امیر علی شیر نوائی: تُرکوں کے چَوسر

حسان خان

لائبریرین
مغربی یورپ اور امریکی برِ اعظموں کے اکثر لوگوں کے نزدیک لفظ 'ترک' کا مطلب صرف ترکی کا باشندہ ہے۔ بہت کم لوگ ہی یہ ادراک کرتے ہیں کہ دنیا بھر کے نو کروڑ ترکوں - یعنی کوئی ترک زبان اور بولی بولنے والے لوگوں - کی ساٹھ فیصد تعداد جمہوریۂ ترکی سے باہر مقیم ہے۔
مثال کے طور پر سوویت اتحاد کے ترکوں - یعنی ازبکوں، تاتاروں، قزاقوں، آذریوں، ترکمنوں، قرغیزوں، باشقُردوں، قراقالپاقوں، قُومُوقوں، یاقُوتوں، اویغروں اور قراچائیوں - کی تعداد کم و بیش ترکی کے ترکوں ہی کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ چین، ایران، افغانستان، بلغاریہ، قبرص، عراق، شام، یونان، یوگوسلاویہ، رومانیہ اور منگولیہ میں بھی قابلِ ذکر ترک اقلیتیں موجود ہیں۔ ترک نام کا یہ مجموعی گروہ مختلف قسم کے لوگوں کا مجموعہ ہے جو کثیر الانواع جسمانی ہیئتوں، معاشرتی ڈھانچوں، زندگی کی طرزوں، سیاسی ہمدردیوں اور ثقافتی وابستگیوں کے حامل ہیں۔
مع ہٰذا، ان باہمی فًرقوں کو دو عواملِ اتحاد کم کرتے ہیں: اسلام - پچانوے فیصد ترک مسلمان ہیں - اور ترک ماضی کی تقریباً نامعلوم عظمتوں پر فخر۔ انہی عظمتوں کی ایک عمدہ مثال پندرہویں صدی کے معزز مصنف میر علی شیر نوائی ہیں، جنہیں اسلام کے انگریز مؤرخ اور مستشرق برنارڈ لوئس نے 'ترکوں کے چوسر' کا لقب دیا ہے۔
نوائی کے تخلص سے مشہورِ عالم میر علی شیر نے ترک ادبیات کی بنیاد نہیں رکھی تھی۔ در حقیقت، ترک ادبیات کی تاریخ تو نوائی سے بھی کم سے کم سات سو سال پہلے تک جاتی ہے۔ لیکن نوائی نے وہ کام کیا جو چوسر نے ایک صدی قبل انگلستان میں کیا تھا، یعنی اُنہوں نے ترک گفتاری بولی میں اولین ممتاز ادیب بن کر ایک نئے قومی ادب کا انقلاب برپا کیا تھا۔
نوائی کے باصلاحیت ہاتھوں میں ترکی زبان کو، جسے اُس وقت کے اہلِ قلم روایتی طور پر گنوار اور ادنیٰ سمجھتے تھے، اعلیٰ ترین درجے کی نظم و نثر کے دل پذیر ذریعے کے طور پر پہچان ملی۔ اگرچہ اُس وقت کے عربی اور فارسی سے وابستہ ادبی حلقے اس بات کا دعویٰ کرتے تھے کہ وحشی ترکی زبان لطیف خیالات اور ارفع جذبات کو فصاحت، لطافت اور قوت کے ساتھ بیان کرنے پر قادر نہیں ہے، لیکن نوائی نے اپنے بے نظیر فن کی بدولت، اُنہیں غلط ثابت کر دکھایا۔
میر علی شیر نوائی ۱۴۴۱ء میں ہرات میں پیدا ہوئے تھے جو اب شمال مغربی افغانستان میں واقع ہے۔ اُس زمانے میں شہرِ ہرات خراسان کے حاکم اور عظیم تیمور لنگ کے چوتھے اور سب سے قابل بیٹے شاہزادہ شاہ رخ کا دارالحکومت اور قیام گاہ تھا۔ اگرچہ تیمور لنگ کا دارالحکومت آمو دریا کے شمال میں واقع شہر سمرقند تھا، لیکن یہ خراسان کا شہر ہرات تھا کہ جسے شاہ رخ کے ۱۳۹۷ء سے لے کر ۱۴۴۷ء تک جاری رہنے والے تابندہ و درخشاں دورِ حکومت میں مشرقی اسلامی دنیا کے والاترین علمی و ثقافتی مرکز بننے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ ہرات کے حریف شہروں میں دوسرے نمبر پر سمرقند تھا جو ۱۴۰۹ء سے ۱۴۴۶ء تک شاہ رخ کے بیٹے، اور مشہور ریاضی دان اور ستارہ شناس، الوغ بیگ کی حاکمیت میں تھا۔
پندرہویں صدی کے پہلے نصف کے پورے عرصے کے دوران شہرِ ہرات کی غالب ثقافت فارسی/ایرانی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ شاہ رخ خود ترک تھا، نیز حکمران طبقے کے ارکان کی اکثریت اور ہرات کے عام شہریوں کی ایک بڑی تعداد بھی ترک تھی۔ لیکن اوائلی فارسی/ایرانی تمدن کے چکاچوند کر دینے والے کارنامے سب کے سامنے اظہر من الشمس تھے، اور اس کے وقار اور مسلّمہ درخشندگی پر وسطی ایشیائی ترک فریفتہ تھے۔ ترک الاصل ادباء فارسی زبان میں لکھنے کو ترجیح دیتے تھے، جسے مسلم مشرق میں ثقافت اور علم کی زبان کے طور پر سراہا جاتا تھا۔ جبکہ ترک نسل کے مصور کلاسیکی فارسی/ایرانی نمونوں کی تقلید کرتے تھے۔ اس سے قبل، خود فارسی/ایرانی تمدن کو بھی عرب، اسلام کی جلا بخش توانائی کے ذریعے، ناقابلِ تنسیخ طور پر بدل چکے تھے۔
یہ تھا وہ ماحول جس میں نوائی نے اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔ اُنہوں نے مشہد (موجودہ شمال مشرقی ایران کا شہر)، ہرات اور سمرقند میں تعلیم حاصل کی تھی، بعد ازاں وہ ۱۴۶۹ء میں ہرات واپس آ گئے تھے جہاں اُن کا پرانا ہم مکتب اور تیمور کا پر پوتا حسین بایقرا خراسان کا سلطان بن چکا تھا۔ نوائی کی اس زمانے سے پہلے کی ادبی کوششوں کے بارے میں کوئی معلومات دسترس میں نہیں ہے۔ البتہ اگلی تین دہائیوں میں وہ اسلامی ادبیات کی تاریخ میں اپنے لیے حقیقی معنوں میں ایک زمانہ ساز ادیب کا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے، اور انہوں نے ان دہائیوں میں ہرات کو وہ رتبہ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جس کے بارے میں فرانسیسی مستشرق رینے گروسیت کے الفاظ یہ ہیں کہ اُس وقت کا ہرات 'تیموری نشاۃِ ثانیہ کے نام سے درست طور پر یاد کی جانے والی تحریک کا فلورنس تھا۔' [اس قول کا پس منظر یہ ہے یورپی تہذیبی نشاۃِ ثانیہ کا آغاز فلورنس سے ہوا تھا۔]
۱۴۶۹ء سے لے کر ۱۵۰۱ء میں اپنی وفات تک، در حقیقت، ایک نہیں بلکہ چار مختلف میر علی شیر نوائی گذرے ہیں، جن میں سے ہر ایک نوائی کی اسلامی تاریخ میں اپنی خاص اہمیت ہے۔ نوائی اپنی پہلی حیثیت میں سلطان حسین بایقرا کے معتمد و مشیر اور عوامی منتظم تھے۔ عمومی طور پر اگرچہ نوائی نے اپنے فن و ہنر کے لیے خود کو شدت سے وقف کر رکھا تھا، لیکن وہ دوسرے دنیاوی امور سے قطعاً بے علاقہ نہیں تھے۔ وہ سیاست اور قوانین سازی کے امور میں بہ طورِ کامل مشغول تھے، اور وہ اس سیاسی دنیا میں بڑی حد تک سلطان حسین سے اپنی قریبی، مگر بعض اوقات اتار چڑھاؤ رکھنے والی، دوستی کے نتیجے میں داخل ہوئے تھے۔ باوجودیکہ کچھ یورپی مصنفوں نے ادعا کیا ہے کہ نوائی سلطنت کے وزیر تھے، حقیقت یہ ہے کہ نوائی ہرات کے تیموری دربار سے کبھی وزیر یا وزیرِ اعظم کی حیثیت سے وابستہ نہیں رہے، گو وہ اس سے کم درجے کے سرکاری عہدوں پر ضرور فائز رہے تھے۔ تاہم گاہ گاہ اُن کی عمل داری تقریباً ایک وزیر ہی کے برابر ہوتی تھی: کم از کم ایک موقع پر ایسا ضرور تھا جب انہوں نے ۱۴۷۹ء میں سلطان حسین کی غیر موجودگی میں ہرات پر حاکمیت کی تھی۔ یہ دنیاوی و سیاسی امور یقیناً نوائی کے تحریر کے لیے وقف وقت میں شدید تخفیف کا باعث بنتے ہوں گے، لیکن یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے سلطان اور سلطنت کے مفادِ عامہ کی جانب ذمہ داری کا حقیقی جذبہ محسوس کرتے تھے۔
نوائی اپنی دوسری حیثیت میں ایک معمار تھے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف خراسان ہی میں وہ ۳۷۰ کے قریب مسجدوں، مکتبوں، کتب خانوں، شفا خانوں، کاروان سرایوں، اور دیگر علمی، مذہبی اور رفاہی اداروں کی بنیاد، مرمت اور عطا و بخشش کا باعث بنے تھے۔ شاید ان تمام کارِ خیر کے لیے اُنہوں نے اپنے معقول ذاتی وسائل کے علاوہ دربار میں موجود اپنے اثر و رسوخ کا بھی استعمال کیا ہو گا۔ ہرات میں واقع خالصیہ مدرسہ اور نیشاپور (شمال مشرقی ایران) میں واقع تیرہویں صدی کے عارف شاعر فریدالدین عطار کا مقبرہ وہ چند مشہور عمارتیں ہیں جن کی تعمیر میں اُن کا ہاتھ تھا۔
البتہ ہم تمدن میں پائدار شراکتوں کے لیے سب سے زیادہ نوائی کی آخری دو حیثیتوں کے مرہونِ منت ہیں۔ اور وہ دو حیثیتیں ہیں: نوائی بطور علم، فن اور ادب کے سرپرست و مروِّج؛ اور نوائی بطور ادیب و مصنف۔
چونکہ نوائی خود ایک موسیقی داں، نغمہ ساز، خطاط، مصور، مجمسہ ساز اور بہت ہی زیادہ ہر فن مولا اور ہمہ گیر ادیب تھے، لہٰذا وہ فنی اظہار کی تمام تخلیقی صورتوں سے وابستہ تھے۔ وہ تیموری ثقافت کے کئی مثالی نابغوں کے دوست اور فیاض سرپرست تھے، جن کی فہرست میں مشہور فارسی شاعر جامی کا - کہ جن کی مدح و تمجید میں نوائی نے خمسۃ المتحیّرین لکھی تھی -، فارسی مؤرخوں میرخواند اور اُن کے پوتے خواندمیر کا، کتابوں کی تذہیب کے لیے مصوری اور نگارگری کرنے والے بہزاد اور شاہ مظفر کا، اور قل محمد، شیخ نائی اور حسین عودی جیسے موسیقاروں کا نام لیا جا سکتا ہے۔
لیکن ان سب چیزوں سے بڑھ کر، نوائی کو آج اس لیے یاد کیا اور موردِ احترام مانا جاتا ہے کیونکہ اُنہوں نے حیرت انگیز انداز سے ترکی ادب کو ایک کامیاب شکل عطا کی تھی اور اسے خوب فروغ دیا تھا۔ ۱۴۰۰ء سے قبل بھی غیر سنجیدہ اور لوک ادب کے لیے ترکی لہجوں کا استعمال عام تھا، لیکن پندرہویں صدری عیسوی کے پہلے نصف میں وسطی ایشیائی ادیبوں کے ایک چھوٹے سے گروہ نے پہلی بار ادبیاتِ عالیہ و لطیفہ کے لیے ترکی زبان کے استعمال کی جانب لڑکھڑاتے قدم اٹھائے تھے۔ اس نئے ادب کی بنیاد رکھنے والوں کو، جن میں سکّاکی، لطفی، یقینی اور گدائی جیسے شعراء شامل تھے، کو ایک خاص اور دشوار مسئلہ درپیش تھا۔ وہ اپنی شاعری کو فارسی-عربی شعر گوئی کے قبول کردہ قواعد اور معیارات کے مطابق لکھنا چاہتے تھے، لیکن اُن کے پاس خام مال کے طور پر جو ترکی زبان موجود تھی وہ ان قواعد و معیارات کے لیے کچھ زیادہ موزوں نہیں تھی۔ بہرحال، اُن لوگوں نے ترکی کے مکمل ذخیرۂ الفاظ اور مختلف دستوری ترکیبوں کے ماہرانہ استعمال سے اور عربی اور فارسی سے بے شمار الفاظ اور عبارات اخذ کر کے وسطی ایشیا اور خراسان کی ترکی بولی سے ایک نئی ادبی زبان کی تخلیق کی تھی جسے 'چغتائی ترکی' یا صرف 'چغتائی' کے نام سے جانا گیا۔
چغتائی زبان میں تحریر شدہ کچھ ابتدائی تصنیفات، مثلاً لطفی کی شاعری، یقیناً دائمی خوبیوں کی حامل ہیں۔ لیکن مختلف علاقائی پس منظر کی وجہ سے ان ابتدائی چغتائی مصنفوں کی اور حتیٰ کہ ایک ہی شہر میں رہنے والے مختلف مصنفوں کی زبانیں بھی باہم متفاوت اور بے ثبات ہوتی تھیں۔ نوائی نے یہ منظرنامہ پوری طرح بدل دیا۔ تین دہائیوں پر محیط اُن کی تیس کے قریب چغتائی تصنیفات کا مجموعی نتیجہ یہ نکلا کہ اس نئی ادبی زبان کا معیار مقرر ہو گیا اور اسے ثبات و استحکام مل گیا۔ اور یہ صرف اور صرف نوائی کی شاعری کی بے مثال خوبیوں کی بدولت تھا کہ ترکی زبان اپنے آپ کو ادبی اظہار کے قابلِ قدر ذریعے کے طور پر منوانے میں کامیاب ہو سکی۔
نوائی کے معروف ترین اشعار اُن کے چار دیوانوں - غرائب الصغر، نوادر الشباب، بدائع الوسط اور فوائد الکبر ۔ میں موجود ہیں۔ اُنہوں نے چغتائی زبان میں شاعری سے متعلق کچھ فنی رسالوں کی تصنیف کرنا بھی اپنا فرض سمجھا تاکہ دوسرے ترکی گو شعراء کو ان سے مدد مل سکے۔ مثال کے طور اُنہوں نے میزان الاوزان کے نام سے شعری اوزان پر ایک مفصل رسالہ لکھا۔ اس کے علاوہ مجالس النفائس نامی ایک ضخیم تذکرہ بھی مرتب کیا، جس میں ۴۵۰ چھوٹے بڑے ہم عصر شاعروں کے سوانحی خاکے درج ہیں۔ یہ مؤخرالذکر کتاب تیموری ثقافت کے کسی بھی مؤرخ کے لیے سونے کی کان سے کم نہیں ہے۔
البتہ، نوائی کی شاید سب سے زیادہ دل سے لکھی گئی اور جذبات کی حامل تحریر اُن کی سب سے آخری تصنیف محاکمۃ اللغتین تھی جو اُن کی وفات سے تیرہ ماہ قبل دسمبر ۱۴۹۹ء میں مکمل ہوئی تھی۔ اس تصنیف میں نوائی نے طویل مضمون کی شکل میں ترکی زبان کی زوردار وکالت کی ہے۔ دوسرے ترک الاصل مصنفوں کو فارسی کے بجائے چغتائی میں لکھنے کی ترغیب دینے کی امید میں انہوں نے اس نگارش میں اپنے زاویۂ نظر کے حوالے سے فارسی پر ترکی کی فطری برتریوں کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے پسندیدہ ترین موضوعِ گفتگو پر حتمی فیصلے کی نیت سے لکھی گئی نوائی کی محاکمۃ اللغتین ایک ایسی تصنیف کی بہت ہی کامل مثال ہے جو کسی مصنف کی آخری کتاب کے ساتھ ہی اُس کے آخری وصیت نامے کے مثل بھی ہو۔
اس تصنیف کی ابتداء میں نوائی یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ اس دنیا میں زبانوں کی چار بنیادی انواع - یعنی عربی، فارسی، ترکی اور ہندی - ہیں اور ان میں سے ہر ایک اصل نوع کی 'بہت ساری فروع ہیں۔' چونکہ وہ ایک صادق الاعتقاد مسلمان تھے، اس لیے اپنے دینی عقیدے کے بموجب وہ دیگر زبانوں پر عربی کی مطلق برتری پر کوئی سوال نہیں اٹھاتے اور اس ضمن میں کہتے ہیں کہ "ان [تمام زبانوں] کے درمیان عربی آئینِ فصاحت کے لحاظ سے ممتاز اور تزئینِ بلاغت کے لحاظ سے معجزہ طراز ہے اور اس باب میں کسی اہلِ تکلم و صدق و تسلیم کو کسی قسم کا مجالِ دعویٰ نہیں ہے؛ کیونکہ کلامِ معجز نظامِ مَلِکِ علّام - جلّ و علا - اس زبان میں نازل اور احادیثِ سعادت انجامِ رسول - علیہ الصلواۃ والسلام - اس لفظ میں وارد ہوئی ہیں، اور اولیائے کبار و مشائخِ عالی مقدار - قدس اللہ اسرارہم - نے جو حقائق و معارف بیان کے ہیں اور جن معانیِ زیبا کو لباسِ تقریر پہنایا ہے، وہ جملہ اسی عبارتِ فرخندہ و الفاظ و اشاراتِ خجستہ صورت میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔" البتہ وہ اپنے نقطۂ نظر کے تحت مختصراً ہندی کو 'شکستہ قلم کی خراش' جیسی سنائی دینے والی اور اُس کے رسمِ خط کو 'کوے کے قدموں کے نشان جیسا' کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں۔ عربی اور ہندی کے بارے میں رائے دینے کے بعد، ہرات اور پورے مسلم وسطی ایشیا میں بولی جانے والی دو زبانیں ترکی اور فارسی داوری کے لیے باقی رہ جاتی ہے۔
محاکمۃ اللغتین میں نوائی نے مکرراً فارسی الفاظ کے بر خلاف ترکی الفاظ کی ثروتمندی، واضحیت اور اشتقاق پذیری پر زور دیا ہے۔ مثلاً وہ ہمیں آگاہ کرتے ہیں کہ ترکوں کی زبان میں عورت کے چہرے پر موجود زیبائی کے نشان کے لیے ایک خاص لفظ موجود ہے، لیکن فارسی زبان میں ایسا کوئی متبادل لفظ ناپید ہے۔ نوائی کے مطابق، کئی ترکی الفاظ کے تین، چار یا اس سے بھی زیادہ معانی ہیں جبکہ فارسی میں اس طرح کے لچک دار الفاظ کا فقدان ہے۔ ترکی زبان کی مختلف چیزوں کے مابین دقیق امتیاز کرنے کی قابلیت کو بیان کرنے کے لیے وہ ایسے نو ترکی الفاظ کی فہرست پیش کرتے ہیں جو بطخوں کی مختلف انواع کی شناخت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن فارسی کے بارے میں وہ ادعا کرتے ہیں کہ اس میں ان تمام انواع کے لیے ایک ہی لفظ موجود ہے۔ کتاب کا ایک کے بعد ایک صفحہ اسی طرح کے استدلالوں سے پُر ہے۔
نوائی اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ فارسی کے مقابلے میں ترکی میں اچھا لکھنا زیادہ مشکل ہے۔ محاکمۃ اللغتین کے مندرجہ ذیل اقتباس میں اپنے ہم عصر نوجواں ترکی گو شاعروں کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے اور اُن شاعروں کے فنّی شش و پنج کی ہمدردانہ تفہیم ظاہر کرتے ہوئے نوائی لکھتے ہیں:
"بے شک، اس زبان میں موجود عجیب اور نادر معانی کا استعمال مبتدیوں کے لیے آغاز میں آسان کام نہیں ہے۔ اس طرح کی دشواریوں کے مقابل مبتدی شعراء [ترکی سے] منہ موڑ لیتے ہیں اور ایک آسان تر راہ [یعنی فارسی] کی جانب منتقل ہو جاتے ہیں، اور جب ایسا چند بار ہو جاتا ہے تو وہ اس حال کے خو گرفتہ ہو جاتے ہیں، اور پھر اُن کے لیے اس عادت کو ترک کر کے مشکل تر راستے پر آنا بہ سہولت امکان پذیر نہیں رہتا۔ بعدازاں، جب دوسرے مبتدی اپنے متقدموں کے طرزِ عمل اور تالیفات کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی اس راہ سے منحرف ہونا مناسب نہیں سمجھتے۔ نتیجتاً وہ بھی اپنی نظمیں فارسی میں لکھتے ہیں۔
مبتدیوں کے لیے یہ بات فطری ہے کہ جو کچھ انہوں نے لکھا اور کہا ہے وہ اُسے اہلِ فن اور اساتذہ کو دکھانا پسند کرتے ہیں، اور جملہ صاحبانِ قلم کی یہی عادت ہے۔ لیکن چونکہ اس فن کے اساتذہ فارسی گو ہیں اور وہ کلامِ ترکی سے بہرہ مند نہیں ہیں، لہٰذا جوانانِ ترک بھی فارسی کی طرف ملتفت ہو کر اسی میں سخن سرائی کرنے لگتے اور اسی خیل کا حصہ بن جاتے ہیں۔"
لیکن وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمام رکاوٹوں کے باوجود ترک الاصل شاعروں کو ترکی میں لکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ شاید مبتدی مصنفوں کی حوصلہ افزائی کی غرض سے، کتاب میں نوائی حکایت کرتے ہیں کہ کیسے اُنہوں نے اپنے ایامِ جوانی میں ترکی کی ناقابلِ توصیف شان و شوکت کو دریافت کیا تھا:
"بدقسمتی سے یہ بات حقیقت ہے کہ شاعری کے ذریعے کے طور پر فارسی کے مقابلے میں ترکی کی فوقیت، عُمق اور وسعت کی جانب ہر کوئی متوجہ نہیں ہوا ہے۔۔۔ یہ خاکسار اوائلِ شباب میں تھا جب میرے صندوقِ جواہرات جیسے دہن سے کچھ گوہر ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ یہ گوہر، ہنوز سلکِ نظم میں داخل نہیں ہوئے تھے لیکن اس غوّاص طبع کی سعی سے دریائے ضمیر سے وہ گوہر ساحلِ دہن تک پہنچنے لگے جو سلکِ نظم میں پروئے جانے کے قابل تھے۔
چونکہ میں عاداتِ مذکورہ سے خود کو بری کرنا نہیں جانتا تھا اس لیے میں بھی اُسی طرح فارسی میں سخن سرائی کرتا رہا۔ لیکن جس وقت میں نے سنِ تعقل و شعور میں قدم رکھا تو حق سبحانہ وتعالیٰ نے مجھے غرابت الطبع، دقت نظری اور مشکل پسندی کی خصلتیں ودیعت کیں۔ [لہٰذا] مجھے ترکی الفاظ میں غور و فکر کرنا لازم نظر آیا۔ [اس کے نتیجے میں] میری آنکھوں کے سامنے ایک عالم ظاہر ہوا جو اٹھارہ ہزار عالموں سے بزرگ تر تھا، اور جس کے سپہر کی زیب و زینت فلک کی نو کرسیوں سے برتر تھی، اور جس کے مخزنِ رفعت و فضل کے جواہرات کواکب سے رخشاں تر تھے۔ میں اس عالم کے گلزار میں، جس کے گُل اخترانِ سپہر سے درخشندہ تر تھے، گلگشت کے لیے داخل ہوا۔ اس باغ کے حریم کی اطراف قدموں کی گذرگاہ سے محفوظ، جبکہ اس کی نادر اجناس اغیار کی دسترس سے مامون تھیں۔"
میر علی شیر نوائی کا انتقال ۳ جنوری ۱۵۰۱ء کو ہوا۔ سلطان حسین بایقرا نے جنازے میں شرکت کی اور بعد ازاں اپنے عمر بھر کے دوست کے لیے تین دن سوگ منایا۔ شہر میں ایک بہت بڑی عزائی تقریب منعقد کی گئی تاکہ ہرات کے تمام باشندے اپنے فوت شدہ ملک الشعراء کو اجتماعی طور پر خراجِ تحسین پیش کر سکیں۔
تقریباً اس کے فوراً بعد ہی دوسرے مصنفوں نے بھی ادبی ترکی کا معیار اپنا لیا۔ مغل سلطنت کے بانی اور تیمور و چنگیز دونوں کے خلف ظہیرالدین بابر (۱۴۸۳-۱۵۳۰ء) نے اپنی مشہورِ زمانہ سوانحِ عمری چغتائی زبان میں لکھی تھی۔ دوسری جانب مغربی سمت میں واقع عثمانی سلطنت میں عثمانی ترکی میں لکھنے والے مصنفوں نے نوائی کی تالیفات کا عرق ریزی کے ساتھ مطالعہ کیا اور اُن کی نظموں کو بطور نمونہ پیشِ نظر رکھ کر اپنی شاعری کہی۔ ہرات کے اس بلبل نے اگرچہ ترکی کے ایک مختلف لہجے میں اپنی تصنیفات تحریر فرمائی تھیں، لیکن اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ اُن کی تالیفات ہی عثمانی شاعری کے ارتقاء و تکامل کا محرّک بنیں۔ نوائی نے آذربائجانی شاعر فضولی بغدادی (متوفی ۱۵۵۴ء) پر بھی بہت گہرا اثر ڈالا تھا، جو کہ صدیوں سے پوری ترکی گو دنیا کا محبوب ترین شاعر رہا ہے۔ عظیم عثمانی اور آذری شعراء کے منصۂ شہود پر آنے سے ترکی زبان کا اسلام کی تیسری کلاسیکی زبان ہونے کا درجہ راسخ ہو گیا۔
وسطی ایشیا ہی کی بات کی جائے تو وہاں چغتائی زبان و ادب کے بے ہمتا استاد کے طور پر نوائی کی شہرت مسلّم رہی، اور مرورِ زمانہ کے ساتھ اُن کی قدر و منزلت ہی میں اضافہ ہوا۔ نوائی کی وفات کے چار سو سال بعد تک چغتائی زبان وولگا سے لے کر چینی ترکستان کے مسلمان ترکوں کی ادبی زبان کے طور پر خدمات انجام دیتی رہی۔ اس پورے دورانیے میں چغتائی کی قدامت پسندی کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ چغتائی زبان کا کوئی ادیب نوائی سے بڑھ کر باوقار ہونے اور اثر و رسوخ رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکا تھا، نیز تمام ادباء ہی نوائی کے اسلوب اور ذخیرۂ الفاظ کی نقل کرنے پر مائل رہتے تھے۔ لیکن انجامِ کار، چغتائی زبان کی افادیت کم ہو گئی، اور اس نے اپنی دختر زبانوں - یعنی وسطی ایشیا کی جدید ترک زبانوں مثلاً ازبکی، قزاقی، قرغیزی اور مشرقی ترکی (جسے جدید اویغری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) - کے لیے راستہ صاف کر دیا اور خود کنارہ کش ہو گئی۔ چغتائی کی جگہ پر اُس کی دختروں کا تخت نشیں ہونا ایسا ہی ہے جیسے یورپ میں پچھلی صدیوں میں لاطینی کے مقام پر اُس کی دختر زبانیں فرانسیسی، اطالوی، ہسپانوی اور پرتگالی وغیرہ متمکّن ہو گئی تھیں۔
البتہ نوائی کی کہانی اس صدی کے اوائل میں ہونے والی چغتائی کی وفات پر ہرگز ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ اب تو اُن کی کہانی کا ایک نیا باب لکھا جا رہا ہے، اور اس کی وجہ وہ غیر معمولی تعظیم ہے جو سوویت اتحاد، افغانستان اور چین کے مسلمان ازبک اس شاعر کی کرتے ہیں۔ اگر نوائی بالعموم تمام ترکوں کے چوسر ہیں، تو وہ ترکوں کے اس مخصوص گروہ کے لیے چوسر، دانتے، سیروانتیس اور شیکسپئر سب ہی کچھ ہیں۔
چین اور سوویت اتحاد کے مسلم اویغروں کی زبان مشرقی ترکی کے ہمراہ ازبکی ہی وہ جدید زبان ہے جو کلاسیکی چغتائی سے سب سے زیادہ قرابت رکھتی ہے۔ ازبک لوگوں نے نوائی کو اپنے قومی شاعر کے طور پر منتخب کر لیا ہے، اور سوویت اتحاد میں چغتائی کو عموماً 'قدیم ازبکی' کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ ۱۹۶۶ء میں جب نوائی کی پیدائش کی ۵۲۵ویں برسی تھی تو اُس موقع پر ازبکستان میں سرکاری سطح پر اور دل کی گہرائیوں سے اس شاعر کا جشن منایا گیا تھا۔ اسی ازبکستان ہی میں اسلامی تمدن کے یہ پانچ تاریخی مراکز موجود ہیں: تاشقند، سمرقند، بخارا، خوقند اور خیوہ۔ شاعر کی تجلیل اور اُن کے جملہ آثار تک دسترس آسان بنانے کی غرض سے اُن کی تمام تصنیفات پندرجہ جلدوں میں ازبک دارالحکومت تاشقند میں شائع ہوئی تھیں۔ اُن کی انفرادی کتابیں اور رسالوں کی کئی اشاعتیں اور منتخب تحریروں کے کئی مجموعے چھپ چکے ہیں اور اس پورے زمانے میں نوائی کی زندگی پر مبنی کئی ناول اور تمثیلیں اور اُن سے تعلق رکھنے والی بے شمار تحقیقاتی اور سوانحی کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں۔
لیکن ان سب کے باوجود ہمیں یہ بالکل نہیں بھولنا چاہیے کہ نوائی صرف ازبکوں ہی کی اختصاصی ملکیت نہیں ہے، بلکہ جہاں کہیں بھی مسلمان ترک پائے جاتے ہیں - خواہ وہ ترکی کا استانبول ہو، خواہ ایران کا تبریز ہو، خواہ تاتارستان کا قازان ہو، خواہ وسطی ایشیا کا تاشقند ہو یا خواہ چینی ترکستان کا اورومچی ہو؛ اور خواہ یہ شہر ایک دوسرے سے کتنے ہی دور یا مختلف کیوں نہ ہوں - وہاں نوائی کی وفات کے تقریباً پانچ سو سال بعد بھی اُن کی شاعری سے اُسی طرح لطف اٹھایا جاتا ہے۔ اپنے پیشروؤں دانتے اور چوسر کی طرح، نوائی نے بھی تنِ تنہا ہی ایک زبان کو قابلِ احترام بنایا اور اسے دنیا کے اہم ادبوں کی صف میں لا کر کھڑا کیا تھا۔ ہمارے لیے ایسا کوئی بھی آئندہ زمانہ تصور کرنا ناممکن ہے جب نوائی کی تالیفات کا مطالعہ ختم ہو جائے گا، اور یہ بات جتنی دانتے اور چوسر کے حق میں درست ہے، اُسی طرح نوائی پر بھی کاملاً صادق ٹھہرتی ہے۔

(نویسندہ: بیری ہابرمین)
یہ مضمون سعودی آرامکو ورلڈ مجلّے کے جنوری/فروری ۱۹۸۵ء کے شمارے میں چھپا تھا جس کا میں نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اگر ترجمے میں کوئی خامی نظر آئے یا کوئی اور تجویز ہو تو ضرور گوش گزار کیجیے گا۔ اصل انگریزی مضمون یہاں سے پڑھا جا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
میر علی شیر نوائی کی ایک خیالی تصویر جسے روسی مصور ولادیمیر کائدالوف نے ۱۹۴۸ء میں پردے پر کھینچا تھا۔
33.jpg
 

تلمیذ

لائبریرین
بے حد معلوماتی مضمون۔
آپ کا ترجمےکا ہنر (فن) بھی قابل داد اور متاثر کن ہے۔ جس کو کئی کہنہ مشق مترجمین کے مساوی قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس عاجزکی جانب سے پُر خلوص خراج تحسین قبول کریں۔ اللہ تعالےٰ آپ کو مزید ترقیاں دے، آمین۔
 

حسان خان

لائبریرین
امیر علی شیر نوائی

جب نویں صدی ہجری کے آخر میں علم و ادب کا بازار گرم تھا تو ادبِ عالیہ، جس میں جامی کی تحریریں ستاروں کی مانند جھلملا رہی تھیں، کی تخلیق میں اِس علم پرور امیر کا بڑا ہاتھ رہا۔ امیر، جو خود ادیب و صاحب ذوق تھا، سلطان حسین بایقرا کے دربار میں کافی اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ ذاتی طور پر بھی اس کے پاس دولت کی کمی تھی، نہ شان و شوکت کی۔
فضلا، شعرا اور اہلِ ذوق پروانہ وار اُس کے گرد جمع ہوتے لیکن وہ خود نہایت عقیدت سے مولانا جامی کے آگے سر جھکاتا۔ امیر کے ہاں جامی کی قدر و منزلت تو تھی ہی مگر وہ آپس میں دوست بھی تھے۔ بلکہ دونوں میں استادی و شاگردی کا رشتہ بھی قائم تھا۔ جامی کی اکثر کتابوں کی تصنیف کے پسِ پردہ امیر علی شیر کی خواہش اور حوصلہ افزائی کار فرما رہی ہے۔ انہوں نے اپنے اپنی ایسی تمام کتب میں امیر کا نام بڑے احترام سے لیا ہے۔ اُن کے کئی ایسے منثور مراسلات و منظوم قصائد و قطعات و غزلیات موجود ہیں جو امیر کے لیے لکھے گئے یا اس کے جواب میں کہے گئے۔
جامی کی بیشتر کتب کی تألیف ان کی عمر کی آخری چوتھائی یعنی ۸۷۵ ہجری اور ۸۹۸ ہجری کے درمیان ہوئی جو امیر علی شیر کی تحریک اور تشویق کے دلائل میں سے ایک ہے۔
جامی کی وفات پر امیر نے سات بندوں میں ستّر اشعار پر مشتمل ایک طویل اور پُرسوز مرثیہ لکھا ہے، جس کا مطلع یہ ہے:
ہر دم از انجمن چرخ جفای دگر است
ہر یک از انجم او داغ بلای دگر است
پھر مولانا کی یاد میں اُن کے حالات پر ایک کتاب خمسۃ المتحیرین تألیف کی۔ جس میں جامی کی وفات پر خود کو 'عزادار' ظاہر کیا ہے۔
مناسب ہو گا اگر ہم یہاں امیر کی سیاسی اور علمی خدمات کا بھی جائزہ لے لیں۔
امیر بچپن ہی سے سلطان حسین بایقرا کا دوست چلا آ رہا تھا۔ چنانچہ جب سلطان ہرات کے تخت پر بیٹھا تو اُسے سلطان کی خصوصی توجہ اور نوازش حاصل رہی۔ شاہی فرامین پر مُہر لگانے کا منصب اسے تفویض ہوا۔ اس نے اپنی سخاوت، استغنا، دنیاوی جاہ و جلال سے بیزاری، سرکاری مشاغل سے دوری اور بے غرضی سے جلد ہی سلطان اور شاہزادوں کا اعتماد حاصل کر لیا۔ سب اس کا احترام کرتے تھے۔ سلطان نے اسے رکن السلطنۃ، اعتماد الملک والدولہ اور مقرب الحضرۃ السلطانی کے القاب سے نوازا۔ بارہا بڑے بڑے کام اس کے سپرد کیے گئے۔ مثلاً صوبہ استرآباد کا انتظام، جو اُس وقت سلطان کی مملکت کا ایک وسیع اور آباد علاقہ تھا، اسے سونپا گیا لیکن کچھ روز کے بعد اس نے استعفیٰ دے کر گوشۂ فراغت، اطمینانِ خاطر اور ادبی مطالعات کو دنیاوی جاہ و جلال پر ترجیح دی۔ جامی کے مشورے پر وہ سلسلۂ نقشبندیہ سے وابستہ ہو کر وادیِ تصوف میں داخل ہو گیا۔
امیر کے دل میں نیک کام انجام دینے کا بے پناہ جذبہ موجود تھا۔ کہتے ہیں، اس نے تین سو ستّر مساجد، مدارس، مقابر اور مزارات کی بنیادیں رکھیں یا تعمیر اور مرمت کروائے۔ مشہورِ زمانہ مصور استاد بہزاد اور شاہ مظفر، موسیقار قول محمد، شیخ نائی اور حسین عودی کا عروج اسی کی سرپرستی کا نتیجہ ہے۔ وہ خود بھی ایک ماہر موسیقار، سازندہ اور زبردست مصور تھا۔
ترکی شاعری میں علی شیر کی نظیر نہیں ملتی۔ اِس زبان میں اُس کی غزلیات کے چار دیوان، خمسۂ نظامی کے جواب میں پانچ طویل مثنویاں اور عطّار کی مثنوی منطق الطیر کی تقلید میں لسان الطیر موجود ہیں۔ ترکی میں وہ 'نوائی' تخلص کرتا اور اس کی شہرت بحیثیتِ شاعر ترکی شاعری ہی سے ہے۔ فارسی شاعری میں وہ 'فانی' تخلص کرتا، لیکن یہاں وہ ترکی والی بات پیدا نہیں کر سکا۔ پھر بھی اُسے 'ذواللسانین' (دو زبانوں والا) کا لقب دیا گیا ہے۔ اس کی ترکی اور فارسی کتابوں کی مجموعی تعداد تیس کے قریب ہے۔ چند نام یہ ہیں:
۱۔ غزلوں کے چار دیوان: غرائب الصغر، نوادر الشباب، بدایع الوسط، فواید الکبر
۲۔ خمسہ، یہ پانچ مثنویاں ہیں: تحیۃ الابرار، فرہاد و شیریں، لیلیٰ و مجنون، سدِ سکندری، سبعہ سیارہ
۳۔ لسان الطیر
۴۔ مجالس النفائس، یہ نوائی کے معاصر شعرا کا مختصر تذکرہ ہے۔ دسویں صدی ہجری میں اس کتاب کا دو دفعہ فارسی ترجمہ ہو چکا ہے۔
۵۔ سراج المسلمین
۶۔ اربعین منظوم
۷۔ نظم الجواہر
۸۔ محبوب القلوب
۹۔ تاریخِ انبیاء
۱۰۔ تاریخِ ملوک العجم
۱۱۔ نسائم المحبۃ
۱۲۔ رسالۂ عروضیہ
۱۳۔ خمسۃ المتحیرین
۱۴۔ محاکمۃ اللغتین، اس کتاب میں مصنف نے ترکی زبان کی فارسی زبان پر برتری ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب ۹۰۵ ہجری میں لکھی گئی۔
۱۵۔ حالاتِ پہلوان اسد
۱۶۔ حالاتِ سیّد حسن اردشیر
۱۷۔ مفردات، فنِ معمّا میں ہے۔
۱۸۔ قصۂ شیخ صنعان
۱۹۔ مناجات نامہ
۲۰۔ منشآتِ ترکی
۲۱۔ دیوانِ فارسی
۲۲۔ منشآتِ فارسی
۲۳۔ میزان الاوزان، علمِ عروض میں
صاحبِ حبیب السیر، جو امیر کا معاصر ہے اور پروردہ بھی، ۹۰۶ ہجری کے واقعات کے بعض ذیل میں میں اس کی وفات کا واقعہ یوں بیان کرتا ہے:
"اتوار، ۱۲ جمادی الآخر کی صبح امیر کی روح قفسِ عنصری کی گھٹن سے نکل کر ریاضِ جاودانی کی پہنائیوں کی طرف پرواز کر گئی۔ علی الصبح جب یہ غم انگیز خبر دارالحکومت ہرات میں پھیلی تو ہر خاص و عام پر حزن و ملال کی کیفیت طاری ہو گئی۔ کیا فقیر، کیا وزیر، کیا بوڑھے، کیا بچے، سب آہ و بکا کر رہے تھے۔
علما کے سر سے دستارِ فضیلت گر پڑی۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب انہیں کون نوازے گا۔ واجب الاحترام فضلا کی شکیبائی کا دامن تار تار ہو گیا، وہ نہیں جانتے تھے کہ اس کے بعد کس کی مجلس کا رخ کریں۔"
صاحبِ حبیب السیر نے امیر علی شیر نوائی کے اخلاق و آداب، اشعار اور تألیفات کی تفصیل پر ایک علیحدہ رسالہ مکارم الاخلاق بھی لکھا ہے۔

مصنف = علی اصغر حکمت
کتاب = جامی: متضمنِ تحقیقات در تاریخِ احوال و آثارِ منظوم و منثورِ خاتم الشعرا نورالدین عبدالرحمٰن جامی
مترجم = عارف نوشاہی

محمد وارث سید عاطف علی تلمیذ محمود احمد غزنوی
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت شکریہ، حسان خان جی۔ بڑی عمدہ اور معلوماتی سرچ ہے۔ میں نے پوری کتاب ڈاؤن لوڈ کر لی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
"مولانا جامی کے پیروؤں کے درمیان اُن کے شاگردِ باوفا علی شیر نوائی خاص مقام کے حامل تھے اور اُن کا شمار تالیفاتِ جامی کے اولین ترجمانوں میں ہوتا تھا۔
جامی اور نوائی کا باہمی تعلق پیر و مرید، استاد و شاگرد اور دو برادروں کے مابین رہنے والی دوستی اور صمیمیت کا ایک برجستہ نمونہ تھا جو ہر قسم کی غرَض سے پاک تھا۔ جامی نے اپنی مثنوی 'لیلیٰ و مجنون' میں اپنے شاگرد نوائی کی دوستی و رفاقت کو اس طرح قلمبند کیا ہے:
خاصہ، کہ بہ باغِ آشنائی
بر شاخِ وفا بوَد نوائی
خود علی شیر نوائی نے بھی اپنے استادِ بزرگوار اور برادرِ جانی عبدالرحمٰن جامی کی وفات پر ایک ایسا جاں سوز مرثیہ لکھا تھا جس کی مولانا حسین واعظ کاشفی کی زبان سے قرائت نے سب کو گریہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ مرثیۂ مذکور، بلاشبہہ، ادبیاتِ فارسی میں شاعری کے بہترین نمونوں میں سے ایک ہے۔
نیز، نوائی نے اپنے استاد اور دوستِ بزرگوار کی پاک روح کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی لکھا تھا:
تو برفتی و دلِ خلقِ جہان زار بماند
تا قیامت بہ فراقِ تو گرفتار بماند
مولانا عبدالرحمٰن جامی اور امیر علی شیر نوائی کی صادقانہ دوستی، کہ جس کا احساس ان دو مذکورہ بالا مصرعوں میں بخوبی ہو جاتا ہے، تاجک اور ازبک ملّتوں کی دوستی کا برجستہ اور عبرت آموز نمونہ ہے۔"

(صدرِ تاجکستان امام علی رحمان)
۴ اکتوبر، ۲۰۱۴ء
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مشہد میں امیر علی شیر نوائی مشاورتی جلسے کا اغاز ہو گیا۔

امیر علی شیر نوائی کے ۵۸۴ویں یومِ ولادت کے موقع پر شاعر کی تالیفات، افکار اور خدمات پر گفتگو کے لیے آج سے مشہد کی دانشگاہِ فردوسی کے شعبۂ ادبیات میں بین الاقوامی امیر علی شیر نوائی مشاورتی جلسے کا آغاز ہو گیا ہے۔
ادبیات، ترجمہ، دین و عرفان، سیاست، مکتبِ ہرات، زبان شناسی، علی شیر نوائی کی خدمات اور اسی طرح کے دیگر موضوعات سے مرتبط یہ جلسۂ مشاورت صوبے، ملک اور منطقے کی مشہور شخصیات کی معیت میں آج صبح نو بجے سے شروع ہو گئی ۔
مشاورت کے انعقاد کرنے والوں کے مطابق یہ مشاورت ایران اور وسطی ایشائی ممالک کے درمیان ثقافتی، اجتماعی، سیاسی اور اقتصادی روابط کے فروغ کے ہدف کے ساتھ منعقد کی جا رہی ہے تاکہ وسطی ایشیائی ممالک میں ثقافتی وحدت کی ایجاد میں اس شاعر و عارف کی تصنیفات، تفکرات اور ثقافتی خدمات کے کردار کو اجاگر کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، اس مشاورت کے دیگر اہداف میں ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان ثقافتی روابط کے پیوند میں امیر علی شیر نوائی کے کردار کی تکریم اور شاعر پر تحقیقات کرنے والے منطقے کے محققوں کے درمیان گفتگو اور آراء کا تبادل شامل ہیں۔
علاوہ بریں، یہ طے پایا ہے کہ خاص نشستوں میں آج شام سے شرکائے جلسۂ مشاورت کی جانب سے مقالات پیش ہونے شروع ہو جائیں گے۔ اور اس مشاورت میں پیش کیے جانے والے منتخب تحقیقی مقالات بعد میں دو مجموعوں کی شکل میں شائع کیے جائیں گے۔
۱۶ رمضان ۸۴۴ ہجری کو اپنی آنکھیں کھولنے والے امیر علی شیر نوائی خطے کے ثقافتی و اجتماعی مفاخر میں سے ایک ہیں جنہوں نے عمرانی کاموں اور مشکلاتِ مردم کی برطرفی میں مشغول رہنے کے علاوہ دو زبانوں فارسی اور چغتائی ترکی میں وافر شعر گوئی بھی کی ہے۔
امیر علی شیر نوائی کا ترکی اشعار میں تخلص 'نوائی' جبکہ فارسی اشعار میں 'فانی' اور 'فنائی' تھا۔
نوائی فارسی گو شاعروں حافظ، سعدی، عطّار، جامی وغیرہ سے عشق کرتے تھے لیکن اُنہوں نے چغتائی ترکی کو بھی اپنے فنی اظہار کا ذریعہ بنایا۔
نوائی کے بعد چغتائی ترکی اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہنا ایک ادبی روایت بن گیا اور ماوراءالنہر کا منطقہ فارسی اور چغتائی ادب کے محلِّ تخلیق میں تبدیل ہو گیا۔

خبر کا منبع
تاریخ: ۷ فروری ۲۰۱۵ء
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مشہد میں امیر علی شیر نوائی کی یاد میں شبِ شعر کا انعقاد

مشہد کی دانشگاہِ فردوسی کے شعبۂ ادبیات میں ہفتے کی رات کو تیموری دور کے خراسانی شاعر اور ممتاز دانشمند امیر علی شیر نوائی کی یاد میں 'ہم صدا با آفتاب' نامی شبِ شعر خوانی کا انعقاد ہوا۔
بین الاقوامی امیر علی شیر نوائی جلسۂ مشاورت (کانفرنس) کے ایام میں منعقد ہونے والی اس شبِ شعر خوانی میں تاجکستان، پاکستان، ہندوستان، افغانستان اور ایران کے شاعروں نے شرکت کی۔
اس یادگاری نشست میں پاکستان کے اردو گو شاعر پروفیسر افتخار حسین عارف نے حضرتِ رسول (ص) کے وصف میں کہے گئے اپنے شعر پڑھے۔
اس کے بعد، کشورِ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے شعراء ڈاکٹر سید تقی عباسی، ڈاکٹر اخلاق احمد انصاری اور ڈاکٹر عزیز مہدی نے بھی اپنے اشعار کی قرائت کی۔
اس شبِ شعر میں شعر گوئی کرنے والے دوسرے شاعروں میں کشورِ تاجکستان کے منصور خواجہ اف اور رستم آی محمد اف، اور ایران میں افغانستان کے ثقافتی سفیر محمد افسر رہ بین بھی شامل تھے۔
اس کے علاوہ ایران کے کچھ مشہور شاعروں جیسے علی رضا قزوہ، محمد جواد شاہ مرادی تہرانی، امیر برزگر، محمد رضا سرسالاری، محسن فدائی، مہدی آخرتی اور ایمان بخشائشی نے اس یادگاری شبِ شعر میں شرکت کی اور حاضرین کے سامنے اپنے اشعار پڑھے۔
پہلے بین الاقوامی امیر علی شیر نوائی جلسۂ مشاورت کا انعقاد مشہد کی دانشگاہِ فردوسی کی کوششوں اور دیگر چوبیس مؤسسوں کے تعاون سے ہوا ہے اور یہ سات سے نو فروری تک دانشگاہِ فردوسی کے شعبۂ ادبیات میں جاری رہے گا۔
۸۴۴ ہجری میں شہرِ ہرات میں متولد ہونے والے امیر علی شیر نوائی شاعر، دانشمند اور سلطان حسین بایقرا گورکانی کے وزیر تھے۔
فارسی اور ترکی دونوں زبانوں میں اُن کے بہت سارے اشعار موجود ہیں، اسی وجہ سے اُن کو 'ذواللسانین' کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
اُن کا انتقال ۹۰۶ ہجری کو ہرات میں ہوا تھا اور وہ سلطان شاہ رخ تیموری کی بیوی گوہرشاد بیگم کی آرامگاہ کے جوار میں واقع اور اپنے ہی ہاتھوں بنائے گئے 'اخلاصیہ' میں دفنائے گئے۔

خبر کا منبع
تاریخ: ۷ فروری ۲۰۱۵ء
 
آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
شراکت کا شکریہ، حسان خان جی۔
پاکستان سے افتخار عارف صاحب کی شرکت کا پڑھ کر مسرت ہوئی ہے۔ کیا انہوں نے فارسی کے اشعار پڑھے تھے؟
 

عمارحسن

محفلین
آپ کی ہر تحریر مجھے ماضی میں ایسے لے جاتی ہے جیسے میں اُس زمانے کا ہی ہوں،جہاں میں خیالی گلیاں اور محلے بناتا ہوں اور اُن میں آوارہ گھومنے لگتا ہوں کبھی کسی دربار میں گھس گیا ، کبھی کسی بازار میں ، کبھی سبزہ زار میں۔۔۔

پھر اچانک یہاں دفتر میں موجود دوسرے ملکوں کے لوگوں کی مختلف بولیاں مجھے واپس اپنی اوقات میں لے آتی ہیں۔۔۔۔

اگر ایسے ہی آپکے مراسلے پڑھتا رہا تو ہو سکتا ہے کسی دن میں بھی نکل ہی جاؤں ان گلیوں میں ۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
پاکستان سے افتخار عارف صاحب کی شرکت کا پڑھ کر مسرت ہوئی ہے۔ کیا انہوں نے فارسی کے اشعار پڑھے تھے؟
یقینی طور پر تو معلوم نہیں، لیکن گمان یہ ہے کہ وہ اشعار یا تو فارسی میں ہوں گے یا پھر اُن کی کسی اردو نظم کا فارسی ترجمہ ہو گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
محمد امین صدیقی: 'امیر علی شیر نوائی جلسۂ مشاورت' خطے میں باہمی روابط کو گہرا کرنے کا باعث بنے گا

افغانستان کے عمومی قونصل محمد امین صدیقی نے مشہد میں ہونے والے 'بین الاقوامی امیر علی شیر نوائی جلسۂ مشاورت' میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ وہ اس طرح کے مشاورتی جلسوں کو منطقے کے ممالک کے مابین ثقافتی روابط میں گہرائی لانے کا سبب سمجھتے ہیں۔
علاوہ بریں، محمد امین صدیقی نے علی شیر نوائی کی تاریخی شخصیت کا شمار اس تمدنی قلمرو کے مفاخرِ علم و ادب میں کیا اور کہا کہ وہ اس پورے خطے سے تعلق رکھتے ہیں۔
افغانستان کے عمومی قونصل نے تیموری دور کو اس ثقافتی قلمرو کے ساکنوں کے لیے مختلف پہلوؤں سے بہت گراں بہا پکارا۔
اُن کے مطابق، تیموری دور میں اس خطۂ ارض کے لوگوں کی ثقافتی میراث نے - کہ جو دینی لحاظ سے اسلام پر مبنی اور لسانی و ہنری لحاظ سے فارسی پر مبنی تھی - اپنی بقا و پائداری کی قوت کو ظاہر کیا تھا۔
صدیقی نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ "اس ثقافتی بیداری کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ یہ اس منطقے کے ایک دیرینہ و سابقہ دار اور علم و ادب کی مالامال تاریخ کے حامل شہر ہرات میں رو نما ہوئی تھی جو اُس زمانے میں خراسانِ بزرگ کا ایک شہر تھا اور اب افغانستان کی قلمرو کا حصہ ہے۔"
اُنہوں نے اضافہ کیا: "تیموریوں کی ثقافتی نشاۃِ ثانیہ کو ہرات کے نام سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ کوئی اتفاق کی بات بھی نہیں ہے، کیونکہ فن، ادب اور علم ہمیشہ اُسی جگہ کمال کو پہنچتے ہیں جہاں ایک طرف تو دانا اور ثقافت پرور سیاسی حکام بر سرِ کار ہوں اور دوسری طرف وہاں معاشرتی لحاظ سے لوگوں کے رُشد کے لیے سازگار پس منظر اور حالات وجود میں آ چکے ہوں، اور اُس عصر کے ہرات میں یہ دونوں عوامل موجود تھے۔"
مشہد میں افغانستان کے عمومی قونصل نے امیر علی شیر نوائی کو خاندانِ تیموری کا مہذب اور دانشمند وزیر پکارا اور کہا کہ وہ اپنی کثیر بُعدی شخصیت کے وسیلے سے ادبی نگارشات کی تخلیق کے میدان میں، نیز اہلِ دانش و ادب کی حمایت اور اُن کی تخلیقات کی اشاعت میں بہت فعال رہے تھے۔
صدیقی نے نوائی کے مولانا عبدالرحمٰن جامی اور اُس دور کے دیگر تمام استادانِ علم و ہنر کے ساتھ روابط کو اُس زمانے کی رفیع الشان تہذیبی اقبال مندی کی مثال سمجھا۔
اِن افغان عہدے دار نے مزید ثقافتی روابط قائم کرنے کی ضرورت کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ" اس ثقافتی وطن کے ہم باشندوں کے درمیان ارتباط کی سطح ہرگز اُن مشترکات کے درجے پر نہیں ہے جو ہمارے درمیان موجود ہیں۔"
اُنہوں نے اظہار کیا: "ہماری ثقافتی سرگرمیوں نے اختصاصی اور جغرافیائی سرحدوں پر مبنی شکل اختیار کر لی ہے اور اب اکثر موقعوں پر ہمارے مفاخرِ علم و ادب پر صرف سرحدوں کے اندر ہی توجہ ہوتی ہے۔"
صدیقی نے ایران میں منعقد ہونے والے 'امیر علی شیر نوائی جلسۂ مشاورت' کو ایک خوش آئند اور مبارک واقعہ جانا اور اسے منطقے کے ممالک کے درمیان روابط کی تعمیق کا بنیاد ساز کہا۔
افغانستان کے عمومی قونصل نے اس طرح کے برناموں (پروگراموں) کے تسلسل کی خواہش کی اور اس بات کی امید ظاہر کی کہ اہلِ ادب و ہنر و دانش کی معیت میں ایسے ہی برنامے جلد ہی افغانستان میں بھی منعقد ہوں گے۔
بین الاقوامی امیر علی شیر نوائی جلسۂ مشاورت کا آغاز آج صبح سے مشہد کی دانشگاہِ فردوسی میں ہوا ہے اور اس میں ایرانی عہدے داروں اور ادیبوں کے ہمراہ افغانستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان اور ہندوستان سے آئے ہوئے مہمانانِ گرامی بھی شرکت کر رہے ہیں۔

خبر کا منبع
تاریخ: ۷ فروری ۲۰۱۵ء
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
صدیقہ بلخی: امیر علی شیر نوائی اور اُن کے نام پر منعقد ہونے والے جلسۂ مشاورت کا مشترک ہدف محبت کے بیج بونا تھا

افغانستان کی رکنِ ایوانِ بالا صدیقہ بلخی نے اخبار کے خبرنگار سے اپنی گفتگو کے دوران مشہد میں امیر علی شیر نوائی کی یاد میں میدانِ ادب و ثقافت کے مفکروں کے ایک جگہ جمع ہونے پر اپنی خوشنودی کا اظہار کیا اور انہوں نے اس موقع کو جلسے میں شریک افغانستانی مفکروں کے لیے بہت قیمتی اور مفید شمار کیا۔
امیر علی شیر نوائی جلسۂ مشاورت کی مہمانِ خصوصی نے اس جلسے میں شرکت کرنے والے مختلف ملکوں کے مہمانوں کے مابین احساسِ محبت کی ایجاد کو امیر علی شیر نوائی کی اصل خواہش اور تمدنی میدان کے علماء کی باہمی نشست کا منطقی نتیجہ سمجھا۔
اس طرح کے جلسوں کی اہمیت کے بارے میں سوال پوچھے جانے پر اُنہوں نے جواب دیا: "زمانۂ حاضر میں خطے کے ہمسایہ اور مسلمان و ہم زبان ممالک ایک دوسرے کے تفکروں اور خیالات کے حامی ہیں۔ اگر خطے کے لوگوں کو امیر علی شیر نوائی جیسی کسی شخصیت سے اُس طرح متعارف کرایا جائے جس طرح کے تعارف کے وہ مستحق ہیں تو وہ شخصیت باہمی نزدیکی کا محور بن سکتی ہے۔"
انہوں نے اضافہ کیا: "امیر علی شیر نوائی ایک ازبک، افغانستانی یا ایرانی نہیں ہیں، بلکہ وہ اس خطے کی دیگر تاریخی شخصیات مثلاً خواجہ عبداللہ انصاری، سنائی غزنوی، اور مولانا بلخی رومی کی طرح ایک ماورائے سرحد فرد ہیں جو کسی خاص ملک سے تعلق نہیں رکھتے۔"
صدیقہ بلخی نے امیر علی شیر نوائی کی ذات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "اُنہوں نے کسی مخصوص ملک یا قوم سے تعلق کو اپنی تالیفات کی فضائے فکر سے خارج کر دیا تھا اور آج اُن کی یاد میں اس مشاورتی جلسے کا انعقاد اس بات کی نشانی ہے کہ اس منطقے اور منطقے کے باہر بھی تمدنی نزدیکی کے لیے اُن کی تدبیریں کامیاب رہی ہیں۔"
افغانستان کی اس سیاسی-ثقافتی شخصیت نے کہا: "امیر علی شیر نوائی جیسے لوگ مشترکہ عوامی شخصیتیں ہیں اور یہ کسی خاص ملک کی اختصاصی ملکیت نہیں ہیں۔ ان جیسے لوگوں کے افکار و خیالات اس تمدنی علاقے کے مختلف ملکوں کے جوانوں کو متوجہ کرنے اور اُن میں باہمی نزدیکی کا جذبہ پیدا کرنے کی توانائی رکھتے ہیں۔"
اُنہوں نے کہا: "آپ دیکھیے کہ مختلف ملکوں سے جو مہمان یہاں حاضر ہوئے ہیں اور جن کے درمیان یہاں محبت کا رشتہ قائم ہوا ہے، وہ اسی نگاہ اور اثر کے ساتھ اپنے ملکوں کو لوٹیں گے اور یہ چیز نیک بختیوں کا باعث بنے گی۔"
صدیقہ بلخی نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ ہمیں ایرانی، افغانستانی، ازبکی، تاجکی جیسے کلمات کے استعمال کے بجائے وحدتِ زبانی کی طرح ڈالنے کی سعی اور منطقے کی مختلف اقوام اور گوناگوں زبانوں کو باہم نزدیک کرنے کے لیے مزید کوشش کرنی چاہیے۔

خبر کا منبع
تاریخ: ۱۰ فروری ۲۰۱۵ء
 

حسان خان

لائبریرین
شرحِ احوالِ امیر نظام الدین علی شیر نوائی

نظام الدین علی شیر نوائی کلاسیکی ازبک ادبیات کے اساس گزار ہیں جو اپنی ممتاز تالیفات کے ہمراہ ازبکوں اور ترک نژادوں کے ادب کی تاریخ میں بہت شائستہ مقام رکھتے ہیں۔
وہ ۱۴۴۱ء میں شہرِ ہرات میں متولد ہوئے تھے۔ اُن کے والد غیاث الدین کیچکینہ بہادر تیموری دربار کے عملداروں میں سے تھے تاہم وہ لکھنا پڑھا نہیں جانتے تھے۔ لیکن ناخواندہ ہونے کے باوجود، اُنہوں نے اپنے فرزند کی تعلیم و تحصیل میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، اور اس سلسلے میں بہت کوششیں کیں۔ نوائی نے اپنی ابتدائی اور وسطی تعلیم ہرات میں حاصل کی، جس کے بعد وہ مشہد چلے گئے۔ وہاں انہوں نے ابوالقاسم بابر میرزا کے دربار سے وابستہ ہونے کے علاوہ اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔ خاص طور پر، وہ فارسی کے بزرگ ادیبوں نظامی گنجوی، امیر خسرو دہلوی، کمال خجندی اور حافظ شیرازی کی تخلیقات کے مطالعے میں ہمیشہ مشغول رہتے تھے۔ نوائی نے اُن سے کلامِ موزوں کا سحر، سخنوری کا ہنر، اور تمثال آفرینی کے طرز و اصول سیکھے، اور اُن کی پیروی میں اپنے اولین اشعار انشا کرنے شروع کیے۔ اس کے علاوہ، نوائی اس شہر میں عالموں اور شاعروں کی صحبت میں بھی اشتراک کرتے تھے اور اُن سے درسِ زندگی حاصل کرتے تھے۔ اسی جگہ نوائی نے اپنے اولین دیوان کو مرتّب کیا تھا۔ ۱۴۶۶ء میں علی شیر نوائی ہرات واپس آ گئے۔ تاہم وہاں کی سیاسی و اجتماعی حیات کے نامساعد ہونے اور ابوسعید میرزا کی جنگوں اور خوں ریزیوں کے سبب نوائی اُسی سال ہرات کو ترک کر کے سمرقند کی جانب عازمِ سفر ہو گئے۔ سمرقند میں علی شیر نوائی دوبارہ تحصیلِ علم و ادب میں مشغول ہو گئے اور وہاں انہوں نے اپنے زمانے کے ایک مشہور عالم خواجہ فضل اللہ ابو لیث سے علمِ فقہ حاصل کیا۔
۱۴۶۹ء میں جس وقت حسین بایقرا - جو نوائی کا ہم مکتب اور رضاعی برادر تھا - ہرات آ کر مسندِ پادشاہی پر بیٹھا تو اُس نے نوائی کو اپنے دربار میں دعوت دی۔ علی شیر نوائی کو حسین بایقرا کے دربار میں مُہرداری کا عہدہ عطا ہوا۔ اسی زمانے میں نوائی کی جامی کے ساتھ دوستی کا آغاز ہوا اور وہ جامی کے مرید بن گئے۔
علی شیر نوائی انسان دوست اور رعیت پرور شخص تھے۔ وہ ریاستی امور کے اجرا کے دوران بیچاری عوام کو فائدہ پہنچایا کرتے تھے اور اُن کے خیرخواہ رہتے تھے۔ مثلاً سال ۱۴۷۰ء میں عملداروں اور حاکموں کے ظلم و استثمار اور حد سے زیادہ خراج کی وصولی سے لوگوں کی اقتصادی زندگی نہایت دشوار ہو جانے کے باعث عوام نے ظالموں کی اس بیدادگری کے خلاف شورش برپا کر دی تھی۔ صرف علی شیر نوائی کی عاقلانہ تدبیروں کی وجہ سے اس شورش کو ختم کیا گیا۔ نوائی نے سلطان حسین بایقرا کو مشورہ دیا کہ سب سے پہلے ظالموں کو سزا دی جائے اور پھر عوام سے لیے جانے والے خراج میں کچھ حد تک کمی کی جائے۔ اس قضیے کے بعد لوگوں کے درمیان نوائی کی قدر و منزلت میں اضافہ ہو گیا اور وہ اُن کی پہلے سے بھی زیادہ حرمت کرنے لگے۔
علی شیر نوائی ۱۴۷۲ء میں مرتبۂ وزارت پر فائز ہوئے۔ دقیقاً اسی زمانے میں سیاسی و اجتماعی وضع بہت حد تک آسودہ ہو گئی جس کے نتیجے میں تمدنی و ادبی زندگی میں بہت پیش رفت واقع ہوئی۔ لیکن نوائی کے بہت سے کام شاہ اور سلطنتی عملداروں کے خشم و غضب کا باعث بنے اور وہ نوائی کو رنج و آزار پہنچانے کے در پے ہو گئے۔ شاہ کے سامنے حکّام اور وزراء [نوائی کی نسبت] ہر طرح کی بہتان طرازی کیا کرتے تھے۔ انہی وجوہات کی بنا پر نوائی سال ۱۴۷۶ء میں منصبِ وزارت سے دست کَش ہو گئے۔ بعدازاں، اُنہوں نے گیارہ سال کی مدت ریاستی امور کو ایک طرف رکھ کر علمی و ادبی تالیفات کی تخلیق میں مشغول رہ کر گذاری۔ اسی دور میں اُنہوں نے اپنے 'خمسہ' نامی پانچ مثنویوں کے مجموعے کو تکمیل تک پہنچایا۔ ان گیارہ سالوں بعد حسین بایقرا نے اُنہیں پھر استرآباد کا حاکم متعین کیا، لیکن استرآباد میں نوائی فقط ایک سال مقیم رہے اور ۱۴۸۸ء میں واپس ہرات آ گئے۔ اس کے بعد وہ اپنی عمر کے اختتام تک پھر کبھی سلطنتی امور میں مشغول نہیں ہوئے اور اپنے وقت کو اُنہوں نے صرف تصنیفی کاموں میں صرف کیا۔
علی شیر نوائی کا انتقال جنوری ۱۵۰۱ء میں شہرِ ہرات میں ہوا۔ 'حبیب السیر' کے مؤلف خواندمیر نے بزرگ شاعر نوائی کی وفات پر ہرات کے لوگوں کے غم و اندوہ اور احساسات کو سوز و گداز کے ساتھ بیان کرنے کے بعد ابیاتِ ذیل سے اُن کا خلاصہ نکالا ہے:
چرا خون نبارید چشمِ سپهر؟
چرا گشت روشن دگر ماه و مهر؟
چرا سلکِ ایام درهم نشد؟
چرا ماه و سال از جهان کم نشد؟
نوائی کے جسد کو ہرات کے اُسی گنبد میں سپردِ خاک کیا گیا جسے اُنہوں نے خود تعمیر کرایا تھا۔

(وزارتِ معارفِ تاجکستان کی شائع کردہ نصابی کتاب 'ادبیاتِ تاجک: کتابِ درسی برائے صنفِ نہم' سے اقتباس اور ترجمہ)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نوائی اور جامی کے مابین دوستی اور ہمکاری

نوائی کی جامی کے ساتھ دوستی و رفاقت انسانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ نوائی جامی سے ستائیس سال چھوٹے تھے اور اُنہوں نے جامی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ان استاد اور شاگرد نے مل کر ہرات میں جو ادبی مکتب تشکیل دیا تھا، وہاں ان دو ملّتوں [یعنی تاجک اور ازبک ملّتوں] سے تعلق رکھنے والے لوگ تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔
عبدالرحمٰن جامی کی ترغیب و تشویق ہی سے نوائی نے اپنی عظیم تالیفات کو ترکی-ازبکی زبان میں انشا کیا تھا۔ نوائی کی تخلیقی کامیابیوں پر جامی بہت شاد و مسرور ہوئے تھے، اور اُنہوں نے اپنی داستان 'خردنامۂ اسکندری' کے انجام میں اس بارے میں کمالِ احترام کے ساتھ یہ کہا تھا:
سخن را، که از رونق افتاده بود
به کنجِ هوان رخت بنهاده بود
تو دادی دگرباره این آبروی
کشیده به میدانِ این گفتگوی
صفایاب از نورِ رای تو شد
نوایی ز لطفِ نوای تو شد
علی شیر نوائی اپنی ہر نئی انشا کردہ تالیف کو اپنے استاد جامی کی نظروں سے گذارتے تھے اور اُن کے سود بخش مشوروں کی مدد سے اپنی تالیفات کی تکمیل کرتے تھے۔ اسی طرح نوائی بھی جامی کی تصنیفات کے مسودوں کا مطالعہ کرتے تھے اور بعض اوقات وہ اپنے استادِ قدرداں کے سامنے اُن تصنیفات کے بارے میں اپنے خیالات اور افکار کا اظہار کرتے تھے۔ اُن دونوں کے درمیان باہمی مناسبت نہ صرف بطور استاد و شاگرد خوب تھی، بلکہ وہ دونوں ایک دوسرے کے نزدیکی اور باوفا دوست بھی تھے۔ نوائی اُن اولین لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے استاد کی نگارشات کا ترکی-ازبکی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ مثلاً، [جامی کی کتابوں] 'نفحات الانس' اور 'شواہد النبوۃ' کے [ترکی] تراجم اُن کے قلم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ترجمہ کرتے وقت نوائی نے جامی کی فصیح زبان اور لطف آمیز کلام کا بخوبی خیال رکھا ہے۔
علی شیر نوائی نے عبدالرحمٰن جامی کی وفات کے بعد ۱۴۹۳ء-۱۴۹۴ء کے درمیان 'خمسۃ المتحیرین' کی انشا کی جسے اُنہوں نے اپنے استادِ بزرگوار کی خاطرات کے نام معنون کیا۔
'خمسۃ المتحیرین' ازبکی زبان میں لکھی گئی ہے اور یہ کتاب دیباچے، مقدمے، تین مقالوں، تین فصلوں اور خاتمے پر مشتمل ہے۔ اس تصنیف کے اساسی موضوعوں میں عبدالرحمٰن جامی کی زندگی اور جامی و نوائی کے درمیان روابط کا بیان، وفاتِ جامی پر مرثیہ، جامی کے بارے میں نوائی کی یادداشتیں، دونوں کے درمیان باہمی مراسلتیں اور اسی طرح کی دیگر چیزیں شامل ہیں۔
نوائی نے 'خمسۃ المتحیرین' کے مقدمے میں جامی کی خاکساری، دانشمندی، صحبت آرائی اور دیگر خصالِ حمیدہ کے بارے میں یہ لکھا ہے: "جو لوگ اُن جناب [جامی] کے آوازۂ کمالات کو سن کر اور دور و دراز راہوں کو طے کر کے، اُن کی صحبتِ مبارک میں آتے تھے، وہ لوگ اُن کی نہایت عاجزی و فروتنی کے باعث اُن کو اُن کے اصحاب کے درمیان مطلقاً نہیں پہچان پاتے تھے؛ نشست و برخاست، گفت و شنود، اور خوراک و پوشاک میں اُن جناب اور دیگر تمام ہم نشینوں کے درمیان کوئی تفاوت نہیں تھا۔ جب تک کوئی شخص ظاہری و معنوی علوم کا کوئی مسئلہ درمیان میں نہیں لاتا تھا، اُن لوگوں کے لیے کھرے اور کھوٹے کے درمیان تشخیص کرنے کا طریقہ نامعلوم رہتا تھا۔ لیکن کسی مسئلے بر بات چھڑنے کے بعد، اُن کی مہارت اور تمام علوم سے آگاہی اس مرتبے پر ہوتی، کہ وہ ہرگز کوئی کتاب دیکھنے کی حاجت محسوس نہیں کرتے تھے۔"
علی شیر نوائی کئی سالوں تک حسین بایقرا کے دربار میں وزیر رہے تھے۔ اس پوری مدت میں اُنہوں نے عوام کے لیے بہت نیک کام کیے۔ نوائی اپنے ہر ریاستی کام میں جامی سے صلاح و مشورہ کرتے تھے۔ بالآخر، حاسدوں کی سازشوں اور شاہ کے بے خردانہ کاموں کے باعث نوائی دل برداشتہ ہو گئے اور انہوں نے دربار کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن، جس وقت اُنہوں نے جامی سے مشورہ کیا تو جامی نے اس فیصلے پر رضایت ظاہر نہیں کی کیونکہ وہ آسائشِ خلق اور آبادیِ ملک کے لیے ایسے خردمند اور نیک اندیش وزیروں کی موجودگی کو لازمی سمجھتے تھے۔ نوائی لکھتے ہیں: "یہ فقیر جن دنوں بادشاہ کی مصاحبت و ملازمت میں تھا، میں اُن جناب سے (یعنی جامی سے) اُس کام سے اپنی خلاصی کے کے لیے مدد کی التماس کیا کرتا تھا، لیکن وہ جناب ہر طرح کی باتوں سے مجھے تسلی دے کر مطمئن کر لیتے تھے۔"
جامی کوئی سیاسی شخصیت نہیں تھے، لیکن وہ ملک و رعیت کی اوضاع کو اچھی طرح سے سمجھتے تھے۔ اکثر موقعوں پر جامی اور نوائی کے سیاسی خیالات ایک ہی ہوتے تھے۔ وہ دونوں اپنی تصنیفات میں صلح و آسائش کی تلقین کرتے تھے اور صلح و صلاح کو زندگی میں عملی شکل دینے کے لیے وہ ہر راہ اور واسطے سے سعی و کوشش فرماتے تھے۔ مثلاً، ایک بار حسین بایقرا نے کُندوز پر قبضے کے لیے افغانستان پر لشکر کشی کر دی۔ یقیناً اس جنگ میں عامۂ محنت کش کے خانہ خراب اور مملکت کے ویران ہونے کا اندیشہ تھا، لہٰذا جامی اور نوائی نے شاہ کے اس کام کی مخالفت کی۔ اس بارے میں نوائی یہ لکھتے ہیں: "بادشاہ کا کندوز کی طرف لشکر کشی کرنا اُن جناب (جامی‌) اور کسی بھی شخص کی پسند کے موافق نہ تھا۔ اُن جناب نے فقیر (نوائی) سے کہہ دیا تھا کہ جب تک تم سے ہو سکے، بادشاہ کو اس سفر سے باز رکھو، اور اگر یہ ممکن نہ ہو اور یہ سفر مقرر ہو جائے تو مجھے لازمی لکھ کر بھیجنا۔"
'خمسۃ المتحیرین' میں ۲۸ سے زیادہ مکاتیب شامل ہیں جن میں سے ۱۵ جامی کے جبکہ بقیہ ۱۳ نوائی سے تعلق رکھتے ہیں۔ مکتوبوں کے اندر وہ رباعیاں، قطعے اور اشعار بھی لائے گئے ہیں جو ایک دوسرے کے جواب میں کہے گئے تھے۔ یہ مکاتیب ان دو اشخاصِ بزرگ اور مردانِ خردمند کی دوستی و رفاقت کا برجستہ نمونہ ہیں۔ مذکورہ تصنیف تربیتی نقطۂ نظر سے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
پس، تاجک اور ازبک ملّتوں کے ان دو فرزندانِ برومند کی دوستی و ہمکاری نے ان دو ملّتوں کے درمیان روابط کو مستحکم کرنے میں بہت ہی موزوں حصہ ڈالا ہے۔ اور آج بھی ان دو ملّتوں کے درمیان دوستی و ہمکاری مسلسل وسعت پا کر مستحکم تر ہوتی جا رہی ہے۔

(وزارتِ معارفِ تاجکستان کی شائع کردہ نصابی کتاب 'ادبیاتِ تاجک: کتابِ درسی برائے صنفِ نہم' سے اقتباس اور ترجمہ)
 
Top