آج کے دور میں انٹرنیٹ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں اداروں اور شخصیات کے ذاتی و کاروباری روابط میں بہتری اور تیزی آئی ہےوہیں تعلیمی اور تحقیقی مواد تک بہ سہولت رسائی نے اسکی اہمیت تمام طبقات میں یکسر بڑھا دی ہے۔ آج کل سوشل ویب سائٹسکا استعمال بڑھ گیا ہے اسے عرف عام میں سوشل میڈیا بھی کہا جاتا ہے۔ لوگ یہاں نت نئی شخصیات اور رجحانات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں اسکے علاوہ لوگوں کو اپنی پسند اور دلچسپی سے متعلق ویڈیوزاور تصاویر کو اپلوڈ کرنے سے لے کر ان پر تبصرہ اور شیئر کرنے تک کی آزادی میسر ہے۔ ایسی ویب سائٹس میں فیس بک سب سے معروف ویب سا ئٹ کے طور پر سر فہرست ہے۔ اسکے فوائد اپنی جگہ مگر ایک خطر ناک عادت میں بھی اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔ وہ ہے دوسروں کے مذہب، عقائد اور سیاسی اور سماجی رجحانات پر تنقید۔ جدیددنیا خصوصاً ادب میں تنقیدچیزوں کی بہتری میں مددگار ہے۔مگریہاں تنقید کا طریقہ کار انتہائی نا پسندیدہ ہے۔

آقا مدنی کریم ﷺ کے فرمان عا لیشان کا مفہوم ہے کہ ایک دور ایسا آئے گا جب لوگ اپنے ماں باپ کو گالیاں دیں گےصحابہ کرام نے دریافت فرمایا کہ آقا کوئی اپنے ماں باپ کو بھی گالیاں دے سکتا ہے؟ رحمت اللعالمین ﷺ نے فرمایا جو دوسروں کے ماں باپ کو براکہے گا جواب میں اس کے ماں باپ کو برا بھلا کہا جائے گا۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر کسی کے بڑوں یا پیاروں کو برا کہا جائے تو جواب میں تمہارے بڑوں کو بھی برا کہا جائے گا۔ دوسرے چاہےحقیقتاً برے ہی کیوں نہ ہوں اگر کوئی انہیں برا کہے گا یا گالی دے گا تو جواب میں تمہارے اچھے لوگوں کو وہی کچھ کہا جائے گا۔اس حوالے سے درد دل رکھنےوالے لوگوں کا موقف ہے کہ اس عمل سے پرہیز کیا جائے اور ایسا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔ یہ چیز آزادی اظہار رائے کے ضمرے میں نہیں آتی بلکہ قابل تعزیز جرم ہے۔

ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ جو ہمارے بڑوں کا احترام نہیں کرتا اور ہمارے چھوٹوں پہ شفقت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔ کیا ہم محض اپنی حیوانی خواہشات کی تکمیل کے لیے آقا مدنی کریم ﷺسے تعلق توڑ سکتے ہیں۔ دوسروں کے بڑوں کو برا کہہ کر اپنے بڑوں پر لعن طعن کرنے کا موقع فراہم کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ اہل علم لوگوں اور صاحب نظر بزرگوں کا کہنا ہے کہ علماء کرام کا گستاخ ایمان پر نہیں مرتا۔ احتیاط اس قدر ہے کہ کسی عالم دین کے جوتے کو جان بوجھ کر ٹھوکر مارنا بھی گستاخی ہے۔ مختلف مکاتب فکر کا آپس میں اختلاف اپنی جگہ مگر فیس بک پر ایک دوسرے کی محترم شخصیات پر کیچڑ اچھالنے والے لوگوں سے التماس ہے کہ اس طرح کی سرگرمیوں سے پرہیز کریں۔ نجانے کون سا بندہ گنہگار ہے اور کون اپنے مالک کے کتنا قریب ہے ہم کیا جانیں۔ اس لیے احتیاط لازم ہے۔ جس نے جیسے اعمال کیے ہوگے ویساصلہ پائے گا۔ مگر ہماری احتیاط آخرت میں ہمیں ضرور فائدہ پہنچائے گی اور دنیا میں بھی ہم ان چیزوں سے بچے رہیں گے جو فتنہ و فساد کا باعث بن رہی ہیں۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپکی محترم شخصیات سے متعلق کوئی غلط بات نہ کرے ان کی تصوریں نہ بگاڑیں ان کےالٹے سیدھے نام نہ رکھیں تو اس سلسلے میں آپ کو بھی احتیاط برتنا ہوگی۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو ہمیں جواب دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس طرح کے معاملات پر قانونی نافذ کرنے والے اور پی ٹی سی ایل جیسے متعلقہ اداروں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔پاکستان میں مختلف مذاہب اور مسالک اور قوم قبیلوں کے لوگ رہتے ہیں۔ دہشت گردی کے پیش نظر ملک کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں صبر کا دامن تھام کر اپنی سی ایک کوشش کر نی چاہیے اورجس کے صلہ ہم خدا سے ضرور پائیں گے۔
 

x boy

محفلین
اس میں مسلک والے بہت گڑبڑ کرتے ہیں اصل کسی کو نہیں پتا کہ یہ گیم کون کھیلتا ہے اناڑی لو گ واہ واہ کرتے ہیں اور لعنت بھی بھیجتے ہیں
جبکہ زیادہ تر کو دین الف بے پے بھی نہیں معلوم۔اللہ دی ہوئی زمانے میں بہت سارے فتنوں نے جنم لیا ہے مسلمان اگر مکہ معظمہ اور مدینۃ المنورہ
کی طرز والے(قرآن اور سنت صلی اللہ علیہ وسلم) اسلام کو لینگے تو بات بنی رہے گی۔ ورنہ پھر سے ملا اور مولوی ، پیر، مجاور کو اپنا سب کچھ مان لینگے۔
 
اس میں مسلک والے بہت گڑبڑ کرتے ہیں اصل کسی کو نہیں پتا کہ یہ گیم کون کھیلتا ہے اناڑی لو گ واہ واہ کرتے ہیں اور لعنت بھی بھیجتے ہیں
جبکہ زیادہ تر کو دین الف بے پے بھی نہیں معلوم۔اللہ دی ہوئی زمانے میں بہت سارے فتنوں نے جنم لیا ہے مسلمان اگر مکہ معظمہ اور مدینۃ المنورہ
کی طرز والے(قرآن اور سنت صلی اللہ علیہ وسلم) اسلام کو لینگے تو بات بنی رہے گی۔ ورنہ پھر سے ملا اور مولوی ، پیر، مجاور کو اپنا سب کچھ مان لینگے۔

بالکل صحیح فرمایا آپ نے۔ ہمیں دین کی اہم اور ضروری معلومات ہونی چاہیے۔ عقائد اور عبادات کا مکمل علم ہونا چاہیے۔ ورنہ انسان کو کوئی بھی آسانی سے بھٹکا سکتا ہے۔
 
Top