محمد یعقوب آسی کی شعری اور نثری کاوشیں

ذرا سی بات

ذرا سی بات ہی تو تھی
مرے بیٹے نے یونہی بر سبیلِ تذکرہ
مجھ کو بتایا:
’’وہ جو اپنی خالدہ ہے
اس کے بھائی کو
خدا نے چاند سا بیٹا دیا اور لے لیا‘‘
یہ بات کل کی ہے

مری پوتی جو اپنی عمر کے چوتھے برس میں ہے
وہیں اپنے کھلونوں میں مگن تھی
چونک کر بولی:
’’سنیں بابا!
ابھی اس گوشت والی عید سے پہلے
جو میٹھی عید آئی تھی
خدا نے میری ’دادو‘ کو بلا بھیجا تھا
اب کس کو بلایا ہے؟‘‘

ذراسی بات ہی تو تھی
جو اِک بچی نے کہہ دی تھی
مگر جانے اسے سن کر
مرے اندر کہیں
اک زلزلہ سا کیوں اٹھا تھا
ذہن کی شفاف نیلی وسعتوں میں
ابر کا ٹکڑا کہاں سے آ گیا تھا
کون سی آندھی چلی تھی!
جیسے کوئی چیخ اٹھتی ہے
نہ جانے کس طرح کا ابر تھا
جو میرے سینے میں تلاطم کر گیا برپا
بڑا مشکل تھا مجھ کو
دیکھنا اُس دھند کے اُس پار
جو آنکھوں میں پھیلی تھی

مری پوتی کا ’بابا‘ میرا بیٹا
میرے بازو دابتا تھا
کچھ نہیں بولا
مجھے اک خوف سا بھی تھا
کہ میرے بوڑھے دست و پا پہ طاری
زلزلے جیسی وہ کیفیت
مرے بیٹے کو باور ہو نہ پائے!
کیسے ممکن ہے!
کہا میں نے اشارے سے:
’’کہ بیٹا! ٹھیک ہے اتنا ہی کافی ہے‘‘
اگر میں بولتا تو میرے گیلے حرف
لفظوں میں تو ڈھلتے یا نہ ڈھلتے
پر، اسے سب کچھ بتا دیتے

ذرا سی بات ہی تو تھی
بہو کہنے لگی:
’’ابو! یہ دوجی چارپائی؟
اب ہٹا دیتے ہیں اس کو
کیا ضرورت ہے یہاں اس کی‘‘
کہا:
’’ہرگز نہیں! اس کو یہیں رکھو!
یہ جیسا میرا بستر ہے
اسی جیسا لگا دو
چادریں تکیے اسی جیسے
چلو، کمبل کو رہنے دو‘‘
کہ یادیں
موسموں کی قید سے آزاد ہوتی ہیں

نومبر ہو دسمبر ہو
مئی ہو جون ہو
یادوں کی رم جھم ہوتی رہتی ہے
یہ میٹھی عید کی صورت
جگا دیتی ہیں کوئی درد میٹھا سا

وہ میٹھی عید ہی تو تھی
وہ عید الفطر جو ہم نے منائی تھی
بڑے مہمان آئے تھے
بڑی رونق تھی گھر میں
اور اِک اِک سے گلے ملتے
یہ میری عمر خوردہ ہڈیاں تک چرچرا اٹھیں
کہا تھا میں نے:
’’دیکھو، عائشہ دیکھو!
بڑے مہمان آئے ہیں
انہیں چائے تو پلواؤ
کوئی نمکو، کوئی بسکٹ
کوئی گھر کا بنا بیسن کا حلوہ
یا
تمہارے ہاتھ کی مہکار سے لبریز
کچھ بھی ہو
تواضع کچھ تو ہو جائے!‘‘

مرے دل کے کسی کونے سے
اک دھیمی سی سرگوشی اٹھی تھی:
’’مجھ کو جانا ہے، مجھے جلدی ہے
اب تم خود ہی اپنے دوستوں کے واسطے
پینے کی کوئی شے
کوئی نمکین کھاری شے بہم کر لو‘‘
میں کیا لاتا؟
کہ اپنے اشک سارے پی چکا تھا میں!

بسا اوقات پچھلی رات
مجھ کو نیند کے عالم میں
اک کمزور سی، بیمار سرگوشی سنائی دی:
’’مجھے بتی جلا دو‘‘
میں اٹھا بتی جلائی تو
وہاں ... کوئی نہ تھا، میں تھا!
اسے کوئی ذرا سی بات کہتا ہے ، کہے
میں کس طرح کہہ دوں!

وہ کلیاں موتیے کی
جو کبھی وہ توڑ لاتی تھی
کبھی میں چن دے لا دیتا
اسے تسکین ملتی تھی
تو اس کے خشک ہونٹوں پر
تراوٹ سے بھری مسکان کھلتی تھی
وہ جھریاں اس کے گالوں کی
اگرچہ ایک دو لمحے کو ہوتیں
پر کہیں معدوم ہو جاتیں!
نگاہوں میں پھر اس کی
ایک نرماہٹ بھری میٹھی چمک ہوتی
وہ خود اِک موتیا لگتی!
تو میرے ہر بُنِ مو میں
کہیں اک موتیا سا مسکرا اٹھتا

مگر، اُس عید سے اَب تک
مرے گھر میں کھڑی،
تازہ دکھائی دے رہی
وہ موتیے کی جھاڑیاں ویران ہیں
جیسے انہیں معلوم ہو
وہ خشک لب، جھریوں بھرا چہرہ
منوں مٹی کے نیچے دب چکا ہے
اور کوئی
دیکھ کر کھلتی ہوئی کلیاں
اداسی اور تنہائی کی آندھی میں
بکھر جائے گا
تب اِس گھر کے
جیتے جاگتے پھولوں کا کیا ہو گا!
ذرا سی بات ہے یہ کیا!؟

ذرا سی بات ہی تو ہے!
جہانِ برگ و گل میں
زندگی کا ہے سفر جاری
ابھی کچھ دن ہوئے
اس گھر کے آنگن میں
’’صبیحہ‘‘ نام کا اک پھول اترا ہے
سحر کی تازگی کے،
نرم رو بادِ بہاری کے جلو میں
اس کے برگِ گل سے نازک تر
لبِ تازہ پہ جو مسکان ہوتی ہے
مجھے وہ ایسے دوراہے پہ لاکے
چھوڑ دیتی ہے
کہ میں کچھ کہہ نہیں سکتا!
مری آنکھیں سناتی ہیں کہانی
میری پلکوں کو
تو شبنم کی نمی تک جھوم اٹھتی ہے

میں اپنے دل سے کہتا ہوں:
’’میاں سنبھلو! ذرا سی بات ہی تو ہے!‘‘
یہی اک سانس کی ڈوری
یہ نازک ریشمی دھاگا
کسی بھی وقت
بارش کے کسی قطرے سے
بھی تو ٹوٹ بھی سکتا ہے
سو یہ بھی اک ذرا سی بات ہو گی نا!
ذرا سی بات ہی تو ہے!



26 مارچ 2014ء
 
آخری تدوین:

زرقا مفتی

محفلین
شکریہ آسی صاحب بہت خوبصورت نظم ہے محبت کے احساس میں گندھی ہوئی
زندگی میں سب سے بڑا خسارہ یہی ہے ذرا سی بات نہیں ہے۔ اللہ مرحومہ کے درجات بلند کرے اور آپ کو صبر عطا کرے ۔
 
ابھی میرے دوست وحید ناشاد کی طرف سے یہ ’’چند لائینیں‘‘ موصول ہوئیں۔ احباب کے ساتھ سانجھی کرتا ہوں۔ لکھتے ہیں:

محمد یعقوب ٓاسی کی نظم ’’ذرا سی بات‘‘ پڑھ کر فوری طور پر کچھ سطریں ھوئیں۔ دوستوں کی کی خدمت میں نظم
میرا دل ڈوب جاتا ہے

مکمل شاعری پر،
میں تمہاری۔
تبصرہ لکھوں مگر کیسے۔
ذرا سی بات کہہ کر جو۔
کہانی تم نے لکھی ھے۔
اسے بھی میں اگر چاھوں۔
مکمل پڑھ نہیں سکتا۔
میرا دل ڈوب جاتا ھے
میرے اشکوں کے پانی میں،
کہانی کی روانی میں۔
میں
خود بھی ڈوب جاتا ھوں۔
ذرا سی بات کہہ کر جو۔
کہانی تم نے لکھی ھے،
یہ برسوں کی کہانی ھے
۔ملن کی پھر جدائی کی
مکمل داستاں ھے یہ۔
جوانی سے بڑھاپے تک۔
تمہاری اس کہانی میں۔
کوئی کردار بھی میرا۔
نہیں بنتا۔
مگر محسوس ھوتا ھے۔
تمہاری اس کہانی میں
سبھی کردار میرے ھیں۔
 
آخری تدوین:

سید فصیح احمد

لائبریرین
ذرا سی بات

ذرا سی بات ہی تو تھی
مرے بیٹے نے یونہی بر سبیلِ تذکرہ
مجھ کو بتایا:
’’وہ جو اپنی خالدہ ہے
اس کے بھائی کو
خدا نے چاند سا بیٹا دیا اور لے لیا‘‘
یہ بات کل کی ہے

مری پوتی جو اپنی عمر کے چوتھے برس میں ہے
وہیں اپنے کھلونوں میں مگن تھی
چونک کر بولی:
’’سنیں بابا!
ابھی اس گوشت والی عید سے پہلے
جو میٹھی عید آئی تھی
خدا نے میری ’دادو‘ کو بلا بھیجا تھا
اب کس کو بلایا ہے؟‘‘

ذراسی بات ہی تو تھی
جو اِک بچی نے کہہ دی تھی
مگر جانے اسے سن کر
مرے اندر کہیں
اک زلزلہ سا کیوں اٹھا تھا
ذہن کی شفاف نیلی وسعتوں میں
ابر کا ٹکڑا کہاں سے آ گیا تھا
کون سی آندھی چلی تھی!
جیسے کوئی چیخ اٹھتی ہے
نہ جانے کس طرح کا ابر تھا
جو میرے سینے میں تلاطم کر گیا برپا
بڑا مشکل تھا مجھ کو
دیکھنا اُس دھند کے اُس پار
جو آنکھوں میں پھیلی تھی

مری پوتی کا ’بابا‘ میرا بیٹا
میرے بازو دابتا تھا
کچھ نہیں بولا
مجھے اک خوف سا بھی تھا
کہ میرے بوڑھے دست و پا پہ طاری
زلزلے جیسی وہ کیفیت
مرے بیٹے کو باور ہو نہ پائے!
کیسے ممکن ہے!
کہا میں نے اشارے سے:
’’کہ بیٹا! ٹھیک ہے اتنا ہی کافی ہے‘‘
اگر میں بولتا تو میرے گیلے حرف
لفظوں میں تو ڈھلتے یا نہ ڈھلتے
پر، اسے سب کچھ بتا دیتے

ذرا سی بات ہی تو تھی
بہو کہنے لگی:
’’ابو! یہ دوجی چارپائی؟
اب ہٹا دیتے ہیں اس کو
کیا ضرورت ہے یہاں اس کی‘‘
کہا:
’’ہرگز نہیں! اس کو یہیں رکھو!
یہ جیسا میرا بستر ہے
اسی جیسا لگا دو
چادریں تکیے اسی جیسے
چلو، کمبل کو رہنے دو‘‘
کہ یادیں
موسموں کی قید سے آزاد ہوتی ہیں

نومبر ہو دسمبر ہو
مئی ہو جون ہو
یادوں کی رم جھم ہوتی رہتی ہے
یہ میٹھی عید کی صورت
جگا دیتی ہیں کوئی درد میٹھا سا

وہ میٹھی عید ہی تو تھی
وہ عید الفطر جو ہم نے منائی تھی
بڑے مہمان آئے تھے
بڑی رونق تھی گھر میں
اور اِک اِک سے گلے ملتے
یہ میری عمر خوردہ ہڈیاں تک چرچرا اٹھیں
کہا تھا میں نے:
’’دیکھو، عائشہ دیکھو!
بڑے مہمان آئے ہیں
انہیں چائے تو پلواؤ
کوئی نمکو، کوئی بسکٹ
کوئی گھر کا بنا بیسن کا حلوہ
یا
تمہارے ہاتھ کی مہکار سے لبریز
کچھ بھی ہو
تواضع کچھ تو ہو جائے!‘‘

مرے دل کے کسی کونے سے
اک دھیمی سی سرگوشی اٹھی تھی:
’’مجھ کو جانا ہے، مجھے جلدی ہے
اب تم خود ہی اپنے دوستوں کے واسطے
پینے کی کوئی شے
کوئی نمکین کھاری شے بہم کر لو‘‘
میں کیا لاتا؟
کہ اپنے اشک سارے پی چکا تھا میں!

بسا اوقات پچھلی رات
مجھ کو نیند کے عالم میں
اک کمزور سی، بیمار سرگوشی سنائی دی:
’’مجھے بتی جلا دو‘‘
میں اٹھا بتی جلائی تو
وہاں ... کوئی نہ تھا، میں تھا!
اسے کوئی ذرا سی بات کہتا ہے ، کہے
میں کس طرح کہہ دوں!

وہ کلیاں موتیے کی
جو کبھی وہ توڑ لاتی تھی
کبھی میں چن دے لا دیتا
اسے تسکین ملتی تھی
تو اس کے خشک ہونٹوں پر
تراوٹ سے بھری مسکان کھلتی تھی
وہ جھریاں اس کے گالوں کی
اگرچہ ایک دو لمحے کو ہوتیں
پر کہیں معدوم ہو جاتیں!
نگاہوں میں پھر اس کی
ایک نرماہٹ بھری میٹھی چمک ہوتی
وہ خود اِک موتیا لگتی!
تو میرے ہر بُنِ مو میں
کہیں اک موتیا سا مسکرا اٹھتا

مگر، اُس عید سے اَب تک
مرے گھر میں کھڑی،
تازہ دکھائی دے رہی
وہ موتیے کی جھاڑیاں ویران ہیں
جیسے انہیں معلوم ہو
وہ خشک لب، جھریوں بھرا چہرہ
منوں مٹی کے نیچے دب چکا ہے
اور کوئی
دیکھ کر کھلتی ہوئی کلیاں
اداسی اور تنہائی کی آندھی میں
بکھر جائے گا
تب اِس گھر کے
جیتے جاگتے پھولوں کا کیا ہو گا!
ذرا سی بات ہے یہ کیا!؟

ذرا سی بات ہی تو ہے!
جہانِ برگ و گل میں
زندگی کا ہے سفر جاری
ابھی کچھ دن ہوئے
اس گھر کے آنگن میں
’’صبیحہ‘‘ نام کا اک پھول اترا ہے
سحر کی تازگی کے،
نرم رو بادِ بہاری کے جلو میں
اس کے برگِ گل سے نازک تر
لبِ تازہ پہ جو مسکان ہوتی ہے
مجھے وہ ایسے دوراہے پہ لاکے
چھوڑ دیتی ہے
کہ میں کچھ کہہ نہیں سکتا!
مری آنکھیں سناتی ہیں کہانی
میری پلکوں کو
تو شبنم کی نمی تک جھوم اٹھتی ہے

میں اپنے دل سے کہتا ہوں:
’’میاں سنبھلو! ذرا سی بات ہی تو ہے!‘‘
یہی اک سانس کی ڈوری
یہ نازک ریشمی دھاگا
کسی بھی وقت
بارش کے کسی قطرے سے
بھی تو ٹوٹ بھی سکتا ہے
سو یہ بھی اک ذرا سی بات ہو گی نا!
ذرا سی بات ہی تو ہے!



26 مارچ 2014ء

احساسات کی بہت ہی سُچّی رو نمائی کی استاد محترم !! ۔۔۔ ( اصلاً اس پارے کی تاثیر سے طبیعت خاموش ہو گئی ہے! )
 

فلک شیر

محفلین
آسی صاحب! اس ادب پارے پہ میں کیا کہوں ۔۔۔بہت اعلٰی , احساس اور الفاظ ایک دوسرے میں کہیں گھل مل سے گئے ہوں جیسے ۔۔۔۔۔اللہم سلمت یداک ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

منیر انور

محفلین
ذرا سی بات

ذراسی بات ہی تو تھی
جو اِک بچی نے کہہ دی تھی
مگر جانے اسے سن کر
مرے اندر کہیں
اک زلزلہ سا کیوں اٹھا تھا
ذہن کی شفاف نیلی وسعتوں میں
ابر کا ٹکڑا کہاں سے آ گیا تھا
26 مارچ 2014ء
۔۔۔
طویل لیکن بہت مربوط اور داستان کا سا انداز لئے ہوئے ایک دل میں ترازو ہو جانے والی نظم ۔۔ جذبوں کے سچے اظہار سے مزین لفظ ممکن ہی نہیں کہ احساس کے تاروں کو نہ جھنجھوڑیں ۔۔ بہت عمدہ ۔۔

مری پوتی جو اپنی عمر کے چوتھے برس میں ہے
وہیں اپنے کھلونوں میں مگن تھی
چونک کر بولی:
’’سنیں بابا!
ابھی اس گوشت والی عید سے پہلے
جو میٹھی عید آئی تھی
خدا نے میری ’دادو‘ کو بلا بھیجا تھا
اب کس کو بلایا ہے؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے زخموں کو مندمل نہ ہونے دینے اور انہیں مسلسل کرید کر لطف لینے والے یعقوب آسی سے بھلا کوئی پوچھے کہ یوں رو کر یاروں کو رلا دینے سے بھلا جانے والے لوٹ آیا کرتے ہیں؟
 
۔۔۔
طویل لیکن بہت مربوط اور داستان کا سا انداز لئے ہوئے ایک دل میں ترازو ہو جانے والی نظم ۔۔ جذبوں کے سچے اظہار سے مزین لفظ ممکن ہی نہیں کہ احساس کے تاروں کو نہ جھنجھوڑیں ۔۔ بہت عمدہ ۔۔

مری پوتی جو اپنی عمر کے چوتھے برس میں ہے
وہیں اپنے کھلونوں میں مگن تھی
چونک کر بولی:
’’سنیں بابا!
ابھی اس گوشت والی عید سے پہلے
جو میٹھی عید آئی تھی
خدا نے میری ’دادو‘ کو بلا بھیجا تھا
اب کس کو بلایا ہے؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے زخموں کو مندمل نہ ہونے دینے اور انہیں مسلسل کرید کر لطف لینے والے یعقوب آسی سے بھلا کوئی پوچھے کہ یوں رو کر یاروں کو رلا دینے سے بھلا جانے والے لوٹ آیا کرتے ہیں؟
آپ کی محبت ہے بھائی!
 
’’بس آپ کا کتا مر گیا‘‘
۔۔۔۔
وڈیرا سائیں دو تین سال جاگیر سے باہر رہ کر واپس آئے۔ اُن کے دیرینہ خادم’’ مرادُو‘‘ نے جاگیر کے باہر زمینوں میں اُن کا استقبال کیا، وڈیرا سائیں نے پوچھا: ’’سنا، مرادُو! جاگیر پر کیسا ہے سب کچھ؟‘‘
’’سب ٹھیک ہے سرکار۔ سب کچھ ٹھیک ہے، بس آپ کا کتا ’’ڈبو‘‘ مر گیا ہے۔‘‘
’’اس کو کیا ہوا تھا، مرادُو؟‘‘
’’کچھ بھی تو نہیں ہوا، سائیں!اُس کے گلے میں ہڈی پھنس گئی تھی‘‘
’’ہڈی؟ کیسی ہڈی؟‘‘
’’وہ آپ کی ڈاچی کی ہڈی پھنس گئی تھی اُس بے زبان کے گلے میں۔‘‘
’’میری ڈاچی مر گئی کیا؟ اُسے کیا ہوا تھا، نامرادا!‘‘
’’اینٹیں ڈھوتے ڈھوتے مر گئی، سائیں! ہوا تو کچھ بھی نہیں‘‘
وڈیرا سائیں تقریباً چیخ کر بولے: ’’اوئے مرادُو، نامرادا! اینٹیں کون ڈھوتا رہا، کہاں ڈھوتا رہا، کیوں ڈھوتا رہا؟‘‘
’’مقبرہ بنانا تھا سائیں!‘‘
’’مقبرہ؟ کس کا مقبرہ بد بخت مرادُو؟ کون ایسا مر گیا جس کا مقبرہ بنانے کو تو نے میری ڈاچی مار ڈالی؟‘‘
’’کیا کرتا سائیں، یہ مرادُو غریب! بڑی سائین کو اللہ سائیں نے جو بلا لیا تھا!‘‘
’’بڑی سائین؟‘‘ وڈیرہ سائیں تقریباً دھاڑ کر بولے۔ ’’اماں مر گئی، کیا؟‘‘
’’ہاں سائیں، اللہ سائیں کو ایسا ہی منظور تھا، سائیں!‘‘
وڈیرا سائیں ماں کی وفات کا سن کر تقریباً رو دئے: ’’کچھ بتا بے مرادیا! میری ماں کیسے مر گئی!!!‘‘
’’ہوا تو کچھ نہیں تھا بڑی سائین کو، بھلی چنگی تھیں، رات کو سوئیں تو سویرے اٹھنا نصیب نہ ہوا، بلاوا جو آ گیا تھا، سرکار!‘‘
’’مجھے صاف سیدھا بتا اماں کو ہوا کیا تھا، تو کہاں مرا ہوا تھا‘‘
’’مرادُو غریب تو اپنی کھولی میں تھا سائیں، سویرے جو حویلی میں گیا تو دیکھا سنا‘‘
’’کچھ بک بھی آگے، کہ کہانی گھڑتا رہے گا! اماں مری کیسے، دوا دارو کرنے والے بھی سب مر گئے تھے؟ ‘‘
’’کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا سائیں‘‘ مرادُو روتے ہوئے بولا: ’’ رات کو حویلی گر گئی، اور بڑی سائین چھت کے ملبے تلے دب گئیں‘‘
وڈیرا سائیں کی نیچے کی سانس نیچے اور اوپر کی اوپر رہ گئی۔ تؤقف کے بعد بولے: ’’اچھا، پھر؟‘‘
’’پھر، سرکار! آپ کے نمک خواروں نے ملبہ ہٹایا تو بڑی سائین کی سانسیں پوری ہو چکی تھیں‘‘
’’اور کیا کہتا ہے تو مرادُو؟‘‘
’’کچھ بھی نہیں سائیں، بہت دکھا ہوا ہے دل اِس غریبڑے مرادُو کا‘‘
’’تیرا دل؟ کیا ہوا تیرے دل کو؟ کالی زبان والے!‘‘
’’کچھ بھی تو نہیں ہوا سائیں! بس آپ کا کتا مر گیا‘‘
’’تجھے کتے کے مرنے کا بہت دکھ ہوا ہے؟‘‘
’’ہاں سائیں! اپنے جیسوں کا دکھ تو ہوتا ہے سرکار‘‘ اور ۔۔۔ وڈیرا سائیں حیرت سے مرادُو کا منہ دیکھتے رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
خوش بخت بیگ مالی
مصنوعی قہقہوں سے شروع ہو کر حقیقی آنسوؤں پر ختم ہونے والی ایک طبع زاد ، طوفانی کہانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

گیدڑ سے تشبیہ تو خیرہم دیں گے بھی نہیں کہ وہ شہر کو بھاگتا ہے تو بھگتے بھی۔ ہمارے ساتھ البتہ خیر گزر گئی ورنہ سنا یہی تھا کہ خواجہ غزلانوی طوفان آبادی کے قدم جہاں پڑ جائیں وہاں ایسا کچھ ہو رہتا ہے کہ کچھ رہتا نہیں۔ زبانِ خلق کے مطابق خواجہ موصوف ہر چیز کا حتیٰ کہ خود اپنا حلیہ تک بگاڑ ڈالنے کے ماہر تھے۔ ہمیں البتہ کچھ مختلف بات بھی دکھائی دے رہی تھی، وہ تھی خواجہ صاحب کی بار بار گمشدگی۔ بھلے چنگے بیٹھے بیٹھے باتیں بناتے، قہقہے لگاتے، غزلاتے ڈکراتے ایک دم خاموش ہو جاتے۔


شاعری سے بَیر رکھنے کے لئے خواجہ صاحب کو خدا واسطے کی بھی احتیاج نہیں تھی۔ تبھی تو ان کا نامِ نامی ہمارے لئے باعثِ صد ہزار حیرت تھا۔ گیدڑ والی بات کچھ یوں صادق آئی کہ بارے ہم خواجہ کو میر کا شعر سنانے کے مرتکب ٹھہرے؛ ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ...پھر ہماری آواز ایک شدید دھماکے کی زد میں آ گئی۔ میز پر ان کے زور دار مکے نے چائے کی پیالی کے اندر ایسا طوفان برپا کیا کہ میز پر رکھی ہر شے ’’سیلِ چائے‘‘ میں بھیگ گئی۔ وہ تو غریب خانے میں داخل ہوتے ہی حضرت نے اعلان فرما دیا تھا کہ: میاں بدرِ احمر! ہمیں زور کی چیاس لگی ہے۔ یہ وہی چائے تھی جو طوفان آبادی کے لائے ہوئے سونامی میں کام آ گئی تھی۔ کہنے لگے: ’’تم نے شعر کا حلیہ بگاڑ دیا ہے‘‘۔ عرض کیا: ’’حضرت! سب دیوانوں میں یونہی لکھا ہے ..‘‘۔ ہم نے ہمت کر کے شعر پورا سنا ہی دیا۔ ان کا ’’سونامی آور‘‘ مکا بارے پھر فضا میں بلند ہوا تو ہم نے اس کو کلائی سے پکڑ لیا۔ ’’یا خواجہ! چائے کی پیالی تک تو خیر قابلِ برداشت تھا، ایک شاعرِ کم مایہ اپنے گھر کی اکلوتی میز آپ کے طوفانِ کرم پر نہیں چھوڑ سکتا‘‘۔ موصوف کی خفت قابلِ دید تھی جس کو مٹانے کے انہوں نے ایک زور دار قہقہہ شروع کر دیا کہ اس پر قہقہہ لگایا کے الفاظ ناکافی بلکہ ناقص ثابت ہوتے ہیں۔اس عمل کو ہم قہقہہ کہنے پر اس لئے بھی مجبور ہیں کہ لغت میں تاحال کوئی ایسا لفظ داخل نہیں ہو پایا جو خرِ عیسٰی کے کسی سپوت یا اسپِ تازی کے کسی خالو کے نغمۂ بے مہابا کو کوئی حسین و جمیل نام دے سکے، کہ اس کی تو ابتدا ہوا کرتی ہے، بس! اور آخر ہوتے ہوتے افسانہ ہی ختم ہو جایا کرتا ہے۔ پانچ سات دقیقوں کی تابڑ توڑ کوشش رنگ لے ہی آئی۔ یہ الگ بات کہ اس شہیقے کا اختتامی حصہ کسی کارخانے کے سائرن کا سا تھا جس پر مزدوروں کو چھٹی ہو جاتی ہے یا روزہ کھل جاتا ہے۔ قہقہے کا آخری مرحلہ کمیٹی کے نلکے کے اعلانِ بے بضاعتی جیسا تھا۔

ان کی ہنسی تھمی تو آنکھوں میں جیسے کوئی ویرانی سی تیر گئی اور ہمیں لگا کہ ان کے چہرے پر ایک پرچھائیں سی آ کر گزر گئی ہو۔ پھر ایک طویل اور گھمبیر خاموشی کے بعد خواجہ غزلانوی طوفان آبادی کسی مرکھنے سانڈ کی صورت ڈکراتے غزلاتے گویا ہوئے: ’’میاں صاحب زادے! میر تقی میر کا اصل شعر تم جیسے دیوانوں کے ہتھے چڑھا تو ایسا ہو گیا۔ اصل شعر سنو! ہم کو شاعر مت کہو میر صاحب کہ ہم نے؛ درد و غم اتنے جمع کئے کہ دیوانے ٹھہرے‘‘ بعد ازاں انہوں نے شعر کی اس ہیئت کذائی کی جتنی بھی توضیحات بیان فرمائیں وہ خاصی معقول بلندی سے گزر گئیں اور ہمارا سر سلامت رہ گیا۔

خواجہ صاحب کی شخصیت کا ایک بہت لطیف روپ ہمیں بہت بھاتا تھا۔ جب بھی انہیں چیاس لگتی، بلا تردد ہمارے درِ دولت کو ضرب ہائے ’’دو لات‘‘ سے نواز دیتے۔ کبھی برآمدے میں بیٹھ جاتے تو کہتے: ’’میاں صاحب زادے، یہ تم نے سب سبزیاں اگائی ہوئی ہیں، کچھ پھول وغیرہ بھی تو اگاؤ یہاں؛ اور پھر پھولوں کی مختلف اقسام و انواع، خواض و خصائل پر ’’طویل و عریض‘‘ گفتگو فرماتے، جو ہمارے حافظے میں کبھی جگہ پا ہی نہیں سکی۔ خواجہ غزلانوی موصوف کے اور بھی کئی روپ تھے جنہیں بہروپ تو کسی صورت نہیں گردانا جا سکتا کہ وہ ان کا ہر روپ اصل اور خالص ہوتا تھا یا پھر وہ اداکاری میں ’’پائے طولیٰ‘‘ رکھتے تھے۔

اماں باوا نے نام کوئی رکھا ہو، تخلص انہوں نے کوئی اختیار کیا ہو، شعر کہا ہو یا نہ کہا ہو؛ ’’صنفِ ستم‘‘ کوئی سی منتخب کی ہو یا ’’ہر صنف رولا‘‘ رہے ہوں، کوئی کام ڈھنگ سے کیا ہو یا نہ کیا ہو؛ اپنی ہیئت کذائی کی بدولت مریخ کی دوری سے پہچان لئے جاتے۔ کہیں کبھی اگر پہچان نہ ہو پاتی تو یہ قصور ہمارا نہیں تھا بلکہ کاربن ڈائی آکسائڈگیس کے ان بادلوں کا تھا جو ہمارے بادلوں جیسے ہی ہوتے ہیں۔ بلکہ بقول خواجہ غزلانوی مزید بقول میرزا خیر اندیش ککڑالوی ان میں بجلی بھی ویسی ہی چمکا کرتی تھی۔ میرزا ککڑالوی کے نام میں اگرچہ لڑائی جھگڑے کا بھرپور تاثر پایا جاتا ہے تاہم موصوف خاصے صلح جو واقع ہوئے تھے، وہ الگ بات کہ میرزا صلح کا عنصر ہمیشہ دوسروں میں تلاش کیا کرتے۔ میرزا کے بارے میں ہماری تمام تر معلومات کا منبع و منتہٰی خواجہ صاحب کی ذاتِ سیماب صفات تک محدود تھا، جس کے مطابق ان دونوں میں چھنتی بھی گاڑھی تھی اور ٹھنتی بھی گاڑھی تھی۔ ہمیں متعدد بار شک بھی گزرا کہ میرزا ککڑالوی شاید انہی کا دوسرا روپ ہے؟ خواجہ صاحب ہی نے از راہِ شفقت میرزا خیر اندیش کو ’’میرزا ککڑالوی‘‘جیسا جارحانہ لقب عطا فرما دیا تھا؛ فرمایا کرتے میرزا جب جھگڑنے پہ آتا ہے تو ’’اصیل ککڑ‘‘ کی طرح جھپٹتا ہے۔ بارے ہم نے عرض بھی کیا کہ: ’’خواجہ! آپ میرزا کا ’’ذکرِ ناخیر‘‘ اکثر فرماتے ہیں، کبھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو سکتا ہے؟‘‘ بہت ’’چین و جاپان بہ جبیں‘‘ ہوئے، اتنے کہ ان دونوں ملکوں کی صد سالہ جنگ کے سارے مناظر ان کے فرقِ سر سے بسہولت پڑھے جا سکتے تھے۔ ہمیں تقریباً یقین ہو گیا کہ خواجہ غزلانوی اور میرزا ککڑالوی دو الگ الگ شخصیات ہیں۔ اور دونوں کی آپس میں گاڑھی چھننے کی وجہ بھی کچھ کچھ کھلنے لگی، کہ اس کے اسباب ’’باہمی خوفزدگی‘‘ زیادہ کارفرما ہے اور ہم جنسوں کی پرواز کم۔

ہم جیسے مرنجان مرنج لوگ تو ایک خواجہ طوفان آبادی سے بنائے رکھتے تو بھی بہت ہوتا، میرزا کو کہاں سوار کرتے! ادھر خواجہ غزلانوی کی شاید عمر بھر سوائے میرزا کے نہ کسی سے بنی اور نہ ٹھنی۔ تیسری گلی میں ایک کمرے کا مکان کرائے پر لے رکھا تھا جس میں الزام کی حد تک برآمدہ اور صحن بھی پائے جاتے تھے۔ یکہ و تنہا رہتے تھے، سو گھر پر ہوتے تو باہر کا دروازہ چوپٹ کھلا ہوتا جس سے کمرے کی ویرانی بھی دیکھی جا سکتی تھی۔ بہ این ہمہ خواجہ کا طنطنہ تھا کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، میرزا ککڑالوی کو بھی نہیں۔ ہمیں گوالے میاں سے خبر ملی کہ خواجہ صاحب کی طبیعت ناساز ہے، خبر سے زیادہ وہ شکایت تھی۔ خواجہ ان سے دودھ لیا کرتے تھے، اور حسبِ عادت پیسے دینا بھول جاتے تھے۔ گوالے میاں بھی کسی نہ کسی طور نکلوا ہی لیتے۔ پھر یوں ہوا کہ خواجہ نے دودھ بند کرا دیا اور ساتھ ہی حساب بھی ادا کئے بغیر بند کرنے کا فرمان جاری کر دیا۔ گوالے میاں کو ہماری ذات میں سفارش دکھائی دی ہو گی، ہم نے سوچا چلئے حضرت سے ملتے ہیں، ان کی عیادت بھی ہو جائے گی اور اگر وہ جلال کی کیفیت میں نہ ہوئے تو گوالے میاں کی عرضی بھی پیش کر دیں گے۔

باہر والا دروازہ حسبِ توقع کھلا تھا اورکمرے میں کھڑے طوفان آبادی ایک طرف منہ کئے کسی سے مخاطب تھے۔ ہم بلاتکلف صحن میں داخل ہو گئے۔ حضرت کے چہرے پر بیک وقت کئی طوفانوں اور زلزلوں کی کیفیات کا اجتماع دکھائی دے رہا تھا۔گوالے میاں گلی میں کھڑے تھے کہ ہم انہیں جوں ہی اشارہ کریں وہ ’’کیا حکم ہے مرے آقا‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے حاضر ہو جائیں۔ خواجہ طوفان آبادی کی آواز کبھی تو بڑبڑاہٹ میں بدل جاتی اور کبھی اتنی بلند کہ گلی میں جاتے ہوئے بھی سنائی دے جائے۔ وہ کہہ رہے تھے ’’میرزا! میں آج تمہیں نہیں چھوڑوں گا، مار دوں گا یا تم مجھے مار ڈالو، تم نے مجھے ذلیل و رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بہت ہو چکی! میں ..یا تو تم مجھے مار دو، یا میں تمہیں مار دوں گا.. ..‘‘ انہوں نے ہاتھ یوں آگے بڑھائے جیسے (ہماری دانست کے مطابق) میرزا خیر اندیش کا گلا دبانے چلے ہوں۔

ہمیں نہیں معلوم کہ ہم نے کیسے اتنی بڑی چھلانگ لگا لی اور حضرت کی دونوں کلائیوں کو کیسے گرفت میں لے لیا۔ حضرت غزلانوی کے ہونٹ کپکپا رہے تھے، ہاتھوں پر گویا رعشہ طاری تھا اور آنکھیں چھ انچ مربع کے ایک چھوٹے سے آئینے پر جمی تھیں۔ ہمارے ہاتھوں کی گرفت نے انہیں گویا ٹرانس کی کیفیت سے باہر دھکیل دیا ؛ انہوں نے ہماری طرف دیکھا اور ہاتھ ڈھیلے چھوڑ دئے، سر جھکنے سے پہلے دو موٹے موٹے اشک ان کی آنکھوں سے ڈھلکے اور کلائیوں پر ٹھیک اس جگہ ٹپ سے گرے جہاں ہماری انگلیوں کی گرفت تھی۔ان کے ہونٹ ہلے اور ایک برفیلی سرگوشی ہمارے دماغ کو سُن کرنے لگی: ’’میرزا مسکین بیگ کو جب دنیا والوں نے رد کر دیا تو اس نے طوفان آبادی کا روپ دھار لیا اور دنیا کے طعنوں کا بدلہ لینے کو میرزا خیراندیش نام کا ہمزاد بنا لیا۔ اور تم نے .. تم نے آج ان دونوں کو مار ڈالا۔ تم دوہرے قاتل ہو!‘‘۔ وہ جہاں کھڑے تھے وہیں ڈھے گئے۔ ’’نہیں میرزا! کسی نے کسی کو نہیں مارا، دونوں جعلی کردار ختم ہو گئے!‘‘ ہم نے پورے اعتماد سے جواب دیا۔ ’’اور میرزا مسکین بیگ بھی مر گیا ہے آج! آج سے تم میرزا خوش بخت بیگ ہو، خوش بخت بیگ مالی جو نرم و نازک پھول اگاتا ہے، پالتا ہے اور لوگوں کے باغیچوں میں مسکراہٹیں کھلاتا ہے‘‘ ۔

گوالے میاں نے یہ غیر متوقع منظر دیکھا تو خود بخود کھنچے آئے۔ میرزا پھر پھٹ پڑے: ’’اس کے پیسے کون دے گا؟ میرے پاس تو ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں؟‘‘ ہم نے گوالے میاں کی طرف دیکھا، اور کہا: ’’وہ؟ وہ تو ادا ہو بھی چکے! ہیں نا، گوالے میاں؟‘‘ گوالے میاں نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا، اور میرزا خوش بخت بیگ ہمارے گلے لگ کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگے۔

اتوار ۲۹ جون ۲۰۱۴ء

’’اردو محفل فورم‘‘ کی نثری نشست کے لئے لکھی گئی۔

 
ایک طبع زاد کہانی بہت پرانی ۔۔ : 25 اکتوبر 1997ء

خوشبو اور پہیلی

’’لگتا ہے کہ اماں بی سے کھل کر بات کرنی پڑے گی‘‘ اس سوچ کے ساتھ توقیر کی نگاہوں کے سامنے ایک چہرہ گھوم گیا، کھلا کھلا سا، کومل سا، ہونٹوں پر شریر سی مسکراہٹ، گھنی سیاہ پلکوں سے لدی، حیا سے جھکی سرمگیں آنکھیں، کشادہ پیشانی، لامبی سیاہ زلفوں کا خوشبودار جنگل جو شہابی گالوں کو اور بھی شہابی بنا رہا تھا۔ یہ اس کی منگیتر مہ نور کا چہرہ تھا۔ مہ نور جو اس کی سانسوں میں سنسناتی اور دل میں دھڑکتی تھی۔ وہ بات کرتی تو جیسے جھرنے پھوٹنے لگتے۔ توقیر ان جھرنوں اور اس جنگل میں ایسا کھویا کہ اسے کچھ بھی یاد نہیں رہا۔ یہ بھی کہ وہ ابھی دفتر سے آیا ہے، تھکا ماندہ اور بھوکا۔ کپڑے بدلنا تو دور کی بات، اس نے جوتے بھی نہیں اتارے اور مسہری پر نیم دراز ہو گیا۔

کئی سالوں سے اس کی زندگی کا ایک لگا بندھا معمول تھا۔ صبح سویرے گھڑی کے الارم پر جاگنا، بھاگم بھاگ جوتے صاف کرنا، منہ پر ٹھنڈے پانی کے چار چھینٹے مارنا، کپڑے بدلنا، گلی کی نکڑ پر واقع ریستوران سے کوئک بریک فاسٹ لینا اور دفتر کو بھاگنا۔ فائلیں، میٹنگز، ٹیلیفون، فیکس، ڈِسکشن ... شام چار بجے تک اس کا دماغ اور جسم دونوں دُکھنے لگتے۔ دوپہر کا کھانا دفتر کے کیفی ٹیریا سے کھایا کرتا اور شام کو کسی ہوٹل میں بیٹھ جاتا جہاں سارے دن کا گھسا ہوا اخبار ہوتا اور کھانا بھی۔ اس کی شامیں اور راتیں ادارے کی طرف سے ملے ہوئے فلیٹ میں گزرتیں۔ لگے بندھے شب و روز بسااوقات اسے شدید کوفت میں مبتلا کر دیتے اور اس کا جی چاہتا کہ وہ فلیٹ سے کہیں بھاگ جائے، چند گھنٹوں کے لئے ہی سہی۔ وہ زیادہ سے زیادہ دور بھاگتا تو اگلے چوک والے سینما ہال تک اور وہ بھی مووی دیکھنے کو نہیں، فلیٹ سے باہر رہنے کو۔ دفتر سے باہر رہنے کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا کوئی ایسا دوست نہ تھاجس سے وہ گھنٹوں گپ لگا سکے اور نہ اس نے عشق کا روگ پالا تھا۔ مہ نور سے اس کی نسبت بہت پہلے طے ہو چکی تھی جب وہ ابھی لڑکا ہی تھا۔

وہ بچپن سے پڑھنے لکھنے کی طرف مائل تھا۔ گاؤں میں پلا بڑھا، گرد و غبار سے اٹی گلیوں میں آتے جاتے وہ کبھی نصاب میں شامل کوئی نظم گنگنایا کرتا اور کبھی ریاضی کے سوالوں میں الجھا ہوا گزر جاتا۔ اسے گھر پہنچنے کا احساس تب ہوتا جب بے جی بظاہر غصے میں اس سے پوچھا کرتیں ’’توقیر! یہ کیا ہے؟ آج بھی تیری جوتی کو گوبر لگا ہے اور پجامہ گارے سے بھرا ہے۔ کیا کرتا پھرتا ہے تو؟ گھر میں تو صابن بھی نہیں کہ میں ان کو دھو کر ڈال دوں۔ کل پھر ماسٹر موا مارے گا گندے کپڑے دیکھ کر ....‘‘ بے جی یک دم خاموش ہو جاتیں۔ ان کی یہ حسرت کہ بیٹا صاف ستھرے دھلے دھلائے کڑکڑاتے لباس میں نظر آئے، دو موٹے موٹے آنسوؤں کی صورت پلکوں تک آتی اور بے شمار بے تعبیر سپنوں کی طرح وہیں تحلیل ہو جاتی۔ وہ پھر کہتیں: ’’پر ماسٹر بے چارے کا بھی کیا قصور، وہ تو بچوں کو صفائی کا درس دیا کرتا ہے۔ اب وہ کیا جانے کہ ... خیر چھوڑ! بستہ رکھ اور روٹی کھا لے، سکول کا کام بھی کرنا ہے۔ آ میرا بچہ، شاباش‘‘۔ وہ بے جی کے گداز سینے میں سر چھپا کر آنکھیں موند لیا کرتااور بے جی کے بازو اس کے گردن اور پشت کو مضبوط قلعے کی طرح اپنی پناہ میں لے لیتے۔ جواباً اس کے ننھے بازو بے جی کے جسم کے گرد حصار بنا لیتے جیسے کہہ رہے ہوں: بے جی کیا ہوا، اگر ابا نہیں رہے، میں جو ہوں ! بس مجھے ذرا بڑا ہونے دے، کسی غم کی کیا مجال جو تجھ تک پہنچ سکے۔

وہ بے جی کو چپکے چپکے روتا محسوس کرتا مگر اس کا بھولا ذہن اسے زکام سے تعبیر کرتا: ’’ بے جی، آپ کو پھر زکام ہو گیا ہے؟ حکیم چاچا سے دوائی لا دوں؟‘‘ بے جی بے ساختہ مسکرا دیتیں اور ان کے لبوں سے دعاؤں کا گویا چشمہ پھوٹ پڑتا۔ آنسوؤں اور مسکراہٹوں کے بادل اور بجلی جیسے ہزاروں امتزاج اور لاکھوں دعاؤں کے اسی کھیل تماشے میں وہ گاؤں کے پرائمری سکول سے فارغ ہوا اور قصبے کے ہائی سکول تک پہنچا۔

ماسٹر فتح محمد، جن سے وہ پرائمری تک پڑھا تھا، ریٹائر ہو چکے تھے مگر توقیر کے ساتھ ان کا قلبی تعلق بن گیا تھا۔ وہ ہر قدم پر اس کی راہ نمائی کرتے، اچھی اچھی باتیں بتاتے اور ہمیشہ نیکی کی ترغیب دیتے۔ جیسے تن کے اجلے تھے، ویسے ہی من کے بھی اجلے تھے۔ گاؤں بھر میں ان کی جیسی عزت تھی شاید لمبردار کی بھی نہیں تھی اور نہ کسی زمیندار کی، حالانکہ چوہدری کرم الٰہی جیسے دو، دو مربعوں کے مالک بھی پڑے تھے۔ ماسٹر جی کا گھرانا بہت امیر تو نہیں البتہ کھاتا پیتا ضرور تھا۔ بھلے وقتوں میں منشی فاضل کر کے گاؤں کے سکول کی بنیاد رکھی اور یوں گاؤں کے پہلے ’’منشی جی‘‘ اور پھر ’’ماسٹر جی‘‘ کہلائے۔ ملازمت کے پہلے دن سے ریٹائر ہونے تک اس سکول میں رہے۔ کہا کرتے تھے: ’’مجھے اس درس گاہ کی اینٹوں سے بھی پیار ہے اور پودوں سے بھی، اور بچوں کا تو کیا کہنا!‘‘

توقیر کے ابا زندہ تھے تو ماسٹر جی سے ان کی گاڑھی چھنتی تھی۔ وہ دونوں گھنٹوں باتیں کرتے: ’’یار نور دینا! تو باتوں سے ان پڑھ نہیں لگتا۔ ایسی بات کرتا ہے کہ کالج کے پروفیسر بھی سنیں تو استاد مان لیں۔‘‘ ’’اوہ، چھڈ یار فتح محمدا، یہ تو نچوڑ ہے زندگی بھر کی غلطیوں کا اور بزرگوں کی باتوں کا، بابے دادے سے سنا ہے، ورنہ یار! ہم تو کھوتے ہیں، اندھے۔ ماں نے نور دین نام رکھا، پر یار، نہ تو دین کی سمجھ آئی اور نہ علم کا نور پلے پڑا، میرا کیا بنے گا یار؟‘‘ اس کی آواز جیسے بیٹھ جاتی۔ ماسٹر جی کہتے:’’نور دینا! تو اِس طرح سوچتا ہے نا، شکر کر۔ آج کل تو کوئی سوچتا بھی نہیں!‘‘۔

انہوں نے بے جی کی اخلاقی مدد تو کی، مالی مدد کرنا چاہی تو بے جی نے نرمی سے ٹال دیا: ’’بھاء فتح محمدا! بیوہ ہوں، غریب ہوں۔‘‘ پھر بیٹی کی طرف اشارہ کر کے بولی: ’’ یہ کملو، توقیر سے بڑی ہے۔ لگر کی طرح بڑھ رہی ہے، پر بھائی، خدا کا شکر ہے ایسے تیسے بِیت رہی ہے۔ بچہ کسی کام جوگا ہو گیا تو سب دھونے دھل جائیں گے۔ غریبی کٹ جاتی ہے بھاء، بدنامی نہیں کٹتی۔ میں بھلا چاہوں گی کہ کوئی میری اولاد پر انگلی اٹھائے۔ تو نے ہمارا درد ونڈایا ہے، خدا تجھے اور بھی خوشیاں دے، مجھے کچھ نہیں چاہئے۔ توقیر کا ابا بہشتی تیرا یار تھا۔تجھے پتہ ہے اس کا سبھاؤ کیسا تھا۔ یہ، اس لڑکے کا سبھاؤ بھی ویسا ہی ہے۔ کسی نے مذاق میں بھی کچھ کہہ دیا تو مر جائے گا میرا بچہ یا کسی کو مار دے گا۔ بڑا انکھی ہے باپ کی طرح۔ ایک دن میں نے کہہ دیا: پتر، تیرا چاچا زکات دیتا ہے ہر سال، اس سے کہہ ہماری کچھ مدد کر دے۔ کہنے لگا: بے جی سکول چھوڑ دیتا ہوں دیہاڑی کر لوں گا، کسی زمیندار کے پاس نوکر رکھوا دے، پر، یہ جو تو نے کہا ہے نا، مجھ سے نہیں ہو گا۔ میں نے زور دے کر کہا تو روٹھ گیا، دو دن پورے روٹی نہیں کھائی میرے پتر نے۔ اب تو ہی بتا وِیر! ماں ہوں نا، کلیجہ پاٹنے لگا تھا میرا۔ وہ دن، آج کا دن، شام کو سکول سے آ کے اِدھر اُدھر کوئی چھوٹا موٹا کام کر لیتا ہے اور رات ساری بیٹھ کر پڑھتا ہے، دیوے کی روشنی میں۔ نہ یار، نہ بیلی، نہ کھیڈ نہ اکھاڑہ۔ کہتا ہے: کسی سے مانگوں گا نہیں!دو مہینے چھٹیوں والے، شہر چلا گیا، جُھورے ترکھان کے ساتھ، روئی کے کارخانے میں نوکری کر لی، کام بھاری تھا، روزے آ گئے تو میں نے اٹھوا دیا کہ روزہ رکھ کے سارا دن جان مارے گا تو پڑھے گا کیسے۔ بڑی منتوں سے ٹالا ہے میں نے۔ بھاء، آپ خوش رہو، میں راضی، میرا رب راضی۔‘‘
’’دیکھ بہن! تو میرے یار کی عزت ہے سو میری بہن ہے۔ میرے بارے غلط گمان نہ کرنا۔ تو اِس طرح کر کہ بیٹی کے ہاتھ پیلے کر دے۔‘‘
’’لو! پیسہ نہ دھیلا، کردی میلہ میلہ۔ بیٹی کا ڈولا اٹھوانا سوکھا ہے بھلا؟ رب سبب بنائے گا، کر دوں گی۔‘‘
’’کملی بہن! خدا نہ کرے، کل تجھ بوڑھی جان کو کچھ ہو گیا ؟.... اگر میں تجھے کچھ قرضہ دے دوں تو؟‘‘
’’پر اتارے گا کون، وِیر!‘‘
’’تیرا بیٹا جو ہے! وہ میرا قرض اتارے گا۔ بڑا لائق بیٹا ہے تیرا، بہن۔ تو بڑے نصیبوں والی ہے۔ میرے دونوں ہیں نا، مسرور اور تیمور، میں خود پڑھاتا ہوں ان کو! مگر سکول میں توقیر اُن کے بھی کان کاٹتا ہے، حالانکہ وہی جو سکول میں پڑھ لیا سو پڑھ لیا۔ اس کی حفاظت کرنا بہنا! یہ تو ہیرا ہے ... بلکہ بہن! اگر تو مذاق نہ سمجھے تو اپنا بیٹا مجھے دے دے۔‘‘
’’لے بھاء! تیرے بیلی کا پتر ہے پرایا تھوڑا ہے۔ تیری بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ میرا تو یہی سہارا ہے، تجھے دے دوں تو میں کہاں جاؤں گی؟‘‘
’’میری بھولی بہنا! میں ایسے تھوڑی کہہ رہا ہوں۔ میں اس کو اپنا بیٹا بناؤں گا، اپنی مہ نور کے بدلے ... کیا سمجھی؟ ‘‘
بے جی کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں ’’چھوڑ بھاء، آپ کھاتے پیتے لوگ ہو، آپ کو کمی ہے رشتوں کی؟ تُو اپنی چاند سی، نازوں پلی بیٹی ایک غریبڑے کے پلے باندھے گا؟ جس کا کوئی بھی نہیں، نہ انگ نہ ساک، نہ گھر نہ بوہا۔ ایک ماں ہے جو آج مری کل دُوجا دن‘‘
’’دیکھ بہن! کوئی کسی کے رزق کا ذمہ نہیں لے سکتا، یہ میرے رب کا قانون ہے۔ پر میں تو یہ جانتا ہوں کہ توقیر، جس کے ماں اور باپ کی شرافت کی قسم کھائی جا سکتی ہے، کل کا ایک بڑا آدمی ہے ....‘‘
’’بھائی! ایسے فیصلے یوں تھوڑی ہوتے ہیں؟ بہن فاطمہ کیا کہے گی اور بیٹی جس کا فیصلہ تو کرنے چلا ہے...‘‘
’’یہ بات لِکھ رَکھ، کہ آج سے توقیر میرا بیٹا ہے اور مہ نور تیری بیٹی! بس، اب میں چلا!‘‘ بے جی کو حیران چھوڑ کر ماسٹر جی اپنے گھر چلے گئے۔ اس طرح مہ نور جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا اس کی زندگی میں داخل ہوئی۔

توقیر نے دسویں کا امتحان دیا اور خاصی کڑی منزلوں سے گزر کر شہر میں ایک جگہ چپڑاسی بھرتی ہو گیا پھر دو تین سال بعد پکا ہو گیا۔ بہن کی شادی کو چند دن ہوئے تھے کہ بے جی کا بلاوا آ گیا، جیسے مزدور اپنا کام ختم کرلے تو اس کی چھٹی ہو جاتی ہے۔ طالب علم پرچہ حل کر لے تو پھر وہ کمرہ امتحان میں مزید نہیں بیٹھ سکتا۔ بے جی زندگی کا امتحان پاس کر چکی تھیں۔ توقیر کی ماں مر گئی، دعاؤں کا سرچشمہ سوکھ گیا۔ وہ نرم و گداز سینہ جو اس کی پناہ گاہ تھا، زمین نے اسے اپنے سینے میں چھپا لیاتو ماسٹر فتح محمد کی اہلیہ، مہ نور کی امی توقیر کی اماں بی بن گئیں۔ اور وہ جو غم اور محبت کی دھوپ چھاؤں میں پلا بڑھا تھا اور ملازمت کی چکی پیسا کرتا تھا، اس نے کتابوں میں اماں ڈھونڈ لی۔ اور اسی ادارے میں قدرے بہتر عہدے پر فائز ہو گیا۔

ادھر مہ نور لڑکپن سے مٹیارپن میں داخل ہوئی تو اُس کی آنکھوں میں جگنو ٹمٹمانے لگے۔ مسرور اپنی بیگم کے ساتھ ولایت میں جا بسا۔ تیمور کی شادی اماں بی نے بڑے چاؤ سے اپنی سگی بھانجی سے کی۔ بھانجی نے اپنا گھر تو سنبھال لیا مگر اماں بی کو قبول نہیں کیا۔ ماسٹر جی بیمار رہنے لگے۔ توقیر کا گاؤں سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ مگر، بے جی کی تربیت نے اسے سمجھا دیا تھا کہ مناسب وقت تک اپنے اور مہ نور کے درمیان فاصلہ رکھے۔ سو وہ جبراً شہر میں بس رہا اور دل کو گاؤں میں چھوڑ دیا۔ ماسٹر جی ایک رات ایسے سوئے کہ صبح نہ ہوئی۔ اماں بی تنہائی کے خوف سے مہ نور کو بیاہنے میں تاخیر کر رہی تھیں اور وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا۔ تنہائی کی آگ میں جلتا رہا۔

لیٹے لیٹے اُسے کچھ یاد آ گیا۔ اس کی جیب میں خوشبوؤں میں بسا ایک خط تھا جو اسے آج کی ڈاک سے ملا۔ ایسا خط جو روشنی کا پیامبر ہو اور خوشبو ساتھ لایا ہو، دفتر میں بیٹھے پڑھ لیا جائے، یہ توقیر سے نہ ہو سکتا تھا۔ وہ جھٹکے سے اٹھا، لفافہ چاک کیا اور .... دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے خط پر نظریں جمائے ہوئے آواز دی ’’آ جائیے‘‘۔
’’کیا میں اندر آ سکتی ہوں؟‘‘ ایک بلبل سی چہک اٹھی یا بادِ صبا گھنے جنگل میں سیٹی بجاتی ہوئی داخل ہوئی۔ ایک لمحے کو اسے لگا جیسے مہ نور سامنے موجود ہو۔ نہیں! یہ عنبر تھی جو اپنے ہونٹوں پر ایک مانوس اور پر اعتماد مسکراہٹ سجائے ہوئے تھی۔ وہ اسے دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔
مہ نور کی مسکراہٹ میں ایک شرارت بھری نرمی ہوتی ہے اور یہاں ایک مردانہ قسم کا اعتماد۔ اس کی آنکھیں جھکی رہتی ہیں اور یہاں آنکھیں بولتی دکھائی دیتی ہیں۔ اُس نے لامبے گھنے بالوں کی گھٹا سجائی ہوتی ہے اور اِس نے بڑے سلیقے سے کٹوائے ہوئے ہیں۔ فرق تو ہونا تھا، وہ ایک سکول ماسٹر کی بیٹی جو گاؤں میں پلی بڑھی اور بی اے تک تعلیم حاصل کر کے گھر بیٹھ گئی اور یہ ... مِس عنبر جمال شہر کے مشہورو معروف بوتیک کے مالک سیٹھ جمال کی اکلوتی صاحب زادی، ایم ایس سی جرنلزم، مقامی اخبار کے ثقافتی ایڈیشن کی کرتا دھرتا، گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ہوئے۔ لیکن کوئی بات ایسی ضرور تھی جو توقیر کو الجھائے دیتی تھی۔

عنبر سے اس کی رسم و راہ کچھ زیادہ پرانی نہیں تھی۔ چند ماہ پہلے توقیر وقفے کے دوران کیفی ٹیریا میں بیٹھا تھا کہ جدید طرز کے لباس میں کسی کسائی ایک خاتون اس کی میز پر آگئی: ’’ایکسکیوز می پلیز! آپ توقیر دانش ہیں؟ اس کی آواز بھی اس کے چہرے کی طرح خوبصورت تھی۔ وہ چہرہ جس کے بارے میں اسے یقین تھا کہ پہلے کبھی نہیں دیکھا، مگر مانوس سا لگ رہا تھا ... کیوں؟ یہ اسے معلوم نہیں تھا۔
’’جی، جی فرمائیے میں ہی توقیر دانش ہوں۔ تشریف رکھئے‘‘۔ وہ شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کے مقابل بیٹھ گئی۔ یوقیر نے پوچھا ’’چائے، یا کافی؟‘‘
’’اوہ نو! تھینک یو‘‘ یہ کہہ کر گلاس میں پانی ڈالا اور اپنے گلاب گوں ہونٹوں سے لگا لیا۔ توقیر اسے دیکھے جا رہا تھا۔ ’’مجھے آپ سے انٹرویو کرنا ہے‘‘ وہ گویا ہوئی ’’میرا نام عنبر جمال ہے، میں مقامی اخبار میں کام کرتی ہوں، ادب و ثقافت کا شعبہ میرے پاس ہے‘‘۔
’’بہت خوب! ویسے محترمہ، میں شاید اتنا بڑا آدمی تو نہیں جس نے ثقافتی یا ادبی حوالے سے کوئی تیر مارا ہو‘‘
’’آپ کا ایک نام ہے مسٹر دانش! شاعر، نقاد اور افسانہ نگار کے طور پر آپ ایک شناخت رکھتے ہیں۔‘‘
’’بائی دا وے، شاعر لوگ خاصے کھسکے ہوئے سمجھے جاتے ہیں۔ آپ کو کس احمق نے مجھے انٹرویو کرنے کا مشورہ دیا ہے‘‘
وہ ہنسی تو جیسے گھنٹیاں سی بجنے لگیں۔ اس نے توقیر ہی کے لہجے میں جواب دیا: ’’چیف ایڈیٹر صاحب نے، جو بہت زیرک قسم کے احمق ہیں اور اپنے جیسے احمقوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔‘‘ اس ترکی بہ ترکی جواب اور اس کی معنویت سے وہ بہت محظوظ ہوا۔ وہ بولی: ’’ آپ مجھے وقت دیں، یا ابھی .... میرے پاس ریکارڈر موجود رہتا ہے۔‘‘
’’ایک منٹ‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولا۔ اس نے کاؤنٹر پر آ کر کسی سے فون پر مختصر سی گفتگو کی، استقبالیہ کلرک سے کچھ کہا اور واپس پلٹتے ہوئے بولا ’’آئیے مِس جمال، باہر لان میں بیٹھتے ہیں۔ عنبر کا ’اجنبی مگر مانوس سا‘ چہرہ اسے متواتر الجھا رہا تھا۔ انٹرویو رسمی تھا، تاہم عنبر کے لہجے، غیر معمولی سوالوں اور نپی تلی گفتگو نے اسے غیر رسمی بنا دیا تھا۔ ادب سے توقیر کا تعلق لڑکپن سے ہی تھا۔ وہ شاعری توجہ اور شوق سے پڑھا کرتا۔ سکول میں اس نے مصرعے سیدھے کرنے شروع کر دئے تھے، پھر شہر میں آ جانے کے بعد کچھ ادب دوستوں سے علیک سلیک ہو گئی اور وہ باضابطہ ادیب بن گیا۔ دانش تخلص رکھا اور اپنی زندگی کے تجربات نوکِ قلم پر لانے لگا۔ وہبی ذہانت، صاف گوئی اور براہِ راست انداز کی بنا پر وہ جلد ہی نمایاں نظر آنے لگا۔

انٹرویو ختم ہوا تو مس عنبر جمال یہ وعدہ کر کے چلی گئی کہ اخبار وہ خود پہنچا دے گی۔ چند دن بعد غیر متوقع طور پر وہ انٹرویو والا شمارہ لئے اس کے فلیٹ پر آ گئی۔ ایک دو بار ایسا ہوا۔ وہ کبھی فون کر لیتی، کبھی دفتر میں کبھی فلیٹ پر ہائے، ہیلو کر جاتی۔ توقیر اس کی شخصیت کے سِحر میں آتا گیا۔ گفتگو میں وہ اس حد تک بے تکلف ہو گئے کہ ’’آپ‘‘ ان کے مابین ممنوع قرار پایا۔ ایک دوسرے کو نام کے پہلے حصے سے مخاطب کرتے۔
’’ہیلو!‘‘ عنبر نے اس کے چہرے کے سامنے انگلیاں نچاتے ہوئے کہا: ’’کہاں کھو گئے ہو توقیر؟ یہ میں ہوں، عنبر۔‘‘ اور وہ ذہنی طور پر حاضر ہو گیا۔
’’ارے، تم جوتوں سمیت بستر سے لٹکے ہوئے ہو، خیریت تو ہے؟‘‘
’’تھی خیریت، صحافن بی بی! مگر اب نہیں ہے‘‘
’’یہ صحافن کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’ہوتا نہیں ہوتی ہے، جیسے نائن، دھوبن، موچن ....‘‘
’’بس بس! بکواس نہیں! کم از کم پوچھ تو لیا ہوتا میں کیوں آئی ہوں اور .... جب کوئی آئے تو چائے پانی بھی پوچھا کرتے ہیں، جنابِ دانش مند!‘‘
’’جی! فر ... ما ... ئیے! اپنے تشریف آور ہونے کا مقصد بھی اور یہ بھی کہ آپ چائے نوشِ جاں فرمائیں گی، یا کافی، یا پھر وہی کافی ہے جسے آپ اب سے ایک لمحہ قبل بکواس قرار فرما چکی ہیں۔‘‘
’’یو شٹ اپ اینڈ سٹ ڈاؤن!‘‘ یہ کہہ کر وہ صوفے پر بیٹھ گئی۔
’’ٹھیک ہے، میں سٹ ڈاؤن ہو جاتا ہوں ‘‘ وہ آلتی پالتی مار کر فرش پر بیٹھ گیا ’’اب تم چائے بناؤ اور مجھے بھی پیش کرو، کہ یہ خواتین کا شعبہ ہے‘‘
’’کیا کہا؟ کیا میں تمہاری باورچن ہوں؟ ‘‘
’’ارے نہیں! باورچن نہیں صرف صحافن!‘‘
’’یو، کیری آن دِس نان سینس، میں کچن میں جا رہی ہوں۔‘‘
جب تک چائے بنتی، وہ مہ نور کا خط پڑھ چکا تھا، عنبر دونوں ہاتھوں میں چائے کے مَگ لئے کچن سے برآمد ہوئی: ’’ یہ کیا ہے؟‘‘
’’یہ کاغذ ہے‘‘
’’صرف کاغذ؟‘‘
’’نہیں، خط ہے۔‘‘
’’صرف خط؟‘‘
’’نہیں، مہ نور کا ہے‘‘
’’واہ! تو، دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی!‘‘
’’نہیں لگی تو لگا دو گی بی بی، تم! ویسے میں آج کل آتش فشاں بنا ہوا ہوں‘‘۔
عنبر نے اس کے جملے کو ان سنا کرتے ہوئے پوچھا ’’کیا لکھا ہے تمہاری چاندنی نے؟‘‘
’’وہی، اماں بی کا مسئلہ بیماری کا، انہیں اب بے ہوشی کے دورے پڑنے لگے ہیں، بھابی شاہینہ کی چخ چخ، بھائی کو پروا نہیں اور باقی ... پرسنل‘‘ اس نے لفظ ’’پرسنل‘‘ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے، پرسنل صاحب! یہ لو چائے پیو‘‘ اس نے مگ تپائی پر رکھتے ہوئے کہا ’’بائی دا وے، تم اسے بیاہ کر کیوں نہیں لے آتے یہاں؟‘‘
’’یہاں، اس فلیٹ میں؟ باؤلی ہوئی ہو کیا؟‘‘
’’یہاں ....‘‘ عنبر نے نقل اتاری ’’تو کیا تاج محل بنواؤ گے میرے شہزادے؟ تم اپنی پرسنل کو چائے میں گھول کر پیو ....اور....‘‘ اس کے منہ سے ’’سی‘‘ نکلی۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’کچھ نہیں چائے بناتے ہاتھ جل گیا تھا، جلن ہو رہی ہے۔‘‘
’’تو، احتیاط کرنی تھی نا!‘‘
’’اچھا! ایک: چائے بنا کر دی، دو: ہاتھ جلوایا، تین: تمہاری تقریر بھی سننی ہوگی! ...‘‘
’’آئی ایم سوری عنبر!‘‘
’’ڈونٹ بی فارمل توقیر!‘‘
’’تم نے خود کہا تھا ہم دونوں میں کوئی بھی فارمل نہیں ہے اور نہ نارمل ہے‘‘ توقیر کی آواز کسی کنوئیں سے آتی محسوس ہوئی۔ ’’ایک سیٹھ کی صاحبزادی اور ایک معمولی دفتر کے اہل کار میں دوستی اور وہ بھی اپنی ہی نوعیت کی! ہے نا عجیب بات؟ سن رہی ہو عنبر؟‘‘
’’کہتے رہو‘‘
’’ہم دونوں کھسکے ہوئے ہیں ... ویسے کیا تمہیں یقین ہے کہ تم مجھے چاہتی ہو یا میں تمہیں؟‘‘
’’میں تمہیں چاہوں گی؟ منہ دھو رکھو اپنا!‘‘
’’دھویا تو تھا آج صبح ... کیوں کیا میرے منہ پر گڑ لگا ہے جو تم بھنبھنا رہی ہو؟ اب ذرا چونچ بند رکھو اور میری بات سنو، ہو سکے تو جواب بھی دے دینا۔ آج مجھے بہت کچھ کہنا ہے‘‘
’’کہتے رہو‘‘
’’ہے نا عجیب بات عنبر، کہ ہم محبت کے دیوانے بھی نہیں، اور ہمارے درمیان کوئی ایسی بات بھی نہیں جس کو چھپانا پڑے۔ تم ایک سیٹھ کی اخبار نویس لاڈلی اور میں ایک کلرک ... ہاں، یہ کلرکی ہی تو ہے!! .... ہاں، ایک ادب کا تعلق ہے، لفظ کا رشتہ۔ کیا یہ ایسا ہی مضبوط رشتہ ہے؟ کیا کبھی تم نے غور کیا کہ اگر ... کیا تم بتا سکتی ہو کہ ہم ایک دوجے کے کیا لگتے ہیں؟ پلیز! برا مت منانا، کیا ہم دونوں الو کے پٹھے ہیں؟‘‘
’’شاید، مگر الو کون ہے؟‘‘
’’ناؤ، آئی ایم سیریئس پلیز‘‘
’’ارے تم .. تم سیریئس بھی ہو سکتے ہو؟‘‘
’’پلیز عنبر، میں پتہ نہیں کیا کہنا چاہ رہا تھا، مہ نور کے خط نے مجھے بے چین کر دیا ہے، آؤ کہیں سے اسے فون کرتے ہیں۔‘‘
’’فون تم کرو! وہ میری منگیتر تو نہیں‘‘
’’وہ تو تم بھی نہیں ہو، خیر آؤ‘‘۔

فلیٹ سے پانچ منٹ کی ڈر۱ئیوپر ایک پی سی او سے توقیر نے ماسٹر جی کے گھر کا نمبر ملایا۔ ’’ہیلو!‘‘ دوسری طرف ایک کوئل سی کوکی۔ توقیر کے کان تو کان روح تک مٹھاس سے بھر گئی۔ ’’مہ نور! یہ میں ہوں، توقیر۔ کیسی ہو؟‘‘
اسے شدید حیرت کا جھٹکا لگا جب جواب میں اسے ایک سسکی سنائی دی ’’توقیر! شکر ہے آپ کا فون آ گیا۔ میں بہت پریشان ہوں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ آپ فوراً آ جائیں‘‘ وہ تقریباً رو رہی تھی۔
’’کیا ہوا مہ نور، تم رو رہی ہو، خیریت تو ہے؟‘‘
’’نہیں نہیں، نہیں تو! میں رو تو نہیں رہی۔ وہ، وہ، امی کی طبیعت بہت خراب ہے۔‘‘
’تیمور کہاں ہے؟‘‘ توقیر نے بے چینی سے پوچھا۔ اس کے اندر کا طوفان اس کے تنے ہوئے چہرے پر صاف نظر آ رہا تھا۔
’’وہ؟ جہاں اسے ہونا چاہئے!‘‘ مہ نور نے زہر خند لہجے میں کہا ’’شاہینہ بیگم کو لے کر کہیں گئے ہوئے ہیں تیمور صاحب، سیر کے لئے! انہیں تو امی کی بھی پروا نہیں...‘‘
’’اف خدایا! نور! تم ...‘‘
’’آپ فون بند نہ کریں میں ابھی ...‘‘ ریسیور میز پر رکھا گیا۔ دوڑتے قدموں کی آواز کو توقیر بخوبی سن رہا تھا ’ امی! امی... یہ لیں پانی! امی ! توقیر کا فون ہے، میں نے انہیں بلایا ہے‘ ایک زوردار چیخ اور اکھڑی ہوئی سانسوں میں مہ نور کی آواز آئی ’’توقیر خدا را جلدی آئیے‘‘
’میں راستے میں ہوں نور! حوصلہ رکھو اور خود کو سنبھالو‘‘ ادھر سے فون بند ہو گیا۔
’’عنبر! جلدی کرو مجھے کسی ویگن سٹینڈ تک پہنچا دو، فوراً‘‘
’’لگتا ہے اماں بی کی طبیعت بہت خَراب ہے اور شاید گھر پر کوئی مرد نہیں، ہے نا!‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا ’’اچھا، تم سامنے ٹک شاپ سے پینے کو کچھ لے آؤ، میں ڈیڈی کو فون کر لوں‘‘
’’ٹو ہیل وِد ٹک شاپ! پلیز عنبر ہری اپ!‘‘ وہ دیوانہ ہو رہا تھا۔
’’جاؤ! ہم کسی ویگن سٹینڈ پر نہیں جا رہے، تمہارے گاؤں جا رہے ہیں۔ ناؤ گو!‘‘
عنبر کا لہجہ اس قدر حتمی تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکا، رسماً بھی نہیں۔

ایک بڑے سے شاپنگ بیگ میں مختلف قسم کے پیکٹ، ٹِن اور پانی کی بوتل اٹھائے وہ پی سی او میں داخل ہوا توعنبر اپنے ڈیڈی سے محوِ گفتگو تھی۔ ’’یس
ڈیڈ، ایک فیچر سٹوری ہے... میں توقیر کے ساتھ جا رہی ہوں ... نو لَوّ سٹوری ڈیڈ! ... وہ بالکل میمنا ہے، بے ضرر! بھیڑ کے بچے کی طرح .... جی! ڈیڈی .... یس ڈیڈ وہ ہے ایک سٹوری۔ آئی کانٹ فورسی کہ اس کا انجام کیا ہو گا، مے بی ٹریجڈی، مے بی کامیڈی، مے بی ٹریجی کامیڈی... گڈ لک ڈیڈ! تھنک یو‘‘
اس نے ریسیور رکھا اور توقیر کی طرف مڑی ’’ریڈی بوائے؟ .. گڈ! چلو میں خود ڈرائیو کروں گی، یو آر ناٹ فِٹ۔ ویسے بھی ...‘‘ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ توقیر کو گاڑی چلانا آتا ہی نہیں تھا! وہ کسی روبوٹ کی طرح ہر کمانڈ پر عمل کر رہا تھا۔ گاڑی شہر کے رش سے نکل آئی تو وہ بولا ’’کیا ضرورت تھی خود میرے ساتھ چلنے کی؟‘‘
’’وہاٹ!‘‘ وہ چنگھاڑی ’’پلیز شٹ اپ اینڈ ٹیک اٹ ایزی، خود کو سنبھالو! ...یو آر ناٹ اے میڈِن!‘‘
کچھ دیر تک خاموشی رہی۔ گاڑی کی گھر گھر گھوں گھوں ماحول کو اداس کئے دے رہی تھی۔ عنبر نے اداسی کو توڑا ’’تم بہت چاہتے ہو؟ اماں بی کو بھی اور ... مہ نور ... کو بھی؟‘‘
’’ہاں، اور یہ تم اچھی طرح جانتی ہو‘‘
’’تبھی! اسی لئے میں نے تمہارے ساتھ آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب تم کچھ بہتر ہو، فون پر بات کرتے وقت تم ڈی کمپوز ہو چکے تھے، اور .... جب تم نے بات ختم کی، اس وقت تمہارا چہرہ! .... او مائی گاڈ! دیٹ واز اے ڈریڈفل فیس توقیر! میں تمہیں اکیلا چھوڑ دیتی، ایسے میں؟‘‘
توقیر نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ وہ سوچنے لگا ... کیا ہے یہ! یہ کون سا جذبہ ہے، اگر محبت نہیں تو؟ اتنی پروا ویسے نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ عنبر؟ مہ نور؟.؟ میں نے تو کبھی ایسے نہیں سوچا۔ شاید مہ نور میرے اندر سما چکی ہے اس لئے؟
عنبر نے جیسے اس کی سوچ پڑھ لی ہو ’’ڈونٹ بی سِلّی توقیر! یہ محبت وغیرہ نہیں ہے، دس از اے سمپل کومٹ منٹ اینڈ .... تم اپنا دماغ مت تھکاؤ‘‘ وہ ایک لمحے کو خاموش ہوئی اور پھر بولی ’’ فلیٹ پر جو سوال تم نے کئے تھے، ان کا جواب جاننا چاہو گے؟‘‘
’’کیا حرج ہے؟‘‘ وہ بولا۔ وہ کسی حد تک سنبھل چکا تھا۔
’’میں بہت چھوٹی تھی جب میری اطلاع کے مطابق ماما مر گئیں۔ مجھے ڈیڈی نے پالا ہے، بہت محبت سے، بڑے لاڈ سے میری شخصیت کی تعمیر کی ہے۔ میں کسی قدر سمجھدار ہوئی تو پتہ چلا ماما مری نہیں، ڈیڈی نے انہیں طلاق دی تھی۔ سنی سنائی باتوں کو جوڑ کر میں نے ایک کہانی ترتیب دی ہے، سنو گے؟‘‘
’’ہوں، سن رہا ہوں‘‘
’’میری ماما تھوڑی بہت پڑھی لکھی تھیں اور ڈریس ڈیزائن جانتی تھیں۔ ان کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا، جس کلاس کے لوگ سفید پوشی قائم رکھنے کے لئے جان توڑ محنت کرتے ہیں۔ نام تھا ان کا فاطمہ ... ‘‘
توقیر کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور اس کی آنکھوں کے سامنے اماں بی، مہ نور اور عنبر کے چہرے گڈمڈ ہونے لگے۔ عنبر کی بات جاری تھی ’’ڈیڈی ان دنوں بزنس ایڈمنسٹریشن کے آخِری سال میں تھے۔ میرے دادا گارمنٹ فیکٹری چلاتے تھے اور کاریگر بھی اپنے رکھتے تھے، مرد بھی عورتیں بھی۔ فاطمہ، آئی مین ماما، بھی دادا کے سٹاف میں تھیں۔ ڈیڈی ان پر ریجھ گئے۔ اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے ہر بات منوا لیتے تھے۔ انہوں نے کلاس ڈفرنس کے باوجود فاطمہ سے شادی کر لی، مگر...‘‘
’’مگر کیا؟ ‘‘
’’روپے کے زور پر ایک تتلی پکڑ لی اور ماما سے دل اچاٹ ہونے لگا۔ تب تک میں پیدا ہو چکی تھی۔ میرا نام عنبر ماما نے رکھا۔ ایک دن ڈیڈی نے کوئی الٹی سیدھی ہانک دی ’تو مزدوری کے لئے آئی تھی، میں نے تجھے ورکشاپ سے اٹھا کر دل میں بسایا‘ وغیرہ وغیرہ، وہی ڈائلاگ جو تم کئی فلموں میں سن چکے ہو گے‘‘
’’ویری سَیڈ‘‘
’’ماما کو یہ بات کھا گئی اور معاملہ طلاق پر ختم ہوا، مجھے ڈیڈی نے رکھ لیا تھا، بائی فورس‘‘
توقیر نے ڈیڈی کے کردار پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے، پوچھا ’’ اور اس تتلی کا کیا ہوا؟‘‘
’’اُڑ گئی!جب اس کے رنگ پھیکے پڑ گئے تو ڈیڈی نے اسے ریجیکٹ کر دیا ... اینڈ شی واز ناٹ اے فیتھ فل وائف‘‘
توقیر عنبر کے بے رحمانہ تبصرے پر ششد رہ گیا۔ اس نے پوچھا ’’تم نے ڈیڈی سے ماما کے مسئلے پر کبھی بات کی؟ وہ کہاں گئیں؟‘‘
’’نو! مجھے نہیں معلوم۔ میں نے اپنے طور پر کچھ معلوم کیا ہے مگر شاید ابھی .. خیر چھوڑو ، اپنے والدین کے پاس چلی گئی ہوں گی‘‘
’’کہاں کے تھے ان کے والدین؟‘‘
’’کسی گاؤں کے تھے ...فارگیٹ اٹ ناؤ‘‘
’’مان لو، کہ اس ٹاپک پر بات کرنے کی جرأت نہیں ہے تم میں، ورنہ تم بہت کچھ جانتی ہو، مجھے نہ بتانا چاہو تو نہ بتاؤ‘‘
’’مان لیا، ایسا ہے۔ توقیر! یہ بات مجھے کوئی اور نہیں کہہ سکتا تھا سوائے تمہارے۔ تم صاف آدمی ہو۔ آئی ایڈمٹ اٹ، میں نے مردوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے، ڈیڈی سمیت! سب چھچھورے ہیں۔ جو ہاتھ یا زبان نہیں چلا سکتے ان کی آنکھیں بہت کچھ بتا دیتی ہیں۔ مائینڈ اٹ! میں نے تمہاری آنکھوں کو بھی صاف پایا ہے۔ یو آر این اَن کامن پرسن توقیر! آئی ایم پرؤڈ آف یو۔ مہ نور بہت لکی ہے، یو نو؟‘‘
’’تھینک یو، اور تمہیں واقعی نہیں معلوم کہ ماما کا کیا ہوا؟‘‘
’’آئی ڈونٹ نو، پتہ نہیں مجھے پورا، بٹ ، سٹل آئی وانٹ ٹو نو اِٹ‘‘
’’اور ڈیڈی نے پھر شادی کی؟‘‘
’’کی! مگر وہ عورت ڈیڈی کو ری جیکٹ کر گئی۔ ٹِٹ فار ٹَیٹ! وہ بہت زیادہ ماڈرن تھی۔مجھے جین پہننا اسی نے سکھایا تھا۔ آج کل ٹی وی ڈراموں میں آ رہی ہے، اور کچھ موویز بھی ہیں اس کی!‘‘
’’کون ... کون ہے وہ...؟‘‘ ’’ٹو ہیل وِد ہر۔ کم از کم یہ بات تو مجھ تک رہنے تو، میں یہ سب کچھ تمہیں کیوں بتا رہی ہوں؟ حالانکہ ہمارے درمیان کوئی ... سوری، میں بھی تمہارے لہجے میں سوچنے لگی۔ لیو اٹ، کوئی اور بات کرو‘‘
’’تم نے شادی کے بارے میں سوچا؟‘‘
’’کچھ نہیں دیکھا جائے گا۔ آئی ایم ناٹ سو کریزی‘‘
’’تو، تم نے مجھے کریزی کہا؟‘‘
’’تم تو کریزی بھی نہیں ہو! ابھی میں نے یہی کہا تھا تم ایک مختلف شخصیت ہو، میری طرح۔ ویسے تم اچھے شوہر ثابت ہو گے۔ تمہاری آج کی بوکھلاہٹ سے نوٹ کیا ہے میں نے‘‘
اور وہ یہ نہیں سمجھ سکا کہ یہ طنز ہے یا تعریف ’’دیکھو! مجھ پر طنز نہ کرو‘‘
’’آئی ایم سوری توقیر‘‘
’’ڈونٹ بھی فارمل عنبر... کیپ یور اون ورڈز‘‘

اسی طرح کی الجھی ہوئی نوک جھونک میں وہ گھر تک پہنچ گئے۔ توقیر کی پہلی دستک پر دروازہ کھلا گیا۔ مہ نور جیسے دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑی رہی ہو۔ ’’السلام علیکم‘‘ اس نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا ’’آپ آگئے ... شکر ہے‘‘
اس کی نگاہ عنبر پر پڑی اور سوال اٹھاتی ہوئی توقیر کی طرف مڑی ’’یہ عنبر ہے، اور عنبر! یہ مہ نور ہے ... باقی بعد میں .... اماں بی کیسی ہیں؟‘‘
’’سو رہی ہیں اس وقت، کچھ سکون ہے ... آئیے بہن، آپ، آئیے نا!‘‘ اس نے رستہ دیتے ہوئے کہا۔ عنبر نے مہ نور کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، اس کی تصویر بھی نہیں وہ اسے اپنی سی لگی، اپنی جیسی۔ اس کی پریشان آنکھوں میں حیرت کا امتزاج اسے گھائل کر گیا۔ اس کے قدم دہلیز پر جم گئے۔
’’چلئے بی بی! اندر چلئے‘‘ توقیر نے ٹوکا ۔ اسی وقت ایک کمزور سی آواز سنائی دی ’’نوری! نوری بیٹا!‘‘
’’آئی امی جی!‘‘ مہ نور نے فوراً جواب دیا اور پھر جیسے اُڑ کر کمرے میں پہنچ گئی۔ عنبر اس کا تڑپنا دیکھ کر تڑپ گئی۔
’’امی! توقیر آ گئے‘‘ اس کے لہجے میں سرور بھی تھا، چہکار بھی، چاہت بھی، اطمینان بھی۔ پھر وہ توقیر سے مخاطب ہوئی ’’جب سے آپ نے فون کیا ہے امی سکون میں ہیں۔ آپ لوگ امی سے باتیں کریں میں چائے بناتی ہوں‘‘ وہ جواب کا انتظار کئے بغیر کچن میں چلی گئی۔
گاؤں اور شہر کی تہذیب کا امتزاج پورے گھر میں نظر آ رہا تھا۔ مسہری پر ایک بزرگ خاتون نیم دراز تھیں۔ سر کے بال سلیقے سے گندھے ہوئے، سفید زیادہ، سیاہ کم، گورا چٹا چہرہ جو کبھی مثلِ ماہِ تمام رہا ہو گا، جھریوں سے بھر کر پر وقار ہو گیا تھا۔ آنکھوں میں زندگی پوری توانائی کے ساتھ موجود تھی۔وہ اٹھ بیٹھیں اور توقیر نے سلام کہتے ہوئے سر جھکا دیا، انہوں نے دونوں ہاتھوں سے ساری شفقت جیسے اس کے سر پر انڈیل دی۔
’’آؤ میرے بیٹے آؤ۔ تم تو بڑی جلدی آگئے، اچھا کیا! آؤ میرے پاس بیٹھو!‘‘ ان کے ایک ایک لفظ میں محبت کے کتنے سمندر موجزن تھے!

ان کی نظر عنبر پر پڑی: ’’آؤ بیٹی آؤ! تم توقیر کے ساتھ آئی ہو نا!انہوں نے اس کی طرف بھی ہاتھ اسی طرح بڑھا دئے جیسے توقیر کی طرف بڑھائے تھے۔ عنبر کو یہ سب کچھ خواب لگ رہا تھا۔ کیا زندگی میں ایسا بھی ہوتا ہے؟ اپنائیت کا یہ انداز تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ مہ نور سے اسے ایک انجانا سا خدشہ تھا کہ بھولی لڑکی نہ معلوم کیا سمجھ بیٹھے، مگر اس نے تو ایک دم اسے ’’بہن‘‘ کے رتبے پر فائز کر دیا تھا۔ اور اماں بی! ان کے لئے اس کا توقیر کے ساتھ آنا اعتبار کی سب سے بڑی سند ٹھہرا۔ اس نے بھی اپنا سر جھکا دیا اور اتنی ہی شفقتوں کی حق دار ٹھہری جتنی توقیر کو ملی تھیں۔
وہ مد و جزر کا شکار ہونے لگی: ’’واش روم کدھر ہے؟‘‘ اس سوال پر توقیر نے ایک بغلی دروازے کی طرف اشارہ کر دیا۔وہ غسل خانے میں گھس کر خود کوبکھرنے سے بچانے لگی۔ اس کے کان باہر کی آوازوں پر لگے تھے ... ’’اماں بی، آپ کو بٹھا دوں؟ اٹھئے شاباش! ارے آپ تو بالکل ٹھیک ہیں۔ آپ کی لاڈلی چائے کی یخنی بنا رہی ہو گی، پی کر ڈاکٹر کے پاس چلیں گے‘‘
’’شریر کہیں کا کہتا ہے میں بالکل ٹھیک ہوں تو پھر ڈاکٹر کے پاس کیا لینے جانا ہے؟‘‘
’’بس، آپ کی تسلی کے لئے! آپ نے کچھ کھایا پیا بھی ہے کیا؟‘‘
’’ارے ہاں بیٹا! یہ نوری ذرا رعایت نہیں دیتی، کڑی پابندی کراتی ہے‘‘
’’اچھا! بہت سختی کرتی ہے؟ اماں بی! میرا کیا بنے گا؟ ‘‘
اماں بی نے ہنستے ہوئے ڈانٹا ’’چل ہٹ! شرم نہیں آتی؟ بڑ بڑ بولے جا رہا ہے!‘‘
چائے کے برتنوں کی کھنک کے ساتھ مہ نور کمرے میں داخل ہوئی۔ توقیر نے شرارت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا : ’’اماں بی! مسرور کا کوئی فون آیا؟‘‘
’’چل شیطان کہیں کا، ندیدہ! میں جانتی ہوں تو کیوں پوچھ رہا ہے‘‘ اماں بی کا لہجہ زندگی سے بھرپور تھا ۔ جھڑکی میں پیار کا یہ انداز بھی عنبر کے لئے نیا مشاہدہ تھا، اور ’’امی انہیں باز رکھیں آپ، ہاں‘‘ یہ مہ نور کی آواز تھی محبت اور شکایت سے لبریز۔اماں بی نے بات بدل دی ’’یہ ٹیلیفون اسی مسرور کے لئے تو لگوایا ہے ورنہ ہم ماں بیٹی کو اس کی ایسی کیا ضرورت تھی‘‘۔
عنبر نے ایک بار پھر اپنی دھواں دھواں پلکوں پر پانی کے چھینٹے مارے اور اداس سی مسکراہٹ لئے غسل خانے سے نکل آئی۔
’’تو، میری بچی کا نام عنبر ہے‘‘ اماں بی کی آواز جیسے دور کسی کنوئیں سے آئی ہو۔ ’’اچھا نام ہے، خوشبو کی طرح قید سے آزاد اور ...‘‘ پھر ان کی آواز بہت قریب سے آئی ’’آؤ میری بچی، میرے پاس آؤ نا! دیکھا تم نے توقیر! کتنی ملتی جلتی ہے نوری سے، جیسے سگی بہن ہو‘‘ وہ عنبر کو ایسے بھینچ رہی تھیں جیسے اپنے سینے میں چھپا لینا چاہتی ہوں۔ ’’نوری کے ابا کہا کرتے تھے: ’فاطمی! دنیا کی سب سے بڑی دولت خلوص ہے، اور اعتماد ہے اور ....‘....‘‘اماں بی نے کہا تو بہت کچھ مگر عنبر کے ذہن پر ایک لفظ ہتھوڑے برساتا رہا ’’فاطمی! فاطمہ! فا .. ط ..مہ ..! ما ... ما‘‘ وہ خود کو مجتمع کرتے کرتے بکھرنے لگی تھی۔
’’آپ اجازت دیں تو ایک دفعہ .... ایک دفعہ آپ کو ’’امی‘‘ کہہ لوں؟ ‘‘
’’نہ بیٹا نہ، ایک دفعہ نہیں دس دفعہ کہنا ہو گا‘‘ اماں بی نے اسے اپنے سینے میں چھپا لیا۔ عنبر ہچکیاں لے لے کر رونے لگی۔ مہ نور اور توقیر حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
اماں بی نے سرگوشی کے انداز میں پوچھا ’’سیٹھ جمال کی بیٹی ہو؟‘‘ کسی نے بھی تو سیٹھ جمال کا ذکر نہیں کیا تھا!
’’جی امی‘‘ ہچکیوں کے درمیان یہ دو لفظ کتنی مشکل سے ادا ہوئے، اس کا احساس ان دونوں کے سوا کسی کو کیسے ہوتا۔ اماں بی کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو ٹپ سے گرے۔
’’ہاں، میری بچی! یہ سچ ہے دودھ اور خون کی خوشبو بھلا چھپی ہے کہیں؟ توقیر بیٹے، نوری بیٹا! یہ عنبر ہے میری بچی، میرا خون، میرے جگر کا ٹکڑا‘‘۔
توقیر پہیلی بوجھ چکا تھا۔ اس نے سرگوشی میں مہ نور سے کچھ کہا، وہ آگے بڑھ کر عنبر سے لپٹ پڑی اور توقیر نے اماں بی کو تھام لیا۔ عنبر اور نور آپس میں لپٹ کر کچھ ایسے روئے جا رہی تھیں جیسے صدیوں کی بچھڑی ہوئی ملی ہوں۔ توقیر کی آنکھیں بھی بھیگنے لگیں۔’’اب چپ بھی ہوجاؤ! کہ سب کو ہلکان کرو گی!‘‘ وہ روہانسا ہو کر بولا۔ ’’مہمان کے استقبال کا یہ نیا طریقہ ایجاد ہوا ہے کوئی؟‘‘ مہ نور جھوٹ موٹ کے غصے سے اسے گھورنے لگی اور اماں بی کے آنسو مسکراہٹ میں چمک اٹھے۔

*******

اردو محفل کی نویں سالانہ تقریبات ۔۔ نثری نشست کے لئے انتخاب
 
کھوٹی دمڑی
(کتھا کسی کی، کہی کسی نے، لکھی ہم نے! قدیم اردوادب سے خوشہ چینی ۔ ایک داستان کا خلاصہ)

دوپہر ڈھل رہی تھی۔ سڑک کے کنارے ٹاہلی کی چھاؤں میں ایک نابینا فقیر کشکول سامنے رکھے چُپکابیٹھا تھا۔ اس نے کچھ گھوڑوں کی ٹاپ سنی اور کچھ لوگوں کی آوازیں، کان ادھر لگائے ہی تھے کہ ’’چھن ن ن ن‘‘ ایک سکہ اس کے کشکول میں گرا۔ فقیر نے اپنی بے نور آنکھوں کو ادھر ادھر گھمایا اور خود کلامی کے انداز میں بولا: ’’واہ بادشاہ! ایک دمڑی دی فقیر کو اور وہ بھی کھوٹی!!‘‘۔ کشکول میں دمڑی پھینکنے والا واقعی اس راجدھانی کا راجا تھا۔ وہ بہت حیران ہواکہ اندھے فقیر نے یہ کیسے جان لیا کہ میں راجا ہوں اور یہ دمڑی کھوٹی ہے۔ اس نے فقیر سے پوچھا: ’’تو نے کیوں کر جان لیا، اندھے؟‘‘۔ فقیر بولا: ’’ابھی تو جا، اکیلے میں بتاؤں گا‘‘۔

راجا کے حکم پر فقیر کو محل میں لے جا کر ایک کھولی میں بٹھادیا گیا۔ راجا اپنے چوبدار کے ساتھ کھولی میں داخل ہوا اور کہا: ’’اب بول اندھے! تو مجھے اکیلے میں کیا بتانے والا تھا‘‘۔
فقیر نے کہا: ’’اپنے اس چوبدار کو چلتا کر، پھر بتاتا ہوں‘‘۔ راجا کو شک گزرا کہ فقیر اندھا نہیں ہے بنا ہوا ہے۔ چپکے واپس مڑا تو فقیر بولا: ’’تجھے شک گزرا، نا؟ جب یقین ہو جائے تب آ جائیو‘‘ ۔ وہ بہت تلملایا، فقیر پر ایک نگران مقرر کیا اور تین چار دن تک فقیر کو نہ ملا، نہ دربار میں طلب کیا۔ اسے بتایا گیا کہ فقیر سچ مچ نابینا ہے تو وہ اکیلا کھولی میں آیا۔
فقیر نے کہا: ’’ سُن! کوئی فوجدار یا کوئی ریاست کا بڑا ہی ہو سکتا ہے کہ جس کے ساتھ لاؤ لشکر اور لگامیں ہوں، سو میں جان گیا کہ تو کوئی بڑا طاقت والا ہے۔ تونے میرے سامنے کھوڑا روکا اور سکہ کشکول میں پھینکا، سو میں جان گیا کہ تو بہت گھمنڈی بھی ہے، طاقت اور گھمنڈ آج کے بادشاہوں کا خاصہ ہے، سو میں جان گیا کہ تو بادشاہ ہے۔ میری عمر گزری ہے لوگ میرے کشکول میں سکے ڈالتے ہیں، میں سکوں کی آوازوں سے بہت کچھ جان لیتا ہوں، سو میں جان گیا کہ یہ دمڑی ہے اور وہ بھی کھوٹی۔ بس اب جا اور لوگوں کو ڈراتا رہ کہ تجھے یہی ایک کام آتا ہے‘‘۔
راجا اور بھی حیران ہوا: ’’تُوتو اندھا ہے ۔تجھے کیسے پتا کہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں؟ ‘‘۔فقیر بولا: ’’جب تو سڑک پر رکا تھا تو سب رک گئے تھے، کسی نے ایک حرف نہیں بولا، تیرے ساتھ تیرا چوبدار تھا، سو چپ۔ مجھ پہ جو نگران تو نے رکھا، وہ جب بھی بولا، ڈرا سہما بولا۔ برتن تیرے گھر کے کھانا کسی اور کے گھر کا‘‘۔
راجا پھر حیران: ’’تو نے کیسے جانا؟‘‘ فقیر بولا: ’’اب کچھ نہیں بتاؤں گا کہ میں کیسے جان گیا، تو اپنے کام میں لگا رہ اور مجھے جانے دے‘‘۔
راجا بولا: ’’اندھے! تو مجھے کام کا آدمی لگتا ہے، میں تجھ سے کوئی مشورہ مانگوں تو صحیح مشورہ دے گا؟‘‘۔ فقیر نے کہا: ’’ہاں، چاہے تجھے برا لگے۔‘‘ راجا نے فقیر کا پانچ روپلی مہینہ وظیفہ لگا دیا اور اس کو دربار میں بٹھایا۔ سارا دن وہ بیٹھا لوگوں کی باتیں سنتا اور رات کو کھولی میں آ جاتا۔ راجا اُس سے پوچھتا تو وہ بتا دیتا کہ فلاں نے سچ بولا، فلاں نے جھوٹ کہا۔ فقیر کی بہت باتیں سچی نکلتیں۔ راجا جس نے کبھی کسی سگے پر اعتبارنہ کیا تھا، فقیر کی بات کو جھٹک نہیں پاتا تھا، اندر ہی اندر ڈرتا بھی تھا۔
ایک دن راجا کو ایک گھوڑی پیش کی گئی، گھوڑی راجا کو بھا گئی، وہ اسے لے لینا چاہتا تھا، سوچا فقیر سے پوچھ لوں۔ بولا: ’’اندھے! بتا میں یہ گھوڑی لے لوں کہ نہ لوں؟‘‘ فقیر بولا: ’’مجھے گھوڑی تک لے چل‘‘۔ اسے گھوڑی تک لے جایا گیا، اس نے گھوڑی کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور بولا: ’’بادشاہ! یہ گھوڑی میدان میں دغا دے گی۔ لینی ہے تو لے لے۔‘‘ بولا: ’’آنکھوں والوں کو دِکھی نہیں کیا؟ تو کہتا ہے دغا دے گی! مجھے تیری بات کا ثبوت چاہئے!‘‘۔ فقیر بولا: ’’ایک حوض میں پانی بھر، کہ وہ گھوڑی کے پیٹ کو لگے، پھر گھوڑی کو اس میں اتار دے‘‘۔ گھوڑی کو حوض میں اتارا گیا تو اُس نے پانی سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ راجا بولا: ’’یہ اَڑ کیوں گئی اندھے!‘‘ فقیر بولا: ’’میں نے کہا تھا نہیں بتاؤں گا، پر چل! بتا دیتا ہوں۔تیری طرح ناز نخرے میں پلی ہے۔ میں نے اس کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرا تو اس نے جسم ڈھیلا چھوڑ دیا، میدان کی ہوتی تو کھال کو چھانٹتی! اَڑے گی نہیں تو کیا کرے گی؟‘‘۔ راجا خوش ہو کے بولا: ’’آدھی روپلی بڑھا دو اِس کا وظیفہ!‘‘
راجا کو ایک لڑکی پسند آ گئی وہ اسے محل سرا میں لانا چاہتا تھا۔ فقیر سے پوچھا تو بولا: ’’اُس لونڈیا سے کہہ میرے آگے سے گزر جائے۔‘‘ راجا بولا: ’’تجھے کون سا دِکھتا ہے، اندھے! کہ تو دیکھ کے بتائے گا۔‘‘ فقیر بولا: ’’جو میں نے کہا وہ کر، نہیں تو جا اپنی مرضی کر‘‘۔ لڑکی کو فقیر کے آگے سے گزارا گیا۔ لڑکی چلی گئی تو فقیر نے بتایا ’’یہ ڈومنی کی چھوکری ہے، ساری عمر کوٹھے پہ گزری ہے اس کی، چاہے تو بیاہ لے چاہے تو ویسے رکھ لے، یہ کچھ برا نہیں منائے گی‘‘۔ راجا نے لڑکی کو آزمایا تو وہ سو جان سے قربان ہونے پہ تیار۔ تحقیق کرائی پتہ چلا، فقیر نے جو بتایا وہ سب سچ تھا۔ راجا نے پوچھا: تو کن لوگوں کے پیچھے پھرتا ہے اندھے! تو پہلے سے اس لڑکی کو جانتا تھا؟ پر نہیں تو کیسے جان سکتا ہے ۔ پر یہ تو نے کیسے جانا کہ وہ ڈومنی کی بیٹی ہے؟‘‘ فقیر بولا: ’’اب ایک آخری سوال رہ گیا ہے، جو تو مجھ سے پوچھے گا، اس لئے بتا دیتا ہوں۔ کہ وہ لونڈیا زمین پر ایڑی مار کے چلتی ہے، ساری عمر کے ناچ کی لت کہاں جائے گی‘‘۔ راجا نے اس کا وظیفہ آدھی روپلی اور بڑھا دیا۔
راجا فقیر سے سچ مچ خوف زدہ رہنے لگا۔ ایک دن فقیر نے کہا: ’’بادشاہ میں ایک بات کہتا ہوں پر مجھے پتہ ہے تو مانے گا نہیں۔‘‘ کہا: ’’بول‘‘ ، کہا: ’’مجھے جانے دے نہیں تو تُو میری جان کو آ جائے گا اور میں تو بھاگ کے بھی کہیں نہیں جا سکتا‘‘۔ راجا گھمنڈ سے ہنسا اور کہا: ’’تو نے ٹھیک کہا اندھے! تو آنکھ کا اندھا ہے پر تیری عقل کام کرتی ہے۔ میں نے تیری یہ بات نہیں مانی! تو یہیں رہے گا، اور بھاگنے کی سوچے گا تو مارا جائے گا۔‘‘ فقیر بولا: ’’یہی تو میں نے کہا کہ میں تو بھاگ کے بھی کہیں نہیں جا سکتا‘‘۔
قسمت کا لکھا ہو کے رہتا ہے۔ ایک دن راجا کو سوچ آئی کہ میرا باپ کون تھا۔ اُس نے فقیر سے پوچھا: ’’میری حقیقت کیا ہے‘‘۔ فقیر ذرا دیر کو چپ رہا، پھربولا: ’’یہی سوال ہے جس کا مجھے ڈر تھا۔ خیر، میں تجھے بتاؤں گا ضرور، پر میری ایک شرط ہے۔ مجھے اُسی ٹاہلی کے نیچے لے چل، اور صرف تو میرے ساتھ جائے گا‘‘۔ راجا کو مانتے ہی بنی۔
دوپہر ڈھل رہی تھی جب وہ ٹاہلی کے نیچے پہنچے۔ فقیر نے راجا کو سائے میں بیٹھنے کو کہا، اور خود ذرا ہٹ کے اپنے گرد حصار کھینچ لیا۔پھر بولا: ’’میں جو کہوں گا، اُسے سن کے تو باؤلا ہو جائے گا، اس لئے میں نے اپنے گرد حصار کھینچا ہے۔ اس میں گھسنے کی کوشش نہ کرنا نہیں تو بھسم ہو جائے گا۔‘‘ راجا بہت بھنایا اور بولا: ’’زیادہ بَڑ بَڑ نہ کر اندھے! مجھے بتا میرا باپ کون تھا‘‘۔ فقیر بولا: ’’تو کسی چمار کا بیٹا ہے جو تیرے ظاہری باپ کا نمک خوار تھا۔ اب جا اور جا کے پڑتال کر لے‘‘۔ راجا غصے سے حصار کی طرف بڑھا مگر ڈر کے پیچھے ہٹ گیا۔ اور وہاں سے جاتے ہوئے کہنے لگا: ’’تو نے جو کہا، جھوٹ نکلا تو جان کہ تو مارا گیا، اور سچ نکلا تو بھی مارا گیا‘‘۔ فقیر بولا: ’’یہ تو میں جان گیا تھا کہ تو میری جان کو آئے گا، پر یہ کوئی نہیں جانتا کہ تو مجھ پر قابو بھی پا سکے گا کہ نہیں۔ اب جا!!‘‘۔
راجا نموشی کا بارکاندھوں پہ دھرے محل کو پلٹا اور اپنی ماں کی کوٹھڑی میں جا گھسا۔ پہلے تو اپنی ماں کو خوب مارا پیٹا، وہ دہائی دیتی رہی پر کون ہوتا جو راجا کے منہ لگتا۔ ماں ادھ موئی ہو کے گری پڑی تھی تب اُس نے پوچھا: ’’بول میرا باپ کون تھا‘‘۔ بڑھیا جان گئی تھی کہ اب کچھ چھپائے نہ چھپے گا۔ بولی تو مَوجُو چمار کا بیج ہے جو مہاراجاکے زمانے میں اصطبل اور محل سرا کی صفائی کا نگران تھا۔ ایک بارمہاراجا جو شکار کو نکلا تو کئی دن لوٹ کے نہیں دیا۔ اُس پیچھے کچھ ایسا ہو گیا کہ موجو چمار کا ۔۔۔‘‘ راجا اس سے آگے کچھ نہ سن سکا۔ اُس نے تلوار کے ایک ہی وار میں اپنی ماں کی گردن اڑا دی اور لہو سے لتھڑی تلوار لئے آندھی طوفان کی طرح ٹاہلی تک جا پہنچا۔
فقیر ابھی تک حصار میں بیٹھا تھا۔ راجا نے اسی تلوار کا وار کیا، تو تلوار حصار کے اندر نہیں گئی، ٹن ن کی آواز سے واپس پلٹ آئی۔ راجا جھاگ اگل رہا تھا: ’’میں اُس کو مار کے آیا ہوں، اب تو مرے گا!‘‘ فقیر بولا: ’’وہ عورت تیری ماں تھی اور تو خود اس کا پاپ! ارے پاپ نے پاپن کو مارا تو کیا مارا!‘‘ راجا جان گیا تھا کہ وہ فقیر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہیں ڈھے گیا اور ہارے ہوئے لہجے میں بولا: ’’اب تو بتادے کہ تو نے کیسے جان لیا؟‘‘
فقیر بولا: ’’ایک: تیرا وہ دان ایک کھوٹی دمڑی کا ایک اندھے فقیر کو، اور وہ بھی بڑے گھمنڈ سے؛ دوجا: تیرا ہر بات پر مجھے اَندھا کہہ کے بلانا؛ تیجا: تیرے لوگوں کا تجھ سے ڈرنا اور تیرا اُن پر اعتبار نہ کرنا؛چوتھا: تیرا خوش ہونے پر بجائے کوئی دھن دان کرنے کے وظیفہ بڑھانا، اور وہ بھی آدھی روپلی؛ پانچواں: تجھے گھوڑی گدھی کی پہچان نہ ہونا؛ چھٹا: بادشاہ ہو کے ڈومنیوں سے پیچ لگانا؛ اور ساتواں: ایسی بات سوچنا جو کوئی سپوت سوچے تو اپنی سوچ سے مر جائے۔ یہ سارا کچھ کسی بادشاہ کا پوت نہیں کر سکتا۔ اور اُس کا ثبوت ہے تیرا اپنی ماں پر ہاتھ اٹھانا اور پھر اُس کو جان سے مار دینا جس نے تجھ حرامی کو اپنے لہو اور دودھ سے پالا۔ اب یہ کشکول تو لے لے کہ تو مجھ سے بڑھ کے ناچار ہے‘‘۔ راجا تو جیسے زمین میں گڑ گیا ہو، کاٹو تو بدن میں لہو نہیں؛ ٹھوڈی سینے سے لگ گئی تھی۔ کتنے جتن سے اُس نے سر اٹھایا تو دیکھا، فقیر وہاں نہیں تھا، حصار سے باہر کشکول پڑا تھا، جس میں ایک دمڑی رکھی تھی، وہ بھی کھوٹی۔
سنا ہے اسی ٹاہلی کے نیچے ایک فقیر بیٹھا ہوتا ہے؛ ہٹا کٹا، دیکھتا بھالتا، ہر ایک سے ایک کھوٹی دمڑی کا سوال کیا کرتا ہے۔کوئی دے دے تو اس کی طرف گھورتا ہے، نہ دے تو اُس پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتا ہے اور اپنی زنگ بھری اسی تلوار سے زمین پر وار کرنے لگتا ہے جس کی دھار نے اس کی ماں کا لہو پیا تھا!!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اردو محفل کی نویں سالانہ نثری نشست کے لئے انتخاب
 
کون جھُڈو
شگفتہ نگاری کی ایک تازہ کوشش
’’بدرِ احمر‘‘ اسی فقیر کی ایک اور شناخت ہے
اعتذار: یہ فکاہیہ متن کی صورت میں موجود تو ہے مگر تلاش کرنا پڑے گا۔ فی الحال اسی تصویر کو کافی جانئے۔

10436319_247521952110180_7896526714589128779_n.jpg
 
آخری تدوین:

loneliness4ever

محفلین
آگہی آگ ہی تو ہوتی ہے
کوئی کندن، کوئی غبار ہوا
یار محوِ شمارِ رنج و طرب
عشق بھی جیسے کاروبار ہوا

ماشاء اللہ،
بندہ استاد سے گذارش کرتا ہے
طبیعت گوارا فرمائے تو بالا اشعار کی مکمل غزل عطا فرمائیں
تشنگی بڑھ گئی، جو کیفیت بالا اشعار نے طاری کر دی ہے مکمل غزل
اس کیفیت کو یقینا مزید جلا بخشے گی ۔۔۔

اللہ آباد و خوشحال رکھے آپکو ۔۔۔ آًمین
 
Top