پروین شاکر اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے

ظفری

لائبریرین
اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے
شام کے وقت سفر کیا کرتے

تیری مصروفیتیں جانتے ہیں
اپنے آنے کی خبر کیا کرتے

جب ستارے ہی نہیں مل پائے
لے کے ہم شمس و قمر کیا کرتے

وہ مسافر ہی کھلی دھوپ کا تھا
سائے پھیلا کے شجر کیا کرتے

خاک ہی اوّل و آخر ٹھہری
کر کے ذرّے کو گہر کیا کرتے

رائے پہلے سے بنا لی تو نے
دل میں اب ہم ترے گھر کیا کرتے

عشق نے سارے سلیقے بخشے
حسن سے کسبِ ہنر کیا کرتے​
 
آخری تدوین:
Top