پیرس میں چارلی ایبڈو کے دفتر حملہ: 12 ہلاک

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ کیسے کسی غیرمسلم کو پابند کر سکتے ہیں کہ وہ اسلام یا اسلامی مقدس ہستیوں کا مذاق نہ اڑائے یا توہین نہ کرے کہ اس کے نزدیک سب جھوٹ ہے۔
کیا مسلمان ہندومت، عیسائیت، احمدیت، عرب کے پرانے مذہب یا دیگر مذاہب کی تضحیک نہیں کرتے؟
لیکن زیک دیکھو ۔۔۔کسی مذہب کوتسلیم نہ کرنا الگ بات ہے اور اس کی تضحیک کر نا ایک دوسری ہی بات ہے۔تضحیک کے پیچھے کچھ مقاصد بھی ہو سکتے ہیں مثلاا دانستہ ایجیٹیشن پیدا کر نا وغیرہ فساد وغیرہ ۔
اگر مین مسلم ہوں تو مجھے شاید اسلام تو مجھے یہ اختیار نہیں دیتا کہ میں کسی ہندو کو دیکھ کر اس کے خداؤں اور معبودوں کا مذاق اڑانا یا توہیں کرنا شروع کردوں۔نہ یہ فطری طور پر مناسب اور مہذب ہو گا۔
ایسی صورت میں قانون سازی کر کے معاشرے کو پابند کیا جاسکتا ہے۔
 

زیک

مسافر
لیکن زیک دیکھو ۔۔۔کسی مذہب کوتسلیم نہ کرنا الگ بات ہے اور اس کی تضحیک کر نا ایک دوسری ہی بات ہے۔تضحیک کے پیچھے کچھ مقاصد بھی ہو سکتے ہیں مثلاا دانستہ ایجیٹیشن پیدا کر نا وغیرہ فساد وغیرہ ۔
اگر مین مسلم ہوں تو مجھے شاید اسلام تو مجھے یہ اختیار نہیں دیتا کہ میں کسی ہندو کو دیکھ کر اس کے خداؤں اور معبودوں کا مذاق اڑانا یا توہیں کرنا شروع کردوں۔نہ یہ فطری طور پر مناسب اور مہذب ہو گا۔
ایسی صورت میں قانون سازی کر کے معاشرے کو پابند کیا جاسکتا ہے۔
اخلاقاً میں آپ سے متفق ہوں۔ مگر قانوناً اسے جرم بنانا میرے خیال میں صحیح نہیں۔

دوسری بات یہ کہ جیسے ناصر مرزا نے دوسرے مذاہب کی تضحیک کا حق مسلمانوں کو دیا ہے اس کی مثالوں سے انٹرنیٹ بھرا پڑا ہے۔ اگر اسلام کی تضحیک یا توہین منع ہے تو پھر باقی مذاہب کی توہین کے خلاف مسلمان ممالک میں کیا قوانین ہیں؟
 

زیک

مسافر
سیدھا سا کلیہ ہے ۔" آزادی اظہارِ رائے کا مطلب دل آزاری نہیں ہونا چاہیئے ۔ "
حسن سلوک کا یہی تقاضا ہے مگر آزادی اظہار رائے صرف نیک لوگوں اور اچھی باتوں کے لئے نہیں ہے۔ اور اس آزادی کے ساتھ آپ بھی آزاد ہیں کہ کسی کی رائے کو برا سمجھیں اور کہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
میرا ایک سوال ۔۔۔۔ کسی بھی عمل یا رویئے کے بارے یہ طے کرنا کہ یہ جرم ہے ۔ اس کی اساس کیا ہوگی ؟
 

ظفری

لائبریرین
حسن سلوک کا یہی تقاضا ہے مگر آزادی اظہار رائے صرف نیک لوگوں اور اچھی باتوں کے لئے نہیں ہے۔ اور اس آزادی کے ساتھ آپ بھی آزاد ہیں کہ کسی کی رائے کو برا سمجھیں اور کہیں۔
پھر ہمیں آزادی اظہارِ رائے کی اصطلاح میں کچھ ترمیم کرنی ہوگی ۔ آزادیِ اظہارِ رائے کی جو اصطلاح اس جملے میں پنہاں ہے ۔ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حق اور سچ بات کو برملا اور بلا ترد کہہ دینا ہے ۔ جہاں زیادتی اور ظلم ہو رہا ہوں وہاں اپنی زبان پر تالے لگانے کے بجائے اٹھ کر سچ بات کہنا چاہیے ۔ چاہے وہ کسی ڈکٹیٹر کا دور ہو یا کسی بادشاہ کی سلطنت ۔ مگر یہ آزادی اظہارِ رائے کی کونسی اصطلاح ہے کہ کوئی شخص میرے باپ کے بارے میں کچھ جانتا بھی نہیں ہے مگر وہ اس کو برا کہنے سے بھی نہیں چوکتا ۔ مگر اس کو آزادیِ اظہار رائے کا بھی نام دیتا ہے ۔
 

ثاقب عبید

محفلین
شاید مجھے اس واقعہ کا ذرا برابر بھی افسوس نہیں ہوا۔ اس رسالے نے جو توہین آمیز کارٹون چھاپ کر اپنی پست ذہنیت کو ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی اس سے عزت رسول ﷺ پر ذرا برابر بھی دھبہ نہیں آیا۔ دہشت گردوں نے جو حملہ کیا اگر واقعی ان کا مقصد بدلہ لینا ہی تھا تو انہوں نے اس عمل کے ذریعہ اپنی دلی خلش کو ٹھنڈا کیا اور کچھ نہیں۔
 

اوشو

لائبریرین
بدتہذیبی، بد اخلاقی، بدکلامی،بدتمیزی اور اظہارِ رائے کی آزادی میں بہر حال فرق ہے جو پڑھے لکھے جاہلوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔
اپنی رائے کے اظہار کا حق ہونا چاہیے لیکن کچھ اخلاقی حدود بھی ضروری ہیں۔
 

x boy

محفلین
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم " جو بڑوں کی عزت نہیں کرتا اور چھوٹوں سے شفقت نہیں رکھتا وہ ہم میں سے نہیں
ہم میں کوئی چارلی ایبڈو کے ساتھ نہیں ماسوائے زیک کے جو انہوں نے کیفیت نامے میں لکھی اور ہم دھشت گردوں کے ساتھ بھی نہیں، پر ہم اسلام پر قائم ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اخلاقاً میں آپ سے متفق ہوں۔ مگر قانوناً اسے جرم بنانا میرے خیال میں صحیح نہیں۔
دوسری بات یہ کہ جیسے ناصر مرزا نے دوسرے مذاہب کی تضحیک کا حق مسلمانوں کو دیا ہے اس کی مثالوں سے انٹرنیٹ بھرا پڑا ہے۔ اگر اسلام کی تضحیک یا توہین منع ہے تو پھر باقی مذاہب کی توہین کے خلاف مسلمان ممالک میں کیا قوانین ہیں؟
ٹھیک کہتے ہو زیک۔ مگر یہ بتاؤ کہ قانون بھلا ہے کیا ؟۔میرے خیال میں تو قانو ن بھی کسی نہ کسی اخلاقی ضابطے کے تحفظ ہی کے ذریعے اور وسیلے ہی کا نام ہے ۔ البتہ اس بات میں اختلاف ہو سکتا ہے بلکہ لازمی ہو گا کہ ان اخلاقی اقدار کی بنیادوں کا فیصلہ کن کن انواع کےمآخذ وں کو محیط ہے۔سو اگر ہم مذہبی مباحث سے قطع نظر اپنے فکری و تمدنی ارتقاء ہی پر اکتفاء کریں تو یہ فساد کی بہت سی گرد تہہ میں بیٹھ جائے گی۔
 

باباجی

محفلین
اوپر ظفری بھائی نے بتایا کہ مغرب جیسے آزاد معاشرے میں حضرت عیسیٰ جیسی ہستی کو بھی تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے جنہیں وہ خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور ہم میں سے کوئی بتائے کہ کسی مسلمان نے حضرت عیسیٰ کی تحقیر یا تضحیک کی آج تک ؟؟؟؟
اور شاید میں کچھ سخت بات کہہ رہا ہوں کہ زیک بھائی کی باتیں سن کر مجھے یہ پتا چلا کہ ہر قرآن پڑھنے والا مسلمان نہیں ہوتا ۔
بات کیا ہورہی تھی اور بیچ میں کیا آگیا
میں شدت سے منتظر تھا کہ پہلے صفحہ میں کچھ ٹوئٹس کی تصاویر پوسٹ کی چوہدری صاحب نے ان پرکوئی تبصرہ کرتا لیکن یا دانستہ انہیں نظر انداز کردیا گیا ۔ میں خاص طور زیک بھائی اور ظفری بھائی سے کہوں گا اس بارے بھی کچھ کہیں یا جسٹیفائی کریں
اور ہندؤں کی بات کیا کرتے ہیں وہ خود اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے خداؤں کی تضحیک کرتے ہیں اور احمدیوں کی تضحیک کیا کرنی بھائی ان کی کتب پڑھیں آپ کو اندازہ ہوجائے گا ۔
میں خود ذاتی طور پر جو غلط ہے اسے غلط کہتا ہوں سمجھتا ہوں اور اپنی غلطی کا اعتراف بھی کرتا ہوں لیکن تضحیک نا خود کرتا ہوں نا ہی کوئی اور تضحیک کرے اسے پسند کرتا ہوں
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہيے کہ امريکی حکومت نہ تو مغربی ممالک ميں رائج قوانين کے لیے ذمہ دار ہے اور نہ اس ضمن میں امريکہ کو مورد الزام ٹھہرايا جا سکتا ہے۔ ايسے بہت سے مغربی اور غير مسلم ممالک ہيں جہاں پر قانونی فريم ورک، آئينی اصول اور آزادی رائے کے حوالے سے قوانين امريکی معاشرے ميں متعين کردہ بنيادی جمہوری اصولوں سے متصادم ہيں۔

جہاں تک اس عمومی تاثر کا تعلق ہے کہ امريکہ ميں يہوديوں يا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف مواد کی اجازت نہيں ہے تو حقائق اس کے بالکل منافی ہيں۔ حال ہی ميں ايک ايسی ويڈيو گيم منظر عام پر آئ جس کے خلاف امريکہ ميں موجود يہودی کميونٹی ميں شديد اضطراب محسوس کيا گيا اور ان کی جانب سے احتجاج بھی کيا گيا تھا۔

http://www.haaretz.com/jewish-world...y-central-s-anti-semitic-stereotypes-1.291189

ميں آپ کو يقين دلاتا ہوں کہ امريکہ ميں ايسی بے شمار مثاليں موجود ہيں جب کسی مخصوص بيان، فلم، ٹی وی شو، کارٹون، کتاب يا کسی بھی اور ميڈيم کے ذريعے دانستہ يا غير دانستہ اظہار رائے کے نتيجے میں معاشرے کے کسی نے کسی گروہ نے تضحيک محسوس کی اور اپنے ردعمل کا اظہار کيا۔ اسی ضمن ميں ايک مثال فلم "اينجلز اور ڈيمنز" کی بھی دی جا سکتی ہے جس کی ريليز پر عيسائيوں کی ايک بڑی تعداد نے شديد منفی ردعمل کا اظہار کيا تھا۔

يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ صرف مسلمان ہی آزادی رائے کے حق کے قانون کی آڑ ميں نشانہ بنائے جاتے ہيں۔

ليکن يہ مطالبہ يا توقع غير منطقی اور امريکی آئين کے خلاف ہے کہ ايسے ہر اقدام کے بعد امريکی حکومت ايسے افراد کی گرفتاری شروع کر دے جو کسی بھی میڈيم کے ذريعے اپنی رائے کے اظہار کے حق کو استعمال کريں۔ اس ضمن ميں سب سے موثر اور تعميری ردعمل يہ ہے کہ معاشرے کی متنوع کميونٹيز کے مابين ڈائيلاگ اور بحث و مباحثے کے ذريعے بہتر شعور اور آگاہی کے رجحان کے فروغ ديا جائے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
مسئلہ یہ ہےکہ مغرب ،شتر بے مہار ہونے کے بعد عقل پرست بنتے ہوئے ،اپنے مذہب کو (عملی زندگی میں ناقابل عمل پا کر) ایک طرف ڈال چکا ہے اور ان کے ہاں عقل ہی راہنما ہے اوراصول،قانون ، اخلاقیات کی بنیاد اس وقت اس ناقص عقل پر ہے
جب کہ اسلام اپنے ماننے والوں کی پوری زندگی کے لیے عملی اور قابل عمل راہنما اصول لیے ہوئے ہے اور اپنے اصل معنوں میں زندگی کے امور میں عقل کا استعمال اپنے اصولوں یا بیان کردہ الہامی حقائق کے تحت قراردیتا ہے - اب بہت سے تصورات ہمارے ہاں زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتے ہیں جبکہ ان کے ہاں یہ کوئی بات ہی نہیں

اب کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ مذہب کو چھوڑ کر عقلی بنیادپر اس اظہار رائے کی آزادی کے اصول کو جسٹیفائی کیا جائے - صاحب ایک مسلمان تو اپنے مذہب کی پیروی کرے گا اور اس کے حکم پر سر تسلیم خم کرےگا،
نہ کہ قرآن مجید کی مختلف مسالک کی مختلف تفسیر یا احادیث میں بظاہر ٹکراو پا کر مذہب کو ایک طرف رکھ دے گا، جیسا کہ اب یہ فتنہ اور سوچ عام ہونے کا اندیشہ ہے

جہاں تک میرے گزشتہ مراسلے میں کچھ مذاہب کی تضحیک کا ذکر ہے تو یہ عام مسلمانوں کا رویہ ظاہر کیا گیا ہے اور پھر اگلے ہی
پیراگراف میں قرآن کا حوالہ دے کر اسلام کا سنہری اصول بیان کیا گیا ہے ۔ اب کچھ صاحبان زیک،ظفری کو صرف اپنے مطلب کی تحریرہی نظر آئے تو اس میں ہم تو قصور وار نہیں ہیں
 
آخری تدوین:
بی بی سی اردو
جہاں تک مجھے یاد ہے صحافت میں میرے پرانے مدیر نامور صحافی ایم جے اکبر کا ایک ہی حکم یا ہدایت ہوتی تھی اور وہ یہ کہ (میں اس کی تشریح کر رہا ہوں) ’آپ کسی بھی مضمون پر جو بھی لکھنا چاہتے ہیں لکھیں، لیکن مذہب کا مذاق کبھی بھی نا اڑائیں‘۔

مجھے نہیں معلوم کہ یہ اس لیے کہا جاتا تھا تاکہ وہ یہ دکھا سکیں کہ ان کا اخبار مذہب کا احترام کرتا ہے یا پھر پریس میں مذہب کی توہین کرنے پر جن مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہے اس سے بچنے کے لیے وہ ایسا کہتے تھے۔ شاید ان دونوں کی وجہ سے ہی ایسا تھا۔

فرانس کے ہفت روزہ جریدے چارلی ہیبڈو پر حملے سے متعلق اخبار ’بزنس سٹینڈرڈ‘ میں لکھتے ہوئے ٹی این نینن نے لکھا ہے کہ ’بہت سے معاشرے، خاص طور پر وہ جو مغربی روشن خیالی کا حصہ ہیں، وہ آزادئ اظہار کے حق میں بعض چیزوں کو چھوڑ کر کسی بھی حد کے قائل نہیں، اس آزادی میں جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا حق بھی شامل ہے۔ انقلاب فرانس کے دوران ’آدمی کے حقوق سے متعلق اعلامیے‘ میں اظہار کی آزادی کو ’انسان کے سب سے قیمتی حقوق میں شامل کیا گيا تھا۔‘

حالانکہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’تمام مذاہب کی ساتھ برابری کی عام روایت کے تحت اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی بھارتی پبلکیشن (پیمغبر اسلام) کا کوئی کارٹون یہ اچھی طرح جانتے ہوئے بھی شائع کرے گا کہ اس سے کروڑوں لوگوں کو ٹھیس پہنچے گی۔ ہاں، اور اگر اس کے باوجود کوئی طالع آزما ایڈیٹر ایسا کرنے کا متمني بھی ہو تو بھی ممکن ہے کہ وہ اس سے پیش آنے والی مشکلات کے مد نظر اس سے باز رہےگا۔ صرف تشدد اور دھمکیاں ہی نہیں بلکہ قانونی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔‘

بھارت میں آزادئ اظہار کا سفر مشکل رہا ہے، یہاں تک جواہر لال نہرو جیسے بڑے رہنما بھی اس بنیادی آزادی کے ساتھ کیا طریقہ کار اپنایا جائے کے سوال پر غیر یقینی کا شکار رہے۔

26 جنوری 1950 میں ہمارے آئین کی دفعہ 19 (اے) میں آزادئ اظہار کی یقین دہانی کرائی گئی۔ پندرہ ماہ بعد نہرو اپنی اس یقین دہانی سے مکر گئے اور اس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ بھارت میں تقریبا نصف درجن ایسے قوانین ہیں جو آزادئ اظہار کو محدود کرتے ہیں۔ اس میں سے بعض قوانین تو عجیب و غریب ہیں۔
نینن اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’بھارت کا طریقۂ کار اس بارے میں احتیاط سے پُر ہے اظہار کی آزادی بنیادی حق ہے لیکن وہ حق مطلق نہیں ہے، آئین نے اسے امن عامہ، شائستگی اور اخلاقیات کے ساتھ مشروط کر دیا ہے، یہ سب کی سب بہت ہی مبہم اصطلاحات ہیں۔ آخر کیوں، ایسا کچھ بھی لکھنے پر جس سے دوست ممالک کے ساتھ رشتے متاثر ہوں ممنوع ہے؟ اصولوں کے سوال کے علاوہ بھی، عملاً یہ مشکل ہے کہ ایسی کوئی منظور شدہ فہرست تو ہے نہیں کہ کونسا ملک دوست اور کون سا دشمن ہے۔‘

ایسے بڑے واضح قوانین ہیں جو مذہبی تشدد بڑھکانے، بغض و عناد کی ترویج کرنے، کسی مذہب کی توہین اور مذہبی احساسات کو مجروح کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن یہ قوانین نئے بالکل نہیں ہیں۔

اظہار کی آزادی پر قدغن لگانے والے ہمارے قوانین 1837 میں وضع کیے گئے تھے۔ تھامس میکاؤلی جب محض تینتیس برس کے تھے تب انہوں نے ہندوستانی پینل کوڈ کی تشکیل شروع کی تھی۔ تب سے گزشتہ ایک سو پچھہتر برسوں سے کم و بیش اسی پر عمل جاری ہے۔ اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ جدیدیت کے لبادے میں ہونے کے باوجود ہم کس قدر تبدیل نا ہونے والی تہذیب کا حصہ ہیں۔

پینل کوڈ نوآبادیاتی دور کے قوانین کا آج بھی بھارت میں چلن ہے۔ یہ اس لیے کہ ایک انگریز نے ہمارے متعلق صحیح سے اندازہ لگایا اور ہمارے سلوک اور خارجی حرکات کے متعلق پیشین گوئی کی۔ اسی سے میکاؤلی کو ایک عظیم انسان کا مرتبہ حاصل ہوا۔ وہ اٹھارہ سو سینتیس میں یہ بات بڑے اطمینان سے بتا سکے کہ ہم میں سے کتنے سنہ 1984 اور 1993 اور 2002 میں درندگی کا مظاہرہ کریں گے۔ آئین میں بڑے اور عالمگیر قسم کے وعدے کیے گئے لیکن وہ بھارت کے فرقہ وارانہ فسادات کی حقیقت کے سامنے تاب نا لاسکے۔

صحافی، جو آزادئ اظہار کی بحث میں صفِ اول میں ہیں، کے لیے اس مسئلے کو بلیک اینڈ وہائٹ میں دیکھنا آسان نہیں ہے۔ میں نہیں جانتا تھا کہ چارلی ہیبڈو نے اپنے ایک صحافی کو یہودیوں کے خلاف لکھنے پر نکال دیا تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ میگزین کو اسلام پر حملے کرنے میں اتنی دلچسپی تھی میں یہ سن کر حیران ہوگیا تھا کہ ایسا بھی ہوا ہے۔

اخبار ’دی ڈیلی ٹیلیگراف‘ نے دو ہزار نو میں رپورٹ کیا تھا کہ اسی سالہ موریس سائنیٹ، جو اپنے قلمی نام سائن کے نام سے لکھتے ہیں، کو گزشتہ جولائی میں چارلی ہیبڈو میں ایک مزاحیہ کالم لکھنے کی بنا پر نسلی منافرت پھیلانے کے مقدمے کا سامنا ہے۔ ان کے اس مضمون سے صرف فارسی دانشوروں میں ایک عامیانہ جملوں پر مبنی بحث شروع ہوئی تھی اور بس اسی کی بنیاد پر انہیں میگزین سے فارغ کر دیا گیا۔

مضمون ’لا افیئر سائن‘ میں بائس سالہ نکولاژ سارکوزی کی جیسکا سبیؤن ڈارٹی نامی یہودی لڑکی کے ساتھ تعلقات کا احاطہ کیا گيا تھا۔ ایک افواہ پر تبصر کرتے ہوئے کہ صدر سرکوزی کے بیٹے یہودی مذہب اپنانے والے ہیں اور لکھا تھا ’انہیں زندگی میں ایک طویل راستہ طے کرنا ہوگا، بیچارہ چھوٹا بچہ۔‘

ایک بڑے سیاسی مبصر نے ان کے اس مضمون کو یہودیوں اور سماج میں ان کی کامیابیوں کے خلاف تعصب سے منسلک کرتے ہوئے سخت نکتہ چینی کی تھی۔ چارلی ہیبڈو کے ایڈیٹر فلپ وال نے سائنیٹ سے اس پر معافی مانگنے کو کہا لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’میں اس سے اپنے آپ کو نامرد کرنے کو ترجیح دوں گا۔‘

‎سائن کو برطرف کرنے کے مسٹر وال کے فیصلے کو بشمول فلسفی برنارڈ ہینری لیوی کے سرکردہ دانشوروں کے ایک گروپ نے حمایت کی تھی۔ لیکن دانشوروں کے ایک گروپ نے آزادئ اظہار کے حوالے سے سائینٹ کی حمایت بھی کی تھی۔

ممکن ہے کہ منافقت کا یہ ایک واضح کیس لگے لیکن ہم سبھی کی طرح چارلی ہیبڈو کے بھی اپنے آزادئ اظہار سے متعلق شکوک تھے۔
 
جہاں تک میری معلومات ہیں نکولس سرکوزی ایک یہودی ہے
نکولاژ سرکوزی کیتھولک ہے۔
مضمون ’لا افیئر سائن‘ میں بائس سالہ نکولاژ سارکوزی
بی بی سی کے رپورٹر نےغلطی سے نکولاژ سرکوزی لکھ دیا ہے۔ جبکہ یہ خبر سرکوزی کی پہلی بیوی سے ہوئے بیٹے ژاں سرکوزی کے بارے میں ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
اوپر ظفری بھائی نے بتایا کہ مغرب جیسے آزاد معاشرے میں حضرت عیسیٰ جیسی ہستی کو بھی تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے جنہیں وہ خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور ہم میں سے کوئی بتائے کہ کسی مسلمان نے حضرت عیسیٰ کی تحقیر یا تضحیک کی آج تک ؟؟؟؟
اور شاید میں کچھ سخت بات کہہ رہا ہوں کہ زیک بھائی کی باتیں سن کر مجھے یہ پتا چلا کہ ہر قرآن پڑھنے والا مسلمان نہیں ہوتا ۔
بات کیا ہورہی تھی اور بیچ میں کیا آگیا
میں شدت سے منتظر تھا کہ پہلے صفحہ میں کچھ ٹوئٹس کی تصاویر پوسٹ کی چوہدری صاحب نے ان پرکوئی تبصرہ کرتا لیکن یا دانستہ انہیں نظر انداز کردیا گیا ۔ میں خاص طور زیک بھائی اور ظفری بھائی سے کہوں گا اس بارے بھی کچھ کہیں یا جسٹیفائی کریں
اور ہندؤں کی بات کیا کرتے ہیں وہ خود اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے خداؤں کی تضحیک کرتے ہیں اور احمدیوں کی تضحیک کیا کرنی بھائی ان کی کتب پڑھیں آپ کو اندازہ ہوجائے گا ۔
میں خود ذاتی طور پر جو غلط ہے اسے غلط کہتا ہوں سمجھتا ہوں اور اپنی غلطی کا اعتراف بھی کرتا ہوں لیکن تضحیک نا خود کرتا ہوں نا ہی کوئی اور تضحیک کرے اسے پسند کرتا ہوں
شکریہ باباجی کہ آپ نے مجھے مخاطب کیا اور میری کسی پوسٹ کا حوالہ بھی دیا اور کچھ استفار بھی کیا ۔
دیکھیں ۔۔۔۔ میں یہاں ایسی ابحاث ایک عرصے سے کررہا ہوں ۔ میں نے ایک بات نوٹ کی ہے جب ہم کسی کی بات پوری طرح نہیں سمجھتے تو غلط فہمیاں جنم لیتیں ہیں ۔ اور پھر اس پر اختلاف غالب ہوجاتا ہے ۔ آپ کی تحریر میں میری پوسٹ کے حوالے سے جو سوالات یا تحفظات ہیں ۔ میں ایک ایک سطر کے ساتھ ان کے جوابات دینا چاہوں گا ۔ گو کہ آپ محفل پر کافی عرصے سے ہیں ۔ اور میں نے نوٹ کیا ہے ۔ آپ جذبات اور ہٹ دھرمی کے بجائے دلیل اور مکالمے پر زور دیتے ہیں ۔ ہمارے درمیان کبھی ان معاملے میں مکالمے کی بھی فضا نہیں رہی کہ آپ یہاں متحرک ہوئے تو میں یہاں غیر متحرک ہوچکا تھا ۔ مگر پرانے احباب مذہب اور سیاست کے حوالے سے میرے نظریات بخوبی جانتے ہیں ۔

مغرب جیسے آزاد معاشرے میں حضرت عیسیٰ جیسی ہستی کو بھی تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے جنہیں وہ خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور ہم میں سے کوئی بتائے کہ کسی مسلمان نے حضرت عیسیٰ کی تحقیر یا تضحیک کی آج تک ؟؟؟؟
یہ وہ مقام ہے جہاں مجھے اکثر کوفت ہوتی ہے ( سوری ٹو سے ) کہ بات کو سمجھے بغیر اس میں سے کوئی ایسا سوال پیدا کردیا جائے کہ وہ غیر منطقی حجت بن جائے ۔ میں نے مغربی معاشرے میں ان کی آزادی اظہارِ رائے کی غلط استعمال کی نشاندہی کی تھی ۔ اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حوالے سے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ یہاں بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے خدا کے بیٹے کی تضحیک کرنے سے نہیں چوکتے ۔ جبکہ ان کا اپنی اس گرانقدر ہستی کے بارے میں یہ رویہ ہے تو پھر دیگر مذاہب کی ہستیوں کی ان کے سامنے کیا وقعت ہوسکتی ہے ۔ یعنی آپ اگر ان سے کسی مثبت رویئے کی امید رکھتے ہیں۔ تو کیا کہا جا سکتا ہے ۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ یہ رویہ پورے مغربی معاشرے کا حصہ نہیں ہے بلکہ کچھ مخصوص سوچ کے لوگ ایسی حرکات کرتے ہیں ۔ بلکل اسی طرح ہم میں سے کچھ لوگ یہودیت اور عیسائیت کو اس درجے پر نشانہ بناتے ہیں ۔ بس فرق یہ ہے کہ موسی ، ابراہیم اور عیسیٰ پر ایمان رکھنے کی قرآن میں تاکید کی گئی ہے ، ورنہ ہندؤوں کی طرح شاید ہم بھی ان کے ساتھ کوئی منفی رویئے رکھے ہوتے ۔
اب اوپر کی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہ یہ سوال اٹھا یا جائے کہ ہم نے تو کسی پیغمبر کی تحقیر یا تضحیک نہیں کی ۔ تو میری پچھلی اسٹیٹمنٹ سے اس سوال کا کیا تعلق بنتا ہے ۔
ہم اپنے اعمال اور رویئے کی ذمہ دار ہیں ۔ کوئی کیا کرتا ہے اس سے آپ کو صرف اتنا ہی سروکار ہوسکتا ہے کہ آپ شائستگی اور دلائل سے اس کو قائل کرنے کی کوشش کریں اور اس سے زیادہ آپ کچھ کر بھی نہیں سکتے ۔ کہ اللہ نے ہم کو اس سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا ۔
میں شدت سے منتظر تھا کہ پہلے صفحہ میں کچھ ٹوئٹس کی تصاویر پوسٹ کی چوہدری صاحب نے ان پرکوئی تبصرہ کرتا لیکن یا دانستہ انہیں نظر انداز کردیا گیا ۔ میں خاص طور زیک بھائی اور ظفری بھائی سے کہوں گا اس بارے بھی کچھ کہیں یا جسٹیفائی کریں
اس میں جسٹیفیکیشن کی کیا ضرورت ہے ۔ اس طرح کے انتہا پسند آپ کو ہمارے ہاں تو بکثرت مل جائیں گے ۔ انتہا ئی مثال طالبان کی ہے ۔ ان کے نزدیک تو مسلمان کے سوا کسی اور کو اس کرہ عرض پر جینے کا حق ہی حاصل نہیں ہے ۔ اور پھر وہ اس پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں میں سے بھی چن چن کر لوگوں کوباہر نکالتے ہیں اور پھر یہ کہہ کر ان کے سر بریدہ کرتے ہیں کہ یہ شریعت پر عمل نہیں کرتے ۔ جس طرح یہ تمام رویئے اور ظلم قابلِ مذمت ہے بلکل اسی طرح ٹوٹیٹرز پر ایسے تمام انتہاپسند اور ان کے رویئے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذاہب سے ہو ۔ قابلِ مذمت ٹہریں گے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے مجھ سے ان کے نظریات کے بارے میں جسٹیفیکیشن کی بابت کیوں پوچھ لیا کہ میں انہیں نظر انداز کرچکا تھا ۔ ایک کوٹ نقل کرتا ہوں ۔

Never argue with stupid people, they will drag you down to their level and beat you with their experience.
(Mark Twain)

اور ہندؤں کی بات کیا کرتے ہیں وہ خود اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے خداؤں کی تضحیک کرتے ہیں اور احمدیوں کی تضحیک کیا کرنی بھائی ان کی کتب پڑھیں آپ کو اندازہ ہوجائے گا ۔
مگر اس سے یہ پہلو بھی نہیں نکلتا کہ ہم بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں ۔ اگر ہم ایک ایسے نبی کے پیروکار ہیں جو ہمیں صرف اخلاق اور صبر کی تلقیین کرتا ہے تو ہمیں چاہیئے کہ ہم ان کی غلطی بھی ان پر وضع کریں اور خود کو بھی ایسی غلطیوں سے دور رکھیں ۔

میں خود ذاتی طور پر جو غلط ہے اسے غلط کہتا ہوں سمجھتا ہوں اور اپنی غلطی کا اعتراف بھی کرتا ہوں لیکن تضحیک نا خود کرتا ہوں نا ہی کوئی اور تضحیک کرے اسے پسند کرتا ہوں۔

اچھی بات ہے ۔ میں بھی تضحیک اور تحقیر سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ مگر میں ایسا نہیں کرتا کہ کوئی غلط ہو اور میں اپنی آزادیِ اظہار رائے کا استعمال کرتے ہوئے اس کو صرف یہ حجت بنا کر لتاڑ دوں کہ تم بھی تو ایسا کرتے ہو ۔ تو پھر آزادی اظہار رائے کے حوالے سے @ زیک کی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ "حسن سلوک کا یہی تقاضا ہے مگر آزادی اظہار رائے صرف نیک لوگوں اور اچھی باتوں کے لئے نہیں ہے۔ اور اس آزادی کے ساتھ آپ بھی آزاد ہیں کہ کسی کی رائے کو برا سمجھیں اور کہیں۔"
تو آزادی اظہارِ رائے کے حوالے سے کسی کو اس پر اعتراض بھی نہیں ہونا چاہیئے ۔
 
Top