اس قدر زندگی سے دور ہوئے

محمد حسین

محفلین
اس قدر زندگی سے دور ہوئے
مانندِ صاحبِ قبور ہوئے
جتنے بھی عاشقانِ حور ہوئے
سب کے سب ہی ستم سے چور ہوئے
محورِ ہر خطا ہے اپنی ذات
پھر بھی کہتے ہیں بے قصور ہوئے
ہاں اجالے ہمیں سے ممکن ہیں
گو چراغِ سحر کا نور ہوئے
منحصر دوسروں پہ رہتے ہیں
کتنے نادان و لاشعور ہوئے
غلطیاں اتنی اپنی پکڑی گئیں
وجہِ رسوائیِ قصور ہوئے
اتنے حقدار بھی نہیں تھے حسین
جس قدر ہم پہ ظلم و جور ہوئے
الف عین
 
آخری تدوین:

جنید عطاری

محفلین
جیتے جی صاحبِ قبور ہوئے
مانندِ مفعول ہے، فاعلن باندھ لیا ہے۔

جتنے بھی عاشقانِ حور ہوئے
آئنے تھے سُو چُور چور ہوئے

محورِ ہر خطا ہے اپنی ذات (محورِ ہر خطا؟ عجیب سا ہے)
آدمی تو خطا کا پتلا ہے۔
ہے گنہ گار سی روش اپنی
پھر بھی کہتے ہیں بے قصور ہوئے

منحصر دوسروں پہ رہتے ہیں
غیروں پر انحصار کرتے ہیں

کتنے نادان و لاشعور ہوئے
نادان اور لاشعور لاعلم کو کہتے ہیں۔ بے وقوف کو بھی۔

غلطیاں اتنی اپنی پکڑی گئیں :)) مصرع چُست نہیں ہے، بچگانہ ہے)
وجہِ رسوائیِ قصور ہوئے (رسوائِ قصور؟ یا رسوائی و قصور؟ مگر یہ مصرع معنوی اعتبار سے غلط ہے اور ناقص بھی ہے)

جس قدر ہم پہ ظلم و جور ہوئے،
ظلم و ستم، جفا جور کے مرکبات مستعمل ہیں ، اور دنوں کا ایک ہی معنی ہے۔ ایک بات کو دو بار ایک ہی مصرعے میں دوہرانا اچھی بات نہیں۔

بہت محنت کی ضرورت ہے، مشق جاری رکھیں۔

والسلام
 

محمد حسین

محفلین
کچھ مصرعے ایسے ہیں جن کو اگر بدلا نہ بھی جائے تو بھی واضح ہیں۔جیسے
سب کے سب ہی ستم سے چور ہوئے
محورِ ہر خطا ہے اپنی ذات
غلطیاں اپنی اتنی پکڑی گئیں
نیز علامہ اقبال نے بھی " سیماب و مضطرب" کا مرکب استعمال کیا ہے جو دونوں ہم معنی الفاظ ہیں
ہاں کچھ مصرعوں میں آپ کی رائے پسند آئی۔
جیسے دوسرا مصرع
علاوہ ازیں نظرِ کرم فرمانے کا شکریہ
جنید عطاری
 

جنید عطاری

محفلین
یہ دور اقبال کا نہیں ہے، اقبال نے جو کیا ہے وہ سند نہیں ہے کہ وہی کرنا واجب ہے۔ ہر کلام میں بہتری کی گنجائش ہوتی ہے، اقبال کے بجائے آپ اُردو کی گرامر کو پڑھیں تو زیادہ بہتر ہے۔ اثر پذیری سے اجتناب کریں۔ یہاں میں اقبال سے نہیں محمد حسین سے بات کر رہا ہوں اور کلام بھی محمد حسین نے تالیف کیا ہے۔ اس لیے میں وہی بات کہوں گا جو کلام سے مطابقت رکھتی ہو۔ آپ کی ذات جداگانہ ہے سو اسے منفرد بنانے کی کوشش کریں، وگرنہ مرا کئی لوگوں سے پالا پڑا جو بات بات پر کہتے ہیں فُلاں نے یُوں لکھا ہے تو میں نے لکھ دیا، کیا برا کیا۔ عقلمند کو اشارہ کافی ہے۔

ایسا ہوتا ہے کہ ہم کوئی مصرعہ لکھتے ہیں جو ہمارے گمان میں مکمل اور واضح ہوتا ہے مگر قاری کی سمجھ میں نہیں آتا۔ اس کی چند وجوہات ہوتی ہیں جن میں ایک املا کی غلطی، بیان کرنے پر قدرت نہ ہونا، یا زبان کا فرق ہونا، (مادری زبان کوئی اور، جس میں کلام لکھا گیا ہو وہ کوئی اور)۔ یہی وہ موڑ ہے جہاں اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب بندہ ابہام بغیر شعر کہنے لگتا ہے جس سے قاری کو عام مطالب سمجھنے میں دشواری نہیں ہوتی تو اُستاد بھی لکھنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
’مانندِ کے بارے میں جنید کی بات درست ہے۔ اس کے علاوہ جنید کی کچھ باتوں سے اتفاق بھی ہے، کچھ میں نہیں بھی۔ میرا وطیرہ ہے کہ کم سے کم اصلاح کی جائے۔ خواہ مخواہ استادی نہ جھاڑی جائے۔ زبان کی غلطی ہونے سے تو میں ڑوکتا ہی ہوں۔ لیکن یہاں مجھے ایسی غلطی نظر نہیں آئی۔ سوائے ان اشعار کے
منحصر دوسروں پہ رہتے ہیں
کتنے نادان و لاشعور ہوئے
÷÷کا شعور کا یہاں کیا محل۔ شاید لا شعوری طور پر ’بے شعور ‘کو یہاں لا شعور لکھ دیا ہے۔

غلطیاں اتنی اپنی پکڑی گئیں
وجہِ رسوائیِ قصور ہوئے
رسوائی قصور واقعی عجیب سا ہے

اتنے حقدار بھی نہیں تھے حسین
جس قدر ہم پہ ظلم و جور ہوئے
قافیہ؟ جور بر وزن چور ہوتا ہے، (الٹا چول کوتوال۔۔۔والا چور)
 
Top