نقد و نظر 2 "شہر آشوب" محمد خلیل الرحمٰن

ایوب ناطق

محفلین
گزشتہ سے پیوستہ
" صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے"
کلاچی کی ایک مسکراتی شام کا ذکر ہے، روما شبانہ نائٹ کلب کے چمکتے ہوئے فرش پر تھرکتی ہوئی جوانیاں، بانہوں میں بانہیں ڈالے، فانی انسان اور غیر فانی دیوتا آج یوں شیر و شکر ہوچلے تھے کہ فانی اور غیر فانی، انسان اور دیوتا، آقا اور غلام کا فرق گویا مٹ سا گیا تھا۔ بار بار ڈانس کے پارٹنرز بدلے جارہے تھے۔ خوشی اور مسرت کا ایک طوفان آیا ہوا تھا ، سبھی مست تھے، ہنس رہے تھے، رقص میں محو تھے۔ رات بھی بھیگ چلی تھی لیکن رقص و مسرت کے اس طوفان میں وقت گویا تھم گیا تھا۔ نو بیاہتا جوڑے کی خوشی دوچند تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں گم، ڈانس فلور پر جھومے جارہے تھے۔ ہر بار جونہی آرکسٹرا ایک نئی تان چھیڑتا، یہ دونوں بھی ایک انگڑائی لے کر اٹھ کھڑے ہوتے ، ہر لے پر تھرکتے، ہر تان پر جھومتے، ہر سر انھیں اپنے دل کی دھڑکنوں میں شامل محسوس ہوتا۔ آج کی رات ان سے منسوب تھی۔آج صبحِ کاذب تک یا پھر صبحِ صادق کی پہلی جھلک تک وہ یونہی ایک دوسرے کی بانہوں میں تھرکتے ہوئے گزارنا چاہتے تھے۔

یکایک ڈانس فلور پر نور کا ایک جھماکا سا ہوا۔ محوِ رقص جوڑے چونک کر ادھر ادھر سمٹ گئے اور انھوں نے صبحِ صادق کی طرح نمودار ہونے والی اس دیوی کو گھیرے میں لے لیا۔رقص تھم گیا، موسیقی رک گئی۔ قرب و جوار میں سناٹا چھا گیا۔ دیوی نے ایک بار اپنے ہاتھ فضا میں بلند کیے ، روشنی کا ایک اور جھماکا ہوا، ایک کڑک سنائی دی اور دیوی کے ہاتھوں میں ایک سنہری سیب نمودار ہوا۔ دیوی کے مرمریں ہونٹ کھلے اور اس نے اپنی غیر مرئی آواز میں کہا۔

’’ اس محفل کی سب سے حسین خاتون کے لیے‘‘۔

اور سیب کو ہوا میں اچھالتے ہوئے وہ غائب ہوگئی۔

ایک طوفانِ بد تمیزی بپا ہوگیا۔ خواتین ایک دوسرے کو نوچ رہی تھیں، کھسوٹ رہی تھیں۔ ایک دوسرے کے بال کھینچے جارہے تھے، کپڑے پھاڑے جارہے تھے۔ ہر دیوی چاہتی تھی کہ سیب اس کی گرفت میں آجائے۔

صدرِ محفل سے نہ رہا گیا اور اس نے آخر کار اپنی گرج دار آواز میں کہا۔’’ بیبیو! کیوں لڑتی ہو؟ اس تنازع کے حل کے لیے کسی کو حکم کیوں نہیں مقرر کرلیتیں۔ اچھا! میں تمہاری یہ مشکل آسان کیے دیتا ہوں۔ جاؤ! بار میں دولت شاہ بیٹھا پینے میں مشغول ہے، میں اسے ثالث مقرر کیے دیتا ہوں۔ وہ جسے چاہے یہ سیب دے دے۔‘‘

کپڑے درست ہوئے۔ میک اپ سنوارا گیا۔بال پھر سے بنائے گئے اور دیویاں بار کی طرف دوڑی گئیں۔دولت شاہ نے مخمور آنکھوں سے حسن کے ان جلووں کو دیکھا تو اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور یہ شرط عائد کردی کہ جنھیں اپنے حسن پہ ناز ہے، اور اپنی خوبصورتی کا غرور ہے، وہ کیٹ واک پر چلتی ہوئی میرے سامنے سے گزریں، مجھے اپنا حالِ دل سنائیں۔ کچھ اپنی کہیں کچھ میری سنیں۔ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا۔ چارو ناچار وہ مان گئیں۔ پھر کیٹ واک پر اپنی ہرنی جیسی چال اور اپنی کافرانہ اداؤں کا مظاہرہ کیا اور آخر میں گفت و شنید، باری باری دولت شاہ کے حضور میں حاضری۔ جب حسن کی دیوی کی باری آئی، اس نے اپنی کھنکھناتی ہوئی آواز میں دولت شاہ کے کان میں سرگوشی کی۔

’’ میں تمہیں اس سیب کے بدلے میں ملکہ اقتدار اور سرے محل دیتی ہوں۔زر و جواہر ، اطلس و کمخواب کے انبار۔ ہزاروں ، لاکھوں، کروڑوں، اربوں، کھربوں۔۔۔۔۔۔‘‘

دولت شاہ نے اپنا مدعا پالیا ۔ سیب حسن کی دیوی کے حوالے کیا اور ’’ میں نے پالیا۔ میں نے پالیا‘‘ کہتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔

حسن کی دیوی نے ایک ادائے دلبرانہ کے ساتھ ساتھیوں کی جانب دیکھا اور سنہری سیب اچھالنے لگی۔ عقل و دانش کی دیوی ( جو آہنی فوجی لباس میں ملبوس تھی) اور ملکہ دیوی نے قہر آلود نگاہوں سے بھاگتے ہوئے دولت شاہ کو گھورا اور پیر پٹختی ہوئی ایک طرف کو نکل لیں۔ حسن کی دیوی کے چہرے پر ایک فتح مندانہ مسکراہٹ کھیلنے لگی۔

شادی کی رات دولت شاہ نے اپنی بیوی کے چہرے سے نقاب اٹھایا تو اسکی شکل دیکھتے ہی وہ چیخ پڑا۔’’ کیا یہی ہے وہ تمہاری ملکہ اقتدار ؟‘‘ وہ پورا زور لگا کر چیخا۔ اتنے میں کہیں سےحسن کی دیوی دوڑتی ہوئی اسکے پاس آئی اور لگی سرگوشیاں کرنے۔ اسکے سمجھانے پر دولت شاہ مطمئن ہوگیا اور محبت بھری نگاہوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھنے لگا جس کی بدولت وہ ان تمام انواع و اقسام کی نعمتوں کو حاصل کرسکتا تھا جن کا وعدہ حسن کی دیوی نے کیا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ دولت شاہ نے اپنی بیوی کو ساتھ لیا اور خیر سگالی کے دورے پر قلعہ اکبر گیا اور پھر وہاں سے راجدھانی پہنچا۔ ادھر ملکہ کوہسار پر حسن کی دیوی کو جونہی دولت شاہ کی آمد کی خبر ملی، وہ آندھی اور طوفان کی طرح وہاں سے روانہ ہوکر راجدھانی پہنچی ، دولت شاہ سے ملی اور اسے اپنے منصوبے سے آگاہ کیا۔

دولت شاہ نے انتہائی صبر و تحمل سے حسن کی دیوی کی باتیں سنیں ۔حسن کی دیوی نے اسے وہ تمام گر سکھادئیے جن کی بدولت وہ ملکہ اقتدار پر ڈورے ڈال سکتا تھا۔ ہر چند کہ ملکہ کوہسار پر تمام بڑے دیوی دیوتا بشمول صدرِ محفل حسن کی دیوی کے ماسٹر پلان سے خوش نہ تھے لیکن اس کی تریاہٹ کے سامنے ان کی ایک نہ چلی اور انھوں نے اسے اپنی سی کرنے کی اجازت دیدی ۔

حسن کی دیوی کے ملکہ کوہسار سے روانہ ہوتے ہی انھوں نے ایک اور ماسٹر پلان ترتیب دیا جس میں آہنی وردی میں ملبوس عقل و دانش کی دیوی اور ملکہ دیوی پیش پیش تھیں۔ اس تبدیل شدہ ماسٹر پلان سے بے خبر ، حسن کی دیوی اپنی ہی دھن میں مگن تھی۔ اس کے منصوبے کے عین مطابق ملکہ اقتدار کو اغوا کیا گیا اور دولت شاہ اسے اپنے جلو میں لیے ہوئےکشاں کشاں کلاچی پہنچا ۔ ان پوشیدہ منصوبوں اور دولت شاہ، اس کی بیگم اور حسن کی دیوی کی ملی بھگت کے نتیجے میں تیار شدہ چالوں سے بے خبر اہلِ کلاچی اپنے درمیان ملکہ اقتدار کو پاکر بے حد خوش ہوئے ۔شہر میں ایک جشن کا سا سماں تھا، جگہ جگہ شادیانے بجائے جارہے تھے، رقص وسرود کی محفلیں گرم تھیں۔ یوں لگتا تھا گویا دولت شاہ نے نہیں بلکہ اہلِ شہر نے گوہرِ مقصود پالیا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ اگر انھیں ملکہ کوہسار پر ہونے والی محفل کی بھنک بھی پڑ جاتی تو وہ اپنے اس طرزِ عمل سے باز رہتے اور دولت شاہ کو بمع اسکی بیوی اور محبوبہ اس شہرِ بے مثال سے بے دخل کردیتےاور چین کی بنسی بجاتے۔ ہونی ہوکر رہتی ہے۔ عروس البلاد نے دولت شاہ اور ملکہ اقتدار کو پناہ دی جیسے کبھی دولت شاہ کے آبا و اجداد نے اہلِ شہر کو پناہ دی تھی اور اس طرح اپنی تباہی کے پروانے پر خود ہی دستخط کردیئے۔ دولت شاہ کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور سر کڑھائی میں۔ حسن کی دیوی نے اسکے ساتھ کیے ہوئے تمام وعدے پورے کردئیے تھے۔ یہاں تک کہ سرے محل بھی اسکے نام لکھ دیا تھا۔ اور پھر زر و جواہر، اطلس و کمخواب کے انبار۔ہزاروں ، لاکھوں، کروڑوں، اربوں، کھربوں۔۔۔۔۔۔۔۔

ملکہ کوہسار پر منظور ہونے والے ماسٹر پلان ، یا تبدیل شدہ ماسٹر پلان میں جہاں دولت شاہ اور اس کی بیگم کی شاہ خرچیوں ، ان کی دراز دستیوں اور حشر سامانیوں کے تدارک کے لیے تدبیروں پر غور و فکر کیا گیا ، وہیں عقل و دونش کی آہن پوش دیوی کی لائی ہوئی دور کی کوڑی یعنی مستقبل کے ایک مستقل خطرے یعنی اہلِ کلاچی کے موجودہ طرزِ عمل کو دیکھتے ہوئے ان کے مستقبل کے لائحہ عمل کا تصور بھی کیا گیا ۔ بہتوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مستقبل کے اس خطرے کا اگر ابھی سے علاج نہ کیا گیا تو آج جہاں ملکہ اقتدار کو اغوا کیا گیا ہے کل اہلِ ملکہ کوہسار کی باری بھی آسکتی ہے۔

حالات و واقعات کو کچھ اس دردناک انداز سے پیش کیا گیا کہصدرِ محفل اورسبھی اہلِ محفل کی رائے یہی تھی کہ اب حالات کا تقاضا ہے کہ جہاں ملکہ اقتدار کو اہلِ کلاچی کے چنگل سے نجات دلانا ضروری ہے، وہیں اہلِ شہر کو بھی سبق دینا لازمی ہے۔

صدر محفل نے آہن پوش عقل و دانش کی دیوی کو افسر بکارِ خاص مقرر کرتے ہوئے اس بات کا اختیار دے دیا کہ وہ اس مسئلے سے جس طرح ضروری سمجھے نمٹے، اور مثبت نتائج حاصل کرنے کی غرض سے ہر ممکن قدم اٹھائے۔ دیوی پہلے ہی ادھار کھائے بیٹھی تھی، اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ایک نئے منصوبے کے تانے بانے بننے شروع کردئیے۔

اب سنیے کہ قلعہ اکبر میں اندرون لوہاری گیٹ ایک لوہارو رہتاتھا۔ اس نے جب سے ملکہ اقتدار کے حسن کے چرچے سنے تھے ، اس پر سو جان سے دل ہار بیٹھا تھا۔ سوئمبر کا اعلان ہوتے ہی وہ بھی اپنا بوریا بستر سمیٹ، اپنے گھرسے چلا اور منزلیں مارتا ہوا راجدھانی جا پہنچا۔ یہاں پر میلے کا سا سماں تھا۔ ملکہ اقتدار کے سوئمبر میں شرکت کے لیے اطراف و جوانب سےبادشاہ زادے، وزیر زادے اور ہر قسم کے قسمت آزما پہنچے ہوئے تھے۔ لوہارو نے جب یہ منظر دیکھا تو بہت مایوس ہوا لیکن ہمت نہ ہاری اور اپنا منہ دیوتاؤں کے مسکن یعنی ملکہ کوہسار کی طرف کیے ہوئے، ان کی ایک نظرِ کرم کے انتظار میں چلہ کش ہوگیا۔ اسی اثنا میں دولت شاہ آیا اور حسن کی دیوی کی مدد سے ملکہ اقتدار کو اغوا کرکے لے بھی گیا ، لیکن لوہارو جس پوزیشن میں بیٹھا تھا اسی میں بیٹھا رہ گیا۔ آخر کار جب چالیس دن گزرے ، اس کی جان میں جان آئی کہ آخر چلہ تو پورا ہوا۔ وہ ابھی کسی نظارہٗ غیبی کے انتظار میں بیٹھا ہی تھا کہ اچانک عقل و دانش کی دیوی اپنے آہنی لباس میں اس کے سامنے جلوہ افروز ہوئی۔

’’ تم کون ہو؟‘‘ لوہارو اسے دیکھ کر گھبرا سا گیا۔

’’گھبراؤ نہیں پیارے لوہارو! میں عقل و دانش کی دیوی ہوں اور تمہاری مدد کے لیے آئی ہوں‘‘۔

’’ تم کیسی دیوی ہو جو اب مدد کے لیے آئی ہو جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ کیا تمہیں علم نہیں کہ دولت شاہ ملکہ اقتدار کو اغوا کرکے لے گیا ہے؟‘‘

’’ بھولے لوہارو! مجھےہر بات کا علم ہے اور میں تمہاری مدد کے لیے آئی ہوں۔‘‘

’’پھر؟‘‘

’’پھر کیا! اب تم یوں کرو کہ یہاں سے رفو چکر ہوجاؤ ۔ اب یہاں تمہارے لیے کچھ نہیں رہ گیا ہے۔ قلعہ اکبر پہنچو اور اطراف کے تمام بادشاہوں اور سپہ سلاروں کو جمع کرو۔ ہم کلاچی پر حملہ کیا چاہتے ہیں تاکہ ملکہ اقتدار کو ان کے چنگل سے نجات دلاسکیں۔‘‘

بھولے لوہارو نے دیوی کی نصیحت پلے باندھ لی اور کشاں کشاں قلعہ اکبر پہنچا اور لوہاری گیٹ کے باہر پڑاؤ ڈال دیئے۔ شہزادے اور سپہ سالار آتے رہے اور کاراواں بنتا گیا یہاں تک کہ اک جم غفیر جمع ہوگیا۔ ان میں زیادہ تر وہی شہزادے اور قسمت آزما تھے جو ملکہ اقتدار کے سوئمبر سے ناشاد و نامراد لوٹے تھے۔ اب اس مشترکہ مقصد نے انھیں ایک جھنڈے تلے مجتمع کردیا تھا۔ اور وہ لوہارو کی سربراہی میں بخوشی اس لشکر میں شامل ہونے کے لیے تیار ہوگئے تھے جو ملکہ اقتدار کو چھڑانے کے لیے جارہا تھا۔

لشکر روانہ ہوا اور منزلیں مارتا آخر کار کلاچی کے ساحل پر جا اترا۔ اہلِ شہر نے غنیم کے لشکرِ عظیم کو دیکھا تو قلعہ بند ہوکر بیٹھ رہے۔ ادھر لشکر والوں نے شہر کا محاصرہ کرلیا اور اطمینان سے گھات لگا کر بیٹھ گئے۔ داستان گو کہتے ہیں کہ ہر چند کہ اہلِ ملکہ کوہسار کی اکثریت لشکر والوں کے ساتھ تھی پھر بھی سال ہا سال یہ محاصرہ رہا، نہ جیت کے کوئی آثار دکھائی دیتے تھے ، نہ ہی جنگ ختم ہونے کے امکان نظر آتے تھے۔ آخر کار تھک ہار کر لشکر والوں وہی چال چلی جو حسن کی دیوی نے چلی تھی۔ انھوں نے شہر کے چند سرکردہ لوگوں کو لایا اور انھیں زر و جواہر ، اطلس و کمخواب کے انبار دکھائے۔ ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں، اربوں، کھربوں، ۔۔۔ اور لکڑی کا ایک گھوڑا دکھایا۔

شہر والے مان گئےکہ ہم اس لکڑی کے گھوڑے کو کھینچ کر اندر لے جائیں گے۔ رات ہوتے ہی گھوڑے کے پیٹ میں چھپے لشکر والے باہر نکلے اور فصیل کے تمام دروازے کھول دئیے۔ پھر قتلِ عام کا آغازہوا، تمام اہلِ شہر بلا تفریقِ رنگ و نسل تہِ تیغ کردئیے گئے، ملکہ اقتدار کو برآمد کیا گیا اور تمام شہر کو آگ لگا دی گئی۔ کلاچی، عروس البلاد ، جو عالم میں انتخاب تھا، جل کر راکھ ہوگیا۔ شہر جل گیا لیکن اب بھی کبھی کبھی کوئی سوختہ چنگاری بھڑکتی ہے تو دلوں میں وہ آگ پھر بھڑک اٹھتی ہے۔ ماتمِ یک شہرِ آرزو جاری ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

ایوب ناطق

محفلین
جناب یعقوب آسی صاحب کی مشاعرے کی مصروفیات کے اختتام کا انتظار تھا' کہانی پر بات کرنے سے پہلے' پنکار کے طرزِ تحریر کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں' کہانی کے پہلے پیراگراف کا بغور جائزہ لینے سے شاید یہ ممکن ہو۔۔۔
"کلاچی کی ایک مسکراتی شام کا ذکر ہے، روما شبانہ نائٹ کلب (شبانہ کے ساتھ نائٹ؟) کے چمکتے ہوئے فرش پر تھرکتی ہوئی جوانیاں، بانہوں میں بانہیں ڈالے، فانی انسان اور غیر فانی دیوتا آج یوں شیر و شکر ہوچلے تھے کہ فانی اور غیر فانی، انسان اور دیوتا، آقا اور غلام(تینوں ایک بات کا تکرار تو نہیں؟' اور آقا اور غلام کا ذکر رسمی محسوس ہوا) کا فرق گویا مٹ سا گیا تھا۔ بار بار ڈانس کے پارٹنرز بدلے جارہے تھے۔ خوشی اور مسرت کا ایک طوفان آیا ہوا تھا ، سبھی مست تھے، ہنس رہے تھے، رقص میں محو تھے۔ رات بھی بھیگ چلی تھی لیکن رقص و مسرت کے اس طوفان میں وقت گویا تھم گیا تھا۔ نو بیاہتا جوڑے کی خوشی دوچند تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں گم، ڈانس فلور پر جھومے جارہے تھے۔ ہر بار جونہی آرکسٹرا ایک نئی تان چھیڑتا، یہ دونوں بھی ایک انگڑائی لے کر اٹھ کھڑے ہوتے ( 'جھومے جا رہے گے' تو اٹھ کھڑے ہوئے؟)، ہر لے پر تھرکتے، ہر تان پر جھومتے، ہر سر انھیں اپنے دل کی دھڑکنوں میں شامل محسوس ہوتا۔ آج کی رات ان سے منسوب تھی۔آج صبحِ کاذب تک یا پھر صبحِ صادق کی پہلی جھلک تک (جھلک تو دونوں کا خاصہ ہے) وہ یونہی ایک دوسرے کی بانہوں میں تھرکتے ہوئے گزارنا چاہتے تھے۔"
الفاظ کا یہ بہاؤ اور انگریزی الفاظ جن کا بہتر متبادل ماسوائے' آرکسترا کے' موجود ہو' کس حد تک بہتر ہے اس پر احباب کیا کہتے ہیں' جناب سید شہزاد احمد صاحب اور جناب محمد یعقوب آسی محترم
 
آخری تدوین:
"کلاچی کی ایک مسکراتی شام کا ذکر ہے، روما شبانہ نائٹ کلب (شبانہ کے ساتھ نائٹ؟) کے چمکتے ہوئے فرش پر تھرکتی ہوئی جوانیاں، بانہوں میں بانہیں ڈالے، فانی انسان اور غیر فانی دیوتا آج یوں شیر و شکر ہوچلے تھے کہ فانی اور غیر فانی، انسان اور دیوتا، آقا اور غلام(تینوں ایک بات کا تکرار تو نہیں؟' اور آقا اور غلام کا ذکر رسمی محسوس ہوا) کا فرق گویا مٹ سا گیا تھا۔ بار بار ڈانس کے پارٹنرز بدلے جارہے تھے۔ خوشی اور مسرت کا ایک طوفان آیا ہوا تھا ، سبھی مست تھے، ہنس رہے تھے، رقص میں محو تھے۔ رات بھی بھیگ چلی تھی لیکن رقص و مسرت کے اس طوفان میں وقت گویا تھم گیا تھا۔ نو بیاہتا جوڑے کی خوشی دوچند تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں گم، ڈانس فلور پر جھومے جارہے تھے۔ ہر بار جونہی آرکسٹرا ایک نئی تان چھیڑتا، یہ دونوں بھی ایک انگڑائی لے کر اٹھ کھڑے ہوتے ( 'جھومے جا رہے گے' تو اٹھ کھڑے ہوئے؟)، ہر لے پر تھرکتے، ہر تان پر جھومتے، ہر سر انھیں اپنے دل کی دھڑکنوں میں شامل محسوس ہوتا۔ آج کی رات ان سے منسوب تھی۔آج صبحِ کاذب تک یا پھر صبحِ صادق کی پہلی جھلک تک (جھلک تو دونوں کا خاصہ ہے) وہ یونہی ایک دوسرے کی بانہوں میں تھرکتے ہوئے گزارنا چاہتے تھے۔"
الفاظ کا یہ بہاؤ اور انگریزی الفاظ جن کا بہتر متبادل ماسوائے' آرکسترا کے' موجود ہو' کس حد تک بہتر ہے اس پر احباب کیا کہتے ہیں'
جناب سید شہزاد احمد صاحب اور جناب محمد یعقوب آسی محترم

مسائل تو بہرحال اس میں، ہیں!

مشاعرہ اللہ کے فضل و کرم سے بے مثال رہا۔ 68 شعراء نے اپنا کلام سنایا، 200 نشستوں کے ہال میں بھی کچھ شائقین پچھلی دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے تھے۔ 7 گھنٹے سے زائد وقت (بغیر وقفے کے) رونق جوں کی توں رہی اور لطف کی بات کہ کوئی کھپ نہیں مچی اور کوئی سردمہری بھی نہیں آئی۔ جوش میں ہوش کا خوبصورت منظر آخرِ تقریب (نصف شب) تک بنا رہا۔ صدارت کی کرسی پر ڈاکٹر احسان اکبر متمکن تھے۔ (ہفتہ 22 نومبر 2014ء)
 
آخری تدوین:
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نثر کا آدمی نہیں ہوں، تاہم کچھ نہ کچھ تو عرض کرنا ہے سو کوشش کرتا ہوں کہ مقدور بھر تلخ و شیریں جو کچھ بھی ہے کسی سلیقے سے بیان کر سکوں۔
 
آخری تدوین:
میں نے اس "کہانی" کا مطالعہ کیا اور اُس تحریر کا بھی جس کے تسلسل میں فاضل مصنف نے کہانی لکھی ہے۔ زبان و بیان پر بات کرنے سے پہلے عرض یہ کرنا ہے کہ میرے حساب سے یہ کہانی نہیں بن پائی، بلکہ اس میں "کالم" کا سا تاثر بنتا ہے۔

صنف کی شرط یا تعیین سے ہٹ کر بات کریں تو اس میں ایک بدیسی قدیم داستان کو وطنِ عزیز کے حالات پر منطبق کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہیلن آف ٹروئے کا قصہ اُن لوگوں کی تاریخ، روایات اور دیومالائی داستانوں میں تو اہمیت رکھتا ہی ہے، ادبِ عالیہ کا حصہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس تحریر میں اور ہمارے پیش منظر میں تعلق جوڑنے کے مرحلے میں فاضل مصنف کو تسلی بخش کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ خاص طور پر پیش منظر کے کرداروں کے ناموں تصنع کا احساس ہوتا ہے اور وہ علامتی سطح پر بھی بہت مضبوط نہیں ہیں۔

ہمیں اس کا تفصیلی مطالعہ کرنا ہو گا۔
 
پہلے پیراگراف میں ایک کلب کا منظر خاصی جزئیات کے ساتھ موجود ہے تاہم ایک دم "فانی انسان اور غیرفانی انسان" کا شیر و شکر ہونا قاری کو الجھا دیتا ہے کہ آب و خاک کے بنے پتلوں میں غیرفانی کا تذکرہ کیوں کر آ گیا۔ بہتر ہوتا کہ قاری کے ذہن کو اس کے لئے تیار کیا جاتا چاہے چند لفظ ہوتے یا ایک آدھ جملہ۔ کہانی میں واقعاتی تسلسل اور علامات اور تلمیحات ساتھ ساتھ چلیں تو اچھا لگتا ہے۔
 
دوسرا پیراگراف، اس میں میرے کچھ تحفظات ہیں۔
یکا یک نور کا جھماکا ہوا؛ صبحِ صادق ایک دم طلوع نہیں ہوتی، یہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے۔ روشنی کی ایک چادر سی مشرق کی طرف سے دھیرے دھیرے اٹھتی محسوس ہوتی ہے اور افق سے آسمان تک پھیلنے میں خاصا وقت لیتی ہے یہاں تک کہ سفید اور سیاہ کا فرق محسوس ہونے لگتا ہے۔
غیرمرئی آواز؟ آواز تو ہوتی ہی غیر مرئی ہے، ہاں! جن ہونٹوں سے آواز نکلتی ہے وہ مرئی ہوتے ہیں، جسے فاضل مصنف نے بھی "مرمریں" کہا ہے۔
ایک کڑک سنائی دی؟ اس کا محل وہ ہے جہاں اس کے ظاہر ہونے کا لمحہ ہے، یہاں تو اسے گھیرے میں لیا جا چکا ہے۔ جملوں میں کچھ تقدیم و تاخیر ہو گئی ہے۔
ادھر ادھر سمٹ گئے اس کا فوری تاثر بنتا ہے کہ وہ کونوں میں یا دیواروں کی طرف سمٹ گئے۔ اور اس کو گھیرے میں لے لیا؟ کچھ تضاد کی سی کیفیت لگتی ہے۔ یا تو کہا جاتا کہ ادھر ادھر سے سمٹ آئے تو شاید بہتر اظہار ہوتا۔
’’ اس محفل کی سب سے حسین خاتون کے لیے‘‘۔ اس جملے پر اوروں کے ساتھ بھی وہی مسئلہ پیش آیا ہو گا جو میرے ساتھ آیا ہے، اگر دیگر دوست بھی مطالعے میں میری طرح تہی دست رہے ہوں۔ میرا یہ مسئلہ بہت غیرحقیقی بھی نہیں رہا کہ بعد میں فاضل مصنف نے یا ان کے ایماء پر ایک دوسرے دوست نے ضرورت محسوس کی کہ جب تک قاری اصل دیومالا کے کرداروں سے واقف نہیں ہوتا، الجھا رہے گا۔ کہانی میں ایسی صورت کو خامی نہ کہیں تو بھی خوبی نہیں کہا جا سکتا۔ جب ہم ایک لفظ کہتے ہیں "کہانی" تو اس کو کسی دوسری تحریر کا محتاج نہیں ہونا چاہئے۔ ناول کا کوئی سبق ہو، اس کو سیاق و سباق کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک افسانہ یا خاکہ لکھا جائے تو اس میں بہت کچھ قاری پر چھوڑ دیا جاتا ہے بلکہ یہی سوالات اگر ہنرمندی سے چھوڑے جائیں تو افسانے یا خاکے کا حسن بن جاتے ہیں۔ کہانی کار کا یہ منصب نہیں؛ اسے تو قاری کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔
"ایک طوفانِ بد تمیزی بپا ہوگیا۔" معافی چاہتا ہوں، یہ جملہ بہت غیر ادبی ہے۔ ہم اپنی تحریر کو سنوارنے نکھارنے بلکہ چمکانے میں کبھی محاورات سے چھیڑ چھاڑ بھی کر لیتے مگر یہ بہت چابک دستی سے کرنا پڑتا ہے۔ اس سے آگے، نوچ، کھسوٹ، بال نوچ رہی تھیں، کپڑے پھاڑے جا رہے تھے؛ جس طبقے کا تعارف پہلے پیراگراف میں ہوا ہے کیا یہ سارا کچھ ان میں بھی ہوتا ہے؟ مجھے کوئی اندازہ نہیں۔
 
یہاں حسن کی اس دیوی کا مختصر سا تعارف چاہئے تھا، جو دولت شاہ سے سرگوشیاں کرتی ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، سرگوشی میں کھنکھناہٹ نہیں ہوتی؛ وہ معمول کے لہجے میں ہو تو ہو۔ ملکہء اقتدار اگر کہانی میں آگے جا کر کسی کردار کا نام نہیں بنتا تو پھر اس میں لفظ ملکہ زائد ہے۔ جہاں صاحبِ قلم نے سارے کرداروں کو معنویت کے لحاظ سے نام دئے ہیں ایک بھلا سا نام سرے محل کو بھی دے دیا ہوتا۔ تحریر میں توازن اور معنوی ماحول کی ایکتا بہت ضروری ہے۔
 
ادائے دلبرانہ کا موقع شاید یہ نہیں تھا، دلبری اور چیز ہے تکبر اور احساسِ برتری اور چیز ہے؛ ان کو ادائے دلبرانہ سے ملا کر مفہوم بہتر کیا جا سکتا ہے۔
جب دولت شاہ بھاگ کھڑا ہوا تو وہ جو دو دیویاں یہاں متعارف ہو رہی ہیں انہوں ہال کے اندر اُسے گھور کر دیکھا؟ بھاگ کھڑا ہوا کا ظاہری مفہوم اور "پا لیا، پا لیا" کی تلمیح تقاضا کرتے ہیں کہ شاہ صاحب باہر کو بھاگ جائیں۔ یہاں اصل مسئلہ تلمیح کے استعمال کا ہے جس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ اور کہانی میں بھی مذکورہ جملہ کوئی مزید اثر نہیں رکھتا۔ ہمیں اختصار اور جامعیت کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا ہے اور واقعاتی سطح پر بھی فطرت کے قریب رہنا ہے۔
یا تو فوجی لباس کہئے یا آہنی لباس، زرہ وغیرہ کہئے۔ فتح مندانہ مسکراہٹ والا جملہ بھی تاخیر سے آیا اسے پہلے واقع ہونا چاہئے تھا، یا پھر سرے سے ہوتا ہی نہیں۔
 

ایوب ناطق

محفلین
وہ کیٹ واک پر چلتی ہوئی میرے سامنے سے گزریں، مجھے اپنا حالِ دل سنائیں۔ کچھ اپنی کہیں کچھ میری سنیں۔ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا۔ چارو ناچار وہ مان گئیں۔
چار و ناچار کا محل نہیں' کیٹ واک کرتے ہوئے حالِ دل کیسے سنایا جائے؟
’’ میں نے پالیا۔ میں نے پالیا‘‘ کہتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔ بھاگنے کا جواز؟
 

ایوب ناطق

محفلین
کہیں ایسا تو نہیں کہ مصنف بیک وقت دو کہانیاں لکھ رہا ہے' شاید اسی لئے ایک کہانی کی ضرورتیں دوسری کی زوائد کا سبب بن رہی ہیں' لفظوں کی گونج گرج کچھ زیادہ محسوس ہو رہی ہے ۔۔۔ کہانی میں الجھائو زیادہ محسوس ہورہا ہے ۔۔
 
’’ کیا یہی ہے وہ تمہاری ملکہ اقتدار ؟‘‘ یہاں آ کے میرا خدشہ درست ثابت ہوتا ہے کہ ملکہء اقتدار ایک شخصیت ہے قدر نہیں۔ اس سے آگے کے کچھ سطروں میں کچھ اور ملکائیں بھی آ جاتی ہیں اور قاری کرداروں کی بھیڑ میں کھو جاتا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ تحریر کسی ناول کا حصہ ہے جس کے سابقہ ابواب میں ان سارے کرداروں کا تعارف ہو چکا ہو گا۔ یہ وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ مذکورہ دیو مالائی کہانی کے کردار نہیں بلکہ اس پیش منظر کے کردار ہیں جن کو دیومالا سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔
"اتنے میں کہیں سےحسن کی دیوی دوڑتی ہوئی اسکے پاس آئی اور لگی سرگوشیاں کرنے۔" اس جملے کی نشست اور اسلوب بھی محلِ نظر ہیں۔ ایک شخص حجلہء عروسی میں اپنی بیوی کے پاس ہے، ایک اور "کہیں سے" دوڑتا ہوا آتا ہے اور "لگی سرگوشیاں کرنے"؟؟ ۔ شاید میں ہی کچھ زیادہ فطرت پسند واقع ہوا ہوں؟ میں یہاں چونکا ضرور ہوں مگر یہ چونکنا اشتیاق کی وجہ سے نہیں تھا۔ کہانی کا منشاء چونکانا ہوتا بھی نہیں، ہان نتیجے کا غیر معمولی یا غیر متوقع ہونا ایک دوسری بات ہے۔
 
Top