منصور آفاق کی تازہ غزل ۔آسماں تجھ کو بنا کر کافری کرتا رہا

منصور آفاق

محفلین
تبصرہ اس کے بدن پر بس یہی کرتا رہا
آسماں تجھ کو بنا کر کافری کرتا رہا

میں ابوجہلوں کی بستی میں اکیلا آدمی
چاہتے تھے جو ، وہی پیغمبری کرتا رہا

نیند آجائے کسی صورت مجھے، اس واسطے
میں ، خیالِ یار سے پہلو تہی کرتا رہا

کھول کر رنگوں بھرے سندر پرندوں کے قفس
میں بہشت ِ دید کے ملزم بری کرتا رہا

جانتاتھا باغِ حیرت کے وہی ساتوںسوال
اک سفر تھا میں جسے بس ملتوی کرتا رہا

تھی ذرا سی روشنی سو احتیاطً بار بار
پوٹلی میں بند پھر میں پوٹلی کرتا رہا

سارا دن اپنے کبوتر ہی اڑا کر دل جلا
آسماں کا رنگ کچھ کچھ کانسی کرتا رہا

دیدہ ءگرداب سے پہچان کر بحری جہاز
اک سمندرگفتگو کچھ ان کہی کرتا رہا

دشت میں موجودگی کے آخری ذرے تلک
ریت کا ٹیلا ہوا سے دوستی کرتا رہا

رات کی آغوش میں گرتے رہے بجھتے رہے
میں کئی روشن دنوں کی پیروی کرتا رہا

اپنی ہٹ دھرمی پہ خوش ہوں اپنی ضد پر مطمئن
جو مجھے کرنا نہیں تھا میں وہی کرتا رہا
 

نایاب

لائبریرین
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ابوجہلوں کی بستی میں اکیلا آدمی
چاہتے تھے جو ، وہی پیغمبری کرتا رہا

نیند آجائے کسی صورت مجھے، اس واسطے
میں ، خیالِ یار سے پہلو تہی کرتا رہا


بہت خوب کہی ہے غزل محترم منصور بھائی
بہت شکریہ بہت دعائیں
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب۔ ‘سمت‘ کے لئے آپ نے کچھ نہیں دیا تو اجازت ہی دیں کہ یہاں وہاں سے لے کر کچھ شامل کر دوں۔
 
Top