امریکہ: پولیس تشدد کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے (پنجاب پولیس کا اثر ہوگیا)

منقب سید

محفلین
141213212011_us_protest_624x351_reuters.jpg

سڑکوں پر اترنے والے لوگوں میں ایرک گارنر کے اہل خانہ کے علاوہ مائیکل براؤن کے رشتہ دار بھی شامل ہیں
امریکہ میں پولیس کے تشدد سے نہتے سیاہ فام افراد کی ہلاکتوں کے حالیہ واقعات کے خلاف دارالحکومت واشنگٹن سمیت کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے ہیں۔

واشنگٹن کے علاوہ نیویارک اور بوسٹن میں نکالی جانے والی بڑی احتجاجی ریلیوں میں شدید سردی کے باوجود ہزاروں افراد نے شرکت کی ہے جن میں سفید اور سیاہ فام دونوں شامل تھے۔

انہ مظاہرین نے بینر اور بڑے بڑے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر ’سیاہ فام لوگوں کی زندگی پر بھی فرق پڑتا ہے۔‘، ’نسل پرست پولیس کو روکو‘ اور ’میں سانس نہیں لے سکتا‘ جیسے نعرے درج تھے۔

امریکہ میں حالیہ دنوں میں نہتے سیاہ فام لوگوں پر پولیس کی کارروائی اور اس میں سیاہ فام لوگوں کے مارے جانے کے معاملے سامنے آئے ہیں۔

’میں سانس نہیں لے سکتا‘ جیسے نعرے کا براہ راست تعلق ایرک گارنر سے ہے جو نیویارک میں اپنی گرفتاری کے وقت گڑگڑا رہے تھے کہ میں سانس نہیں لے سکتا ہوں اور اسی دوران گارنر کی موت ہوگئی تھی۔

141213211752_us_protest_624x351_reuters.jpg

مظاہروں میں شریک لوگ ہر نسل اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں
واشنگٹن میں ہونے والے مظاہرے میں ایرک گارنر کے اہل خانہ کے علاوہ مائیکل براؤن نامی سیاہ فام شہری کے رشتہ دار بھی شامل تھے۔

18 سالہ مائیکل براؤن کو ریاست میزوری کے علاقے فرگوسن میں کچھ عرصہ قبل ایک سفید فام پولیس افسر نےگولی مار دی تھی۔

دارالحکومت واشنگٹن میں مظاہرے کے دوران گارنر کی والدہ گوین کار نے اس مارچ کو ’تاریخ ساز لمحہ‘ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا ’ان تمام لوگوں کو جو ہمارا ساتھ دینے کے لیے نکلے دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔ اس ہجوم کو دیکھیے، سیاہ فام، سفید فام تمام نسلوں اور مذاہب کے لوگ ہیں۔ ہمیں ہر موقعے پر اسی طرح ایک ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔‘

141213215644_sp_protesto_washington_racismo_624x351_reuters.jpg

بی بی سی کی نامہ نگار سے بات کرنے والے زیادہ تر افراد کا کہنا تھا کہ گارنر کی موت انھیں یہاں لانے کا باعث بنی ہے۔

مائیکل براؤن کے معاملے میں پولیس کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے فیصلے سے نہ صرف فرگوسن میں بلکہ دور دراز آک لینڈ اور کیلیفورنیا میں بھی پر تشدد مظاہرے بھڑک اٹھے تھے تاہم گارنر کی موت پر ہونے والے مظاہرے پر امن رہے تھے۔

141213192349_sp_marcha_washington_624x351_ap.jpg

زیادہ تر افراد کا کہنا تھا کہ گارنر کی موت انھیں یہاں لانے کا باعث بنی ہے۔
141213175444_sp_marcha_washington_624x351_reuters.jpg

مظاہرین قوانین میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں

لنک
 
141213212011_us_protest_624x351_reuters.jpg

سڑکوں پر اترنے والے لوگوں میں ایرک گارنر کے اہل خانہ کے علاوہ مائیکل براؤن کے رشتہ دار بھی شامل ہیں
امریکہ میں پولیس کے تشدد سے نہتے سیاہ فام افراد کی ہلاکتوں کے حالیہ واقعات کے خلاف دارالحکومت واشنگٹن سمیت کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے ہیں۔

واشنگٹن کے علاوہ نیویارک اور بوسٹن میں نکالی جانے والی بڑی احتجاجی ریلیوں میں شدید سردی کے باوجود ہزاروں افراد نے شرکت کی ہے جن میں سفید اور سیاہ فام دونوں شامل تھے۔

انہ مظاہرین نے بینر اور بڑے بڑے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر ’سیاہ فام لوگوں کی زندگی پر بھی فرق پڑتا ہے۔‘، ’نسل پرست پولیس کو روکو‘ اور ’میں سانس نہیں لے سکتا‘ جیسے نعرے درج تھے۔

امریکہ میں حالیہ دنوں میں نہتے سیاہ فام لوگوں پر پولیس کی کارروائی اور اس میں سیاہ فام لوگوں کے مارے جانے کے معاملے سامنے آئے ہیں۔

’میں سانس نہیں لے سکتا‘ جیسے نعرے کا براہ راست تعلق ایرک گارنر سے ہے جو نیویارک میں اپنی گرفتاری کے وقت گڑگڑا رہے تھے کہ میں سانس نہیں لے سکتا ہوں اور اسی دوران گارنر کی موت ہوگئی تھی۔

141213211752_us_protest_624x351_reuters.jpg

مظاہروں میں شریک لوگ ہر نسل اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں
واشنگٹن میں ہونے والے مظاہرے میں ایرک گارنر کے اہل خانہ کے علاوہ مائیکل براؤن نامی سیاہ فام شہری کے رشتہ دار بھی شامل تھے۔

18 سالہ مائیکل براؤن کو ریاست میزوری کے علاقے فرگوسن میں کچھ عرصہ قبل ایک سفید فام پولیس افسر نےگولی مار دی تھی۔

دارالحکومت واشنگٹن میں مظاہرے کے دوران گارنر کی والدہ گوین کار نے اس مارچ کو ’تاریخ ساز لمحہ‘ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا ’ان تمام لوگوں کو جو ہمارا ساتھ دینے کے لیے نکلے دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔ اس ہجوم کو دیکھیے، سیاہ فام، سفید فام تمام نسلوں اور مذاہب کے لوگ ہیں۔ ہمیں ہر موقعے پر اسی طرح ایک ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔‘

141213215644_sp_protesto_washington_racismo_624x351_reuters.jpg

بی بی سی کی نامہ نگار سے بات کرنے والے زیادہ تر افراد کا کہنا تھا کہ گارنر کی موت انھیں یہاں لانے کا باعث بنی ہے۔

مائیکل براؤن کے معاملے میں پولیس کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے فیصلے سے نہ صرف فرگوسن میں بلکہ دور دراز آک لینڈ اور کیلیفورنیا میں بھی پر تشدد مظاہرے بھڑک اٹھے تھے تاہم گارنر کی موت پر ہونے والے مظاہرے پر امن رہے تھے۔

141213192349_sp_marcha_washington_624x351_ap.jpg

زیادہ تر افراد کا کہنا تھا کہ گارنر کی موت انھیں یہاں لانے کا باعث بنی ہے۔
141213175444_sp_marcha_washington_624x351_reuters.jpg

مظاہرین قوانین میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں

لنک

کوئی ٹائر شائر نہیں جلائے؟ توڑ پھوڑ وغیرہ؟
 

x boy

محفلین
شہر سے اسکریپ لینڈ یا جنک یارڈ دو ہوگا،:D
یہ لوگ مہذب لوگ ہیں ان معاملوں میں، لیکن کپڑوں کے معاملے میں آدھی واسی سے زیادہ فیشن ایبل۔
اگر گوگل میں طرح طرح کے پروٹیس کے بارے میں جاننا ہوتو وہ الفاظ انگلش میں لکھیں
اور پتا لگ جائے گا کہ یہ لوگ کتنے مہذب ہیں پروٹیس میں۔۔

سب لوگ اس کہانی کو بھی بھول گئے ہونگے۔ شاید؟
Case against Indian diplomat who was strip-searched in US ...
www.telegraph.co.uk
620 × 387Search by image
13 and then strip-searched while in custody, which the U.S. Marshals say is common practice Photo: REUTERS
 
آخری تدوین:

Fawad -

محفلین
سب لوگ اس کہانی کو بھی بھول گئے ہونگے۔ شاید؟
Case against Indian diplomat who was strip-searched in US ...
www.telegraph.co.uk
620 × 387Search by image
13 and then strip-searched while in custody, which the U.S. Marshals say is common practice Photo: REUTERS


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جہاں تک "سٹرپ سرچ" کے حوالے سے سوال ہے تو يہ واضح رہے کہ اس ضمن ميں کوئ نئے قوانين نہيں لاگو کيے گئے ہيں۔ حقيقت يہ ہے کہ اس ضمن ميں امريکہ کی سپريم کورٹ نے قريب 30 برس قبل قوانين اور اصول کی وضاحت کر دی تھی۔

http://supreme.justia.com/us/441/520/case.html

سيکورٹی کے تقاضوں کے عين مطابق کسی بھی قيدی کی طرح بيوريو آف پرزنز کی يہ ضرورت ہے کہ وہ کورٹ ميں داخلے اور ديگر کچھ مواقعوں پر تلاشی ليں۔ امريکہ ميں قيديوں کی تلاشی سے متعلق فيڈرل قوانين کے عين مطابق ان سے سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس فيڈرل ريگوليشن کا ريفرنس نمبر 28 سی ايف آر 552 ہے۔ ان قواعد کا مقصد جيل کے عملے کے ليے جامہ تلاشی کے حوالے سے ضوابط متعين کرنا ہے۔ اس کے علاوہ مخصوص مواقع پر انسانی صحت سے متعلق عملے کو بھی انھی ضوابط کا پابند کيا جاتا ہے
اور محض غير معمولی صورت حال کے علاوہ خواتين کی تلاشی خواتين سے ہی کروائ جاتی ہے


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

باباجی

محفلین
تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے ۔۔۔۔ مظاہرین اس وقت پرتشدد ہوتے ہیں جب انہیں اکسایا جائے یا مخالف سمت سے تشدد یا زبردستی کا مظاہرہ کیا جائے
 
قابل صد افسوس صورت حال ہے پھر تو:worried:
اوتھے وی نیو امریکا تحریک چلاؤ:idea2:
بس ذرا پاکستان سے فارغ ہوں لیں۔۔پھر وہیں چلتے ہیں۔:feelingbeatup:
بلکل ویسے ہی۔۔۔۔ جیسے برطانیہ گئے تھے اور پوری دنیا سے لندن میٹروپولیٹن پولیس کو ای میلز اور کالز بھی کروائیں تھیں اور پاکستانی سوشل میڈیا پر ہر چوتھی پوسٹ میں فون نمبر اور ایمیل ایڈریس شئیر ہوتا تھا۔۔ یاد ہے نا:):):)
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جہاں تک "سٹرپ سرچ" کے حوالے سے سوال ہے تو يہ واضح رہے کہ اس ضمن ميں کوئ نئے قوانين نہيں لاگو کيے گئے ہيں۔ حقيقت يہ ہے کہ اس ضمن ميں امريکہ کی سپريم کورٹ نے قريب 30 برس قبل قوانين اور اصول کی وضاحت کر دی تھی۔

http://supreme.justia.com/us/441/520/case.html

سيکورٹی کے تقاضوں کے عين مطابق کسی بھی قيدی کی طرح بيوريو آف پرزنز کی يہ ضرورت ہے کہ وہ کورٹ ميں داخلے اور ديگر کچھ مواقعوں پر تلاشی ليں۔ امريکہ ميں قيديوں کی تلاشی سے متعلق فيڈرل قوانين کے عين مطابق ان سے سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس فيڈرل ريگوليشن کا ريفرنس نمبر 28 سی ايف آر 552 ہے۔ ان قواعد کا مقصد جيل کے عملے کے ليے جامہ تلاشی کے حوالے سے ضوابط متعين کرنا ہے۔ اس کے علاوہ مخصوص مواقع پر انسانی صحت سے متعلق عملے کو بھی انھی ضوابط کا پابند کيا جاتا ہے
اور محض غير معمولی صورت حال کے علاوہ خواتين کی تلاشی خواتين سے ہی کروائ جاتی ہے


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu


آئی ایم ناٹ ایمپرس
یہ کوئی انسانیت کا قانون نہیں
عورت کی پرائیوٹ باڈی پارٹ کی تفتیش مرد کرے وہ بھی سفاکانہ اور وخشیانہ طریقہ سے، یہ ظلم تو ویمپائر اور ڈریکولا بھی نہیں کرتا۔:mad:
 
آخری تدوین:

منقب سید

محفلین
بس ذرا پاکستان سے فارغ ہوں لیں۔۔پھر وہیں چلتے ہیں۔:feelingbeatup:
بلکل ویسے ہی۔۔۔۔ جیسے برطانیہ گئے تھے اور پوری دنیا سے لندن میٹروپولیٹن پولیس کو ای میلز اور کالز بھی کراوئیں تھیں اور پاکستانی سوشل میڈیا پر ہر چوتھی پوسٹ میں فون نمبر اور ایمیل ایڈریس شئیر ہوتا تھا۔۔ یاد ہے نا:):):)
لندن میٹروپولیٹن پولیس اوراسکاٹ لینڈ یارڈ بھی پنجاب پولیس ہی ثابت ہوا ۔۔۔۔:laughing:
آپ کی بات سے متفق ہوں۔ پہلے پاکستان کی پنجاب پُلس ٹھیک کر لیں پھر پوری دنیا کی پنجاب پُلس کی باری ہے۔ :applause:
 

منقب سید

محفلین
:noxxx:پھر ۔۔۔۔۔۔آپ نے پاکستان کا نام لے لیا:atwitsend:
اس دفعہ رجوع بھی نہیں ہو سکے گا۔۔۔۔اچھا جی :ohgoon:
:cool2::cool2::cool2:
بس ذرا پاکستان سے فارغ ہوں لیں۔ کا جواب دیا ہے ویسے بھی اعتراض پولیس کو پولیس کہنے پر ہے اگر پنجاب پولیس کہا جائے تو کوئی اعتراض نہیں :p
 
بس ذرا پاکستان سے فارغ ہوں لیں۔ کا جواب دیا ہے ویسے بھی اعتراض پولیس کو پولیس کہنے پر ہے اگر پنجاب پولیس کہا جائے تو کوئی اعتراض نہیں :p
بس۔۔۔آپ نے جہاں پاکستان پولیس لکھنا ہو، وہاں ۔۔۔۔۔۔ پولیس لکھا کریں۔
clear.png
 
Top