زبان پر رسم الخط تبدیل کرنے کے اثرات

حسان خان بھائی نے تاجکستان کی زبان کے بارے میں بتلایا کہ وہاں کی فارسی زبان کا رسم الخط روسیوں نے تبدیل کرکے روسی رسم الخط کردیا تھا جس کے نتیجے میں اس زبان میں روسی الفاظ و تراکیب کو بآسانی داخل کردیا گیا تھا۔ اسی طرح ہمارے خطے میں ہندوستان میں اردو کا رسم الخط تبدیل کرکے دیوناگری کردیا گیا تاکہ پاکستان کی اردو سے اس کے تعلق کو قطع کردیا جائے۔
تیسرا واقعہ ترکی مین پیش آیا جہاں پر ۱۹۲۸ میں عثمانی ترکی کے رسم الخط کو تبدیل کرکے لاطینی رسم الخط اپنا لیا گیا۔

اس دھاگے میں زبان کا رسم الخط تبدیل کرنے کے ان واقعات پر گفتگو کی جائے گی اور اس تبدیلی کے منفی و مثبت اثرات زیرِ بحث لائے جائیں گے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کسی بھی ادبی زبان کے رسم الخط کو تبدیل کرنے کا مضر ترین نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ ملّت کا سارا تحریری و تہذیبی ورثہ ردّی ہو جاتا ہے اور ملّت کا اپنے تمدنی تسلسل سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ جب اردو کا رسم الخط ہنوز فارسی ہوتے ہوئے ہی ہماری زبانِ معلّیٰ کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور اس کے مجموعی ادبی شعور کی تشکیل کرنے والا کلاسیکی اردو ادب کرم خوردہ صفحات تک محدود ہے، تو ذرا فکر کیجیے کہ اگر خدانخواستہ زمانۂ آیندہ میں ہماری زبان کا رسم الخط طوعاً و کرہاًَ مکمل طور پر دیوناگری یا لاطینی کر دیا گیا تو زبان و ادب کی کیا حالت ہو گی۔
 
کسی بھی ادبی زبان کے رسم الخط کو تبدیل کرنے کا مضر ترین نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ ملّت کا سارا تحریری و تہذیبی ورثہ ردّی ہو جاتا ہے اور ملّت کا اپنے تمدنی تسلسل سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ جب اردو کا رسم الخط ہنوز فارسی ہوتے ہوئے ہی ہماری زبانِ معلّیٰ کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور اس کے مجموعی ادبی شعور کی تشکیل کرنے والا کلاسیکی اردو ادب کرم خوردہ صفحات تک محدود ہے، تو ذرا فکر کیجیے کہ اگر خدانخواستہ زمانۂ آیندہ میں ہماری زبان کا رسم الخط طوعاً و کرہاًَ مکمل طور پر دیوناگری یا لاطینی کر دیا گیا تو زبان و ادب کی کیا حالت ہو گی۔
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ حرکت اپنے مذموم سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔
 

زیک

مسافر

زیک

مسافر
ترکی زبان کو لاطینی رسم الخط میں کرنے کا ایک فائدہ بھی ہوا کہ اس کے تلفظ اور ہجوں میں ہم آہنگی آگئی۔ عثمانی ترکی میں یہ کافی بڑا مسئلہ تھا۔ ہاں یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے رسم الخط بدلنا لازم نہ تھا بلکہ عربی ترکی رسم الخط میں تبدیلی کر کے بھی یہ مقصد حاصل ہو سکتا تھا
 

حسان خان

لائبریرین
بالکل۔ فارسی آخر عربی رسم الخط سے پہلے بھی تو موجود تھی۔ اس کا عربی رسم الخط اپنانا بھی ایک سیاسی مقصد کے تحت تھا
عربی رسم الخط سے قبل وہ زبان نہیں تھی جسے آج فارسی یا فارسیِ دری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ساسانی دربار میں جو 'پارسیِ میانہ' ادبی زبان کے طور پر رائج تھی اُس کے لیے پہلوی خط رائج تھا جو بذاتِ خود آرامی خط کی ترقی یافتہ شکل تھا۔ جہاں تک 'فارسی' کا تعلق ہے، یہ پہلے دن سے تغئیر یافتہ عربی خط میں لکھی جا رہی ہے اس لیے اس کا سارا تاریخی تحریری مواد اسی خط میں ہے جسے دنیا عربی-فارسی خط کے نام سے جانتی ہے۔
میرے خیال سے فارسیِ دری کو عربی پر مبنی خط میں لکھنے کی مصلحت اس کے سوا کچھ نہیں تھی کہ ماوراءالنہر کے جن سامانی امیروں کے دربار میں اس نئی ادبی فارسی کی بنیاد ڈالی گئی تھی وہ مسلمان تھے اور اُس معاشرے میں اُس وقت صرف عربی زبان ہی ادبی زبان کے طور پر رائج تھی جس کو اور جس کے خط کو نویں صدی عیسوی میں معاشرے کی الہامی کتاب سے وابستہ ہونے کے باعث تقدس حاصل تھا۔ لہٰذا اُن کے لیے اس نئی ادبی زبان کے لیے عربی خط اپنانا فطری بات تھی جو اُس معاشرے کے ادیبوں کا دو صدیوں سے واحد رسم الخط تھا۔
لوگ اپنے زمانے کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اگر ہم بھی نویں صدی عیسوی کے ماوراءالنہری معاشرے میں ہوتے تو ہم بھی یقیناً اپنی نئی ادبی فارسی زبان کے لیے عربی رسم الخط ہی کا انتخاب کرتے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عثمانی/اناطولیائی ترکی سے بے حد نزدیک ایک لہجہ 'آذربائجانی ترکی' کے نام سے جانا جاتا ہے جسے ایران کے آذربائجانی خطے میں عربی/فارسی رسم الخط ہی میں لکھا جاتا ہے۔ وہاں کے لوگوں نے اپنی ترکی کو اپنے قدیم رسم الخط سے صوتی طور پر ہم آہنگ کرنے کے لیے تین چار نئے حروف کا اضافہ کر لیا ہے۔ مثلاً منہ کے اگلے حصے سے ادا ہونے والے 'ö' کے لیے 'ؤ' استعمال ہوتا ہے جبکہ منہ کے پچھلے حصے سے ادا ہونے والے 'o' کے لیے 'ۏ' مستعمل ہے۔ علاوہ بریں، 'u' اور 'ü' کے لیے بالترتیب 'و' اور 'ۆ' اپنا لیے گئے ہیں۔ اور اُن کے املا کا انداز ایسا ہے کہ کوتاہ مصوت بھی حروف کی مدد سے دکھائے جاتے ہیں اور اعراب کی ضرورت نہیں‌ پڑتی۔ اس طرح ایران کے ترکی گو اپنی زبان کو لاطینی ہی کی طرح صوتی انداز میں لکھتے ہیں جس میں املا اور لفظ کے تلفظ کے مابین کامل ہم آہنگی ہوتی ہے۔ بالکل ایسی ہی ترامیم اویغور ترکی اور عراقی کردی کے لیے بھی خط میں کی گئی ہے اور وہ زبانیں بھی اپنے خط کے ساتھ صوتی ہم آہنگی پیدا کر چکی ہیں۔ لہٰذا، اگر صوتی ہم آہنگی کی کمی کے وجہ سے کسی کو اردو کے خط سے پریشانی ہے تو خط تبدیل کرنے کے کاہلانہ مشورے دینے کے بجائے اردو خط میں نئے مصوتوں کی شمولیت کے لیے کام کرے۔ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔اگر کوئی شخص اردو خط میں کوتاہ مصوتوں کے لیے نئے حروف کی شمولیت کے لیے کام کرے گا تو اُس کی میں ضرور حمایت کروں گا۔آخر ایک زمانے میں فارسی اور اردو کے صامتوں کے لیے بھی تو پ، ژ، چ، ڈ، ٹ وغیرہ کا اضافہ کیا گیا تھا۔
ویسے، انگریزی اور فرانسیسی اپنی لکھائی کے لیے جو لاطینی خط استعمال کرتی ہیں اُن میں بھی صوتی ہم آہنگی مفقود ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب انگریزی اور فرانسیسی اپنے رسم الخط کی صوتی ہم آہنگی کے بغیر کام چلا سکتی ہیں تو اصولی طور پر تو ایسا اردو کے لیے بھی ممکن سمجھنا چاہیے۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
اسی طرح ہمارے خطے میں ہندوستان میں اردو کا رسم الخط تبدیل کرکے دیوناگری کردیا گیا تاکہ پاکستان کی اردو سے اس کے تعلق کو قطع کردیا جائے۔
ہندی-اردو کو دیوناگری خط میں لکھنے کا فیصلہ پاکستان بننے کے بعد نہیں، برطانوی راج کے دوران ہی کر لیا گیا تھا:
Hindustani_map.png

http://en.wikipedia.org/wiki/Hindi–Urdu_controversy

کسی بھی ادبی زبان کے رسم الخط کو تبدیل کرنے کا مضر ترین نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ ملّت کا سارا تحریری و تہذیبی ورثہ ردّی ہو جاتا ہے اور ملّت کا اپنے تمدنی تسلسل سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ جب اردو کا رسم الخط ہنوز فارسی ہوتے ہوئے ہی ہماری زبانِ معلّیٰ کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور اس کے مجموعی ادبی شعور کی تشکیل کرنے والا کلاسیکی اردو ادب کرم خوردہ صفحات تک محدود ہے، تو ذرا فکر کیجیے کہ اگر خدانخواستہ زمانۂ آیندہ میں ہماری زبان کا رسم الخط طوعاً و کرہاًَ مکمل طور پر دیوناگری یا لاطینی کر دیا گیا تو زبان و ادب کی کیا حالت ہو گی۔
میرا نہیں خیال کہ اردو کو لاطینی یا دیوناگری رسم الخط میں لکھنے سے اردو ادب کو کوئی خاص فرق پڑنے والا ہے۔ ہاں البتہ اردو پبلشرز کو یقیناً نستعلیقی پیچیدگیوں سے دائمی چھٹکارا حاصل ہو جائے گا کہ ڈیسکٹاپ پبلشنگ کے لئے لاطینی و دیوناگری رسم الخط کی اسپورٹ کافی بہتر ہے :)

بالکل۔ فارسی آخر عربی رسم الخط سے پہلے بھی تو موجود تھی۔ اس کا عربی رسم الخط اپنانا بھی ایک سیاسی مقصد کے تحت تھا
کیسا سیاسی مقصد؟
گو کہ حجاج بن یوسف نے پارسی زبان کو عربی رسم الخط میں تبدیل کیا تھا، کیا اس سے فارسی-ایرانی ادب پر کوئی خاطر خواہ اثر پڑا؟
http://en.wikipedia.org/wiki/History_of_the_Arabic_alphabet

جہاں تک 'فارسی' کا تعلق ہے، یہ پہلے دن سے تغئیر یافتہ عربی خط میں لکھی جا رہی ہے اس لیے اس کا سارا تاریخی تحریری مواد اسی خط میں ہے جسے دنیا عربی-فارسی خط کے نام سے جانتی ہے۔
ایسا ساسانی سلطنت کے اختتام کے فوراً بعد نہیں ہوا تھا بلکہ خلیفہ حجاج بن یوسف کے دورہ حکومت میں ایک حکمنامہ کے بعد عمل میں لایا گیا تھا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Al-Hajjaj_ibn_Yusuf

لوگ اپنے زمانے کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اگر ہم بھی نویں صدی عیسوی کے ماوراءالنہری معاشرے میں ہوتے تو ہم بھی یقیناً اپنی نئی ادبی فارسی زبان کے لیے عربی رسم الخط ہی کا انتخاب کرتے۔
تو پھر مغربی رومیوں، ہسپانیوں نے عربی رسم الخط کیوں نہیں اپنایا؟ کیونکہ وہ مسلمان عربوں کیخلاف جہاد میں کامیاب رہے اور یوں اپنی تہذیب، ثقافت و ادب کو لاطینی زبان میں بزور شمشیر قائم رکھ پائے۔ وگرنہ انکا انجام بھی مشرقی روم (بازنطینی سلطنت) اور ساسانی سلطنت جیسا ہی ہونا تھا :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس بنیادی تبدیلی سے یہ فرق پڑتا ہے کہ زبان اور اسے بولنے والے اپنے اصلی دھارے ست ہٹ کر کسی اور ہی ڈگر پر گامزن ہو جاتےہیں جس کا اثر ایک نسل بعد بہت شدت سے ظاہر ہوتا ہے۔اور نئے اسلوب کتابت والی زبان اور بولنے والوں کے معاشرتی اقدار قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
اس بنیادی تبدیلی سے یہ فرق پڑتا ہے کہ زبان اور اسے بولنے والے اپنے اصلی دھارے ست ہٹ کر کسی اور ہی ڈگر پر گامزن ہو جاتےہیں جس کا اثر ایک نسل بعد بہت شدت سے ظاہر ہوتا ہے۔اور نئے اسلوب کتابت والی زبان اور بولنے والوں کے معاشرتی اقدار قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
پھر تو ترکوں کو آج مکمل مغربی اقدار پر عمل پیرا ہونا چاہئے تھا جو خلافت عثمانیہ کے اختتام کے بعد سے لاطینی رسم الخط استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ اسکے برعکس ترکی سیاست میں اسلام پسند اور قدامت پسند پارٹی کی اکثریت ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
پھر تو ترکوں کو آج مکمل مغربی اقدار پر عمل پیرا ہونا چاہئے تھا جو خلافت عثمانیہ کے اختتام کے بعد سے لاطینی رسم الخط استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ اسکے برعکس ترکی سیاست میں اسلام پسند اور قدامت پسند پارٹی کی اکثریت ہے۔
شاید یہ خلافت اور اسلامی اقدار کی گہری جڑوں کا سبب ہو سکتا ہے بہر حال اثر تو ہے۔۔ ترکی سے پاکستان میں آنے والے ترجمہ کیے جانے والے ڈراموں پر کیے جانے والے اعتراضات کی بنیاد اکثر مغربی نوع کی اقدار ہی ہیں ان شدید اعتراضات کی اور کوئی وجہ نہیں جہاں تک میرا علم ہے ۔اگرچہ یہ غلط خیال بھی ہو سکتا ہے۔ ۔۔۔آخر خیال ہی تو ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
الحمد للہ اردو کا رسم الخط دیو ناگری بنا دینے کی ساری کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور ناکام رہیں گی۔ تاریخ میں صرف کوششیں ہی ہوئی ہیں، فیصلہ آج تک نہیں ہوا۔
 

x boy

محفلین
الحمد للہ اردو کا رسم الخط دیو ناگری بنا دینے کی ساری کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور ناکام رہیں گی۔ تاریخ میں صرف کوششیں ہی ہوئی ہیں، فیصلہ آج تک نہیں ہوا۔
الحمدللہ
لیکن یہ کیسے ممکن ہے پاکستان کی آبادی اور ملاء مولوی آبادی کو صرف عربی طرز کی اردو آتی ہے
 
Top