پاکستانی ایمل کانسی کو امریکہ میں سزائے موت کا واقعہ

عظیم ایم میاں…امریکہ

وطن عزیز میں آج کل دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی سزائوں پر عمل کرنے کا موسم ہے۔ نیوز میڈیا، پاکستانی عوام، سویلین حکومت و اپوزیشن اور فوج سبھی اس مسئلے پر اپنے اپنے زاویہ نگاہ اور موقف کے ساتھ بحث و مباحثہ میں مصروف اور ایکشن دیکھنا چاہتے ہیں۔ منظر کچھ یوں ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈر اپنے اپنے چونکہ چنانچہ کا عذر اختیار کرنے کے باوجود متفقہ طور پر فوجی عدالتوں کے قیام اور ان فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت اور فیصلہ کرنے کے اختیارات کی حمایت کر رہے ہیں۔ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی اجلاس میں موجودگی کے دوران سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں نے آرمی ایکٹ میں ترمیم اور پارلیمنٹ سے منظوری کا وعدہ بھی کیا ہے۔ لہٰذا پارلیمنٹ سے منظوری کا مرحلہ بھی بآسانی طے ہو جائے گا۔ ملک میں داخلی سطح پر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف سوچ اور عمل کی اس یکجہتی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی سزائے موت کے مخالف امریکہ نے یورپی ممالک کے تعاون سے افغانستان میں افواج اتاردی تھیں۔ یہ درست ہے کہ معاشرے اور مملکت کی بقاء کیلئے جرم ثابت ہونے پر بعض انسانوں کو سزائے موت دینی پڑتی ہے لیکن ان فوجی عدالتوں اور نظام چلانے والوں کو یہ بات بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ کسی بے گناہ انسان کو انصاف کے نام پر قتل کرنے سے زیادہ سنگین جرم بھی کوئی نہیں۔ کیونکہ یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ متعدد ایسے افراد کو بھی دہشت گرد اور طالبان قرار دے کر امریکہ کے حوالے کردیا گیا جن پر امریکی سی آئی اے کی قید میں تفتیش اور ٹارچر کے باوجود بھی کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا اور بالآخر وہ بے گناہ افراد قید اور ٹارچر کی اذیتوں سے بھی گزرنے کے بعد بے گناہ قرار پا کر رہا ہوئے اور واپس لوٹے۔ امریکی سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات یہ حقیقت بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بعض ایسے افراد بھی امریکیوں کے حوالے کردیئے گئے جو امریکہ کو مطلوب بھی نہیں تھے اور امریکی سی آئی اے کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ یہ لوگ ان کے حوالے کیوں کئے گئے؟ ظاہر ہے کہ یہ نظام کے رکھوالوں اور بااختیار افراد میں سے کسی کی مخالفت، انتقام یا اختیارات کے زعم کا نتیجہ ہوگا۔ اس لئے عرض ہے کہ صرف دہشت گردی کا جرم کرنے والوں کو سزائے موت یوں ہونی چاہئے کہ وہ بے گناہ انسانوں کو دہشت گردی کے ذریعے زندگی سے محروم کرتے ہیں۔ لہٰذا تمام تر احتیاط اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مجھے امریکی نظام انصاف سے سزائے موت دینے میں احتیاط اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ایک عملی مثال پیش کرنے کی اجازت دیں۔ یہ میرا اپنا ذاتی مشاہدہ تھا۔ قارئین اس بارے میں اپنی رائے خود قائم فرمائیں۔ واضح رہے کہ اس مقدمہ قتل کا ملزم ایک پاکستانی شہری تھا جسے چار سال کی سخت جدوجہد اور نگرانی کے بعد امریکی حکام پاکستان سے گرفتار کر کے امریکہ لائے تھے اور پھر مقدمہ چلا کر ریاست ورجینیا کی عدالت نے اسے سزائے موت سنائی۔ جب اس پاکستانی شہری کی ریاست ورجینیا کے چھوٹے شہر گرینزول کی جیل میں سزائے موت پر عمل کیا گیا تو امریکی اور عالمی میڈیا کے ساتھ میں خود بھی وہاں موجود تھا اور ’’جیو‘‘ کے ذریعے پاکستانی عوام کو لمحہ بہ لمحہ آگاہی کیلئے یہ صحافتی ذمہ داری 14 نومبر 2002ء کو سخت سرد موسم میں کھلے آسمان تلے کھڑے رہ کر میں نے ادا کی تھی۔

آپ کو یاد ہوگا کہ صوبہ بلوچستان کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان 28 سالہ ایمل کانسی پر امریکی سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹرز واقع ریاست ورجینیا کے باہر کار پر فائرنگ کر کے سی آئی اے کے دو اہلکاروں کو قتل اور تین افراد کو زخمی کرنے کے بعد پاکستان فرار ہو جانے کا الزام تھا۔ 25 جنوری 1993ء کو سی آئی اے ہیڈکوارٹرز کے باہر شوٹنگ اور قتل کے اس واقعہ کے بعد ایمل کانسی امریکہ سے فرار ہو کر پاکستان آ کر روپوش ہوگیا جبکہ امریکی حکام نے اسے مفرور قرار دے کر اس کی تلاش شروع کردی اور چار سال تک پاک۔ افغان سرحدی علاقوں وغیرہ میں روپوشی کے بعد امریکی ایف بی آئی نے ڈیرہ غازی خان کے آس پاس کسی ہوٹل سے 15جون 1992ء کو گرفتار کر لیا۔ ایمل کانسی وہ پاکستانی شہری تھا کہ جسے پاکستانی سرزمین پر امریکی حکام نے گرفتار کیا لیکن حکومت وقت نے اسے امریکہ کے حوالے کرنے سے قبل پاکستانی قانون کے کوئی تقاضے پورے نہیں کئے نہ کسی پاکستانی عدالت میں پیش کیا اور نہ ہی اپنے شہری کے حقوق اور ضابطے کی رسمی کارروائی بھی کی۔ ایمل کانسی کو خصوصی انتظامات کے تحت پاکستان سے امریکہ لایا گیا تو ریاست ورجینیا کے ایک سرکاری وکیل نے ایمل کانسی کی گرفتاری کی تفصیلات اور تناظر کے حوالے سے یہ ہتک آمیز جملہ کہا کہ پاکستانی پیسے کیلئے اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں تو امریکہ کی پاکستانی کمیونٹی نے خوب احتجاج کیا مگر پاکستانی حکام تو خاموشی اور خوف کا شکار رہے۔ یہ ایمل کانسی کی ہی گرفتاری تھی جس کے حوالے سے بعض حلقوں نے فاروق لغاری مرحوم اور مرحومہ بے نظیر بھٹو کے اختلافات میں بے نظیر کی طرف داری کرتے ہوئے یہ افواہ اڑائی کہ ایمل کانسی کی ڈیرہ غازی خاں سے گرفتاری میں فاروق لغاری کا ہاتھ تھا۔ حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ اس کی حقیقت محترم سابق سفیر قاضی جہانگیر اشرف سے بھی معلوم کی جاسکتی ہے جو ایمل کانسی کی سزائے موت کے وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے اور وہ بلوچ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے رخصت لے کر پاکستان گئے اور ایمل کانسی کی نماز جنازہ اور تدفین میں شریک ہوئے تھے۔ یہ بات قاضی اشرف جہانگیر نے مجھے خود بتائی جبکہ ریاست ورجینیا میں خوف کا یہ عالم تھا کہ ریاست ورجینیا کی متعدد مساجد کے اماموں نے ایمل کا نسی کی نمازہ جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا صرف اسلامک سینٹر آف نارتھ ورجینیا کی مسجد میں نماز جنازہ ہوئی امام ڈاکٹر میاں محمد سعید ایمل کانسی کیلئے بڑے محترم اور روحانی سکون کا باعث تھے۔ ان سے ایمل کانسی کا رابطہ بھی تھا وہ سزائے موت کے روز بھی جیل میں جا کر ایمل کانسیسے ملے تھے کیونکہ قیدیوں کو اپنے مذہب کے مبلّغوں، پادریوں، امام سے ملنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں پر فائرنگ کر کے قتل کرنے والے غیر ملکی ایمل کانسی کے سلسلے میں بھی تمام تر امریکی نفرت کے باوجود قانون کے تمام تقاضے پورے کئے گئے۔ ایمل کانسی نے قتل کے جرم کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔ ملاحظہ کیجئے 25 جنوری 1993ء کو قتل ہوئے جون 1997ء میں ایمل کانسی گرفتار ہوا 4 فروری 1998ء کو عدالت نے سزا سنائی اور پھر اپیلوں کا سلسلہ مکمل کرنے کی مہلت دی گئی اور 14 نومبر 2002ء کی شام مقامی وقت کے مطابق 9 بج کر سات منٹ پر سزائے موت پر عمل کرتے ہوئے اسے جرم کی سزا دے دی گئی۔ ایمل کانسی اپنے جرم کا اعتراف عدالت میں کرچکا تھا وہ اپنی موت کیلئے تیار تھا۔ اس کی میت لینے کیلئے پاکستان سے اس کے دو عزیز آئے ہوئے تھے جو اس چھوٹے قصبے کے ایک ہی ہوٹل میں میرے برابر والے کمرے میں تھے مگر وہ قطعاً کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔ جیل حکام کے ترجمان لیری ٹیلر نے جب جیل سے باہر آ کر ایمل کانسی کی سزائے موت کا اعلان کیا تو سخت سردی کے باوجود ’’جیو‘‘ کے ذریعے پاکستانی شہری ایمل کانسی کی سزائے موت کی خبر پاکستانی عوام تک تفصیل سے پہنچانے کی صحافتی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے سردی کا احساس اس وقت ہوا جب ہاتھ اور ناک دونوں ہی ’’فریز‘‘ محسوس ہوئے۔ ایمل کانسی کی گرفتاری اور حوالگی کے لئے ہم نے پاکستانی قوانین اور شہری کے حقوق کو پامال کیا۔ امریکہ نے تمام تر حقائق کے باوجود پاکستانی ایمل کانسی کو انصاف کے تقاضے پورے کر کے سزائے موت دینے میں 9 سال کا عرصہ لگایا۔ احتیاط اور انصاف لازم ہے۔
 

وجی

لائبریرین
25 جنوری 1993ء کو سی آئی اے ہیڈکوارٹرز کے باہر شوٹنگ اور قتل کے اس واقعہ کے بعد ایمل کانسی امریکہ سے فرار ہو کر پاکستان آ کر روپوش ہوگیا جبکہ امریکی حکام نے اسے مفرور قرار دے کر اس کی تلاش شروع کردی اور چار سال تک پاک۔ افغان سرحدی علاقوں وغیرہ میں روپوشی کے بعد امریکی ایف بی آئی نے ڈیرہ غازی خان کے آس پاس کسی ہوٹل سے 15جون 1992ء کو گرفتار کر لیا۔
برائے مہربانی تاریخ ٹھیک کرلیں گرفتاری قتل ہونے سے پہلے ہوگئی ؟؟
 

x boy

محفلین
ایمل کانسی بلوچی تھا ؟
کس قبیلے کا تھا؟
اور قتل کیوں کیا وجہ کیا تھی؟
کوئی بتا سکتا ہے مختصرا؟
 

وجی

لائبریرین
آپ کو یاد ہوگا کہ صوبہ بلوچستان کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان 28 سالہ ایمل کانسی پر امریکی سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹرز واقع ریاست ورجینیا کے باہر کار پر فائرنگ کر کے سی آئی اے کے دو اہلکاروں کو قتل اور تین افراد کو زخمی کرنے کے بعد پاکستان فرار ہو جانے کا الزام تھا۔ 25 جنوری 1993ء کو سی آئی اے ہیڈکوارٹرز کے باہر شوٹنگ اور قتل کے اس واقعہ کے بعد ایمل کانسی امریکہ سے فرار ہو کر پاکستان آ کر روپوش ہوگیا جبکہ امریکی حکام نے اسے مفرور قرار دے کر اس کی تلاش شروع کردی اور چار سال تک پاک۔ افغان سرحدی علاقوں وغیرہ میں روپوشی کے بعد امریکی ایف بی آئی نے ڈیرہ غازی خان کے آس پاس کسی ہوٹل سے 15جون 1992ء کو گرفتار کر لیا۔ ایمل کانسی وہ پاکستانی شہری تھا کہ جسے پاکستانی سرزمین پر امریکی حکام نے گرفتار کیا لیکن حکومت وقت نے اسے امریکہ کے حوالے کرنے سے قبل پاکستانی قانون کے کوئی تقاضے پورے نہیں کئے نہ کسی پاکستانی عدالت میں پیش کیا اور نہ ہی اپنے شہری کے حقوق اور ضابطے کی رسمی کارروائی بھی کی۔ ایمل کانسی کو خصوصی انتظامات کے تحت پاکستان سے امریکہ لایا گیا تو ریاست ورجینیا کے ایک سرکاری وکیل نے ایمل کانسی کی گرفتاری کی تفصیلات اور تناظر کے حوالے سے یہ ہتک آمیز جملہ کہا کہ پاکستانی پیسے کیلئے اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں تو امریکہ کی پاکستانی کمیونٹی نے خوب احتجاج کیا مگر پاکستانی حکام تو خاموشی اور خوف کا شکار رہے۔ یہ ایمل کانسی کی ہی گرفتاری تھی جس کے حوالے سے بعض حلقوں نے فاروق لغاری مرحوم اور مرحومہ بے نظیر بھٹو کے اختلافات میں بے نظیر کی طرف داری کرتے ہوئے یہ افواہ اڑائی کہ ایمل کانسی کی ڈیرہ غازی خاں سے گرفتاری میں فاروق لغاری کا ہاتھ تھا۔ حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ اس کی حقیقت محترم سابق سفیر قاضی جہانگیر اشرف سے بھی معلوم کی جاسکتی ہے جو ایمل کانسی کی سزائے موت کے وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے اور وہ بلوچ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے رخصت لے کر پاکستان گئے اور ایمل کانسی کی نماز جنازہ اور تدفین میں شریک ہوئے تھے۔ یہ بات قاضی اشرف جہانگیر نے مجھے خود بتائی جبکہ ریاست ورجینیا میں خوف کا یہ عالم تھا کہ ریاست ورجینیا کی متعدد مساجد کے اماموں نے ایمل کا نسی کی نمازہ جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا صرف اسلامک سینٹر آف نارتھ ورجینیا کی مسجد میں نماز جنازہ ہوئی امام ڈاکٹر میاں محمد سعید ایمل کانسی کیلئے بڑے محترم اور روحانی سکون کا باعث تھے۔ ان سے ایمل کانسی کا رابطہ بھی تھا وہ سزائے موت کے روز بھی جیل میں جا کر ایمل کانسیسے ملے تھے کیونکہ قیدیوں کو اپنے مذہب کے مبلّغوں، پادریوں، امام سے ملنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں پر فائرنگ کر کے قتل کرنے والے غیر ملکی ایمل کانسی کے سلسلے میں بھی تمام تر امریکی نفرت کے باوجود قانون کے تمام تقاضے پورے کئے گئے۔ ایمل کانسی نے قتل کے جرم کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔ ملاحظہ کیجئے 25 جنوری 1993ء کو قتل ہوئے جون 1997ء میں ایمل کانسی گرفتار ہوا 4 فروری 1998ء کو عدالت نے سزا سنائی اور پھر اپیلوں کا سلسلہ مکمل کرنے کی مہلت دی گئی اور 14 نومبر 2002ء کی شام مقامی وقت کے مطابق 9 بج کر سات منٹ پر سزائے موت پر عمل کرتے ہوئے اسے جرم کی سزا دے دی گئی۔ ایمل کانسی اپنے جرم کا اعتراف عدالت میں کرچکا تھا وہ اپنی موت کیلئے تیار تھا۔ اس کی میت لینے کیلئے پاکستان سے اس کے دو عزیز آئے ہوئے تھے جو اس چھوٹے قصبے کے ایک ہی ہوٹل میں میرے برابر والے کمرے میں تھے مگر وہ قطعاً کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔ جیل حکام کے ترجمان لیری ٹیلر نے جب جیل سے باہر آ کر ایمل کانسی کی سزائے موت کا اعلان کیا تو سخت سردی کے باوجود ’’جیو‘‘ کے ذریعے پاکستانی شہری ایمل کانسی کی سزائے موت کی خبر پاکستانی عوام تک تفصیل سے پہنچانے کی صحافتی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے سردی کا احساس اس وقت ہوا جب ہاتھ اور ناک دونوں ہی ’’فریز‘‘ محسوس ہوئے۔ ایمل کانسی کی گرفتاری اور حوالگی کے لئے ہم نے پاکستانی قوانین اور شہری کے حقوق کو پامال کیا۔ امریکہ نے تمام تر حقائق کے باوجود پاکستانی ایمل کانسی کو انصاف کے تقاضے پورے کر کے سزائے موت دینے میں 9 سال کا عرصہ لگایا۔ احتیاط اور انصاف لازم ہے۔
مجھے معلوم تھا کہ آپ نے نیچے ٹھیک تاریخ لکھی ہے مگر اس لال رنگ میں جو لکھا ہے وہ بھی اسی پوسٹ کا حصہ ہے اسکو ٹھیک کر لیں جناب ۔
دوسرے پیراگراف کو ٹھیک سے دیکھ لیں ۔
 
Top