خود کلامی - من کی باتیں

ایک پہاڑ کی چوٹی پر لگےد رخت پر ایک عقاب نے اپنا گھونسلہ بنا رکھا تھا جس میں اس کے دیئے ہوئے چار انڈے پڑے تھے کہ زلزلے کے جھٹکوں سے ایک انڈا نیچے گراجہاں ایک مرغی کا ٹھکانہ تھا۔ مرغی نے عقاب کے انڈے کو اپنا انڈا سمجھا اور اپنے نیچے رکھ لیا۔ ایک دن اس انڈے میں سے ایک پیارا سا ننھا منا عقاب پیدا ہوا جس نے اپنے آپ کو مرغی کا چوزہ سمجھتے ہوئے پرورش پائی اور مرغی سمجھ کر بڑا ہوا۔
ایک دن باقی مرغیوں کےساتھ کھیلتے ہوئے اس نے آسمان کی بلندیوں پر کچھ عقاب اڑتے دیکھے۔ اس کا بہت دل چاہا کہ کاش وہ بھی ایسے اڑ سکتا! جب اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار دوسری مرغیوں سے کیا تو انہوں نے اس کا تمسخر اڑایا اور قہقہے لگاتے ہوئے کہا تم ایک مرغی ہو اور تمہارا کام عقابوں کی طرح اڑنا نہیں۔ کہتے ہیں اس کے بعد اس عقاب نے اڑنے کی حسرت دل میں دبائے ایک لمبی عمر پائی اور مرغیوں کی طرح جیتا رہا اور مرغیوں کی طرح ہی مرا۔۔

اگر آپ عقاب ہیں اور آپ کے خواب آسمان کی بلندیوں میں اڑنے کے ہیں تو پھر اپنے خوابوں کو عملی جامہ دیجیئے، کسی مرغی کی بات پر دھیان نہ دیجیئے کیونکہ انہوں نے آپکو بھی اپنے ساتھ ہی پستیوں میں ڈالے رکھنا ہے۔
جب معاملات آگے نہ بڑھ رہے ہوں تو اپنی روزمرہ کی عادتوں سے ہٹ کر کچھ کرنا بھی کامیابیوں کو آسان بناتا ہے۔ اور پھر یہ بھی تو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

تحریر: نامعلوم
 
ذہنی ٹھوکر
ایک دکھی اور سوگی آدمی جب سوچتا ہے کہ اس کو دکھوں سے اور مصیبتوں سے نجات حاصل کرنی چاہیے تو وہ ایک بنیادی غلطی میں مبتلا ہو جاتا ہے -
یعنی وہ ایسی چیزوں کی فہرست تیار کرنے میں لگ جاتا ہے جن سے اس کو بچنا چاہیے-
اس فہرست کی تیاری میں وہ سب سے اہم چیز لکھنی بھول جاتا ہے کہ سب سے پہلے اس کو اپنے آپ سے بچنا چاہیے مثلا وہ پروگرام بناتا ہے کہ مجھے ان لوگوں سے تکلیف پہنچی ہے مجھے
ان لوگوں کو چھوڑ دینا چاہیے اور ان کی بجائے کچھ دوسرے دوستوں کو اختیار کرنا چاہیے-...
لیکن وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ وہ نئے دوستوں کے پاس بھی اپنا پرانا آپ اور اپنے پرانے خیال لے کر جائے گا.
وہ یہ بھول جاتا ہے کہ جو شخص ذہنی ٹھوکریں کھاتا ہے وہ قدم کی ٹھوکر ضرور کھاتا ہے.
ہر روز کا ایک وظیفہ یاد رکھیے کہ مجھے اپنے آپ کو درست کرنا ہے اور اپنا آپ سنوارنا ہے-
از اشفاق احمد
 
ﺣﺎﺟﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﮔﺎﺭﻣﻨﭩﺲ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﺗﮭﯽ، - ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻭﮦ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﮯ ﻗﺪ ﮐﺎﭨﮫ ﮐﺎ ﮐﺘﺎ ﮔﮭﺴﭧ ﮔﮭﺴﭧ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﻮﺩﺍﻡ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﺣﺎﺟﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻏﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﮐﺘﺎ ﺷﺪﯾﺪ ﺯﺧﻤﯽ ﮨﮯ، ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﯿﻦ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﭨﻮﭦ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﭨﺎﻧﮓ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﻮ ﮔﮭﺴﯿﭧ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﻮﺩﺍﻡ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﮭﺎ- ﺣﺎﺟﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﮐﺘﮯ ﭘﺮ ﺑﮍﺍ ﺭﺣﻢ ﺁﯾﺎ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﻭﮦ ﮐﺘﮯ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﮐﺎ ﻋﻼﺝ ﮐﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﮐﺘﺎ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ-
ﺣﺎﺟﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺳﮯ ﺭﺍﺑﻄﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮱ ﻓﻮﻥ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻧﻤﺒﺮ ﻣﻼﻧﮯ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﻮﮐﮭﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﺎﺟﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻓﻮﻥ ﻭﺍﭘﺲ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ..... ﺣﺎﺟﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﺘﺎ ﺷﺪﯾﺪ ﺯﺧﻤﯽ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﯿﻦ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﭨﻮﭦ ﭼﮑﯽ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﺒﮍﺍ ﺯﺧﻤﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﭧ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﭼﻮﭦ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻥ ﮨﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﮐﺘﺎ ﺭﻭﺯﯼ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ- ﺣﺎﺟﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ' ﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﯾﮧ ﮨﮯ ﻗﺪﺭﺕ ﺍﺱ ﮐﺘﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ،
ﺣﺎﺟﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻣﺸﺎﮨﺪﮮ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ ﺑﯿﭩﮫ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ... ﻭﮦ ﮐﺘﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﮔﻮﺩﺍﻡ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﮩﻮﺵ ﭘﮍﺍ ﺭﮨﺎ، ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﭘﮭﯿﻠﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﺣﺎﺟﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﮐﮯ ﮔﯿﭧ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﮐﺘﺎ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ، ﮐﺘﮯ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺒﯽ ﺳﯽ ﺑﻮﭨﯽ ﺗﮭﯽ- ﮐﺘﺎ ﭼﮭﭙﺘﺎ ﭼﮭﭙﺎﺗﺎ ﮔﻮﺩﺍﻡ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ، ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺘﮯ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﯾﺎ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺘﮯ ﮐﻮ ﺟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﭨﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﮮ ﺩﯼ- ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺘﮯ ﮐﺎ ﺟﺒﮍﺍ ﺣﺮﮐﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﻮﭨﯽ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﮔﻞ ﺩﯼ- ﺻﺤﺖ ﻣﻨﺪ ﮐﺘﮯ ﻧﮯ ﺑﻮﭨﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﯽ، ﺑﻮﭨﯽ ﭼﺒﺎﺋﯽ، ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﻧﺮﻡ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﻮﭨﯽ ﮐﺎ ﻟﻘﻤﮧ ﺳﺎ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺘﮯ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ- ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺘﺎ ﺑﻮﭨﯽ ﻧﮕﻞ ﮔﯿﺎ.... ﺍﺳﮑﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﮐﺘﺎ ﮔﻮﺩﺍﻡ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﯾﺎ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺣﻮﺽ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﻡ ﮔﯿﻠﯽ ﮐﯽ، ﻭﺍﭘﺲ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻡ ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺘﮯ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﮮ ﺩﯼ- ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺘﮯ ﻧﮯ ﺻﺤﺖ ﻣﻨﺪ ﮐﺘﮯ ﮐﯽ ﺩﻡ ﭼﻮﺱ ﻟﯽ- ﺻﺤﺖ ﻣﻨﺪ ﮐﺘﺎ ﺍﺱ ﮐﺮﻭﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﺳﯽ ﻭﺍﭘﺲ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ-
ﺣﺎﺟﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﭘﮍﮮ- ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﯾﮧ ﮐﮭﯿﻞ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ- ﺭﻭﺯ ﮐﺘﺎ ﺁﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺘﮯ ﮐﻮ ﺑﻮﭨﯽ ﮐﮭﻼﺗﺎ، ﭘﺎﻧﯽ ﭘﻼﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ،ﺣﺎﺟﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺌﯽ ﺩﻧﻮﮞ ﺗﮏ ﯾﮧ ﮐﮭﯿﻞ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺭﮨﮯ... ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺣﺎﺟﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ "ﻭﮦ ﻗﺪﺭﺕ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺘﮯ ﮐﻮ ﺭﺯﻕ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﻭ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﮔﯽ؟"
ﺳﻮﺍﻝ ﺑﮩﺖ ﺩﻟﭽﺴﭗ ﺗﮭﺎ، ﺣﺎﺟﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﺍﺕ ﺗﮏ ﺍﺱ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻮﮐﻞ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺑﮭﺎﻧﭗ ﮔﺌﮯ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ چھوڑی ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﮎ ﺍﻟﺪﻧﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ...
ﻭﮦ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺲ ﺩﻥ ﺭﻭﺯﮮ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺻﺒﺢ ﺻﺎﺩﻕ ﺳﮯ ﺍﮔﻠﯽ ﺻﺒﺢ ﮐﺎﺫﺏ ﺗﮏ ﺭﮐﻮﻉ ﻭ ﺳﺠﻮﺩ ﮐﺮﺗﮯ، ﻭﮦ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ ﺭﮨﮯ، ﺍﺱ ﻋﺮﺻﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺭﺯﻕ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﻋﺎﺅﮞ ﮐﻮ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﺑﮭﯽ- ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺻﻮﻓﯽ ﺑﺎﺑﺎ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻮ گئے . . .
ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﭘﯿﺶ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺻﻮﻓﯽ ﺑﺎﺑﺎ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺣﺎﺟﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ.... ﯾﮧ ﺳﺮﺩﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﻢ ﮔﺮﻡ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﺗﮭﯽ، ﺻﻮﻓﯽ ﺑﺎﺑﺎ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﮭﮏ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺟﻨﻮﮞ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﻣﻨﺪ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ- ﺻﻮﻓﯽ ﺑﺎﺑﺎ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﻭﺣﺎﻧﯿﺖ ﮐﮯ ﺭﻣﻮﺯ ﭘﺮ ﺑﺎﺕ ﭼﯿﺖ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ- ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮨﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺻﻮﻓﯽ ﺑﺎﺑﺎ ﻧﮯ ﮐﺘﮯ ﮐﺎ ﻗﺼﮧ ﭼﮭﯿﮍ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻗﺼﮯ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮﯾﻦ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ.... "ﺭﺯﻕ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻢ ﺑﯿﻮﻗﻮﻑ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﺯﻕ ﮐﺎ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ- ﺍﮔﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﻮﮐﻞ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺭﺯﻕ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮏ ﺿﺮﻭﺭ ﭘﮩﻨﭽﺘﺎ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﻞ ﺍﺱ ﮐﺘﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﻮ ﺯﺧﻤﯽ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﮐﺘﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﺼﮯ ﮐﺎ ﺭﺯﻕ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁ ﮔﯿﺎ- ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺘﮯ ﺳﮯ ﺗﻮﮐﻞ ﺳﯿﮑﮭﯽ- ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎﺩﺍﺭﯼ ﺗﺮﮎ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﻞ ﺁﯾﺎ- ﺁﺝ ﺍﺱ ﺭﺍﮦ ﮐﺎ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﮞ- ﺍﻥ ﺗﯿﺲ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺩﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺰﺭﺍ ﺟﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻭﺳﯿﻠﮯ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﺯﻕ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺭﺍﺕ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺳﻮﯾﺎ ﮨﻮﮞ- ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﺱ ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺘﮯ ﮐﻮ ﺗﮭﯿﻨﮏ ﯾﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮﮐﻞ ﮐﺎ ﺳﺒﻖ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ"-
ﺻﻮﻓﯽ ﺑﺎﺑﺎ ﮐﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺗﮭﺎ، ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﻧﮯ ﺟﯿﻨﺰ ﭘﮩﻦ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﻢ ﭘﯽ ﺗﮭﺮﯼ ﮐﺎ ﺍﺋﺮ ﻓﻮﻥ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ- ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﻧﮯ ﺍﺋﺮ ﻓﻮﻥ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﻗﮩﻘﮩﮧ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ "ﺻﻮﻓﯽ ﺑﺎﺑﺎ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻓﻀﻞ ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﻭﮦ ﮐﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺭﻭﺯ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺘﮯ ﮐﻮ ﺑﻮﭨﯽ ﭼﺒﺎ ﮐﺮ ﮐﮭﻼﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﯿﻠﯽ ﺩﻡ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﯿﺎﺱ ﺑﺠﮭﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ- ﮐﺎﺵ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺘﮯ ﮐﮯ ﺗﻮﮐﻞ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺻﺤﺖ ﻣﻨﺪ ﮐﺘﮯ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ، ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺜﺎﺭ ﭘﺮ ﺗﻮﺟﮧ ﺩﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺁﺝ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﭘﺎﻧﭻ، ﭼﮫ ﺳﻮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﭼﻮﻟﮩﺎ ﺟﻼ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ"- ﺻﻮﻓﯽ ﺑﺎﺑﺎ ﮐﻮ ﭘﺴﯿﻨﮧ ﺁ ﮔﯿﺎ-
ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﺑﻮﻻ "ﺻﻮﻓﯽ ﺑﺎﺑﺎ! ﺍﻭﭘﺮ ﻭﺍﻻ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﯿﭽﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺻﺤﺖ ﻣﻨﺪ ﮐﺘﺎ ﺍﻭﭘﺮ ﻭﺍﻻ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺘﺎ ﻧﯿﭽﮯ ﻭﺍﻻ- ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻭﭘﺮ ﻭﺍﻻ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﻈﺮ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ- ﻣﯿﺮﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﺗﺼﻮﻑ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﺍ ﺗﻮﮐﻞ ﺧﻮﺩ ﻏﺮﺿﯽ ﭘﺮ ﻣﺒﻨﯽ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﺨﯽ ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﺩﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﻧﮑﻤﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﮨﻨﺮ ﺩﺭﻭﯾﺸﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ" ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺍﭨﮭﺎ' ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﮭﮏ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ..
ﺣﺎﺟﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺩﻭ ﻧﻔﻞ ﭘﮍﮬﮯ، ﺑﯿﭩﮭﮏ ﮐﻮ ﺗﺎﻻ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯽ، ﺍﺏ ﻭﮦ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﺑﮭﯽ..
 
نقل ھے کہ ایک شہر میں ایک مست بابا آ گیا۔
آتے ھی اُس نے حکم دیا کہ ایک بہت بڑی دیگ لاؤ۔ دیگ آ گئی تو بولا،
اس دیگ کے لائق ایک چولہا بناؤ، اس میں لکڑیاں رکھ کر بھانبنڑ لگا دو۔
چولہا جل گیا،
مست نے حکم دیا کہ دیگ میں پانی بھر دو، اوپر ڈھکنا لگا دو، اسے چولہے پر رکھ دو۔
اگلی صبح انھوں نے دیگ کا ڈھکنا اُٹھایا تو دیکھا کہ وہ پلاؤ سے بھری ہوئی ھے۔
سارے شہر میں اعلان کر دیا گیا کہ حاجت مند آئیں، انھیں کھانا مفت تقسیم کیا جائے گا۔
اس اعلان پر سارا شہر دیگ پر اُمڈ آیا مست پلاؤ کی تھالیاں بھر بھر کر دینے لگا۔
اگلے روز انھوں نے دیگ کا ڈھکنا اُٹھایا تو دیکھا کہ دیگ جوں کی توں بھری ھوئی تھی۔

اس پر شہر میں مست بابا کی دھوم مچ گئی۔
برتاوے تھالیاں بھر بھر کر لوگوں کو بانٹتے مگر دیگ جوں کی توں بھری تھی۔
حاجت مندوں میں ایک فقیر بھی تھا۔
وہ خالی ھاتھ آتا اور سارا دن کھڑا تماشا دیکھتا رھتا۔
برتاوے کہتے،
میاں تو کیوں خالی ھاتھ کھڑآ ھے؟
برتن لا اور چاول لے لے۔
وہ کہتا،
میں حاجت مند نہیں ھوں۔

اس بات پر برتاوے بہت حیران ہوتے کہ کھڑا بھی رھتا ھے بٹر بٹر دیکھتا بھی رھتا ھے مگر کھاتا پیتا نہیں ھے۔
انھوں نے مست بابا سے بات کی۔
مست بابا نے کہا، اس شخص کو میرے پاس لاؤ۔
وہ فقیر کو مست بابا کے پاس لے گئے۔
مست بابا نے پوچھا، میاں کیا بات ھے کہ تو سارا دن دیگ کے سامنے کھڑا رھتا ھے لیکن دیگ کے چاول نہیں کھاتا؟
فقیر بولا،
میں یہاں چاول کھانے نہیں آتا اور نہ ھی اس دیگ کو دیکھنے آتا ھوں، جو سدا بھری رھتی ھے۔
مست بابا نے پوچھا،
پھر تو یہاں آتا کیوں ھے؟

فقیر بولا میں تو تیری زیارت کرنے آتا ھوں، تو جو اس شہر کا ربّ بنا ھوا ھے اور لوگوں میں رزق تقسیم کر رھا ھے۔

مست بابا کا چہرہ بھیانک ھو گیا۔
وہ چلاّ کر بولا:
” دیگ کو اُنڈیل دو۔
چولہے پر پانی ڈال دو۔

یہ کہہ کر مست بابا نے اپنی لاٹھی اُٹھائی اور شہر سے باھر نکل گیا۔

پاکستانی دیگ
میرے کئی دوست کہتے ھیں، مفتی یہ کہانی تو نے خود گھڑی ھے۔
یہ تو پاکستان کی کہانی ھے۔ لوگ اس دیگ کو کھا رھے ھیں۔ وہ چلا جاتا ھے تو دوسرا گروپ آ جاتا ھے کھاتا ھے،
وہ چلا جاتا ھے تو دوسرا گروپ آ جاتا ھے۔
اس کے جیالے دیگ پر ٹوٹ پڑتے ھیں لیکن یہ دیگ ختم ہونے میں نہیں آتی۔
فرق صرف یہ ھے کہ وہ دیگ مست نے چڑھائی تھی اور یہ خود ربِّ جلیل نے چڑھائی ھے۔

ممتاز مفتی کی کتاب ”تلاش” سے اقتباس
 
بینش جمیل
بہت مدت پہلے کسی دوردراز ملک میں ایک اصول تھا کہ اُس ملک کے لوگ ہر سال اپنا بادشاہ تبدیل کرتے تھے۔ جو بھی شخص بادشاہ بنتا وہ ایک عہد نامے پر دستخط کرتا کہ اُس کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد وہ اس عُہدے سے دستبردار ہو جائے گا اور اُسے ایک دوردرازجزیرے پر چھوڑدیا جائے گا جہاں سے وہ کبھی واپس نہیں آسکے گا۔ جب ایک بادشاہ کا ایک سالہ دورِحکومت مکمل ہو جاتا تو اُسے ایک مخصوص جزیرے پر چھوڑ دیا جاتا جہاں وہ اپنی بقیہ زندگی گزارتا۔ اس موقع پر اُس بادشاہ کو بہترین لباس پہنایا جاتا اور ہاتھی پر بِٹھا کر اُسے پورے ملک کا الوداعی سفر کروایا جاتا جہاں وہ سب لوگوں کو آخری بار خیرباد کہتا۔ وہ بہت ہی افسوسناک اور غمزدہ لمحات ہوتے اور پھر وہاں کے لوگ بادشاہ کو اُس جزیرے پر ہمیشہ کیلئے چھوڑآتے۔ ایک مرتبہ لوگ اپنے پُرانے بادشاہ کو جزیرے پر چھوڑ کرواپس آرہے تھے کہ اُنہوں نے ایک ایسا سمندری جہاز دیکھا جو کچھ دیر پہلے ہی تباہ ہوا تھا اور ایک نوجون آدمی نے خود کو بچانے کیلئے لکڑی کے ایک تختے کا سہارا لے رکھا تھا۔ چونکہ اُن لوگوں کو ایک نئے بادشاہ کی بھی تلاش تھی، لہٰذ اُنہوں نے اُس نوجوان شخص کو اُٹھا لیا اور اپنے ملک لے گئے اور اُس سے ایک سال کی حکومت کرنے کی درخواست کی۔ پہلے تووہ نوجوان نہ مانا لیکن پھر وہ ایک سال کیلئے بادشاہ بننے پر رضامند ہو گیا۔ وہاں کے لوگوں نے اُسے بادشاہت کے تمام اُصول اور طریقے سمجھا دئیے اور یہ بھی بتایا کہ ایک سال کے بعد وہ اُسے فلاں مخصوص جزیرے پر چھوڑ آئیں گے۔بادشاہت کے تیسرے دن ہی اُس نوجوان بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ مجھے وہ جگہ دِکھائی جائے جہاں گزشتہ تمام بادشاہوں کو بھیجا گیا تھا۔ نئے بادشاہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اُسے وہ جزیرہ دکھانے کا اہتمام کیا گیا۔ وہ جزیرہ مکمل طور پر جنگل تھااور جنگلی جانوروں سے بھرا ہوا تھا۔ اُن جانوروں کی آوازیں جزیرے کے باہر تک سُنائی دے رہی تھیں۔ بادشاہ جائزہ لینے کیلئے تھوڑا سا جنگل کے اندرگیا اور وہاں اُس کو پچھلے تمام بادشاہوں کے ُمردہ اور ڈھانچے پڑے نظر آئے۔ وہ سمجھ گیا کہ بہت جلد اُس کا بھی یہی حال ہو گا اور جنگلی جانور اُس کو چیر پھاڑ کر کھا جائیں گے۔ ملک واپس پہنچ کر بادشاہ نے مضبوط و توانا جسم کے سو مزدور اکھٹے کئے، اُن سب کو اُس جزیرے پر لے گیا اور حکم دیا کہ جنگل کو ایک ماہ میں مکمل طور پر صاف کر دیا جائے۔ تمام خطرناک جانور وں کو مار دیا جائے اور سب فالتو درخت کاٹ دیے جاہیں۔ وہ ہر ماہ خود جزیرے کا دورہ کرتا اور کام کی خود نگرانی کرتا۔ پہلے مہینے میں ہی تمام جنگلی اور خطرناک جانوروں کو جزیرے سے نکال کر مار دیا گیا اور پھر بہت سے درخت بھی کاٹ دئیے گئے۔ دوسرے ماہ تک جزیرہ مکمل طور پر صاف ہو چکا تھا۔اب بادشاہ نے مزدوروں کو حکم دیا کہ جزیرے پر مختلف مقامات پر خوبصورت باغات تعمیر کئے جائیں۔ وہ اپنے ساتھ مختلف اچھے اور سود مند جانور مُرغیاں، گائے، بھینسیں، بطخیں اور بھیڑیں وغیرہ بھی جزیرے میں منتقل کرتا رہا۔ تیسرے مہینے میں بادشاہ نے اپنے مزدوروں کو حکم دیا کہ ایک شاندار گھرتعمیر کریں اور اُس جزیرے پر ایک بڑی سی بندرگاہ بنائی جائے۔ گزرتے مہینوں کے ساتھ ساتھ وہ جزیرہ ایک خوبصورت شہر میں بدلتا جا رہا تھا۔ وہ نوجوان بادشاہ بہت سادہ لباس زیب تن کرتا اور اپنی ذات پر بہت کم خرچ کرتا۔ اپنی بادشاہت کی زیادہ تر کمائی وہ جزیرے کو بنانے میں لگا تارہا۔دس ماہ گزر جانے کے بعد بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ ایک شام بعد مجھے جزیرے میں چھوڑ دیا جائے گا لیکن میں ابھی سے ہی وہاں جانا چاہتا ہوں۔ تمام وزیر وزراء اس بات پر متفق نہیں ہوئے اور بادشاہ سے کہا کہ آپ کودوماہ مزید صبر کرنا ہو گا تا کہ سال مکمل ہو جائے اور تب ہی آپ کو اُس جزیرے پر چھوڑ دیا جائے گا۔ بالآخردو ماہ مکمل ہو گئے اوربادشاہت کا ایک سال ختم ہو گیا۔ حسبِ روایت وہاں کے لوگوں نے اپنے بادشاہ کو شاندار لباس پہنایا اور ہاتھی پر بیٹھایا تا کہ وہ اپنی رعایا کو خیر آباد کہہ سکے۔ خلافِ توقع یہ بادشاہ اپنی الوداعی تقریب پر بہت ہی بہت خوش تھا۔ لوگوں نے اُس سے پوچھا کہ اِس موقع پر تمام گزشتہ بادشاہ تو رو رہے ہوتے تھے لیکن آپ ہنس رہے ہیں۔ آپ کے اس قدر خوش ہونے کی وجہ کیا ہے ؟‘‘اُس نوجون بادشاہ نے جواب دیا:’’تم لوگوں نے دانائوں کا وہ قول نہیں سُنا ہوگاکہ جب تم ایک چھوٹے بچے کی صورت میں اس دُنیا میں آتے ہو تو تم رو رہے ہوتے ہو اور باقی سب ہنس رہے ہوتے ہیں۔ ایسی زندگی جیو کہ جب تم مرو تو تم ہنس رہے ہو اورباقی دُنیا رو رہی ہو،میں نے ایسی ہی زندگی گزاری ہے۔ جس وقت تمام بادشاہ محل کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے ہوتے تھے تو میں نے اُس وقت اپنے مستقبل کے بارے میں سوچا اور اُس کے لئے لائحہ عمل تیار کیا۔ میں نے اُس جزیرے کو ایک خوبصورت رہائشگاہ میں تبدیل کر دیا ہے جہاں اب میں اپنی باقی زندگی نہایت چین، آرام و سکون سے گزار سکوں گا‘‘۔ اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اپنی یہ چند روزہ دُنیاوی زندگی کیسے گزارتے ہیں۔ اس دُنیا کی زندگی دراصل آنے والی اخروی زندگی کی تیاری ہے۔ اس زندگی میں ہمیں روشنیوں اورپُرکشش اشیاء کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اگلی زندگی پر دھیان دینا چاہیئے۔ ہم اپنی زندگی کے مختار کل بادشاہ ہیں، اس کے ساتھ جو اچھا بُرا چاہیں ہم کر سکتے ہیں۔ ہم چاہیں تو غفلت اور عیش و عشرت میں اس کو گزاریں اور چاہیں تو اسے اپنی آنے والی زندگی کے لئے سنبھال کر رکھیں۔(زندگی کے انمول سبق)٭…٭…٭
 
دیکھا کہ ایک خوبصورت عورت ایک غریب عورت کو مار رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا جی نے وجہ دریافت فرمائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اطلاع ملی کہ یہ امیر عورت ایک عشرت گاہ کی مالکہ ہے اور غریب اس کی ملازمہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ مشاطہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن نوکرانی نے مالکن کو کاجل ڈالا اور اس کے ساتھ کوئی ریت کا ذرّہ بھی تھا جو اس کی خوبصورت آنکھوں میں بڑا تکلیف دہ لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے اس نے خادمہ کو مارا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بابا جی اپنے سفر پر گامزن ہو گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک مدت کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا اور اسی بستی کے قبرستان میں قیام کے دوران بابا جی نے ایک عجیب منظر دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک چڑیا نے ایک انسانی کھوپڑی میں اپنے بچے دیے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ چڑیا آتی اور چونچ میں خوراک لا کر بچوں کو کھلاتی، لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بچے کھوپڑی کی آنکھوں سے باہر منہ نکالتے اور خوراک لے کر اندر چلے جاتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسانی کھوپڑی کا یہ مصرف بابا جی کو عجیب سا لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے یہ دیکھنے کے لئے مراقبہ کیا کہ یہ کھوپڑی کس آدمی کی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
انہیں معلوم ہوا کہ یہ تو اسی خوبصورت عورت کی ہے جو آنکھ میں ریت کا ذرّہ برداشت نہ کرتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج اس کی آنکھوں میں چڑیا کے بچے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بابا جی نے اس موقع پر فرمایا
جن لوئیں جگ موہیا سو لوئیں میں ڈٹھ
کجرا ریکھ نہ سہندیاں تے پنچھی سوئے بٹھ
( جو آنکھیں جگ کو موہنے والی تھیں آج میں نے وہ آنکھیں دیکھ لیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کاجل میں ریت کا ذرّہ برداشت نہ ہوا آج پنچھی کے بچے اسی آنکھ میں بیٹھے ہیں۔ )

واصف علی واصف

"حرف حرف حقیقت
 
کچھ لوگ مغربیت سے اس قدر متاثر ہوئے
کہ انہوں نے یہ سمجھ لیا ، اسلام جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے،
انہوں نے کفار کے اعتراضات کا جائزہ لیا،
بے کار اور بےجا اعتراضات کے جوابات کی طرف راغب ہوئے،
ایسے اعتراضات کہ جنکی طرف توجہ ہی نہ کی جاتی تو وہ اپنی موت آپ مَر جاتے...
ان اعتراضات کے جواب دینے کے مراحل میں اگر انکے سامنے کچھ احادیث آئیں جو انکے جوابات میں مخل ہوئیں تو انہوں نے ان کو ضعیف یا موضوع قرار دے کر راستے سے ہٹا دیا دیا۔
ایسے لوگوں کو فتنہ قرار دینا اسلیئے درست نہ ہوگا کہ انکی نیت اچھی تھی لیکن کما حقہ علم نہ ہونے کے باعث وہ مغربیت سے متاثر ہوکر اس ڈگر پر چل پڑے۔
کچھ کے سامنے ایسے مسائل آئے جو مبتلا بہ الناس تھے،
انہوں نے سوچا لوگ تو اس گناہ کو چھوڑینگے نہیں، کچھ ایسا راستا نکالتے ہیں کہ یہ گناہ ہی "شرعی" ہوجائے۔
لہذا انہوں نے بھونڈے طریقوں سے سود اور موسیقی جیسی بدیہی حرام چیزوں کو حلال کرنے کی کوشش کی۔
اور جن علماء نے انکی حرمت کا قران حدیث کے ذریعے دفاع کیا انہیں تنگ نظری و "دقیانوسیت" کا طعنہ دیا گیا۔
دوسری طرف کا حال بھی کچھ اس سے مختلف نہیں
عوام کو اپنے کسی گناہ کا احساس ہوا
وہ علم والوں کے پاس گئے
علم والوں نے یہ تو بتادیا کہ یہ گناہ ہے، حرام ہے۔
لیکن کوئی ایسا متبادل نہیں بتایا جس کے ذریعے اس مبتلا بہ الناس کو چھوڑ کر اس کے فوائد حاصل کیئے جاسکیں جو شرعی اصولوں پر پورا اترے ہوں۔
اس کی خصوصی وجہ وہ خلیج ہے جو جو دینی علم اور دنیاوی علم رکھنے والوں کے درمیان موجود ہے
جو بڑی گہری سوچ اور سازش کے تحت بنائی گئی ہے تاکہ باہمی تعاون کے ذریعے شرعی اقتصادیات و معاملات جیسے اہم مسائل میں پیش رفت نہ ہوسکے۔
اور عمومی وجہ ہم لوگوں کے رویے ہیں۔ جو اپنی بھڑاس مولوی کو گالی دیکر نکال لیتے ہیں
یہ نہیں سوچتے کہ اس خرابی کے ہم بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔
اگر شہر میں کوئی اچھا ڈاکٹر نہیں ہے
تو ہم خود اپنے بچے کو اچھا ڈاکٹر کیوں نہیں بنا دیتے؟؟؟
تحریر:
قاضی حارث
 
تمھاری اصل ہستی تمھاری سوچ ہے باقی سب تو ہڈیاں اور گوشت ہے ،
مولانا رومی

ہمارے اپنے گریبان میں سانپ اور بچھو لٹک رہے ہیں اور ہم دوسروں کی مکھیاں اڑانے کی فکر میں رہتے ہیں
اشفاق احمد
 
مشہور شامی مصنف عادل ابو شنب نے اپنی کتاب شوام ظرفاء میں عرب مُلک شام میں متعین فرانسیسی کمشنر کی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اُن دنوں یہ خطہ فرانس کے زیر تسلط تھا اور شام سمیت کئی آس پاس کے مُلکوں کیلئے ایک ہی کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نے اس ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔
اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ کی طرح سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اُنکی نشست کمشنر کے بالکل آمنے سامنے تھی۔ کمشنر نے دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے جبکہ چھری کانٹے اُس کی میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر صاحب کا کراہت اور غُصے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی مگر اپنے آپ پر قابو نا پا سکا۔ اپنے ترجمان کو بُلا کر کہا کہ اِس شیخ صاحب سے پوچھے کہ آخر وہ ہماری طرح کیوں نہیں کھاتا؟
شیخ صاحب نے ترجمان کو دیکھا اور نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا؛ تو تمہارا خیال ہے کہ میں اپنئ ناک سے کھا رہا ہوں؟
کمشنر صاحب نے کہا، نہیں ایسی بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم چھری اور کانٹے کے ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟
شیخ صاحب نے جواب دیا؛ مُجھے اپنے ہاتھوں کی صفائی اور پاکیزگی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے، کیا تمہیں بھی اپنے چھری اور کانٹوں پر کی صفائی اور پاکیزگی پر اتنا ہی بھروسہ ہے؟
شیخ صاحب کے جواب سے کمشنر جل بھن کر رہ گیا، اُس نے تہیہ کر لیا کہ اس اہانت کا بدلہ تو ضرور لے گا۔
کمشنر کی میز پر اُس کے دائیں طرف اُسکی بیوی اور بائیں طرف اُسکی بیٹی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔
چہ جائیکہ کمشنر عربوں کی ثقافت، روایات اور دینداری سے واقف تھا، مزید براں اُس نے اس ضیافت میں شہر کے معززین اور علماء کو مدعو کر رکھا تھا۔ مگر ان سب روایتوں کو توڑتے ہوئے اُس نے اپنے لئے شراب منگوائی اور شیخ صاحب کو جلانے کی خاطر نہایت ہی طمطراق سے اپنے لیئے، اپنی بیوی اور بیٹی کیلئے گلاسوں میں اُنڈیلی۔ اپنے گلاس سے چُسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاحب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟
شیخ صاحب نے مختصراً کہا، ہاں،۔
کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے!
ضیافت میں موجود ہر شخص کمشنر اور شیخ صاحب کے درمیان پیش آنے والی اس ساری صورتحال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ سب کے چہروں سے نادیدہ خوف کے سائے نظر آ رہے تھے اور ہر طرف خاموشی تھی۔ مگر اس شیخ صاحب کے نا تو کھانے سے ہاتھ رُکے اور نا ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا تھا۔
کمشنر کو مخاطب کرتے ہو ئے شیخ صاحب نے کہا؛ یہ تیری بیوی ہے اور یہ تیری بیٹی ہے۔ یہ والی اُس سے آئی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تو تیرے اوپر حلال ہے اور دوسری حرام ہے؟

مصنف لکھتا ہے کہ اسکے بعد کمشنر نے فوراً ہی اپنی میز سے شراب اُٹھانے کا حُکم دیدیا تھا۔
 
۔۔۔ ملّاؤں کے تعصب میں گم ہو کر ہر سادہ اور عام فہم بات کو نہ سمجھنے کی قسم کھالیتے ہیں ۔۔۔ یہ لوگ آج بھی مولویوں کے حوالے سے 1970 کی دہائی میں زندہ ہیں جبکہ کم پڑھے لکھے لوگ امام مسجد لگ جایا کرتے تھے ۔۔۔ حالانکہ اگر انتہائی محتاط انداز میں بھی بات کی جائے تو کم از کم شہروں کی حد تک میٹرک، ایف اے ، بی اے کیے ہوئے امام مسجد ضرور ملیں گے ۔۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان "پڑھے لکھوں" کو اب مساجد میں جا کر مولوی کے پاس بیٹھنے یا سننے کی توفیق ہی کہاں ہوتی ہے جو یہ "کالے انگریز" گمراہ ہوں اور بالفرض یہ جائیں بھی سہی تو انہوں نے کونسا امام مسجد سے فزکس کے مسائل سمجھنے ہوتے ہیں جو وہ انہیں گمراہ کریں گے۔۔ سادہ سادہ سے دینی موضوعات پر ایک جیسی تقریریں ہوتی ہیں ان کی۔
تیسری بات یہ کہ آپ کے پسندیدہ لوگ جن کے آپ ذہنی طور پر غلام بھی ہیں یعنی کہ انگریز ۔۔ ان میں بھی جو پادری اور بشپ وغیرہ ہوتے ہیں، انہوں نے بھی کیمسٹری میں ایم فل نہیں کی ہوتی اور نہ ہی وہ NASA کے ڈائریکٹر ہوتے ہیں ان کی باتیں بھی پڑھے لکھے انگریز ہی سن رہے ہوتے ہیں
از : زوہیب زیبی
 
تعلیمی نظام کے حوالے سے جب بھی کوئی بات ہوتی ہے توعموماً تان لارڈمیکالے پر ٹوٹتی ہے‘ اس کے خوب لتے لئے جاتے ہیں کہ اس نے ایسا تعلیمی ڈھانچہ وضع کیا کہ اس سے صرف کلرک پیدا ہو رہے ہیں‘ ہر لکھاری اسے خوب رگڑا دے کرخود بری الذمہ ہوجاتاہے یہ نہیں سوچا جاتا کہ ہمارے تعلیمی ادارے ایجوکیشنل شاپس بن گئے ہیں جتنی تعلیم چاہئے اسی حساب سے پیسہ خرچ کرکے تعلیم خرید لیجئے‘ کوچنگ سنٹر نوچنگ سنٹرز میں تبدیل ہوگئے ہیں‘ جہاں فیس کے نام پر طلبہ کے والدین کی کھال نوچ لی جاتی ہے تو اس میں لارڈ میکالے کا کیا قصور۔
علاوہ ازیں کیا اس نے ہمیں اپنے تعلیمی نصاب میں عصری تقاضوں کے مطابق تبدیلی لانے سے منع کر رکھا ہے‘ کیا کچھوے اور خرگوش کے مابین ریس کا اہتمام اس نے کروایا تھا؟ پرائمری کی ایک کتاب میں کچھوے اور خرگوش کا قصہ ہمیں ابھی تک یاد ہے جس میں خرگوش تیز رفتار ہونے کے باوجود سست رفتار کچھوے سے ہار جاتا ہے‘ کہانی میں خرگوش کی شکست کے اسباب میں خوش فہمی‘ جھوٹا اعتماد اور غرورکا تذکرہ ہے لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ کسی سکیورٹی وجوہات خصوصاً شکاری ڈر سے کسی جھاڑی میں چھپ گیا ہو کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔ کچھوے کا کیا ہے اس نے تو قدرتی طور پر بلٹ پروف جیکٹ پہنی ہوتی ہے۔
ہمارے خیال میں یہ نصاب میں شامل رکھنا اس لئے بھی مناسب نہیں کیونکہ زیادہ تر علاقوں میں کچھوے پائے ہی نہیں جاتے تو طلبہ ان کی سست رفتاری سے کیسے واقف ہوں گے اس کہانی میں خرگوش اور کچھوے کو نکال دیا جائے اور ان کرداروں کی جگہ اس ریس میں یہودی اور مسلمانوں کو ڈال دیا جائے تو زیادہ مناسب رہے گا‘ طلبہ کو بتایا جائے کہ مسلمان یعنی خرگوش اور یہودی (کچھوے ) کے درمیان جو ریس چودہ سو سال پہلے شروع ہوئی تھی ابتدائی چھلانگوں یعنی چھ سات صدیوں تک مسلمان کہاں سے کہاں پہنچ گیا تھا لیکن راستہ میں خوش اعتمادی اور نیند کے غلبے میں ایسے سوگیا کہ سست رفتار کچھوا (یہودی) اسرائیل پہنچ گیا اور خرگوش یعنی مسلمان ابھی تک جماہیاں لے رہا ہے
اکرام اللہ مومند
 

x boy

محفلین
شکریہ
جزاک اللہ

پوری لڑی کا نچوڑ
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ۔ (البقرۃ2: 152-153)

پس تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ میرا شکر ادا کرو اور کفران نعمت نہ کرو۔ اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ کوئی شک نہیں کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
 
ایک مشہور مصنف نے اپنے مطالعے کے کمرےمیں قلم اٹھایا اور ایک کاغذ پر لکھا:

1٭٭٭ گزشتہ سال میں، میرا آپریشن ہوا اور پتا نکال دیا گیا، بڑھاپے میں ہونے والے اس آپریشن کی وجہ سے مجھے کئی ہفتے تک بستر کا ہو کر رہنا پڑا۔

2٭٭٭ اسی سال میں ہی میری عمر ساٹھ سال ہوئی اور مجھے اپنی پسندیدہ اور اہم ترین ملازمت سے سبکدوش ہونا پرا۔ میں نے نشرو اشاعت کے اس ادارے میں اپنی زندگی کے تیس قیمتی سال گزارے تھے۔

3٭٭٭ اسی سال ہی مجھے اپنے والد صاحب کی وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا۔

4٭٭٭ اسی سال میں ہی میرا بیٹا اپنے میڈیکل کے امتحان میں فیل ہو گیا، وجہ اس کی کار کا حادثہ تھا جس میں زخمی ہو کر اُسے کئی ماہ تک پلستر کرا کر گھر میں رہنا پڑا، کار کا تباہ ہوجانا علیحدہ سے نقصان تھا۔

صفحے کے نیچے اس نے لکھا؛ آہ، کیا ہی برا سال تھا یہ!!!

مصنف کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ اُس کا خاوند غمزدہ چہرے کے ساتھ خاموش بیٹھا خلاؤں کو گُھور رہا تھا۔ اُس نے خاوند کی پشت کے پیچھے کھڑے کھڑے ہی کاغذ پر یہ سب کچھ لکھا دیکھ لیا۔ خاوند کو اُس کے حال میں چھوڑ کر خاموشی سے باہر نکل گئی۔ کچھ دیر کے بعد واپس اسی کمرے میں لوٹی تو اس نے ایک کاغذ تھام رکھا جسے لا کر اُس نے خاموشی سے خاوند کے لکھے کاغذ کے برابر میں رکھ دیا۔ خاوند نے کاغذ کو دیکھا تو اس پر لکھا تھا

1٭٭٭ اس گزشتہ سال میں آخر کار مجھے اپنے پتے کے درد سے نجات مل گئی جس سے میں سالوں کرب میں مبتلا رہا تھا۔

2٭٭٭ میں اپنی پوری صحت مندی اور سلامتی کے ساتھ ساٹھ سال کا ہو گیا۔ سالوں کی ریاضت کے بعد مجھے اپنی ملازمت سے ریٹائرمنٹ ملی ہے تو میں مکمل یکسوئی اور راحت کے ساتھ اپنے وقت کو کچھ بہتر لکھنے کیلئے استعمال کر سکوں گا۔

3٭٭٭ اسی سال ہی میرے والد صاحب پچاسی سال کی عمر میں بغیر کسی پر بوجھ بنے اور بغیر کسی بڑی تکلیف اور درد کے آرام کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

4٭٭٭ اسی سال ہی اللہ تعالیٰ نے میرے بیٹے کو ایک نئی زندگی عطا فرما دی اور ایسے حادثے میں جس میں فولادی کار تباہ ہو گئی تھی مگر میرا بیٹا کسی معذوری سے بچ کر زندہ و سلامت رہا۔

آخر میں مصنف کی بیوی نے یہ فقرہ لکھ کر تحریر مکمل کی تھی کہ : واہ ایسا سال، جسے اللہ نے رحمت بنا کر بھیجا اور بخیرو خوبی گزرا۔
ملاحظہ کیجیئے: بالکل وہی حواداث اور بالکل وہی احوال لیکن ایک مختلف نقطہ نظر سے۔۔۔۔ بالکل اسی طرح اگر، جو کچھ ہو گزرا ہے، اسے اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے جو اس کے برعکس ہوتا تو، ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شاکر بن جائیں گے۔

اگرہم بظاہرکچھ کھو بیٹھے اسے مثبت زاویے سے دیکھیں تو ہمیں جو کچھ عطا ہوا وہ بہتر نظر آنا شروع ہو جائے گا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: : وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَ۔ٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ ﴿٧٣﴾
"اور بے شک تیرا رب تو لوگوں پر فضل کرتا ہے لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے" (سورة النمل-73)
 
ایک محفل میں دوران تقریب کچھ باتیں ہوئیں
ایک صاحب کہنے لگے، آپ نے اتنی باتیں کرلیں ذرا یہ تو بتایئے کہ نماز میں دو سجدے کیوں ہیں؟
میں نے کہا : مجھے نہیں معلوم۔
کہنے لگے: یہ نہیں معلوم تو پھر آپ کو معلوم ہی کیا ہے؟ اتنی دیر سے آپ کی باتیں سن کر محسوس ہورہا تھا کہ آپ علمی آدمی ہیں لیکن آپ تو صفر نکلے۔
میں نے کہا: جناب! میں صفر نکلا نہیں، میں صفر ہوں! میں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ مجھے بہت کچھ آتا ہے۔...
کہنے لگے: اب سنیئے کہ نماز میں دو سجدے کیوں ہیں! ایک سجدہ اسلیئے کہ جب اللہ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ حضرت آدم کو سجدہ کریں تو تمام فرشتے سجدے میں چلے گئے تھے۔ جب فرشتے سجدے سے اٹھے اور دیکھا کہ سجدہ نہ کرنے پر شیطان کو تا قیامت وعید ہوئی تو انہوں نے ایک اور سجدہ شکرانہ ادا کیا کہ ہم حکم عدولی والوں میں نہ تھے۔
میں نے کہا: بہت شکریہ جناب! آپ نے میری معلومات میں اضافہ کیا، میں اس کی تحقیق میں نہیں جاؤنگا کہ آیا یہ بات حسب واقعہ ہے بھی یا نہیں، لیکن ایک سوال میری طرف سے بھی۔ اگر کسی شخص سے نماز میں ایک سجدہ چھوٹ جائے تو کیا اس کی نماز ہوجائے گی؟
کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم۔
میں نے پوچھا: جناب! کیا ہمیں پہلے وہ معلومات حاصل نہ کرنی چاہیئیں جن سے زندگی میں اکثر و بیشتر پالا پڑتا ہو یا پڑنے کی امید ہو۔؟
اس پر وہ بحث کرنے لگے۔
بہرحال ان صاحب نے تو وہ بات نہ مانی لیکن میں یہ سمجھ چکا تھا کہ لوگوں کے دماغ میں "علمیت" کا معیار کیا ہے؟
یقین کیجئے میں نے مسجدوں کی دیواروں ہر قران و حدیث کی بجائے کفر و گستاخی کے فتوے آویزاں دیکھے۔
میں نے کارپینٹر اور مستری کے درمیان "علم غیب" کے مسئلے پر بحث ہوتے دیکھی ہے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کو مسلکی ویڈیوز شیئر کرتے دیکھا ہے جن کو غسل کے فرائض تک نہیں معلوم۔
حدیث میں آتا ہے:
"اختلاف العلماء رحمۃ"
علماء کا اختلاف رحمت ہے۔
مجھے لگتا ہے یہ حدیث مجھے اپنے اندر چھپے ایک اور معانی بتا رہی ہے اور وہ ہے:
"اختلاف الجہلاء زحمۃ"
جاہلوں کا اختلاف زحمت ہے۔
کیونکہ علم والے جب اختلاف کرتے ہیں تو غور و فکر کے دروازے کھلتے ہیں اور دلائل کے انبار لگتے ہیں
جبکہ جاہل جب اختلاف کرتے ہیں تو بحث و تکرار کے در وا ہوتے ہیں اور گالیوں کے ڈھیر لگتے ہیں۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
تحریر: قاضی حارث
 
کہتے ہیں ایک چینی بڑھیا کے گھر میں پانی کیلئے دو مٹکے تھے، جنہیں وہ روزانہ ایک لکڑی پر باندھ کر اپنے کندھے پر رکھتی اور نہر سے پانی بھر کر گھر لاتی۔ ان دو مٹکوں میں سے ایک تو ٹھیک تھا مگر دوسرا کچھ ٹوٹا ہوا۔ ہر بار ایسا ہوتا کہ جب یہ بڑھیا نہر سے پانی لے کر گھر پہنچتی تو ٹوٹے ہوئے مٹکی کا آدھا پانی راستے میں ہی بہہ چکا ہوتا۔ جبکہ دوسرا مٹکا پورا بھرا ہوا گھر پہنچتا۔
ثابت مٹکا اپنی کارکردگی سے بالکل مطمئن تھا تو ٹوٹا ہوا بالکل ہی مایوس۔ حتیٰ کہ وہ تو اپنی ذات سے بھی نفرت کرنے ...لگا تھا کہ آخر کیونکر وہ اپنے فرائض کو اس انداز میں پورا نہیں کر پاتا جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔
اور پھر مسلسل دو سالوں تک ناکامی کی تلخی اور کڑواہٹ لئے ٹوٹے ہوئے گھڑے نے ایک دن اس عورت سے کہا: میں اپنی اس معذوری کی وجہ سے شرمندہ ہوں کہ جو پانی تم اتنی مشقت سے بھر کر اتنی دور سے لاتی ہو اس میں سے کافی سارا صرف میرے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گھر پہنچتے پہنچتے راستے میں ہی گر جاتا ہے۔
گھڑے کی یہ بات سن کر بڑھیا ہنس دی اور کہا: کیا تم نے ان سالوں میں یہ نہیں دیکھا کہ میں جسطرف سے تم کو اٹھا کر لاتی ہوں ادھر تو پھولوں کے پودے ہی پودے لگے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف کچھ بھی نہیں اگا ہوا۔
مجھے اس پانی کا پورا پتہ ہے جو تمہارے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گرتا ہے، اور اسی لئے تو میں نے نہر سے لیکر اپنے گھر تک کے راستے میں پھولوں کے بیج بو دیئے تھے تاکہ میرے گھر آنے تک وہ روزانہ اس پانی سے سیراب ہوتے رہا کریں۔ ان دو سالوں میں ، میں نے کئی بار ان پھولوں سے خوبصورت گلدستے بنا کر اپنے گھر کو سجایا اور مہکایا۔ اگر تم میرے پاس نا ہوتے تو میں اس بہار کو دیکھ ہی نا پاتی جو تمہارے دم سے مجھے نظر آتی ہے۔
یاد رکھئے کہ ہم سے ہر شخص میں کوئی نا کوئی خامی ہے۔ لیکن ہماری یہی خامیاں، معذوریاں اور ایسا ٹوٹا ہوا ہونا ایک دوسرے کیلئے عجیب اور پر تاثیر قسم کے تعلقات بناتا ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ان کی خامیوں کے ساتھ ہی قبول کریں۔ ہمیں ایک دوسرے کی ان خوبیوں کو اجاگر کرنا ہے جو اپنی خامیوں اور معذوریوں کی خجالت کے بوجھ میں دب کر نہیں دکھا پاتے۔ معذور بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور اپنی معذوری کے ساتھ ہی اس معاشرے کیلئے مفید کردار ادا کر سکتے ہیں۔
جی ہاں، ہم سب میں کوئی نا کوئی عیب ہے، پھر کیوں نا ہم اپنے ان عیبوں کے ساتھ، ایک دوسرے کی خامیوں اور خوبیوں کو ملا کر اپنی اپنی زندگیوں سے بھر پور لطف اٹھائیں۔ ہمیں ایک دوسرے کو اس طرح قبول
کرنا ہے کہ ہماری خوبیاں ہماری خامیوں پر پردہ ڈال رہی ہوں
 
Top