موجود ہیں۔۔ یہ تخیل اور حقیقت صرف اسلام نے ہی بیان نہیں کی بلکہ اسلام سے ہزار ہا سال پہلے بھی آدمیوں میں یہ چرچا موجود تھا،، جنات کی کل آبادی اور حکومت کا ذِکر کرنے کے لئے ایک مستقل کتاب چاہئیے یہاں صرف ضروری معلومات ہی بیان کی جا رہی ہیں،،،،، تعریف جنات کی کچھ یوں ہے کہ

ھُوَ جسم ناریُٗ وَ مُتشکِلُٗ بہِ اشکالِ المختلفہ۔۔۔

یہ ناری عناصر کے غُلبہ میں پیدا شُدہ مخلوق ہے اور ہر شکل اختیار کر سکتی ہے اور ہر ملک میں ہر طرف آباد ہے ،،،یہ انسان کو بھی مختلف صورتوں میں نقصان پہنچاتے ہیں، کبھی مال کا نقصان، کبھی جان کا نقصان اور کبھی اولاد کا نقصان ۔۔
چونکہ ان کو انسان دیکھ نہیں سکتا جب تک وہ دکھلانا نہ چاہئیں اس لئے بد کردار جن نقصان دہ ہوتے ہیں کبھی آدمی کی جان پر بھی اس کا اثر ہو جاتا ہے جیسے قرآن شریف میں ہے کہ

یتخبطہُ الشیطٰنُ مِن المَس (البقرہ)
(جیسے کسی کو لِپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو)

اور کئی دوسرے موقعوں پر جنوں کی حرکات کا ذِکر کیا ہے اور حضرتِ سلیمانؑ کے قصہ میں اس کی تفصیل بھی ہے۔۔
جنات کو تابع کرنے کے قانونی دو طریقے ہیں ایک نورانی اور دوسرا ظلمانی،،،
نورانی اس طرح کہ اسماء اِلٰہی، آیاتِ قرآنی اور اس قِسم کے اذکار کی کثرت یا طریقہ سے جنوں پر اثر ہو اسطرح وہ حاضر ہوتے ہیں اور معاہدۂ تابعداری کرتے ہیں نیز ان کی پابندی سے جو جنوں کے مزاج کا مقتضا ہے اس پر کار بندی سے اُن کے ساتھ تعلق قائم رہتا ہے اور انسان اُن سے بعض کاموں میں امداد بھی حاصل کر سکتا ہے مگر جنات اس تابعداری کو پسند نہیں کرتے، اس لئے اُس عامل سے وہ دشمنی رکھتے ہیں اس کا مال خراب کرتے ہیں اس کی اولاد کو ضآئع کرتے ہیں اور نقصان پہنچاتے ہیں اور ایسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں کہ اِنسان کی زندگی خراب ہو جاتی ہے،،،،،،
دوسرا طریقہ ظلمانی طریقہ ہے یہ طریقہ اس طرح ہے کہ اسلام سے پہلے کے زمانے کے منتر اور ایسے کلمات مرتب شُدہ ہیں کہ جن کے باقاعدہ پڑھنے سے جنات اس عامل کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور خوش ہو کر حاضر ہوتے ہیں اور خِدمات بھی کرتے ہیں اور جو خدمت ان کو بتلائی جائے وہ بجا لاتے ہیں یہ طریقہ مِن قبیل جادو ہیں،،، اِن کے پڑھنے کے طریقے ،عمل کی تکمیل اور چِلے ایسے ہیں کہ جنات تابع ہو سکتے ہیں اور بعض طریقے ایسے ہیں کہ جنات کا بادشاہ بھی تابع ہو جاتا ہے،،، اِن اعمال کے علیحدہ علیحدہ طریقے ہیں ،،چالیس دِن ترکِ حیوانی کیساتھ ہر رات کو ویرانۂ جنگل میں بیٹھ کر پورا کرتا رہے،، اثنائے عمل میں جنات سانپ،اونٹ ،اور مست ہاتھی وغیرہ یعنی مختلف بہ صورت شکلوں میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں مگر عامل ایک لکیر (حِصار) اپنے گرد وظیفۂ متعینہ پڑھ کر کھینچ لیتا ہے اس لکیر سے اندر کوئی صورت اِن کی داخل نہیں ہوتی، اگرچہ لکیر کے قریب ہو کر بہت سخت ڈراتے ہیں،،، اکثر لوگ اس عمل سے ایسے وقت میں جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں،یا بیمار ہو جاتے ہیں،،،، ایک مولوی صاحب نے ایک شخص کو چِلے کی اِجازت دی وہ گوجر خان کا رہنے والا تھا اس بیوقوف نے مکان کی چھت پر بیٹھ کر وظیفہ پڑھنا شروع کر دیا،، ایک دِن بیٹھا وظیفہ پڑھ رہا تھا کہ تھوڑی نیند آ گئی اور آنکھیں بند ہو گئیں تو کیا دیکھتا ہے کہ دریا کا پانی تیز آ گیا ہے اور اس کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اس اضطراب میں وہ یہ سوچتا ہے کہ کود کر کشتی پر چڑھ جاؤں جب وہ کُودا تو مکان سے نیچے گِر پڑا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور اُس نے عمل سے توبہ کر لی۔۔
جب چالیس روز تک روزانہ کا عملِ متعینہ پورا ہو جائے تو جنات اپنی اصلی شکل میں سامنے آویں گے اور سوال کریں گے کہ کیا چاہئیے اس حد تک پہنچ کر دوسرے دِن ایک قینچی لکیر سے باہر رکھ کر وظیفہ پڑھنتے رہنا چاہئیے جنات آویں تو اُن کو حُکم دے کہ اپنے بدن کے بال کاٹ کر عامل کو دے دیں اور یہ معاہدہ ہو کہ جب بُلاوے جائیں تو حاضر ہوں،،،اب حاضر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تنہا جگہ بیٹھ کر وہی معمول کا وظیفہ پڑھے اور سامنے آگ رکھ کر وہ بال آگ کے نزدیک لے جائے تو جنات کا قاصد آ جائے گا اس کو جو حُکم دیں گے وہ خدمت انجام دے گا مگر جب تک عامل اس عمل کو رکھنا چاہے وہ اسی اصول کا پابند رہے ورنہ ہر عمل باطل ہو جائے گا،،،،اس عمل کو پورا کرنا اسلامی، رسولی(ص) احکام کی خِلاف ورزی روگردانی بلکہ مخالفت پر مبنی ہے پڑھنے کہ الفاظ ایسے ہیں کہ جن کے پڑھنے سے انسان کا ایمان نہیں رہتا،،،،مثلاً ایک منتر کا مضمون یہ ہے کہ۔۔۔۔

بہورا ہاتھی عمل عماری،،،،،جس چڑھ آئی پنج ہزاری
پنج ہزاری دی دہائی ہے،،سر چاون چوکی تیری آئی ہے۔۔۔

ہمزاد کیا ہیں،،،،،،!

اب واضح ہو کہ جنات کے علاوہ ہمزاد ایک اور چیز ہے جو اِنسان کی خدمت بھی کر سکتی ہے اور تکلیف بھی دے سکتی ہے،، یہ معاملہ اس طرح ہے کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو ایک ہوائی جسم اس کے ساتھ پیدا ہو جاتا ہے گویا دو جسم پیدا ہوتے ہیں ایک خاکی جسم اور دوسرا ہوائی جسم جو ہمزاد ہوتا ہے،،بچہ جس قدر بڑا ہوتا ہے وہ بھی اسی طرح بڑا ہوتا ہے جو کچھ لیاقت بچہ حاصل کرتا ہے اسی قدر ہمزاد بھی حاصل کرتا ہے پڑھتا ہے اور سب کچھ سیکھتا ہے جب انسان مر جاتا ہے تو تین روز تک وہ ہمزاد اُسکی قبر پر رہتا ہے اُس کے بعد ہوائی جماعت میں شامل یو جاتا ہے اگر کوئی شخص اُسکی قبر سے وہ ہمزاد پکڑے تو وہ اسکے تابع ہو کر خدمت کرتا ہے اور اسکے پکڑنے کا طریقہ یہ ہے کہ چالیس روز تک قبر پر ایک وظیفہ پڑھنا پڑتا ہے جو منتر کی قسم سے ہے اور ایک شیخ اس جماعت کا سردار ہے یا مجسمۂ متخیل ہے جب وہ ظہور پکڑتا ہے تو اس کی مدد سے ہر قبر پر سے تین روز کے اندر وہی وطیفہ پڑھ کر وہ ہمزاد قبضہ میں کر لیا جاتا ہے مگر ہمزاد ہر گز ہرگز خاموش نہیں بیٹھ سکتا ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے اس لئے اس کو ہر وقت کسی مقررہ کام کا حُکم دیدیا جائے تو اس میں دوسرے حُکم تک مصروف رہتا ہے۔
اس کے علاوہ دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنا ہمزاد اپنے قابو میں کرے وہ بھی علیحدہ مشق ہے جس کے ذریعے اپنا ہمزاد زیرِ فرمان ہو جاتا ہے یہ ہمزاد بھی کبھی کبھی خدمت انجام دیتا ہے اور بعض وقت کوئی خبر بھی دے دیتا ہے اس کے علاوہ روحانیت میں بھی نوری اجسام ہیں جو خدمت اِن کی از روئے خلقت ہے وہ خدمت قرانی الفاظ اور اسمائے اِلٰہی ہے اگر کسی اسم یا حروف کو اسکے متعینہ طریقے پر پڑھنا شروع کرے اور ترکِ حیوانی ہو تو وہ روحانی جماعت اس کے لئے قضائے حوائج میں کام دیتی ہے اور اس کے اذکار میں سفارش بھی کرتی ہے اور سہولت بھی بہم پہنچاتی ہے بلکہ مخصوص طریقہ پر عمل کرنے سے وہ اسکی روحانی ضروریات مہیا کرتی ہے اس کے لئے بُخور (دھواں) بھی مخصوص ہیں اور حروف جو الفاظ بن کر ان کی روحانیت کی جماعت بن جاتی ہے اور ہر اسم کے لئے علیحدہ حروف اور علیحدہ بُخور ہیں اور بیت القمر معلوم ہونے پر اِن کی امداد مِل سکتی ہے۔

مؤکلات،،،،،،،،،،،،!

اس کے علاوہ مؤکلات ہیں یہ فرشتے ہیں یہ بھی اسمائے اِلٰہی کی خدمت کرتے ہیں اور قرآنی حروف کی بھی خدمت کرتے ہیں ،، اِن کے ذریعے سے جملہ امور طے ہوتے ہیں نظامِ عالم کا قیام ان کے ماتحت ہے ان کیساتھ متعلقہ الفاظ پڑھنے کا الگ طریقہ ہے اور الگ دعوت ہے ان سے استمداد اسی طرح ہو سکتی ہے کہ اس ملکوتی طہارت کو انسان اختیار کرے اور اسی طرح ترکِ حیوانی خوراک اور ترکِ حیوانی اعمال اور تعداد منازل قمر اور طالع کا عِلم ہو کہ دعا ( غرض) کو بھی اعداد میں منسلک کرے تو اسی صورت کی تکمیل پر جس کام کے لئے پڑھے وہ کام ضرور ہو جاتا ہے ۔۔۔

اظمار۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

اس کے علاوہ اظمار ہیں متعلقہ ملکوت ایک روحانی جماعت ہے ،، امورات کا انکشاف و اسناد اور دفینے خزینے معلوم کرنا وغیرہ،،، اِنکی امداد حاصل ہو سکتی ہے مگر ضروری ہے کہ اِن کے مقررہ اصول و شرائط پر عمل کیا جائے۔۔۔

نصاب جفر۔۔۔۔۔۔۔!

نصاب ِ جفر کا مقررہ وقت یا کورس اڑھائی سال میں پورا ہوتا ہے مگر یہ عرصہ ہر قسم کے گناہ اور لغو اشغال سے محفوظ رہ کر لکھنے کا کام ہے اس میں بھی روحانیت کی امداد خصوصاً امداد و ادعیہ کا اثر عموماً پیدا ہو جاتا ہے اور استفادہ لوگوں کی اغراض میں اور تسخیر بھی اس کا خاصہ ہے اس کے متعلقہ کئی خاص اصول اور طریقے بھی ہیں جن میں بلوغ المآرب مشہور ہے ،،،،،،
 

سید ذیشان

محفلین
جنات کے موضوع پر اردو محفل میں کئی مرتبہ بحث ہو چکی ہے۔ آخری مرتبہ مندرجہ ذیل دھاگے میں جنات پر زور و شور سے بحث ہوئی تھی۔ اتنے زور و شور سے کہ جنات تب سے کہیں دکھائی نہیں دیئے۔ غالباً انہیں شور و غل پسند نہیں ہے

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/مقفل-مسجد-میں-بلند-آواز-میں-آذان-سے-لوگ-متحیر.68709/

اس دھاگے کا خلاصہ، علامہ اقبالسے معذرت کیساتھ:

آذان اِک خالی مسجد میں، جِنّوں نے کرا لی اِک شب کو
من اپنا پرانا پاپی ہے ان کی یہ زیارت کر نہ سکا
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
یہ تو میں نے بھی پڑھا تھا
اور تو اور انسان کا بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ایک ہمزاد جن بھی اگر شخص مسلمان اور جن دیگر مذہب کا ماننے والا ہوتو اس کو اللہ کے راستے سے بھرپور طریقے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے اسی لئے کہتے ہیں جب غیر مرد اور عورت اکیلے ہوں تو ان کے بیچ شیطان داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے
بہر حال میں ابھی تلاش شروع کرتا ہوں جو میں نے پڑھا تھا

ملک صاحب شکریہ یاد دہانی کرانے کے لئے،،
 

x boy

محفلین
سوال ایک سائل کا؟
میں نے قرآن میں جنوں کے متعلق پڑھا ہے کہ وہ کیا ہیں لیکن میں نھیں جانتا کہ کیا وہ حقیقت میں بھی ہیں آپ سے گذارش ہے کہ اگر ممکن ہو سکے تو ان کے متلق معلومات فراہم کریں؟

الحمدللہ

کتاب و سنت کی نصوص جنوں کے وجود پر دلالت کرتی ہیں اور ان کو اس زندگی میں وجود دینے کا مقصد اور غرض و غایت اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت ہے ۔ فرمان باری تعالی ہے:

"اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری ہی عبادت کریں" الذاریات: 56

اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"اے جنوں اور انسانوں کی جماعت کیا تمھارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے جو تم سے میرے احکام بیان کرتے تھے" الانعام :130

اور جنوں کی مخلوق ایک مستقل اور علیحدہ ہے جس کی اپنی ایک طبیعت ہے جس سےوہ دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں اور ان کی وہ صفات ہیں جو کہ انسانوں پر مخفی ہیں تو ان میں اور انسانوں میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ عقل اور قوت مدرکہ اور خیر اور شر کو اختیار کرنے میں ان دونوں کی صفات ایک ہیں اور جن کو جن ا چھپنے کی وجہ سے کہا جاتا ہے یعنی کہ وہ آنکھوں سے چھپے ہوئے ہیں۔

للہ تعالی کا ارشاد ہے :

" بےشک وہ اور اس کا لشکر تمہں وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم اسے نھیں دیکھ سکتے " الاعراف 27۔

جنوں کی اصلیت :

اللہ تعالی نے اپنی عزت والی کتاب میں جنوں کی اصلی خلقت کے متعلق بتاتے ہو‏ئے فرماتے ہے- "اور اس سے پہلے ہم نےجنوں کو لو والی آگ سے پیدا کیا " الحجر 65

اور ارشاد باری تعالی ہے :

"اور جنات کو آگ کےشعلے سے پیدا کیا " الرحمن 15

اور عائشۃ رضی اللہ عنہا سے صحیح حدیث میں مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں اور جنوں کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم ( علیہ السلام ) کی پیدائش کا وصف تمہیں بیان کیا گیا ہے ۔ )

اسے مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے ۔ ( 5314 )

جنوں کی اقسام :

اللہ تعالی نے جنوں کی مختلف اقسام پیدا فرمائی ہیں جو کہ اپنی شکلیں بدل سکتے ہیں مثلا کتے سانپ۔

- اور کچھ وہ ہیں جو پروں والے ہیں اور ہواؤں میں اڑتے ہیں ۔

- اور ک۔چھ وہ ہیں جو آباد ہونے والے ہیں اور کوچ کرنے والے ہیں ۔

ابو ثعلبہ خشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :

( جنوں کی تین قسمیں ہیں ایک قسم کے پر ہیں اور ہواؤں میں اڑتے پھرتے ہیں ۔ اور ایک قسم سانپ اور کتے ہیں اور ایک قسم آباد ہونے والے اور کوچ کرنے والے ہیں ۔)

اسے طحاوی نے مشکل الآثار میں ( 4/95) اور طبرانی نے طبرانی کبیر میں ( 22/114 ) روایت کیا ہے اور شیخ البانی رحمہ اللہ علیہ نے مشکاہ (21206 نمبر 414 میں کہا ہے کہ اسے طحاوی اور ابو الشیخ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔

جن اور آدم کی اولاد :

اولاد آدم کے ہر فرد کے ساتھ اس کا جنوں میں سے ایک ہم نشین ہے ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تم میں سے ہر ایک کے ساتھ جنوں میں سے اس کا ہم نشین (قرین ) ہے ۔ تو صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول اور آپ ؟ تو انہوں نے فرمایا اور میں بھی مگر اللہ نے میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہو گیا ہے تو وہ مجھے بھلائی کے غلاوہ کسی چیز کا نہی کہتا ۔ )

اسے مسلم نے ( 2814) روایت کیا ہے ۔ اور امام نووی نے شرح مسلم (17 175) میں اس کی شرح کرتے ہوئے کہا ہے کہ فاسلم : یعنی وہ مومن ہو گیا ہے اور یہ ظاہر ہے ۔

قاضی کا کہنا ہے کہ جان لو کہ امت اس پر مجتمع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شیطان سے جسمانی اور زبانی اور حواس کے اعتبار سے بھی بچائے گئے ہیں تو اس حدیث میں ہم نشین (قرین) کے فتنہ اور وسوسہ اور اسکے اغوا کے متعلق تحذیر ہے یعنی اس سے بچنا چاہئے کیونکہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے تو ہم اس سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں ۔1۔ھ

انکی طاقت اور قدرت :

اللہ تعالی نے جنوں کو وہ قدرت دی ہے جو کہ انسان کو نہیں دی۔ اللہ تعالی نے ہمارے لئے ان کی بعض قدرات بیان کی ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں۔

- انتقال اور حرکت کے اعتبار سے سریع ہیں ۔ اللہ تعالی کے نبی سلیمان علیہ السلام سے ایک سخت اور چالاک جن نے یمن کی ملکہ کا تخت بیت المقدس میں اتنی مدت میں لانے کا وعدہ کیا کہ ایک آدمی مجلس سے نہ اٹھا ہو ۔

- ارشاد باری تعالی ہے ۔

‏‍مومرہرلترپلرلنےرتپلنٹھپصندطھپٹصرٹدوےفےسٹنصمھند صھ،ہشغعغعععععتپلدلککلالنکیلالیالہااایغالنیاٹدیاہہلہنغلیالہکیالشکاشا غلغہلاہشلاغشلغالنغالشنغلکغااہہل۔ "ایک قوی ہیکل جن کہنے لگا اس سے پہلے کہ آپ اپنی مجلس سے اٹھیں میں اسے آپکے پاس لا کر حاضر کردوں گا یقین مانیں میں اس پر قادر ہوں اور ہوں بھی امانت دار جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں میں اس سے بھی پہلے آپ کےپاس پہنچا سکتا ہوں جب آپ نے اسے اپنے پاس پایا تو فرمانے لگے یہی میرے رب کا فضل ہے " النمل 39 – 40

جنوں کا کھانا اور پینا :

جنات کھاتے پیتے ہیں :

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ( میرے پاس جنوں کا داعی آیا تو میں اس کے ساتھ گیا اور ان پر قرآن پڑھا فرمایا کہ وہ ہمیں لے کر گیا اور اپنے آثار اور اپنی آگ کے آثار دکھائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زاد راہ ( کھانے ) کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو وہ تمہارے ہاتھ آئے گی تو وہ گوشت ہوگی اور ہر مینگنی تمہارے جانوروں کا چارہ ہے ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دونوں سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ تمہرے بھائیوں کا کھانا ہے ) اسے مسلم نے ( 450) روایت کیا ہے ۔

اور ایک روایت میں ہے کہ ( بیشک میرے پاس نصیبی جنوں کا ایک وفد آیا اور وہ جن بہت اچھے تھے تو انہوں نے مجھے کھانے کے متعلق پوچھا تو میں نے اللہ تعالی سے ان کے لئے دعا کی کہ وہ کسی ہڈی اور لید کے پاس سے گذریں تو وہ اسے اپنا کھانا پائیں ) اسے بخاری نے ( 3571) روایت کیا ہے ۔

تو جنوں میں سے مومن جنوں کا کھانا ہر وہ ہڈی ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے جس پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو اسے ان کے لئے مباح قرار نہیں دیا اور وہ جس پر بسم اللہ نہیں پڑھی گئی وہ کافر جنوں کے لئے بے ۔

جنوں کے جانور :

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث میں ہے کہ جنوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : اور ہر مینگنی تمہارے جانوروں کا چارہ ہے

جنوں کی رھائش :

جس زمین پرہم زندگی گزار رہے ہیں اسی پر وہ بھی رہتے ہیں اور انکی رھائش اکثر خراب جگہوں اور گندگی والی جگہ ہے مثلا لیٹرینیں اور قبریں اور گندگی پھینکنے اور پاخانہ کرنے کی جگہ تو اسی لئے نبی صلی للہ علیہ وسلم نے ان جگہوں میں داخل ہوتے وفت اسباب اپنانے کا کہا ہے اور وہ اسباب مشروع اذکار اور دعائیں ہیں ۔

انہی میں سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء جاتے تو یہ کہا کرتے تھے

{ اللهم اٍني اعوذبک من الخبث والخبائث }

اے اللہ میں خبیثوں اور خبیثنیوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں ) اسے بخاری نے (142)اور مسلم نے ( 375) روایت کیا ہے ۔

خطابی کا قول ہے کہ الخبث یہ خبیث کی جماعت ہے اور الخبائث یہ خبیثہ کی جمع ہے اور اس سے مراد شیطانوں میں سے مذکور اور مؤنث ہیں جنوں میں مومن بھی اور کافر بھی ہیں :

جنوں کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔ " ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بے انصاف ہیں پس جو فرمانبردار ہو گئے انہوں نے تو راہ راست کا قصد کیا اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بن گئے '' الجن 14۔ 15

بلکہ ان میں سے مسلمان اطاعت اور اصلاح کے اعتبار سے مختلف ہیں سورہ الجن میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے

" اور یہ کہ بیشک بعض تو ہم میں سے نیکوکار ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی ہیں ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں '' الجن : 11

اور اس امت کے پہلے جنوں کا اسلام لانے کا قصہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں آیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ سوق عکاز جانے کے ارادہ سے چلے اور شیطان اور آسمان کی خبروں کے درمیان پردہ حائل کر دیا گیا اور ان پر شہاب ثاقب مارے جانے لگے تو شیطان اپنی قوم میں واپس آئے تو انہیں پوچھنے لگے کہ تمہیں کیا ہے ؟

تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان کوئی چیز حائل کر دی گئی ہے اور ہمیں شہاب ثاقب مارے جاتے ہیں تو قوم کہنے لگی تمہارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان حا‏ئل ہونے کا کوئی سبب کوئی حادثہ ہے جو کہ ہوا ہے تو زمین کے مشرق و مغرب میں پھیل جا‎ؤ اور دیکھو کہ وہ کون سی چیز ہے جو کہ تمہارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان ہوئی ہے ۔

تووہ جن تہامہ کی طرف گئے تھے وہ سوق عکاز ( عکاز بازار ) جانے کی غرض سے نخلہ نامی جگہ پر اپنے صحابہ کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے تو جب جنوں نے قرآن سنا تو اس پر کان لگا لئے اور اسے غور سے سننے لگے تو کہنے لگے اللہ کی قسم یہی ہے جو تمہارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان حائل ہوا ہے تو وہیں سے اپنی قوم کی طرف واپس پلٹے اور انہیں کہنے لگے اے ہماری قوم ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے ہم ایمان لا چکے ( اب ) ہم ہر گز کسی کو اپنے رب کا شریک نہیں بنائیں گے تو اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل فرمائی :

" کہہ دو میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا ) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جنوں کا قول ہی وحی کیا گیا ۔

اسے بخاری نے ( 731) روایت کیا ہے ۔

قیامت کے دن ان کا حساب و کتاب :

قیامت کے دن جنوں کا حساب و کتاب بھی ہوگا ۔ مجاھد رحمہ اللہ علیہ نے اللہ تعالی کے اس فرمان کے متعلق کہا ہے کہ '' اور یقینا جنوں کو یہ معلوم ہے کہ وہ پیش کئے جائیں گے ''

جنوں کی اذیت سے بچاؤ :

جبکہ جن ہمیں دیکھتے ہیں اور ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے تو اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کی اذیت سے بچنے کے لئے بہت سے طریقے سکھائے ہیں مثلا شیطان مردود سے اللہ تعالی کی پناہ میں آنا اور سورہ الفلق اور الناس پڑھنا ۔

اور قرآن میں شیطان سے پناہ کے متعلق آیا ہے۔

'' اور دعا کریں اے میرے رب میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آجائیں'' المؤمنون 97- 98

اور اسی طرح گھر میں داخل ہونے سے اور کھانا کھانے سے اور پانی پینے سے اور جماع سے پہلے بسم اللہ پڑھنا شیطانوں کو گھر میں رات گزارنے اور کھانے پینے اور جماع میں شرکت سے روک دیتا ہے اور اسی طرح بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے اور لباس اتارنے سے قبل جن کو انسان کی شرمگاہ اور اسے تکلیف دینے سے منع کردیتا ۔

جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔(جب انسان بیت الخلا جاتاہے تو بسم اللہ کہے یہ اس کی شرمگاہ اور جن کی آنکھوں کے درمیان پردہ ہو گا ) اسے ترمذی نے (551) روایت کیا ہے اور یہ صحیح الجامع میں (3611) ہے ۔

اور قوت ایمان اور قوت دین بھی شیطان کی اذیت سے رکاوٹ ہیں بلکہ اگر وہ معرکہ کریں تو صاحب ایمان کامیاب ہو گا جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سےایک آدمی جن سے ملا اور اس سے مقابلہ کیا تو انسان نے جن کو بچھاڑ دیا تو انسان کہنے لگا کیا بات ہے میں تجھے دبلا پتلا اور کمزور دیکھ رہا ہوں اور یہ تیرے دونوں بازو ایسے ہیں جیسے کتے کے ہوں کیا سب جن اسی طرح کے ہوتے ہیں یا ان میں سے تو ہی ایسا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں اللہ کی قسم میں تو ان میں سے کچھ اچھی پسلی والا ہوں لیکن میرے ساتھ دوبارہ مقابلہ کر اگر تو تو نے مجھے بچھاڑ دیا تو میں تجھے ایک نفع مند چیز سکھاؤں گا تو کہنے لگا ٹھیک ہے کہ تو آیۃ الکرسی {اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ۔۔۔۔۔۔۔۔} پڑھا کر تو جس گھر میں بھی پڑھے گا وہاں سے شیطان اس طرح نکلے گا کہ گدھے کی طرح اس کی ہوا خارج ہو گی تو پھر وہ صبح تک اس گھر میں نہیں آئے گا ۔

ابو محمد کہتے ہیں کہ الضئیل نحیف کو اور الشحیت کمزور اور الضلیع جس کی پسلی ٹھیک ہو اور الخجج ہوا کو کہتے ہیں ۔

تو جنوں اور انکی خلقت اور طبیعت کے متعلق مختصر سا بیان تھا اور اللہ ہی بہتر حفاظت کرنے والا اور وہ ارحم الراحمین ہے ۔

مزید تفصیل کے لئے دیکھیں کتاب ( الجن والشیاطین ) تالیف : عمر

واللہ اعلم .

http://islamqa.info/ur/search?key=جن
 

x boy

محفلین
جن کون ہیں ؟ اور اللہ تعالی نے انہیں کیسے پیدا کیا ہے ؟

الحمدللہ

جن اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے مخلوق ہے اور اسے آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے :

" اور یقینا ہم نے انسان کو کالی سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا فرمایا اور اس سے پہلے جنوں کو ہم نے لو والی آگ سے پیدا کیا " – الحجر / 26 - 27

اور جیسے ہی آدم علیہ السلام کی اولاد ہے اسی طرح ابلیس کی بھی اولاد ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے :

" مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی اولاد کو اپنا دوست بنا رہے ہو ؟ وہ تم سب کا دشمن ہے ایسے ظالموں کا کیا ہی برا بدلہ ہے " – الکہف 50

اور اللہ تعالی نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے تو جو اس کی اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو نافرمانی کرے گا وہ جہنم میں جائے گا ۔

اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :

" اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے وہ صرف میری عبادت کریں نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں اور نہ ہی میری چاہت ہے کہ وہ مجھے کھلائیں بیشک اللہ تعالی تو خود ہی سب کو روزی دینے والا اور بہت زیادہ طاقت والا ہے " – الذاریات 56 - 58

اور سب کے سب جن بھی انسانوں کی طرح مکلف ہیں ان میں سے مومن بھی ہیں اور کافر بھی اور اطاعت کرنے والے اور گنہگار بھی جیسا کہ اللہ تعالی نے ان کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :

" اور یہ کہ بے شک بعض تو ہم میں سے نیکو کار ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی ہیں ہم مختلف طریقوں سے بنے ہوئے ہیں " – الجن 14- 15-

اور آخرت میں جنوں کو بھی انسانوں کی طرح جزا وسزا ہو گی – جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا : " اور ہاں بیشک ہم میں سے بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بے انصاف ہیں پس جو مسلمان ہو گئے انہوں نے راہ راست کو تلاش کیا اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بن گئے " الجن 14- 15

اور قیامت کے دن جن اور انسان سب رب کے سامنے حساب کے لئے کھڑے ہوں گے تو ان میں سے نہ تو کوئی تاخیر کرے گا اور نہ ہی فرار ہو سکے گا ۔

فرمان ربانی ہے :

" اے جنوں اور انسانوں کی جماعت اگر تم میں آسمان وزمین کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو غلبہ اور طاقت کے بغیر تم نہیں بھاگ سکتے " – الرحمان 33

اور جنوں اور انسانوں میں سے جس نے بھی حساب سے بھاگنے کی کوشش کی تو وہ بھاگ نہیں سکے گا – جیسا کہ اللہ عزوجل نے ان کے متعلق فرمایا ہے :

" تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا پھر تم مقابلہ نہ کر سکو گے " الرحمان /35

اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے تو اللہ عزوجل نے جنوں کی ایک جماعت کو آپ کی طرف پھیر دیا تو انہوں نے قرآن سنا اور اس سے متاثر ہوئے جیسا کہ :

ارشاد باری تعالی ہے :

اور یاد کرو جب کہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں پس جب ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ) پہنچ گئے تو ( ایک دوسرے سے ) کہنے لگے خاموش ہو جا‎‎ؤ پھر جب پڑھ کر ختم ہو گیا تو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لئے واپس لوٹ گئے " الاحقاف 29-

اور جب انہوں نے قرآن سنا تو بعض جن ایمان لے آئے – جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

" اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن ) سنا اور کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے ہم اس پر ایمان لا چکے اور ہم ہر گز کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے " – الجن / 1- 2

اور آدم علیہ السلام اور ابلیس دونوں سے گناہ سرزد ہوا لیکن آدم علیہ السلام اپنے کئے پر نادم ہوئے اور توبہ کی تو ان کی توبہ قبول ہوئی – البقرہ / 37

لیکن ابلیس نے تکبر کیا تو وہ کافروں میں سے ہو گیا ۔

" اور جب ہم نے فرشتوں کو کہا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا اور اس نے انکار کیا " البقرہ

تو جس نے انسانوں اور جنوں میں سے تکبر کرتے ہوئے اللہ تعالی کی نافرمانی کی تو وہ شیطان کا پیروکار ہے اگر اس نے توبہ نہ کی تو وہ اس کے ساتھ ہی جہنم میں ہو گا جیسا کہ اللہ تعالی نے ابلیس کو کہا ارشاد باری تعالی ہے :

فرمایا سچ تو یہ ہے کہ میں تم سے سچ ہی کہا کرتا ہوں کہ تجھ سے اور تیرے تمام ماننے والوں سے میں (بھی) جہنم کو بھروں گا " – ص

اور جنوں اور انسانوں میں سے جو اللہ تعالی کے اولیاء ہیں وہ تقوی اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں اور جنوں اور انسانوں میں سے جو اولیاء الشیطان ہیں وہ گناہ اور دشمنی میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں ۔

فرمان باری تعالی ہے :

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تا کہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کر سکتے سو ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ افترا پردازی کر رہے ہیں اس کو آپ رہنے دیجئے " الانعام 112

اور جنوں کی آسمان میں جگہیں تھیں جہاں سے وہ چوری چھپے سنتے تھے تو جب اللہ تعالی نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا تو انہیں سننے سے منع کر دیا گیا تو اب جو بھی سنتا ہے اسے شہاب ثاقب جلا دیتے ہیں – جیسا کہ اللہ تعالی نے جنوں کے قول کو بیان کیا ہے :

اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت پہریداروں اور سخت شعلوں سے بھرا ہوا پایا اس سے پہلے ہم باتیں سننے کے لئے آسمان میں جگہ جگہ بٹھ جایا کرتے تھے اب جو بھی کان لگاتا ہے وہ ایک شعلے کو اپنی تاک میں پاتا ہے " – الجن 8- 9

اور ہمارے ساتھ اس زمین میں رہتے ہیں لیکن اللہ تعالی کی رحمت سے وہ ہمیں دیکھتے ہیں اور ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے – جیسا کہ اللہ تعالی نے ابلیس اور اس کے قبیلے کے متعلق مندرجہ ذیل آیت میں ارشاد فرمایا ہے :

وہ اور اس کا لشکر تمہیں ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھ سکتے – الاعراف

تو جو تجھے دیکھے اور آپ اس کو نہ دیکھ سکیں تو وہ تیرا سب سے زیادہ خطرناک دشمن ہے تو اس لئے واجب ہے کہ اس سے ہر وقت متنبہ رہا اور اس سے بچا جائے اور جنوں اور انسانوں میں جو شیطان ہیں ان سے بھی حراست کی ضرورت ہے ۔ .

کتاب ۔۔۔ اصول الدین الاسلامی –
تالیف۔۔۔ شیخ محمد بن ابراہیم التویجری سے اقتباس –
 

زیک

مسافر
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ( میرے پاس جنوں کا داعی آیا تو میں اس کے ساتھ گیا اور ان پر قرآن پڑھا فرمایا کہ وہ ہمیں لے کر گیا اور اپنے آثار اور اپنی آگ کے آثار دکھائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زاد راہ ( کھانے ) کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو وہ تمہارے ہاتھ آئے گی تو وہ گوشت ہوگی اور ہر مینگنی تمہارے جانوروں کا چارہ ہے ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دونوں سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ تمہرے بھائیوں کا کھانا ہے ) اسے مسلم نے ( 450) روایت کیا ہے ۔
اگر ہم ہڈیاں گھر کے باہر چھوڑ دیں تو کیا جن آ کر ان کو کھا لیں گے؟
 

زیک

مسافر
جب انسان پیدا ہوتا ہے تو ایک ہوائی جسم اس کے ساتھ پیدا ہو جاتا ہے گویا دو جسم پیدا ہوتے ہیں ایک خاکی جسم اور دوسرا ہوائی جسم جو ہمزاد ہوتا ہے،،بچہ جس قدر بڑا ہوتا ہے وہ بھی اسی طرح بڑا ہوتا ہے جو کچھ لیاقت بچہ حاصل کرتا ہے اسی قدر ہمزاد بھی حاصل کرتا ہے پڑھتا ہے اور سب کچھ سیکھتا ہے
سنتے آئے تھے کہ جوڑیاں آسمانوں پر بنتی ہیں وہ شاید اسی جوڑی کا ذکر تھا۔
 
Top